Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طلوع محبت

پریم چند

طلوع محبت

پریم چند

MORE BYپریم چند

    بھوند و پسینہ میں شرابور لکڑیوں کا ایک گٹھا سر پر لیے آیا اور اسے پٹک کر بنٹی کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ گویا زبانِ حال سے پوچھ رہا تھا، ’’کیا ابھی تک تیرا مزاج درست نہیں ہوا؟‘‘

    شام ہوگئی تھی پھر بھی لو چلتی تھی اور آسمان پر گردو غبار چھایا ہوا تھا۔ ساری قدرت دق کے مریض کی طرح نیم جان ہورہی تھی۔ بھوندو صبح گھر سے نکلا تھا۔۔۔ دوپہر درخت کے سایہ تلے بسر کی تھی اور سمجھا تھا اس تپسیا سے دیوی جی کا منھ ٹھیک ہوگیا ہوگا۔ لیکن آکر دیکھا تو وہ ابھی تک تنی بیٹھی تھی۔

    بھوندو نے سلسلہ کلام شروع کرنے کی غرض سے کہا، ’’لا ایک پانی کا لوٹا دے دے، بڑی پیاس لگی ہے۔ مرگیا سارے دن میں۔ بجار جاؤں گا تو تین آنے سے بیشی نہ ملیں گے۔‘‘

    بنٹی نے سر کی کے اندر بیٹھے بیٹھے کہا، ’’دھرم بھی لوٹوگے اور پیسے بھی۔ منھ دھو رکھو۔‘‘

    بھوندو نے آنکھیں سکوڑ کر جواب دیا،’’کیا دھرم دھرم بکتی ہے۔ دھرم کرنا ہنسی کھیل نہیں ہے۔ دھرم وہ کرتا ہے جس پر بھگوان کی مہربانی ہو۔ ہم دھرم کھاک کریں گے پیٹ بھرنے کو چنا چبینا تو ملتا نہیں دھرم کیا کریں گے؟‘‘

    بنٹی نے اپنا وار اوچھا پڑتے دیکھ کر چوٹ کی، ’’دنیا میں کچھ ایسے دھرماتما بھی ہیں جو اپنا پیٹ چاہے نہ بھرسکیں۔ مگر پڑوسیوں کی دعوت کرتے پھرتے ہیں۔ ورنہ سارے دن بن بن کی لکڑیاں نہ کاٹتے پھرتے۔ ایسے دھرماتما لوگوں کو جو رو رکھنے کی کیوں سوجھتی ہے؟ یہی میری سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ دھرم چھکڑا کیا اکیلےنہیں چلتا؟‘‘

    بھوندو اس چوٹ سے تلملا اٹھا۔ اس کی رگیں تن گئیں۔ پیشانی پر بل پڑگئے۔ بنٹی کا منھ وہ ایک ڈپٹ میں بند کرسکتاتھا مگر اس نے یہ نہ سیکھا تھا، جس کی طاقت کی سارے کنجڑوں میں دھاک بیٹھی ہوئی تھی، جو تنِ تنہا سو پچاس نوجوانوں کا نشہ اتار سکتا تھا وہ ایک کمزور عورت کے سامنے منھ نہ کھول سکا۔ دبی زبان سے بولا، ’’جورو دھرم گنوانے کے لئے نہیں لائی جاتی، دھرم کمانے کے لئے لائی جاتی ہے۔‘‘

    یہ دونوں کنجڑ خاوند بیوی تین دن سے اور کئی کنجڑوں کے ساتھ اس باغ میں اترے ہوئے تھے۔ سارے باغ میں سرکیاں دکھائی دیتی تھیں۔ ان تین ہاتھ چوڑی اور چار ہاتھ لمبی سر کیوں کے ساتھ گزر اوقات کر رہا تھا۔ ایک طرف چکی تھی، ایک طرف باورچی خانہ کی اشیاء ایک طرف اناج کے مٹکے، دروازہ پر ایک کھٹولی پڑی تھی۔ ہر ایک گھر کے ساتھ دو دو بھینسے یا گدھے تھے۔ جب ڈیرا کوچ ہوتا تھا تو سارا سازو سامان ان گدھوں یا بھینسوں پر لاد دیا جاتا تھا۔ یہی ان کنجڑوں کی زندگی تھی۔ ساری بستی ایک ساتھ چلتی تھی، ایک ساتھ ٹھہرتی تھی۔ ان کی دنیا اس بستی کے اندر تھی۔ آپس ہی میں شادی بیاہ، لین دین، جھگڑے، قضیے ہوتے رہتے تھے۔ اس دنیا کے باہر سارا جہان ان کے لئے شکار گاہ تھا۔ ان کے کسی علاقہ میں پہنچتے ہی وہاں کی پولیس آکر انھیں نگرانی میں لے لیتی تھی۔ پڑاؤ کے ارد گرد چوکیداروں کا پہرا لگ جاتا تھا۔ عورت یا مرد کسی گاؤں میں جاتے تو پولیس کے آدمی ان کے ساتھ ہو لیتے۔ رات کو ان کی حاضری لی جاتی۔ پھر بھی گردو نواح کے لوگ سہمے ہوئے تھے، کیونکہ کنجڑ لوگ اکثر گھروں میں گھس کر جو چیز چاہتے اٹھالیتے اور ان کے ہاتھ میں جاکر کوئی شے لوٹ نہ سکتی تھی۔ رات میں یہ لوگ اکثر چوری کرنے نکل جاتے۔ چوکیدار ان سے ڈرتے تھے۔ کیونکہ یہ لوگ خونخوار تھے۔ ذرا سی بات پر لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے۔ سختی کرنے میں جان کا خطرہ تھا۔ کیونکہ کنجڑ لوگ بھی ایک حد تک ہی پولیس کا دباؤ مانتے ہیں۔ ساری بستی میں بھوندو ہی ایک ایسا شخص تھا جو اپنی محنت کی کمائی کھاتا تھا۔ مگر اس لیے نہیں کہ وہ پولیس والوں سے خائف تھا، بلکہ اس لیے کہ اس کی بہادری یہ گوارا نہ کرسکتی تھی کہ وہ ناجائز طریقے سے اپنی کسی ضرورت کو پورا کرے۔

    بنٹی کو شوہر کی یہ پاک دامنی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اس کی بہنیں نئی نئی چوڑیاں اور نئے نئے زیور پہنتیں تو بنٹی اپنے شوہر کی بزدلی پر کڑھتی تھی۔ اس بات پر دونوں میں کئی مرتبہ جھگڑے ہوچکے تھے۔ لیکن بھوندو اپنی عاقبت بگاڑنے کو تیار نہ ہوتا تھا۔ آج بھی صبح یہی سوال درپیش تھا اور بھوندو لکڑی کاٹنے جنگل نکل گیا تھا۔ کچھ مل جاتا تو بنٹی کی اشک شوئی ہوجاتی مگر آج سوائے لکڑی کے اور کوئی شے نہ ملی نہ کوئی جانور، نہ خس، نہ جڑی نہ بوٹی۔

    بنٹی نے کہا،’’جن سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ وہی دھرماتما بن جاتے ہیں۔ رانڈ اپنے مانڈ ہی میں خوش ہے۔‘‘

    بھوندو نے کہا،’’تو میں نکھٹو ہوں۔‘‘

    بنٹی نے اس سوال کا سیدھا جواب نہ دیا، ’’میں کیا جانوں، تم کیا ہو۔ میں تو یہ جانتی ہوں کہ یہاں دھیلے دھیلے کی چیز کے لئے ترسنا پڑتا ہے۔ یہاں جتنی عورتیں ہیں سب کھاتی ہیں، پہنتی اوڑھتی ہیں کیا میرے ہی دل نہیں ہے۔ تمہارے ساتھ بیاہ کر کے جندگی کھراب ہوگئی۔‘‘

    بھوندو نے ایک لمحہ سوچ کر کہا، “جانتی ہے پکڑا گیا تو تین سال سے کم سجا نہ ہوگی۔” بنٹی پر اثر نہ ہوا۔ بولی،’’جب اور لوگ نہیں پکڑے جاتے تو تم ہی کیوں پکڑے جاؤگے؟‘‘

    بھوندو، ’’اور لوگ پولیس کی کھسامدیں کرتے ہیں۔ چوکیداروں کے پاؤں سہلاتے ہیں۔ تو چاہتی ہے میں بھی یہ کام کروں۔‘‘

    بنٹی نے اپنی ضد نہ چھوڑی۔ بولی، ’’میں تمہارے ساتھ ستی ہونے نہیں آئی۔ پھر تمہارے چھرے گنڈا سے سے کوئی کہاں تک ڈرے۔ جانور کو بھی جب گھاس چارہ نہیں ملتا تو رسہ تڑاکر کسی کھیت میں جاگھستا ہے۔ میں تو آدمی ہوں۔‘‘

    بھوندو نے اس کا جواب نہ دیا۔ اس کی بیوی کوئی دوسرا گھر کرے گی۔ یہ خیال بھی ا سکے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔ آج بنٹی نے پہلی مرتبہ یہ دھمکی دی۔ اب تک بھوندو اس طرف سے بے فکر تھا۔ اب یہ نیا خطرہ اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ وہ اپنی ساری زندگی میں ایسا روزِسیاہ کبھی نہ آنے دے گا۔ ا سکے لئے وہ سب کچھ کر گزرے گا۔ بھوندو کی نگاہوں میں بنٹی کی وہ عزت نہیں رہی، وہ اعتماد نہیں رہا، مضبوط دیوار کو ٹھکاؤنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب دیوار ہلنے لگتی ہے تو ہمیں اس کے سنبھالنے کی فکر ہوتی ہے۔ آج بھوندو کو اپنے گھر کی دیوار ہلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ آج تک بنٹی اس کی اپنی تھی۔ وہ جس طرح اپنی طرف سے بے پروا تھا اس کی طرف سے بھی بے فکر تھا۔ وہ جس طرح خود رہتا تھا اسی طرح اس کو رکھتا تھا جو خود کھاتا تھا وہی اسے کھلاتا تھا۔ اس کی کوئی خاص فکر نہ تھی۔ پر آج اسے معلوم ہوا کہ وہ اس کی اپنی نہیں ہے۔ اب اسے اس کی خاص طور پر دلجوئی کرنا ہوگی۔

    آفتاب غروب ہورہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا گدھا چرکر چپ چاپ سرجھکائے چلا آرہا ہے۔ بھوندو نے کبھی اس کے کھانے پینے کی طرف دھیان نہ دیا تھا۔ آج بھوندو نے باہر آکر اسے پچکارا، اس کی پیٹھ سہلائی اور اسے پانی پلانے کے لیے ڈول اور رسی لے کر کنویں پر چلا گیا۔

    اس کے دوسرے ہی دن گاؤں کے ایک امیر ٹھاکر کے گھر چوری ہوگئی۔ اس رات بھوندو اپنے ڈیرے پر نہ تھا۔ بنٹی نے چوکیدار سے کہا، کل جنگل سے نہیں لوٹا۔ صبح کے وقت بھوندو آپہنچا۔ ا سکی کمر میں روپوں کی ایک تھیلی تھی۔ کچھ سونے کے گہنے تھے۔ بنٹی نے گہنے ایک درخت کے نیچے گاڑ دیے۔ روپوں کی کیا پہچان ہوسکتی تھی۔

    بھوندو نے پوچھا، ’’اگر کوئی پوچھے، اتنے سارے روپے کہاں سے ملے تو کیا کہوگی؟‘‘

    بنٹی نے آنکھیں نچاکر کہا، ’’کہہ دوں گی کیوں بتاؤں۔ دنیا کماتی ہے تو کسی کو حساب دینے جاتی ہے۔ ہم اپنا حسا ب کیوں دیں؟‘‘

    بھوندو نے گردن ہلاکر کہا، ’’یہ کہنے سے گلا نہ چھوٹے گا بنٹی۔ تو کہہ دینا میں کئی مہینے سے تین تین چار چار روپے مہینہ بچاتی آرہی ہوں۔ ہمارا خرچ ہی کون سا لمبا ہے۔‘‘

    دونوں نے مل کئی جواب سوچ لیے۔ جڑی بوٹیاں بیچتے ہیں، ایک ایک جڑی کے کئی کئی روپے مل جاتے ہیں۔ گھس، گھاس، جانورو ں کی کھالیں سب بیچتے ہیں۔

    اس طرف سے بے فکر ہوکر دونوں بازار چلے۔ بنٹی نے اپنے لیے کئی قسم کے کپڑے، چوڑیاں، بندے، سیندور، پان، تمباکو، تیل اور مٹھائی لی۔ پھر دونوں شراب کی دکان پر گئے۔ خوب شراب پی اور دو بوتلیں رات کے لئے لے کر گھومتے پھرتے، گاتے بجاتے، گھڑی رات گئے ڈیرہ پر آئے۔ بنٹی کے پاؤں آج زمین پر نہ پڑتے تھے۔ آنے کے ساتھ ہی بن ٹھن کر پڑوسنوں کو اپنی چھب دکھانے چلی گئی۔

    جب وہ لوٹ کر اپنے گھر گئی اور کھانے پکانے لگی تو پڑوسنوں نے تنقید شروع کردی، ’’کہیں گہرا ہاتھ مارا ہے۔‘‘

    ’’بڑا دھرماتما بنا پھرتا ہے۔‘‘

    ’’بگلا بھگت ہے۔‘‘

    ’’بنٹی تو جیسے آج ہوا میں اڑ رہی ہے۔‘‘

    ’’آج بھوندو کی خاطر ہورہی ہے ورنہ کبھی ایک لٹیا پانی بھی دینے نہ اٹھتی تھی۔‘‘

    اس رات بھوندو کو دیوی کی یاد آئی۔ آج تک اس نے کبھی دیوی کو بلیدان نہ دیا تھا۔ پولیس کو گانٹھنا کسی قدر مشکل تھا۔ کچھ خود داری بھی کھونی پڑتی تھی۔ دیوی صرف ایک بکرا لے کر خوش ہوجائے گی۔ ہاں اس سے ایک غلطی ضرور ہوئی تھی۔ اس کی برادری کے اور لوگ عام طور پر کوئی کام کرنے سے پہلے قربانی کرتے تھے۔ بھوندو نے یہ خطرہ نہ لیا۔ جب تک مال ہاتھ نہ لگ جائے اس میں دیوتاؤں کو کھلادینا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ لوگوں سے اپنی چوری کو پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا، اس لیے اس نے کسی کو خبر نہ دی، یہاں تک کہ بنٹی سے بھی نہ کہا او ربکرے کی تلاش میں گھر سے نکلا۔

    بنٹی نے پوچھا، ’’اب کھانے کی بکھت کہاں چلے؟‘‘

    ’’ابھی آتا ہوں۔‘‘

    ’’مت جاؤ مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘

    بھوندو نے محبت کی اس نئے اظہار پر خوش ہوکر کہا، ’’مجھے دیر نہ لگے گی۔ تو یہ گنڈاسا اپنے پاس رکھ لے۔‘‘

    اس نے گنڈاسانکال کر بنٹی کے پاس رکھ دیا۔ اور باہر نکلا۔ مگر بکرا کہاں ہے۔ آخر اس مشکل کو بھی اس نے ایک خاص طریقے سے حل کیا۔ قریب کی بستی میں ایک گڈریے کے پاس کئی بکرے تھے۔ اس نے سوچا کہ وہاں سے ایک بکرا اٹھا لاؤں۔ دیوی کو اپنی قربانی سے غرض ہے یا اس سے کہ بکرا کہاں سے آیا اور کیوں آیا۔

    لیکن بستی کے قریب پہنچا ہی تھا کہ پولیس کے چار آدمیوں نے اسے گرفتار کرلیا۔ اور مشکیں باندھ کر تھانے لے چلے۔

    بنٹی کھانا پکاکر بناؤ سنگار کرنے لگی۔ آج اسے اپنی زندگی گلزار معلوم ہوتی تھی۔ مسرت سے کھلی جاتی تھی۔ آج اپنی عمر میں پہلی مرتبہ اس کے سر میں خوشبودار تیل پڑا۔ اس کا آئینہ خراب ہوگیا تھا۔ اس میں اب منھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ آج وہ نیا آئینہ لائی تھی۔ اس کے سامنے بیٹھ کر اس نے بال سنوارے، منھ پر ابٹن ملا، صابن لانا وہ بھول گئی تھی۔ صاحب لوگ صابن لگانے ہی سے توگورے ہوجاتے ہیں۔ صابن ہو تا تو اس کا رنگ بھی کچھ نکھر آتا۔ ایک ہی دن میں بالکل گوری تو نہ ہوجاتی، لیکن رنگ ایسا سیاہ بھی نہ رہتا۔ کل وہ صابن کی ٹکیاں ضرور خرید لائے گی اور روز اس سے منھ دھوئے گی۔ بال سنوارکر اس نے ماتھے پر اسی کا لعاب لگایا کہ بال ادھر ادھر منتشر نہ ہوجائیں۔

    پھر پان لگائے۔ چونا زیادہ ہوگیا تھا اس لیے منھ میں چھالے پڑگئے۔ لیکن اس نے سمجھا، شاید پان کھانے کا مزہ ہو۔ آخر کڑوی مرچ بھی تو لوگ مزے مزے سے کھاتے ہیں۔ لال رنگ کی ساڑی پہن کر اور پھولوں کا ہار گلے میں ڈال کر اس نے آئینہ میں اپنی صورت دیکھی تو اس کے آبنوسی رنگ پر سرخی دوڑ گئی۔ اپنے آپ کو دیکھ کر شرما گئی۔ افلاس کی آگ میں نسائیت بھی جل کر خاکِ سیاہ ہوجاتی ہے۔ نسائیت کی حیا کا ذکر ہی کیا ہے، میلے کچیلے کپڑے پہن کر شرمانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی چنو ں میں خوشبو لگاکر کھائے۔

    اسی طرح بناؤ سنگار کر کے بنٹی بھوندو کی راہ دیکھنے لگی۔ جب دیر ہوگئی اور وہ نہ آیا تو اس پر جھنجھلا اٹھی۔ روج تو سانجھ سے درواجے پر پڑے رہتے تھے۔ آج نہ جانے کہاں جاکر بیٹھ رہے۔ بنٹی کے سوکھے دل میں آج پانی پڑتے ہی اس کی نسائیت اگ آئی تھی۔ خفگی کے ساتھ اسے فکر بھی ہورہی تھی۔ اس نے باہر نکل کر کئی مرتبہ پکارا۔ اس کی آواز میں ایسی شیرینی کبھی نہ تھی۔ اسے کئی مرتبہ شبہ ہوا کہ بھوندو آرہا ہے۔ وہ دوسری مرتبہ سر کی کے اندر دوڑ آئی اور آئینہ میں اپنا منہ دیکھا کہ بگڑ نہ گیا ہو۔ ایسی دھڑکن، ایسی الجھن اسے آج تک کبھی نہ ہوتی تھی۔

    بنٹی شوہر کے انتظار میں ساری رات بے قرار رہی۔ جوں جوں رات گزرتی جاتی تھی۔ اس کے اندیشے بڑھتے جاتے تھے۔ آج ہی اس کی پرلطف زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ آج ہی یہ حال!

    صبح جب وہ اٹھی تو ابھی کچھ اندھیرا ہی تھا۔ اس کا جسم شب بیداری سے ٹوٹ رہا تھا۔ ا ٓنکھوں سے آگ نکل رہی تھی۔ حلق خشک ہورہا تھا۔ معاً کسی نے آکر اطلاع دی۔ بنٹی رات بھوندو پکڑ گیا۔

    بنٹی تھانے پہنچی تو پسینہ میں بھیگی ہوئی تھی اور دم پھول رہا تھا۔ اسے بھوندو پر رحم نہ آتا تھا۔ غصہ آتا تھا۔ سارا زمانہ کام کرتا ہے اور چین کی بنسی بجاتا ہے۔ انہوں نے کہنے سننے پر ہاتھ بھی لگایا تو چوک گئے۔ شعور نہ تھا تو صاف کہہ دیتے کہ یہ کام مجھ سے نہ ہوگا۔ میں یہ تھوڑے ہی کہتی تھی کہ آگ میں کود پڑو۔

    اسے دیکھتے ہی تھانیدار نے دھونس جمائی، ’’یہی تو ہے بھوندو کی عورت، اسے بھی پکڑ لو۔‘‘

    بنٹی نے اکڑ کر کہا، ’’ہاں ہاں پکڑ لو۔ یہاں کسی سے نہیں ڈرتے۔ جب ڈرنے کا کام نہیں کرتے تو ڈریں کیوں؟‘‘

    افسر او رماتحت سب بنٹی کی طرف دیکھنے لگے۔ اس کا دل بھوندو کی طرف سے کچھ نرم ہوگیا۔ اب تک وہ دھوپ میں کھڑا تھا۔ اب اسے سائے میں لے آئے۔ اس نے ایک مرتبہ بنٹی کی طرف دیکھا۔ گویا کہہ رہا تھا، “دیکھنا کہیں ان لوگوں کے دھوکے میں نہ آجانا۔

    تھانیدار نے ڈانٹ کر کہا، ’’ذرا اس کی دیدہ دلیری تو دیکھو جیسے پاکیزگی کی دیوی ہی تو ہے مگر اس پھیر میں نہ رہنا۔ میں تم لوگوں کی نس نس سے واقف ہوں۔ تین سال کے لئے بھجوادوں گا۔ تین سال کے لئے۔ صاف صاف کہہ دو اور سارا مال لوٹا دو،اسی میں خیریت ہے۔‘‘

    بھوندو نے بیٹھے بیٹھے کہا، ’’کیا کہہ دوں۔ جو لوگوں کو لوٹتے ہیں ان سے تو کوئی کچھ نہیں کہتا اور جو غریب محنت کی کمائی کھاتے ہیں ان کا گلا کاٹنے کو سبھی تیار ہوجاتے ہیں۔ ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ ہمارے پاس کسی دینے دلانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔‘‘

    تھانے دار سخت لہجہ میں کہا، ’’ہاں ہاں سکھا پڑھادے بیوی کو کہ کہیں بھید نہ کھول دے۔ لیکن ان گیدڑ بھبکیوں سے بچ نہیں سکتا۔ تو نے اقبال نہ کرلیا تو تین سال کے لئے جائے گا۔ میرا کیا بگڑتا ہے۔ ارے چھوٹے سنگھ اسے پکڑ کر کوٹھری میں بند کردے۔‘‘

    بھوندو نے بے پروائی سے کہا، ’’داروگا ساب! بوٹی بوٹی کاٹ ڈالو مگر کچھ ہاتھ نہ لگے گا۔ آپ کی دھمکیوں کے آگے بڑے بڑے سیدھے ہوجاتے ہیں۔ میں دوسری قسم کا آدمی ہوں۔‘‘

    داروغہ صاحب کو یقین ہوگیا کہ اس فولاد کا جھکنا دشوار ہے۔ بھوندو کے بشرہ سے شیروں کا استقلال نظر آتا تھا۔ تھانے دار کا حکم پاتے ہی دو آدمیوں نے بھوندو کو پکڑ کر کمرے میں بند کردیا۔ شوہر کی بے بسی دیکھ کر بنٹی کا سینہ پھٹا جاتا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ کنجڑوں میں چوری کر کے اقبال کرلینا انتہا درجہ کی ذلت ہے۔ خدا جانے اس کا نتیجہ کیا ہو؟ خدا جانے کتنی سزا ہوجائے۔ ممکن ہے تین ہی سال کے لئے چلا جائے۔ جان پر کھیل کر بولی۔

    ’’داروگا جی! تم سمجھتے ہوگے۔ ان گریبوں کی پیٹھ پر کوئی نہیں ہے۔ لیکن بھگوان تو سب کچھ دیکھتے ہیں۔ بھلا چاہو تو ان کو چھوڑ دو۔ کید ہوگئے تو میں کہیں کی نہ رہوں گی۔‘‘

    تھانیدار نے مسکرا کر کہا، ’’تجھے کیا، یہ مرجائے گا کسی اور سے بیاہ کرلینا۔ جو کچھ چوری کر کے لایا ہوگا وہ تو تیرے ہی پاس ہوگا۔ کیوں نہیں اقبال کر کے چھڑا لیتی۔ میں وعدہ کرتا ہوں، مقدمہ نہ چلاؤں گا۔ سب مال لوٹا دے، تونے ہی منتر دیا ہوگا۔ گلابی ساڑھی اور پان اور خوشبودار تیل کے لئے تو ہی بے قرار ہورہی ہوگی۔ اس پر مقدمہ چل رہا ہے اور سامنے کھڑی دیکھ رہی ہے۔ عجیب عورت ہے۔‘‘

    بنٹی نے چند لمحے غور کیا اور پھر سر جھکاکر آہستہ سے بولی، ’’اچھا داروگا ساب! میں سب کچھ دے دوں گی ان پر حرف نہ آنے پائے۔‘‘

    بھوندو کو باہر نکالا گیا تو اس نے خائف ہوکر پوچھا، ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘

    ایک چوکیدار نے کہا، ’’تیری عورتنے اقبال کرلیا ہے۔‘‘

    بھوندو پہلی مرتبہ پھنسا تھا۔ اس کا سرچکر کھارہا تھا اور آواز بند سی ہوگئی تھی، لیکن یہ بات سنتے ہی جیسے بیدار ہوگیا۔ اس نے دونوں مٹھیاں کس لیں اوربولا، ’’کیا کہا؟‘‘

    ’’کیا کہا۔ چوری کھل گئی۔ داروغہ صاحب مال برآمد کرنے گئے ہیں۔ رات ہی اقبال کرلیتے تو یہ نوبت کاہے کو آتی۔‘‘

    بھوندو نے گرج کر کہا، ’’وہ جھوٹ بولتی ہے۔‘‘

    ’’وہاں مال بھی برآمد ہوگیا تم ابھی تک اپنی گارہے ہو۔‘‘

    اپنے آبا و اجداد کی وضعداری اپنے ہاتھوں خاک میں ملتے دیکھ کر بھوندو کا سر جھک گیا۔ اس جگر سوز ذلت کے بعد اب اسے اپنی زندگی میں رسوائی اور نفرت او ربے عزتی کے سوائے اور کوئی چیز دکھائی نہ دیتی تھی۔ اب اس نے سوچا وہ اپنی برادری میں کسی کو منھ نہ دکھا سکے گا۔

    یکایک بنٹی آکر سامنے کھڑی ہوگئی۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی کہ بھوندو کی خونخوار شکل دیکھ کر اسے بولنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اسے دیکھتے ہی بھوندو کا مجروح خاندانی وقار کچلے ہوئے سانپ کی طرح تڑپ اٹھا۔ اس نے بنٹی کو آتشیں آنکھوں سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں خون کی آگ جل رہی تھی۔ بنٹی سر سے پاؤں تک کانپ اٹھی اور الٹے پاؤں وہاں سے بھاگی۔کسی دیوتا کے آہنی ہتھیاروں کے مانند وہ دونوں انگاروں کی سی آنکھیں اس کے دل میں چبھنے لگیں۔

    تھانے سے نکل کر بنٹی نے سوچا اب کہاں جاؤں؟ بھوندو اس کے ساتھ ہوتا تو وہ پڑوسنوں کے طعنے برداشت کرسکتی تھی۔ لیکن انگارے کی سی آنکھیں اس کے دل میں چبھی جاتی تھیں۔ لیکن کل کی عیش و آرام کی چیزوں کا پیار اسے ڈیرے کی طرف کھینچنے لگا۔ شراب کی بوتل اب بھی بھری رکھی تھی۔ پھلوڑیاں چھینکے پر ہانڈی میں پڑی تھیں۔ وہ تشنہ آرزوئیں جو موت کو سامنے دیکھ کر بھی دنیا کی نعمتوں کی طرف دل کو مائل کرتی ہیں، اسے کھینچ کر ڈیرے کی طرف لے چلیں۔

    دوپہر کا وقت تھا۔ وہ پڑاؤ پر پہنچی تو سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ابھی کچھ دیر قبل جو جگہ رنگینی حیات سے گلزار بنی ہوئی تھی۔ اب وہاں سوائے ویرانے کے اور کچھ بھی نہ تھا۔ یہ برادری کا انتقام تھا۔ سب نے سمجھ لیا کہ بھوندو اب ہمارا آدمی نہیں۔ صرف اس کی سر کی ویرانے میں گویا روتی ہوئی کھڑی تھی۔ بنٹی نے اس کے اندر پاؤں رکھا تو اس کی وہی حالت ہوئی جو خالی گھر کو دیکھ کر کسی چور کی ہوتی ہے۔ کون کون سی چیز اٹھائے۔ اس جھونپڑی میں اس نے رو روکر پانچ برس کاٹے تھے۔ لیکن آج اسے اس سے وہ محبت پیدا ہوئی تھی جو کسی ماں کے دل میں اپنے نالائق بیٹے کو دیکھ کر ہوتی ہے جو برسوں کے بعد پردیس سے لوٹا ہو۔ ہوا سے کچھ اشیاء ادھر ادھر ہوگئی تھیں۔ بنٹی کو شبہ ہوا کہ شاید اس پر کوئی بلی جھپٹی ہو۔ اس نے جلدی سے ہانڈی اتاکر دیکھا۔ پھلوڑیاں شاید کسی نے چھتیری تھیں۔ پانوں پر جو گیلا کپڑا لپٹا تھا وہ خوش ہوگیا تھا۔ اس نے اس پر پانی چھڑک دیا۔

    کسی کے پاؤں کی آہٹ پاکر ا سکا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ بھوندو آرہا ہے۔ اس کی وہ انگارے کی سی آنکھیں۔ بنٹی کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ بھوندو کے غصہ کا اسے ایک دو مرتبہ تجربہ ہوچکا تھا۔ لیکن اس نے دل کو مضبوط کیا۔ کیوں مارے گا؟ کچھ سنے گا۔ سوال جواب کرے گا۔ یونہی گنڈاسا چلادے گا۔ اس نے اس کے ساتھ کوئی برائی نہیں کی۔ اسے آفت سے بچایا۔ مرجادا جان سے پیاری نہیں ہوتی۔بھوندو کو ہوگی۔ اسے نہیں ہے۔ کیا اتنی سی بات پر وہ اس کی جان لے گا۔

    اس نے سر کے دروازے سے جھانک کر دیکھا۔ بھوندو نہ تھا، اس کا گدھا آرہا تھا۔ بنٹی آج اس بدبخت گدھے کو دیکھ کر ایسی خوش ہوئی جیسے اپنا بھائی میکے سے بتاشوں کی پوٹلی لیے تھکا ماندہ چلا آرہا ہو۔ اس نے جاکر اس کی گردن سہلائی، اس کے تھوتھنے کو منھ سے لگایا۔ وہ اسے پھوٹی آنکھوں نہ بھاتا تھا پر آج اسے اپنا عزیز معلوم ہوتا تھا۔ وہ دونوں انگارے سی آنکھیں اسے گھور رہی تھیں۔ وہ پھر کانپ اٹھی۔

    اس نے سوچا۔ کیا کسی طرح نہ چھوڑے گا۔ وہ روتی ہوئی اس کے پیروں پر گر پڑے گی۔ کیا تب بھی نہ چھوڑے گا۔ ان آنکھوں کی وہ کتنی تعریف کیا کرتا تھا۔ کیا آج ان میں آنسو دیکھ کر بھی اسے رحم نہ آئے گا۔ بنٹی نے مٹی کے پیالے میں شراب انڈیل کر پی اور پھلوڑیاں کھائیں۔ جب اسے مرنا ہی ہے تو دل میں حسرت کیوں رہ جائے۔ وہ دونوں انگارے سی آنکھیں اب بھی اس کے سامنے تھیں۔ اس نے دوسرا پیالہ بھرا اور وہ بھی پی گئی۔ زہریلا ٹھہرا جسے دوپہر کی گرمی نے اور بھی قاتل بنادیا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس کے دماغ کو کھولانے لگا۔ بوتل آدھی رہ گئی۔

    اس نے سوچا بھوندو پوچھے گا۔ تو نے اتنی دارو کیوں پی؟ تو وہ کیا کہے گی؟ کہہ دے گی۔ ہاں پی۔ کیوں نہ پیتے۔ اسی کے لئے تو یہ سب کچھ ہوا۔ وہ ایک بوند نہ چھوڑے گی۔ جو ہونا ہے ہوجائے۔ بھوندو اسے مار نہ سکے گا۔ وہ اتنا ظالم، اتنا کمینہ نہیں ہے۔ اس نے پھر پیالہ بھرا اور پی گئی۔ پانچ برس کی گزری ہوئی باتیں اسے یاد آنے لگیں۔ سیکڑوں مرتبہ دونوں میں لڑائیاں ہوتی تھیں۔۔۔ آج بنٹی کو ہر مرتبہ اپنی ہی زیادتی معلوم ہورہی تھی۔

    بیچارہ جو کچھ کماتا ہے اسی کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے۔ اپنے لیے ایک پیسہ کا تمباکو بھی لیتا ہے تو پیسہ اسی سے مانگتا ہے۔ صبح سے شام تک بن بن پھرتا ہے۔ جو کام اس سے نہیں ہوتا اسے کیوں۔۔۔

    معاً ایک کانسٹبل نے آکر کہا، “ارے بنٹی، کہاں ہے؟ چل کر دیکھ بھوندو کا کیا حال ہے۔ بے حال ہورہا ہے۔ ابھی تک چپ چاپ بیٹھا تھا۔ پھر نہ جانے کیا جی میں آیا کہ ایک پتھر سر پر پٹک دیا۔ سر سے لہو بہہ رہا ہے۔ ہم لوگ دور کر پکڑ نہ لیتے تو جان ہی دے دی تھی۔

    ایک ہفتہ گزر گیا۔ شام کا وقت تھا۔ کالی کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ موسلا دھار برکھا ہورہی تھی۔ بھوندو کی سر کی اب بھی اس ویرانی میں کھڑی تھی۔ بھوندو کھٹولی پر پڑا تھا۔ اس کا چہرہ زرد پڑا تھا اور جسم مرجھا گیا تھا۔ وہ فکر مندانہ انداز سے بارش کی طرف دیکھتا ہے۔ چاہتا ہے اٹھ کر باہر دیکھوں مگر اٹھا نہیں جاتا۔

    بنٹی سر پر گھاس کی گٹھری لیے پانی میں شرابور آتی دکھائی دی۔ وہی گلابی ساڑھی مگر تار تار۔ لیکن اس کا چہرہ کھلا ہوا ہے۔ رنج و افسوس کی جگہ اس کی آنکھوں سے محبت ٹپک رہی ہے۔ چال ایسی مستانہ ہے اور آنکھیں ایسی چمکتی ہیں کہ دیکھ کر جی خوش ہوجائے۔ بھوندو نے آہستہ آہستہ کہا، ’’تو اتنی بھیگ رہی ہے، کہیں بیمار پڑگئی تو کوئی ایک گھونٹ پانی دینے والا بھی نہ رہے گا۔ میں کہتا ہوں تو اتنا کیوں مرتی ہے۔ دو گٹھے تو بیچ چکی تھی۔اب یہ تیسرا گٹھا لانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ ہانڈی میں کیا لائی ہے؟‘‘

    بنٹی نے ہانڈی کو چھپاتے ہوئے کہا، ’’کچھ بھی تو نہیں ہے، کیسی ہانڈی؟‘‘

    بھوندو زور لگاکر کھٹولی سے اٹھا۔ آنچل کے نیچے چھپی ہوئی ہانڈی کھولی اور اس کے اندر نظر ڈال کربولا، ’’ابھی لوٹا نہیں تو ہانڈی پھوڑ دوں گا۔‘‘

    بنٹی نے دھوتی نچورتے ہوئے کہا، ’’ذرا آئینہ میں صورت دیکھو۔ گھی، دودھ کچھ نہ ملے گا تو کیسے اٹھوگے یا ہمیشہ چارپائی پر پڑے رہنے کا ارادہ ہے؟‘‘

    بھوندو نے کھٹولی پر لیٹے ہوئے کہا، ’’اپنے لیے ایک ساڑھی بھی نہیں لائی۔ میرے لیے گھی اور دودھ سب چاہئے۔ میں گھی نہ کھاؤں گا۔‘‘

    بنٹی نے مسکراکر کہا، ’’اسی لیے تو گھی کھلاتی ہوں کہ تم جلدی سے کام دھندا کرنے لگو اور میرے لیے ساڑھی لاؤ۔‘‘

    بھوندو بولا، ’’تو آج کہیں چوری کرنے جاؤں، کیوں؟‘‘

    بنٹی نے بھوندو کے گال پر آہستہ سے چپت لگاکر کہا، ’’پہلے میرا گلا کاٹ دینا پھر۔‘‘

    مأخذ:

    پریم چند کے نمائندہ افسانے (Pg. 119)

      • ناشر: الفاظ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1986

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے