Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ترشنکو

منو بھنڈاری

ترشنکو

منو بھنڈاری

MORE BYمنو بھنڈاری

    کہانی کی کہانی

    تنو ایک ایسے روشن خیال اور ماڈرن گھرانے سے تعلق رکھتی ہے جس کے والدین نے لو میرج کی ہے اور اس کی والدہ اس لو میرج کے سلسلے میں نانا کی مخالفت اور اپنے مکالموں کو اتنی بار دوہرا چکی ہیں کہ تنو کو ازبر ہو گئے ہیں۔ پڑوس میں رہنے والے کچھ طالب علم جب تنو پر پھبتیاں کستے ہیں تو ممی ان کو اپنے گھر بلا کر تنو کی دوستی کرا دیتی ہیں لیکن جب تنو اور شیکھر کے معاملات بڑھنے لگتے ہیں تو ممی ایک دم سے نانا بن جاتی ہیں لیکن ان کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ سختی کرنے کے بعد ایک دم نرم پڑ جاتی ہیں۔ شیکھر اور ان کے دوست گھر آتے ہیں تو ممی پاپا اس طرح ملتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ تنو سوچتی ہے کہ کاش ممی سو فیصد نانا ہوتیں۔۔۔

    (ترشنکو: ہندوستانی دیومالا کا ایک کردار جو دو دنیاؤں کے بیچ میں لٹکا ہوا ہے۔)

    ’’گھر کی چاردیواری آدمی کو جہاں حفاظت فراہم کرتی ہے وہاں کچھ حدیں بھی مقرر کر دیتی ہے۔ اسکول کالج جہاں انسانی ذہن کو جلا بخشتے ہیں وہیں اصولوں، قاعدوں، ضابطوں کے نام پر اس کی شخصیت کو محدود بھی کرتے ہیں۔ بات یہ ہے بندھو کہ ہر بات کی مخالفت خود اس کے اندر ہی ہوتی رہتی ہے۔‘‘

    یہ میں کسی کتاب سے ثبوت کے طور پر نہیں پیش کر رہی۔ ایسی بھاری بھرکم کتابیں پڑھنے کی سکت مجھ میں نہیں ہے۔ یہ تو ان باتوں اور بحثوں کے ٹکڑے ہیں جو رات دن ہمارے گھر میں ہوا کرتی ہیں۔ ہمارا گھر، یعنی دانشوروں کا اکھاڑا۔ یہاں سگریٹ کے دھویں اور چائے کے پیالوں کے بیچ باتوں کے بڑے بڑے طومار باندھے جاتے ہیں، بڑے بڑے لفظی انقلاب برپا کیے جاتے ہیں۔ اس گھر میں کام کم اور باتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا تو نہیں، پر اپنے گھر میں دیکھ کر یہ لگتا ضرور ہے کہ دانشوروں کے لیے کام کرنا شاید منع ہے۔ ماتاشری اپنی تین گھنٹے کی تفریح نما نوکری کے بعد آزاد؛ تھوڑا بہت لکھنے پڑھنے کے بعد جو وقت بچتا ہے وہ یا تو بحث مباحثے میں جاتا ہے یا پھر لوٹ لگانے میں۔ ان کا خیال ہے کہ جسم کے آرام پاتے ہی دماغ اپنا کام تیز کرنے لگتا ہے اور یہ کیفیت دن کے چوبیس میں سے بارہ گھنٹے رہتی ہے۔ پتاشری اور بھی دوقدم آگے ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ نہائیں بھی اپنی میز پر ہی۔

    جس بات کو ہمارے یہاں زیادہ سے زیادہ زیر بحث لایا جاتا ہے وہ ہے جدیدیت! پر ذرا ٹھہریے، آپ جدیدیت کا غلط مطلب مت لیجیے۔ یہ بال کاٹنے اور چھری کانٹے سے کھانا کھانے والی جدیدیت نہیں ہے۔ قطعی نہیں! یہ ایک دم دانشوروں والی جدیدیت ہے۔ یہ کیا ہوتی ہے، سو تو میں بھی ٹھیک سے نہیں جانتی، ہاں پر اس میں سمت بدلنے کی بات بہت سنائی دیتی ہے۔ آپ راستہ تبدیل کرتے جائیے، سر آنکھوں پر، لیکن جہاں آپ لکیرکے فقیر ہوئے تو آ گئی شامت!

    بحثوں میں یوں تو دنیا جہان کے موضوعات زیر بحث آتے ہیں، پر ایک موضوع جو شاید سبھی کا پسندیدہ ہے وہ ہے شادی۔ شادی یعنی بربادی۔ ہلکے پھلکے ڈھنگ سے شروع ہونے والی بات ایک دم دانشورانہ سطح پر چلی جاتی ہے۔ ’’شادی کا ادارہ ایک دم کھوکھلا ہو چکا ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ بالکل نقلی اور اوپر سے تھوپا ہوا لگتا ہے۔۔۔‘‘ اور پھر دھواں دھار طریقے سے شادی بیاہ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ اس بحث میں اکثر خواتین ایک طرف ہو جاتی ہیں اور مرد حضرات ایک طرف اور بحث کا ماحول کچھ ایسا گرم ہو جاتا ہے کہ مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ اب ضرور ایک دو لوگ طلاق دے بیٹھیں گے۔ پر میں نے دیکھا کہ ایسا کوئی حادثہ کبھی ہوا نہیں۔ سارے ہی دوست اپنے اپنے بیاہ کو خوب اچھی طرح تہہ سمیٹ کر، اس پر آسن جماکر بیٹھے ہیں۔ ہاں، بحث کی رفتار اور ٹون آج بھی وہی ہے۔

    اب سوچیے، شادی بیاہ کو کوسیں گے تو فری لو، فری سیکس کو تو سراہنا ہی پڑےگا۔ اس میں مرد حضرات اچھل اچھل کر آگے رہتے ؛ کچھ تو اتنے جذباتی کہ جیسے آدھی تسکین تو اس موضوع پر بات کرنے ہی سے حاصل کر رہے ہوں۔ پاپا تو خودسب سے بڑے حامی! پر ہوا یوں کہ گھر میں ہمیشہ چپ چاپ رہنے والی، دور کے رشتے کی ایک دیدی نے کبھی ان بحثوں میں حصہ لیے بغیر ہی اس پر عمل کر ڈالا تو لگا جیسے ساری جدیدیت اڑاڑادھم! وہ تو کہیے ممی نے اتنہائی خوش اسلوبی سے ساری بات کو سنبھالا اور بے معنی شادی کو معنی میں پروکر دیدی کی زندگی کو بامعنی بنایا۔ حالانکہ یہ بات بہت پرانی ہے اور میں نے تو بہت بند بند زبان سے اس کا ذکر ہی سنا ہے۔

    ویسے پاپا ممی کی بھی لو میرج ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ ہوش سنبھالنے سے اب تک میں نے ان دونوں کو پیار کرتے ہوئے نہیں، بحث ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ شادی سے پہلے ممی کو اپنے اس فیصلے پر نانا سے بہت بحث کرنی پڑی تھی اور بحث کایہ دور بہت لمبا بھی چلا تھا شاید۔ اس کے باوجود یہ شادی تنازعے کی نہیں بلکہ محبت ہی کی شادی ہے جس کا ذکر ممی بہت فخر سے کیا کرتی ہیں۔ فخر شادی کے معاملے پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ کس طرح انہوں نے نانا سے مورچہ لیا تھا۔ اپنے اور نانا کے درمیان ہوئے ڈائیلاگ وہ اتنی بار دہرا چکی ہیں کہ مجھے حفظ ہو گئے ہیں۔ آج بھی جب وہ ان باتوں کا ذکر کرتی ہیں تو ایک عجیب اطمینان کی کیفیت ان کے چہرے پر جھلک اٹھتی ہے۔

    بس ایسے ہی گھر میں میں پل رہی ہوں، بڑے ہی آزادی اور خودپسندی کے ماحول میں اور پلتے پلتے اچانک ایک دن بڑی ہو گئی۔ بڑے ہونے کا یہ احساس میرے اپنے اندر سے اتنا نہیں پھوٹا جتنا باہر سے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بڑا دلچسپ واقعہ جڑا ہوا ہے۔ ہوا یوں کہ گھر کے ٹھیک سامنے ایک برساتی ہے۔۔۔ ایک کمرہ اور اس کے سامنے پھیلی ہوئی چھت۔ اس میں ہر سال دو تین طالب علم آکر رہتے ہیں، چھت پر گھوم گھوم کر پڑھتے ہیں مگر کبھی دھیان ہی نہیں گیا۔ شاید دھیان جانے والی میری عمر ہی نہیں تھی۔ اس بار دیکھا وہاں دو لڑکے آئے ہیں۔ تھے تو وہ دو ہی مگر شام تک ان کے دوستوں کا ایک جمگھٹا لگ جاتا تھااور ساری چھت ہی نہیں بلکہ سارا محلہ گلزار!

    ہنسی مذاق، گانا بجانا اور آس پاس کی جو بھی لڑکیاں ان کی نظر کے دائرے میں آتیں ان پر چوٹیں، پھبتیاں۔ ان کی نگاہوں کا اصل نشانہ ہمارا گھر تھا اور صاف کہوں تو میں ہی تھی۔ برآمدے میں نکل کر میں کچھ بھی کروں، ادھر سے ایک نہ ایک ریمارک ہوا میں اچھلتا ہوا ٹپکتا اور میں اندر تک تھر تھرا اٹھتی۔ مجھے پہلی بار لگا کہ میں ہوں اور صرف ہوں ہی نہیں، کسی کی کشش کا محور اور مرکز بھی ہوں۔ ایمان داری سے کہوں تو اپنے ہونے کا پہلا احساس بڑا رومینٹک سا لگا اور میں اپنی ہی نظروں میں نئی ہو اٹھی۔۔۔ نئی اور بڑی!

    عجیب سی کیفیت تھی۔ جب وہ پھبتیاں کستے تو میں غصے سے بھنا اٹھتی۔۔۔ حالانکہ ان کی پھبتیوں میں بےہودگی بالکل نہیں ہوتی تھی؛ تھی تو صرف دل میں گدگدی پیدا کرنے والی چہل۔۔۔ پر جب وہ نہ ہوتے، یا ہوکر بھی آپس میں مشغول ہوتے تو میں انتظار کرتی رہتی۔ ایک بے نام سی بے چینی اندر ہی اندر کسمساتی رہتی۔ عالم یہ ہوتا کہ دھیان وہیں اٹکا رہتا اور میں کمرہ چھوڑ کر برآمدے ہی میں ٹنگی رہتی۔

    پر ان لڑکوں کے اس ہلے گلے والے بیوہار نے محلے والوں کی نیندیں ضرور حرام کر دی تھیں۔ ہمارا محلہ یعنی ہاتھرس خورجہ کے لالاؤں کی بستی۔ جن کے گھروں میں جوان لڑکیاں تھیں وہ آستینیں چڑھا کر دانت لات توڑ دینے کی دھمکیاں دیتے، کیوں کہ سب کو اپنی لڑکیوں کا مستقبل خطرے میں دکھائی پڑ رہا تھا۔ محلے میں اتنی ہلچل۔۔۔ اور میرے پاپا ممی کو کچھ خبر ہی نہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی حالت ایک جزیرے جیسی بنا رکھی ہے۔۔۔ سب کے درمیان رہ کر بھی سب سے الگ۔

    ایک دن میں نے ممی سے کہا، ’’ممی، یہ جو سامنے لڑکے آئے ہیں، جب دیکھو مجھ پر ریمارک پاس کرتے رہتے ہیں۔ میں چپ چاپ نہیں سنوں گی، میں بھی یہاں سے جواب دوں گی۔‘‘

    ’’کون لڑکے؟‘‘ممی نے تعجب سے پوچھا۔

    کمال ہے، ممی کو کچھ پتا ہی نہیں! میں نے کچھ کھوج، کچھ خلش اور کچھ الجھن بھرے لہجے میں بات بتائی، پر ممی پر اس بات کا کوئی خاص ردعمل ظاہر نہ ہوا۔

    ’’بتانا کون ہیں یہ لڑکے!‘‘بڑے ٹھنڈے لہجے میں انہوں نے کہا اور پھر پڑھنے میں لگ گئیں۔ اپنا چھیڑا جانا مجھے جتنا سنسنی خیز لگ رہا تھا اس پر ماں کی طرف سے یہ رکھائی مجھے اچھی نہیں لگی۔ کوئی اور ماں ہوتی تو کمر کس کے نکل جاتی اور ان کی سات پشتوں کو تار تار کر دیتی، پر ممی پر جیسے کوئی اثر ہی نہیں۔

    دوپہر ڈھلے لڑکوں کی مجلس چھت پر جمی تو میں نے ممی کو بتایا، ’’دیکھو، یہ لڑکے ہیں جو سارے وقت ادھر دیکھتے رہتے ہیں اور میں کچھ بھی کروں تو اس پر جملے کستے ہیں۔‘‘ پتا نہیں میرے کہنے میں ایسا کیا تھا کہ ممی ایک ٹک میری طرف دیکھتی رہیں، پھر دھیرے سے مسکرائیں۔ تھوڑی دیر تک چھت والے لڑکوں کا معائنہ کرنے کے بعد بولیں، ’’کالج کے لڑکے معلوم ہوتے ہیں، پر یہ تو ایک دم بچے ہیں!‘‘

    دل چاہا کہ کہوں، مجھے بچے نہیں تو کیا بوڑھے چھیڑیں گے؟ پر تبھی ممی بولیں، ’’کل شام کو ان لوگوں کو چائے پر بلا لیتے ہیں اور تم سے دوستی کرائے دیتے ہیں۔‘‘

    میں تو حیران!

    ’’تم انہیں چائے پر بلاؤگی؟‘‘مجھے جیسے ممی کی بات پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

    ’’ہاں، کیوں؟ کیا ہوا؟ ارے یہ تو ہمارے زمانے میں ہوتا تھاکہ مل تو سکتے نہیں، بس دور ہی سے جملے بازی کرکے خوش ہولو۔ اب تو زمانہ بدل گیا۔‘‘ میں تو اس خیال ہی سے لجا گئی۔ لگا ماں سچ مچ کوئی اونچی چیز ہیں۔ یہ لوگ ہمارے گھر میں آئیں گے اور مجھ سے دوستی کریں گے۔ یکایک مجھے لگنے لگا کہ میں بہت اکیلی ہوں اور مجھے کسی کی دوستی کی سخت ضرورت ہے۔ اس محلے میں میرا کوئی خاص میل جول نہیں اور گھر میں صرف ممی پاپا کے دوست آتے ہیں۔

    دوسرا دن میرا عجیب ادھیڑ بن میں گزرا۔ پتا نہیں ممی اپنی بات پوری کرتی ہیں یا یوں ہی رو میں کہہ گئیں اور بات ختم! شام کو میں نے یاد دلانے کے لیے کہا، ’’ممی، تم سچ مچ ان لڑکوں کو بلانے کے لیے جاؤگی؟‘‘ الفاظ تو میرے ہی تھے، ورنہ اندرونی کیفیت تو یہ تھی کہ ممی، نہ جاؤ، پلیز!

    اور ممی سچ مچ ہی چلی گئیں۔ مجھے یاد نہیں ممی دوچار بار سے زیادہ محلے میں کسی کے یہاں گئی ہوں۔ میں سانس روک کر ان کے لوٹنے کا انتظار کرنے لگی۔ ایک عجیب سی تھرکن انگ انگ سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔ کہیں ممی ساتھ ہی لیتی آئیں تو؟ کہیں وہ ممی کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے تو؟ پر نہیں، وہ لوگ ایسے لگتے تو نہیں ہیں۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد ممی لوٹیں۔ بےحد خوش۔

    ’’مجھے دیکھتے ہی ان کی تو سٹی گم ہوگئی۔ انہیں لگا، ابھی تک تو لوگ ہڈی پسلی، ہاتھ دانت توڑنے کی دھمکی اپنے اپنے گھروں سے دے رہے تھے، میں جیسے سیدھے گھر ہی پہنچ گئی ان کی ہڈی پسلی ایک کرنے۔ مگر پھر تو اتنی خاطر کی بےچاروں نے کہ بس۔ بڑے ہی سویٹ بچے ہیں۔ باہر سے آئے ہیں، ہوسٹل میں جگہ نہیں ملی اس لیے کمرہ لے کر رہ رہے ہیں۔ شام کو جب تمہارے پاپا آئیں گے تب بلوا لیں گے۔‘‘

    انتظار میں وقت اتنا بوجھل ہو جاتا ہے، یہ بھی میرا پہلا تجربہ تھا۔ پاپا آئے تو ممی نے بڑی امنگ سے ساری بات بتائی۔ سب سے جدا اپنا رویہ اپنانے کا اطمینان اور فخر ان کے ہر لفظ سے جیسے چھلکتا پڑ رہا تھا۔ پاپا ہی کون پیچھے رہنے والے تھے۔ انہوں نے سنا تو وہ بھی بڑے خوش۔

    ’’بلاؤ لڑکوں کو! ارے کھیلنے کھانے دو اور مزے کرنے دو۔ بچے ہیں۔‘‘ ممی پاپا کو اپنے کو ماڈرن ثابت کرنے کا یہ بہت اچھا موقع مل رہا تھا۔ نوکر کو بھیج کر انہیں بلوایا گیا تو اگلے ہی لمحے سب حاضر۔ ممی نے بڑے قاعدے سے تعارف کرایا اور ’’ہیلو ہائے‘‘ کا تبادلہ ہوا۔

    ’’تنو بیٹے، اپنے دوستوں کے لیے چائے بناؤنا!‘‘

    دھت تیرے کی! ممی کے دوست آئیں تب بھی تنو چائے بنائے اور اس کے دوست آئیں تب بھی۔ پر دل مار کر اٹھی۔ چائے پانی ہوتا رہا، خوب ہنسی مذاق بھی۔ وہ صفائی پیش کرتے رہے کہ محلے والے خواہ مخواہ ہی ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ وہ تو ایسا کچھ بھی نہیں کرتے۔ ’’جسٹ فارفن‘‘ کچھ کہہ دیا، ورنہ ان سب کا کچھ مطلب نہیں۔ پاپا نے بڑھاوا دیتے ہوئے کہا، ’’ارے اس عمر میں تو یہ سب کرنا ہی چاہیے۔ ہمیں موقع ملے تو آج بھی ایسا کرنے سے باز نہ آئیں!‘‘

    ہنسی کی ایک لہر یہاں سے وہاں تک دوڑ گئی۔ کوئی دو گھنٹے بعد چلنے لگے تو ممی نے کہا، ’’دیکھو، اسے اپنا ہی گھر سمجھنا۔ جب جی چاہے چلے آؤ۔ ہماری تنو بیٹی کو اچھی کمپنی مل جائےگی۔ کبھی تم لوگوں سے کچھ پڑھ بھی لیا کرے گی اور دیکھو، کبھی کچھ کھانے پینے کو دل چاہے تو بتا دیا کرو، تمہارے لیے بنوا دیا کروں گی۔‘‘ اور وہ لوگ پاپا کی بے تکلفی اور ممی کی اپنائیت پر نثار ہو ہوکر چلے گئے۔ بس جس سے دوستی کرانے کے لیے بلایا تھا اس کی حیثیت صرف تماشا دیکھنے والے کی رہی۔

    ان کے جانے کے بعد بڑی دیر تک وہ لوگ موضوع گفتگو رہے۔ اپنے گھر کی جوان لڑکی کو چھیڑنے والے لڑکوں کو گھر بلاکر چائے پلائی جائے اور لڑکی سے دوستی کرائی جائے، یہ ساری بات بڑی تھرلنگ اور رومینٹک لگ رہی تھی۔ دوسرے دن سے ممی ہر آنے والے سے اس واقعے کا ذکر کرتیں۔ بیان کرنے میں تو ممی کا جواب ہی نہیں۔ روکھی پھیکی اور غیردلچسپ باتوں میں بھی اپنے بیان کے جادو سے وہ جان ڈال دیتیں کہ سننے والوں کو مزہ آ جائے اور پھر یہ بات تو تھی ہی دلچسپ۔ جو سنتا وہی کہتا، ’’واہ، یہ ہوئی نا بات! آپ کا رویہ اور آپ کے نظریات بڑے صحت مندانہ ہیں۔ ورنہ لوگ باتیں تو بڑی بڑی کریں گے، پر بچوں کو گھونٹ کر رکھیں گے اور ذرا سا شک شبہ ہو جائے تو باقاعدہ جاسوسی کریں گے۔‘‘

    اور ممی اس تعریف سے نہال ہو جاتیں۔ کہتیں، ’’اور نہیں تو کیا! آزاد رہنے دو۔ ہم لوگوں کو بچپن میں یہ مت کرو، یہاں مت جاؤ، وہاں مت کھڑے ہو کہہ کہہ کر کتنا باندھا گیا تھا۔ ہمارے بچے تو کم سے کم اس گھٹن کا شکار نہ ہوں۔‘‘ پر ممی کا بچہ اس وقت ایک دوسری گھٹن کاشکار تھا اور وہ یہ کہ جس ڈرامے کی ہیروئن اسے بننا تھا اس کی ہیروئن ممی بن بیٹھیں۔

    خیر، اس سارے واقعے کا انجام تو یہ ہوا کہ ان لڑکوں کا بیوہار ایک دم بدل گیا۔ جس شرافت کو ممی نے ان پر لاد دیا تھا، اسی کے مطابق رویہ اختیار کرنا ان کی مجبوری بن گیا۔ اب وہ جب بھی اپنی چھت پر ہوتے اور ممی پاپا کو دیکھتے توادب سے ایک نمستے اور مجھے دیکھتے تو مسکراہٹوں میں لپیٹ کر ایک ہائے اچھال دیتے۔ پھبتیو ں کی جگہ باقاعدہ ہماری گفتگو شروع ہو گئی، بہت ہی کھلی اور بے جھجھک۔ ہمارے برآمدے اور ان کی چھت میں اتنا ہی فاصلہ تھا کہ زور سے بولنے پر بات چیت کی آواز جا سکتی تھی۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہ ہماری بات چیت سارا محلہ سنتا تھا اور کافی دلچسپی سے سنتا تھا۔ جیسے ہی ہم لوگ شروع ہوتے، پاس پڑوس کی کھڑکیوں میں چار چھ سر اور دھڑ آکر چپک جاتے۔ محلوں میں لڑکیوں کے پیار محبت کے قصے نہ ہوں، ایسی بات تو تھی نہیں۔ باقاعدہ لڑکیوں کے بھاگنے تک کے واقعات ہو چکے تھے۔ پر وہ سب کچھ بڑے خفیہ طریقے سے ہوتا تھا اور محلے والے جب اپنی تیز نظروں سے بھانپ لیتے اور ان رازوں کو جان لیتے تو بڑا اطمینان حاصل ہوتا تھا انہیں۔

    مرد مونچھوں پر تاؤ دے دے کر اور عورتیں ہاتھ نچا نچاکر، خوب نمک مرچ لگاکر ان واقعات کی تشہیر کرتی تھیں، کچھ اس انداز سے کہ ارے ہم نے دنیا دیکھی ہے، ہماری آنکھوں میں کوئی دھول نہیں جھونک سکتا۔ پر یہاں معاملہ ہی الٹ گیا۔ ہماری گفتگو اتنی کھلے عام ہوتی تھی کہ لوگوں کو کھڑکیوں کی اوٹ میں چھپ چھپ کر سننا پڑتا تھا اور سن کر بھی ان کے ہاتھ ایسا کچھ نہیں لگتا تھا جس سے ان کے دلوں کو کچھ تقویت پہنچتی۔

    پر بات تو بڑھنی تھی اور بات بڑھی۔ ہوا یہ کہ دھیرے دھیرے چھت والی محفل میرے اپنے کمرے میں جمنے لگی۔ روز ہی کبھی دونوں، کبھی تین چار لڑکے آکر جم جاتے اور دنیا بھر کا ہنسی مذاق اور گپ شپ چلتی رہتی۔ گانا بجانا بھی ہوتا اور چائے پانی بھی۔ شام کو ممی پاپا آتے تو ان لوگوں میں سے کوئی نہ کوئی بیٹھا ہی ہوتا۔ شروع میں جن لوگوں نے ’’آزاد رہو اور آزاد رہنے دو‘‘ کی بڑی طرف داری کی تھی انہوں نے آزاد رہنے کا جو روپ دیکھا تو ان کی آنکھوں میں بھی کچھ عجیب سے شک تیرنے لگے۔ ممی کی ایک آدھ دوست نے دبی زبان سے کہا بھی، ’’تنو بہت فاسٹ چل رہی ہے۔‘‘ ممی کا اپنا سارا جوش ماند پڑ گیا تھا اور روایات سے ہٹ کر کچھ کرنے کی تھرل پوری طرح جھڑ چکی تھی۔ اب تو انہیں اس ننگی سچائی کو جھیلنا تھا کہ ان کی نہایت یہ کچی اور نازک عمر کی بیٹی تین چار لڑکوں کے بیچ گھری رہتی ہے اور ممی کی حالت یہ تھی کہ وہ نہ تو ان حالات کو پوری طرح قبول کر پارہی تھیں اور نہ اپنے ہی جوش میں شروع کیے ہوئے اس سلسلے کو توڑ پا رہی تھیں۔

    آخر ایک دن انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھاکر کہا، ’’تنو بیٹے، یہ لوگ روز روز یہاں آکر جم جاتے ہیں۔ آخر تجھ کو پڑھنا بھی تو ہے۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ اس دوستی کے چکر میں تیری پڑھائی لکھائی سب چوپٹ ہوئی جا رہی ہے۔ اس طرح تو یہ سب چلےگا نہیں۔‘‘

    ’’رات کو پڑھتی تو ہوں۔‘‘

    ’’خاک پڑھتی ہے رات کو! وقت ہی کتنا ملتا ہے؟ ٹھیک ہے، چار چھ دن میں کبھی آ گئے، گپ شپ کرلی، پر یہاں تو ایک نہ ایک روز ہی ڈٹا رہتا ہے۔‘‘ ممی کے لہجے میں غصے کی جھلک تیز ہو رہی تھی۔ ممی کی یہ ٹون مجھے اچھی نہیں لگی مگر میں چپ رہی۔

    ’’تو ان سے بہت کھل گئی ہے۔ کہہ دے کہ وہ لوگ بھی بیٹھ کر پڑھیں اور تجھے بھی پڑھنے دیں اور تجھ سے نہ کہا جائے تو میں کہہ دوں گی۔‘‘

    پر کسی کے بھی کہنے کی نوبت نہیں آئی۔ کچھ تو پڑھائی کی مار سے، کچھ دلّی شہر کی دوسری رونقوں سے کھنچے اور اس طرح ہوسٹل کے جو لڑکے ادھر آتے تھے ان کا آنا جانا کم ہو گیا۔ پر سامنے کے کمرے والا شیکھر روز ہی آ جاتا، کبھی دوپہر میں تو کبھی شام کو۔ تین چار لوگوں کی موجودگی میں اس کی جس بات پر میں نے دھیان نہیں دیا تھا، وہی بات اکیلے میں سب سے زیادہ اجاگر ہوکر آئی۔ وہ بولتا کم تھا، پر لفظوں سے پرے بہت کچھ کہنے کی کوشش کرتا تھا اور ایکا ایک ہی میں اس کی ان کہی بولی سمجھنے لگی تھی؛ صرف سمجھنے ہی نہیں لگی تھی بلکہ جواب بھی دینے لگی تھی۔ جلد ہی میری سمجھ میں آ گیا کہ شیکھر کے اور میرے بیچ پریم جیسی کوئی چیز پنپنے لگی ہے۔ یوں تو شاید میں سمجھ نہ پاتی، پر ہندی فلمیں دیکھنے کے بعد ان باتوں کو سمجھنے میں کوئی خاص مشکل نہیں ہوئی۔

    جب تک دل میں کچھ نہیں تھا سب کچھ بڑا کھلا کھلا تھا، مگر جیسے ہی ’’کچھ‘‘ ہوا تو اسے دوسروں کی نظر سے بچانے کی خواہش بھی ہوئی۔ جب کبھی دوسرے لڑکے آتے تو سیڑھیوں ہی سے شور مچاتے ہوئے آتے، زو زور سے بولتے لیکن شیکھر جب بھی آتا رینگتا ہوا آتا اور پھسپھساکر ہم باتیں کرتے۔ ویسے باتیں بہت عام سی ہوتی تھیں، اسکول کی، کالج کی مگر یہ باتیں بھی کانا پھوسی ہی کے انداز میں اچھی لگتی تھیں۔ پریم کو کچھ پراسرار، کچھ گپ چپ بنا دو تو بڑا تھرل ہو جاتا ہے ورنہ تو ایک دم سیدھا سپاٹ۔ پر ممی کے پاس گھر اور گھر والوں کے ہر راز کو جان لینے کی جو چھٹی حس ہے۔۔۔ اور جس میں پاپا بھی کافی طاق ہیں۔۔۔ اس سے انہیں یہ سب سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی۔ شیکھر کتنا ہی لک چھپ کر آتا اور ممی گھر کے کسی بھی کونے میں ہوتیں، جھٹ سے آموجود ہوتیں یا پھر وہیں سے پوچھتیں، ’’تنو، کون ہے تمہارے کمرے میں؟‘‘

    میں نے دیکھا کہ شیکھر کے اس رویے سے ممی کے چہرے پر عجیب سی پریشانی جھلکنے لگی ہے۔ پر ممی اس بات پر یوں پریشان ہو اٹھیں گی، یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ جس گھر میں دن رات طرح طرح کی محبتوں ہی کا ذکر چھڑا رہتا ہو۔۔۔ کنواروں کی محبت، شادی شدہ لوگوں کے افیئرز، دو تین پریمیوں سے ایک ساتھ چلنے والے کیسز۔۔۔ اس گھر کے لیے تو یہ بات بہت ہی معمولی ہونی چاہیے۔ جب لڑکوں سے دوستی ہوگی تو ایک آدھ سے محبت بھی ہو سکتی ہے۔ ممی نے شاید یہ سمجھ لیا تھا کہ یہ سب کچھ آج کل کی آرٹ فلموں کی طرح چلےگا۔۔۔ جن کی وہ نہ صرف قائل ہیں بلکہ دلدادہ بھی۔۔۔ جن میں شروع سے آخر تک کوئی سنسنی خیز واقعہ ہوتا ہی نہیں۔

    جو بھی ہو، ممی کی اس پریشانی نے مجھے بھی ہلکا سا بے چین کردیا۔ ممی میری ماں ہی نہیں، دوست اور ساتھی بھی ہیں۔ دو گہرے دوستوں کی طرح ہم دنیا جہان کی باتیں کرتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ میں چاہتی تھی کہ وہ اس بارے میں بھی کچھ بات کریں، پر انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔ بس جب شیکھر آتا تو وہ اپنی فطری بےپروائی چھوڑ کر بڑی ہوشیاری سے میرے کمرے کے اردگرد منڈلاتی رہتیں۔

    ایک دن ممی کے ساتھ باہر جانے کے لیے نیچے اتری تو دروازے ہی پر پڑوس کی ایک شریف خاتون ٹکرا گئیں۔ نمستے اور حال چال کے تبادلے کے بعد وہ اصل بات پر آئیں۔

    ’’یہ سامنے کی چھت والے لڑکے آپ کے رشتےدار ہیں کیا؟‘‘

    ’’نہیں تو۔‘‘

    ’’اچھا؟ شام کو روز آپ کے گھر میں بیٹھے رہتے ہیں تو سوچا آپ کے ضرور کچھ لگتے ہوں گے۔‘‘

    ’’تنو کے دوست ہیں۔‘‘ممی نے کچھ ایسی بےساختگی سے اور بےجھجھک انداز میں جملہ اچھالا کہ بے چاری تیر نشانے پر نہ لگنے کا غم لیے ہوئے لوٹ گئیں۔ وہ تو لوٹ گئیں، پر مجھے لگا کہ اس بات کا سرا پکڑ کر ہی ممی اب ضرور تھوڑی میری دھنائی کر دیں گی۔ کہنے والی کا تو کچھ نہ بگڑا، پر میرا بگڑنے کا ہتھیار تو ممی کے ہاتھ میں آ ہی گیا۔ بہت دنوں سے ان کے اپنے من میں کچھ اتھل پتھل تو ہے ہی۔ پر ممی نے اتنا کہا، ’’لگتا ہے ان کے اپنے گھر میں کوئی دھندا نہیں ہے۔ جب دیکھو دوسروں کے گھر میں چونچ گڑائے بیٹھے رہتے ہیں۔‘‘

    مجھے اطمینان ہی نہیں ہوا بلکہ ممی کی طرف سے اسے گرین سگنل سمجھ کر میں نے اپنی رفتار اور تیز کر دی۔ پر اتنا ضرور کیا کہ شیکھر کے ساتھ تین گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ ضرور پڑھائی کرتی۔ وہ بہت دل لگاکر پڑھاتا اور میں دل لگاکر پڑھتی۔ ہاں، بیچ بیچ میں وہ کاغذ کے چھوٹے چھوٹے پرزوں پر کچھ ایسے اشعار لکھ کر تھما دیتا کہ میں اندر تک جھنجھنا اٹھتی اور ان کے ایک ایک لفظ کا تاثر میری رگ رگ میں سنسناتا رہتا اور میں انہیں میں ڈوبی رہتی۔

    میرے اندر اپنی ہی ایک دنیا بنتی جارہی تھی، بڑی بھری پری اور بڑی رنگین۔ آج کل کسی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ لگتا جیسے میں اپنے ہی میں پوری ہوں۔ ہمیشہ ساتھ رہنے والی ممی بھی آؤٹ ہوتی جا رہی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ادھر میں نے ممی پر دھیان دینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ روز مرہ کی باتیں تو ہوتی ہیں، پر صرف باتیں ہوتی ہیں، اس کے پرے کہیں کچھ نہیں۔

    دن گزرتے جا رہے تھے اور میں اپنے ہی میں ڈوبی اور اور گہری اترتی چلی جارہی تھی، باہر کی دنیا سے ایک طرح بے خبرسی۔ ایک دن اسکول سے لوٹی، کپڑے بدلے، شور شرابے کے ساتھ کھانا مانگا، مین میخ کے ساتھ کھایا اور جب کمرے میں داخل ہوئی تو ممی نے لیٹے لیٹے ہی بلایا، ’’تنو، ادھر آؤ۔‘‘

    پاس گئی تو پہلی بار دیکھا کہ ممی کا چہرہ تمتما رہا ہے۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ انھوں نے سائیڈ ٹیبل پر سے ایک کتاب اٹھائی اور اس میں سے کاغذ کے پانچ چھ پرزے نکال کر سامنے کر دیے۔ توبہ! ممی سے کچھ پڑھنا تھا، سو، جاتے ہوئے انہیں اپنی کتاب دے گئی تھی۔ غلطی سے شیکھر کی لکھی پرچیاں اس میں رہ گئی تھیں۔

    ’’تو اس طرح چل رہی ہے شیکھر کی اور تمہاری دوستی؟ یہی پڑھائی ہوتی ہے یہاں بیٹھ کر؟ یہی سب کرنے کے لیے آتا ہے وہ یہاں؟‘‘

    میں چپ۔ جانتی ہوں غصے میں ممی کو جواب دینے سے بڑھ کر کوئی بےوقوفی نہیں ہوگی۔

    ’’تم کو چھوٹ دی، آزادی دی، پر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم اس کا ناجائز فائدہ اٹھاؤ!‘‘

    میں پھر بھی چپ۔

    ’’بتے بھر کی لڑکی اور کرتوت دیکھو اس کے! جتنی چھوٹ دی اتنے ہی پیر پسرتے جا رہے ہیں۔ ایک جھانپڑ دوں گی تو سارا رومانس جھڑ جائےگا دومنٹ میں۔‘‘ اس جملے پر ایک دم تلملا اٹھی میں! تنک کر نظر اٹھائی اور ممی کی طرف دیکھا۔ پر یہ کیا! یہ تو میری ممی نہیں ہیں۔ نہ یہ تیور ممی کے ہیں، نہ یہ زبان۔ پھر بھی یہ جملے بہت جانے پہچانے لگے۔ لگا یہ سب میں نے کہیں سنا ہے اور کھٹاک سے میرے دماغ میں کوندا: نانا! پرنانا کو مرے تو کتنے سال ہو گئے۔ پھر یہ زندہ کیسے ہو گئے؟ اور وہ بھی ممی کے اندر، جو جوش سنبھالنے کے بعد ہمیشہ ان سے جھگڑا ہی کرتی رہیں، ان کی ہر بات کی مخالفت کرتی رہیں۔ ممی کی ’’نانائی‘‘لہجے والی گفتگو کافی دیر تک جاری رہی، پر وہ مجھے کہیں سے چھو نہیں رہی تھی۔ بس کوئی بات جھنجھوڑ رہی تھی تو یہی کہ ممی کے اندر نانا کیسے آبیٹھے!

    اور پھر گھر میں ایک عجیب سا تناؤ اور خاموشی چھا گئی، خاص کر میرے اور ممی کے بیچ نہیں، ممی تو اس گھر میں رہیں ہی نہیں، میرے اور نانا کے درمیان۔ ممی کو میں اپنی بات سمجھا بھی سکتی ہوں، ان کی بات سمجھ بھی سکتی ہوں۔ پر نانا؟ میں تو اس زبان سے بھی ناواقف ہوں اور اس کے تیور سے بھی، بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! پاپا ضرور میرے دوست ہیں پر بالکل دوسرے طرح کے۔ شطرنج کھیلنا، پنجہ لڑانا اور جو فرمائش ممی پوری نہ کریں، ان سے پوری کروا لینا۔ بچپن میں ان کی پیٹھ پر لدی رہتی تھی اور اپنی ہر خواہش پوری کروا لیتی تھی۔ پر اتنے ’’مائی ڈیئر فرینڈ‘‘ ہونے کے باوجود اپنی نجی باتیں میں ممی ہی کے ساتھ کرتی آئی ہوں اور وہاں ایک دم سناٹا۔ ممی کو پٹخنی دے نانا پوری طرح ان پر سوار جو ہیں۔

    شیکھر کو میں نے اشارے ہی سے لال جھنڈی دکھا دی تھی؛ وہ بھی نہیں آرہا تھا اور شام کا وقت ہے کہ مجھ سے کاٹے نہیں کٹتا۔ کئی بار من ہوا کہ ممی سے جاکر بات کروں اور صاف صاف پوچھوں، تم اتنا بگڑ کیوں رہی ہو؟ میری اور شیکھر کی دوستی کے بارے میں تم جانتی تو ہو۔ میں نے تو کبھی کچھ چھپایا نہیں اور دوستی ہے تو یہ سب تو ہوگا ہی۔ تم کیا سمجھ رہی تھیں کہ ہم لوگ بھائی بہن کی طرح۔۔۔ پر تبھی خیال آتا، ممی ہیں ہی کہاں جو جاکے کہوں یہ سب؟

    چار دن ہو گئے، میں نے شیکھر کی صورت نہیں دیکھی۔ میرے ہلکے سے اشارے ہی سے اس بے چارے نے گھر تو کیا، چھت پر بھی آنا چھوڑ دیا۔ ہوسٹل میں رہنے والے اس کے ساتھی بھی چھت پر نہیں دکھائی دیے، نہ گھر ہی آئے۔ کوئی آتا تو کم از کم اس کا حال ہی پوچھ لیتی۔ میں جانتی ہوں، وہ بے وقوفی کی حد تک جذباتی ہے۔ اسے تو ٹھیک سے یہ بھی نہیں معلوم کہ آخر یہاں ہوا کیا ہے۔ لگتا ہے کہ ان لوگوں نے ممی کے رویے کو بھانپ لیا۔ ویسے کل سے ممی کے چہرے کا تناؤ کچھ ڈھیلا ضرور ہوا ہے۔ تین دن سے جمی ہوئی سختی پگھل گئی ہے۔ پر میں نے طے کر لیا ہے کہ بات اب ممی ہی کریں گی۔

    صبح نہادھوکر میں دروازے کے پیچھے اپنی یونیفارم پریس کر رہی تھی۔ باہر میز پر ممی چائے بنارہی تھیں اور پاپا اخبار میں سر گڑائے بیٹھے تھے۔ ممی کو شاید معلوم ہی نہیں ہوا کہ میں کب نہاکر باہر نکل آئی۔ وہ پاپا سے بولیں، ’’جانتے ہو کل رات کو کیا ہوا؟ تب سے طبیعت عجیب سی ہو رہی ہے۔ میں تو رات بھر سو ہی نہیں سکی۔‘‘ ممی کے لہجے کی کو ملتا سے میرا ہاتھ جہاں کا تہاں تھم گیا اور کان باہر لگ گئے۔

    ’’آدھی رات کے قریب میں باتھ روم جانے کے لیے اٹھی۔ سامنے چھت پر گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اچانک ایک لال ستارہ سا چمک اٹھا۔ میں چونکی۔ غور سے دیکھا تو دھیرے دھیرے ایک سایہ سا ابھر آیا۔ شیکھر چھت پر کھڑا سگریٹ پی رہا تھا۔ میں چپ چاپ لوٹ آئی۔ کوئی دو گھنٹے بعد پھر گئی تو دیکھا وہ اسی طرح چھت پر ٹہل رہا تھا، بے چارہ۔ میرا دل جانے کیسا ہو گیا۔ تنو بھی کیسی بجھی بجھی رہتی ہے۔‘‘ پھر جیسے اپنے ہی کو دھتکارتی ہوئی بولیں، ’’پہلے تو چھوٹ دو اور جب آگے بڑھیں تو چیخ کر چاروں شانے چت کر دو۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا!‘‘

    سکون کا ایک گہرا سانس میرے اندر سے نکل پڑا۔ جانے کیسے جذبات امڈے کہ جی چاہا دوڑ کر ممی کے گلے سے لگ جاؤں۔ لگا جیسے عرصے کے بعد میری ممی لوٹ کر آئی ہوں۔ پر میں نے کچھ نہیں کہا۔ بس، اب کھل کر بات کروں۔ چار دن سے جانے کیسے کیسے سوال دل میں اٹھ رہے تھے۔ اب کیا، اب تو ممی ہیں اور کم سے کم ان سے تو سب کہا سنا جا سکتا ہے۔

    پر گھر پہنچ کر جو دیکھا تو حیران! شیکھر ہتھیلیوں پر سرتھامے کرسی پر بیٹھا ہے اور ممی اس کرسی کے ہتھے پر بیٹھی اس کی پیٹھ اور ماتھا سہلا رہی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بڑے میٹھے انداز میں بولیں، ’’دیکھا اس پگلے کو؟ چار دن سے یہ صاحب کالج نہیں گئے ہیں۔ نہ کچھ کھایا پیا ہے۔ اپنے ساتھ اس کا بھی کھانا لگوانا۔‘‘ اور پھر ممی نے خود بیٹھ کر بڑے پیار بھرے انداز میں اس کو کھانا کھلایا۔ کھانے کے بعد روکنے پر بھی شیکھر ٹھہرا نہیں۔ ممی کے تئیں احسان مندی کے بوجھ سے جھکا جھکا ہی وہ لوٹ گیا اور میرے اندر خوشی کا ایسا جوار بھاٹا امڈا کہ اب تک اٹھے سارے سوال اسی میں بہہ گئے۔

    سارے حالات کو قابو میں آنے میں وقت تو لگا، پر آ گئے۔ شیکھر نے بھی اب ایک دو دن چھوڑ کر آنا شروع کر دیا اور آتا بھی تو ہم زیادہ تر پڑھائی لکھائی ہی کی بات کرتے۔ اپنے کیے پر شرمندگی ظاہر کرتے ہوئے اس نے ممی سے وعدہ کیا تھا کہ اب کوئی ایسا کام نہیں کرےگا جس سے ممی کو شکایت ہو۔ جس دن وہ نہ آتا، میں تھوڑی دیر کے لیے اپنے برآمدے ہی سے بات کر لیا کرتی۔ گھر کی اجازت اور مدد سے سرعام چلنے والے پیار کے اس کھیل میں محلے والوں کے لیے بھی کچھ نہیں رہ گیا تھا اور انہوں نے اس جان لیوا زمانے پر دو چار لعنتیں بھیج کر، کوئی گل کھلنے تک کے لیے اپنی دلچسپی کو ملتوی کر دیا تھا۔

    لیکن ایک بات میں نے ضرور دیکھی۔ جب بھی شیکھر شام کو کچھ زیادہ دیر بیٹھ جاتا یا دوپہر میں بھی آتا تو ممی کے اندر نانا کسمسانے لگتے۔ کوشش بھر، ممی نانا کو بولنے تو نہ دیتیں پر انہیں پوری طرح ہٹا دینا بھی شاید ممی کے بس میں نہیں تھا۔ ہاں، یہ افیئر میرے اور ممی کے بیچ اب روز مرہ کی بات چیت کا موضوع ضرور بن گیا تھا۔ کبھی وہ مذاق میں کہتیں، ’’یہ جو تمہارا شیکھر ہے نا، بڑا لجلجا سا لڑکا ہے۔ ارے اس عمر کے لڑکوں کو چاہیے، گھومیں پھریں، موج کریں۔ یہ کیا محرمی سی صورت بنائے مجنوں کی طرح چھت پر ٹنگا سارے وقت ادھر ہی تاکتا رہتا ہے‘‘ میں صرف ہنسی دیتی۔

    کبھی بڑی جذباتی ہوکر کہتیں، ’’تو کیوں نہیں سمجھتی بیٹے کہ تجھ سے کتنی امیدیں لگا رکھی ہیں میں نے۔ تیرے مستقبل کے لیے کتنے خواب دیکھے ہیں!‘‘ میں ہنس کر کہتی، ’’ممی، تم بھی کمال کرتی ہو! اپنی زندگی کے بارے میں بھی تم خواب دیکھو اور میری زندگی کے خواب بھی تمہیں دیکھ ڈالو۔ کچھ خواب میرے لیے بھی چھوڑ دو نا!‘‘ کبھی وہ سمجھانے والے لہجے میں کہتیں، ’’دیکھو تنو، ابھی تم بہت چھوٹی ہو۔ اپنا سارا دھیان لکھنے پڑھنے میں لگاؤ اور دماغ سے ہی الٹے سیدھے فتور نکال ڈالو۔ ٹھیک ہے بڑی ہو جاؤ تو پریم بھی کرنا اور شادی بھی۔ ویسے بھی میں تو تمہارے لیے لڑکا ڈھونڈنے والی ہوں نہیں۔ اپنے آپ ہی ڈھونڈنا، پر اتنی عقل تو آ جائے کہ ڈھنگ کا انتخاب کر سکو۔‘‘

    اپنے انتخاب کے ریجکشن کومیں سمجھ جاتی اور پوچھتی، ’’اچھا ممی، بتاؤ۔ جب تم نے پاپا کو چنا تو یہ بات نانا کو پسند تھی؟‘‘

    ’’میرا انتخاب! اپنی ساری پڑھائی لکھائی ختم کرکے پچیس سال کی عمر میں انتخاب کیا تھا میں نے۔ خوب سوچ سمجھ کر اور عقل کے ساتھ، سمجھیں؟‘‘ ممی اپنی بوکھلاہٹ کو غصے میں چھپاکر کہتیں۔ عمر اور پڑھائی لکھائی، یہی دو تو ایسے معاملے ہیں جن پرممی مجھے جب تب ڈانتی رہتی ہیں۔ پڑھنے لکھنے میں میں اچھی تھی اور رہا عمر کا سوال تو اس کے لیے جی چاہتا کہ کہوں: ممی، تمہاری پیڑھی جو کام پچیس سال کی عمر میں کرتی تھی، ہماری اسے پندرہ سال ہی کی عمر میں کرےگی۔ اسے تم کیوں نہیں سمجھتیں؟ پر چپ رہ جاتی۔ نانا کا ذکر تو چل ہی پڑا ہے، کہیں وہ جی جاگ اٹھے تو؟

    ہاف ایئر لی کا وقت قریب آ گیا تھا اور میں نے سارا دھیان پڑھنے میں لگا دیا تھا۔ سب کاآنا جانا اور گانا بجانا ایک دم بند! ان دنوں میں نے اتنی جم کر پڑھائی کی کہ ممی کا جی خوش ہو گیا۔ شاید کچھ مطمئن بھی۔ آخری پیپر دینے کے بعد لگ رہا تھا کہ ایک بوجھ تھا جو ہٹ گیا۔ دل بہت ہلکا ہو کر کچھ مزے کرنے کو کہہ رہا تھا۔ میں نے ممی سے پوچھا، ’’ممی، کل دیپک اور شیکھر پکچر دیکھنے جارہے ہیں۔ میں بھی ساتھ چلی جاؤں؟‘‘ آج تک میں ان لوگوں کے ساتھ گھومنے نہیں گئی تھی، پر اب اتنی پڑھائی کرنے پر یہ چھوٹ تو ملنی ہی چاہیے تھی۔

    ممی ایک پل میرا چہرہ دیکھتی رہیں پھر بولیں، ’’ادھر آ، یہاں بیٹھ۔ تجھ سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘ میں جاکر بیٹھ گئی، پر یہ نہ سمجھ میں آیا کہ اس میں بات کرنے والی کیا چیز ہے۔ ہاں کہو یا نہ۔ لیکن ممی کو بات کرنے کا مرض جو ہے۔ ان کی تو ہاں نہ بھی پچاس ساٹھ جملوں میں لپٹے بغیر نہیں نکل سکتی۔

    ’’تیرے امتحان ختم ہو گئے، میں تو خود پکچر کا پروگرام بنا رہی تھی۔ کون سی پکچر دیکھنا چاہتی ہے؟‘‘

    ’’کیوں؟ ان لوگوں کے ساتھ جانے میں کیا ہے؟‘‘میرے لہجے میں اتنی جھنجھلاہٹ بھری ہوئی تھی کہ ممی ایک ٹک میرا چہرہ ہی دیکھتی رہ گئیں۔

    ’’تنو، تجھے پوری چھوٹ دے رکھی ہے بیٹے، پر اتنا ہی تیز چل کہ میں بھی تیرے ساتھ چل سکوں۔‘‘

    ’’تم صاف کہو نا کہ جانے دوگی یا نہیں؟ بے کار کی باتیں! میں بھی ساتھ چل سکوں! تمہارے ساتھ چل سکنے کی بات کہاں سے آ گئی؟‘‘

    ممی نے میری پیٹھ سہلاتے ہوئے کہا، ’’ساتھ تو چلنا ہی پڑےگا۔ کبھی اوندھے منھ گری تو اٹھانے والا بھی تو ہونا چاہیے نا!‘‘

    میں سمجھ گئی کہ ممی نہیں جانے دیں گی۔ پر اس طرح پیار سے منع کرتی ہیں تو جھگڑا بھی تو نہیں کیا جا سکتا۔ بحث کرنے کا سیدھا سا مطلب ہے کہ ان کا بگھارا ہوا فلسفہ سنو، یعنی پچاس منٹ کی ایک کلاس۔ پر میں قطعی نہیں سمجھ پائی کہ جانے میں آخر ہرج کیا ہے۔ ہر بات میں انکار! کہاں تو کہتی تھیں کہ بچپن میں یہ مت کرو، یہاں مت جاؤ کہہ کرہم کو بہت ڈانٹا گیا تھا اور اب خود ہی سب کر رہی ہیں۔ دیکھ لیا ان کی بڑی بڑی باتوں کو۔ میں اٹھی اور دندناتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی۔ ہاں، ایک جملہ ضرور تھما آئی، ’’ممی، جو چلےگا وہ گرےگا بھی اور جو گرےگا وہ اٹھے گا بھی اور خود ہی اٹھےگا، اسے کسی کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

    پتا نہیں میری اس بات کا ان پر کیا ری ایکشن ہوا، یا خودبخود انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے شیکھر اور اس کے کمرے پر آئے ہوئے تینوں چاروں لڑکوں کو بلاکر میرے ہی کمرے میں محفل جموائی اور خوب گرم گرم کھانا کھلایا۔ کچھ ایسا رنگ جما کہ دوپہر والا سارا غبار دھل گیا۔ امتحان ختم ہو گئے تھے اور موسم سہانا تھا۔ ممی کا رویہ بھی نارمل تھا تو دوستی کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر شروع ہو گیا اور آج کل تو جیسے اس کے سوا کچھ رہ ہی نہیں گیا تھا۔ پر پھر ایک جھٹکا!

    اس دن میں اپنی سہیلی کے گھر سے لوٹی تو ممی کی سخت آواز سنائی دی، ’’تنو، ادھر آؤ تو!‘‘ آواز ہی سے لگا کہ یہ خطرے کا سگنل ہے۔ ایک پل کو تو میں سکتے میں آ گئی۔ پاس گئی تو چہرہ پہلے کی طرح سخت۔

    ’’تم شیکھر کے کمرے میں جاتی ہو؟‘‘ممی نے بندوق داغی۔ سمجھ گئی کہ پیچھے گلی میں سے کسی نے اپنا کرتب کر دکھایا۔

    ’’کب سے جاتی ہو؟‘‘

    دل تو چاہا کہ کہوں، جس نے جانے کی خبر دی ہے اس نے باقی ساری باتیں بھی بتا دی ہوں گی۔۔۔ کچھ جوڑ توڑ کر بتایا ہوگا۔ پر ممی جس طرح بھبھک رہی تھیں، اسے دیکھ کر چپ ہی رہنا بہتر سمجھا۔ ویسے مجھے ممی کے اس غصے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ دوتین بار اگر میں تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے شیکھر کے کمرے پر چلی گئی تو ایسا کیا گناہ ہو گیا۔ پر ممی کی ہر بات کی کوئی وجہ تو ہوتی نہیں، بس موڈ پر چلتی ہیں۔ عجیب مصیبت تھی! غصے میں ممی سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور میری چپ ان کے غصے کو اور بھڑکا رہی تھی۔

    ’’یاد نہیں ہے، میں نے شروع ہی منع کر دیا تھا کہ تم ان کے کمرے پر کبھی نہیں جاؤگی؟ تین تین گھنٹے وہ یہاں دھونی مار کر بیٹھتا ہے، اس میں جی بھرا نہیں تمہارا؟‘‘ دکھ، غصے اور دہشت کی پر تیں ان کے چہرے پر گہری ہوتی جا رہی تھیں اور میں سمجھ ہی نہیں پارہی تھی کہ کیسے انہیں ساری کیفیت سمجھاؤں۔

    ’’وہ تو بےچاری سامنے والی نے مجھے بلاکر آگاہ کر دیا۔ جانتی ہو، یہ سر آج تک کسی کے سامنے نہیں جھکا، پر وہاں مجھ سے آنکھ نہیں اٹھائی گئی۔ منھ دکھانے لائق مت رکھنا ہم کو کہیں بھی۔ ساری گلی میں تھو تھو ہو رہی ہے۔ ناک کٹاکر رکھ دی!‘‘ غضب! اس بار تو سارا محلہ ہی بولنے لگا ممی کے اندر سے! تعجب ہے ممی آج تک جس اپنے آس پاس سے بالکل کئی رہیں، جس کا مذاق اڑایا کرتی تھیں، آج کیسے اس کے سر میں سر ملاکر بول رہی ہیں۔ ممی کی تقریر بدستور جاری رہی، پر میں نے تو اپنے کانوں کے سوئچ ہی آف کر لیے۔ جب غصہ ٹھنڈا ہوگا، ممی اپنے میں لوٹ آئیں گی، تب سمجھادوں گی، ممی اس چھوٹی سی بات کو تم ناحق اتنا طول دے رہی ہو۔ پر جانے کیسی ڈوز لے کرآئی ہیں اس بار، کہ ان کا غصہ ٹھنڈا ہی نہیں ہو رہا ہے اور ہوا یہ کہ اب ان کے غصے سے مجھے غصہ چڑھنے لگا۔

    پھر گھر میں ایک عجیب سا تناؤ بڑھ گیا۔ اس بار ممی نے شاید پاپا کو بھی سب کچھ بتا دیا۔ کہا تو انہوں نے کچھ نہیں۔۔۔ وہ شروع ہی سے اس سارے معاملے سے آؤٹ ہی رہے تھے۔۔۔ مگر اس بار ان کے چہرے پر بھی ایک ان کہا سا تناؤ دکھائی ضرور دے رہا ہے۔

    کوئی دو مہینے پہلے جب اس طرح کا واقعہ ہوا تھا تو میں اندر تک سہم گئی تھی، پر اس بار میں نے طے کر لیا ہے کہ اس سارے معاملے میں ممی کو اگر نانا بن کر برتاؤ کرنا ہے تو مجھے بھی پھر ممی کی طرح مورچہ لینا ہوگا ان سے اور میں ضرور لوں گی۔ دکھاتو دوں کہ میں تمہاری بیٹی ہوں اور تمہارے ہی نقش قدم پر چلی ہوں۔ خود تو لیک سے ہٹ کر چلی تھیں، ساری زندگی اس بات کی گھٹی پلاتی رہیں، پر میں نے جیسے ہی اپنا پہلا قدم رکھا، گھسیٹ کر مجھے اپنی ہی کھینچی ہوئی لیک پر لانے کی دوڑ دھوپ کرنے لگیں۔

    میں نے دل میں سیکڑوں دلائل سوچ ڈالے کہ ایک دن ممی سے باقاعدہ بحث کروں گی۔ صاف صاف کہوں گی کہ ممی، اتنے ہی بندھن لگاکر رکھنا تھا تو شروع سے ویسے پالتیں۔ کیوں جھوٹ موٹ آزادی دینے کی باتیں کرتی سکھاتی رہیں؟ پر اس بار میرا بھی من سلگ کر اس طرح راکھ ہو گیا تھا کہ میں گم سم سی اپنے کمرے میں پڑی رہتی۔ جی بہت بھر آتا تو رو لیتی۔ گھر میں سارا سارا دن ہنسنے کھلکھلانے والی میں ایک دم چپ ہوکر اپنے ہی میں سمٹ گئی تھی۔ ہاں، ایک جملہ ضرور بار بار دہرا رہی تھی، ممی، تم اچھی طرح سمجھ لو کہ میں بھی اپنی ہی مرضی کروں گی۔ حالانکہ میرے من میں کیا ہے، اس کا کوئی بھی پلان میرے سامنے نہ تھا۔

    مجھے نہیں معلوم کہ ان تین چار دنوں میں باہر کیا ہوا۔ گھر اور باہر کی دنیا سے کٹی، اپنے ہی کمرے میں سمٹی، میں ممی سے مورچہ لینے کے داؤں پیچ سوچ رہی تھی۔ پر آج دوپہر مجھے اپنے کانوں پر قطعی یقین نہیں آیا جب میں نے ممی کو اپنے برآمدے ہی سے چلاتے ہوئے سنا، ’’شیکھر، کل تو تم لوگ چھٹیوں میں اپنے گھر چلے جاؤگے۔ آج شام اپنے دوستوں کے ساتھ کھانا ادھر ہی کھانا!‘‘ نہیں معلوم کس کرب سے گزر کر ممی اس کیفیت کو پہنچی ہوں گی۔

    اور رات کو شیکھر، دیپک اور روی کے ساتھ کھانے کی میز پر ڈٹا ہوا تھا۔ ممی اتنی ہی محبت سے کھانا کھلا رہی تھیں، پاپا ویسے ہی بے تکلفی سے مذاق کر رہے تھے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اغل بغل کی کھڑکیوں میں دو چار سر چپکے ہوئے تھے۔ سب کچھ پہلے کی طرح جانا پہچانا ہو اٹھا تھا۔

    صرف میں ان سارے حالات سے ایک دم الگ تھلگ ہوکر یہی سوچ رہی تھی کہ نانا پوری طرح نانا تھے، سوفی صد! اور اس سے ممی کے لیے لڑنا کتنا آسان ہو گیا ہوگا۔ پر ان ممی سے لڑا بھی کیسے جائے جو ایک پل نانا ہوکر جیتی ہیں اور دوسرے پل ممی ہوکر۔

    مأخذ:

    ہندی کہانیاں (Pg. 172)

      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2002

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے