Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

الٹی کھوپڑی کا آدمی

محمد امین الدین

الٹی کھوپڑی کا آدمی

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    اظہار رائے کی آزادی اور فیصلہ کرنے کے اختیار کے بغیر اسے اپنے کاروباری دوست اور دیگر چھ افراد کے ہمراہ ایک کمرا دے دیا گیا جس کی کھڑکی سے سیاہ پتھریلے پہاڑ کو ہاتھ بڑھا کر چھوا جا سکتا تھا۔ کمرے میں فوم کے گدے اور پولیسٹر کی رضائی والے آٹھ درمیانے سائز کے لوہے کے پلنگ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بچھے ہوئے تھے۔ وہ سب ساتھ ساتھ اپنا سفری سامان لے کر کمرے میں داخل ہوئے۔ اس نے سب کو بغور دیکھا اور لمحہ بھر کو سوچ میں پڑ گیا۔ تب وہ اپنے دوست سے بولا۔

    ’’گروپ بنانے والوں کو لوگوں سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔ یا کم از کم درخواست فارم کی روشنی میں گروپ بندی کرتے‘‘۔

    ’’انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ادارے کے فیصلوں کو من و عن ماننا پڑےگا۔ اب یہ اعتراض بےجا ہے‘‘۔

    وہ خاموش ہو گیا اور خود کو آنے والے دنوں کے لیے تیار کرنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ دیگر لوگوں سے مزاج میں مختلف ہے۔ اسے یہ اندازہ کئی ہفتے پہلے ہو گیا تھا، جب ہفتہ واری لیکچروں میں شرکت کی تھی۔ پہلے ہی لیکچر میں جب آنے والے دنو ں کی تیاری، مباہات و منکرات کا ذکر کیا گیا، وہیں ایک حکم بھی جاری ہوا۔

    ’اپنے اپنے چہروں کو باریش کر لو‘۔

    وہ نہیں جانتا تھا کہ کتنے لوگوں نے اس حکم پر سر جھکایا البتہ اس کے کاروباری دوست نے ضرور خم کر لیا تھا۔ اسے خیال گزرا کہ اسے ان لیکچروں کی ضرورت نہیں۔ مگر وہ جانتا تھا کہ اس کا دوست شرکت کرنا چاہتا ہے۔ لہذا اس کی خاطر آنا پڑےگا۔ تب اس نے مسند خطابت پر بیٹھے ہوئے شخص کے حکم کو نظر انداز بھی کیا اور تمام لیکچروں میں شرکت بھی کی۔ مگر وہ ہر بار کچھ سوالات لے کر اٹھتا جن کے جوابات ملنے کی کوئی امید نہیں تھی۔

    وہ تب بھی خاموش رہا اور اب بھی خاموش رہنا چاہتا تھا۔ وہ تو صرف اتنی طلب رکھتا تھا کہ جس مقصد کے لیے اپنی بیوی کے ہمراہ یہاں آیا ہے اسے خیروخوبی سے پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ بیوی کے بارے میں سوچتے ہی اس کے خیال کی رو عمارت کی مزید دو فلور اوپر والی منزل تک چلی گئی جہاں اس کی بیوی اور دیگر خواتین کو رہائش دی گئی تھی۔ اس نے اپنے گروپ لیڈر جو کہ مقامی یونیورسٹی میں پروفیسر تھا ،سے اس فیصلے پر اعتراض کیا تھا کہ عورتو ں کو چوتھی منزل پر کیوں ٹہرایا جا رہا ہے؟ انہیں علیحدہ کمرے دیتے ہوئے ایک ہی منزل پر ٹھہرایا جا سکتا ہے، کیوں کہ ماں کو بیٹے اور بیوی کو شوہر سے دن میں کئی معاملات پر گفتگو یا کچھ اور حاجت پیش آ سکتی ہے۔ تب بھی اس کے کاروباری دوست نے کہا تھا۔

    ’’ادارے کی جانب سے سختی سے پردے کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔

    ’’یہ کیسا پردہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بات بھی نہ کرے‘‘۔

    ’’غیر شرعی اور غیرضروری اختلاط سے عبادات کو نقصان پہنچے کا احتمال رہتا ہے۔ اس لیے کوشش یہ کی جارہی ہے کہ آپ کی زیادہ سے زیادہ توجہ عبادات پر مرکوز رہے‘‘۔

    ’’اگر میں سماجی انسان ہوں تو اپنے گھر بیوی، بچوں سے کٹ کر عبادات میں دل نہیں لگا سکتا۔ میری ایسی عبادات کا کوئی فائدہ نہیں جو مجھے خالق اور بندے کے رشتے میں پروتے ہوئے زندگی کے باہمی تعلق سے کاٹ کر پھینک دے‘‘۔

    اس دوران کمرے میں موجود سفید چادروں میں ملبوس حرم کے مہمان اپنے سفری سامان کو ترتیب سے رکھنے کے بعد ایک دوسرے سے متعارف ہو رہے تھے۔دروازے سے متصل پلنگ شیخ الحدیث کا تھا۔ گورا رنگ، گھنی کتھئی داڑھی، لمبا قد، چمکتی آنکھیں جن میں سرمے کی باریک لکیر موجود تھی۔ ہونٹوں پر جمی ہوئی مسکراہٹ سے وہ خود کو دوسروں سے نمایاں کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کی پائنتی سے جڑا ہوا پلنگ سپرنٹنڈنٹ کا تھا۔ نکلتا ہوا قد، بھاری ڈیل ڈول، گھنی سیاہ داڑھی، آنکھوں میں شرارت بھری ہوئی تھی۔ وہ شہر کے بڑے دارلعلوم کے انتظامی شعبے سے وابستہ تھے۔ ان کے سرہانے کی جانب بائیں مڑتی ہوئی دیوار سے متصل پلنگ مفتی کا تھا۔ چھریرہ بدن، چھریری سیاہ داڑھی، نشست و برخاست کے انداز سے صاف نمایا ں تھا کہ وہ دیہاتی اور غیر تعلیم یافتہ ماحول کا پروردہ ہے۔ اس کے سرہانے سے دیوار کے اگلے کونے تک درمیانے قد کے اکاؤنٹنٹ کی پائنتی جڑی ہوئی تھی۔ وہ بھی اسی بڑے مذہبی ادارے کے شعبہ مالیات سے وابستہ تھے۔ دھیمہ لہجہ، کم گو، گھنی سیاہ ڈاڑھی۔ کندھے جھکے ہوئے جیسے بھاری بوجھ اٹھا رکھا ہو۔ ان کے برابر میں اس کا پلنگ تھا۔ گہرا گندمی رنگ، کلین شیو، درمیانہ قد، بالوں میں اتری سفیدی نے باقی بچی سیاہی کو گدلا دیا تھا۔ چہرہ کشش سے عاری لیکن آنکھوں میں منظر سمولینے کی صلاحیت نمایاں تھی۔ انداز و اطوار سے مہذب اورپڑھا لکھا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے بعد اس کے کاروباری دوست کا پلنگ تھا، غیرمعمولی گوری رنگت، جگہ جگہ سے اڑے ہوئے بال اور ہلکی سفید داڑھی میں کہیں کہیں سے سنہری اور کتھئی رنگ جھلک رہا تھا۔ دھیمے لہجے والا وہ ایسا کاروباری شخص تھا جو مذہبی ادارے چلانے والوں کے امدادی جال میں سب سے پہلے پھنستے ہیں۔ آگے کمرے کے دروازے کے عین سامنے دو پلنگ اور تھے جو باپ بیٹے کے لیے مختص تھے۔ یہ گھنی سفید داڑھی، بھاری جسامت، درمیانے قد، چار سو مسلسل گھورتی آنکھوں والے ریٹائرڈ سرکاری ملازم اور ان کے سولہ سترہ سالہ کمزور نحیف اور شاید بیمار طالب علم بیٹے کے تھے، جس کے ایک پیر میں ہلکا سا لنگ بھی تھا۔ طالب علم کے علاوہ کمرے میں موجود تمام لوگوں کی عمریں پینتالیس سے اوپر تھیں اور طالب علم کے علاوہ صرف وہی کلین شیو تھا اور محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ بات تشویش کا باعث تھی۔

    سفر کی صعوبتوں کے آثار سب کے چہروں سے نمایاں تھے۔ حالتِ احرام سے نکلنے کے لیے سب نے اپنی اپنی سہولت سے عمرے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ اجنبیت کی دیوار تعارف کی کھڑکی کھل جانے کے باوجود سب کے درمیان ابھی تک سینہ تانے کھڑی تھی۔ رات کے مختلف اوقات میں دو دو چار چار کی ٹولیوں میں لوگ حرم جانے لگے۔ اس نے اپنے کاروباری دوست اور بیگمات کے ساتھ صبح جانے کا پروگرام بنایا تھا۔

    ادارے کی جانب سے ملنے والے کتابچوں کو بار بار پڑھنے اور یاد کرنے کے باوجود ریٹائرڈ آفیسر کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ طواف و سعی کس طرح کی جاتی ہے۔ انہوں نے اس سے درخواست کی کہ وہ ان کی بیوی اور بیٹے کو بھی اپنے ساتھ لے چلے۔ مگر وہ تھوڑی دیر میں ہی اندازہ لگا چکا تھا کہ ریٹائرڈ آفیسر ذہانت کے معاملے میں بہت کمزور ہیں جو کہ معمولی معمولی باتوں کو بھی سمجھ نہیں پار ہے۔ لہذا یہ اس کے لیے سخت مشقت ہوگی، کیوں کہ اس کے دوست اور بھابھی بھی پہلی بار یہاں آئے تھے اور تمام امور سے ناواقف تھے۔

    صبح وہ دونوں جب چوتھی منزل پر اپنی بیگمات کو لینے گئے تو وہاں اچانک کھلبلی مچ گئی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہاں چند سخت پردہ نشین خواتین ہیں، تب وہ مسکرایا اور اپنے دوست سے بولا۔

    ’’لگتا ہے اپنی بیگمات سے رابطے کے لیے کوئی اور ذریعہ استعمال کرنا ہوگا‘‘۔

    اس دوران انہوں نے دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے آواز دی۔ چند ثانیے بعد دونوں کی بیگمات اندر سے نکل آئیں۔ اس کی بیوی بولی۔

    ’’ہمارے گروپ میں نائب مفتی جو مسجد میں لیکچر دیا کرتے تھے اور جنہوں نے کہا تھا کہ خواتین کی حرم میں نماز نہیں ہوتی لہذاوہ اپنی نمازیں ہوٹل یا اپنی قیام گاہ پر ہی ادا کریں، ان کی بہو بھی ہیں اور وہ سخت پردہ کرتی ہیں‘‘۔

    ’’بےچارے مولوی کو عورتوں سے نہ جانے کیا پریشانی رہتی ہے۔ کبھی ان کا کردار، کبھی ان کا تعلیم حاصل کرنا، کبھی میراتھن ریس میں حصہ لینا اور کبھی نوکری کرنا پسند نہیں آتا اور اب تو حرم میں نماز ادا کرنے پر بھی اعتراض ہے۔ ہاں بچے پیدا کروانا پسند ہے ،کیونکہ یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اگر اس کا بھی بدل ہوتا تو یہ کام بھی کسی اور سے کروا لیتا اور عورت کو زندہ درگور کر دیتا کیونکہ اس کے خیال میں عورت ہی وہ جنس ہے جو مرد کو جنت سے نکلوا کر جہنم میں لے جاتی ہے‘‘۔

    ’’بھائی صاحب! میں تو مفتی صاحب کی بات مانوں گی۔ میں حرم میں نماز نہیں پڑھوں گی‘‘۔

    کاروباری دوست کی بیوی نے ٹھوس لہجے میں کہتے ہوئے اس کی بیوی سے پوچھا۔ ’’بھابی آپ کہاں نماز پڑھتی رہی ہیں؟‘‘

    ’’بھابی میں تو پہلے بھی حرم میں ہی نماز پڑھتی رہی ہوں ،اور اب بھی پڑھوں گی۔ وہاں خواتین کے لیے علیحدہ حصے مخصوص ہیں۔ آپ بھی وہاں سکون سے نماز ادا کر سکتی ہیں‘‘۔

    ’’نہیں نہیں بھابی! مولانا صاحب کہتے ہیں کہ امام کعبہ صرف مردوں کی جماعت کی نیت کرتے ہیں، عورتوں کی نہیں، لہذا عورتوں کی حرم میں نماز ہی نہیں ہوتی‘‘۔

    کاروباری دوست کی بیوی نے ایک بار پھر پرزور لہجے میں کہا تو اس نے ان کی طرف ایک سوال داغ دیا۔

    ’’بھابی عورتوں کی حرم میں جماعت نہیں، اپنے ملک کی مساجد میں جماعت نہیں، عورت کی امامت میں بھی جماعت نہیں، تو اس کا مطلب ستائیس درجے زیادہ ثواب کا فائدہ تو صرف مرد کو حاصل ہوتا ہے۔ عورتیں تو قیامت تک محروم رہیں گی اور پھر جب قیامت میں حساب کتاب ہوگا تو نیکیوں والے اعمال کے ہلکا ہونے کے سبب وہ جہنم میں جائیں گی۔ یعنی مولوی نے عورتوں کو جہنم میں بھیجنے کا پورا پورا بندوبست کر دیا ہے۔ کیوں کہ اس کا تو جنت میں خوبصورت حوریں سر تسلیم خم کیے انتظار کر رہی ہیں۔ اس لیے نہ صرف ان عورتوں کو برابر کی حیثیت نہیں دیتا بلکہ پرواہی نہیں کرتا اور جب کبھی عورت اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے یا سیاہ راتوں میں بنائے ہوئے کالے قوانین پر احتجاج کرتی ہے تو یہ چیخ پڑتا ہے‘‘۔

    بلڈنگ سے اترنے اور ٹیکسی میں بیٹھنے کے دوران انہیں یاد آیا کہ وہ اب حرم کی طرف عازمِ سفر ہیں۔ تب ان کی زبانوں سے اے اللہ میں حاضر ہوں کا کلمہ جاری ہو گیا۔ حرم کے سامنے ٹیکسی سے اترتے ہوئے کاروباری دوست کی بیوی نے اسے یاد دلایا۔

    ’’بھائی صاحب! یاد ہے نا ہمیں باب السلام سے داخل ہونا ہے‘‘۔

    ’’بھابی یہ اتنا ضروری نہیں۔ حرم چاروں طرف سے حرم ہے۔ بلکہ کعبۃ اللہ جتنا باب فہد سے صاف اور نمایاں دکھائی دیتا ہے کہیں اور سے نظر نہیں آتا‘‘۔

    ’’نہیں بھائی صاحب! کتاب میں لکھا ہے کہ جب آپ پہلی بار حرم میں داخل ہوں تو باب السلام سے داخل ہوں۔ میں تو وہیں سے داخل ہوؤں گی‘‘۔ وہ سختی سے بولیں۔ ’’اللہ کے رسول ہمیشہ اسی دروازے سے داخل ہوتے تھے‘‘۔

    ’’بھابی! چودہ سو سال پہلے یہ دروازے وغیرہ کہاں تھے؟ لق و دق صحرا تھا یا چھوٹے بڑے مکان، جن میں کفار کے مکان زیادہ تھے۔ البتہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ چونکہ آپ کا گھر اسی سمت تھا، لہذا قریب قریب اسی جگہ سے گزر کر حرم میں جاتے ہوں گے۔ اس میں فرق بھی ہو سکتا ہے‘‘۔ پھر اس نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے مزید کہا۔ ’’لیکن ایک اور بات پر غور کیجئے۔ فرض کریں کہ اللہ کے رسول آس پاس کی بستیوں سے واپس آ رہے ہوں اور کعبہ کی طرف جانا ہو تو کیا وہ پہلے اس جانب آتے ہوں گے تاکہ باب السّلام والا راستہ اختیار کریں، یا کسی بھی سمت سے حرم آ جاتے ہوں گے؟‘‘

    ’بھائی صاحب! آپ بات کو الجھاتے بہت ہیں‘‘۔

    ’’میں الجھاتا نہیں ہوں۔ البتہ عمومی رائے سے ہٹ کر زیاد ہ سوچنے کی معمولی سی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ ایسا کرنے سے زیادہ گہرائی تک سمجھنے کا موقع ملتا ہے‘‘۔

    اس نے ہاتھ میں تھامے ہوئے کتابچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    ’’میں ان کتابچوں کے خلاف نہیں ہوں، ان سے بہت سارے لوگوں کو مدد ملتی ہے۔ لیکن کم سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ ان کو پڑھ کر ایسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسا آپ کر رہی ہیں کہ اگر ان میں لکھے ہوئے احکامات کے مطابق امور انجام نہ دیئے تو عبادات مقبول نہ ہو سکیں گی‘‘۔

    تب اس کی بیوی نے ہلکا سا اشارہ کیا اور وہ خاموش ہو گیا۔ اس دوران وہ باب السلام پر پہنچ چکے تھے۔

    عبادات کی ادائیگی کے بعد ہوٹل واپس لوٹتے ہوئے اسے شہر میں چار برس پہلے کے مقابلے میں حیرت انگیز تبدیلیاں دکھائی دیں۔ وہ کئی بار یہاں آ چکا تھا اور جدید طرزِ تعمیر اور طرز زندگی کا مشاہدہ پہلے بھی کیا تھا۔ مگر اس بار اسے کمرشل ازم اور تجارتی ذہنیت کا نفوذ زیادہ دکھائی دیا۔ اسے لوگ، طرز معاشرت، عمارتیں، رستے اور زندگی کے رویوں کا جائزہ لینے اور سمجھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ وہ تنہا ہو یا لوگوں کے درمیان، اسے اپنے اردگرد ہونے والی زرا زرا سی حرکت کو بھی بغور دیکھنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ پہاڑوں میں سے نکالی ہوئی جدید سرنگوں کو پار کرتے ہوئے شہر کے مختلف علاقوں سے گزرا تو اسے لگا جیسے شہر جو کبھی کالے سیاہ پتھریلے پہاڑوں سے ڈھکا ہوا تھا، اب بلند وبالا عمارتوں سے ڈھکتا جا رہا ہے۔ تجارتی مقاصد کے لیے سڑکوں کے دونوں طرف ہزاروں سال سے آسمان کی طرف سر اٹھائے اور اس سے کہیں زیادہ زمین میں میخوں کی طرح گڑے ہوئے گرینائٹ جیسا سخت ماربل پیدا کرنے والے پہاڑوں کو بھاری اور جدید مشینوں سے نوے ڈگری کے زاویے میں کاٹ کاٹ کر عمارتوں کو تعمیر کیا جا رہا تھا۔ پرانی اور قدیم عمارتیں برائے نام رہ گئیں تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ کتاب برحق کی روشنی میں اس شہر کی بنجر اور غیر پیداواری زمین پر وعدے کے مطابق پھلوں کی روزی ہمیشہ اترتی رہے گی۔ مگر نہ جانے کیوں اسے لگا کہ شہر میں بسنے والے لوگوں کو دولت کمانے کی آرزو نے بےتوقیر کر دیا ہے۔

    اس کی خواہش ہوئی کہ وہ دیکھے کہ یہاں آباد لوگ اپنے ماضی کی تہذیب اور ثقافت کی بقا کے لیے کیا کرتے ہیں۔ وہ حال میں کیسے جیتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اعلیٰ اقدار اور شاندار مستقبل تراشنے کے لیے خواب کیسے دیکھتے اور روشن تعبیر کے لیے آدرشوں کے چراغ کیسے جلاتے ہیں۔ احساس اور شعور کے منارے کیسے تعمیر کرتے ہیں۔۔۔چنانچہ سڑکوں پر بنے ہوٹلوں، بازاروں کے بیچ سے گزرتے ہوئے اس نے ایسی دکانوں، عمارتوں اور روشن و بجھے سائن بورڈ ڈھونڈنے کی کوشش کی جن کی مدد سے ایک تعلیم یافتہ معاشرہ کی شکل بنتی ہو۔۔۔ لیکن وہ ناکام رہا۔۔۔

    اسکول۔۔۔کالج۔۔۔کتابوں کی دکانیں۔۔۔لائبریریاں۔۔۔انسٹی ٹیوٹ۔۔۔میوزیم۔۔۔آرٹ گیلریز۔۔۔اسٹیشنری حتیٰ کہ فوٹو اسٹیٹ کی دکانیں۔۔۔

    اچانک اس کے ذہن میں گرہ لگ گئی۔

    فوٹو اسٹیٹ کی مشین۔۔۔

    دماغ میں سوچ کی لہر پر تھرکتا نغمہ ایک ہی بول پر اٹک کر رہ گیا۔

    فوٹو اسٹیٹ کی مشین۔۔۔

    اسے اپنے شہر میں جگہ جگہ لگے ہوئے بورڈ یاد آئے جہاں سارا سارا دن دستاویزات، کتابیں، نوٹس، معاہدے، فائلیں اور شہر بھر میں بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے سینکڑوں اسکولوں کے کمپوز شدہ صفحات اور نہ جانے کیا کیا کچھ، ایک سے دوسرے صفحے پر منتقل ہوتا رہتا ہے۔ بعض قانونی تحفظات کے باوجود یہ مشین تعلیم یافتہ معاشرے میں اپنا سا کردار ادا کرتی ہے۔

    اس کے دھیان میں حیرت کی بجلی کوندی۔ واقعی اس شہر میں ایسے عناصر غیرموجود سے ہیں۔ تمدن بھی وہ ہے جسے کسی حکم سے نافذ کیا گیا ہے۔ وہ کلچر اور سماج جو زمین کی جڑوں سے پھوٹتا ہے اور جس کی مٹی میں تہذیب اور اس سے جڑے ہوئے فن عمارت سازی، فن مصوری، رسم و رواج، ثقافت اور ادب پیدا ہوکر ایسے معاشرے کی تصویر بناتے ہیں جو اپنے زندہ ہونے کی پہچان کرواتا ہے، یہاں مفقود تھا۔

    تہذیب، معاشرے اور کلچر کے صدیوں تک زندہ رہنے کے اسباب اور رفتہ رفتہ اوجھل ہوتے زمانے کے رنگوں کی آمیزش سے بنتی ہوئی نئی تصویر کے دھندلے خاکوں پر غور کرتا ہوا وہ ہوٹل پہنچ گیا تھا۔ جہاں ایک اور مشکل نے اسے آ گھیرا۔ لیکن ڈھیروں سوال زدہ آنکھوں کے باوجود اس سے کوئی سوال نہیں کیا گیا۔

    عمرے کی ادائیگی کے بعد گروپ کے تمام لوگ بشمول اس کے کاروباری دوست گنجے ہو گئے تھے۔ مگر وہ نہیں ہوا تھا۔ شاید اس خیال سے کہ ہو سکتا ہے یہ شخص ہفتے بھر بعد حج پہ گنجا ہوگا، وہ خاموش رہے۔ کمرے میں موجود تمام لوگ اب ایک دوسرے کے بیچ کھڑی اجنبیت کی دیوار گرا کر گفتگو کرنے لگے تھے۔

    دوسرے دن کمرے میں گفتگو کا موضوع گروپ میں شامل انیس سالہ مروان تھا جو یہاں آنے کے بعد سے مسلسل غائب تھا۔ گروپ کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ وہ ایک عمرہ ادا کرتا ہے اور پھر دوسرے کے لیے چل پڑتا ہے۔ کمرے میں موجود کچھ لوگوں نے اسے دین کی محبت سے تعبیر کیا۔ تب وہ بولا۔

    ’’اگر کوئی شخص یہاں پہلی بار آیا ہے، تب بھی یوں جنونی انداز سے عبادت نہیں کرنا چاہیے۔ اعتدال ضروری ہے۔ ہوٹل آئے، فریش ہو، وقت پر کھانا کھائے، آرام کرے اور پھر جب جی چاہے حرم جائے اور خوب عبادت کرے، مگر یہ کون سا انداز ہے کہ مروہ کی پہاڑی پر دو گھڑی سکون سے اپنے رب کا شکر بھی ادا نہیں کرتے کہ مسجد عائشہ کی طرف دوڑ پڑتے ہو‘‘۔

    کمرے میں موجود کچھ لوگوں نے اسے گھورا۔ اب وہ انہیں غیر شرعی ہی نہیں نامعقول بھی لگا۔ مفتی کی تیوریوں پر بل صاف دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن اس نے لاتعلقی سے چہروں کی مختلف حالتوں کا سرسری جائزہ لیا اور اسٹیم لینے والی ہیٹر مشین میں وکس بھرنے میں مصرو ف ہو گیا۔

    رات کو کھانے میں آج پھر شیخ الحدیث کو روٹی پسند نہیں آئی۔ وہ پہلے دن ہی سے روٹی کی شکایت کیے جارہے تھے۔ انہیں تندور کی پھولی ہوئی روٹی چاہیے تھی۔ جب کہ یہ پلانٹ پر تیار کی ہوئی روٹی تھی۔ مگر وہ بھی اپنی عادت سے مجبور تھا۔ لہذا خاموش نہ رہ سکا۔

    ہم یہاں چالیس چھوٹے چھوٹے گروپوں کو ملاکر دو ڈھائی ہزار آدمی ہیں۔ اگر سرسری حساب لگائیں کہ ایک آدمی کے لیے دو روٹیاں ہوں تو کم از کم پانچ ہزار روٹیاں ایک وقت کے کھانے کے لیے درکار ہوں گی۔ انتظامیہ نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ دوپہر میں ظہر کے ایک گھنٹے بعد اور رات کو عشاء کے ایک گھنٹے کے بعد کھانا مل جایا کرےگا اور وعدے کے مطابق تازہ کھانا تیار ہو کرآ بھی جاتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ پانچ ہزار روٹیاں پکانے کے لیے کتنے تندور اور کتنے بازو درکار ہوں گے اور وہ کتنے گھنٹوں میں پانچ ہزار روٹیاں پکا کر بھیجیں گے اور کیا یہ ممکن ہے کہ وہ وقت پر ہمیں کھانا دے سکیں؟ میرا خیال ہے یہ ناممکن ہوگا۔ لہذا اس کا آسان حل پلانٹ کی روٹی ہی ہے۔ یوں بھی ہماری زندگی میں مشین دخل اندازی کر چکی ہے اب اسے اپنی تخلیقی اولاد مان لینا چاہیے‘‘۔

    ’’کون نہیں مانتا؟‘‘مفتی نے تنک کر پوچھا۔

    ’’مولوی نہیں مانتا اور اگر مانتا ہے تو بعد از خرابی بسیار‘‘۔

    ابھی وہ اپنی بات کہہ ہی رہا تھا کہ گروپ کے ذمہ دار پروفیسر نے آکر کہا کہ سب لوگ لاؤنج میں جمع ہو جائیں۔ آج کا بیان خصوصی ہے۔ ایک معروف عالم تشریف لا رہے ہیں۔ وہ حج کے فرائض و واجبات کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ وہ اپنی طبیعت کے مطابق اس طرح کے بیان سے گھبراتا تھا۔ ایک بار شریک ہوا تھا مگر گفتگو کی سطحیت سے گھبرا کر واپس آ گیا۔ اس کا دوست ریٹائرڈ آفیسر، ان کا بیٹا، سپرٹنڈنٹ اور اکاؤنٹینٹ مستقل شریک ہوا کرتے تھے۔ شیخ الحدیث کی یہاں آنے کے بعد سے ملاقاتیں اور ٹور شروع ہو گئے تھے۔ وہ کبھی موجود ہوتے ،کبھی نہیں۔ ایک روز پہلے لاؤنج میں وضو کا طریقہ، اس کے فرائض، واجبات اور سنتوں پر گفتگو ہوئی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں ہی تھا۔ جب اس کے کاروباری دوست واپس لوٹے تو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے انگلیوں پر کچھ گن رہے تھے۔ اس نے پوچھا۔

    ’کیا حساب کتاب کر رہے ہیں؟‘‘

    ’’وضو کے فرائض، واجب، سنت اور مستحبات یاد کر رہا ہوں‘‘۔

    ’’بچپن سے وضو کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اب کیا شک پیدا ہو گیا ہے؟‘‘

    ’’اگر یاد ہوں تو اچھی بات ہے‘‘۔

    ’’اگلی بار اٹھارہ مستحبات کو گن گن کر وضو بنائیےگا اور جب واش بیسن پر کھڑے ہو کر وضو بنا رہے ہوں تو سیدھے ہاتھ پر لوٹا بھی رکھئےگا۔ کیونکہ بعض کتابوں کے مطابق سیدھے ہاتھ پر لوٹا رکھنا بھی مستحبات میں شامل ہے‘‘۔

    ’’ہاں یہ بات تو ہے‘‘۔ وہ حیرت سے بولے۔

    ’’اسی لیے میں معاملات کو کتابِ برحق کی اس آیت کی روشنی میں دیکھتا ہوں جس میں دین میں آسانی کا ذکر کیا گیا ہے اورمیں اسی لیے اس طرح کی نشستوں سے گھبراتا ہوں‘‘۔

    مگر نہ جانے کیوں وہ آج چلا گیا اور علیحدہ کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ سامنے دیوار سے ٹیک لگائے ایک عمر رسیدہ سفید باریش مولانا اور ان کے اردگرد گروپ کے بہت سارے لوگ گھیرا بنائے بیٹھے تھے۔ پروفیسر نے انہیں بات شروع کرنے کا اشارہ کیا۔ جب وہ بولے تو آواز میں کُھردرا پن صاف نمایاں تھا۔ بیان انہوں نے اللہ اور رسول کی محبت، سرزمین عرب، حرم سے شروع کیا جو حج سے متعلق صرف چند باتوں سے ہوتا ہوا دعوت تبلیغ تک جا پہنچا۔ تب اسے لگا کہ آج پھر غلط آ گیا۔ مولانا بول رہے تھے۔

    ’’سبحان اللہ! یہ حج کا موقع ہے۔ ایسے موقعے بار بار نہیں آتے۔ ذرا چاروں طر ف نظریں دوڑائیں اور دیکھیں کہ ماشاء اللہ سے کتنی خلقت امڈ آئی ہے۔ پاکستانی، ہندوستانی، انڈونیشی، افریقی، افغانی، ترکی، ایرانی، واہ واہ کتنی نسلوں اور زبانوں کی محفل سجی ہوئی ہے۔ غرض جب تک حج ہے آپ کے اردگرد لاکھوں کا مجمع ہے۔۔۔ تو کیا آپ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟ ارے چاروں جانب بے قرار دل اور بےتاب آنکھیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہمیں دعوت دو اور آپ لوگ ہاتھ آئی اس دولت کو یوں ہی ہاتھوں سے پھسل جانے دیں گے؟ یاد کیجئے اس فرض کو جس کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آپ جیسے نوجوان مسلمانوں کو پیغام عام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس عظیم الشان موقع کو ہر گز نہ گنوائیں۔۔۔لوگوں سے ملیں۔۔۔ان سے باتیں کریں۔ انہیں بتائیں کہ ہمارا دین کیا ہے۔ دیکھئے پھر آپ پر کیسے رحمتوں کے دروازے کھلتے ہیں‘‘۔

    وہ بے تکان تقریر کیے جارہے تھے۔ وہ حج سے متعلق ضروری باتوں کو بتانا بھول کر اپنے اصل مقصد کی طرف آ گئے تھے۔

    ’’تو کیوں نا یہ کام ابھی سے شروع کر دیں؟‘‘

    ’’جی ہاں حضرت! بسم اللہ‘‘۔

    کئی طرف سے آوازیں آئیں۔ وہ سرجھکائے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خاموشی سے اٹھ جانا چاہتا تھا، مگر آگے ہونے والی کاروائی کو دیکھنے کی خواہش میں سرجھکائے بیٹھا رہا۔ مولانا نے پرجوش لہجے میں قریب بیٹھے ہوئے ایک نوجوان سے کہا۔

    ’’سلمان صاحب! کاغذ قلم لیجئے اور نام لکھنا شروع کیجئے‘‘۔

    پھر وہ ایک ایک کرکے سب سے مخاطب ہونے لگے۔

    ’’ہاں جناب! آپ کتنے دن لگائیں گے؟‘‘

    ’’میں تین دن لگاؤں گا‘‘۔ ایک نوجوان نے کہا۔

    ’’حج سے پہلے۔۔۔اور حج کے بعد؟‘‘

    ’’حج کے بعد بھی تین دن‘‘۔

    ’’ماشاء اللہ۔۔۔‘‘ پھر وہ دوسرے سے مخاطب ہوئے۔ ’’ہاں جناب آپ بتائیے؟‘‘

    ’’ایک ہفتہ۔۔۔‘‘ آواز آئی۔

    ’’اور بعد میں؟‘‘

    ’’ایک ہفتہ اور‘‘۔

    ’’بھئی واہ سبحان اللہ! سلمان صاحب ان کا نام لکھئے‘‘۔ پھر وہ تیسرے سے مخاطب ہوئے،اور یوں یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ ریٹائرڈ آفیسر کے بیمار اور کمزور بیٹے نے ساری زندگی تبلیغ کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔

    ماشا ء اللہ اور سبحان اللہ کی صداؤں میں نام لکھے جاتے رہے۔ اس کا کاروباری دوست نہ جانے کیسے مولانا کی نظروں سے اوجھل رہا، مگر وہ پھنس گیا۔مولانا کا آخری مخاطب وہی تھا۔

    ’’جی حضرت! آپ تو سب سے پیچھے بیٹھے ہیں۔ ذرا قریب آ جائیں اور بتائیں کہ کتنا وقت دیں گے؟‘‘

    اس نے مولانا سے سوال کیا۔

    ’’آپ سچ سننا چاہتے ہیں کہ جھوٹ؟‘‘

    ’’بھئی سچ ہی سننا چاہیں گے۔ جھوٹ تو کسی حالت میں نہیں بولنا چاہیے‘‘۔

    ’’تو پھر سچ یہ ہے کہ میں ذرا بھی وقت نہیں دے سکتا‘‘۔

    ’’کیا مطلب؟‘‘ وہ چونکے۔ اب تک سب لوگوں نے ایک دن سے لے کر ساری زندگی تک وقف کرنے کا وعدہ کیا تھا اور وہ بالکل الٹ کہہ رہا تھا۔ اسی لیے مولانا حیران ہوئے تھے۔

    ’’آپ نے کہا کہ سچ کہیے تو سچ یہی ہے کہ میں اس کام کے لیے کوئی وقت نہیں نکال سکتا۔ نہ یہاں، نہ پاکستان میں۔ اس کے لیے میرے پاس کوئی وقت نہیں ہے‘‘۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’مجھے بہت سارے کام ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میں انہیں اس کام سے زیادہ اہم سمجھتا ہوؤں‘‘۔

    ’’آپ کے ساتھ تو شیطان لگا ہوا ہے‘‘۔ انہوں نے چھوٹتے ہی کہا۔’’یہاں ہر شخص نے کچھ نہ کچھ وقت لگانے کا وعدہ کیا ہے‘‘۔

    ’’ہو سکتا ہے انہوں نے جھوٹ بولا ہو‘‘۔ وہ بولا۔

    ’’میاں اگر انہوں نے جھوٹے منہ نیکی کرنے کی بات کی ہے تب بھی اس کا انہیں اجر ملےگا‘‘۔ انہوں نے پُر یقین لہجے میں کہا۔

    اس کے جی میں آئی کہ کہہ دے کہ جو جھوٹ بولے اس کے لیے اجر و ثواب اور جو سچ کہے اس کے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ مگر وہ یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ تین دن بعد ان لوگوں سے جنہوں نے تین دن لگانے کا وعدہ کیا ہے وہ ضرور پوچھےگا۔

    اگلے تین دنوں میں اس نے کسی کو ترکی، ایرانی، انڈین، یا افریقیوں کے پاس جاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ تب کھانے کے دوران اس نے اپنے دوست سے سرگوشی میں کہا۔

    ’’جنہوں نے تین دن کا وعدہ کیا تھا ان سے پوچھ لیتا ہوں کہ انہوں نے وعدہ پورا کیا؟‘‘

    ’’چھوڑو رہنے دو‘‘۔ دوست نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

    ’’جی ہاں آپ تو یہی کہیں گے کیوں کہ آپ تو صاف بچ گئے تھے۔ پھنس تو میں گیا تھا اور پھر میرے ساتھ تو شیطان بھی لگا دیا گیا‘‘۔

    کاروباری دوست ہنسنے لگے۔

    دوسرے دن صبح دونوں منیٰ کی طرف نکل گئے، جو ان کی رہائش گاہ سے چند منٹ کے فاصلے پر واقع تھا۔ دور دور تک سناٹا تھا۔ چنددن بعد وہاں لاکھوں کا مجمع اکھٹا ہونے والا تھا۔ لیکن اس وقت صرف محکمہ صفائی کا عملہ ہی دکھائی دے رہا تھا۔ دونو ں ٹہلتے ہوئے اس پل کے نیچے جا پہنچے جہاں علامتی شیطان نصب تھے۔ وہ ان علامتی شیطانوں کے سابقہ اور موجودہ ڈھانچوں کے فرق کو بتانے لگا۔ اس کے دوست نے کہا۔

    ’’سنا ہے لوگ شیطانوں کو پتھروں کے علاوہ چپلیں، بوتلیں اور جو ہاتھ میں آ جاتا ہے مارتے ہیں؟‘‘

    ’’کیوں کہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ شیطان ہے۔ حقیقت میں یہ شیطان نہیں بلکہ اس کی علامت ہے۔ اس علامت کو کنکریاں مارنے کے فلسفے کے پیچھے چھپے ہوئے کمٹ منٹ سے ہم ہی واقف نہیں ہیں۔ہمارے کمرے کے مفتی یا دوسرے کمرے میں موجود بنگالی شیخ الحدیث جیسے ہزاروں مولوی یہ بتانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے‘‘۔

    ’’تم مولویوں کو چھوڑوگے نہیں۔ تب ہی وہ کہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے‘‘۔

    ’’آپ کیا سمجھتے ہیں شیطان کوئی معمولی شے ہے؟ یہ خدا کی بہت اہم تخلیق ہے۔ کیا اس نے آدم کو سجدہ اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا؟ یا جنت میں آدم و حوا کو اس نے جو پھل کھانے پر اکسایا، کیا وہ اپنی مرضی سے اکسایا تھا؟ یا اب جو کچھ وہ کرتا پھرتا ہے وہ اپنی مرضی سے کرتا ہے؟ نہیں۔۔۔یہ سب وہ خدا کی مرضی سے کرتا ہے۔ وہ خدا کے بنائے ہوئے بہت سارے مہروں میں سے ایک مہرہ ہے۔ جسے کچھ صلاحیتیں دے کر ایک ذمہ داری سونپی گئی ہے۔۔۔ایک منفی ذمہ داری‘‘۔

    ’’یہ کیا عجیب بات کرتے ہو۔ تمہارا مطلب ہے کہ شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار اللہ تعالیٰ کے کہنے پر کیا تھا۔۔۔یا جنت میں پھل بھی اسی کے کہنے پر کھلایا تھا؟‘‘

    ’’اللہ ایسا ہی چاہتا تھا۔ مجھے ایک بات بتائیے کہ جب خدا نے آدم کو تخلیق کرنے کا ارادہ کیا تو فرشتوں نے کہا کہ یہ دنیا میں جا کر فساد و برپا کرےگا تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ یہی کہا تھا نا؟‘‘

    ’’جی ہاں!‘‘۔

    ’’فرشتوں کو یہ کیسے معلوم تھا کہ انسان کو دنیا میں بھیجا جائےگا؟ جب کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں بھیجنے والا تھا۔ یعنی یہ پہلے سے طے شدہ بات تھی کہ کسی بھی واقعہ یا غلطی کے تحت ہی سہی، الٹی میٹ لی انسان دنیا میں جا کر ہی رہےگا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو جنت میں ایسا درخت ہی نہ اگاتا جس کے کھانے سے حکم عدولی ہوتی ہو۔ چونکہ اسے واقعہ کے اسباب پیدا کرنے تھے، لہذا وہ درخت موجود ہوتا ہے۔ دوسری طرف انسان کی فطرت میں تجسّس رکھ دیتا ہے اور تیسری طرف شیطان کو کہتا ہے کہ جا تجھے انسان کو گمراہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑتا ہوں۔ میرا خیال ہے اس نے شیطان کو ایک منصب دے کر بھیجا ہے۔ خدا اس سے وہ سارے کام کرواتا ہے جو وہ خدا ہونے کے سبب نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ خدا خیر ہی خیر ہے‘‘۔

    ’’مطلب انسان نے وہ پھل کھا کر کوئی غلطی نہیں کی؟‘‘

    ’’انسان کو وہ پھل لا محالہ کھانا ہی تھا۔ کیونکہ جنت سے نکالنے اور دنیا میں بھیجنے کے لیے جہاں اسے قیامت تک رہنا ہے کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کرنی تھی۔ آدم و حوا پھل کھانے کی غلطی نہ کرتے، کوئی اور کرتے۔ اس دن نہ کرتے کسی اور دن کرتے، لیکن کرتے ضرور‘‘۔

    ’’مولوی صاحب ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے‘‘۔

    دوست نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ تم شیطان کو کنکریاں تو نہیں ماروگے؟‘‘

    ’’میں اس علامت کو کنکریاں ضرور ماروں گا۔ لیکن اس تصور اور یقین کے ساتھ کہ میں اپنے رب کے حضور یہ کہہ سکوں کہ اے میرے رب میں اس شر سے نفر ت کا اظہار کرتا ہوں جس سے تونے بچنے کا حکم دیا ہے‘‘۔

    دوپہر ہو چلی تھی۔ دونوں کے قدم واپسی کے لیے مڑ گئے۔ چند منٹ بعد وہ اپنی قیام گاہ کے دروازے پر تھے۔ جہاں انتظامیہ کے پانچ خادمین میں سے ایک کلیم اللہ کھڑا ہوا تھا۔ اس نے انہیں دیکھتے ہی کہا۔

    ’’کیا بلڈنگ ون سے آ رہے ہیں؟‘‘

    ’’کیوں۔۔۔وہاں پر کیا ہے؟‘‘

    ’’سب ہی وہاں چکر لگاتے ہیں‘‘۔

    ’’کس لیے؟‘‘

    ’’وہاں اسٹارز ہیں، کرکٹرز ہیں اور سب سے بڑھ کر مولانا مفتی صاحب ہیں‘‘۔

    ’’میرے بھائی! نہ مجھے ان اسٹارز سے نہ کرکٹرز سے اور نہ ہی آپ کے مولانا مفتی صاحب سے۔۔۔سوری۔۔۔اس نے اپنی دونوں ہتھیلیاں ہوا میں لہراتے ہوئے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

    ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ سب سے الگ تھلک رہتے ہیں، آخر کیوں؟‘‘ کلیم نے پوچھا۔

    ’’صرف رہتا ہی نہیں بلکہ باقاعدہ کوشش بھی کرتا ہوں‘‘۔ وہ یہ کہتے ہوئے لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔

    بڑے ہال میں چھوٹے چھوٹے لاؤڈ اسپیکر تاروں کے گچھے، اسٹینڈ اور دیگر آلاتِ سماعت کا ڈھیر لگا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے ان کے بارے میں پوچھا تو پتا چلا کہ منیٰ کے کیمپ میں نصب ہوں گے جہاں مولانا مفتی صاحب کا بیان ہوگا۔

    ’’یعنی پھر مولانا صاحب۔۔۔‘‘

    ’’کیا آپ کو ان سے کوئی پریشانی ہے؟‘‘

    ’’کوئی پریشانی نہیں ہے۔ مجھے صرف شخصیت پرستی سے چڑ ہے‘‘۔ وہ تینوں لفٹ کے انتظار میں کھڑے ہوئے تھے جس کا سرخ نشان چار پر اٹک گیا تھا۔ وہ قرب پڑے صوفے پر ڈھیر ہوتے ہوئے مزید بولا۔ ’’ہم شخصیت پرستی کے جنون میں مبتلا قوم ہیں۔ خاص طور سے سیاسی اور مذہبی شخصیت پرستی، جس نے ہمارے ان دونوں اداروں کو تباہ کر ڈالا ہے۔ اگر ہماری یہی حالت رہی تو کچھ اور ادارے جن پر ہمارا یقین اور بھروسہ باقی ہے وہ بھی تباہ ہو جائیں گے‘‘۔

    ’’لیکن سر جی! سچی بات یہ ہے کہ وہ بڑا نیک کام کر رہے ہیں‘‘۔

    ’’جی ہاں!‘‘ اس نے طنزیہ کہا۔ ’’کرکٹ کے کھلاڑیوں کو جو مسلمان تو پہلے بھی تھے اب تبلیغی بنا دیا اور جو مسلمان نہیں تھا اسے بھی کلمہ پڑھوا دیا۔ اب سب مل کر کرکٹ کم کھیلتے ہیں، تبلیغ زیادہ کرتے ہیں‘‘۔

    ’’سر جی! دین کی ترویج بہت بڑا نیک کام ہے اور پھر بگڑے ہوئے کرکٹرز نماز روزے کے پابند ہو گئے ہیں۔ پہلے راتوں کو ڈسکو جاتے تھے اب ساری ساری رات عبادت کرتے ہیں‘‘۔

    ’’پہلے اس سے تھکتے تھے اب اس سے تھکتے ہیں۔ میرے بھائی!‘‘۔ اس نے نہایت رسانیت سے کہا۔ ’’کرکٹ ٹیکنیکل اور پروفیشنل کھیل ہے۔ کھلاڑی ٹیم میں اعلیٰ سطح کی کارکردگی کی بنیاد پر شامل کیے جاتے ہیں۔ ان کی پہلی ترجیح کھیل ہی ہونا چاہیے اور اگر ان کی پہلی ترجیح کچھ اور ہے تو وہ جا کر وہی کام کریں، کرکٹ کو برباد نہ کریں‘‘۔

    ’’سر جی آپ دیکھئےگا یہ لوگ ورلڈ کپ میں جان لڑا دیں گے۔ مولانا صاحب کی محنت اور ان کی عبادت کی بدولت ورلڈ کپ ہمارا ہوگا‘‘۔ کلیم اللہ نے لفٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے پورے یقین سے کہا۔

    ’’کاش میں آپ کی بات پر آمین کہہ سکتا۔ مگر میں ایسا نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ کھیل سے عدم دلچسپی کا یہی عالم رہا تو ورلڈ کپ میں جو حشر ہوگا وہ میں ،آپ سب دیکھیں گے‘‘۔

    ’’لگتا ہے آپ کے اندر مایوسی اور غصے نے گھر کر لیا ہے۔ آپ مولانا صاحب کی خدمات کو دیکھئے کہ وہ کیسی اعلیٰ سطح کی ہستیوں کے اجلاسوں میں وعظ کرتے ہیں اور ہر طرح کی برائی کے خاتمے کا حکم دیتے ہیں، دین کی دعوت دیتے ہیں اور لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتے ہیں‘‘۔

    ’’اس کے باوجود اعلیٰ سطح کی اشرافیہ کا دھوکہ، فریب، مکر اور چالبازی سے لوٹ مار کا گراف مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ ان کی نیکی کی تلقین کا الٹا اثر ہو رہا ہے۔ مجھے شیخ سعدی کی ایک حکایت یاد آ رہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر لوگ واعظ کی نصیحت کا اثر نہ لیں تو خرابی لوگوں میں نہیں واعظ میں ہوتی ہے‘‘۔

    اسی اثنا میں لفٹ اوپر پہنچ گئی۔ کمرے میں پہنچے تو پتا چلا کہ مروان آ گیا ہے۔ بہت بُری حالت تھی۔ آنکھوں کے پپوٹے نیند پوری نہ ہونے کے سبب سوجے ہوئے، احرام کی چادریں جگہ جگہ سے میلی اور پورا بدن تھکا ہوا تھا۔ لہذا آتے ہی سو گیا اور سونے سے پہلے اپنے کمرے کے لوگوں سے کہا کہ کوئی اسے نہ چھیڑے ورنہ اس کا انجام اچھا نہ ہوگا۔

    اسے مروان کا کردار دلچسپ نظر آیا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ اس نوجوان کو دیکھے جو پڑھے لکھے خاندان سے اور ایم بی اے کا طالب علم تھا۔ کچھ لوگوں نے اسے تبلیغ کی راہ دکھائی تو وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر ان میں شامل ہو گیا۔ یہاں آنے سے ایک دن پہلے بھی وہ چلّے سے لوٹا تھا۔ مذہب کی اس شدت نے اسے گھر اور تعلیم سے بےگانہ کر دیا تھا۔ کمرے میں موجود لوگوں سے مروان کے بارے میں یہ سب جاننے کے بعد اس نے صرف ایک جملہ ادا کیا۔

    ’’کاش میرے ملک میں ایک ایم بی اے سند یافتہ نوجوان کا اضافہ ہوتا‘‘۔

    اس دورا ن مفتی اور شیخ الحدیث موبائل فون سے عربی خبریں پڑھنے میں مصرو ف ہو گئے۔ مفتی نے جو حال ہی میں موبائل سم خریدی تھی اس میں پندرہ ریال کے عوض عالمی خبروں کی سہولت تھی۔ مگر اکثر خبریں عراق میں جاری جنگ سے متعلق ہوتیں۔ مفتی کی عربی پر دسترس بھرپور نہ تھی، لہذا وہ شیخ الحدیث کی مدد لیا کرتا۔ شیخ الحدیث ترجمہ کرتے جاتے اور کمرے میں موجود سب لوگوں کو عراق میں ہونے والی بمباری، کرفیو، خود کش حملے اور تباہی و بربادی کی داستان سناتے، جسے مفتی ہی سب سے زیادہ دلچسپی اور توجہ سے سنا کرتا۔ اس وقت بھی کمرے میں موجود دیگر لوگوں کی توجہ خبریں سننے سے زیادہ اپنے اپنے سفری بیگ تیار کرنے پر تھی۔ اگلے دن انہیں منیٰ کی طرف روانہ ہونا تھا۔ اسی اثنا میں سپرٹینڈنٹ نے اس کے کاروباری دوست کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

    ’’پروفیسر صاحب کی خواہش ہے کہ ہم اپنے کمرے میں ٹنڈوالہیار والے شیخ الحدیث کو ایڈ جسٹ کریں‘‘۔

    ’’اچھا؟‘‘ کاروباری دوست نے حیرت سے کہا۔

    ’’اب تو ان کے کمرے میں سلمان کا بیڈ بھی خالی ہو گیا ہے‘‘۔ اکاؤنٹینٹ نے آگاہ کیا۔

    ’’وہ کہاں چلا گیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’اسے اور اس کی بیوی کو علیحدہ کمرا دے دیا گیا ہے۔ سپرٹینڈنٹ نے بتایا۔

    ’’یہ نوازشیں؟‘‘ کاروباری دوست نے لقمہ دیا۔

    ’’ہاں بھئی! نائب مفتی صاحب کے صاحبزادے ہیں‘‘۔ وہ خاموش نہ رہ سکا۔’’ ان کے والد صاحب نے اتنے لیکچر دیئے، کچھ تو صلہ ملنا چاہیے‘‘۔

    اکثر ایسے موقعوں پر اس کے چہرے پر ناگواری پھیل جاتی۔ اس وقت بھی اس کے چہرے پر کچھ ایسے ہی تاثرات تھے۔ وہ مفتی سے مخاطب ہوا۔

    ’’مفتی صاحب! منافقت کے کیا معنی ہیں؟‘‘

    ’’بندہ کہے کچھ کرے کچھ، اسے منافقت کہتے ہیں‘‘۔ مفتی نے بھولپن سے جواب دیا۔

    ’’کاش یہ بات ان کی سمجھ میں آ جائے جنہوں نے خود اپنے، اپنے ہی مقرر کردہ اصولوں کی خود ہی دھجیاں اڑا دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مرد اور عورت الگ الگ رہیں ،کیوں کہ عبادات کو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا ہے، تو سب سے پہلے بیٹا اور بہو علیحدہ کمرہ حاصل کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عورتیں اپنے کمرے میں نماز ادا کریں، حرم میں نہ جائیں کیوں کہ وہاں ان کی نماز نہیں ہوتی، تو ہماری بھابی تو حکم بجا لاتی ہیں لیکن خودا ن کی بہو دوڑ کر جاتی ہیں۔۔۔اور میرا خیال ہے کہ انہیں ضرور جانا چاہیے اور ہماری بھابی کو بھی‘‘۔ اس بات سے بے خبر کہ شیخ الحدیث اسے غصے سے گھور رہے ہیں وہ بیگ میں ضروری چیزیں ڈالتے ہوئے بڑبڑاتا رہا۔

    ’’آپ کو مولویوں سے کیوں خدا واسطے کا بیر ہے؟‘‘ آخر شیخ الحدیث نے چڑ کر پوچھ ہی لیا۔

    ’’مجھے مولوی سے نہیں اس کردار سے چڑ ہے، جسے وہ اس دنیا کے اسٹیج پر ہمارے سامنے ادا کر رہا ہے‘‘۔

    ’’جناب محترم وہ علوم پر دسترس حاصل کرتا ہے اور پھر بات کرتا ہے‘‘۔ شیخ الحدیث نے طنزیہ کہا۔

    ’’صرف مدرسے میں پڑھائے جانے والے علوم‘‘۔ وہ بولا۔’’ ہمارے لیے آئندہ کی راہیں متعین کرنے والے شخص کو ان علوم پر بھی دسترس حاصل کرنا چاہیے جو آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن مدرسے سے عالم بن کر نکلنے والا آدمی ان علوم پر دسترس تو دور کی بات ہے اس کا صحیح تلفظ تک ادا نہیں کر سکتا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے مفتی کو دیکھا تھا۔

    ’’آپ ہمارے دارالعلوم میں آئیے، وہاں دیکھئے کہ کتنے علوم پڑھائے جاتے ہیں‘‘۔ اکاؤنٹینٹ نے فوراً کہا۔

    سائنس، فلسفہ، جغرافیہ، فزکس، کیمسٹری، سماجیات، نفسیات، معاشیات، ادب، فائن آرٹ، سول یا میکینکل انجینئرنگ۔۔۔ ان میں سے کوئی مضمون ۔۔۔؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’انہیں دین کے سارے علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب تو کمپیوٹر بھی پڑھایا جاتا ہے۔ جو کہ آج کے دور کی بہت بڑی ضرورت ہے‘‘۔ اکاؤنٹینٹ نے کمپیوٹر کے لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔

    ’’کمپیوٹر کوئی علم نہیں ہے۔ یہ ایک ڈوائس device ہے۔ جس کی مد دسے دنیا بھر میں انٹرلنک ہو کر معلومات اکھٹی کرتے ہیں۔ معلومات (information) اور علم (knowledge) میں بہت بڑا فرق ہے۔ اس موبائل (اس نے شیخ الحدیث کے ہاتھ میں مفتی کے موبائل فون کی طرف اشارہ کیا ) کے استعمال سے آپ پوری طرح واقف ہیں۔ یہ معلومات ہیں اور اگر آپ یہ جان لیں کہ یہ موبائل فون کیسے بنایا گیا ہے یا اس میں لگی ہوئی چپس کیسے کام کرتی ہے تو اسے علم کہیں گے۔ یہی صورت کمپیوٹر کے استعمال کی اور اس کے مانیٹر پر فلیش(flesh) ہونے والی معلومات کی بھی ہے۔ اس کے ذریعے سائنس یا کسی بھی موضوع پر مضمون ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو اس پر دسترس نہیں تو بس آپ کے سامنے صفحہ یوں کھلا ہوتا ہے جیسے کسی ان پڑھ کے ہاتھ میں علمی مقالہ۔ آپ کے مدرسے کا طالب علم کمپیوٹر سیکھ کر معلومات سرچ کرنے کے قابل ہو جائےگا، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں‘‘۔

    وہ بول رہا تھاتو سب اسے ٹک ٹک دیکھ رہے تھے۔ وہ اکثر خاموش رہتا اور دوسروں کے درمیان بولنے سے گریز کیا کرتا مگر جب بولتا تو اسی طرح بے تکان بولتا۔ اکثر لوگ کہتے کہ وہ اپنی علمیت کا رعب ڈالنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ اس نے سب پر سرسری نظر ڈالی اور دوبارہ گویا ہوا۔

    ’’ہم معلوم تاریخ کے ہزاروں غیرمتعین سال۔۔۔اور پھر متعین کردہ سالوں کے دو ہزار یئے کے اوپر چھٹے سال کے اختتام پر کھڑے ہو کر اب تک یہ فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں کہ بنی نوع انسان کے لیے کیا ضروری ہے اور کیا ۔۔۔‘‘۔

    وہ بولتے بولتے اچانک خاموش ہو گیا۔ اسے لگا وہ دلدل پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔

    روانگی کا دن آ گیا۔ ہوٹل سے خیموں تک جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ پیدل سفر کا ارادہ باندھنے والے ہوٹل سے بھی پیدل روانہ ہوئے اور پھر جب دوسرے دن عرفات کے لیے بھی وہ اپنے کاندھوں پر سفری بیگ لٹکائے خیموں سے نکل رہے تھے تو اس وقت مروان زمین پر بچھے دو فٹ چوڑے گدے پر گرم چادریں اوڑھے ادھ موا سو رہا تھا۔ جسم صحرا کی گرم ریت کی طرح تپ رہا تھا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر پیدل سفر کا ارادہ کرنے والوں میں سے ایک نے اس سے کہا۔

    ’’ہم آپ کے ذمے ایک کام چھوڑ کرجا رہے ہیں‘‘۔

    ’’آپ حکم دیجئے؟‘‘

    ’’مروان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی خواہش تو پیدل جانے کی ہے۔ لیکن ہم اس حالت میں لے کر جانا نہیں چاہتے۔ آپ اسے اپنے ساتھ بس میں لے کر آ جائیےگا۔ اسے راستو ں کا کوئی علم نہیں ہے، اگر اکیلے میں کہیں بھٹک گیا تو بڑی مشکل ہوگی‘‘۔

    کسی کو معلوم نہیں تھا کہ پراپرٹی ڈیلر کا کام کرنے والے کاٹھیاواڑی میمن عزیز بھائی نے جو کچھ کہا وہ سچ ہوجائے گا۔ سورج کے پوری طرح نمودار ہونے تک جب مروان جاگا تو اس کے سختی سے منع کرنے اور سمجھانے کے باوجود جنون میں مبتلا مروان پیدل جانے کی ضد میں خیمے سے اس طرح بھاگا جیسے جانور رسیاں تڑوا کر بھاگتا ہے اور پھر عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے منیٰ کے دوران فرائض کے آخری مرحلے تک وہ کسی کو دکھائی نہ دیا۔

    پریشانی کے ان دنوں میں جب کسی نے اس سے سوال کیا کہ آپ نے اسے جانے سے روکا نہیں، تب اس نے جو کہا اسے سن کر کئی لوگوں کے ماتھوں پر بل پڑ گئے۔ وہ بولا تھا۔

    ’’میں نے اسے بہت سمجھایا۔ حتیٰ کہ سختی سے کہا کہ تم بھٹک جاؤگے۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ کہیں گر سکتے ہو۔ اپنی جان کو یوں مشکل میں مت ڈالو۔ مگر اس نے جب ہر بات سنی ان سنی کر دی تو میرا جی چاہا کہ میں دو تھپڑ اسے رسید کروں اور چار اس شخص کو جو اس کی یوں تربیت کر رہا ہے کہ اچھا بھلا نوجوان زندگی برباد کرکے مخبوط الحواس سا ہو گیا۔ اب نہ کسی کی معقول بات سنتا ہے اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔

    تیسرے دن بڑے علامتی شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد اس نے کاروباری دوست سے ازراہ مذاق پوچھا۔

    ’’کبھی آپ نے کسی کو خود اپنے آپ کو کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا ہے؟‘‘

    ’’وہ کس طرح؟‘‘

    ’’مولوی صاحب یہی کہتے ہیں نا، کہ میرے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے‘‘۔

    مگر معاملات کو علیحدہ ڈھنگ اور فکر سے دیکھنے والے پر اعتراضات کا سلسلہ ابھی رکا نہیں تھا۔ شام ہوتے ہوتے اس سفر کے آغاز والا دن پھر لوٹ آیا۔ گروپ میں شامل ہر شخص نے اپنے سر پر استرا پھروا دیا تھا مگر وہ کئی لوگوں کی کوشش اور اصرار کے باوجود اپنی رائے تبدیل نہ کر سکا۔۔۔وہ گنجا نہیں ہوا تھا۔ تب کئی سوال اس کے جسم پر بالوں کی طرح چپک گئے۔

    ’’ارے! آپ گنجے کیوں نہیں ہوئے؟‘‘

    ’’ارے صاحب! اب تو آپ گنجے ہو ہی جاتے‘‘۔

    ’’گنجا ہونا افضل ہے‘‘۔

    ’’گنجا ہونا سنت ہے‘‘ اور پھر کسی نے تو یہاں تک کہہ دیا۔

    ’’جناب! گنجا ہونا فرض ہے‘‘۔

    کئی درمیانی پردوں کو ہٹا کر وسعت بخشے ہوئے خیموں میں سینکڑوں لوگوں کے درمیان سر پر اگے بالوں کے ساتھ وہ اکیلا شخص تھا۔ آتے جاتے راہداریوں سے گزرتے، نل پر وضو بناتے، رہائش گاہ آتے جاتے ،کئی لبوں پر اس کے لیے یہی سوال تھا اور پھر کاٹھیاواڑی پراپرٹی ڈیلر کے پارٹنر نے آخر کار یہی سوال کیا تو وہ بول ہی پڑا۔

    ’کتابِ برحق میں صاف لکھا ہے کہ چاہو تو گنجے ہوجاؤ یا بال کٹوا لو۔ لہذا میں نے دوسرے آپشن پر عمل کر لیا‘‘۔

    ’’لیکن اللہ کے رسول تو گنجے ہوئے تھے‘‘۔

    ’اللہ کے رسول نے زندگی میں صرف ایک حج کیا تھا اور ان کے پاس بھی دو آپشنز تھے۔ انہوں نے پہلے آپشن کو اپنا لیا‘‘۔

    ’’تو پھر افضل ہو گیا نا؟‘‘

    ’’اگر اللہ کے رسول نے دو حج کیے ہوتے اور دوسری بار بھی وہ گنجے ہوتے تو افضلیت ہو جاتی۔ ایک حج میں دونوں آپشنز پر عمل کرنا ممکن نہیں تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک انڈے کو توڑے بغیر ابال لیا جائے تو پھر توڑ کر آملیٹ نہیں بنایا جا سکتا اور اگر پہلے توڑ کر آملیٹ بنا لیا جائے تو پھر ابالنے کے قابل نہیں رہتا۔ بالوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے‘‘۔

    پراپرٹی ڈیلر کا پارٹنر خاموش رہا۔ اس کی ایسی ہی باتوں کے سبب اس کے اور دوسروں کے درمیان اجنبیت، حیرت اور لاتعلقی کے ملے جلے گارے سے بنی ہوئی دیوار بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی۔ وہ اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے خود مختار تھا۔ اسے ایسی بھی کوئی پریشانی لاحق نہیں تھی جو دوسروں کو تھی کہ معمولی معمولی غلطیوں یا کوتاہیوں کی وجہ سے حج مقبول نہ ہونے کے خوف میں مبتلا ہو کر گروپ میں موجود مفتیان سے دم واجب ہونے نہ ہونے کا فتویٰ لینے چلے آتے تھے۔ اس نے ایک بار مفتی سے پوچھ لیا۔

    ’’یہ ذرا ذرا سی بات پر دم واجب ہونے کی سند کیا ہے؟‘‘

    ’’حدیث سے ثابت ہے‘‘۔

    ’’کیا یہ سنت ہے؟‘‘

    ’’ممکن ہے‘‘۔

    ’’ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ہر کام کرکے بتایا تو کیا انہوں نے حج میں غلطیاں کرکے بتائیں، تاکہ امت دم دینے کا طریقہ سیکھ سکے؟‘‘

    ’کیا اول فول بکتے ہو‘‘۔ شیخ الحدیث درمیان میں بول پڑے۔

    ’’یہ سب باتیں حدیث، فقہ اور شریعت کی کتابوں میں درج ہیں‘‘۔

    ’’اور قرآن میں؟‘‘

    ’’قران سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے‘‘۔ شیخ الحدیث نے غصے میں کہا۔ ’’اسے ماننا پڑےگا‘‘۔

    ’’اگر میں تحفظات کا اظہار کروں تو؟‘‘

    ’’تو پھر تم مسلمان نہیں ہو‘‘۔ وہ یکایک چیخ پڑے۔

    ’’آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ میرے بارے میں فیصلہ کریں کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں؟‘‘ اسے بھی غصہ آ گیا تھا۔

    ’’ہاں یہ حق مجھے حاصل ہے‘‘۔ وہ ایک بار پھر چیخے۔ ’’تم عجیب آدمی ہو۔ ہر وقت اپنے ذہن میں الٹے سیدھے سوال گھڑتے رہتے ہو اور خود کو بہت پڑھا لکھا آدمی سمجھتے ہو‘‘۔

    ’میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوں۔ لیکن اگر آپ نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ آپ مذہب کے ٹھیکے دار ہیں تو اس بات کو ذہن سے نکال دیں‘‘۔

    ’’ہاں! ہم ہیں۔ ہم جو فتوے دیتے ہیں، وہ پتھر کی لکیر ہوتے ہیں۔ اگر میں چاہوں تو تمہیں یہاں گرفتار کروا سکتا ہوں‘‘۔

    ’’اپنی اس خود ساختہ اتھارٹی کا رعب ان پڑھ اور گنوار لوگوں پر ڈالیے جن کے دماغوں میں آپ لوگوں نے یہ بات بھر دی ہے کہ اللہ کو راضی رکھنا چاہتے ہو تو پہلے ہمیں راضی رکھو‘‘۔ وہ لمحہ بھر کے توقف کے بعد دوبارہ گویا ہوا۔ ’’افسوس ہمارے ملک میں کوئی ضابطہ یا قانون ایسا نہیں ہے کہ جس کی مدد سے آپ جیسے لوگوں کو حد میں رکھا جا سکے۔ یہاں ایک معمولی سی حجام کی دکان بھی کھلتی ہے تو اسے لائسنس لینا پڑتا ہے۔ میرے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں مدرسے اور دارالعلوم قائم ہوتے ہیں، کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتی۔ آمدنی اور اخراجات کے گوشوارے اگر کوئی مانگ لے تو چیخ اٹھتے ہیں۔ مسجد کی ذمہ داریاں چھوڑ کر پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوا آپ کا آدمی ہر اچھے فیصلے اور ضابطے کی دھجیاں اڑا دیتا ہے۔ انہی باتوں نے آپ لوگوں کو حد سے زیادہ خو د سر بنا دیا ہے‘‘۔

    ’’ہم سیاسی لوگ نہیں ہیں۔ وہ دوسرے لوگ ہوتے ہیں‘‘۔

    ’’یہ بھی خوب رہی‘‘۔ پارلیمنٹ میں خواتین کا بل پیش ہو تو سب ایک ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ معزز ہستیاں جو ہمیشہ فوٹو کھنچوانے اور ٹی وی پر آنے سے گریز کرتی ہیں اپنے اس اصول کو توڑ کر مناظرہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ تب وہ کیوں نہیں کہتے کے اہل سیاست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں؟‘‘

    ’’جدا ہودیں سیاست۔۔۔‘‘ اکاؤنٹینٹ نے گفتگو میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے شعر پڑھنے کی کوشش کی تو اس نے ناگواری سے فوراً کہا۔

    ’’برائے مہربانی صاحب! اس شعر کا وہ حشر نہ کریں جو برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے‘‘۔

    ’’استغفراللہ! آپ جیسے لوگ سب کچھ تہس نہس کر دینا چاہتے ہیں۔ بنے بنائے نظام کو الٹ پلٹ کر نئی نئی اختراعات ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں‘‘۔ مفتی نے اپنی خاموشی کو توڑا۔

    اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اکثر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بحث میں کیوں الجھ پڑتا ہے۔ وہ ان کی سوچ میں تبدیلی نہیں لا سکتا۔ یہ لوگ محدود دائرے میں قید ہیں۔ ان کی تربیت اسی طرح کی جاتی ہے۔ ریسرچ، تحقیق اور غوروفکر سے تحصیل علم کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جتنا کسی معروف شارع کے بیچ فٹ پاتھ گھیر کر بنائی ہوئی مسجد کو ڈھانا۔ جس طرح یہ لوگ غیرقانونی مسجد ڈھانے نہیں دیتے، بالکل ایسے ہی غوروفکر جائز ہونے کے باوجود ان کے نزدیک شجر ممنوعہ ہے۔ یہ سوچتے ہوئے اس کی نظریں اپنے کاروباری دوست سے چار ہوئیں، جو چائے کے دو کپ لیے کمرے میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ گفتگو کے دوران کسی لمحے میں لفٹ کے سامنے رکھی ہمہ وقت تیار الیکٹریکل کیتلی سے چائے بنانے چلے گئے تھے۔ ریٹائرڈ آفیسر نے حسب عادت اپنے بیٹے سے فوراً کہا۔

    ’’بابا! ہمیں بھی چائے پلاؤ‘‘۔

    ’’وہ ہاں بابا کہتا ہوا چائے لینے چلا گیا۔ اس نے اپنے دوست سے چائے کا کپ لیتے ہوئے کہا۔

    ’’بہت بہت شکریہ۔ آپ اتنی محبت سے چائے بنا کر لاتے ہیں کہ میں منع ہی نہیں کر سکتا‘‘۔

    ’’مجھے اس لیے بنانا پڑتی ہے کہ تم چائے بہت خراب بناتے ہو‘‘۔

    ’’انتظامیہ کو یہ بات معلوم ہے ،اس لیے وہ مجھ جیسے لوگوں کے لیے جوس بھیجتی ہے‘‘۔

    ’’تو جوس لادوں؟ فرج بھرا پڑا ہے‘‘۔

    ’’اوں ہوں! چائے ہی پیوں گا‘‘۔

    ’’کسی چیز کی کمی نہیں ہے ،سوائے سوئٹ ڈش کے۔ ’’سپرنٹینڈنٹ نے ہنستے ہوئے کہا۔

    ’’عزیز کی بھی یہی شکایت ہے‘‘۔ اکاؤنٹینٹ بولے۔

    ’’اسی کی وجہ سے تو کم پڑتی ہے‘‘۔ اس کے دوست نے فوراً لقمہ دیا۔ اس اکیلے کو پورا باؤل (bowl) چاہیے‘‘۔

    کمرے میں پھیلا ہوا کشیدگی کا دھواں اب تحلیل ہو چکا تھا۔ فضا نوک جھونک کے جملوں سے بھرتی جا رہی تھی۔ شیخ الحدیث نے بازار سے خریدی ہوئی کھجوریں تمام لوگوں میں تقسیم کرتے ہوئے کہا۔

    ’’سوئٹ ڈش آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر ہے لیکن روٹی کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا ہے۔ کمپنی کی روٹی کچی اور بےذائقہ ہوتی ہے۔ شہزاد جو روٹی بازار سے خرید کر لاتا ہے وہ بہت شاندار اور لذیذ ہوتی ہے۔ اب تو میں وہی کھاتا ہوں‘‘۔ انہوں نے اسے کھجوریں پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں اور آپ چل کر پروفیسر صاحب سے بات کرتے ہیں کہ جناب والا روٹی تو اچھی کھلائیں‘‘۔

    ’’یہ بہت معمولی سی شکایت ہے‘‘۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ’’معمولی ہو یا بڑی، انہیں چاہیے کہ وہ ہماری ہر شکایت کو سنیں اور اسے دور کریں‘‘۔

    تب اس نے وہ کہا جو کسی سے کہنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ بولا۔

    ’’آپ مجھے کبھی وہ روٹی اٹھا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھیں گے، جو شہزاد اپنے پیسوں سے خرید کر لاتا ہے۔ روٹی کچی پکی یا جلی ہوئی یا بے لذت بے ذائقہ کیسی بھی ہو، میں وہی کھاتا ہوں جو انتظامیہ کی طرف سے کمپنی والی آتی ہے۔ شہزاد تین چار روٹیاں خرید کر لاتا ہے اور وہ مروتاً کسی کو منع بھی نہیں کرتا۔ لیکن اگر مجھے یہ روٹی پسند نہیں تو پھر مجھے اپنے پیسوں سے خرید کرلانا چاہیے‘‘۔

    یہ سن کر شیخ الحدیث کو جھٹکا لگا تھا مگر وہ خاموش رہے۔

    کچھ ہی دنوں میں انہیں حرم کے نزدیک خوبصورت اور فائیو اسٹار ولاز میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں پھر انتظامیہ نے عورتوں اور مردوں کی تفریق کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے مزید انتہا پر پہنچا دیا۔ اب میاں بیوی اور ماں بیٹے کے درمیان فاصلہ ایک ہی فلور پر ولاز ہونے کے باوجود دوسری اور چوتھی منزل سے زیادہ کا تھا۔ تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں فلو کی بیماری بری طرح پھیل رہی تھی۔ گروپ کے اکثر عورتوں اور مرد بیمار تھے۔ سفر میں ساتھ لائی ہوئی دوائیں کم پڑنے لگی تھیں۔ بیشتر لوگ پاکستان ہاؤس سے دوائیں لانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ایسے میں اس کے دوست کی بیگم دوائیں لانے کے باوجود استعمال کرنے سے گریز کیا کرتیں۔ کاروباری دوست غصے میں کہتے۔

    ’’اتنی دور بیٹھ کر میں خودتو انہیں دوائیں کھلانے سے رہا‘‘۔

    ’’تب ہی تو میں کہتا ہوں کہ جو لوگ فیملی کے ساتھ ہیں انہیں قریب رکھا جائے۔ نزدیک رہ کر کوئی پکنک تھوڑی منائیں گے، بس ایک دوسرے کی دیکھ بھال آسانی سے کر سکیں گے۔ مگر انتظامیہ کا تو تصورِ دین ہی الگ ہے‘‘۔

    برماٹیک کی منقش، خوبصورت اور نفیس کھڑکیوں سے ہوٹل کے بیچ دامن میں کھلے آسمان تلے جستہ جستہ بلند ہوتی ہوئی سیڑھیوں کے وسیع و عریض چبوتروں پر رنگین ٹائلوں اور گرینائٹ کے چتکبرے چمکیلے اور مضبوط ماربل سے بنے فواروں میں اچھلتے، تھرکتے، مچلتے دودھیا پانی کی اوٹ سے حرمِ مقدس کے بلند و بالا مرکزی باب فہد کا نظارہ کرتے ہوئے اس نے مزید کہا۔

    ’’یہاں آکر بندے کا دھیان کہیں اور جاتا ہی نہیں۔ چیزوں کو بہتر کس طرح کیا جا سکتا ہے یہ بات بہت اہم ہے۔ بہت آسان طریقہ تھا ۔ہمارے گروپ کے لیے مختص ان دو ولاز میں سے ایک ولا ان لوگوں کو دے دیا جاتا جو اکیلے اس سفر پر آئے ہیں۔ ایک ولا فیملی والوں کو دے دیا جاتا جس میں سیڑھیوں سے اوپر کے دو کمرے خواتین کے پاس ہوتے تاکہ وہ آزادی سے چل پھر سکیں اور نیچے کے دو کمرے مردوں کے لیے ہوتے تاکہ باہر آنے جانے کی آسانی حاصل ہو سکے۔ اس طرح ہم اپنی خواتین سے رابطے میں رہ سکتے تھے۔ کم از کم آپ آتے جاتے بھابی کو دوا کی تاکید تو کر سکتے تھے، یا مجھے یہ سہولت مل سکتی تھی کہ پاکستان سے بچوں کا فون آئے تو میں فوراً بیوی کو فون دے سکوں۔ مگر یہ باتیں انتظامیہ یا گروپ لیڈر کو کون جا کر سمجھائے‘‘۔

    ’’تم جا کر سمجھاؤ‘‘۔

    ’’بڑے بھائی! میں سمجھاؤں گا نہیں۔ آپ دیکھیے گا میں کر گزروں گا‘‘۔ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا اور چند دن بعد اس نے کر دکھایا۔

    شہر جلال سے شہر جمال جانے کے لیے وہ سب بسوں میں سوار ہو رہے تھے۔ حسب سابق گروپ کے لیڈر پروفیسر نے اعلان کیا۔

    ’’بس میں تمام خواتین پیچھے بیٹھیں گی اور مرد حضرات آگے کی نشستوں پر بیٹھیں گے‘‘۔

    اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے دائیں اور بائیں کی دو دو نشستوں کے اوپر والے مچان پر سفری بیگ رکھے اور کھڑکی کے نزدیک والی نشست پر اپنی بیوی کو بٹھا کر خود برابر میں براجمان ہوتے ہوئے اپنے دوست اور بھابی کو سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ بس میں بیٹھے ہوئے کئی افراد کے ماتھوں پر شکنیں پڑ گئیں۔ ایک نے ٹوکتے ہوئے کہا۔

    ’’بھئی آپ اصول کی خلاف ورزی کر رہے ہیں‘‘۔

    ’’کون سا اصول؟‘‘ میاں بیوی کا ساتھ بیٹھنا کس اصول کی خلاف ورزی ہے؟ آخر کب تک محدود سوچ اور تنگ نظری پر لبیک کہتا رہوں۔ اگر آپ کو میرا اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھنا ناگوار گزرتا ہے تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ آپ اپنی بیگم کے ہمراہ رہیے اور سفر کیجئے مجھے ذرا حیرت نہیں ہوگی بلکہ میں اسے بہتر سمجھوں گا‘‘۔

    جن لوگوں کو برا لگا تھا انہوں نے ڈرائیور کے پاس کھڑے ہوئے پروفیسر سے شکایت کی۔ وہ یہ سب منظر پہلے سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے حیرت انگیز طور پر اپنے سابقہ حکم کو تبدیل کرتے ہوئے اعلان کیا۔

    ’’ہم یہ پابندی ختم کرتے ہیں۔ جو لوگ اپنی بیگمات کے ساتھ سفر کرنا چاہتے ہیں وہ ایسا کر سکتے ہیں‘‘۔

    اس کے کاروباری دوست نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا۔

    ’’یہ کام پہلے ہی کر گزرتے۔ کم از کم اس کوفت سے تو بچ جاتے جس سے پورا مہینہ گزارا ہے‘‘۔

    بس میں کچھ دیر بھنبھناہٹ ہوتی رہی مگر دھیرے دھیرے سب خاموش ہو گئے۔

    ’’بھائی صاحب! حرم میں باب جبریل سے داخل ہونا ہے‘‘۔

    صبح حرم کی طرف جاتے ہوئے بھابی نے عندیہ دیا تو وہ بولا۔

    ’’خواتین کے لیے کچھ دروازے علیحدہ مخصوص ہیں‘‘۔

    ’’نہیں مجھے صرف بابِ جبریل سے ہی جانا ہے‘‘۔ انہوں نے ضد کی۔

    ’’بھابی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔

    ’’بھائی صاحب! آپ رہنے ہی دیں۔ آپ تو ہر بات میں عجیب الگ سے منطق لے آتے ہیں۔ آپ اپنے مسلک پر رہیں، ہمیں اپنے مسلک پر رہنے دیں‘‘۔

    ’’اس میں مسلک کہاں سے آ گیا؟ آپ کتابچوں میں لکھی ہوئی باتوں کو حرف آخر سمجھ کر اڑ جاتی ہیں۔ مولانا نے لکھ دیا کہ آپ باب جبریل سے داخل ہوں، چنانچہ یہاں لاکھوں لوگ بابِ جبریل پر آکر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ بس یہیں سے جائیں گے تو حاضری قبول ہوگی ورنہ نہیں۔ لہذا لاکھوں کے مجمع کو سہولتیں پہنچانے کے لیے جو منظم انتظامات کیے جاتے ہیں، وہ ذرا سی ضد سے ڈسٹرب ہو جاتے ہیں‘‘۔

    ’’بہرحال!میں تو بابِ جبریل سے ہی جاؤں گی‘‘۔

    تب اس نے چڑ کر کہا۔

    ’’آپ پورے ہفتے میں ایک بار بھی بابِ جبریل سے داخل نہیں ہو سکیں گی۔ آپ کو بہت جلد یہ بات سمجھ میں آ جائےگی۔ تب پاکستان جا کر اس کتابچے والے مولانا سے ضرور سوال کیجئےگا کہ ایسی باتیں کیوں لکھ دیتے ہو جسے پورا کرنا مشکل ہو جائے‘‘۔ پھر اس نے اپنی بات کی وضاحت میں مزید کہا’’ لکھ دیتے ہیں کہ جب جب موقع ملے حجر اسود کو خوب بوسہ دیجئے۔ آپ بتائیے کیاتیس دنو ں میں آپ کو ایک بار بھی موقع ملا؟ پھر لکھ دیتے ہیں کہ شیطان کو کنکریاں پانچ ہاتھ کے فاصلے سے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی میں یوں پکڑ کر ماریئے‘‘۔ اس نے انگوٹھے اور انگلی کی پوزیشن بناکر دکھاتے ہوئے کہا۔’’ لاکھوں کے مجمعے میں آپ فاصلہ ناپ کر اور پوزیشن بنا کر کنکریاں مارنے کی کوشش کریں تو اندازہ ہوگا کہ پریکٹیکل کرنا کتنا مشکل ہے اور پھر لکھ دیتے ہیں کہ ریاض الجنہ میں خاص خاص ستونوں کے نزدیک نوافل ادا کریں۔ آج سے آپ دونوں ان خاص خاص ستونو ں کے پاس نوافل ادا کرنے کی کوشش کیجئےگا اور جب ناکام ہو کر تھک جائیں تو مان لیجئےگا کہ یہ کتابچے مشکلات پیدا کرنے کا بھی سبب بنتے ہیں‘‘۔

    ’’بابِ جبریل سے جانے میں مشکل کیا ہے؟‘‘ اس کے دوست نے پوچھا تو وہ بولا۔

    ’’وہ دروازہ ہر وقت کھلا نہیں رہتا اور دوسری اہم بات یہ کہ اب وہاں سے خواتین کو داخل ہونے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ کبھی یہ سہولت رہی ہوگی۔ مگر جب وقت کے ساتھ ساتھ مشکلات بڑھتی ہیں تو نظام میں تبدیلیاں لانا پڑتی ہیں اور خصوصاًاس وقت جب ہم جیسے لوگ لکیر کے فقیر بنے رہیں‘‘۔

    تھوڑی دیر بعد اس کے دوست کی بیگم باب جبریل سے مایوس لوٹی تھیں۔ وہ خاموش رہا۔ واپسی پر ہوٹل کے کوریڈور سے گزرتے ہوئے اس کی بیوی نے کہا۔

    ’’اب حاجی ہو گئے ہو۔ لوگوں سے کم بحث کیا کرو۔ ورنہ لوگ کہیں گے کیسے حاجی صاحب ہیں‘‘۔

    ’’یہ حاجی صاحب کیا ہوتا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’جو حج کرتا ہے وہ حاجی کہلاتا ہے‘‘۔

    ’’کسی نماز پڑھنے والے کو نمازی صاحب، کلمہ پڑھنے والے کو کلماتی صاحب، زکوٰۃ دینے والے کو زکواتی صاحب یا روزہ رکھنے والے کو روزداری صاحب وغیرہ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اگر نہیں تو پھر حج کرنے والے کو حاجی کیوں کہتے ہیں، یا کوئی ایک سے زیادہ حج کر لیتا ہے تو وہ الحاج کیوں ہو جاتا ہے؟‘‘

    ’’اس میں حرج کیا ہے؟‘‘

    ’’حرج ہے۔۔۔کیا تم نے کبھی اللہ کے رسول کے نام کے ساتھ حاجی کا سابقہ لگا ہوا دیکھا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ یہ ایک فریضہ ہے، جب استطاعت ہو تو ادا کرنے کا حکم ہے۔۔۔نمائش کرنے کا نہیں‘‘۔

    ’’آپ سے تو بحث کرنا ہی فضول ہے‘‘۔ بیو ی نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔’’میرے ہی نصیب میں لکھا تھا آپ جیسا آدمی‘‘۔

    دروازے کے کمپیوٹرائز تالے میں کارڈ ڈالتے ہوئے اس نے مسکرا کر پوچھا۔

    ’’کیسا آدمی؟‘‘

    ’’الٹی کھوپڑی کا۔۔۔اور کیسا؟‘‘

    (۲۰۰۷ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے