Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طوفان کے بعد

مہندر ناتھ

طوفان کے بعد

مہندر ناتھ

MORE BYمہندر ناتھ

    کہانی کی کہانی

    ’’ایک ایسی لڑکی کی کہانی، جو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایسے لڑکے سے محبت کر بیٹھتی ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ اور اس نے فقط اس سے محبت ہی نہیں کی تھی بلکہ اس کے ساتھ رات بھی بتائی تھی۔ پھر لڑکے نے اس سے ملنے سے انکار کر دیا اور وہ کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔ جب وہ لڑکا بھی اسے چھوڑ گیا، تو وہ اپنے پہلے عاشق کو خط لکھتی ہے اور اس خط میں اس کے بارے میں اپنی ہر سوچ اور اپنی زندگی کے عجیب و غریب واقعات کا بھی ذکر کرتی ہے۔‘‘

    میں تمھیں ایک عرصے سے خط لکھنا چاہتی تھی، گو تم سے جدا ہوئے ابھی چند مہینے ہی ہوئے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں تم سے بہت دور چلی گئی ہوں اور شاید اب میری اور تمھاری ملاقات کبھی نہ ہو۔ گو اس بات کا اظہار ایک احمقانہ فعل ہے اور یہ باتیں تم پر کوئی اثر نہیں کر سکتیں، لیکن میں کیا کر سکتی ہوں، میں جو کچھ چاہتی وہ نہ ہوا، یہ خط تمھیں ملےگا بھی یا نہیں، اس کا بھی مجھے نہیں پتہ، کیوں کہ میں سمجھتی ہوں کہ تم اب اس مکان سے کب کے بھاگ چکے ہوگے، جس طرح کہ میں اس رات اپنے مکان سے بھاگ آئی تھی۔

    مجھے اپنے کیے پر بالکل ندامت نہیں، شایدایسا ہی ہونا چاہیے، جیسا کہ ہوا اور آج جبکہ میں تمھیں اپنا آخری خط لکھ رہی ہوں تو اس کا مطلب یہ نہ سمجھنا کہ میں محبت کے زیر اثر اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی، دنیا کی نظروں میں شاید میں اپنا اثاثہ لٹا چکی ہوں اور ماں باپ کی نگاہوں میں کافی گر گئی ہوں، لیکن دنیا میں صرف ماں باپ ہی نہیں ہوتے۔ دنیا میں صرف دنیا والے ہی نہیں ہوتے، اپنا آپ بھی کچھ ہوتا ہے، اپنی انفرادی حیثیت بھی کچھ ہوتی ہے، اس خط کا صرف واحد مقصد یہ ہے کہ میں تمھیں بتاؤں کہ مجھے تم سے بالکل محبت نہ تھی، کہیں تم اس نشہ میں چور نہ رہو اور اپنے دوستوں سے اس مہم کو سر کرنےکی کہانیاں سناتے رہو کہ کس طرح ایک لڑکی تم پر فدا ہوئی اور وہ سب کچھ لٹا بیٹھی، گو میں سمجھتی ہوں کہ ہندوستان میں جہاں عورت کو اس کی عصمت پر خریدا جا تا ہے، میں عورت کی عصمت کی قیمت کو جانتی ہوں اور یہ جانتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو کیسے تمھارے حوالے کر دیا، اس کی وجوہات ہیں، ہر بات کی وجہ ہوتی ہے، شاید تمھیں اپنی چالاکی یا ریاکاری یا لڑکیوں کو پھنسانے کی ترکیبوں پر ناز ہوگا اور تم سمجھتے ہوگے کہ تم نے ایک تعلیم یافتہ لڑکی کو اپنی ہوس کا شکار بنالیا، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ تم غلطی پر ہو۔

    تم نے مجھے غلط سمجھا، اگرمیں یہ کہہ دوں کہ تم مجھے سمجھ ہی نہ سکے تو یہ صاف بیانی ہوگی، اگر میں نے اپنے آپ کو تمھارے حوالے کیا تو اس کا باعث تم نہ تھے، بلکہ وہ ماحول جس میں ہم پلتے رہے اور جس ماحول میں تم ایکا ایکی آئے اور میرے جذبات کو تم نے پھر سے بیدار کیا۔ جیسا کہ تم جانتے ہو کہ میں متوسط طبقہ میں پیدا ہوئی ہوں اور متوسط طبقہ اپنے اخلاق کا خاص طور پر خیال رکھتا ہے، متوسط طبقہ کے لوگ اخلاق کے ترازو پر اپنے آپ کو جانچتے ہیں، ان کے پاس سونا ہو یا نہ ہو، رتبہ ہو یا نہ ہو لیکن اخلاق کا طوق اپنی گردن میں ہمیشہ پہنے رہتے ہیں اور کبھی کبھی اخلاق کی یہ لمبی زنجیر ان کے لئے موت کی زنجیر بن جاتی ہے۔

    یہ نام، نہاد اخلاق جو ہمارے متوسط طبقے کا اوڑھنا بچھونا ہے، ہمارے لئے ضرر رساں ہے، میں وعظ کرنا نہیں چاہتی، نہ ہی سماج کی خامیاں کہنا چاہتی ہوں، مجھے سماجی خامیوں سے کیا واسطہ، میں تو یہ بات ذہن نشین کرنا چاہتی ہوں کہ میں نے جو قدم اٹھایا وہ ہمارے سماجی ماحول کے عین مطابق تھا، اس میں نہ تو تمھارے حسن کی کشش کا اثر تھا اور نہ ہی تمھاری ذہانت اور ذکاوت کا ہاتھ اور مجھے تمھاری ذہانت کا کچھ علم بھی نہیں کہ میں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ تم ذہین ہو، میں اتنا جانتی ہوں کہ تم نے بی۔ اے یا ایم۔ اے کر لیا ہے، وہ ذہن کامل ہو سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے اور نہ تھا اور نہ ہی مجھے ان یونیورسٹیوں پر اعتبار ہے۔

    یہ امتحان جو چند کتابوں کے رٹنے پر لئے جاتے ہیں، ہماری ذہانت کا ثبوت نہیں، بلکہ ہماری سماجی بےوقوفی پر دلالت کرتے ہیں، خیر مجھے اس سے کیا واسطہ کہ تم ذہین ہو یا نہیں ہو، میں تو کہہ رہی تھی کہ تم کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ تمھاری خوبصورتی پر مرتے ہوئے میں تمھاری خواہشوں کا شکار ہوئی۔ اگر ایسا کرنا ہوتا تو کالج میں کسی حسین اور خوبصورت لڑکے سے محبت کر لیتی، شاید اس وقت محبت کر سکتی تھی، اب تو محبت سے کوسوں دور بھاگتی ہوں۔

    تو میں کہہ رہی تھی کہ تم اتنے حسین نہ تھے، کہ میں تمھارے بغیر زندہ نہ رہ سکتی اور آن واحد میں میں نے اپنے جسم کو تمھارے حوالے کر دیا اور تم نے بغیر کسی حیل و حجت کے قبول کر لیا۔ ہاں میں کہہ رہی تھی، کیا کہہ رہی تھی، ذہن میں خیالات امڈے چلے آتے ہیں اور کسی وقت خیالات گڑ بڑ ہو جاتے ہیں اور ذہن کی سطح پر پوری طرح نہیں ابھرتے۔ ٹھہر جاؤ، ذرا سوچنے دو، ہاں میں کہہ رہی تھی کہ متوسط طبقے کے لوگوں کو اپنے اخلاق سے زیادہ محبت ہو تی ہے، وہ ہر چیز کو اخلاق کے کانٹے پر پرکھتے ہیں، یعنی ان کی لڑکی اگر کسی نوجوان لڑکے سے گفتگو کرنے لگے، تو وہ جھٹ اس بات کو اخلاق پر تولتے ہیں، اگر گھر والوں کی نظروں میں یہ بات اخلاق پر پوری نہیں اترتی، جیسا کہ صاف ظاہر ہے کہ نہیں اترےگی، تو وہ اپنے لڑکی کو اس نوجوان لڑکے سے گفتگو نہیں کرنے دیں گے۔

    یہ تو صاف ظاہر ہے کہ گھر والوں نے مجھے کبھی کسی غیر شخص سے کلام کرنے کی اجازت نہ دی اور نہ ہی میں نے ایسی اجازت طلب کرنے کی جرأت کی، اگر میں چاہتی تو ان باتوں کے لئے راستہ نکال سکتی تھی، لیکن دل ان باتوں کے لئے تیار نہ تھا، برسوں کی ذہنی غلامی نے دماغ پر ایک آہنی غلاف چڑھا دیا تھا، جس کو مغربی تعلیم کی بی۔ اے کی ڈگری بھی نہ توڑ سکی، تم تو پوچھ سکتے ہو کہ بھلا میں خود بی۔ اے میں پڑھتی رہی اور وہ بھی بھگوان داس کالج میں جہاں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں۔ تو پھر بھی مجھے یہ جرات نہ ہو کہ کسی لڑکے سے آشنائی کر لیتی، محبت کی پینگیں بڑھاتی، رات کےاندھیرے میں کسی کے ساتھ سنیما چلی جاتی اور بہانا بنانا تو مشکل بات نہیں، گھر والوں سے کہہ دیاکہ کالج میں لڑکیوں کا ڈرامہ ہے، یا فلاں پروفیسر کو لٹریچر پر شاندار لیکچر دینا ہے، ہزاروں بہانے بنائے جا سکتے ہیں جو میں یہاں نہیں لکھنا چاہتی۔

    کسی شام کو اپنے نئے ساتھی کے ساتھ لارنس باغ کی سیر کو جاتی، عورتیں بہترین ساڑیاں پہنے ہوئے اس جنت مقام پر آتی ہیں، ہر طرف پھول کھلے ہوئے ہوتے ہیں، مہکی مہکی خوشبو، رنگ برنگ کی ساڑیاں، نیلی پیلی ارغوانی، ہوامیں لہراتے ہوئے بال اور لڑکیوں کا جمگھٹا، بہترین سوٹوں میں ملبوس ٹائیاں ہوا میں اڑ رہی ہیں اور غول کے غول ادھر ادھر لڑکیوں کے پیچھے بھاگے جا رہے ہیں، لڑکیاں خوش ہوتی ہیں، بنتی ہیں، دل میں امنگیں اٹھتی ہیں، جسم میں گد گدی ہوتی ہے، کسی سے آنکھیں ملتی ہیں، جسے تم نہیں جانتے اور شاید وہ پھرمل نہ سکے اور کبھی ملتے بھی نہیں، لیکن کسی کی آنکھیں بار بار تمھاری طرف اٹھتی ہیں، تمھارے قدم جلدی جلدی اٹھتے ہیں اور اپنی سہیلیوں کو ساتھ لے کر وہ اوجھل ہو جاتی ہیں، باتیں ہوتی ہیں اور ہر روز ہوتی رہیں گی۔ چاہے متوسط درجے کے لوگ چیخ چیخ کر مر جائیں، چاہے وہ دنیا کےبہترین شاعروں کی غزلوں کو آگ کی نذر کر دیں، چاہے وہ فحاشیوں کی کتابوں کو قابل ضبطی قرار دیں، لیکن یہ کشش جو ایک نوجوان عورت اور مرد کے درمیان ایک دوسرے کو دیکھنے سے ہوتی ہے، یہ کبھی نہیں مر سکتی یہ ایک فطری ضرورت ہے جس سے تم بھی انکار نہیں کر سکتے۔

    یہ متوسط طبقے کے لوگ جن پر اخلاق ایک ہوا بن کر چھا گیا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ ان بہو بیٹیوں کے دماغ میں ایسے خیالات نہ آئیں، یہ چاہتے ہیں کہ گو وہ ہر سال ایک بچہ پیدا کریں، لیکن ان کی لڑکیوں کو یہ پتہ نہ چلے کے یہ بچے کہاں سے آتے ہیں، کسی کا گرم سانس انھیں نہ چھو جائے، کسی غیر انسان کی آنکھیں ان کی لڑکیوں پر نہ پڑ جائیں، یہ گندے ناولیں نہ پڑھیں، یہ عشقیہ نظمیں نہ سنیں، یہ کسی خوب صورت لڑکے کو دیکھ کر خوش نہ ہوں، یہ موسیقی کی طرف رجوع نہ ہوں، یہ ناچ کو نہ اپنائیں، لیکن اس کے باوجود بھی سب کچھ ہو رہا ہے، لڑکیاں ناچتی ہیں، گاتی ہیں، کسی کی خمار آلود نگاہوں کے تلذذ سےمحظوظ ہوتی ہیں، رات کی تاریکیاں ان کے لئے بوجھل بن جاتی ہیں اور وہ تصّورات کی دنیا میں کھو جاتی ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں کبھی نہیں ہو سکتا اور نہ ہوکر رہےگا۔

    یہ متوسط طبقے اپنے بچّوں کی زندگیوں کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اف یہ اخلاق! لیکن تمھیں اخلاق سے کیا تعلق، تم اخلاق سے کوسوں دور بھاگتے ہو، میں کتنی خوش ہوں کہ تم اخلاق سے بالاتر ہو اور تم نے مجھے اخلاق سے بالاتر کر دیا، لیکن کیا دنیا میں اخلاق کوئی چیز نہیں، بحث کی ضرورت نہیں، پند و نصیحت کا وقت نہیں اور میں کیا نصیحت کر سکتی ہوں اور نہ ہی میں نصیحت پر یقین رکھتی ہوں، میں ان ناصحوں سے کوسوں دور بھاگتی ہوں۔ ’’یہ نہ کرو، وہ نہ کرو، فلاں بزرگ نے یہ کہا ہے کہ فلاں کتاب میں لکھا ہے، مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا کتابیں، مذہب، بزرگ۔۔۔‘‘

    خیر! میں کہہ رہی تھی کہ طالب علمی کے زمانے میں کسی نوجوان نے مجھ سے محبت کرنے کی ہمّت نہ کی اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ میں بدصورت تھی، تھی نہیں بلکہ ہوں، اس کا تمھیں علم بھی ہے اور میری بد صورتی کا فائدہ تم نے جس طرح اٹھایا اس کی بھی داد ددیتی ہوں۔ میں بدصورت کیوں ہوں اس کی بھی وجہ ہے، تم شاید میری باتوں سے چڑ جاؤ اور خط کو پڑھے بغیر پھینک دو اور دل میں سوچو کہ کیا ہر بات کی کوئی وجہ ہوتی ہے، لیکن میرا آخری خط پڑھنے میں تمھیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ یہ میرا آخری خط ہے، تمھیں ان خوب صورت لمحوں کی قسم جن کی یاد میرے ذہن پر مرتسم ہے۔ سچ کہتی ہوں میں وہ لمحے زندگی بھر یاد رکھوں گی، میں ان حسین لمحوں کو کبھی بھول نہیں سکتی، وہ میری زندگی بھر کا بہترین سرمایہ ہیں، وہ میری جوانی کی اولین اور آخری امنگوں کا نچوڑ ہیں۔

    میں نے ان لمحوں سے کتنا لطف اٹھایا تھا، اس کا میں بھی ذکر کروں گی، چاہے متوسط طبقے کے لوگ مجھے فاحشہ ہی کیوں نہ کہہ دیں، پہلے میں یہ بتا دوں کہ میں بد صورت کیوں ہو میری ماں تم نے دیکھی ہے نا! مجھے اپنی ماں سے محبت ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی ماں کی برائیوں کو نہیں جانتی، اس کے عیب مجھ سے چھپے نہیں ہیں، وہ نہایت موٹی اور بھدی عورت معلوم دیتی ہے، کہو تو اس کے جسم کے ہر نقش کو یہاں بیان کر دوں، لیکن مجھے متوسط درجے کے لوگوں کا خیال ہے کہ کہیں مجھے زندہ پھانسی پر نہ لٹکا دیں، صرف اس قصور پر کہ ایک بیٹی ہوکر اپنے ماں باپ کے نقائص بیان کرتی ہے اور میرا باپ میری ماں سے بھی بدصورت۔ چھوٹا قد، چہرہ لٹکا ہوا، گال اندر دھنسے ہوئے، پتلا سا جسم، جس میں ہڈّیاں تک نظر آتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی خدا نے میرے باپ پر ایک کرم اور کیا، کہ اس کی دائیں ٹانگ بائیں ٹانگ سے چھوٹی بنا دی۔

    جب وہ چلتے تو میں’’وہ چلنا‘‘ یہاں لکھنا چاہتی ہوں، لیکن مجھے دنیا والوں کے اخلاق کا پاس ہے، جب وہ چلتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے۔۔۔ جیسے لگڑ بھگڑیا چرخ، خیر یہ میرے باپ کی دوسری شادی ہے، پہلی شادی سے کوئی لڑکا نہ تھا، لیکن میرے باپ کو یہ فکر ہوئی کہ اتنی جائیداد کون سنبھالےگا، اتنا بڑا دو منزلہ مکان، ایک کنواں، اتنی زمینیں جو اپنا خون چوس چوس کر خریدی گئی تھیں، ان کا کون مالک ہوگااور پھر دنیا والوں کے طعنے اور کیا طعنے تھے، کہ میرا باپ کمزور ہے، اس لئے وہ بچہ پیدا کرنے کے نا قابل ہے، لیکن کس طرح ہو سکتا ہےکہ ایک انسان ہو، گورنمنٹ سروس کرتا ہو، زمین ہو، مکان ہو اور لڑکا نہ ہو اور طعنے۔ مجبوراً میرے باپ نے دوسری شادی کی اور خدا بھلا کرے ان محلے والوں کا کہ دو لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی، خدا خدا کر کے لوگوں نے طعنے دینے بند کئےاور متوسط درجے کا اخلاق بام عروج پر پہنچ گیا، میرے باپ کی عزّت رہ گئی اور اجڑا ہوا گھر بس گیا۔

    اکثر میرے ماں باپ میں لڑائی ہوا کرتی تھی، اکثر میری ماں کہا کرتی تھی کہ انھیں اپنی صحت کا خیال نہیں، دن رات دفتر کے کام میں لگے رہتے ہیں، گھر کا ذرا خیال نہیں، بس ایک چپاتی کھاتے ہیں، ایک روٹی سے کیا بنتا ہے، فروٹ جیوس نہیں پیتے، دودھ نہیں پیتے، مکھن نہیں کھاتے اور تو کیا تیل کی مالش نہیں کرتے، ہمارے پڑوس میں انہی کے عمر کے بابو رہتے ہیں، کیا نام ہے ان کا، بھلا سا نام ہے، میں نے ان کی شکل تک بھی نہیں دیکھی، مجھے کیا واسطہ ان کی شکل سے، لیکن نہایت خوبصورت اور خوش شکل ہیں۔ جسم بھرا بھرا سا، چوڑا چکلا سینا، بازو موٹے موٹے گٹھے ہوئے اور آنکھیں، آنکھوں میں چمک، گال سرخ اور کیا بتاؤں کتنی اچھی صحت ہے اور میں دل میں سوچتی ہوں ماں کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ ابھی ابھی وہ کہہ رہی تھیں کے انھوں نے بابو صاحب کی شکل نہیں دیکھی، لیکن اس وقت تو وہ بابو صاحب کے ہر حصے کو اس طرح پہچانتی ہیں جیسے انھوں نے ڈاکٹری کا معائنہ کیا ہے، لیکن یہ سوال کرنا اخلاق سے بعید ہے۔

    از بس یہ کہ تم میری بدصورتی کی وجہ سمجھ گئے، یہ وراثت سے ملی ہے، اس میں میرے باپ کا قصور نہیں، کہ انھوں نے کیوں ایک دوسرے سے شادی نہ کرتے تو کوئی اور میری ماں سے شادی نہ کرتا، میں اگر حساس نہ ہوتی یا خوبصورتی سے مجھے اتنا لگاؤ اور دلچسپی نہ ہوتی تو مجھے اپنے بھدے پن پر اتنا ناز تھا کہ جتنا ایک خوبصورت عورت کو اپنی خوبصورتی پر ہوتا ہے، لیکن میں کیا کرتی، میرے سوچنے کا ڈھنگ ہی نرالا تھا، مجھے بدنما چیز اچھی لگتی، مجھے خود اپنے آپ سے نفرت تھی، گو میں اتنی بدصورت نہ تھی، جتنی کہ میں بن رہی ہوں، تو شاید تم میری طرف مائل نہ ہوتے، میری طرف مائل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آج تک کسی طرف مائل نہ ہوئی تھی، سچ جانو کہ بی۔ اے پاس کرنے کے بعد تک میں مرد کے گرم سانس سے نا آشنا تھی اور جب میں بی۔ ٹی کر چکی تو میری خواہش کچھ مردہ ہو چکی تھی، زندگی کی پیہم شکستوں نے مجھے بے جان کر دیا، گھٹے ہوئے ماحول نے امنگوں کا کچومر نکال دیا، جوانی آئی اور آتی بھی کیوں کر، جسم کی ہر رنگینی جذبات کے مسلےجانے سے فنا ہو گئی، اعصاب پورے طریقے سے نشونما نہ پا سکے، آنکھوں کی چمک کسی انتظار میں غائب ہو گئی۔

    شباب کی رنگینی جو ایک کنواری عورت کے چہرے پر ہوتی ہے، آہستہ آہستہ اڑ گئی، ہونٹ خشک ہوتے گئے، بانہوں پر گوشت نہ چڑھ سکا۔ مجھے ان دنوں کسی سے محبت نہ تھی، لیکن ذہن میں ایک پریشانی دبی رہتی تھی، سر پر ایک جنون سوار رہتا تھا، میرے خیالات اگر متوسط درجہ کے اخلاق پر تولے جائیں تو مجھے کہنا پڑےگا کہ میرے خیالات ہمیشہ پراگندہ رہتے تھے، یہ پراگندگی میرےجسم کا حصہ بن گئی، جسم کے ہر حصہ پر چھا گئی، پھر آہستہ آہستہ اس پراگندگی کی تشکیل ہوئی کہ میں اس جوتے کی طرح دکھائی دینے لگی جو عرصہ تک دھوپ میں پڑا رہنے سے بد وضع اور بے ڈول ہو جاتا ہے، میرے ذہن میں خیالات مردہ ہو چکے ہیں اور پراگندگی کا اثر اعصاب پر ہو چکا تھا، جنسی خواہشیں ایک طرح سے’’۔۔۔ ‘‘ ہو چکی تھیں یا یوں کہا جائے کہ جنسی خواہشوں کوماحول نے ابھرنے نہ دیا لیکن فرائڈ کے کہنے کے مطابق جنسی خواہش مرتی نہیں دبائی جاتی ہے۔

    شاید یہی حالت تھی۔ گو احساسات، امنگیں، آرزوئیں ابھر ابھر کر شل ہو چکی تھیں، لیکن ایک چنگاری کسی کونے میں دبی ہوئی تھی، میری حالت اس جلے ہوئے اپلے کی طرح تھی، جو اوپر سے بالکل راکھ دکھائی دیتا ہو، لیکن جس کےاندر ہی اندر چنگاری سلگتی رہے۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ تم نہ آتے تو کتنا اچھا ہوتا، لیکن پھر خیال آتا ہے کہ تم نہ آتے تو تمھاری جگہ کوئی اور آ جاتا۔۔۔ تم اتنے خوش شکل تو نہ تھے کہ تم مجھے بھا جاتے، گو تمھارا قد کافی لمباتھا، تمھارا جسم بھرا ہوا، تمھارا چہرہ عجیب بےڈول سا بے ڈھنگا سا، یوں مجھے کچھ بھایا نہیں، سچ کہتی ہوں، برا نہ مانو اور پھر تم نے میری جانچ پڑتال بھی نہ کی، میں پہلےہی سمجھ گئی کہ تم جیسے لڑکے مجھے ہمیشہ نظر انداز کر دیتے، کیوں؟

    میں ایک ہی نظر میں بھانپ گئی تھی کہ تمھیں اپنی خوبصورتی کا ناز ہے اور پھر تمھارے دوست بھی کتنے بھونڈے اور بھدے تھے، وہی واسدیو اس کی شکل مجھے کبھی نہیں بھولتی، وہ مجھے گھور گھور کر دیکھتا تھا اور کئی بار راستہ میں کھڑے ہو ہوکر ہنستا رہتا تھا، یاکبھی مسکرا دیتا تھا، یا کبھی اپنے دوست کو آواز دیتا، تاکہ میں اس کی طرف دیکھوں اور کتنے ہی حیلے جتن کرتا، مگر آج کل کی لڑکیاں یوں نرغہ میں نہیں آتیں اور پھر واسد یو جیسے نامعقول آدمیوں سے انھیں کیا لگاؤ ہو سکتا ہے۔

    تم اکثر چپ رہتے ہو۔ یوں گم سم جیسے تمھیں میرے وجود کا علم ہی نہیں اور نہ ہی میں تمھیں اپنے وجود کا احساس کرانا چاہتی تھی، مجھے تم سے محبت نہ تھی اور نہ ہو سکتی تھی، یہ علاحدہ بات ہے کہ ماحول نے ہم دونوں کو غیر شعوری طور پر ایک دوسرے کا احساس کر ادیا، یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے وجود کا احساس نہ کرتے اور اس وجود کا احساس دن بدن شدید ہوتا گیا، جوں جوں دن گزرتے گئے تمھارا وجود میرے ذہن پر ایک کابوس بن کر چھا گیا اور جب تم اکیلے رہ گئے اور تمھاری اماں کسی ضروری کام سے کسی دوسرے شہر چلی گئی تو تمھارا وجود میرے لئے بوجھل غبارہ بن گیا، درمیانی طبقے کی گرفت کچھ ڈھیلی نظر آئی، اگر تم مجھے بالکل تنہا اور اکیلے نظر آتے، اکثر تم رات کے وقت دیر تک پڑھتے رہتے تھے، پتہ نہیں کیا پڑھتے رہتے تھے، لیکن مجھے یہ صاف معلوم ہے کہ تم اکثر اس وقت بجلی بجھاتے جب میں بیڈنگ لیمپ کو بجھاتی۔

    میں نے پہلے اس بات کو یونہی نظر انداز کر دیا، لیکن بعد میں سوچنے لگی، کہ تم کیوں جاگتے ہو، لیکن میں نے کبھی یہ خیال نہ کیا کہ میں کیوں جاگتی رہتی ہوں، میں کیوں پہلے نہیں سو جاتی اور کیوں تمھارے لیمپ کی روشنی کی طرف دیکھتی رہتی ہوں، مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم دونوں ایک ہی لیمپ کی روشنی میں پڑھ رہے ہیں اور جب لیمپ کی روشنی بجھ جاتی اور میرے ارد گرد اندھیرا ہو جاتا تو میں گھبرا جاتی اور میں سوچتی کہ میں اکیلی ہوں اور کبھی آسمان کی طرف دیکھتی کہ جو ستاروں سے اٹا ہوا معلوم ہوتا اور کبھی کبھی کوئی ستارہ ٹوٹتا اور افق کی طرف بھاگتا ہوا چلا جاتا، اس کے پیچھے پیچھے روشنی کی ایک لکیر آہستہ آہستہ معدوم ہو جاتی۔

    دور اس پار محلے کے کتے کے بھونکنےکی آواز چوکیدار کے چلاّنے کی آواز میں مدغم ہو جاتی، ذہن پر ایک تاریکی چھا جاتی اور میں دیر تک جاگتی رہتی، حتیٰ کہ مشرق سے سورج انگارہ بن کر نکل آتا اور اس کی نکیلی کرنیں میرے پریشان، تھکے ہوئے چہرے پر پڑتیں، اکثر میں سوچتی کہ میں اکیلی ہوں اور تم اس کمرے میں اکیلے ہو اور پھر ہم دونوں اکیلے ہیں، یہ کیوں ہے، ایسا کیوں ہے؟ مجھے تم سے محبت بالکل نہ تھی اور اب بھی نہیں ہے، لیکن غیرشعوری طور پر میں تمھاری اور کھنچی چلی گئی۔

    اور پھر اس دن کی بات ہے، دن نہیں بلکہ رات تھی، کیا تاریخ تھی؟ تمھیں یاد نہ ہوگی، مجھے یاد ہے، ۱۹ مارچ ۱۹۴۱ء شاید تم اس تاریخ کو بھول گئے ہوگے، لیکن مجھے یہ رات نہیں بھول سکتی، اس رات صدیوں کے بنائے قوانین ایک عورت کو نہ جکڑ سکے، اس رات مجھے یہی خیال آتا رہا کہ تم اکیلے ہو اور میں تمھارے پاس چلی آؤں اور کہوں کہ آؤ مجھے پیار کرو، تو تم کیا کہوگے، ہو سکتا ہے کہ اگر تم کسی رات میرے پاس آ جاتے تو چیخ اٹھتی اور کہتی کہ یہ چور ہے، اس نے میری عصمت کو چھینا ہے، لیکن میں تمھارے پاس اکیلی آ جاؤں اور میں یہ سوچتے سوچتے پڑھنے لگی، لیکن دماغ میں الفاظ پھیلتے چلے گئے اور مجھے یوں محسوس ہونے لگا، جیسے میں ایک بڑی چٹان سے پھسل رہی ہوں، تم ابھی تک نہ آئے تھے، پہلے تو تم آ جاتے تھے، آج تم نے کیوں میری بلا نےسے۔۔۔ میں نے سوچا مجھے کیا پرواہ، تم آؤ یا نہ آؤ، میں نے سونے کی کوشش کی لیکن دل جاگنے پر مصر تھا، دل کہہ رہا تھا انھیں آنے دو، ابھی آجائیں گے، نوکر نے دروازہ بند کر دیا، وہی بڑا دروازہ، میں نے سوچا، اب تمھارے آنے کا کوئی امکان نہیں، اب مجھے سو جانا چاہیے۔

    میں نے لیمپ گل کر دیا اور بستر پر دراز ہو گئی، آسمان پر تارے میرا منہ چڑانے لگے، یہ اندھیرا، یہ گھپ اندھیرا روشنی کہیں بھی نہیں، گھڑیوں نے بارہ بجائے، نیچے دالان میں کسی کے فراٹے کی آواز آنے لگی، ساری دنیا سو رہی ہے لیکن میری آنکھوں میں نیند عنقا تھی اور پھر یہ ذہنی پریشانی، جیسے میں کسی دلدل میں دھنسی جا رہی ہوں، کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، پھر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں چپ رہی، کتا ہوگا، میں نے سوچا۔ پھر کسی نے آواز دی۔ یہ تمہاری آواز تھی۔ میں نے سوچا نوکر دروازہ کھول دےگا، لیکن تم آوازیں دیتے رہے اور صحن سے خراٹوں کی آواز آتی رہی، میں نے سوچا کیوں نہ دروازہ کھول دوں، دل نے کہا اور میں چپکے سے اٹھ کر نیچے چلی گئی اور دروازہ کھولا، دروازہ کھلتے ہی تم نےٹارچ جلائی، جیسے کوئی بھولا بھٹکا راستہ ڈھونڈ رہا ہو۔

    ’’ادھر اوپر‘‘ میں نے زیرِ لب کہا کہ، دل دھک دھک کرنے لگا، ٹانگوں میں بجلی کی لہر دوڑ گئی۔ کنپٹیاں جلنے لگیں اور گلے سے ایک لیس دار لعاب نکلتا ہوا معلوم ہوا اور پھر تاریکی۔۔۔ اس تاریکی میں کیا ہوا، یہ تم جانتے ہو شاید اس سے پہلے تم کسی عورت سے ہمکنار ہو چکے ہوگے۔ لیکن میرے لئے یہ پہلا موقع تھا، تمھارے ہونٹ خشک اور باسی تھےاور ان میں بیئر کی خوشبو آ رہی تھی، اس دن مجھے معلوم ہوا کہ تم بیئر بھی پیتے ہو۔ میں اس دن زندگی کی مٹھاس سے آشنا ہوئی، تمھارے وجود نے جو میرے جسم سے ہمکنار تھا، میری روح پر ایک نشہ سا طاری کر دیا تھا اور تم دیر تک میرےپریشان بالوں سے کھیلتے رہے، میں نے تمھارے ہونٹوں کو چوما، تمھارے گالوں، تمھاری گردن چوم چوم کر چور ہو گئی اور سچ کہتی ہوں آج تک تمھارے ہونٹوں کا مزہ میرے ہونٹوں پر موجود ہے، ابھی تک میرے ذہن میں تمھارے جسم کی بساند ترو تازہ شیریں اور گرم۔

    دور آسمان پر تارے مسکرا رہے تھے، ہوا میں ایک نیند سی رچی ہوئی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ تمام دنیا اسی طرح سوتی رہے اور یہ رات ایک مسلسل رات بن جائے۔ مجھے کتنا سکون نصیب ہوا، مجھے کتنی خوشی ہوئی اسے میں ہی جانتی ہوں، چاہے تو اسے مٹتے ہوئے شباب کی تاثیر سمجھ لو، یا ایک جوان عورت کی بیوقوفی کا مرقع، لیکن وہ ضرور خوشی کے لمحے تھے۔۔ مجھے زندگی بھر کبھی اتنی مسّرت حاصل نہ ہوئی تھی، میری زندگی کے تار کبھی اس طرح کانپے نہ تھے۔ اس دن تم نے مجھ سے محبت کرکے اس لازوال مسرت کی لذّت کو آشنا کر دیا۔ کیا اچھا ہوتا کہ یہ محبت جاودانی ہو جاتی، یہ رشتہ ہمیشہ کے لئے پکا ہو جاتا، لیکن ایسا نہ ہوا دن گزرتے گئے اور مجھے اپنی وحشیانہ غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

    میں نے تم سے کہا کہ تم میری مدد کرو، تم نے انکار کر دیا۔ مجھے تمھارے انکار سے حیرت نہیں ہوئی، مجھے امید تھی کہ ایسا ہی کروگے اور پھر ایسا کیوں ہو، کیا دنیا میں کبھی ایسا نظام نہ ہوگا، جہاں مرد عورت تاروں کی چھاؤں میں اکھٹے رہ سکیں گے اور دنیا میں کے یہ بنائے ہوئے قانون کبھی رخنہ انداز نہ ہو سکیں گے، جس صبح میں بھاگی اس وقت چاروں طرف میلا میلا اندھیرا تھا، ہوا میں اسی گھٹے ہوئے ماحول کی بدبو آ رہی تھی اور آسمان پر چاند یاس و حسرت کا مرقع بنا ہوا تھا، ایکا ایک چاند پر سیاہ بادل چھا گئےاور چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ کسی نے مجھے نہ بلایا اور تم کہاں تھے؟ اس نے سوچنے کی کوشش کی۔

    میں اب کیا کہوں اور کیا کرتی ہوں شاید تم جاننا چاہو؟ میں ایک معمولی سے اسکول میں استانی ہوں اور میرے ایک بچہ ہے، ایک چھوٹا سا پیارا سا بچّہ، اس کی آنکھیں تم سے ملتی ہیں لیکن تمھیں اس سے کیا غرض! کبھی کبھی وہ آسمان کی طرف انگلی اٹھاکر کہتا ہے، ماں۔ ابا؟ ابا؟ اور میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اس دنیا میں نہ مائیں ہوں نہ باپ صرف انسان اور بچے۔

    مأخذ:

    مہندر ناتھ کے بہترین افسانے (Pg. 82)

    • مصنف: مہندر ناتھ
      • ناشر: اوپندر ناتھ
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے