Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

واپسی

MORE BYاشا پریئم ودا

    گجادھر بابو نے کمرے میں جمے سامان پر ایک نظر دوڑائی۔ دوبکس، ڈولچی، بالٹی۔

    ’’یہ ڈبا کیسا ہے گنیشی؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ گنیشی بستر باندھتا ہوا کچھ گھمنڈ، کچھ دکھ، کچھ شرم سے بولا، ’’گھروالی نے ساتھ کے لیے کچھ بیسن کے لڈو رکھ دیے ہیں۔ کہا، بابوجی کو پسند تھے۔ اب کہاں ہم غریب لوگ آپ کی کچھ خاطر کر پائیں گے۔‘‘ گھر جانے کی خوشی میں گجادھر بابو کو ایک دکھ کا احساس ہوا، جیسے ایک جانی پہچانی، باعزت اور پرکشش دنیا سے ان کا ناتا ٹوٹ رہاہو۔

    ’’کبھی کبھی ہم لوگوں کی بھی خبر لیتے رہیے گا۔’’ گنیشی بستر میں رسی باندھتے ہوئے بولا۔

    ’’کبھی کچھ ضرورت ہو تو لکھنا گنیشی۔ اس اگہن تک بٹیا کی شادی کر دو۔‘‘ گنیشی نے انگوچھے کے کنارے سے آنکھیں پونچھیں، ’’اب آپ لوگ سہارا نہ دیں گے تو کون دےگا؟ آپ یہاں رہتے تو بیاہ میں کچھ حوصلہ رہتا۔‘‘

    گجادھر بابو چلنے کو تیار بیٹھے تھے۔ ریلوے کوارٹر کا یہ کمرہ، جس میں انہوں نے کتنے سال بتائے تھے، بدصورت اور ننگا لگ رہا تھا۔۔۔ سامان کے سمٹ جانے سے۔ آنگن میں بوئے پودے بھی جان پہچان کے لوگ لے گئے تھے اور جگہ جگہ مٹی بکھری پڑی تھی۔ مگر بیوی بچوں کے ساتھ رہنے کے خیال سے یہ دکھ کی ایک کمزور لہر اٹھ کر گم ہو جاتی تھی۔

    گجادھر بابو خوش تھے، بہت خوش۔ پینتیس سال کی نوکری کے بعد وہ ریٹائر ہوکر جا رہے تھے۔ ان برسوں میں زیادہ تر وقت انہوں نے اکیلے رہ کر کاٹا تھا۔ ان اکیلے لمحوں میں وہ اسی وقت کا تصور کرتے رہے تھے جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رہ سکیں گے۔ اسی امید کے سہارے وہ اپنی محرومیوں کا بوجھ ڈھوتے رہے تھے۔ دنیا کی نظر میں ان کی زندگی کامیاب کہی جا سکتی تھی۔ انہوں نے شہر میں ایک مکان بنوا لیا تھا، بڑے لڑکے امر اور بڑی لڑکی کانتی کی شادیاں کر دی تھیں، دوبچے بڑی کلاسوں میں پڑھ رہے تھے۔ گجادھر بابو نوکری کی وجہ سے اکثر اسٹیشنوں پر رہے اور ان کے بیوی بچے شہر میں، تاکہ پڑھائی میں رکاوٹ نہ رہے۔

    گجادھر بابو سبھاؤ میں بڑے بامحبت آدمی تھے اور محبت کے بھوکے بھی۔ جب بیوی بچے ساتھ تھے تو ڈیوٹی سے لوٹ کر بچوں سے ہنستے بولتے، بیوی سے کچھ ہنسی مذاق کرتے۔ ان کے چلے جانے سے گجادھر بابو کی زندگی میں بڑا سونا پن آ گیا تھا۔ خالی وقت میں ان سے گھر میں ٹکانہ جاتا۔ شاعری کا مذاق نہ رکھنے پر بھی انہیں بیوی کی پیار بھری باتیں یاد آتی رہتیں۔ دوپہر میں گرمی ہونے پر بھی وہ دوبجے تک آگ جلائے رکھتی اور ان کے اسٹیشن سے لوٹنے پر گرم گرم روٹیاں سینکتی۔ ان کے کھاچکنے کے بعد بھی منع کرنے کے باوجود ان کی تھالی میں اور کھانا ڈالتی اور ان سے بڑے پیار سے اصرار کرتی۔ جب وہ تھکے ہارے باہر سے آتے تو ان کی آہٹ پاکر وہ رسوئی کے دروازے پر آ کھڑی ہوتی اور اس کی شرمیلی آنکھیں مسکرا اٹھتیں۔ گجادھر بابو کو تب ہر چھوٹی بات بھی یاد آتی اور وہ اداس ہو جاتے۔ اب کتنے برس بعد وہ موقع آ رہا تھا کہ وہ اس پیار بھرے ماحول میں رہنے جا رہے تھے۔

    ٹوپی اتار کے گجادھر بابو نے چارپائی پر رکھ دی، جوتے کھول کر نیچے کھسکا دیے۔ اندر سے رہ رہ کر قہقہوں کی آواز آرہی تھی۔ اتوار کا دن تھا اور ان کے سب بچے اکٹھے ہوکر ناشتہ کر رہے تھے۔ گجادھر بابو کے خشک چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اسی طرح مسکراتے ہوئے وہ بغیر کھنکھارے اندر چلے گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ نریندر پچھلی رات کو دیکھی کسی فلم کے ناچ کی نقل کمر پر ہاتھ رکھے کر رہا ہے اور بسنتی ہنس ہنس کر دوہری ہوئی جا رہی ہے۔ امر کی دلہن کو اپنے تن بدن، گھونگھٹ، کسی چیز کا ہوش نہیں تھا اور وہ بھی بے تحاشا ہنس رہی تھی۔ گجادھر بابو کو دیکھتے ہی نریندر دھپ سے بیٹھ گیا اور چائے کا پیالہ اٹھاکر منھ سے لگالیا۔ بہو کو ہوش آیا اور اس نے جھٹ سے ماتھا ڈھانک لیا۔ صرف بسنتی کا جسم رہ رہ کر ہنسی دبانے کی کوشش میں ہل رہا تھا۔

    گجادھر بابو نے مسکراتے ہوئے ان لوگوں کو دیکھا، پھر کہا، ’’کیوں نریندر، کیا نقل ہو رہی تھی؟‘‘

    ’’کچھ نہیں بابوجی!‘‘ نریندر نے سٹپٹاتے ہوئے کہا۔ گجادھر بابو نے چاہا تھا کہ وہ بھی اس ہنسی مذاق میں شامل ہوتے مگر ان کے آتے ہی سب چپ ہو گئے۔ اس سے ان کے دل میں تھوڑی مایوسی آ گئی۔ بیٹھتے ہوئے بولے، ’’بسنتی، مجھے بھی چائے دینا۔ تمہاری اماں کی پوجا ابھی چل رہی ہے کیا؟‘‘ بسنتی نے ماں کی کوٹھری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’ابھی آتی ہی ہوں گی۔‘‘ اور پیالے میں ان کے لیے چائے بنانے لگی۔ بہو چپ چاپ پہلے ہی چلی گئی تھی، اب نریندر بھی چائے کا آخری گھونٹ پی کر اٹھ کھڑا ہوا۔ صرف بسنتی، باپ کے لحاظ میں، چوکے میں بیٹھی ماں کی راہ دیکھنے لگی۔ گجادھر بابو نے ایک گھونٹ چائے پی، پھر کہا، ’’بیٹی، چائے تو پھیکی ہے۔‘‘

    ’’لائیے، چینی اور ڈال دوں۔‘‘ بسنتی بولی۔

    ’’رہنے دو۔ تمہاری اماں جب آئےگی تبھی پی لوں گا۔‘‘

    تھوڑی دیر میں ان کی بیوی ایک لٹیا میں پانی لیے نکلی اور پوجا کرتے ہوئے اسے تلسی کے پودے میں ڈال دیا۔ انہیں دیکھتے ہی بسنتی بھی اٹھ گئی۔ بیوی نے آکر گجادھر بابو کو دیکھا اور کہا، ’’ارے، آپ اکیلے بیٹھے ہیں! یہ سب کہاں گئے؟‘‘ گجادھر بابو کے دل میں پھانس سی چبھی۔ ’’اپنے اپنے کام میں لگ گئے ہیں۔ آخر بچے ہی ہیں۔‘‘

    بیوی آکر چوکے میں بیٹھ گئیں۔ انہوں نے ناک بھوں چڑھا کر چاروں طرف بکھرے جوٹھے برتنوں کو دیکھا، پھر بولیں، ’’سارے میں جھوٹے برتن پڑے ہیں۔ اس گھر میں کرم دھرم کچھ نہیں ہے۔ یہ سب گئے کہاں؟ پوجا کرکے سیدھے چوکے میں گھسو۔‘‘ پھر انہوں نے نوکر کو پکارا۔ جب جواب نہ ملا تو ایک بار اور زور سے آواز دی۔ پھر شوہر کی طرف دیکھ کر بولیں، ’’بہو نے بھیجا ہوگا بازار۔‘‘ اور ایک لمبی سانس لے کر چپ ہو رہیں۔

    گجادھر بابو بیٹھ کر چائے اور ناشتے کا انتظار کرنے لگے۔ انہیں اچانک گنیشی کی یاد آ گئی۔ روز صبح پسنجر آنے سے پہلے وہ گرم گرم پوریاں اور جلیبی بناتا تھا۔ گجادھر بابو جب تک اٹھ کر تیار ہوتے، ان کے لیے جلیبیاں اور چائے لاکر رکھ دیتا تھا۔ چائے بھی کتنی بڑھیا، کانچ کے گلاس میں اوپر تک لبالب بھری، پورے ڈھائی چمچ چینی اور گاڑھی ملائی۔ ٹرین بھلے ہی رانی پور لیٹ پہنچے، گنیشی نے چائے پہنچانے میں کبھی دیر نہیں کی۔ کیا مجال کہ اس سے کبھی کچھ کہنا پڑے۔

    بیوی کی شکایت بھری آواز سن کر انہیں دھکا سالگا۔ وہ کہہ رہی تھی، ’’سارا دن اسی کھچ کھچ میں نکل جاتا ہے۔ اس گرہستی کا دھندا پیٹتے پیٹتے عمر بیت گئی۔ کوئی ذرا ہاتھ بھی نہیں بٹاتا۔‘‘

    ’’بہو کیا کرتی ہے؟‘‘ گجادھر بابو نے پوچھا۔

    ’’پڑی رہتی ہے۔ بسنتی کو تو پھر کہو کالج جانا ہوتا ہے۔‘‘

    گجادھر بابو نے جوش میں آکر بسنتی کو آواز دی۔ بسنتی بھابھی کے کمرے سے نکلی تو گجادھر بابو نے کہا، ’’بسنتی، آج شام کا کھانا بنانے کی ذمے داری تمہاری ہے۔ صبح کا کھانا تمہاری بھابھی بنائےگی۔‘‘ بسنتی منھ لٹکاکر بولی، ’’بابوجی، پڑھنا بھی تو ہوتا ہے۔‘‘ گجادھر بابو نے پیار سے سمجھایا، ’’تم صبح پڑھ لیا کرو۔ تمہاری ماں بوڑھی ہوئی، اس کے جسم میں اب طاقت نہیں ہے۔ تم ہو، تمہاری بھابھی ہے، دونوں کام میں ہاتھ بٹایا کرو۔‘‘

    بسنتی چپ رہی۔ اس کے جانے کے بعد اس کی ماں نے دھیرے سے کہا، ’’پڑھنے کا تو بہانہ ہے۔ کبھی جی ہی نہیں لگتا۔ لگے کیسے؟ شیلا ہی سے فرصت نہیں۔ بڑے بڑے لڑکے ہیں ان کے گھر میں، ہر وقت وہاں گھسے رہنا مجھے نہیں بھاتا۔ منع کرو تو سنتی ہی نہیں۔‘‘

    ناشتہ کرکے گجادھر بابو بیٹھک میں چلے گئے۔ گھر چھوٹا تھا اور سیٹنگ کچھ ایسی ہو چکی تھی کہ اس میں گجادھر بابو کے لیے کوئی جگہ نہ بچی تھی۔ جیسے کسی مہمان کے لیے وقتی طور پر کوئی بندوبست کر دیا جاتا ہے، اسی طرح بیٹھک میں کرسیوں کو دیواروں سے ٹکاکر ان کے لیے پتلی سی چارپائی ڈال دی گئی تھی۔

    گجادھر بابو اس کمرے میں پڑے پڑے کبھی اپنے آپ ہی اس وقتی بندوبست پر غور کرتے۔ انہیں یاد آتی ان گاڑیوں کی جو آتیں اور تھوڑی دیر رک کر کسی اور مقام کی طرف بڑھ جاتیں۔ گھر چھوٹا ہونے کی وجہ سے بیٹھک ہی میں اپنا انتظام کیا تھا۔ ان کی بیوی کے پاس ضرور ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، پر وہ ایک طرف اچار کے مرتبانوں، دال چاول کے کنستروں اور گھی کے ڈبوں سے گھرا ہوا تھا۔ دوسری طرف پرانی رضائیاں، دریوں میں لپٹی اور رسیوں میں بندھی رکھی تھیں۔ ان کے پاس ایک بڑے سے ٹین کے بکس میں گھر بھر کے گرم کپڑے رکھے تھے۔ بیچ میں ایک الگنی بندھی ہوئی تھی جس پر زیادہ تر بسنتی کے کپڑے بے ترتیبی سے ٹنگے تھے۔ وہ جان بوجھ کر اس کمرے میں جانے سے بچتے تھے۔ گھر کا دوسرا کمرہ امر اور اس کی بیوی کے پاس تھا۔ تیسرا کمرہ، جو سامنے کی طرف تھا، بیٹھک تھا۔ کرسیوں پر نیلی گدیاں اور بہو کے ہاتھ کاڑھے کشن پڑے تھے۔

    جب بھی ان کی بیوی کو کوئی لمبی شکایت کرنی ہوتی تو وہ اپنی چٹائی بیٹھک میں ڈال پڑ جاتی تھیں۔ ایک دن وہ چٹائی لے کر آ گئیں۔ گجادھر بابو نے گھر گرہستی کی باتیں چھیڑیں۔ وہ گھر کا سبھاؤ دیکھ رہے تھے۔ بہت ہلکے سے انہوں نے کہا، ’’اب ہاتھ میں پیسہ کم رہےگا۔ کچھ خرچ کم ہونا چاہیے۔‘‘

    ’’سبھی خرچ تو واجب واجب ہے۔ کس کا پیٹ کاٹوں؟ یہی جوڑ گانٹھ کرتے کرتے بوڑھی ہو گئی۔ نہ من بھر پہنانہ اوڑھا۔‘‘

    گجادھر بابو نے زخمی اور دکھی نگاہوں سے بیوی کو دیکھا۔ ان سے اپنی حیثیت چھپی نہ تھی۔ ان کی بیوی تنگی کا رونا روتیں، یہ فطری بات تھی لیکن ان کے لہجے میں چھپے طنز کا احساس گجادھر بابو کو بہت چبھا۔ ان سے اگر اس مسئلے پر بات کی جاتی کہ گھر کا انتظام کیسے چلے، کیسے پورا ہو، تو شاید انہیں کچھ سکون ملتا۔ لیکن ان سے صرف شکایت ہی کی جاتی تھی، جیسے کنبے کی ساری پریشانیوں کے وہی ذمےدار ہوں۔

    ’’تمہیں کس بات کی کمی ہے امر کی ماں؟ گھر میں بہو ہے، لڑکے بچے ہیں۔ صرف روپے ہی سے آدمی امیر نہیں ہوتا۔۔۔‘‘ گجادھر بابو نے کہا اور کہنے کے ساتھ ہی اندازہ لگایا کہ یہ محض ان کی اندر کی سوچ ہے، ایسی کہ ان کی بیوی نہیں سمجھ سکتی۔

    ’’ہاں، بڑا سکھ ہے بہو سے نا۔ آج کھانا بنانے گئی ہے، دیکھو کیا ہوتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر بیوی نے آنکھیں موندلیں اور سوگئی۔ گجادھر بابو بیٹھے بیوی کو دیکھتے رہ گئے۔ کیا یہی تھی ان کی بیوی جس کے نرم ہاتھوں کے لمس، جس کی مسکراہٹ کی یاد میں انہوں نے زندگی کاٹ دی تھی؟ انہیں لگاکہ وہ خوب صورت دوشیزہ زندگی کی راہ میں کہیں کھو گئی ہے اور اس کی جگہ آج جو عورت ہے وہ ان کے دل اور روح کے لیے یکسر اجنبی ہے۔ گہری نیند میں سوئی ہوئی عورت کا جسم ایک دم بے ڈول اور بھدا لگ رہا تھا۔ چہرہ ستاہوا اور بے رونق سا۔ گجادھر بابو ایک پلک بیوی کو دیکھتے رہ گئے اور پھر لیٹ کر چھت کی طرف تاکنے لگے۔

    اندر کچھ گرا اور ان کی بیوی ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھیں، ’’لو بلی نے کچھ گرا دیا شاید!‘‘ وہ اندر بھاگیں۔ تھوڑی دیر میں لوٹ کر آئیں تو ان کا منھ پھولا ہوا تھا، ’’دیکھو بہو کو، رسوئی کھلی چھوڑ آئی۔ بلی نے دال کی پتیلی گرا دی۔ سبھی تو کھانے کو ہیں، اب کیا کھلاؤں گی؟‘‘ وہ سانس لینے کو رکیں اور بولیں، ’’ایک ترکاری اور چار پراٹھے بنانے میں سارا ڈبا گھی انڈیل کر رکھ دیا۔ ذرا بھی درد نہیں ہے۔ کمانے والا ہڈیاں توڑے اور یہاں چیزیں لٹیں۔ مجھے تو معلوم تھا کہ یہ سب کام کسی کے بس کا نہیں ہے۔‘‘ گجادھر بابو کو لگا کہ بیوی اور کچھ بولے گی تو کان جھنجھنا اٹھیں گے۔ ہونٹ بھینچ کر کروٹ لے، انہوں نے پیٹھ بیوی کی طرف کر لی۔

    رات کا کھانا تو بسنتی نے جان بوجھ کر ایسا بنایا تھا کہ ایک نوالہ حلق سے نہ اترے۔ گجادھر بابو چپ چاپ کھاکر اٹھ گئے، پر نریندر تھالی سرکاکر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا، ’’میں ایسا کھانا نہیں کھا سکتا۔‘‘ بسنتی تنک کر بولی، ’’تو نہ کھاؤ۔ کون تمہاری خوشامد کرتا ہے۔‘‘

    ’’تم سے کھانا بنانے کو کہا کس نے تھا؟‘‘ نریندر چلایا۔

    ’’بابوجی نے۔‘‘

    ’’بابوجی کو بیٹھے بیٹھے یہی سوجھتا ہے۔‘‘

    بسنتی کو اٹھاکر ماں نے نریندر کو منایا اور اپنے ہاتھ سے اسے کچھ بناکر کھلایا۔ گجادھر بابو نے بعد میں بیوی سے کہا، ’’اتنی بڑی لڑکی ہو گئی ہے اور اسے کھانا بنانے کا ڈھنگ نہیں آیا؟‘‘

    ’’ارے آتا تو سب کچھ ہے، کرنا نہیں چاہتی۔‘‘ بیوی نے جواب دیا۔

    اگلی شام ماں کو رسوئی میں دیکھ کر کپڑے بدل کر بسنتی باہر آئی تو بیٹھک سے گجادھر بابو نے ٹوک دیا، ’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘

    ’’پڑوس میں، شیلا کے گھر۔‘‘ بسنتی نے کہا۔

    ’’کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اندر جاکر پڑھو!‘‘ گجادھر بابو نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔ کچھ دیر تذبذب میں کھڑی رہ کر بسنتی اندر چلی گئی۔

    گجادھر بابو روز ٹہلنے چلے جاتے تھے۔ لوٹ کر آئے تو بیوی نے کہا، ’’کیا کہہ دیا بسنتی سے؟ شام سے منھ لپیٹے پڑی ہے۔ کھانا بھی نہیں کھایا۔‘‘ گجادھر بابو جھنجھلا اٹھے۔ بیوی کی بات کا انہوں نے جواب نہیں دیا۔ انہوں نے دل میں طے کر لیا کہ بسنتی کی شادی جلد کر دینی ہے۔

    اس دن کے بعد سے بسنتی باپ سے کٹی کٹی رہنے لگی۔ جانا ہوتا تو پچھواڑے سے جاتی۔ گجادھر بابو نے دو ایک بار بیوی سے پوچھا تو جواب ملا، ’’روٹھی ہوئی ہے۔‘‘ گجادھر بابو کو غصہ آیا، ’’لڑکی کے اتنے مزاج! جانے سے روک دیا تو باپ سے بولے گی نہیں؟‘‘ پھر ان کی بیوی نے خبر دی، ’’امر الگ رہنے کی سوچ رہا ہے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ گجادھر بابو نے حیرت سے پوچھا۔ بیوی نے کوئی صاف جواب نہیں دیا۔ امر اور اس کی بیوی کو بہت شکایتیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گجادھر بابو ہمیشہ بیٹھک میں پڑے رہتے ہیں، کوئی آنے جانے والا ہو تو کہیں بٹھانے کی جگہ نہیں۔ امر کو اب بھی وہ چھوٹا سمجھتے تھے اور موقع بےموقع ٹوک دیتے تھے۔ بہو کو کام کرنا پڑتا تھا اور ساس جب تب پھوہڑپن کے طعنے دیا کرتی تھی۔

    ’’ہمارے آنے سے پہلے بھی کبھی ایسی بات ہوئی تھی؟‘‘ گجادھر بابو نے بیوی سے پوچھا۔ بیوی نے سر ہلاکر بتایا کہ نہیں۔ پہلے امر گھر کا مالک بن کے رہتا تھا، بہو کو کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ امر کے دوستوں کا اکثر ہی اڈا جما رہتا تھا اور اندر سے ناشتہ چائے تیار ہوکر جاتا رہتا تھا۔ بسنتی کو بھی وہی اچھا لگتا تھا۔ گجادھر بابو نے دھیرے سے کہا، ’’امر سے کہو جلدبازی کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

    اگلے دن وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ بیٹھک میں ان کی چارپائی نہیں ہے۔ اندر جاکر پوچھنے ہی والے تھے کہ ان کی نظر رسوئی میں بیٹھی بیوی پر پڑی۔ انہوں نے یہ پوچھنے کو منھ کھولا کہ بہو کہاں ہے، پھر کچھ یاد کرکے چپ ہو گئے۔ بیوی کی کوٹھری میں جھانکا تو اچار، رضائیوں اور کنستروں کے بیچ اپنی چارپائی لگی پائی۔ گجادھر بابو نے کوٹ اتارا اور ٹانگنے کے لیے دیوار پر نظر دوڑائی۔ پھر اسے موڑ کر الگنی کے کچھ کپڑے کھسکاکر ایک کنارے ٹانگ دیا۔ کچھ کھائے بغیر ہی اپنی چارپائی پر لیٹ گئے۔ کچھ بھی ہو، تن آخر بوڑھا ہی تھا۔ صبح شام کچھ دیر ٹہلنے ضرور چلے جاتے تھے، پر آتے آتے تھک جاتے تھے۔

    گجادھر بابو کو اپنا بڑا سا کھلا کوارٹر یاد آیا۔ بے فکر زندگی۔ صبح پسنجر ٹرین آنے پر اسٹیشن کی چہل پہل، جانے انجانے چہرے اور پٹری پر ریل کے پہیوں کی کھٹ کھٹ جو ان کے لیے مدھر سنگیت کی طرح تھی۔ طوفان اور ڈاک گاڑی کے انجنوں کی چنگھاڑ ان کی اکیلی راتوں کی ساتھی تھی۔ سیٹھ رام جی مل کی مل کے کچھ لوگ کبھی ان کے پاس آ بیٹھتے۔ وہی ان کا حلقہ تھا، وہی ان کے ساتھی تھے۔ وہ زندگی اب انہیں ایک کھوئی ہوئی دولت معلوم ہوئی۔ انہیں لگا کہ وہ زندگی سے دھوکا کھاگئے، ٹھگے گئے۔ انہوں نے جو کچھ چاہا، اس میں سے ایک بوند بھی انہیں نہیں ملا۔

    لیٹے ہوئے وہ گھر کے اندر سے آتی ہوئی مختلف آوازیں سنتے رہے۔ بہو اور ساس کی چھوٹی موٹی جھڑپ، بالٹی پر کھلے نل کی آواز، رسوئی کے برتنوں کی کھٹ پٹ اور اسی میں دوگوریوں کی بات چیت اور اچانک ہی انہوں نے ارادہ کر لیا کہ اب گھر کے کسی معاملے میں دخل نہیں دیں گے۔ اگر گھر کے مالک کے لیے پورے گھر میں ایک چارپائی کی جگہ ہے تو یہیں پڑے رہیں گے۔ اگر کہیں اور ڈال دی گئی تو وہاں چلے جائیں گے۔ اگر بچوں کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہے یا اس گھر میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تو اپنے گھر میں پردیسیوں کی طرح پڑے رہیں گے۔

    اور اس دن کے بعد گجادھر بابو سچ مچ کچھ نہیں بولے۔ نریندر روپے مانگنے آیا تو بغیر وجہ پوچھے اسے روپے دے دیے۔ بسنتی کافی اندھیرا ہو جانے کے بعد بھی پڑوس میں رہی تو بھی انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ پر انہیں سب سے بڑا غم یہ تھا کہ ان کی بیوی نے بھی ان میں اتنی بڑی تبدیلی ہونے کا کوئی اثر نہیں لیا۔ وہ دل ہی دل میں کتنا بار ڈھو رہے ہیں، اس بات سے وہ بے خبر رہی ہیں۔ بلکہ انہیں شوہر کے گھر کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے سے ایک طرح سکون ہی تھا۔ کبھی کبھی کہہ بھی اٹھتیں، ’’ٹھیک ہی ہے، آپ بیچ میں نہ پڑا کیجیے۔ بچے بڑے ہو گئے ہیں۔ ہمارا جو فرض ہے وہ پورا کر رہے ہیں۔ پڑھا رہے ہیں، شادی کر دیں گے۔‘‘

    گجادھر بابو نے چوٹ کھائی نظر سے بیوی کی طرف دیکھا۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ وہ بیوی اور بچوں کے لیے روزی کمانے کا ذریعہ بھر ہی تھے۔ جس شخص کے وجود سے ان کی بیوی کو مانگ میں سیندور بھرنے کا حق حاصل ہے، سماج میں اس کی عزت ہے، اس کے سامنے وہ دو وقت کی روٹی رکھ دینے ہی سے سارے فرائض سے چھٹی پا لیتی ہے۔ وہ گھی اور چینی کے ڈبوں میں اس قدر گم ہے کہ وہی اب اس کی پوری دنیا کا مرکز ہیں۔ گجادھر بابو اب اس کی زندگی کا محور نہیں رہ گئے۔ اب ان کی بیٹی کی شادی کا حوصلہ بھی ماند پڑ گیا۔

    کسی بھی بات میں دخل نہ دینے کے عہد کے باوجود بھی ان کا وجود اس ماحول کا حصہ نہ بن سکا۔ ان کی موجودگی اس گھر میں اتنی بے جوڑ سی لگنے لگی تھی جیسے سجی ہوئی بیٹھک میں ان کی چارپائی ہو۔ ان کی ساری خوشی ایک گہری مایوسی میں ڈوب گئی۔

    اتنے سب ارادوں کے باوجود ایک دن بیچ میں دخل دے بیٹھے۔ بیوی اپنی عادت کے مطابق نوکر کا گلہ شکوہ کر رہی تھیں، کتنا کام چور ہے، سودے میں سے پیسے بھی کاٹتا ہے، کھانے پر بیٹھے تو کھاتا ہی چلا جاتا ہے۔ گجادھر بابو کو برابر یہ محسوس ہوتا کہ ان کے گھر کا خرچ ان کی حیثیت سے کہیں زیادہ ہے۔ بیوی کی بات سن کر بولے، ’’نوکر کا خرچ بالکل بےکار ہے۔ چھوٹا موٹا کام ہوتا ہے، گھر میں تین مرد ہیں، کوئی نہ کوئی کر ہی دےگا۔‘‘ انہوں نے اسی دن نوکر کا حساب کر دیا۔ امر دفتر سے آیا تو نوکر کو پکارنے لگا۔ امر کی بیوی بولی، ’’بابوجی نے نوکر چھڑا دیا ہے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’کہتے ہیں خرچ بہت ہے۔‘‘

    بات سادہ سی تھی پر جس لہجے میں بہو بولی، گجادھر بابو کو کھٹک گیا۔ اس دن طبیعت کچھ بوجھل ہونے کی وجہ سے گجادھر بابو ٹہلنے نہیں گئے۔ کاہلی میں اٹھ کر بتی بھی نہیں جلائی تھی۔ اس بات سے بےخبر، نریندر ماں سے کہنے لگا، ’’اماں، تم بابوجی سے کہتیں کیوں نہیں؟ بیٹھے بٹھائے نوکر چھڑا دیا۔ اگر بابوجی یہ سمجھتے ہیں کہ میں سائیکل پر گیہوں رکھ کر آٹا پسوانے جاؤں گا تو یہ نہیں ہونے کا!‘‘

    ’’ہاں اماں!‘‘ یہ بسنتی کی آواز تھی، ’’میں کالج بھی جاؤں اور گھر لوٹ کر جھاڑو بھی لگاؤں، یہ میرے بس کی بات نہیں۔‘‘

    ’’بوڑھے آدمی ہیں۔‘‘ امر بھنبھنایا، ’’چپ چاپ پڑے رہیں۔ ہر چیز میں دخل کیوں دیتے ہیں؟‘‘

    بیوی نے بڑے طنز سے کہا، ’’اور کچھ نہیں تو تمہاری بیوی کو رسوئی میں بھیج دیا۔ وہ گئی تو پندرہ دن کا راشن پانچ دن میں بناکے رکھ دیا۔‘‘ بہو کچھ کہے اس سے پہلے وہ رسوئی میں گھس گئیں۔ کچھ دیر بعد اپنی کوٹھری میں آئیں اور بجلی جلائی تو گجادھر بابو کو لیٹے دیکھ کر سٹپٹا گئیں۔ گجادھر بابو کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا کچھ اندازہ نہ لگا پائیں۔ وہ چپ آنکھیں بند کیے لیٹے رہے۔

    گجادھر بابو چٹھی ہاتھ میں لیے اندر آئے اور بیوی کو پکارا۔ وہ بھیگے ہاتھ لیے نکلیں اور آنچل سے ہاتھ پونچھتے ہوئے پاس آکر کھڑی ہوگئیں۔ گجادھر بابو نے بغیر کسی تمہید کے کہا، ’’مجھے سیٹھ رام جی مل کی چینی مل میں نوکری مل گئی ہے۔ خالی بیٹھے رہنے سے تو چار پیسے گھر میں آئیں، یہی اچھا ہے۔ انہوں نے تو پہلے ہی کہا تھا، میں نے ہی انکار کر دیا تھا۔‘‘ پھر کچھ رک کر، جیسے بجھی ہوئی آگ میں کوئی چنگاری چمک اٹھے، انہوں نے دھیمے لہجے کہا، ’’میں نے سوچا تھا کہ برسوں تم لوگوں سے الگ رہنے کے بعد ریٹائرمنٹ پاکر کنبے کے ساتھ رہوں گا۔ خیر۔ پرسوں جانا ہے۔ تم بھی چلوگی؟‘‘

    ’’میں؟‘‘ بیوی نے ہڑبڑاکر کہا، ’’میں چلی جاؤں گی تو یہاں کا کیا ہوگا؟ اتنی بڑی گرہستی، پھر سیانی لڑکی۔۔۔‘‘ بات بیچ میں کٹ گئی۔ گجادھر بابو نے تھکی ہوئی آواز میں کہا، ’’ٹھیک ہے، تم یہیں رہو۔ میں نے تو ایسے ہی کہا تھا۔‘‘ اور گہری خاموشی میں ڈوب گئے۔

    نریندر نے بڑی مستعدی سے بستر باندھا اور رکشا بلا لیا۔ گجادھر بابو کا ٹین کا بکس اور پتلا سا بستر اس پر رکھ دیا۔ ناشتے کے لیے لڈو اور مٹھری کی ڈلیا ہاتھ میں لیے گجادھر بابو رکشا پر بیٹھ گئے۔ ایک نظر انہوں نے اپنے کنبے پر ڈالی، پھر دوسری طرف دیکھنے لگے اور رکشا چل پڑا۔

    ان کے جانے کے بعد سب اندر لوٹ گئے۔ بہو نے امر سے پوچھا، ’’سینما لے چلیےگا نا؟‘‘ بسنتی نے اچھل کر کہا، ’’بھیا ہمیں بھی!‘‘

    گجادھر بابو کی بیوی سیدھے رسوئی میں چلی گئیں۔ بچی ہوئی چیزوں کو کٹوردان میں رکھ کر اپنی کوٹھری میں لائیں اور کنستروں کے پاس رکھ دیا۔ پھر باہر آکر کہا، ’’ارے نریندر، بابوجی کی چارپائی نکال دے۔ اس میں چلنے تک کی جگہ نہیں ہے۔‘‘

    مأخذ:

    ہندی کہانیاں (Pg. 39)

      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2002

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے