Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہ دونوں

MORE BYاختر حسین رائے پوری

    اندھیرے میں کچھ مردے چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے۔ اوپرموت کی ہلکی ہلکی تاریکی نور کی چٹانوں میں جم رہی تھی اور نیچے زندگی موریوں میں پگھل رہی تھی۔

    ان میں سے ایک نے کہا، ’’آؤ اب ہم اس دنیا کی باتیں کریں جسے ہم ہمیشہ کے لئے چھوڑ آئے ہیں۔ دیکھو، مٹی کی بو باس کتنی تیز ہے کہ اب تک وہ ہم میں بسی ہوئی ہے اور اس کی ہر موج کے ساتھ زندگی کا کوئی بھولا ہوا واقعہ ہمیں چونکا دیتا ہے۔‘‘

    دوسرے نے روشنی کا ایک گھونٹ پی کر جواب دیا، ’’وہ زندگی میرے لئے ایک ایسی لکیر ہے جسے کسی نے یک بیک مٹا دیا ہو۔ سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں کیوں زندہ تھا۔ کہاں رہا اور کیا کرتا رہا۔‘‘

    ’’لیکن میرے کانوں میں اب بھی ایک مہیب آواز گونجا کرتی ہے، صبح سے شام تک روپیہ گننے میں میں نے اپنی عمر گنوا دی اور مجھے اتنی فرصت نہ ملی کہ کبھی آنکھ اٹھاکر اپنے گرد و پیش دیکھتا۔ تن تنہا ایک بڑی سی حویلی میں بیٹھ کر رنگ برنگے پتھروں کو انگلیوں سے چھوتا رہا اور جس طرح ان میں زندہ رہا، اسی طرح ان میں مر بھی گیا۔ صرف ایک مرتبہ میں نے اپنے باغ میں جھانک کر دیکھا تھا۔ خزاں کا موسم آ چکا تھا اور پیڑپودے جھلس کر سوئے ہوئے تھے۔ لیکن ایک جوان لڑکی گاتی ہوئی انہیں پانی دے رہی تھی اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ اجڑا ہوا چمن ابھی شاداب ہو جائےگا اور اس کی ہوائیں نئی کونپلوں پر ناچنے لگیں گی۔‘‘

    میرے ہاتھوں سے وہ جواہرات گر پڑے۔ میں نے دیکھا کہ میری زندگی کی پت جھڑ آ گئی ہے اور اگر زور سے لو چلی تو یہ ابھی گر پڑےگی۔

    میں ہر روز اس مالن کی آمد کا انتظار کرنے لگا اور کھڑکی پر بیٹھ کر اس باغ کو دیکھنے لگا۔ رفتہ رفتہ اس کے پیڑ ہرے ہونے لگے، ایک دو پھول یہاں وہاں سے نکلے اور انہوں نے شرماتے شرماتے اپنے نئے گھر کو کن انکھیوں سے دیکھا۔

    تنہائی کا یہ احساس میری جان کا لاگو ہو گیا۔ میرے جسم اور میری روح سے کسی کو کوئی تعلق نہ رہا تھا اور یہ خیال کہ ان ب جان پتھروں کے سوا مجھے کوئی نہ پوچھےگا۔ میرے لئے انتہائی اندوہ ناک تھا جب میں مر جاؤں گا تو اس زندگی سے مجھے کوئی تعلق نہ رہےگا۔ کوئی ایسا نہ ہوگا جو میری لاش کو آواز دے اور پکار کر کہے کہ نہیں اس مردے کو مجھے واپس دے دو اور میں بھی موت کے مالک سے یہ نہ کہہ سکوں گا کہ ہاں ابھی ایک بندھن باقی ہے۔ زندگی سے مجھے کچھ لینا ہے۔ دنیا کے بازار میں میں بالکل دیوالیہ نہیں ہوں۔

    میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہی مالن ہنستی اور گاتی ہوئی باغ میں آئی اس نے شرارت سے ایک پھول کے گال پر چپت رسید کی اور ایک نئی ٹہنی کو محبت کے مارے گلے لگا لیا۔

    میں باہر بھاگا۔ میری ایک مٹھی میں تجوری کی چابی تھی اور دوسری میں جواہرات۔ میں نے یہ سب اس کے قدموں پر ڈال دیئے اورعاجزی سے کہا، ’’یہ سب لے کر صرف زبان سے کہہ دے کہ میں تجھ سے محبت کر سکتی ہوں، پھر یہ سب کچھ تیرا ہے۔‘‘

    اس نے حیرانی سے میرے سفید بالوں اور کانپتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر حقارت سے پتھر کے ان ٹکڑوں پر نظر ڈالی اور یہ کہتی ہوئی چلی گئی، ’’میرا کام سوکھے ڈنڈ کی جڑ میں پانی دینا نہیں ہے۔‘‘

    اور جب میں مر گیا تو وہ ساری دولت دنیا کے ہاتھ لگی اور میری تشنہ کام روح اس وقت اجالے میں آئی جب اندھی ہو چکی تھی۔ جب وہ خاموش ہوا تو بہت سے مردے آہستہ سے بولے، ’’ہاں دنیا ہمارے لئے بھی ایسی ہی تھی۔ ہم نے یہ نہیں سوچا کہ زندگی کا لطف بہت سی حسین لغزشوں میں مضمر ہے۔ محبت کو ہم نے ڈرتے ڈرتے چھو کر دیکھا تھا۔ وہ نرم تھی۔ ستاروں کے نغمے کی طرح اور سخت تھی، رباب کے تاروں کی طرح۔‘‘

    سرخ گھاس کے تختہ پر لیٹے لیٹے ایک مردے نے کہا۔ ہر شام کو وہ باؤلی کے کنارے میرا انتظار کرتی تھی۔ میری یہ جرأت نہ ہوتی تھی کہ سڑک سے ہٹ کر اس کے پاس جاؤں اور کچھ کہوں لیکن میں جانتا تھا کہ وہ یہاں کیوں کھڑی رہتی ہے اور اسے بھی معلوم تھا کہ یہ ادھر سے کیوں گزرتا ہے اور باؤلی کا پانی ایک خاموش راگنی گاتا رہتا تھا۔ ڈوبے ہوئے سورج کی کرنوں میں پیپل کے پتے چمکتے تھے اور فضا کے سناٹے میں بچپن کا بھولا پن ہوتا تھا۔

    ایک روز میں نے کسی پھلواری سے بڑا سا گلاب توڑ کر اپنی جیب میں رکھ لیا اور جب اس کے قریب سے گزرا توجھجکتے اور ڈرتے ہوئے وہ گلاب میں نے اس کے قریب پھینک دیا۔ اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا، گلاب کو اٹھا کر سونگھا، اپنے ہونٹوں سے لگایا او رکن انکھیوں سے مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیا۔

    کئی سال گزر گئے اور ایک دن اس نے کسی دوسرے سے شادی کر لی۔

    جس دن اس کی شادی ہوئی، ایک آدمی میرے نام چھوٹا ساپارسل لئے ہوئے آیا۔ اس پر صرف اتنا لکھا ہوا تھا، ’’ایک گزری ہوئی شام کی یاد میں۔‘‘ جب میں نے اسے کھولا تو ایک دہکتے ہوئے گلاب کی پنکھڑیاں ہوا میں بکھر گئیں۔

    ’’اس پامال خاک گل کے سوا محبت نے مجھے کچھ نہ دیا۔‘‘

    کسی کونے میں دو چاہنے والے بیٹھے ہوئے تھے سب مردوں نے اپنی پسلیوں سے سانس نکال کر آواز دی، ’’کچھ تم بھی اپنی کہانی سناؤ۔ تم نے الفت میں کیا مزا پایا۔‘‘

    مرد نے جوا ب دیا، ’’محبت مرد کی تخلیق ہے کیونکہ عورت منزل ہے۔ مرد رہرو ہے۔ عورت ایک معمہ ہے بوجھنے کے لئے، ایک تصویر ہے، دیکھنے کے لئے۔ بوجھنے والا اور دیکھنے والا مرد ہے۔‘‘ ایک سیارے کی ملگجی روشنی میں اس نے عورت کا منہ اوپر اٹھایا، ’’ذرا غور سے دیکھو اس کے بالوں میں کیا ہے۔ برگد کی سی لٹیں جس پر سیاہ رنگ پھیر دیا گیا ہو۔ ان میں یہ بل اور خم کس نے دیا۔ میرے تخیل نے اور یہ آنکھ؟ اس میں یہ چمک کہاں سے آئی؟ میری محبت سے اور اس کی رسیلی آواز؟ اسے میرے نغموں نے شیرینی دی۔ اس کی چال میں یہ قیامت خیزی کہاں سے آئی؟ میری مستی سے۔ میری آرزو محبت میں رنگینی پیدا کرتی ہے اور میرا تجسس اس میں یاس وغم کی جھلک لاتا ہے۔‘‘

    مردوں نے شبہ نگاہوں سے ہر طرف دیکھا، ’’اور اس کا ماحصل۔‘‘ عورت نے کہا، ’’مگر زندگی کا ماحصل کیا ہے؟ ماضی کی یاد اور مستقبل کی تاریکی۔ زندگی وہ مسافر ہے جو موت کی سرنگ میں راہ ڈھونڈھنے نکلی ہے۔ اس کے ہاتھ میں محبت کی مشعل ہے جب مسافر تلاش سے تھک کر کہیں بیٹھ جاتا ہے تو مشعل روشنی کے بجائے دھواں دینے لگتی ہے۔ لیکن جب تک چلتے رہو وہ روشن رہتی ہے۔‘‘ مگر مردوں نے مایوسی سے سر ہلا کر پوچھا، ’’اور اس کی لذت‘‘ اس میں درد کے سوا کچھ نہ تھا۔ تمنا اور انتظار کا درد، کیونکہ محبت کا مزا ایک نئی ناکامی کے بعد نئی امید پیدا کرنے میں ہے، محبت پیاس کا پہلا نہیں بلکہ آخری گھونٹ ہے۔‘‘

    عورت نے مرد کی بات کاٹ کر کہا، ’’ممکن ہے یہ مرد کی کیفیت ہو۔ ہماری محبت کی لو صرف ایک بار سلگتی ہے اور ایک بار بجھ جانے کے بعد پھر کبھی نہیں بھڑکتی۔ پھر دھوئیں کے سوا کچھ نہیں رہتا۔‘‘

    مرد نے جواب دیا۔ ’’عورت دیر تک ندی کے گھاٹ پر بیٹھی رہتی ہے۔ وہ پاؤں لٹکا کر دھارے کے زور کا اندازہ لگاتی ہے۔ پھر آہستہ سے پاؤں ڈال کر نکال لیتی ہے۔ جب اسے تھاہ کا پتہ چل جاتا ہے تو وہ پانی میں تیرنے لگتی ہے۔ مگر مرد تشنہ لب صحرائی ہے۔ وہ آنکھیں بند کر کے بھنور میں کود پڑتا ہے۔ باپ کے بعد شوہر اور شوہر کے بعد بچہ! عورت کو کھڑے رہنے کے لئے کوئی سہارا چاہئے وہ ماں بن کر مرد کو اس کی بے پایاں آرزو کی سزا دیتی ہے۔‘‘

    مردوں نے تالی بجاکر کہا، ’’دیکھ لی محبت کی حقیقت یہ دونوں ایک دوسرے پر دم دیتے رہے۔ لیکن انہیں اب تک نہیں معلوم کہ ان کا مقصد کیا تھا؟‘‘

    عورت اور مرد نے کہا، ’’ہم نے زندگی اور موت کے بیچ ایک دیوار بنائی۔ یہ محبت کی دیوار ہے کیونکہ موت کی یک رنگی سے زندگی کو بچانے والا جذبہ محبت کا ہی ہے۔‘‘

    برگ و شجر، جاندار اور بے جان۔ جسے دیکھو زندگی کی الفت میں ڈوبا ہو اہے۔ رفتہ رفتہ ایک ایسی دنیا کے دروازے کھلتے جاتے ہیں جس میں محبت نفرت پر حکومت کرتی ہے۔

    اور کائنات کا دار و مدار محبت کی کشش میں ہے۔ سیارے ایک دوسرے کی جستجو میں سرگرداں رہتے ہیں۔ مادہ کا ہر ذرہ ایک دوسرے کی تلاش میں گردش کناں ہے۔ اس سارے سلسلہ کو ایک دوسرے سے جوڑنے والی کڑی ہماری محبت ہے۔‘‘

    ’’جاؤ جاؤ۔‘‘ ان مردوں نے حقارت سے کہا، ’’ان باتوں کے باوجود تم دونوں اسی تاریکی میں رہو گے۔ محبت تمہیں موت کے اندھیرے سے نہیں نکال سکتی۔‘‘

    یہ سن کر عورت کے لبوں پر تبسم آیا اور ہر طرف اجالا ہی اجالا تھا!

    مأخذ:

    محبت اور نفرت (Pg. 83)

    • مصنف: اختر حسین رائے پوری
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے