Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

واترک کے کنارے

پنا لال پٹیل

واترک کے کنارے

پنا لال پٹیل

MORE BYپنا لال پٹیل

    سورج غروب ہوا تو آسمان پر لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا۔ بڑے اطمینان اور سست رفتار سے بہتا ہوا دریائے واترک کا پانی خون بن گیا اور دائیں طرف کے کنارے ایک ٹیلے پر کھڑے ہوئے تنہا مکان کی کھپریلیں انگارہ بن گئیں۔ تلہٹی میں پرواز کرتے ہوئے آبی پرندوں نے بھی گھڑی بھر کے لیے خونیں کفن پہن لیا اور کار تک مہینے کی سردی کو بھی یہ رنگ گلابی کر گیا۔

    ٹیلے پر کے مکان کے سامنے بھیڑوں اور مویشیوں کے ممیانے اور ڈکرانے سے شور مچ گیا۔ مویشی باڑے میں بند ہوئے اور اٹھائیس سال کی ایک لڑکی نے بھیڑوں کو ہنکا کر چھپر میں اپنے اپنے کھونٹوں سے باندھ دیا۔ چھپر کی ایک جھانپلی (بلیوں کی کھپچیاں رسیوں سے باندھ کر بنایا ہوا دروازہ) بند کرکے لڑکی جانے کے لیے گھومی تو اتفاقاً اس کی نظریں واترک کے سامنے والے کنارے پر چنوں کے کھیتوں کے اس پار پہنچ گئیں۔

    وہاں ایک چھوٹا سا الاؤ اپنی روشنی پھیلانے کی جدوجہد کر رہا تھا۔ کالی اور گھنی ڈاڑھی مونچھوں والے، جٹادھاری اور گیروے رنگ کی کفنی پہنے ہوئے سادھوؤں جیسے نظر آتے ہوئے دو آدمیوں میں سے ایک گھڑے جیسی تو نبی میں پانی بھرکر واترک کا ڈھلانی کنارہ لنگڑاتی ٹانگ سے چڑھ رہا تھا۔ دوسرا آدمی اپنا یہ لمبا چمٹا زمین میں گاڑنے کی کوشش کر رہا تھا اور الاؤ میں موٹی موٹی خشک لکڑیاں ڈال کر اسے کمک پہنچا رہا تھا۔

    ’’کیا دیکھ رہی ہے نول؟ و ہ گائے ڈکرا رہی ہے تو سنتی ہے کہ نہیں۔‘‘ آنگن کے ایک کونے میں کھلی ملاتی ہوئی بڑھیا نے پوچھا۔ لیکن پھر وہ بھی دوسرے کنارے اور ان دونوں سادھوؤں کی طرف حیرت سے دیکھنے لگی۔

    ’’اور تو کچھ نہیں موسی، لیکن ان مارے پیٹوں نے یہاں کہاں دھونی رمائی ہے۔ کوئی دوسری جگہ نہ ملی؟‘‘ نول کے لہجے میں نہ غصہ تھا اور نہ ناپسندیدگی، اس نے فقرہ قدرے لاپروائی سے کہا۔ لیکن اس کے بشرے پر سنجیدگی تھی جو دم بدم گہری بنتی جا رہی تھی۔

    ’’ہوگا۔ تجھے اور مجھے کیا۔ گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ ابھی پارسال ہی ایک مداری یہاں سے پکڑا گیا تھا۔ یہ بات مونڈی کاٹے جانتے نہ ہوں گے؟ سرکار کی نظر تو پچھلے تین برسوں سے، دن رات، اس گھر پر ہی ہے۔‘‘

    ’’نول اگر اپنی موسی کی بات سن رہی ہوتی تو شاید ہنس پڑتی۔ یہ بچارے ٹھہرے پردیسی، ان کو کیا پتہ کہ اس کا گھر آدمی تین برس پہلے مکھی (چودھری) کے لڑکے کا خون کرکے بھاگ گیا ہے۔‘‘

    لیکن نول کا دھیان نہ تو موسی کی طرف تھا اور نہ ہی کسی اور طرف۔ اس کا دھیان تو ان دو سادھوؤں کی طرف تھا جو دوسرے کنارے پر دھونی رمائے ہوئے تھے۔ وہ آنگن میں سے اپلوں کے لیے گوبر اٹھا رہی تھی تو وہ بھی بےدھیانی سے۔ موسی کی بڑبڑاہٹ جاری ہی تھی، ’’وہ موابھاگ گیا تو جیسے دنیا سے ہی غائب ہو گیا۔ بھاگتا پھرتا ہے مراد جلا۔ اگر پکڑا جائے تو ایسے بچارے بےگناہ تو نہ پھنسیں۔ موئے کو یہ تک نہیں سوجھتا کہ اگلی (یعنی نول) کہاں تک اس کے انتظار میں بیٹھی رہےگی۔‘‘

    موسی کی باتیں اکثر دفعہ انمل بےجوڑ سی ہوتی ہیں۔ کھلی کا ایک ٹوکرا اٹھا کر اس نے نول کے سامنے رکھتے ہوئے کہا، ’’لے یہ ٹوکرا چاندنی (بھینس کا نام) کے سامنے دھر آ۔ لے جا اب۔‘‘ اور پھر جاتے جاتے بولی، ’’ایسے تو موئے دھوتا رے بھٹکا ہی کرتے ہیں۔‘‘

    نول کہنا چاہتی تھی، ’’لیکن وہ دونوں تو، معلوم ہوتا ہے، ہمارے گھر کی ہی بات کر رہے ہیں موسی! دیکھنا وہ بیڑیاں سلگا کر بیٹھے ہیں تو اسی طرف رخ کرکے بیٹھے ہیں۔’’ لیکن موسی سے یہ بات کہنے کی آج وہ جرأت نہ کر سکی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کا مطلب بھی کچھ نہ تھا۔

    نول کھلی کا ٹوکرا باڑے میں رکھ آئی اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی تو وہ آگے بڑھ کر چبوترے کے کنارے پر جا بیٹھی۔ لیکن یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ یہاں یونہی نہیں بیٹھی ہے بلکہ کام کر رہی ہے، وہ ہاتھوں میں ایک ڈامنہ (مویشیوں کو باندھنے والی رسی) لیے بیٹھی تھی اور اس کا سرابٹ رہی تھی لیکن نظریں تو دوسرے کنارے پر ہی جمی ہوئی تھی۔

    دیکھتے دیکھتے دل میں بولی۔ موسا (خالو) آ گئے ہوتے تو انہیں بھیج دیتی پتہ لگانے۔ جانے کون ہیں موئے۔ اتنی بڑی دنیا پڑی ہے۔ ذرا دور ہی ماتا جی کا مندر ہے اور یوں دیکھو تو گاؤں کہاں نہیں ہے؟ یہ سب کچھ چھوڑ کر موئے یہاں، گھر کے سامنے ہی کیوں جم گئے کہیں یہ مارے پیٹے راجواڑے کے جاسوس تو نہیں؟ عین اس وقت بھیڑوں اور مویشیوں کو گھر کی طرف بھیج کر اور دوبیلوں کو مزید کچھ دیر چرانے کے بعد، نول کے موسا دو تگڑے بیلوں کو ہکاتے ہوئے آ گئے۔ فوراً ہی نول نے انہیں اس طرف متوجہ کیا۔

    ’’وہ دیکھو موسا! کسی نے ڈیرے ڈالے ہیں وہاں۔‘‘

    لیکن موسا نے بے توجہی سے جواب دیا۔ تو پڑے ڈالتے رہیں ڈیرے، ہمارا کیا لیتے ہیں اور وہ بیلوں کے پیچھے پیچھے گھر میں چلے گئے۔

    نول کو بھی اس وقت اپنے آپ پر حیرت ہورہی تھی۔ آج وہ کیوں اس بےپروا اور بےدرد خونی کو یاد کر رہی ہے اور وہ بھی تین سال گزر جانے کے بعد؟ یہاں تک تو خیر ٹھیک تھا۔ لیکن آٹھ سال پہلے خفا ہوکر گھر سے چلے گئے ہوئے اپنے پہلے شوہر کو بھی یاد کر رہی تھی۔ یہ عجب معاملہ تھا کہ کسی دن نہیں اور آج دونوں ہی شوہر اسے یاد آرہے تھے حالانکہ حالت یہ تھی کہ اس طویل مدت میں وہ یہ بھی بھول چکی تھی کہ اس کے پہلے شوہر کے تمام اعضا سلامت تھے اور اس کا دوسرا شوہر لنگڑا مگر خونی تھا۔

    پھیلتے ہوئے اندھیرے میں اس نے دونوں سادھوؤں کو اس طرف ہی آتے دیکھا۔ وہ ایک دم سے اٹھ گئی اور جھٹ سے گھر میں گھس گئی۔ جانے کیا بات تھی کہ اٹھائیس سال کی عمر میں آج پہلی دفعہ نول خوف محسوس کر رہی تھی۔ رہا تجسس تو وہ انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ اس نے اپنے بےقرار ضدی دل سے کہا بھی کہ وہ دونوں اچھے بھلے لڑکوں جیسے تھے۔ اس کے برخلاف یہ دونوں۔۔۔لیکن دیکھا نہیں تو نے کہ ان میں سے ایک لنگڑا ہے؟ اور وہ۔۔۔وہ دبلا پتلا تھا اور یہ تو خاصا موٹا ہے۔

    موسا اور موسی ایک طرف نول کے والدین کی طرح تھے تو دوسری طرف اس کے مربی اور پرورش کرنے والے تھے۔ باپ کے مرجانے کے بعد نول کو ایسے کسی سہارے کی ضرورت پڑی۔ موسا کی چار بہوئیں تھیں لیکن کسی ایک سے بھی اس کی بنتی نہ تھی چنانچہ اس یتیم نول کی ہر خواہش یہ بڑھیا اور یہ بوڑھا پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اسے سکھ سے اور خوش رکھتے تھے۔ کبھی کبھار اسے مناسب مشورہ بھی دے دیتے تھے۔ مثلاً شادی کرلینے کے اور وہ بھی موقع محل دیکھ کر، یعنی اس وقت جب نول بشاش ہوتی۔ لیکن اس گھر کی مالکن خود ہی آج اس بوڑھے بڑھیا سے ڈر رہی تھی۔ خصوصاً بڑھیا سے۔ پتھر پر درانتی گھستی ہوئی موسی نے یونہی بے مقصد ادھر سے ادھر آتی جاتی نول سے کہا، ’’اب یہ اندھیرے میں کیا ٹامک ٹوئیے مار رہی ہے تو؟ دیا تو جلا دے، نول نے دیا جلا کر کوٹھ (وہ مقام جہاں ڈھور باندھے جاتے ہیں) اور مونڈھ (وہ جگہ جو گھر میں دروازے کے قریب یا آس پاس بیٹھنے یا لیٹنے کے لیے بنائی جاتی ہے)کے درمیان گھٹنے گھٹنے اونچی دیوار پر رکھ دیا۔ پھر اندر سے چاول لے آئی۔ انہیں پھٹک کر اور پھر چولھے کے قریب بیٹھ کر ایندھن کی آگ کے اجالے میں ان میں سے کنکر چننے لگی۔‘‘

    برتن میں دودھ ڈالتے وقت موسی کا کہنے کو جی چاہا۔ چولھے کی آگ کی روشنی میں تو کبھی کسی نے چاول چنے ہیں۔ لیکن یوں نہ کہہ کر اس نے سیدھے سبھاؤ کہہ دیا، ’’اب چاول ہنڈیا میں ڈال دے۔‘‘ اور باہر بھونکتے ہوئے کتے پر اپنا غصہ اتارا، ’’اس موئے کتے کو بھونکنے کا جیسے روگ لگ گیا ہو۔‘‘

    نول اگر بشاش ہوتی، اس وقت تو فوراً جواب دیتی، ’’تو تو بھی کہاں کم بولتی ہے موسی۔ چور لفنگے دن کو تجھ سے ڈرتے ہیں اور رات کو کتوں سے۔‘‘

    لیکن نول کے دماغ میں تو اس وقت کچھ اور ہی اتھل پتھل ہو رہی تھی۔ اس کا دھیان کسی اور طرف ہی تھا۔ دریا کے کنارے بھونکتے ہوئے کتے کا بھونکنا ہی وہ نہ سن رہی تھی۔

    ہنڈیا میں چاول ڈالتی ہوئی نول کے کانوں کے پردوں پر بلکہ براہ راست دل پر ان جوتوں کی آواز حملہ آور ہوئی جو باہر صحن کے پتھروں پر بج رہے تھے۔ ایک شخص کے جوتوں کی چاپ سن کر بغیر دیکھے ہی اس نے اندازہ لگا لیا کہ لنگڑا سادھو ننگے پاؤں تھا۔ پہلے سادھو کی آواز سنائی دی، ’’جے سیتارام۔‘‘

    یہ آواز سنتے ہی نول کے دھڑکتے دل نے فوراً کہا، ’’ایک تو وہی ہے۔ اس کی آواز ہے۔‘‘

    دروازے سے چند قدم دور الاؤ میں انگارے دہکاتے ہوئے موسا نے آنے والوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا، ’’آؤ مہاراج آؤ۔ بیٹھو اس چار پائی پر۔‘‘ پہلے سادھو نے چارپائی اٹھا کر اس طرف رکھ دی اور دروازے کی طرف رخ کرکے بولا، ’’یہاں سامنے کی طرف ٹھیک رہےگا۔‘‘ لنگڑے نے بھی آسن جمایا۔

    بھیڑوں کے چھپر میں باندھے ہوئے کتے نے اب بھوکنا ترک کر کے غرانا شروع کر دیا تھا۔ ادھر موسی کی بڑبڑاہٹ پھر شروع ہو گئی، ‘‘موؤں کو سوائے سیتارام کے کچھ آتا ہی نہیں۔ دوسروں کے ٹکڑوں سے پیٹ بھرنا اور بھٹکتے رہنا یہ ہے مراد جلوں کی زندگی۔‘‘

    چولھے میں ضرورت سے زیادہ ایندھن ٹھونستی ہوئی نول کے کان باہر ہی لگے ہوئے تھے۔ ان دونوں میں سے ایک نے، جس کو نول اپنا پہلا شوہر یقین کر چکی تھی، موسا سے پوچھا۔ کتنے بیٹے ہیں؟ چار بیٹوں میں سے ایک بھی نہیں؟ ایک بھی بہو تمہیں نہیں رکھتی؟ ڈوسا ڈوسی (بوڑھے بڑھیا) میں سے کسی ایک کو بھی نہیں؟ اس گھر کی مالکن تمہاری بھانجی ہے؟ بائی اکیلی ہی ہے۔ کواڑ کی اوٹ میں دیدے مٹکاتی اور باہر جھانکتی ہوئی موسی کہے بغیر نہ رہ سکی۔ یہ سب پوچھنے سے مطلب باؤ جی اور فوراً ہی موسی باہر نکل کر اور اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر سادھوؤں کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

    ’’مطلب تو ہے مائی اور کچھ نہیں لیکن۔ لیکن۔۔۔ جس کا گھر سنسار ہو اس کے ساتھ اور کیا بات کی جاسکتی ہے۔‘‘ حتی الامکان سادھو نے نرمی سے کہا۔

    موسی کا ارادہ تو اپنا پارہ انتہا تک پہنچا دینے کا تھا لیکن سادھو کی چند ہی باتوں نے ان کا پارہ ایک دم سے اتار دیا اور پھر وہ خود ہی الاؤ کے قریب بیٹھ کر اپنا دکھڑا سنانے لگی، ’’آگ لگے اس جنم کو اور آگ لگے اس سنسار کو مارے پیٹے بھگوان کے گھر میں بھی سومن تیل ہوتے ہوئے بھی اندھیرا ہے نا۔‘‘ اور دروازے کے درمیان جو اندھیرا تھا اس سے فائدہ اٹھا کر وہاں آکر بیٹھی ہوئی نول کی طرف اشارہ کرکے موسی بولی، ’’اب ہماری نول کو ہی دیکھو۔ پانچ بھائیوں پر یہ اکیلی ہی زندہ رہ گئی ہے۔ ماں بھی ننھی سی چھوڑ کر مر گئی تھی اور باپ بھی ایسا ملا کہ جس نے سارے گاؤں سے دشمنی مول لے رکھی تھی۔ اب تم ہی کہو بابا جی کہ لڑکی کے لیے باہر ہی کا لڑکا دیکھنا پڑتا ہے اورگھر داماد بن کر کون رہنا پسند کرےگا۔ اجت جاٹے اور ناک کٹے۔ یاتو کوئی چھٹا ہو اہی مل سکتا ہے یا پھر کوئی نیچ خاندان کا۔‘‘ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اضافہ کیا، ’’اور ہوا بھی ایسا ہی۔ بائی کو شوملا ایک دم چھٹا ہوا۔‘‘

    ’’کیوں؟ چھٹا ہوا کیوں ملا مائی۔‘‘ پہلے سادھو نے پوچھا۔

    ’’اور نہیں تو کیا سریپھ کہوں اسے؟ نہ تو اس کی ماں تھی اور نہ باپ، کہتے ہیں کہ ماموں کے گھر رہتا تھا اور پھر ہوا یوں کہ، جیسا کہ میری بیٹی نے کہا تھا اس نے کسی میلے میں نول کو دیکھ لیا اور۔۔۔‘‘ بڑی بی کے ماتھے پر بل پڑ گئے، ’’مارا پیٹا بدمعاش، اپنا گاؤں چھوڑ کر ہمارے گاؤں میں آکر گھر داماد بن گیا، اب تم ہی کہو بابا جی چھٹے ہوئے کے علاوہ کوئی اور یہ ذلت برداشت کرسکتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ کام کے نہ کاج کے ڈھائی سیر اناج کے۔ تم تو جانتے ہی ہو گے کہ ہم رہے کھیڈوت (کسان) چنانچہ ایک دن میں ہمیں ڈیڑھ سیر پسینہ بہانا پڑتا ہے اور ہمارے جمائی راج (داماد) کا دماغ تو ایسا کہ ٹھاکر کا بھی کیا ہوگا۔

    اوہو۔ ہو۔ ہو۔ ہو۔ کیا مجاج! کیا مجاج! پسینہ بہانا اور محنت مجوری کرنا ان کے بس کا روگ نہ تھا۔ دن شروع ہوتے ہی انہیں تو ایک روپے کی افیون چاہیے۔ چنانچہ سسرداماد میں کھڑے گھاٹ نہ بنتی تھی۔ یوں ہوتے ہوتے دونوں میں ایک دن ٹھن گئی برابر کی۔ سسر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور جمائی ساب تو تکار اور ابے تبے پر اتر آئے۔ دن میں تو بات آئی گئی ہو گئی لیکن اس مراد جلے کے دل میں تو آگ بھری تھی۔ دوسرے دن تو وہ سب کو سوتا چھوڑ کر نکل گیا موا۔ ماموں کے گھر پچھوایا لیکن وہ ہوتا تو ملتا۔ موئے کو زمین نے نگل لیا کہ آسمان نے اٹھا لیا، موئیا کہاں گیا پتہ بھی نہ چلا۔‘‘

    پہلے سادھو نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور لنگڑا سادھو کھاجانے والی نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا اور جیسے اپنے حواس میں نہ ہو یوں بڑبڑایا، ’’اسی نے تو یہ سب چکر چلایا ہے۔‘‘

    ’’ہاں! بابا جی۔۔۔‘‘ موقع کی مناسبت سے بڑی بی کی ہاں میں ہاں ملائی تو موسی لنگڑے سے خوش ہو گئی اور لنگڑے کی طرف پیار سے دیکھا بھی۔ لیکن پہلے سادھو نے لنگڑے کے پہلو میں اپنی کہنی سے ٹہوکا دے کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور جیسے وہ ہوش میں آیا۔ بڑی بی اپنی ہی دھن میں کہے جارہی تھیں، ’’اس کے باوجود بابا! میری نول نے آج آئےگا اور کل آئےگا کی امید میں پورے چار سال گزار دیے۔ چار برس اس نکٹے کا انتظار کیا۔‘‘

    اور جیسے وعظ کہہ رہی ہو، یوں سردھن کر بڑی بی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’آخر تھک ہار کر دوسرا تلاش کیا۔ لیکن یہ موا بھی رکھڈیل (آوارہ) تھا۔ اس سے پہلے والے موئے کا کوئی سگا ہی تھا شاید۔ کوئی کہتا تھا کہ سات تو اس کے بھائی بہن ہیں اور موئے کے ڈوسا ڈوسی (ماں باپ) بھی زندہ ہیں۔ لیکن مجاج کا ایسا چنگیز تھا کہ بھائیوں سے جھگڑا کرکے نکل گیا تھا۔ گھر سے اس کے منحوس ستارے ہی اسے یہاں لے آئے ہوں گے۔ نہیں تو کہاں وہ، کہاں یہ جگہ اور کہاں میرے ڈوسے (بڑے میاں) کے ساتھ کام کاج میں شرکت اور کہاں ڈوسے کا دل رجھانا۔ ایک برس بیتا نہ بیتا اور قسمت سے وہ بھی گھر جمائی بن بیٹھا۔۔۔ اسے تو بابا جی میں نے ایک دفعہ دیکھا تھا۔‘‘ بڑی بی کے مرجھائے ہوئے چہرے پر چمک آ گئی۔ کام تو کیا کرتا تھا جیسے راکھشس اور زبان تو جیسے منہ میں تھی ہی نہیں۔ دس دفعہ کہیں تو ایک دفعہ جواب دے پھر تم ہی کہو ڈوسے کو کیوں نہ پسند آتا۔‘‘

    ’’سچ ہے!‘‘ ایک آہ کے ساتھ پہلے سادھو نے کہا۔

    بڑی بی اپنی ہی دھن میں تھیں، ’’اور میری نول کا تویہ ہے کہ اسے کسی لنگڑے لولے سے بیاہ دو تو اسی کی ہورہے۔ وہ بھلا، اس کا کام بھلا اور اپنی خدمت بھلی۔ بس یہ تھی اس کی دنیا، دو داماد رکھے لیکن کسی ایک کے ساتھ بھی جھگڑانہ کیا۔‘‘ بڑی بی کی آواز بھرانے لگی، ’’لیکن شاید بھگوان ہی ہاتھ دھوکر اس کم بخت کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ میری نول کو سکھی ہونے ہی نہ دیا کسی طور۔ نہیں تو پھر۔۔۔‘‘ اور بڑی بی کے الفاظ رونے کی آواز میں تبدیل ہو گئے۔

    موسا بھی آنکھیں پوچھنے لگے اور ادھر کواڑ کی اوٹ میں بیٹھی ہوئی نول کی آنکھیں تو پہلے سے ہی آنسو بہارہی تھیں۔ اگر اس وقت کوئی دیکھتا تو اسے لنگڑے سادھو کی آنکھیں بھی ڈبڈبائی ہوئی نظر آتیں۔ بڑی بی سے یہ داستان اگلوانے والا سادھو بھی بےچین تھا۔ ’’ہاں تو پھر کیا ہوا؟ بات تو پوری کرو ماں۔‘‘

    ’’اب پوری اور ادھوری کیا بابا؟‘‘ بڑھیا بڑبڑائی اور پھردم لے کر بات آ گئے چلائی، ’’اب بات یوں تھی کہ سامنے جو گاؤں ہے نا، اس کے مکھیا اور میرے ڈوسے کے درمیان بیر تھا۔ دشمن تھے ایک دوسرے کے۔ اسی لیے تو بھائی بیس بیس برسوں سے ہم اس جنگل میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہاں تک تو خیر ٹھیک تھا۔ لیکن ہوا یوں کہ مارے پیٹے مکھیا کے بیٹے کو شیطان نے انگلی دکھائی تو اس نے تیسرے چوما سے کے ایک میلے میں نول کو چھیڑا، مسخری کی اس کے ساتھ۔‘‘

    بڑی بی نے ایک لمبا سانس لے کر پرانی دھونکنی میں ہوا بھری، ’’اور کہتے ہیں کہ جب ڈوسے (بڈھے) کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے اپنا سینہ کوٹ لیا اور اپنے مرے ہوئے بیٹوں کو یاد کرکے ایسا واویلا مچایا کہ کہنے والے آج تک کہتے ہیں کہ موسلا دھار پانی برس رہا تھا اور اس میں ڈوسے کا رونا ایسا لگتا تھا جیسے واترک کے اس طرف کا سارا جنگل ہی رورہا ہوا اور بھائیوں کی دہائی دیتی ہوئی نول تو اس طرح رو رہی تھی کہ جیسے دونوں کناروں سے لگ کر بہتی ہوئی واترک ہی رو رہی ہو۔

    بڑی بی نے پھر سر ہلایا اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’ایسا ہوا ہوگا تبھی تو جمائی کا، ایک غیر آدمی کا، خون کھول گیا ہوگا؟ کہتے ہیں کہ میلے میں سیدھا ہی نکل چلا اور گھپ اندھیری رات میں چڑھے ہوئے دریا کی بھی پرواہ نہ کی اور کہتے ہیں کہ گھر کے چھپر میں سوئے ہوئے مکھیا کے بیٹے کو جگایا اور پھر اس کا جھٹکا ہی کر دیا، وہاں سے گھر آیا اور سسر سے اپنا کارنامہ بیان کرنے لگا۔ لیکن نول نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے الٹے پیروں جنگل کی طرف چلتا کر دیا اور یقیناً کیا ہوگا کہ جان ہے تو جہان ہے۔ بس وہ اس وقت سے گیا سو گیا۔‘‘

    اور پھر ایک آہ بھر کر اضافہ کیا، ’’آج کل کرتے کرتے تو تین تین سال گزر گئے باباجی۔ نہ تو اس بھاگیڑو (مفرور) کا کہیں پتہ ہے اور نہ ہی نول نیا گھر بسانے کو تیار۔۔۔‘‘

    بڑی بی کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ نول کی بیزار سی آواز سنائی دی، ’’آدھی رات بیت گئی۔ موسی کھانا کب کھاؤگے تم لوگ؟‘‘ اور چونک کر اٹھی ہوئی موسی کو گھر میں آنے دینے کی مہلت دے کر کہا، ’’ان سادھوؤں کو سیر بھر چاول دے کر چلتا کرو یہاں سے۔‘‘

    لیکن سادھوؤں کو کوئی جلدی نہ تھی۔ انہیں چاول مل گئے تب بھی وہ نہ اٹھے۔

    نول نے موسی کو بھی گھر میں بلا لیا، تب بھی وہ دونوں ڈھیٹ کی طرح بیٹھ رہے۔

    اب نول مجبور تھی۔ اس نے گھر سے باہر اور سادھوؤں کے سامنے آکر کہا، ’’موت کے منہ میں بیٹھے رہنے کاکوئی سبب؟‘‘

    ’’ہم تجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ پوچھنا ہے کہ۔۔۔‘‘ پہلے سادھو نے خوش ہوکر کہا۔ الاؤ کی روشنی میں وہ نول کی نظر سے نظر ملانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ادھر لنگڑے سادھو کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی اور وہ نول کے سراپا کا جائزہ لے رہا تھا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ ’’تجھے پیٹ بھر کھانا ملتا ہے کہ نہیں؟ کتنی دبلی ہو گئی ہے تو۔‘‘ لیکن یوں کہنے کے بجائے اس نے پوچھا، ’’پہلے یہ بتا کہ تو نے ہمیں پہچانا کہ نہیں؟‘‘

    اس بھولی بھالی، پرامید اور تقریباً احمقانہ آواز کی طرف گھومتی ہوئی نول کی آنکھوں میں گھڑی بھر کے لیے پیار کی چمک آکر بجھ گئی اور پھر ہمدردانہ اور غمناک نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’ہاں۔ لیکن یہ ٹانگ کہاں توڑ بیٹھے؟‘‘

    ’’ٹانگ تو خیر ٹوٹ گئی۔‘‘ اسے جلدی تھی اپنے سوال کی۔ ’’اس منحوس رات کو بھاگتے بھاگتے۔۔۔ لیکن تو اپنی کہہ۔۔۔‘‘

    نول نے اپنا دل پتھر کر لیا۔ خود اپنے ہی نہیں بلکہ سامنے والے دو دلوں پر بھی درانتی چلا رہی ہو یوں ’’کچ‘ سے اپنے محبوب کا سوال کاٹ دیا، ’’اب یہ باتیں رہنے دو اور اسی وقت اٹھو یہاں سے۔ میری مانو اور جہاں دھونی رمائی ہے، اس طرف کا رخ کیے بغیر یہیں سے بھاگ جاؤ۔‘ اور پھر لنگڑے سادھو کی طرف دیکھ کر نیچی آواز میں کہا، ’’یہاں کے تو درخت بھی رجواڑے کے جاسوس ہیں۔‘‘ اور پھر خود ہی پلٹ کر گھر کی طرف چل دی۔ دروازے میں داخل ہوتے وقت وہ ہاتھ سے اشارے کررہی تھی کہ ’’اٹھو، اٹھو۔ جاؤ یہاں سے۔‘‘

    پہلا سادھو اپنی جھولی لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’لیکن۔۔۔ لیکن۔ ہم تو یہاں مرنے ہی آئے تھے۔ لیکن پہلے تجھ سے کچھ پوچھنا۔۔۔‘‘ لنگڑے سادھو نے پہلے کو جھڑک دیا، ’’ارے تو بھی تو ایک ہی بیوقوف ہے نا۔ یہ کیا کہےگی اس میں؟ تو تو میں کہتا ہوں ایسا ہی۔۔۔‘‘

    اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پیچھا چھڑانے یا کسی اور وجہ سے نول روازے میں سے ہی پلٹ کر چارپائی کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

    ’’لو پوچھ لو جو پوچھنا چاہتے ہو۔‘‘

    سادھو ایک دم سے گھبرا گیا۔ یہ روپے پائی کا معاملہ نہ تھا کہ جھٹ سے حساب کر لیتا۔ چنانچہ وہ لڑکھڑاتی زبان سے بولا، ’’پوچھنا تو یہ ہے کہ۔۔۔ تو ذرا اطمینان سے بیٹھے تو۔۔۔‘‘

    لنگڑے سادھو کے لیے پہلے سادھو کی یہ باتیں ناقابل برداشت تھیں۔ چنانچہ وہ بولا، یہ کیا چنے چبا رہا ہے؟ اور پھر اپنی طرف دیکھتی ہوئی نول سے براہ راست پوچھا، ’’میرا کہنا یہ ہے کہ یہ یہاں رہے اور میں۔۔۔‘‘

    نول گھبرا گئی۔ ارے را۔۔۔ آ۔۔۔ م۔۔۔ تم رہو یا یہ رہے۔ جو بھی رہےگا پولس والا اسے چھوڑنے کا نہیں۔ پکڑ لےگا اور پکڑ کر لے جائ گا۔ مصیبت تو یہ ہے کہ سپاہی تو رہا ایک طرف۔ گاؤں میں بھی تمہیں کوئی نہیں پہچانتا اور گاؤں کا تو یہ ہے کہ جو بھی اجنبی نظر آیا وہی چور۔ اس لیے میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں اور اس نے سچ مچ ان دونوں کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے اور پہلے کی طرف دیکھ کر اضافہ کیا، ’’کہ فوراً اٹھو اور جاؤ یہاں سے۔‘‘

    ’’لیکن میں کیا کہہ رہا ہوں تو سنے تو۔ پولس میں جاکر اپنے آ پ کو سپرد کر دینے کے متعلق تو میں کہہ رہا ہوں۔ پھر اسے کون۔۔۔‘‘

    پہلے نے فوراً اپنے ساتھی کی بات کاٹ دی۔ ’’نہیں، یوں نہیں۔‘‘ اس نے نول سے کہا۔ یہ چونکہ لنگڑا ہے اس لیے اب کوئی اسے پہچان نہ سکےگا اور نہ ہی کوئی کچھ پوچھےگا۔ چنانچہ میں پولیس میں جاکر اپنے آپ کو خونی۔۔۔‘‘

    لنگڑا اپنی ہی دھن میں تھا بلکہ الجھن کی آندھی میں پھنسا ہوا تھا۔ یہ خود اسی کی بات ہورہی تھی۔ اس لیے اس نے بھی نول کو مخاطب کیا، ’’سچ تو ہے۔ دو دو دھنی ہیں تیرے، اس کے باوجود تو اس جنگل میں اکیلی ہے۔‘‘

    ’’اس لیے۔‘‘

    ’’تو یہیں رہ جا، اس کے ساتھ۔‘‘ کہتا ہوا پہلا اٹھ کھڑا ہوا، ’’میں اسی وقت تھا نے جاکر۔۔۔‘‘ یہ سن کر لنگڑا جھنجھلا گیا۔ کڑک کر بولا، اب یہ بات تو تو بھول ہی جا۔ خون میں نے کیا ہے اور پکڑا جائے تو؟ ایسا تو کبھی نہ ہوگا۔

    نول کا دماغ بےٹھکانے تو تھا ہی، اس پر یہ دونوں صدمے بیٹھے تو چنانچہ وہ زیادہ الجھ گئی اور ’’پھوڑتے رہو تم لوگ اپنے سر‘ یہ کہہ کر وہ پلٹی اور آپ ہی آپ بڑبڑاتی اور روتی لڑکھڑاتے قدموں سے دروازے کی طرف یوں چلی جیسے اندر سے ٹوٹ گئی ہو۔

    عین اس وقت موسی، جو کواڑ کی اوٹ میں کھڑی یہ تماشہ دیکھ رہی تھی، بڑبڑاتی ہوئی ایک دم سے باہر نکل آئی، ‘‘مارپٹیو جاتے کیوں نہیں؟‘‘ اور قریب آکر بولی۔ وہ تمہارا باپ (پولس) آ گیا تو وہ دونوں کو ہی دھر لےگا۔ اس لیے بھاگو یہاں سے اور اتنا کہہ کر وہ بھی پلٹ پڑی۔

    پھر پتہ نہیں کیا خیال آیا کہ دروازے میں سے لوٹ کر واپس آئی اور پہلے سادھو سے سرگوشی میں کہا، ’’کرنانہ کرنا یہ دل کا معاملہ ہے، بھلے آدمی اور پھر جاتے جاتے لنگڑے سے بھی کہہ دیا، جو کرنا ہے وہ کرلو فوراً کہ قصہ ختم ہو۔‘‘

    اور موسی نے گھر میں جاکر درازہ بند کر دیا تو دونوں سادھوؤں کو بھی مجبوراً اٹھنا پڑا۔

    ڈھلان اترتے وقت دونوں میں پھر وہی بحث چل نکلی اور دھونی تک پہنچنے تک پہنچتے دونوں آخری فیصلہ کر چکے تھے۔

    ’’پولس جس کو پکڑ لے جائے وہی سچا۔‘‘

    لیکن لنگڑا اس کے لیے تیار نہ تھا لیکن وہ کرتا بھی تو کیا؟ پہلے نے اسے نول کی قسم دے کر خاموش کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا تھا کہ اس سے زیادہ لنگڑا نول کو سکھی رکھ سکےگا اور لنگڑے کو بھی قبول کرنا پڑا تھا۔

    لیکن ہوا یوں کہ دوسرے دن فوجدارکے لیے مرغی کی تلاش میں نکلے ہوئے پولیس والے کی نظر ان دو مرغوں پر پڑی۔ سوالات کے جواب میں دونوں سادھوؤں نے دیسی زبان میں بات چیت کی تو ایسا ہی ہوا جیسا موسی نے کہا تھا۔ یعنی وہ دونوں کو ہی اپنے ساتھ لے گیا۔

    گھر کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی نول نے یہ دیکھا تو بڑی مشکل سے وہ رونا روک سکی۔ اسے ان دونوں بیوقوفوں پر غصہ بھی بہت آیا۔ اس نے اپنا غصہ موسی کے سامنے انڈیل بھی دیا۔

    ’’میرے سامنے آنے کے بعد آخرکار۔۔۔‘‘ وہ آگے بول ہی نہ سکی۔

    لیکن جو کچھ ہوا موسی کو اس کا افسوس نہ تھا بلکہ خوشی تھی۔ وہ بولی، ’’جو ہوا سو اچھا ہوا۔ اب کوئی فیصلہ تو ہو رہےگا۔ وہ جیسے کچھ سمجھ ہی نہ رہی تھی۔ وہ جیسے ان دونوں کو پہچانتی نہ ہو، یوں بےتعلقی سے کہا،’’ چلو، ٹھکانے لگ گئے۔ بھیک مانگنے سے رہے اور جیل میں بیٹھے بیٹھے جے سیتا رام تو ہوتا ہی رہےگا اور پھر دل ہی دل میں ہر پہلو پر غور کرکے یہ اندازہ لگانے لگی کہ ان دو میں سے کون کام کا ہے اور کون نکھٹو اورنکما۔ لیکن نول کے دل کی کیفیت کچھ اور ہی تھی۔ دریائے واترک کو تو اپنے دو کناروں میں سے کسی ایک سے زیادہ اور دوسرے سے کم پیار ہو سکتا تھا۔ لیکن نول کا یہ تھا کہ دائیں پھوٹے یا بائیں میں پھوٹے، آنکھ تو بہرحال اسی کی تھی۔

    چنانچہ پولیس تھانے میں بھی اس کی ’’نہیں کی نہیں‘‘ رہی، کیوں کہ جانتی تھی کہ ایک ’نہیں‘ سو دکھ ٹال دیتی ہے۔ اس نے کہا کہ، اپنی ساری عمر میں نے ایسے بابا سادھو نہیں دیکھے، پھر انہیں پہچاننے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؟

    لیکن چھہ مہینے بعد وہ خونی لنگڑا رہا ہوکر آیا اور وہ بے گناہ عمرقید کی سزا بھگتنے لگا تو اس وقت باہر موسی کے سامنے ہوتی ہوئی بات سنتے ہی نول کو محسوس ہوا کہ اسے تو اس بدنصیب سے ہی زیادہ پیار تھا۔ اس کی نرمی، اس کی سنولائی ہوئی رنگت اور اس کے روٹھنے کا انداز سبھی اسے پسند تھا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ زیادہ دیر تک اپنے آنسو نہ روک سکےگی۔ چنانچہ وہ گھڑا لے کر گھر سے باہر نکل گئی۔ رحم طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھتے اور چبوترے پر بیٹھے ہوئے لنگڑے شوہر پر ایک نظر غلط انداز ڈالے بغیر وہ تیزی سے ٹیلے کی ڈھلان اتر گئی۔

    کنارے تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور کنارے تک پہنچتے پہنچتے اس کے بھنچے ہوئے ہونٹ بھی کھل گئے اور پھر بے تحاشہ روتی ہوئی نول اپنے آپ کو ہی پھٹکارنے لگی، ’’اری بدنصیب، اس بھری دنیا میں وہ بچارا اکیلا تھا۔ برسوں کے بعد تیرے درپر آیا تھا۔ کھلانا پلانا تو خیر دور کی بات ہے لیکن تو نے اس سے بات تک نہ کی۔ ارے اس کے سکھ دکھ کے متعلق ہی پوچھا ہوتا کم نصیب۔‘‘

    بدنصیب لنگڑا! وہ کیا جانتا تھا کہ داترک کے کنارے یوں ہو رہا ہوگا۔ اگر جانتا تو نول کے پیچھے ہی پیچھے کبھی نہیں آتا۔ وہ تو نول کے سامنے اپنے دل کے زخم کھولنا چاہتا تھا۔ اس کے سامنے اپنے دل میں چبھے ہوئے کانٹے نکالنا چاہتا تھا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ عدالت میں میں نے اپنی سی کوشش کی لیکن اس سے پہلے نے اور وکیل نے میری ایک نہ چلنے دی، جج نے بھی میری ایک نہ سنی اور ستم بالا یہ ہوا کہ میری یہ لنگڑی ٹانگ میری بیری بن گئی۔ سچ کہتا ہوں کہ میں نے اپنی جان کو کبھی عزیز نہیں سمجھا اور نہ سمجھوں گا۔ لیکن۔۔۔

    جانے اور کیا کچھ کہہ ڈالتا وہ۔ لیکن وہ کچھ نہ کر سکا، ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا۔ تاہم نول کے لیے اس کی وہ رحم طلب نظریں اور اداس اور اجاڑ صورت کافی تھی۔

    لیکن ہائے، نہ تو نول یہ سب کچھ دیکھ سکی اور نہ ہی وہ بے صبرا لنگڑا گھڑی بھر صبر کرسکا اور کیسے کر سکتا تھا۔

    بھائیوں کی دہائی دیتی ہوئی اس دن کی نول نے تو اس کا دماغ اپنی جگہ سے ہٹا دیا تھا لیکن آج کی، اس وقت کی نول نے اور اس کے رونے نے لنگڑے کا دل ہی توڑ دیا۔ جیسے اس کی دوسری ٹانگ بھی کھٹاک سے ٹوٹ گئی ہو، یوں وہ کنارے پر کی کھاکھری کی جھاڑی کے قریب ٹھہر گیا جیسے کسی پھول جیسے اور شیر خوار بچے پر اس نے غلطی سے چھری چلا دی ہو، یوں وہ لرز اٹھا۔ اس کی روح تک کانپ گئی۔

    ’’اررر۔ غلطی ہو گئی۔ بڑی زبردست غلطی کر بیٹھا۔‘‘

    اور خوفناک غلطی کا جیسے کفارہ ادا کر رہا ہو، یوں اس نے اپنی لنگڑی ٹانگ اٹھائی اور پلٹ کر چلتا بنا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ واترک کے کنارے کے درختوں کو ’’رام رام‘‘ کہہ کر ان سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہا ہو۔ دریا کے کنارے بیٹھی اور اس کے بہتے پانیوں میں آنسو ٹپکاتی ہوئی نول سے کون کہے کہ تیرے ہاتھ آئی ہوئی زندگی تو وہ جا رہی ہے۔۔۔

    وہ دریا کا موڑ مڑ گیا اور اب وہ لنگڑا تا، لنگڑاتا ٹیلے کی ڈھلان چڑھنے لگا۔ وہ چوٹی پر پہنچ گیا تھا اور اب وہ دوسری طرف کی ڈھلان اتر رہا تھا اور وہ دوسری طرف کی ڈھلان اتر گیا۔ اس وقت صرف ایک ہی امید تھی جو شاید اس کے دل میں بھی پھڑپھڑا رہی تھی وہ یہ کہ،

    ’’مویشی چرانے گئے ہوئے موسا سامنے مل جائیں اور اسے واپس بلا لیں۔‘‘

    مأخذ:

    گجراتی کہانیاں (Pg. 146)

      • ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے