Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طوائف کون؟

رومانہ رومی

طوائف کون؟

رومانہ رومی

MORE BYرومانہ رومی

    جہاز کی سیٹ پر بیٹھتے ہی میں نے پشت سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر کے ایک گہری سانس لی۔۔۔ مستقل کام، کام اور کام نے میرے اعصاب شل کر دئیے تھے اور اِسی لیے میں اس لمبی فلائیٹ پر صرف آنکھیں موندھ کر آرام کرنا چاہتی تھی۔۔۔جس ائیر کرافٹ میں، میں سفر کر رہی تھی وہ ایک بڑی ائیر کمپنی کا کشادہ جہاز تھا اور اس کی سیٹیں بھی آرام دہ تھیں۔۔۔ جہاز کے بیچ میں چار چار اور کھڑکی کی طرف دو دو سیٹیں تھی۔۔۔ میں کھڑکی کی طرف بیٹھی تھی۔۔۔ مسافروں کی آمد جاری تھی۔۔۔ جہاز کی سبھی سیٹیں تقریباََ بھر چکی تھیں۔۔۔ یہ جہاز بنکاک سے سری لنکا کے لیے روانہ ہو رہا تھا جہاں سے آگے مجھے پاکستان کے لیے دوسرا جہاز بدلنا تھا۔۔۔ اس پوری فلائیٹ میں زیادہ تر وہ ہی لوگ تھے جن کو وہاں سے آگے جانا تھا۔۔۔ میں یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک کسی نے مجھے ہیلو کہا۔۔۔ اس سے پہلے کے میں اس کو دیکھتی یا جواب دیتی وہ میری برابر والی سیٹ پر بیٹھ چکی تھی۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور پھر غیر ارادی طور پر بڑی سرد مہری سے جواب دیا۔۔۔ وہ ایک تھائی لڑکی تھی۔۔۔ میں ایک سیمنار اٹینڈ کرنے تھائی لینڈ آئی تھی۔۔۔ تھائی لینڈ کے بارے میں کہانیاں تو میں پہلے ہی سن چکی تھی اور اب یہاں کچھ دنوں کے قیام نے بھی مجھے یہ بات باور کروا دی تھی کہ بنکاک کی معیشت عورتوں کے ہاتھوں میں ہے۔۔۔ میں ایک مسلمان باپردہ خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون تھی جس کے لیے بنکاک جیسے شہر میں اکیلے آنا اور اتنے دن قیام کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔۔۔ یہاں کا ماحول اور کلچر بھی ہماری تہذیب سے جدا تھا مگر جس سیمنار میں مجھے دعوت دی گئی تھی وہ آگے میرے مستقبل کے لیے کافی اہمیت کا حامل تھا اور پھر میری رہائش سے لے کر مجھے واپس جہاز تک پہنچانا بھی میرے میزبان کی ہی ذمہ داری تھی سارے وسائل میسر تھے۔۔۔ سو گھر والوں کو منانا آسان ہو گیا۔۔۔ سیمنار ختم ہونے کے بعد میزبانوں نے ہمیں ایک پورا دن بنکاک کی سیر بھی کروائی بس اِسی بہانے مجھے شہر دیکھنے کا موقع مل گیا اور پھر وہ ساری باتیں جو آج تک صرف سُنی تھی اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لی۔۔۔ پورے شہر میں عورتوں اور لڑکیوں کا راج تھا۔۔۔ ہر کاروبار عورت کے ہاتھوں میں تھا یہاں تک کے دکانوں کی سیلز گرل سے لے کر ہوٹلز کے کاونٹرز پر بھی خوبصورت نازک نازک سی کم عمر لڑکیاں ہی نظر آئیں۔۔۔ مرد زیادہ تر رکشا۔۔۔ بسیں۔۔۔ ٹیکسی۔۔۔ وغیرہ چلانے اور دوسرے محنت طلب کاموں میں مصروف نظر آئے۔۔۔ وہاں مجھے کہیں بھی کوئی بچہ کام کرتے ہوئے دیکھائی نہ دیا تھا۔۔۔ شام کوپانچ بجے کے بعد ہی میں نے اسکول کے کپڑوں میں بچوں کو ان کی ماؤں کے ساتھ دیکھا تھا سو یہ بات یقینی تھی کہ یہاں ہر بچہ تعلیم حاصل کرنے کا پابند تھا۔۔۔ چائڈ لیبر کا یہاں کوئی تصور دیکھائی نہ دیا تھا۔۔۔ تھائی لینڈ کے دارلحکومت بنکاک شہر کی ہر شاہراہ ہر گلی ہر کونے کو بہت خوبصورتی اور توجہ سے سجایا اور سنوارا گیا تھا کیوں کہ یہاں سیاحوں کی ایک بہت بڑی تعداد سارا سال موجود رہتی ہے۔۔۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غیرملکی سیاحوں کی یہاں آمد تھائی لینڈ کی معیشت کو بڑا سہارا فراہم کرتی ہے۔۔۔ ہر چیز میں صفائی ستھرائی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔۔۔ ساری باتیں اور خوبیاں ایک طرف مگر مَیں خود کو اپنے خاندانی اور اعلیٰ حسب نسب کی وجہ سے تھائی خواتین کی نسبت بلند

    (۲)

    سمجھتی تھی۔۔۔ سو اپنے برابر بیٹھنے والی تھائی لڑکی کو میں نے بری طرح نظر انداز کر دیا۔۔۔ اور اپنی سیٹ پر سمٹ کر بیٹھ گئی۔۔۔ وہ غرور جو مجھے اپنی ذات پر تھا۔۔۔ اس نے مجھے تھائی لڑکی سے اچانک صدیوں کی دوری پرلا کھڑا کیا تھا۔۔۔ اسے اپنے برابر کا انسان بھی تصور کرنا شاید مجھے ذہنی طور پر منظور نہ تھا۔۔۔ مگر حالات کی مجبوری کہ یہ سفر مجھے اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے طے کرنا تھا۔۔۔ پائلٹ نے جہاز میں مسافروں کو خوش آمدید کہتے ہوئے جہاز کی روانگی کا اعلان کیا اور سب مسافر اپنی اپنی سیٹ بیلٹ باندھ کر سیدھے بیٹھ گئے۔۔۔ ایک مخصوص بلندی پر جاکر جہاز سیدھا ہوا اور پھر سے جہاز میں ہلکی ہلکی باتوں اور فضائی میزبانوں کی چہل پہل شروع ہو گئی۔۔۔ میں نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاکر اپنی آنکھیں موند لی۔۔۔ تقریباََ پندرہ یا بیس منٹ بعد کسی نے مجھے ایکسوزمی کہتے ہوئے ہلکے سے چھوا۔۔۔میں نے نیند میں ڈوبی ہوئے آنکھوں کو دھیرے سے کھولا۔۔۔ تھائی لڑکی مسکرائی اور سامنے کھڑی ہوئی ائیر ہوسٹس کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ جو مجھ سے کھانے کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔۔۔ میں نے اسے اپنی پسند بتائی اور پانی مانگا۔۔۔ پانی پی کر مَیں نے کھانے کی طرف دیکھا تو مجھے یاد آیا کہ مَیں نے کافی دیر سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا سو مَیں مزیدار کھانے سے انصاف کرنے میں مگن ہو

    گئی۔۔۔ میں اپنے برابر والی لڑکی کو ایک دم بھول چکی تھی کہ اس نے پوچھا۔۔۔

    You Pakistani? Are‘

    میں نے بغیر اس کی جانب دیکھے کہا۔۔۔

    ’Yes‘۔۔۔

    شاید اس نے میرے لباس سے اندازہ لگایا تھا مجھے حیرت ہوئی کہ یہ لباس تو انڈین اور بنگلہ دیشی لڑکیاں بھی پہنتی ہیں۔۔۔شاید میرا صاف رنگ اور اونچی قدوقامت سے اس نے اندازہ لگا لیا تھا۔۔۔ اب کی بار وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں بولی۔۔۔

    ’آپ بھی پاکستان جارہی ہیں؟‘۔۔۔

    میں نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور حیرت سے پوچھا۔۔۔

    آپ کو اُردو آتی ہے؟‘۔۔۔

    وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔۔

    ’جی میں پانچ سالوں سے پاکستان میں جاب کر رہی ہوں۔۔۔ بس کچھ کچھ سیکھ ہی لی ہے‘۔۔۔

    میں نے اب غور سے اُس کی جانب دیکھا۔۔۔

    ’آپ پاکستان میں جاب کرتیں ہیں ۔۔۔مگر کیا جاب کرتیں ہیں آپ؟‘۔۔۔

    اس کی وضع قطع اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھیں کہ وہ کوئی خاص پڑھی لکھی خاتون نہیں تھی اور نہ ہی اس کے جسم پر ایسا لباس تھا جو

    (۳)

    اس کی امارت کو ظاہر کرتا۔۔۔ تو پھر وہ پاکستان میں کس قسم کی نوکری کر رہی تھی۔۔۔ میرے چہرے کے تاثرات سے اس نے میری الجھن کا پتا لگا لیا تھا۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔

    ’میں کراچی کے ایک بڑے اور مشہور مساج پارلر میں کام کرتی ہوں۔۔۔ آپ کو شاید یہ بات معلو م ہو گی کہ تھائی مساج دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس سے کئی طرح کی بیماریوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے لے کر آپ کے جوڑوں کے درد تک کونا صرف دور کرتا ہے بلکہ آہستہ آہستہ آپ کو اس تکلیف سے مکمل نجات بھی دلاتا ہے‘۔۔۔

    اس نے ایک ہی سانس میں اپنا مکمل تعارف میرے سامنے پیش کر دیا۔۔۔ میں نے حقارت بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

    ’او! تو آپ ایک مساج کرنے والی خاتون ہیں‘۔۔۔

    میرے لب و لہجہ کے طنز کو محسوس کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک رنگ سا آکر گزر گیا۔۔۔

    ’جی‘۔۔۔

    اس نے دھیمے سے لہجے میں جواب دیا۔۔۔

    مجھے دل ہی دل میں اپنے اس رویے پر شرمندگی سی محسوس ہوئی۔۔۔وہ بڑے تحمل سے میری بات برداشت کرتے ہوئے دوبارہ مسکرائی اور بولی۔۔۔

    آپ کو ہمارا ملک کیسا لگا‘۔۔۔

    میں جو پہلے ہی اس کے کام کے بارے میں جان کر دل ہی دل میں وہ سب باتیں یاد کر رہی تھی جو اس قسم کی خواتین کے بارے میں مشہور تھی اور اب جبکہ میں اس کے شہر میں گھوم بھی چکی تھی اور اس بات سے آگاہ بھی ہو گئی تھی کہ اِن کی پوری معیشت پرخواتین کا راج تھا جو بغیر کسی شرم و جھجک کے وہ سارے ہی کام کر رہی تھیں جن کا پاکستان جیسے اسلامی ملک میں تصور بھی ناپید تھا۔۔۔ پھر بھی اس کا دل رکھنے کے لیے میں بولی۔۔۔

    ’ہاں! میں نے بس ایک ہی دن آپ کے شہر بنکاک کی سیر کی ہے۔۔۔ مگر مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا ہے کہ آپ لوگوں نے اِس کو بہت صاف ستھرا اور سجا سنوار کر رکھا ہے مجھے کہیں بھی کسی قسم کی بھی بدنظمی نظر نہیں آئی۔۔۔سڑکیں صاف۔۔۔ کشادہ۔۔۔ اسڑیٹ لائٹ روشن شہر کا ماحول پرسکون۔۔۔۔ چائیلڈ لیبر 0% ۔۔۔ مگر ہاں چونکہ بنکاک ایک زمانے سے جسم فروشی کے حوالے سے بدنام رہا ہے۔ جس کی جھلک آپ لوگ کی نائٹ لائف میں اب بھی صاف نظر آ تی ہے۔۔۔ شاید آپ کی اکانومی کا دارومدار اب بھی سیاحت سے زیادہ جسم فروشی پر ہے‘۔۔۔

    (۴)

    میرے الفاظ سادہ ضرور تھے مگر ان کی کاٹ اس کے چہرے پر پڑھی جا سکتی تھی۔۔۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور میری جانب دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔

    ’جی جانتی ہوں کہ تھائی خواتین اپنی اس بات کے لیے دنیا بھر میں بدنام ہیں مگر آپ اس بارے میں کچھ نہیں جانتی اسی لیے شدید غلط فہمی کا شکار ہیں‘۔۔۔

    میں نے حیرت سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

    ’کیا مطلب؟ کیسے؟‘۔۔۔

    وہ میرے سوال پر مسکرائی اور اعتماد سے بولی۔۔۔

    ’ہاں! ہم بدنام ضرور ہیں مگر ہمیں ناز ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جن کی ماؤں۔۔۔ بہنوں۔۔۔ اور بیٹیوں نے اپنے ملک و قوم کوغربت۔۔۔

    افلاس۔۔۔ ناخواندگی۔۔۔ اور کم ملکی وسائل جیسی لاتعداد خامیوں سے۔۔۔ دور کر نے اور اپنے ملک کو سنوارنے ۔۔۔اپنی آنے والی نسلوں کو ایک مضبوط اور مستحکم قوم بنانے اور اپنے ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں کھڑا کر نے کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیا۔۔۔۔ مگر یہ بات پوری دنیا جانتی ہے اور اب مان بھی گئی ہے کہ ہمارا اصل کام مساج کرکے لوگوں کی تکالیف کو کم کرنا اور انہوں دیسی طریقہِ علاج سے ٹھیک کرنا ہے۔۔۔ آج دنیا بھر میں تھائی مساج کے ذریعے لوگ اپنا علاج کر واتے ہیں۔۔۔ اور ہمارے اسپشل جڑی بوٹیوں سے بنے ہوئے مختلف تیلوں کی نیا بھر میں مانگ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔۔۔ ہم نے اپنی محنت۔۔۔ اور لگن سے نہ صرف اپنے ملک و قوم کو سنوارا ہے بلکہ دنیا پر یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ ہم ایک محنتی اور جفاکش قوم ہے ہم نے اپنی صنعتوں کو ترقی دی اور سیاحت کو فروغ دیا ہے اور اب ہمیں اطمینان ہے کہ ہم نے اپنے مستقبل کو محفوظ کر لیا ہے۔۔۔ ہم نے اپنے ملک کی ترقی کے لیے جو کچھ بھی کیا ہمیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں بلکہ فخر ہے اور اب امید ہے کہ ہمارا ملک تھائی لینڈ بھی بہت جلد ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہو جائےگا۔۔۔ اگر عقل کی آنکھوں سے پرکھو گی تو جان پاؤگی کہ اس وقت جب ہمارے پاس کچھ نہیں تھا جب ہماری عورتوں نے دن رات مساج سے علاج کے پرانے طریقوں کو کیسے نئے انداز میں ڈھالا۔۔۔ ان کی رات دن کی قربانیوں نے ہماری پوری قوم کو اس دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کا ہنر سیکھا دیا ہے۔۔۔آپ کے لیے وہ طو ائفیں ہو سکتی ہیں مگر ہمارے لیے وہ عظیم خواتین ہیں‘۔۔۔

    شدت جذبات سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔۔۔ اس نے سامنے رکھا ہوا پانی کا گلاس اٹھایا اورایک ہی سانس میں سارا پانی پی گئی۔۔۔ میں نے طنز یہ لہجے میں کہا۔۔۔

    ’یعنی تمھارا مطلب ہے کہ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کی عورتوں اپنے آپ کو بیچ دیں؟‘۔۔۔

    (۵)

    اس نے ملامت بھری نظر وں سے مجھے دیکھا اور بولی۔۔۔

    ’غلط!۔ بالکل غلط۔۔۔ معاف کیجئےگا۔۔۔ آپ کی سوچ بہت معمولی اور سطحی ہے۔۔۔ آپ نہیں جانتی کہ پوری دنیا میں شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہو جہاں عورتوں کی جسم فروشی کی گنجائش نہ ہو۔۔۔ مگر قوموں کی ترقی کا راز عورتوں کی جسم فروشی پر نہیں بلکہ اپنے ملک سے محبت۔۔۔ اپنے لوگوں سے محبت اور سب سے زیادہ۔۔۔ اپنے آپ سے مخلص ہونے اور محبت کرنے سے ہے۔۔۔کیوں کہ جس قوم میں یہ تینوں صفت ہوگی وہی ملک ترقی کرےگا‘۔۔۔

    ایک لمبا سانس لینے کے بعد وہ پھر سے بولی۔۔۔

    ’برا نہ مانیں تو آپ سے ایک بات کہوں‘۔۔۔

    میں جو گم صم بیٹھی اُس کی باتوں پر غور کر رہی تھی چونک گئی کہ جس کو مَیں جاہل اور عام سے عورت سمجھ رہی تھی اس نے مجھے اور میری سوچ کو ایک نیا زاویہ دیا۔۔۔ اس کے لب و لہجے نے مجھے اندر تک سہما سا دیا تھا مَیں نے آہستہ سے سر کے اشارے سے اُس کو اپنی بات کہنے کی اجازت دی۔۔ وہ دھیرے دھیرے بولی۔۔۔

    ’اگر آپ کے پاس کچھ وقت ہو تو اِن باتوں پر ضرور غور کیجئےگا کہ آپ کے ملک میں لاتعداد وسائل ہونے کے باوجود آپ کے ملک کا ہر شہری بین الاقوامی قرضوں کے بوجھ تلے کیوں دبا ہوا ہے؟۔۔۔ ملک میں جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے بھی امن و امان کیوں نہیں؟۔ عورتوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ دینے والے ہی ان کو زندہ جلا کر کیوں مار ڈالتے ہیں؟۔۔۔ ایک ہی مذہب کے پیرو کار ہونے کے باجودہ آپ لوگوں کی عبادت گاہیں کیوں محفوظ نہیں؟۔۔۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود بھی آپ کا کسان بھوک اور غربت کی سب سے نچلی سطح پر کیوں ہے؟۔۔۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی اور قدرتی مناظر سے مالا مال ہونے کے باجود سیاح آپ کے ملک کا رُخ کیوں نہیں کرتے؟۔۔۔ یہ تو بس چند موٹی موٹی با تیں ہیں اگر غور کریں گی تو اندازہ ہوگا کہ آپ کے ملک کے نام نہاد عزت دار سیاسی رہنماؤں۔۔۔ مذہبی پیشواؤں۔۔۔ افسرِشاہی۔۔۔ اور تمام صاحبِ اختیار نے عوام کو قومیتوں۔۔۔

    صوبوں۔۔۔ زبانوں۔۔۔ اور فرقوں میں بانٹ دیا۔۔۔ اور آپ کی پوری قوم اور ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے کے بجائے بیچ کھایا ہے اور کھا رہے ہیں۔۔۔ طوائف کے بارے میں عمومی طور پر یہی رائے پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی اداؤں سے نخروں سے اور جسمانی نشیب و فراز سے تماش بین کو لوٹتی ہے اسی تعریف کے پس منظر میں اگر آپ غورکریں تو آپ کو اس بات کا احساس ہوگا کہ اصلی ‘۔۔۔

    اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتی جہاز کے پہیوں نے زمین کو چھوا۔۔۔ اور ایک جھٹکا سا محسوس ہوا مگر جہاز کا یہ جھٹکا اس لڑکی کی باتوں

    (۶)

    کے جھٹکوں کے آگے مجھے بہت معمولی سا محسوس ہوا۔۔۔ جہاز کے رکتے ہی ایک افراتفری سی مچ گئی وہ بھی کھڑی ہوئی اور اپنا سامان نکالنے لگی اس سے پہلے کے وہ باہر کی جانب بڑھتی مَیں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔وہ میرا سوال سمجھ نہ پائی۔۔۔ میں نے ہلکے سے کہا۔۔۔ ’اپنا جملہ مکمل کرو‘۔۔۔

    وہ سوچتے ہوئی بولی۔۔۔ ’کون سا جملہ‘۔۔۔

    میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔ ’اصلی ۔۔۔کے آگے تم کیا کہنا چاہتی تھیں‘۔۔۔

    وہ طنزیہ انداز میں ہنسی اپنے کاندھوں پر بیگ لٹکایا اور مڑ کر بولی۔۔۔

    ’اصلی طوائف کون ہے‘؟؟؟۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے