aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وقائع نگار

اسد محمد خاں

وقائع نگار

اسد محمد خاں

MORE BYاسد محمد خاں

    کہانی کی کہانی

    اس افسانے میں مردہ خانے میں کام کرنے والے عملہ کے رویے، رہن سہن اور جذباتی سطح کی عکاسی کی گئی ہے کہ کس طرح بے حسی کی حد تک وہ سخت دل ہو جاتے ہیں۔ پدما، دوبے سمپورنا عام انسانی سطح سے مختلف ایک وحشت ناک سوچ اور کیفیت کے حامل نظر آتے ہیں۔

    فلم دیکھنے نکلا تھا، نہ ویزا لیا تھا نہ کچھ۔ ڈالڈا کے ڈبے بھر کے ایک ٹرک جا رہا تھا۔ مولو کہنے لگا، جاتا ہےتو اس میں چلا جا، فلم دیکھ کے آ جانا۔ میں نے کہا ہئو! چلا جاتا ہوں، پر واپسی کا کیا ہوئےگا، بولا، یہی واپس آئےگا بیڑی کا پتا لے کے، آ جانا۔ میں نے کہا ہئو، پر یار دیکھ لے کہیں ادھر کے ٹلے نہ پکڑ لیں۔ مولو بولا، ہندو جیسی تو شکل ہے تیری۔ کوئی شک بھی نہیں کرےگا۔ چلا جا، چلا جا، ہرو بھرو ڈرتا کیوں ہے؟ کوئی گڑبڑی ہو تو ایسے ایسے کرنا۔ ادھر، فلاں فلاں جگہ جانا۔ ایک بہت بڑا سرجن ہے دوبے، اس کو ملنا، ایسا ایسا بولنا۔ وہ تیرے کو سیٹ کر دےگا۔ میں نےکہا، لے پھر میں چل پڑا۔۔۔اور میں ٹرک پہ چڑھ گیا۔

    پہنچ گیا۔ فلم دیکھی۔ بہت مزا آیا۔ مگر فلم دیکھ کے نکل رہا تھا کہ ٹلوں نے دیکھ لیا۔ پہچان گئے کہ ادھر کا نہیں ادھر کا ہے۔ یا اللہ خیر! میں ڈپٹ لیا۔ وہ پیچھے پیچھے سیٹی بجاتے ہوئے۔ خیر جی، جیسا مولو نے بتایا تھا ویسا ہی میں نے کیا۔ جدھر جانے کا بولا تھا، گیا۔ گھستا چلا گیا۔ ادھر بہت بڑا ایک سرجن تھا دوبے، اس کو ملا۔ وہ بولا، ’’یہ کوئی مسلائی نہیں ہے، میں سیٹ کرا دوں گا۔‘‘ تو خیر جی، اس نے سیٹ کرا دیا۔

    اس نے کسی سے فون پہ بات کی۔ ایک آدمی آیا۔ وہ میرے لیے بھی ہاسپٹل کے نوکروں کا اوور آل، ٹوپی، جوتے، دستانے، منھ پر باندھنے کا ماسک۔۔۔یہی سب اٹرم سٹرم لایا تھا۔ میں نے سب کچھ پہن لیا۔ ہم ہاسپٹل کی اصل بلڈنگ سے ٹرالیاں دھکاتے ہوئے ایک چھت پڑے رستے پر آئے۔ میں نے جگہ سمجھنے کے لیے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو پھولوں کے قطعوں اور رنگین پتوں والی جھاڑیوں کے پار، پورچ میں ٹلوں کی دو گاڑیاں رکتی دیکھیں۔ میرا ساتھی اپنے ماسک کے نیچے سے بڑبڑایا، ’’لو دیکھو، آگئے سالے۔ دیری نہیں کرتے۔‘‘ ہم وارڈوں کے پیچھے جونیئر اسٹاف کے کوارٹروں والے علاقے میں نکل لیے۔ میرے ساتھی نے ٹرالی روک کے ایک کوارٹر دکھایا جس کا نمبر تیرہ تھا۔ کہنے لگا، ’’یہ میرا کوارٹر ہے۔ اب یہ ہم دونوں کا ہے۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’تم اکیلے رہتےہو؟‘‘ کہنے لگا، ’’نہیں۔ میں رہتا ہوں، میری بیوی پدما رہتی ہے۔‘‘ میں بولا، ’’اچھا۔‘‘

    ’’مالوم ہے؟ ہماری جبان میں پدما کسے کہتے ہیں؟‘‘ میں خوب جانتا تھا۔ میں نے کہا، ’’ہاں، کنول کے پھول کو۔‘‘ وہ ہنسا۔ کہنے لگا، ’’دو کمرے ہیں اس کوارٹر میں۔ ایک میرا اور پدما کا ہے، دوسرا اب تمہارا ہو جائےگا۔‘‘ میں نے کہا، ’’میری وجہ سے تم لوگوں کو تکلیف تو نہیں ہوگی؟‘‘

    ’’کاہے کی تکلیف؟ تم سکل سے اچھے آدمی لگتے ہو۔ پدما کو چنتا نہیں ہوگی۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘ میں اور کیا کہتا۔ وہ بولا، ’’گھر کا تو یہی ہے۔ گھر والی کا مجاج دیکھ کے چلنا پڑتا ہے۔ تین مہینے پیچھے بھی ایک مسلمان بھائی کو میرے کوارٹر میں ٹھہرایا تھا ڈاک صاحب نے۔ پر وہ کیسا آدمی تھا؟ میں گھر میں نہیں ہوتا تھا تو پدما سے الٹی الٹی باتیں کرتا تھا۔‘‘ مجھے ضرورت نہیں تھی جو پوچھتا کہ کیسی الٹی الٹی باتیں کرتا تھا، اس لیے چپ رہا۔ وہ خود ہی خاصا بکی آدمی تھا۔ بولا، ’’کبھی وہ کہتا تھا ہاسپٹل میں بھوت ہوتے ہیں۔ دن ڈوبنے اور دن نکلنے کے بیچ کھلے پھرتے ہیں۔ جس کسی کو نجر آجائیں بس اس کی جان کے لاگو ہو جاتے ہیں۔۔۔سالا ڈراتا تھا پدما کو۔‘‘

    میں نے بات ختم کرنے کو کہہ دیا کہ ہاں بعض لوگوں کو ایسی بے کار باتیں کرنے کا شوق ہوتا ہے۔

    ’’نہیں، بےکار باتیں نہیں تھیں۔ بڑا ہسیار تھا۔ کہتا تھا مجھے بھوت اتارنا آتا ہے اور کھبر نہیں کیا کیا آتا تھا اس کو۔ لالچی نہیں تو۔‘‘ میں نےسوچا کوئی عیار آدمی ہوگا۔ ان میاں بیوی سے پیسے کھینچنا چاہتا ہوگا۔ یہی بات میں نے اس سے کہی تو پوچھنے لگا کہ عیار کسے کہتے ہیں؟ میں نے بتا دیا۔ وہ چالاکی سے ہنسا۔ بولا، ’’عیار جیسا عیار! باتوں میں چلا کے کام نکالنا چاہتا تھا۔‘‘

    مجھے رستے میں رکے رکے الجھن ہونے لگی تھی۔ میں نے پھر بات ختم کرنے کو کہا، ’’ہاں بڑے بڑے نو سرباز ہوتے ہیں۔ ہر ایک سے رقمیں کھینچنے کے چکر میں رہتے ہیں۔‘‘ وہ ہنسا۔ ’’ہاں جی۔ پر وہ اور بھی چکر میں تھا۔ مالوم ہے؟ ایک دفے میری نائٹ ڈیوٹی تھی۔ اس نے ہمارے کمرے کا درواجا تھپتھپایا۔ دو بجے ہوں گے رات کے۔ پدما اکیلی تھی۔ پوچھنے لگی کیا بات ہے؟ بولا مجھے ڈر لگ ہے۔ ابھی ابھی بھوت نجر آیا تھا۔ اگر کوئی واندہ نہ ہو تو مجھے اپنے کمرے میں آ جانے دو، ایک طرف پڑ رہوں گا اور بولا، آدمی دو ہوں تو بھوت کچھ نہیں کہتا۔ کچھ سمزے بھیا؟ وہ سالا کس چکر میں تھا؟‘‘

    اس آدمی کی باتیں سن کر مجھے خفت سی ہونے لگی تھی۔ کس قسم کا آدمی ہے؟ مجھے یہ سب کیوں سنا رہا ہے؟ میں ’’ہوں‘‘ کہہ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہ اپنے بیان کے جوش میں کہتا چلا گیا۔ بولا، ’’ہم نے کچھ کیس چھپا کے رکھا تھا۔ ہمارے ہی کمرے میں تھا۔ کوئی چار ہجار کے نوٹ ہوں گے۔ پدما نے سوچا یہ مسلمان بھائی پیسے ہتھیانے کے چکر میں بھوت ووت سے ڈرنے کا پاکھنڈ رچا رہا ہے۔ اصل تو کمرے میں آنا چاہتا ہے۔ کھبر ہے اس نے کیا کیا؟‘‘ میں کچھ نہ بولا تو اس نے دوبارہ اسی لہجے میں پوچھا، ’’کھبر ہے کیا کیا پدما نے؟‘‘ میں نے بے زاری سے کہا، ’’اس نے دروازہ نہیں کھولا ہوگا۔‘‘

    ’’ناں ناں جی، وہ بہت ہسیار ہے۔ اس کو بولی تو جا اپنے کمرے میں۔ ادھر ہی آتی ہوں، دیکھتی ہوں کیسا بھوت ہے اور جب وہ ٹل گیا تو اپنے کمرے میں تالا ڈال، پدما ترنت دوسرے کمرے میں کھد پہنچ گئی۔ بولی، لے، ہوگئے دو آدمی۔۔۔اب تو بھوت کچھ نہیں کہے گا۔ آجا، ادھر لیٹ جا۔۔۔یہ لے اپنا تکیہ۔۔۔ہاہاہا۔۔۔دیکھا؟ اس سالے کی کوئی بھی چالاکی نہیں چلنے دی پدما نے۔‘‘

    میں اس گدھے کی صورت دیکھتا رہ گیا۔ یا تو یہ بالکل ہی گیا گزرا بےعقل آدمی ہے، یا اپنی پدما کی طرح بہت ہسیار ہے اور یہ سب سنا کے مجھے کوئی پیغام دینا چاہتا ہے۔ سالا، گرا ہوا آدمی! مگر میں چپ ہی رہا۔ کچھ دیر وہ اپنی گھروالی کی چالاکی پر سر ہلا ہلا کے ہنستا رہا۔ پھر بولا، ’’یہ کوارٹروں کے آگے مردہ کھانہ ہے۔‘‘

    ’’مردہ خانہ؟‘‘ مجھے دھچکا سا لگا تھا۔ مگر دھچکا لگنے کی کوئی بات نہیں تھی۔۔۔اسپتالوں میں مردہ خانے ہوتے ہی ہیں۔ وہ میری صورت دیکھ کر ایک دم خوش ہو گیا۔ ٹھٹھا مار کے ہنسا، ’’مردے کھانے کا سن کے ایسا چونکے کیوں؟‘‘ میں نے کہا، ’’بس ایسے ہی۔ چونکنے کی کیا بات ہے۔ مردہ خانہ تو ہوگا ہی۔‘‘ بولا، ’’ہاں مردہ کھانہ بھی ہے، اس کا اسٹاف بھی ہے۔‘‘ میں نے بے دھیانی میں کہا، ’’اچھا؟‘‘ کہنے لگا، ’’ادھر اسٹاف میں پہلے ایک ہی آدمی تھا۔۔۔اب دو ہو گئے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ مگر میں نے سوچا، مجھے یہ سب سنانے کی کیا ضرورت ہے؟

    ’’سمزے؟ دو کس طرح ہو گئے؟‘‘ پھر پوچھنے لگا، ’’کھبر بھی ہے کون دو؟‘‘

    میں اس کی صورت تکنے لگا۔ کہنے لگا، ’’کیا اب بھی نہیں سمز آئی؟ ہم دو ہیں نا۔ ایک تم، ایک میں۔ پہلے مردوں کو سیٹ کرنے کا، ادھر ادھر پہنچانے کا کام میں اکیلا کرتا تھا۔ اب تم میرے اسٹینٹ ہوکے آ گئے ہو۔ دونوں مل کے سنبھال لیں گے ان سالوں مردوں کو۔‘‘ وہ چلتے چلتے یہ سب کہہ رہا تھا۔ میں وہیں کا وہیں کھڑا رہا۔ حد ہوگئی! مجھے نہ صرف ایک مردہ گھر کے اٹنڈینٹ کے ساتھ ٹھہرایا جا رہا ہے بلکہ اس کا مددگار تک بنا دیا گیا ہے۔ اس دو بے کو یہ کیا سوجھی ہے؟ اس نے۔۔۔پدما کے میاں نے۔۔۔ٹرالی دھکانا بند کردی اور مڑ کے میری طرف دیکھنے لگا۔ بولا، ’’کیا بات ہے؟‘‘

    بات کیا ہوگی۔ مجھے اب طرارہ آ چلا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’کیا واقعی میں تمہارا اسسٹنٹ ہوں؟‘‘وہ بولا، ’’ہاں، کوئی تو ہوتا اسسٹینٹ۔ کام کر کے میری کمر رہ گئی ہے۔ مردوں کو سلیب پر سے ٹرالی اسٹریچر اور ٹرالی سے سلیب پے چڑھانے اتارنے میں یہ جانو آدمی کی ایسی تیسی ہو جاتی ہے۔‘‘ مجھے بہت غصہ آیا۔ جی چاہا دوبے سالے کے کمرے میں گھس جاؤں اور اسے اچھی سنا دوں۔ مگر ہاسپٹل کی مین بلڈنگ پر نظر پڑی تو یاد آیا وہاں پورچ میں ٹلوں کی دو گاڑیاں کھڑی ہیں۔ غصہ کرنے کا وقت نہیں تھا۔ میں خاموشی سے مڑا اور اپنے مردہ گھر کے انچارج، اس پدما کے میاں کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ وہ ٹرالی دھکاتا ہوا سیدھا مردہ خانے تک پہنچا۔ ٹرالی چھوڑ، جیب سے چابی نکال، اس نےدروازہ کھولا اور قطاروں میں بنےچھوٹے چھوٹے چبوتروں پر رکھی بارہ پندرہ لاشوں سے میرا تعارف کرانے لگا۔

    ’’یہ مرڈر کا کیس ہے۔ اسے برف ورف دے کے ابھی ادھر ہی روکنا ہے۔‘‘

    ’’روکنا ہے‘‘ایسے کہہ رہا تھا جیسے نہیں روکا تو مرڈر کیس والی لاش اٹھ کے چل دےگی اور یہ ’’برف ورف دے کے‘‘ بھی خوب تھا۔ برف دے کے روکنا ہے، رشوت دے کے روکنا ہے۔ پھر کہنے لگا،’’یہ بڑی بی رات میں آئی تھی۔ لکھ پتی لوگ کا مردہ ہے۔ اسے لے جائیں گے تو دان پن کرتے ہوئے، نوٹ بانٹتے ہوئے لے جائیں گے۔ تمہارے میرے حصے میں بھی ٹھیک ٹھاک کچھ ٹپ آ جائےگی اور یہ۔۔۔ادھر والا بڈھا۔ یہ کنگلا ہے۔ اس کی بھلی چلائی ہے۔ اسے برف دینے کا نہیں۔‘‘

    میں چپ رہا۔ مردہ گھر کے سب پنکھے گھوں گھوں کر کے چلتے رہے۔ اسی طرح ایک ایک مردے کے بارے میں خبریں دیتا وہ اس ٹھنڈی، دواؤں کی بو سے بوجھل ہوا میں مجھے لیے لیے گھومتا پھرا۔۔۔جیسے خود سیر کر رہا ہو اور مجھے سیر کرا رہا ہو۔ ایک مردے کو دکھا کے بولا، ’’یہ جیب کترا تھا، پولیس کی ٹارچر سے مرا ہے۔ مگر دیکھو اس کے انگوٹھے سے بندھے کارڈ پے لکھا ہے کہ نمونیے میں چل بسا۔۔۔سالے جھوٹے کہیں کے! اور اسے دیکھو موٹے توندل کو۔ یہ جبھی جندہ تھا تو بڑا دھرماتما بنتا تھا۔ اس کے سینکڑوں سس مطلب چیلے، پیار کرنے والے بس آتے ہی ہوں گے اسے لے جانے۔۔۔تم ڈر رہے ہو کہ اتی بھاری لاس ہے، ہم کیسے کھسکائیں گے، کیسے ٹرالی پہ رکھیں گے۔۔۔ناں ناں، ہمیں ہاتھ بھی نئیں لگانا پڑےگا۔ اس کے ساگرد یہ موٹے موٹے تگڑے لڑکے جے جے رام، جے سیارام کرتے گھس آئیں گے اور اسے اٹھالے جائیں گے جیسے چیونٹیاں نکتی دانے کو اٹھا لے جاتی ہیں۔ نکتی دانہ سمزتے ہو؟‘‘

    میں نے کہا، ’’ہاں، مٹھائی ہوتی ہے۔‘‘ وہ ہنسا۔ کہنے لگا، ’’اس سالے موٹے دھرماتما کے چیلے چپاٹےمنوں مٹھائی اپنے ساتھ لاتے ہوں گے۔ لاس کو لے جاتے وکھت سے مٹھائی بانٹنا سروع کر دیں گے۔۔۔ بس، نیم ہے ان کا۔ مٹھائی وہ سب سے پہلے تمہیں اور مجھے دیں گے۔ کھیال سے لینا، دونوں ہتھیلی جوڑ کے اور جتنی بھی دیں لے لینا، گرنے مت دیتا۔ جرا سی بھی گری نہیں تو حرامی مار مار کے تمہارا بھرتا بنا دیں گے۔ بھرتا سمزتے ہو؟‘‘

    وہ اسی طرح بکواس کرتا چلا۔ بارہ تیرہ میں سے ایک کسی مسلمان کی میت بھی تھی۔ مجھ سے کہنے لگا، ’’یہ تمہارا مسلمان بھائی ہے۔ کھبر ہے مجھے کیسے پتا لگا؟‘‘ میں نے ویسے ہی بےخیالی میں پوچھ لیا، ’’کیسے؟‘‘ وہ ہنسا۔ بولا، ’’کیسے پتا چلا۔۔۔جب ٹھنڈے پانی کا ساور مار نے کو اس کا کپڑا مپڑا سب اتار کے پھینکا تو دیکھا کہ۔۔۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا، ’’ہاں ہاں۔۔۔اچھا اچھا۔۔۔ظاہر ہے۔‘‘ پھر کہنے لگا، ’’یہ ٹرالی ادھر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ آؤ کوارٹر پہ چلیں، کچھ کھا پی لیں۔‘‘ وہ کھانے پینے کا ذکر اس بےتکلفی اور شوق سے کر رہا تھا جو گھر کے باورچی خانے ہی میں اچھی لگتی ہے۔

    میں نے منھ بنا کے ٹال دیا کہ ابھی کھانے کو جی نہیں چاہ رہا۔ بولا، ’’کوئی نئی بات نہیں ہے بھیا۔۔۔سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ مردوں کی اٹھاؤ ھری کر کر کے بھوک تو کھل کے لگنے لگتی ہے، پر جب نوالہ توڑو تو حلق سے نہیں اترتا۔ پہلے پہل سبھی کے ساتھ ہوتا ہے۔ تم تو مسلمان بھی ہو، تمہارے ساتھ تو اور بھی مسکل ہے۔‘‘

    ’’اور مشکل کیسی؟‘‘

    ’’ارے یہی نا کی تم لوگ ماس کھاتے ہو۔ ماس سمزتے ہو؟ ارے گوست اوست۔۔۔اور ادھر کا تو تم جانو یہاں سے وہاں تک گوستی گوست۔۔۔‘‘ میں نے پھر بات کاٹ دی،’’ہاں ہاں سمجھتا ہوں۔۔۔آؤ چلو۔‘‘ وہ ہنسا۔ چلتے چلتے رکا۔ مڑ کے لاشوں کی طرف مسکراتے اور ہاتھ ہلاتے ہوئے بولا، ’’او کے بے بی۔۔۔سی یو! ہا ہا ہا۔۔۔پتا ہے امریکن فلموں میں بڑی بڑی جوان لڑکیوں کو بے بی بولتے ہیں۔۔۔ ادھر آج ایسی کوئی جوان لڑکی تو نہیں ہے۔ ایک سنتھالی عورت ہے تھوری جان دار۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔وہ کوئی کھاس نہیں ہے کالی کلوٹی ہے۔ پر بھیا جی۔۔۔ادھر تو کبھی کبھی ایسی فل فلوٹیاں آتی ہیں کہ بس ساور مارتے رہو اور دیکھتے رہو۔ ایک ڈچ عورت آئی تھی، عورت کیا لڑکی۔۔۔اسے گولی مار دی تھی دوسری ڈچ عورت نے۔ بھیا جی! پہلے میں سمزتا تھا جیسا آدمی کا سر کا بال ہوتا ہے ویسا ہی اس کا۔۔۔پریار اوئے ہوئے ہوئے۔۔۔‘‘

    میں نے کندھے پہ ہاتھ مار کے اسے آگے کر لیا، ’’چلو۔۔۔چابی سنبھا لو۔ میں کنڈا کھینچ کے تالا دبانے والا ہوں۔ بعد میں مت کہنا کہ چابی اندر رہ گئی ہے۔‘‘ وہ ہڑبڑا کے اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا، ’’نہیں نہیں، ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔۔۔تم دبا دو تالا، یہ رہی چابی۔‘‘ خدا خدا کرکے اس کی بکواس بند ہوئی۔

    اس کے کوارٹر پر آئے تو دیکھا باہر تالا پڑا ہے۔ تالا کھولتے ہوئے بتانے لگا کہ اس کا ناشتا بنا کے پدما سبزی ترکاری لینے بازار چلی جاتی ہے۔ وہ جب تک آئے ہمیں بریک فاسٹ کر لینا چاہیے۔

    کہنے لگا، ’’پریار، تم تو منے کر رہے ہو۔ پھر اکیلے بریک فاسٹ کرنے میں کیا مجا۔۔۔پدما آئےگی اسی کے پاس بیٹھ کے میں کچھ کھا پی لوں گا۔ تو پکی بات؟ تم کچھ نہیں کھاؤگے؟‘‘ میں نے انکار میں سر ہلایا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑے پکڑے کوارٹر میں داخل ہو گیا۔ صحن میں تلسی کے پودے کا سنگھاسن تھا جس کے قدموں میں گیندے کے پھولوں سے ابلتی ایک کیاری تھی۔ آنگن کو خوب جی لگا کے جھاڑا بہارا گیا تھا۔

    پدما کے گھر والے نے ایک کمرے کا تالا کھول دیا۔ کہنے لگا، ’’یہ تمہارا کمرہ ہے۔ یہاں بسترا ہے، ایک کرسی بھی پڑی ہے اور یہ دیکھو فرس پہ سیتل پاٹی ڈالی ہوئی ہے۔ چٹائی، چٹائی۔۔۔تنکوں کی چٹائی سمزتے ہو؟ بس تو مرجی ہے بسترے پر لیٹو، مرجی ہے سیتل پاٹی پہ بیٹھو لیٹو، یوگا کرو۔۔۔ تم یوگا کرتے ہو؟ نہیں کرتے ہوگے۔ مسلمان بھائیوں میں یوگا کی چرچا نہیں ہے، وہ تو ایک ہی کام جانتے ہیں۔۔۔ بلکی دو کا ۔۔۔ماس کھاتے ہیں اور ماس سے ماس۔۔۔ہاہاہا۔۔۔برا مان گئے؟ چلو چھوڑو، میری مسکھری کی آدت ہے۔ تو اب جا رہا ہوں اپنے کمرے میں۔ کوئی چیج کی جرورت ہو مجھے یا پدما کو آواج دے لینا۔ چھوٹے موٹے کام کھشی سے کر دیتی ہے، برا نہیں مناتی پدما۔ بولتی ہے مجوان کی ٹہل سیوا میں ایسی کون اڑچن ہے۔۔۔اچھا!‘‘

    ’’اچھا‘‘ کہہ کے جیسے ہی وہ سامنے سے ہٹا، کسی نے دروازہ تھپتھپایا۔ اپنے کمرے میں جانے کی بجائے اس نے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ ’’ہا آپدما رانی! اچھا ہوا دیری نہیں لگائی تو نے۔ دیکھ ڈاک صاحب نے اب کی کسے ساتھ کیا ہے۔ دیکھ لے یہ بھی مسلمان بھائی ہے۔ ہا ہا ہا بھوت پریت سے ڈرے گا یہ بھی۔‘‘ وہ بولی، ’’چل بکواس نہیں کر۔‘‘ اس نے یہ بات غصے میں نہیں اٹھلا کے کہی تھی۔

    پھر وہ سامنے آئی۔ تنگ مراٹھی کپڑوں میں خوب چمک دارسیاہ بالوں کی کسی ہوئی چوٹی اور انگوٹھے کے ناخن جتنے گھماؤ والا ناک کا کوئی دیہاتی زیور پہنے وہ مسکراتی ہوئی دروازے میں آ کھڑی ہوئی تھی۔ اس کا رنگ سانولا، ہونٹ دبیز اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ وہ بازار سے آ رہی تھی مگر لگتا تھا کچی نیند سے اٹھ کر آئی ہے۔ وہ مجھے دیکھ کے ہولے سے ایسے مسکرائی جیسے پرانی جان پہچان ہے۔ بولی، ’’پدما نام ہے میرا۔‘‘

    میں نے بھی بتا دیا کہ کون ہوں۔ وہ ہنسی۔ دانت اس کے ایک دم سفید اور ہنسی کی آواز بچوں جیسی تھی۔ مگر صرف آواز ہی بچوں جیسی تھی۔ دیکھنے میں تو اس کی ہنسی کسی بہت جانکار عورت کی ہنسی تھی۔۔۔گھیرتی اور الجھاتی ہوئی۔ وہ کمرے میں آنے کو بڑھی تو اس کا آدمی کہنے لگا، ’’چل چھوڑ! اسے لیٹنے بیٹھنے دے۔ یہ ابھی کچھ نہیں کھائےگا۔ بولتا ہے بھوک نہیں۔‘‘

    ’’اچھا اچھا۔‘‘ کچھ دیر وہ دروازے میں رکی رہی۔ پھر ’’ہاں‘‘ میں سر ہلاتی اور چالاکی سے مسکراتی ہوئی چلی گئی۔ میں بیٹھ گیا۔ سوچنے لگا یہ کن لوگوں میں آ گیا ہوں۔ یہ دونوں بھلا کس چکر میں ہیں؟ بڑے شہروں کا یہی ہے۔ سب طرح کی مخلوق آکے بس جاتی ہے۔ میرا کیا ہے، ایک آدھ روز میں نکلنے کا آسرا ہو جائےگا۔ ابھی سنبھل کے گزارا کر لوں۔ دیکھا جائےگا اور یہ ہے کہ محنت سے جان چرانے والا آدمی نہیں ہوں میں۔ پھر بھی۔۔۔مردے؟ اللہ خیر کرے۔ کچھ دیر بے چینی سے کرسی پر بیٹھا پہلو بدلتا رہا، پھر بستر پر جا لیٹا۔

    نہ معلوم کتنی دیر سوتا رہا۔ کسی کے اٹھائے بغیر آپ ہی آپ بیدار ہو گیا۔ دو پہر ڈھل چکی تھی۔ یاد آیا میں پورے کپڑوں میں موزے پہنے پہنے سویا تھا مگر اس وقت بھاری چادر سی اوڑھے اٹھا تھا۔ گھبرا کے میں نے اپنی ٹانگوں اور بازوؤں کو ہاتھ لگایا۔ بدن پرمیرے اپنےکپڑے نہیں تھے۔ نہ معلوم کیسے میں نے لمبا انڈرویئر اور سینڈوبنیان پہن رکھی تھی۔ موزے بھی اترے ہوئے تھے۔ یہ کیا چکر ہے؟ میں اٹھ کے بیٹھ گیا۔ میرے اپنے کپڑے سلیقے سے تہہ کیے ہوئے سرہانے رکھے تھے اور۔۔۔میں نےدیکھا فرش پر بچھی سیتل پاٹی پہ چادر اوڑھے کوئی لیٹا تھا۔

    ابھی میں پوری طرح کچھ سمجھ بھی نہیں پایا تھا کہ سیتل پاٹی پر لیٹے ہوئے نے کسمسا کے کروٹ بدلی، چادر سرک گئی اور خوب گندھے ہوئے سیاہ چمکیلے بالوں کی چوٹی جیسے خود اپنی طاقت سے اچھلی اور تنکوں کی ٹھنڈی چٹائی پر جا پڑی۔ اللہ خیر کرے۔ میں نے دل میں کہا۔ پھر کانسی کے کنگن بجے اور چادر پھینکتی ہوئی مردہ گھر کے انچارج کی عورت پدما تنکوں کی چٹائی پر اٹھی اور آلتھی پالتھی مار کے بیٹھ گئی۔ مراٹھی لباس اس قابل نہیں ہوتا کہ کوئی بھی صحت مند عورت فرش پر آلتھی پالتھی مار کے بیٹھ سکے۔ ویسے زیادتی کی بات الگ ہے۔۔۔کوئی دھاندلی پر ہی تل جائے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔

    وہ عورت پدما دھاندلی پر تلی ہوئی تھی۔ اسی جان کار چالاک طریقے سے ہنسی اور بولی، ’’ساری دوپہری سو کے نکال دی۔ ہاں؟‘‘ میں نے چادر سے خود کو اور اچھی طرح لپیٹ لیا اور سرہانے تہہ کیے رکھے اپنے کپڑوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ،’’یہ یہاں کس نے رکھے؟‘‘

    ’’میں نے رکھے اور کون رکھےگا؟‘‘وہ چمکتے دانتوں کے لشکارے میں بولی اور میں سناٹے میں آ گیا۔ میں جو کچھ پہنے ہوئے تھا، پتا نہیں وہ کہاں سے آیا ہوگا۔ اسے میں نے اپنے بدن پہ خود نہیں چڑھایا تھا۔ یہ تو میرا تھا ہی نہیں اور سب سے بڑی بات، میرے بدن پہ یہ آخر چڑھایا کس نے؟ میں نے پوچھا، ’’جو میں پہنے ہوں۔۔۔یہ کس نے پہنایا ہے؟‘‘

    ’’سمپورنا نے۔‘‘ اس عورت نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے انگڑائی لی تھی۔

    ’’سمپورنا؟ کون سمپورنا؟‘‘

    ’’سمپورنا، میرا آدمی اور کون۔‘‘

    ’’اس نے۔۔۔؟ اس نے کیوں۔۔۔؟‘‘

    وہ بات کاٹ کے اٹھلا کے بولی، ’’وہ نہیں پہناتا تو کیا میں پہناتی۔۔۔؟ وارے وا!‘‘

    اور وہ منھ پہ ہاتھ رکھ کے جیسے شرما کے ہنسنے لگی۔ مجھے غصہ آ رہا تھا، ’’مگر یہ کیوں کیا؟ تیرے آدمی کو آخر ایسی کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’لو!‘‘ وہ الٹا برا مان گئی۔ ’’تیرے کپڑے سوتے میں مسل رہے تھے، یہ کون برا کیا ہم نے؟‘‘

    میں نے اسے ڈانٹا، ’’کس قسم کے لوگ ہو تم؟ کیا ضرورت تھی بھلا؟ اور یہ بنیان کچھا جو پہنایا ہے، کس کا ہے یہ؟ کہاں سے آیا ہے؟‘‘ میرے ڈانٹنے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اپنے بھرے بھرے ہونٹوں کی چونچ سی بناکے بولی، ’’میرے کو کیا کھبر کس کا ہے؟‘‘

    ’’’کہاں سے آیا ہے؟‘‘

    ’’آئے گا کہاں سے؟ ارے وہی سمپورنا مردے گھر سے اٹھایا لایا ہوگا۔‘‘

    ’’مر۔۔۔؟‘‘ میں چادر پھینک کے اٹھا۔ پھر فوراً ہی خود کو چادر میں لپیٹ کے بیٹھ گیا۔ وہ مجھے کچھا پہنے دیکھ کے آنکھوں پہ ہاتھوں کی اوٹ کیے گھوم گئی تھی اور بے رکے ہنسے جا رہی تھی، دھیرے دھیرے کہے جا رہی تھی، ’’بے سرم نہیں تو۔۔۔بےسرم۔‘‘

    اس سالے سمپورنا نےمجھے کسی مردے کا انڈرویئر بنیان پہنا دیا ہے۔ میں غصے میں جیسے کا نپتا لرزتا، کپڑے اٹھا کے باہر بھاگا۔ عورت کی ہنسی سے بے حال ہونے کی آوازیں رسوئی تک آتی رہیں۔ چھوٹے سے کوارٹر میں غسل خانہ کہاں سے آتا۔ میں نے رسوئی گھر میں سیمنٹ کا چبوترا بنا دیکھ لیا تھا۔ صابن تھا، پانی سے بھری ایک بالٹی بھی رکھی تھی۔ انڈرویئر بنیان پھینک جلدی جلدی میں نے صابن ملا، ڈونگے سےخود پر پانی بہا لیا اور جیسے تیسے کپڑے پہن کے سردی سے کانپتا واپس اپنے بستر پر آ گیا۔ وہ اب بستر پر بچھی چادر کی سلوٹیں درست کرنے کے بعد پٹی پر بیٹھی مزے سے ٹانگیں ہلا رہی تھی۔

    مجھے بھیگا ہوا اور سردی سے کانپتا دیکھ کے بولی، ’’دیکھا؟ کیسا چلایا تجھے۔ ارے بدھو! تو نے دیکھا بھی نہیں۔ بالکل نیا نکور کچھا بنیان ہے۔ سمپورنا کے لیے لائی تھی۔ ابھی پیکن بھی نہیں کھولی تھی اس کی۔۔۔کیسا چلایا تجھے۔۔۔دیکھا!‘‘ پھر ہنستے ہوئے بولی، ’’سردی کے ٹیم تجھ سے اسنان کرنے کو بولتی تو صاف منے کر دیتا۔ اب آیا نا جھٹ پانی ڈال کے۔۔۔صابن کی مست کھس بو آ رہی ہے تیرے پاس سے۔‘‘

    بکواس عورت تھی۔ میں نےچادر کھینچ کے خود کو سردی سے بچانے کے لیے لپیٹنا شروع کر دیا تو ہاتھ بڑھا کے وہ میری مدد کرنے لگی۔ میں نے ہاتھ جھٹک دیا تو جھوٹ موٹ کے غصے میں بڑبڑانے لگی، ’’دیکھو رے کیسا ناکدرا مجوان ہے۔ ہم سیوا کرتے ہیں، یہ سسرا گھسہ ہوتا ہے۔‘‘

    میں ایسا کون گل فام ہوں کہ کہیں جاؤں تو عورتیں لڑکیاں جان کو آ جائیں۔۔۔مگر جو ہو رہا تھا سامنے تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کسی طرح اس سرجن سے مل کے درخواست کروں کہ میرا پیچھا چھڑاؤ اس مردہ گھر اسٹاف سے۔ بےشک جب تک میرا ٹرک نہیں آ جاتا، رہائش کی اجرت میں وہ مجھ سے کام لے لے۔ میں ہر طرح کی محنت مشقت کر لوں گا۔ ہاسپٹل کے کچن میں برتن دھونے، سبزی ترکاری صاف کرنے، کاٹنے، تیار کرنے تک پہ راضی ہوں۔ وہ مالی کا کام دے دے یا کچھ نہیں تو وارڈ بوائے کا اسسٹنٹ بنادے، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ابھی میں پوری طرح اپنی درخواست سوچ بھی نہیں پایا تھا کہ وہ عورت بڑی سی تھال میں کچھ کھانے کو لے آئی۔ بولی، ’’کھانے کا ٹیم نکال دیا۔ چھوٹا بریک فاس کر لے۔ پھر بڑا کام کرنا ہے۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’کیسا کام؟‘‘

    بولی، ’’کتنے ہی دن کے رکے ہوئے کام ہیں۔‘‘

    ’’رکے ہوئے؟‘‘ میں نے پوچھا تو اس نے ’’ہاں‘‘ میں سر ہلایا، یہ نہ بتایا کہ کس طرح کے کام ہوں گے۔ ناشتے میں سوجی سے بنا نمکین حلوہ تھا جسے ساؤتھ میں اپ ما کہتے ہیں۔ ایک بڑا سا خوشبودار قلمی آم اور دو مٹھی چیوڑا تھاکھٹ مٹھا۔ میں نے خاموشی سے جا کے کلی کی، ہاتھ دھوئے اور شوق سے یہ انوکھا مزے دار ناشتا کیا۔ وہ تھال واپس لے گئی اور دو گلاس بھر کے چائے لے آئی۔۔۔ایک خود اس کے لیے تھا جسے وہ دونوں ہاتھوں میں تھام کے آلتھی پالتھی مار کے میرے سامنے چٹائی پر بیٹھ کر پینے لگی۔ مگر وہ جس طرح بیٹھی تھی اس سےکوئی بھی الجھن میں پڑ سکتا تھا۔

    ’’چائے اچھی تھی۔‘‘میں نے تعریف کی تو بولی، ’’یہ کچھ نہیں ہے، چائے تو کبھی کسی ٹیم تجھے پلاؤں گی کیسری، کستوری چائے۔‘‘ مجھے معلوم نہیں تھا کیسری کستوری چائے کیا ہوتی ہے۔ میں نے پوچھ لیا۔ بولی، ’’جافران اور جڑی بوٹی ملاتے ہیں چائے میں۔‘‘ میں نے سوچا ہوگی کچھ، تفصیل کیا پوچھنی۔ وہ ٹکٹکی باندھے میری صورت دیکھتی رہی۔ دیر تک میں کچھ نہ بولا تو کہنے لگی، ’’تو نے پوچھا نہیں کستوری چائے ابھی کیوں نہیں بنائی میں نے تیرے لیے؟‘‘ میں نے کہا، ’’اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے؟‘‘ بولی، ’’ہے ایک بات۔ پر میں تجھے بتاؤں گی نہیں۔ تو سمجھے گا بالکل کھیال نہیں ہے، لاج سرم بیچ کھائی ہے پدما نے۔‘‘

    ’’چائے بنانے نہ بنانے میں لاج شرم کیسی؟‘‘ بولی، ’’جب بتاؤں گی نا تو تیری سمز میں آ جائےگی سب بات۔‘‘ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ بھی اپنے میاں کی طرح بکواس ہے، اس لیے چپ رہا۔ اچانک پوچھنے لگی، ’’تونے کبھی عورت رکھی ہے؟‘‘ ابے لے! یہ کس قسم کا سوال ہے؟ میں اس کی صورت دیکھنے لگا۔ وہ اپنی زبان رخسار میں ٹکائے، چھوٹا سا ایک شریر ٹیلا بنائے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے تکے جا رہی تھی۔ میں نے کچھ الجھن، تھوڑی جھونجھل کے ساتھ اسے دیکھا تو خود ہی بولی، ’’نہیں رے، لگتا ہے بالکل کورا ہے۔ پھر تو کیسری کستوری تجھے نہیں پچے گی۔ ابھی نہیں پلاؤں گی۔ جب سمپورنا کدھری سے کوئی جنانی تیرے لیے گھیر کے لائےگا اسی ٹیم کیسری چائے دوں گی تیرے کو۔۔۔اور کیا! دوسری جنانی نہیں ہوئی تو مجھے کوئی اپنے لیے مصیبت بلانی ہے؟ چائے پی کے تو تونے بے ناتھ کا بجار ہی بن جانا ہے۔ میری تو سامت آ جائےگی۔۔۔میرا سمپورنا بے چارہ! اور جو اس نے کوئی بات کہہ دینی، روک ٹوک کرنی، تو تم دوئی جنے سانڈوں کی طرح پل پڑوگے ایک دوسرے پہ۔ ناں رےناں۔۔۔ہی ہی ہی۔‘‘

    وہ ہنستی رہی۔ میرا گلا خشک ہو رہا تھا۔ میں نے سوچ لیا کہ ابھی دوبے جی سرجن سے مل کے یہ مسئلہ حل کرنا ہے۔ ایسے گزارا نہیں ہو سکتا بھائی۔۔۔انسان کا بچہ ہوں، فرشتہ نہیں ہوں، ہاں۔ میں ہاتھ دھو کے آیا تو وہ پلاسٹک کی ایک بالٹی میں صابن اور اسپنج کا ٹکڑا ڈالے صحن میں آ کھڑی ہوئی۔ صورت سے لگتا تھا کہ کام کاموڈ بناکے آئی ہے۔ اب وہ چھیڑ چھاڑ، کھلواڑ کے موڈ میں نہیں تھی۔ میں نے پوچھا، ’’کیا کرنا ہے؟‘‘ بولی، ’’کام۔ یہ ایک بالٹی پونچھا تیرے باسطے اٹھا لیا ہے۔ آ جا میرے ساتھ۔‘‘

    ’’جانا کہاں ہے؟‘‘

    بولی، ’’سب کھبر لگ جائےگی۔ آجا۔‘‘

    کوارٹر میں تالا ڈال کے وہ مردہ گھر کی طرف چلی۔ میرا جی گھبرانے لگا۔ اب کیا وہ مجھے مردے نہلوانے کے لیے لے جا رہی ہے؟ مگر وہ برابر کے کھلے شیڈ کی طرف مڑ گئی۔ کھلے شیڈ میں اسٹیل کے ریک کھڑے تھے جن میں ایک ہی سائز کے پلاسٹک کے ٹب جیسے اوپر تلے جمے ہوئے تھے۔ ٹبوں سے دواؤں کی ناگوار بو اٹھ رہی تھی۔ خاصے موٹے پلاسٹک سے بنے یہ ٹب اتنے بھاری تھے کہ اکیلی پدماریک سے ایک اتارنا چاہتی تھی تو اس سے اتارا نہ گیا۔ میں نے مدد کی تب کام بنا۔

    وہ ریکوں کے پیچھے جا کر ایک اور بالٹی اسپنج اور صابن کا ٹکڑا اٹھا لائی اور نل میں لگا ربر پائپ سنبھال کے ٹب کو تر کرنے لگی۔ پھر اس نے چکنے پلاسٹک پر اسپنج سےجھاگ بنا بنا کے خوب صابن ملا اور مجھے دکھا دکھا کے بہت دیر تک اسے اندر سے صاف کرتی رہی۔ میں نے اور اس نے ٹب الٹ دیا تو پدما نے بتایا کہ باہر کی سطح کس طرح صاف کی جاتی ہے۔ کچھ دیر میں وہ جگمگانے لگا۔ اس کے اشارے پر میں نے وہ صاف کیا ہوا ٹب خالی ریک پر سوکھنے کو رکھ دیا۔ میں اور پدما دو سوا دو گھنٹے اسی طرح مصروف رہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ اگر مجھے ٹب صاف کرنے، سنبھالنے کا طریقہ آ گیا ہے تو اب وہ جائےگی، اسے اور بہت کام ہیں۔ میں نے کہا، ’’ہاں تم جاؤ، میں سمجھ گیا ہوں۔‘‘ کافی رات تک میں اسی شیڈ میں پلاسٹک کے ٹبوں کو صاف کرکرکے ریکوں پر رکھتا رہا۔ رات میں کسی وقت سمپورنا آیا۔ کہنے لگا، ’’چل کوارٹر میں نہا دھوکے کچھ کھا پی لے۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہئو! ‘‘

    سمپورنا اور اس کی عورت کس چکر میں تھے، یہ تو ابھی کہا نہیں جا سکتا تھا۔ مگر عام سوجھ بوجھ کا آدمی بھی جان سکتا تھا کہ یہ جوڑا کوئی گڑبڑ کر رہا ہے۔ پہلے میاں نے اپنے مہمان، کسی مسلمان بھائی کا قصہ سنا کے مجھے بتانا چاہا تھا کہ اس کی پدما کتنی ’’چالاک‘‘ ہے، پھر خود پدما نے اپنی اٹھک بیٹھک، اپنے انداز اور صاف صاف باتوں سے مجھے مائل کرنے اور ڈھب پر لانے کی کوشش کی تھی۔ ان لوگوں سے دور رہنا ضروری تھا۔ ٹھیک ہے، دیکھ لوں گا۔۔۔صبح تک تو میرے جانے کا کچھ ہو ہی جائےگا۔ ہم دونوں کوارٹر میں پہنچے تو کسی انتظام کے تحت سرجن دوبے وہاں پہلے سے بیٹھا تھا۔ اسٹول کھینچ کے اس نے مجھے بھی بٹھا لیا۔ کہنے لگا، ’’ٹھیک سے سنو۔ پولیس تمہاری تلاش میں کئی گھنٹے سے ادھر ہاسپٹل میں سرچ کر رہی ہے۔ شام کو آ گئے تھے باسٹرڈ اور اسٹاف سے پوچھ گچھ کر رہے تھے۔‘‘

    یہ پریشانی کی بات تھی۔ میں نےتشویش ظاہر کی تو سرجن نے تسلی دی۔ اصل میں وہ احسان جتانا چاہتا تھا اور یہ بتا رہا تھا کہ میری وجہ سے خود وہ خطرے میں آ گیا ہے۔ میں نےکہا، ’’مجھے پورا پورا خیال ہے کہ میری وجہ سے آپ کی پوزیشن خراب ہو سکتی ہے۔‘‘ اس نے ہاں میں سر ہلایا۔ پھر بولا، ’’سمجھ دار آدمی ہو۔ میں پولیس سے بچا تو لوں گا۔ اس میں کھطرہ بھی ہے اور کھد میری اپنی جیب سے کھرچا بھی بہت ہو رہا ہے۔ تو اب بتاؤ بدلے میں تم میرے لیے کیا کر سکتے ہو؟‘‘ میں نے کہا، ’’جو آپ کہیں۔ میں رقم کا بندوبست کر سکتا ہوں۔ ٹرک آجائے، آپ جو رقم مانگیں گے، ادا کردوں گا۔ مجھے بس وقت دے دیجیے۔‘‘

    دوبے بولا، ’’کیش رکم مجھے نہیں چہیے۔ میرے پاس بہت پیسا ہے۔ تم سے تھوڑا کو آپریشن مانگتا ہوں۔ ایسا کرو کہ جو آفر اس ٹائم دے رہا ہوں اس میں کھوب سوچو سمجھو، پیچھے مجھے جواب دینا۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ اپنی شرط یا آفر جو بھی ہے، بتاؤ۔‘‘ کہنے لگا، ’’ایک ساتھ میرے بہت سےآدمی نوکری چھوڑ کے چلے گئے ہیں۔ دبئی میں کوئی ہاسپٹل کھلا ہے اس کی بھرتی سبھی جگے ہو رہی ہے۔ تو لمبی لمبی پے کی لالچ میں سبھی اسکاؤنڈرل چلے گئے۔ ادھر کے کام چور بے ڈھنگے ورکر میں بھرتی نہیں کر سکتا۔۔۔سارا کچھ برباد کردیں گے۔ اسی لیے چالتا ہوں کہ جبھی تک میں تمہارے جیسے سمجھدار اور مجبوط باڈی والے ورکر نہیں بھرتی کر لوں، اس وقت تک تم میرے ہاسپٹل میں کام کرتے رہو۔ پر بھائی جی! یہ جان لو، بدلے میں ٹھہرنے کی جگہ اور کھانا ہی ملےگا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے، میں کام کر رہا ہوں۔ کرتا رہوں گا۔ پر پتا تو چلے کہ کتنے دن رہنا، کام کرنا ہوگا؟‘‘ سرجن بولا، ’’ویسے تو پوزیشن سنبھالنے میں پانچ و یک لگےگا۔ پر میں چار ویک میں چھٹی دے دوں گا کیوں کی تمہارے لیے اگلا ٹرک چار ویک میں آنے کا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’یہ تو بہت ٹائم ہے۔‘‘ بولا، ’’سوچ لو، ایسا ہی ہے۔۔۔اگلے ٹرک کی ٹائمنگ ایسے ہی سیٹ ہو رہی ہے۔‘‘ میں نےکہا، ’’ٹھیک ہے۔۔۔میرے رہنے کا کوئی اور بندوبست کر دو۔‘‘ پوچھنے لگا، ’’کیوں؟ سمپورنا کے گھر کوئی تکلیف ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’میاں بیوی کے بیچ ایک اجنبی آدمی کا رہنا جو نوجوان بھی ہو کسی طرح صحیح نہیں ہے۔‘‘ سرجن ہنسنے لگا، ’’یہ تمہیں کس نے بتایا کہ دونوں میاں بیوی ہیں؟‘‘

    میں نے کہا، ’’کون بتاتا؟ یہی دونوں کہہ رہے تھے۔ پھر رہتے جو ایک ساتھ ہیں۔‘‘میں نے سمپورنا کی طرف دیکھا، وہ دانت نکالے مسکرا رہا تھا۔

    ’’ارے یہ دوست دوست ہیں، میاں بیوی نہیں ہیں۔ ہاں، یہ الگ بات ہے کہ بستر مسہری کی کمی بیشی کی وجہ سے بے چارے ایک ساتھ گجارا کر رہے ہیں۔ ہاہاہا ۔‘‘ سرجن نے یہ بات سمپورنا کی طرف دیکھتے ہوئے کہی تھی۔۔۔اس نے پھر دانت نکال دیے تھے۔ میں ان کی صورتیں دیکھتا رہ گیا۔۔۔یہاں کیسی کیسی باتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

    ’’خیر، جو بھی ہو۔ کسی کے ساتھ بھی۔۔۔چاہے میاں بیوی ہوں یا نہ ہوں۔۔۔میرا رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ میں تو چھڑے چھانٹ مردوں کے ساتھ بھی رہنے سے پریشان ہوتا ہوں۔ کوئی اکیلا کوارٹر، الگ تھلگ کمرہ ہی دے دو مجھے۔ میں اپنا ٹائم نکال لوں گا۔‘‘ سرجن بولا، ’’ٹھیک ہے۔ ایک دو دن گجارا کر لو۔ کچھ کر دوں گا۔‘‘ پھر وہ کہنے لگا کہ کام کی ڈیٹیلز تو مجھے پدما اور سمپورنا ہی بتائیں گے، چاہے میں ان کے ساتھ رہوں نہ رہوں۔

    ’’اور کام۔۔۔‘‘ کہنے لگا، ’’کام سبھی طرح کے آتے رہتے ہیں۔ چنتا نہ کرو، سیکھنے میں کوئی اڑچن نہیں آئےگی۔‘‘ وہ رات ایک بجے تک کوارٹر میں بیٹھا بک بک کرتا رہا۔ اس کے جاتے ہی نہا دھوکے سردی سے لرزتے کانپتے کچھ زہر مار کر کے میں اپنے کمرے میں آیا تو دیکھا میرے بستر پر میرے کمبل میں پدما لپٹی پڑی ہے۔ یہ کس طرح کا پریشر ڈالا جا رہا ہے؟ لگتا ہے کہ کسی طے شدہ منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے یہ سب کچھ۔

    ’’کیا چکر ہے؟ جاؤ یہاں سے، جاؤ اپنے کمرے میں۔‘‘ میں نے شور کیا تو وہ اٹھ بیٹھی۔ اس کے آدمی۔۔۔مطلب سمپورنا نے میری آواز سن کے پرشور طریقے سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیا۔ گویا اپنی طرف سے اس نے اس سارے معاملے سے ہاتھ جھاڑ لیے تھے۔ وہ اسی طرح بستر پر بیٹھی ہتھیلیوں سے آنکھیں ملے جا رہی تھی جیسے رات کی شفٹ سے گھر لوٹتے میاں کے آنے پر بیوی کچھ آسودہ کہ آ گیا ہے اور نیند خراب ہونے پر کچھ ناراض ناراض سی بیٹھی بستر پر آنکھیں ملتی ہے۔ میں نے دوبارہ اسے بستر خالی کرنے کا اشارہ کیا تو پوچھنے لگی، ’’ڈاک صاحب سے بات ہو گئی تیری؟‘‘

    میں بہت چڑ گیا تھا،’’تجھے میری بات ہونے نہ ہونے کی کیا فکر ہے؟ جا اپنے کمرے میں۔۔۔سونے دے مجھے۔ تھکا ہوا ہوں اور دیکھ نہیں رہی، کپکپی چھوٹ رہی ہے۔‘‘ بولی، ’’میں تو سب دیکھ رہی ہوں پر تیری سمز میں جرا نہیں آتا۔ لے۔ ‘‘ اس نے آدھا کمبل کھینچ کے جیسے میرے لیے فالتو کر دیا، آدھے بستر پہ میرے لیے جگہ بنا دی۔ ’’جھگڑتا کیوں ہے۔ آجا۔‘‘ یہ ڈھٹائی میرے لیے نئی چیز تھی۔ میں نے کہا، ’’دیکھو، مجھے غلط سمجھ رہی ہو تم۔ اس کوارٹر میں مجھے ایک دو روز گزارنا ہیں۔ تم اگر مجھے اکیلا چھوڑ دو گی تو مہربانی ہوگی تمہاری۔‘‘ کہنے لگی، ’’میں تجھے کیا کہتی ہوں؟ کوئی کھا تو نہیں جاؤں گی۔ مرا جا رہا ہے ڈر کے مارے۔ ارے ایک باجو آکے پڑجا۔ میری طرف سے تو اکیلا ہی ہے۔ چل تو کہے تو اب بات بھی نہیں کروں گی۔‘‘

    مجھے طرارہ آ گیا، ’’ٹھیک ہے۔ میں جا رہا ہوں۔ اس سمپورنا سالے کو دو ہاتھ مار کے اس کمرے سے نکالتا ہوں۔ یہ ہے تو یہی سہی۔‘‘ وہ اٹھی، میرے برابر آکھڑی ہوئی۔ میرے ہاتھ تھام کے (اس کے ہاتھ خوب گرم ہو رہے تھے) خوشامد سےکہنے لگی، ’’ناں ناں، تو سمپورنا کو مارپیٹ مت کرنا۔ میری اس کی لڑائی ہے، بول چال بند ہے۔ میں اس کے پاس نہیں جاؤں گی۔ نہ ہی اسے ادھر آنے دوں گی۔ ارے ایک ہی بار کی تو بات ہے۔ مجھے ادھر پڑا رہنے دے۔ سبیرے کا مجھے پتا ہے سمپورنا مجھےمنا لےگا۔‘‘ میں نےفرش پر بچھی سیتل پاٹی کی طرف اشارہ کیا،’’بستر خالی کر دے۔ جاسوتی ہے تو ادھر جاکے سوجا۔ ادھر نہیں ٹکنے دوں گا تجھے۔‘‘

    وہ جیسے مجبوری میں اٹھی، میراکمبل سمیٹتی پاٹی پہ جاکے خوب اوڑھ لپیٹ کے پڑ گئی۔ بستر پر بس تکیہ اور گدا چادر رہ گئے۔ پہلے میں سمجھا یہ اس کی کوئی نئی عیاری ہے۔ مجھے ستانےکو کمبل کھینچ کے چل دی ہے، مگر دو ہی تین منٹ میں وہ سکون سے خراٹے لینے لگی۔ میرے لیے سردی میں نچلا بیٹھنا دوبھر ہو رہا تھا۔ کسی لحاف کمبل کے بغیر لیٹتا کیسے۔ نیند آنے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ اس کو اٹھانا یا دوبارہ یہ مسئلہ چھیڑنا ٹھیک نہیں تھا۔ میں نے دیکھا گدے کے نیچے دری بچھی تھی۔ تو بستر کی دری پر لیٹ میں نے چادر اوڑھی اور جیسے تیسے اپنے اوپر گدا لے لیا۔ کچھ دیر بے چین رہا، آخر میں گرم اور پرسکون ہوتا گیا۔

    سویرے کے ساڑھے آٹھ، پونے نو بجے ہوں گے جو اس عورت نے آواز دے کے مجھے اٹھا دیا۔ نہ معلوم کس وقت اس نے اوپر سے گدا ہٹا کے مجھےکمبل اڑھا دیا تھا۔ رات کی باتوں کا اثر نہ تو سمپورنا کے، نہ پدما کے چہرے پر تھا۔ معمول کے مطابق ناشتے کی اور کام پر جانے کی تیاری کرتے ہوئے وہ مجھ سے ادھر ادھر کی ہلکی پھلکی باتیں کرتے رہے۔ آج پھر شیڈ میں لے جا کے انہوں نے مجھے پلاسٹک کے ٹب دھونے مانجھنے کی ڈیوٹی دی۔ پدما بولی، ’’دھلائی سے تجھے لنچ کے ٹیم تک پھرصت مل جائےگی۔ کوارٹر پے آ جانا، تجھے اور سمپورنا کو چاول دال بنا دوں گی۔‘‘ میں نے سر ہلا دیا۔ کوئی زیادہ بات اس نے بھی نہ کی۔ میں سمجھ گیا، اس سے زیادہ بات کرنے میں میرا ہی نقصان ہے۔

    لنچ کے وقت تک میں پلاسٹک کے وہ انوکھے ٹب دھوتا سکھاتا رہا۔ کوارٹر پہ آیا تو سمپورنا پدما مجھ سے پہلے آئے ہوئے تھے۔ انھیں دیکھ کے لگتا تھا کہ لڑائی کے بعد میل ملاپ ہو گیا ہے، کیوں کہ دونوں بہت پاس پاس بیٹھے تھے۔ دوپہر تھی، پھر بھی پدما نے لپ اسٹک روژ لگائی ہوئی تھی، جو اس سالے سمپورنا کے چوکھٹے پرجگہ جگہ اتر آئی تھی۔ عورت نےہمیں دال چاول اور آم کا اچار دیا۔ کھانا اچھا بنا تھا۔ مجھے اس میں ہینگ کی مہک بھی آئی جو اچھی لگی۔ کھانے کے بعد سمپورنا میرے ساتھ ہو لیا۔ کہنےلگا، ’’ٹب پورے دھل گئے۔ اب آؤ ان کی فنسنگ کر لیتے ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیسی فنشنگ؟‘‘ بولا، ’’چل تو رہے ہیں۔ دیکھ لینا۔‘‘

    کوارٹر سے نکل کے ہم سیدھے مردہ خانے کی طرف چلے۔ سمپورنا نے چابی نکالی، تالا کھولا، اندر کی لائٹیں جلائیں اور دروازہ اندر سے مقفل کرنے لگا۔ میں نے پوچھا، ’’تالا کیوں ڈال رہے ہو؟‘‘ ہنس کے کہنے لگا، ’’اس لیے کہ تم بھاگ نہیں جاؤ۔‘‘ ایسی کوئی ہنسی کی بات نہیں تھی۔ میں نے اس کی طرف سنجیدگی سے دیکھا۔ اب وہ بھی سنجیدہ تھا۔ اسی وقت میری نظر سامنے مردے رکھنے والے سیمنٹ کے سلیبوں پر پڑی۔ وہاں کوئی دو درجن ننگ دھڑنگ، دھلی دھلائی تیار کی ہوئی لاشیں رکھی تھیں۔

    مردوں، عورتوں، بوڑھوں، نوجوانوں کی لاشیں، جنھیں دیکھتے ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ پیٹ چاک کرکے ہر لاش کی آ لائش نکال دی گئی ہے۔ پلاسٹک اور اسٹیل کے بڑے بڑے ڈرم ایک قطار میں رکھے تھے۔ ان میں وہی دوا ہوگی جس کی ناگوار بو میں نے دو روز تک ٹب دھوتے ہوئے محسوس کی تھی۔ یہ کسی طرح کی گوشت محفوظ کرنے والی دوا تھی یا کچھ اور۔۔۔اللہ جانے۔ ڈرموں کے برابر اوپر تلے پلاسٹک کے وہ ٹب رکھے تھے جنہیں میں نے دو دن کی محنت سے دھو سکھا کے جگمگا دیا تھا۔

    ابھی میں مردہ گھر میں سجی ان سب چیزوں کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ کسی اندرونی کھٹکے سےکوئی بغلی دروازہ کھلا اور سفید کوٹ پتلون، سفید بے داغ گاؤن اور ربڑ کے دستانے پہنے، ربڑ کے اونچے جوتوں میں فرش پر کھس کھس کرتا ہوا سرجن دوبے آیا، بالکل سامنے لاشوں سے پٹے سلیبوں کے درمیان کھڑا ہو گیا اور خوش مزاجی سے بولا، ’’ہیلو!‘‘

    ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ میں نے پریشان ہو کے دوبے سے پوچھا۔ وہ بولا، ’’آج ہم ان ڈیڈ باڈیز کو پیک کریں گے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘میں لاحول پڑھنا چاہتا تھا، مگر نہ معلوم کیوں میں نے سوال کیا تھا۔ سرجن دوبے سمپورنا کی طرف مڑا، ’’تم نے سمپورنا۔۔۔اسے کچھ نہیں بتایا؟‘‘ وہ بولا، ’’ڈاک صاحب! میں نےسوچا پہلے سے بتانا کیا جروری ہے۔ ہم جبھی کام کرنے بیٹھیں گے اسے سب کھبر ہو جائےگی۔‘‘

    ’’نہیں نہیں، یہ برا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے چھپانا، جھوٹ بولنا اچھا نہیں لگتا۔ ارے بھئی جس کسی کو بھی ہمارے لیے کام کرنا ہے اسے کھبر ہونی چہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔۔۔مطلب اس کو کیا کام کرنے کا ہے ہمارے باسطے۔ ہاں۔‘‘ پھر وہ اپنے ربڑ کے دستانوں سے کھیلتا ہوا بولا، ’’ہم واستو میں۔۔۔مطلب ان فیکٹ۔۔۔ہم لاشیں جمع کرتے ہیں۔‘‘

    ’’جمع کرتے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، مطلب Collect کرتے ہیں ڈیڈ باڈیز۔‘‘

    ’’پر کیوں؟‘‘

    ’’اسٹور کرنے کے لیے۔‘‘

    ’’اسٹور کس لیے۔۔۔؟‘‘

    ’’اسٹور نہیں کرو تو لاشیں rot ہونے لگتی ہیں اور میموری میں اور ساہتیہ میں اور ہسٹری، مطلب اتیہاس میں نکل نکل کے آتی ہیں بار بار۔۔۔کئی کئی ہجار برس کی لاش پانی سے اور شمشان بھومی سے اور کبرستان سے نکل کے آتی ہے اور کنور ہیملٹ کے پتا کی طرح گڑھیوں کی برجیوں پے ٹہل لگاتی ہے۔‘‘

    باپ رے باپ! یہ کیا بدمعاشی ہو رہی ہے؟ میں نے سوچا۔ وہ میرا خیال پڑھ رہا تھا۔ بولا، ’’بدمعاشی نہیں ہے۔۔۔راج نیتی ہے، مطلب politics میں اور کسی بھی طرح کی چودھراہٹ میں اس پرکار کا disposal جروری ہے۔ نہیں تو گدی نہیں سنبھالی جا سکتی۔۔۔اوں ہنک۔‘‘

    پر اس کیمیکل سے اور ٹبوں سے، ہمیشہ کے لیے، لاشوں کو کیسے کوئی ڈسپوز آف کر سکتا ہے؟ جب آگ اور مٹی اور پانی ہزار برس بعد بھی ناپسندیدہ کے ڈے ورز (cadavers) کو اپنا rot پھیلانے سے نہیں روک سکتے، تو یہ سب کیمیکل کیا کر پائیں گے؟ وہ میرا اعتراض سمجھ گیا تھا۔ تو اس نے مجھے بتایا کہ کیمیکل اسپرے کر کے پلاسٹک کے ایک ٹب میں لاش رکھ دی جاتی ہے اور دوسرے ٹب کو، جو اصل میں ڈھکنے کی طرح کا ہے، سیٹ کر کے لاش کوایئر ٹائٹ وغیرہ کر دیا جاتا ہے۔ پھر اندر لاش پر فراموش گاری کا عمل شروع ہوتا ہے۔ لاش کا سب رکارڈ، نام، پتا، زمانہ، اس کے خیالات اور نظریات، اس کی شبیہیں، اس کے لیے کہی گئی نظمیں، اس کے لیے نکالے ہوئے جلوس سب liquidate ہوتے رہتے ہیں۔ باہر بھی کوئی اس کا نام نہیں لیتا ہے۔ اس کا نام، پتا، زمانہ، خیالات، نظریات، شبیہیں اور اس کے لئے کہی گئی نظمیں، نکالے ہوئے جلوس ایک huge غیر متعلق information junk میں اچھی طرح پھینٹ دیے جاتے ہیں کہ کوئی انہیں salvage نہ کر سکے۔ پھر وہ سب کچھ ignore کیا جاتا ہے اور کبھی کسی بات کی تردید نہیں کی جاتی کہ تردید ایک طرح کی negative موجودگی ہے۔

    مجھے متلی آ رہی تھی۔۔۔یہ حرام زادہ کس اطمینان سےاتنےبڑے فراڈ، تاریخ کی ایسی بھیانک tempering کا سرسری سا ذکر کر رہا ہے، بالکل نہیں شرماتا اور سمجھ رہا ہے کہ میں اس حرام زدگی میں اس کا ساتھ دوں گا۔ ہرگز نہیں۔ میں نے پرزور احتجاج کرنے کے لیے حلق سے کوئی آواز نکالی جس کا کچھ مطلب نہیں تھا۔۔۔اس لیے آواز میں جان نہیں تھی۔ دوبے کہنے لگا، ’’سنو! پہلے سمپورنا ٹب میں دوا کا اسپرے کرےگا۔ اب تم چاہو تو اپنی کسی دعا سے کام شروع کر سکتے ہو۔ (تم لوگ کو دعا وگیرہ کا بڑا شوق ہے۔)‘‘

    میں نے پھنسی ہوئی آواز میں کہا، ’’میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ نرمی سے بولا، ’’جانے کی بات مت کرو۔ ادھر بھی یہی ہے، بائی گاڈ، کوئی ڈفرنس نہیں ہے۔ ایسا ہے کہ تم کو دیکھنے کا چانس نہیں ملا ہوگا۔ ادھر چانس مل گیا ہے۔ اچھا تو اب سمپورنا اور تم اسپرے کیے پلاسٹک کے ان آدھے تابوتوں میں لاشیں رکھتے جاؤ۔ میں اوپر سے ڈھکنے اور لائننگ پٹیاں فٹ کرتا جاتا ہوں۔ کم آن get set اینڈ گو!‘‘

    تو اب کیا عرض کروں، برس ہو گئے ہیں، ایسا ہے کہ نہ میرا ٹرک آیا ہے، نہ کوارٹر بدلا گیا ہے۔ اسی کوارٹر کے دو کمروں کے بیچ پدما کی اتھل پتھل ہوتی رہتی ہے۔ مجھے کوئی زیادہ پریشانی بھی نہیں ہے۔ ہم دونوں ہی وقائع نگار، مطلب اسکے ونجرز (scavengers)، ہیں جو اپنی mindless محنت سے ناپسندیدہ میٹریل کو غتربود کرنے کے عمل میں کسی دوبے وغیرہ کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ سمپورنا اور میں۔۔۔ہم پلاسٹک کے تابوتوں میں لاشیں رکھتے جاتے ہیں اور اوپر سے ڈھکنے فٹ کرتے جاتے ہیں۔ کام صحیح چل رہا ہے۔

    قارئین! زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں یہ قصہ یہں بیٹھ کے سنا رہا ہوں، اس لئے یوں سنایا ہے۔ اگر وہاں ہوتا تو دوسری طرح سناتا (نام بدل دیتا اور کہیں کہیں ٹچ اپ کر دیتا۔) ویسے آپ جان گئے ہوں گے کہ ادھر ادھر میں فرق کوئی نہیں ہے۔ دونوں سسرے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔

    مأخذ:

    غصے کی نئی فصل (Pg. 65)

    • مصنف: اسد محمد خاں
      • ناشر: زینت حسام
      • سن اشاعت: 1997

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے