Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وضع دار

انجم قدوائی

وضع دار

انجم قدوائی

MORE BYانجم قدوائی

    لکھنؤ کے ایک پرانے محلے میں ہمارے کچھ عزیز رہتے تھے یا رہتے ہیں۔ کیونکہ بقول بشیر بدر

    انھیں میری کوئی خبر نہیں مجھے ان کا کوئی پتہ نہیں۔ یہ کا فی پہلے کی بات ہے۔

    اس محلے میں ایک بہت بڑا پھاٹک ہوا کرتا تھا۔ جس کے اوپر دونوں طرف پتھر کی بڑی بڑی مچھلیاں بنی ہوئی تھیں۔ پھا ٹک دونوں طرف نیچے اتنی جگہ بنی ہوئی تھی جیسے کہ چھو ٹے چبوترے جن پر ہم اور رخسانہ بیٹھ کر گٹے کھیلتے تھے۔

    پھاٹک کے اندر سامنے بہت بڑا سا کچا صحن تھا اور بائیں ہاتھ کی طرف بہت بڑی صحنچی اور کئی درو ں کے دالان تھے۔ غالباً پہلے یہ کسی نواب کا زنان خانہ رہا ہوگا اسکی بناوٹ ہی کچھ ایسی تھی اور اس لمبے چوڑے صحن اور صحنچیوں میں پورا محلہ بسا ہوا تھا۔۔۔داہنی جانب ایک راستہ تھا جس میں دونوں طرف کچھ گھر بنے ہوئے تھے جو نسبتاً اچھے تھے اور ان گھروں میں متوسط طبقے کے لوگ رہا کر تے تھے۔

    ان ہی گھروں میں ایک گھر عالیہ خالا کا تھا۔۔۔عالیہ خالا ہماری دور کی رشتہ دار تھیں۔ اماں کے رشتے کے ماموں یا چچا کی بیٹی۔۔۔اور اس رشتے سے وہ ہماری خالا ہوئیں۔۔۔

    ان کا گھر کافی کھلا کھلا سا تھا۔۔۔خوب بڑا سا صحن جس میں لال اینٹوں کا فرش ایک نیچی سی دیوار جس میں داخلی دروازہ، دوسری طرف دالان اور ایک طرف بڑے بڑے دو کمرے اور باورچی خانہ۔ آنگن کے ایک کونے میں بڑا سا امرود کا پیڑ، جسپر خوب میٹھے امرود آتے تھے۔

    باورچی خانے کا فرش سیمنٹ کا بنا ہوا تھا بےحد چکنا اور صاف شفاف۔ وہاں لکڑی کی کئی پیڑھیاں رکھی ہوئی تھیں۔

    مجھے آج بھی یاد ہے کہ مٹی کے لپِے پتے چولھے پر آمنہ خالا باریک باریک چپا تیاں پکا رہی ہوتیں اور بےتکان اماں سے باتیں کرتیں ہم دونوں تام چینی کی پھول دار پلیٹوں میں وہیں پیڑھی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے۔

    ارہر کی اصلی گھی میں بگھری دال اور سفید موتی جیسے چاول۔۔۔کیا ذایئقہ تھا آمنہ خالا کے ہاتھ میں۔۔۔اس کے بعد آج تک وہ ذائقہ نصیب نہ ہوا۔۔۔

    آمنہ خالا اچھی خاصی تندرست خاتون تھیں سرخ سفید رنگ، ناک کے پاس ایک موٹا سا مسہ۔۔۔بےحد گھنے گھونگر والے بال، جنہیں وہ ربن میں قید کرتیں اور وہ چہرے پر بکھر بکھر جاتے۔۔۔

    خالو دبلے پتلے اور بےحد مسکین شخصیت تھے وہ اکثر آمنہ خالا سے جڑکیاں کھا یا کرتے مگر خاموش رہتے۔

    اس دن کافی گرمی تھی اور لائٹ ہمیشہ کی طرح غائب۔۔۔

    رخسانہ اور میں باہر صحن میں کھیل رہے تھے تبھی بڑے زور کی بارش شروع ہو گئی۔۔۔اس شدید گرمی کے بعد بارش خدا کے حسین تحفے کی طرح تھی ہم اس بارش میں خوب بھیگتے رہے۔۔۔مٹی اور پانی سے کھیل کر ہم دونون بری طرح بھیگ چکے تھے۔ بہت ہی گندے لگ رہے ہونگے جب ہی اماں بار بار دروازہ کھول کر ہمیں ڈانٹتی رہیں۔۔۔مگر کون سنتا ہے۔۔۔

    شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تو دل بری طرح گھبرایا اسی وقت اماں اور آمنہ خالا گھر سے نکلیں خوب عمدہ کپڑے پہنے ہوئے تھیں شاید وہ کہیں گھومنے جا رہی تھیں۔۔۔

    ہم بھی جائینگے۔۔۔ ہم دونوں ان کے پیچھے دوڑے۔۔۔مگر وہ رکشہ میں بیٹھ کر آگے چلی گئیں۔۔۔ہم بےتہا شہ دوڑتے رہے مگر رکشہ اور تیز اور تیز ہوتا گیا۔۔۔ہم روتے رہے مگر رکشہ نہیں رکا بس اماں نے نقاب ہٹاکر ہمیں ڈانٹا۔

    ’’پہلے کہا کہ نہاکر کپڑے بدل لو۔۔۔تب نہیں سنا۔۔۔اب گھر جاؤ واپس۔۔۔تمہارے خالو ہیں گھر میں۔

    رکشہ بہت آگے چلا گیا تو ہم روتے ہوئے گھر لوٹے۔۔۔اور بغیر بستر کی چار پائیوں پر لیٹ کر سو گئے۔

    ہم کو زور کا بخار چڑھا تھا۔ کب اماں آئیں کب ہمیں اٹھاکر دودھ پلایا دوا کھلائی، کچھ یاد نہیں۔ صبح جاگے تو طبیعت بہتر تھی۔

    ہم لو گوں کو واپس جانا تھا۔ آمنہ خالا نے دعوت کا اہتما م کر ڈالا۔۔۔سارے دن وہ انتظام میں لگی رہیں کئی چیزیں ہمارے ساتھ بھیجنے کے لئے تیار کرتی رہیں نئی نئی فراکیں خریدکر مجھے دیں۔

    رات کے کھانے میں بہت اہتمام کیا ساری دوپہر باورچی خانے میں گزار دی۔

    موسم نسبتاً بہتر تھا۔ آنگن میں پلنگ بچھے تھے جن پر سفید شفاف بستر لگے تھے۔ میں اور رخسانہ ایک بستر سے دوسرے پر کود رہے تھے۔ چادر خراب ہونے کی وجہ سے اماں مستقل ڈانٹ رہی تھیں۔

    آنگن میں بڑی سی ڈائینگ ٹیبل لگاکر کرسیاں لگا دی گئی تھیں۔ سبھی بھائی بہن کرسیوں اور پلنگوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ خوب لطیفے سنائے جا رہے تھے خوب قہقہے لگ رہے تھے۔

    آج خالو بھی کافی دنوں کے بعد سب کے ساتھ آکر بیٹھے تھے اور اماں سے باتیں کر رہے تھے۔

    میں اور رخسانہ بچھڑ نے کے خیال سے گھبرا رہے تھے اور نہ جانے کیا کیا عہدو پیماں کر رہے تھے۔

    عشرت باجی اور رفعت باجی نے کھانا لگانا شروع کیا تو ہم بھی دوڑ دوڑ کر چمچے اور پلیٹیں لانے لگے۔

    تقریباً سارا کھانا میز پر لگ چکا تھا۔ آمنہ خالا شاہی ٹکڑے نکال رہی تھیں اور مستقل باتیں کر رہی تھیں۔ تب ہی ایک عجیب واقعہ ہوا۔

    دروازے کی زنجیر کسی نے زور سے کھٹکھٹائی۔۔۔افضال بھائی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔

    ایک صا حب ایک دم سے اندر آ گئے۔ لمبا قد گورے چٹے آدمی تھے عمر میں شاید اقبال بھائی کے برا بر ہی ہونگے۔ یا چند برس بڑے ہوں۔ سفید کر تے پایئجامہ، اسپر سرمئی رنگ کی کافی قیمتی لیکن میلی سی شیروانی پہنے ہوئے تھے۔ پیروں میں چمڑے کے بد وضع جوتے تھے جو ان کے خوبصورت پیروں سے بالکل میچ نہیں کر رہے تھے۔

    وہ بغیر کسی سے ایک لفظ بھی بولے ہوئے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے اور پلیٹ میں کھانا نکالا اور جلدی جلدی کھانے لگے ان کی انگلیاں بےقراری سے کپکپا رہی تھیں۔

    سب لوگ ہکا بکا سے کھڑے تھے۔ ان کی شخصیت ایسی تھی کسی میں بولنے کی ہمّت نہیں تھی کہ ان سے کچھ کہے یا گھر سے نکالے۔

    ایک طرف خالو کھڑے ان کو کھانا کھاتے دیکھ رہے تھے دوسری طرف اماں مبہوت تھیں انھیں اس وقت پردے کا بھی خیال نہیں تھا۔

    خالا اپنی دھن میں بولتی ہوئی باورچی خانے سے شاہی ٹکڑے کی قاب لئے چلی آ رہی تھیں اؤی اللہ کہہ کر وہیں تھم گئیں۔

    کھا نا ختم کر کے ان صا حب نے جگ اپنی طرف کیا اور گلاس میں پانی انڈیلنے لگے۔ اس درمیان انھونے کسی کی طرف نظر نہیں ڈالی۔

    کئی گلاس پانی پی گئے۔ پھر سب کی طرف دیکھا اور خالو کی طرف بڑھ کر انکے قدموں میں بیٹھ گئے۔ خالو گھبراکر دو قدم پیچھے ہٹے تو انھوں نے قدم تھام لئے۔

    اور آنسؤ ں سے بھری آواز میں بولے۔

    آپ چاہیں تو ہمیں سزا دیجئے یا پولیس کے حوالے کر دیجئے۔ یا پھر معاف کر دیجئے۔۔۔آپ کے سامنے ہیں،

    ہم پانچ دن سے مارے مارے پھر رہے ہیں، پہلے کچھ بھنے چنے تھے پھر وہ بھی ختم ہو گئے بھوک سے ہمارا برا حال تھا۔ آپ کے گھر سے اٹھتی ہوئی کھانے کی خوشبو نے ہمیں بےچین کر دیا تھا۔

    گداگری ہمارا پیشہ نہیں اور محنت کرنا ہمیں آتا نہیں۔۔۔اپنا نام بتاکر اپنے اجداد کی روحوں کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے، ہو سکے تو ہماری اس جسارت کو معاف کر دیجئے،

    ان کی زبان ان کا لہجہ ان کا انداز، بےحد رقت آمیز تھا۔

    ہر ایک کی آنکھوں میں آنسو تھے، اماں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ لیا تھا اور چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

    آمنہ خالا کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔خالو نے انھیں شانوں سے تھام کر اٹھایا اور کرسی پر بٹھا دیا۔

    ان سے اور کچھ کھانے کی درخواست کی مگر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک دم ہی باہر نکل کر اندھیروں میں گم ہو گئے۔

    سب لوگ چند منٹ تک سناٹے میں گھِرے کھڑے رہے۔ کسی کو کھانے کا ہوش نہیں تھا۔ سبھی کے ذہنوں میں معصوم صفت، غریب لیکن بےحد شریف شخص کے دل پزیر الفاظ گونج رہے تھے۔۔۔رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی۔

    آج بھی جب گھر میں دعوت کا اہتمام ہوتا ہے تو میری نظریں اچا نک دروازے کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔۔۔نہ جانے کیو ں۔۔۔؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے