Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یاد کا بوڑھا شجر

قرۃ العین خرم ہاشمی

یاد کا بوڑھا شجر

قرۃ العین خرم ہاشمی

MORE BYقرۃ العین خرم ہاشمی

    ’’ابا میاں کہاں ہیں؟'' صبا نے آہستگی سے پوچھا تھا کیونکہ بڑی بھابھی غضب ناک تیوروں سے اسے گھور رہی تھی۔ ’‘آ گیا تمہیں بڑے میاں کا خیال؟ پتا بھی ہے کہ بڑے میاں پچھلے کئ دنوں سے شدید بیمار ہیں۔ ڈاکڑ نے انھیں مکمل بیڈ ریسٹ بتایا ہے مگر وہ ہیں کہ کچھ سُنتے ہی نہیں! تھوڑی طبیعت بہتر ہوتی ہے اسٹک کے سہارے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے، پرانے سٹور روم میں پہنچ جاتے ہیں۔ اللہ بخشے ضرور تمہاری مرحومہ اماں جان نے کوئی خزانہ یا راز وہاں چھپایا ہوگا۔ جس کی خبر صرف بڑے میاں کو ہی ہے تبھی بڑے میاں گھنٹوں وہاں کچھ نہ کچھ تلاش کرتے رہتے ہیں اور سمجھ دار اتنے ہیں کہ کچھ پوچھو تو خاموشی کی چادر اوڑھے ٹکر ٹکر چہرہ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔’‘ صبا نے گہری سانس لے کر اس کے چہرے پر سے نظر ہٹائی تھی۔ لوگوں کو اکثر احساس نہیں ہوتا ہے کہ غصہ اور نفرت اچھے بھلے چہرے کے نقوش بگاڑ کر اسے خوفناک بنا دیتے ہیں۔ ’‘میں ابا میاں کو دیکھتی ہوں!'' صبا وہاں سے خاموشی سے اٹھ کر اس بڑے سے گھر کے کونے میں بنے پرانے سٹور روم میں چلی آئی جہاں اماں کے زمانے کا پرانا سامان اور فرنیچر پڑا اپنی مدت پوری کر رہا تھا۔

    پیلے بلب کی روشنی میں صبا نے، سفید کپڑوں میں ملبوس، اپنے کمزور اور نحیف ہاتھوں سے ادھر ادھر پڑی چیزیں ہٹاتے کچھ ڈھونڈتے، ابا میاں کو اداسی سے دیکھا تھا۔ صبا نجانے پچھلے کتنے سالوں سے اپنے باپ کو کسی ان دیکھی چیز کی تلاش میں برف کی سل کی طرح قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھ رہی تھی۔ تلاش کا سفر ظاہری مسافت رکھتا ہو یا باطن کی تہہ در تہہ پرتیں کھولتا ہو۔ اس میں وجود، جسم ایسے ہی گھلتے ہیں جیسے تیز دھوپ میں پگھلتی برف! تلاش اپنا خراج فنا کی صورت میں لیتی ہے۔ اب یہ فنا کس پیمانے پر اور کتنی تیزی سے ہوتی ہے یہ اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے! اپنی اپنی چاہ پر منحصر ہوتا ہے۔ جس کی جتنی چاہت ہوگی اس کا حاصل بھی اتنا ہی ہوگا۔ ''ابامیاں!کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟'' صبا نے نرمی سے باپ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔ ابامیاں نے چونک کر خالی خالی نگاہوں سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔ اس وقت ابامیاں کے چہرے پر اتنی بے بسی تھی کہ صبا کا دل تڑپ کر رہ گیا۔ ''ابامیاں! کیوں اپنے ساتھ ساتھ ہمیئں بھی اذیت دے رہے ہیں؟ سب کہتے ہیں کہ آخری عمر میں پروفیسر صاحب کسی ذہنی مرض کا شکار ہو گئے ہیں مگر ابامیاں! دنیا چاہے کچھ بھی کہے مگر ایک بیٹی کا دل جانتا ہے کہ اس کا باپ پاگل نہیں ہے! بھلا جو شخص آج بھی ماضی۔ حال کی سب سمجھ بوجھ رکھتا ہو۔ آج بھی اپنے طالب علموں میں علم کا خزانہ بانٹتا ہو، ایسا شخص بھلا ذہنی طور پر ناکارہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نہیں جانتی کہ آپ کی تلاش کیا ہے؟ آپ کی زبان تک یہ سچ کیوں نہیں آتا ہے مگر ابامیاں میں آپ کو اتنا بےبس اور لاچار بھی نہیں دیکھ سکتی ہوں! زندگی میں وہ مقام بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب ہم اپنے پیاروں کو بےبسی کی سرد تہہ میں لمحہ بہ لمحہ اترتے دیکھتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کر پاتے ہیں۔’‘ صبا نے روتے ہوئے باپ کے جھریوں بھرے کمزور ہاتھوں کو تھاما تھا۔ ابامیاں نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا اور اس کا سر تھپکتے ہوئے کمزور لہجے میں بولے تھے۔

    ''میں نے تمہاری اماں کو لیدر کا ایک چھوٹا بیگ دیا تھا جس میں۔۔۔!'' اسی وقت آہٹ ہوئی تو دونوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا، جہاں پرتجس نظروں سے دیکھتی کان لگئے، بڑی بھابھی کھڑی تھی۔ ان دونوں کے دیکھنے پر گڑبڑا کر غصے سے بولی تھی۔ ’‘اچھا تو بڑے میاں نے گاوں والی زمین کے کاغذ کسی لیدر کے بیگ میں چھپائے ہوئے ہیں۔ مجھے پہلے ہی شک تھا کہ زمیں کے کاغذ گم ہونے والی بات سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ دیکھو ذرا خدمت ہم لوگ کریں اور سارا اثاثہ بیٹی لے جائے۔ واہ جی کیسا انصاف کیا بڑے میاں نے۔’‘ بڑی بھابھی تیز تیز بولتی ہوئی وہاں سے چلی گئی مگر صبا جانتی تھی کہ یہ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوگی۔ ایسا ہی ہوا شام تک عدالت لگ چکی تھی اور فرد جرم اس پر عائد کرتے ہوئے اسے سب کچھ سچ سچ بتانے کو کہا تو وہ افسردگی سے مسکرا کر اپنے بڑے بھائی سے بولی تھی۔’‘بھائی! ابامیاں نے بہت پہلے ہی اپنے سب اثاثے، اپنا سب کچھ ہم تینوں بہن بھاٰئیوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ احمد بھائی اپنا حصہ لے کر دبئی جا چکے ہیں، رہ گئے آپ اور میں تو ہمارے پاس بھی اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ جہاں تک گاوں والی زمین کی ملکیت کی بات ہے تو ابامیاں بہت سال پہلے ہی اس زمین کو گاوں کے بچوں کے سکول کے لئے وقف کر چکے ہیں۔ پھر ایسی بات کرنے یا سوچنے کا کیا فائدہ؟'' ہاں میں جانتا ہوں مگر وہ تمہاری بھابھی کہہ رہی تھی کہ۔۔۔ ’‘بڑے بھائی نے شرمندہ لہجے میں کچھ کہنا چاہا تھا۔'' بھائی ہر رشتہ اپنی اپنی جگہ پر سچ اور جھوٹ کے تناسب سے مل کر ہی بنتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ کس رشتے میں کتنا سچ ہے اور کس رشتے میں کتنا جھوٹ، اس کا فیصلہ ہر خردمند انسان خود کرتا ہے۔ اس رات صبا کو ابامیاں کی بگڑتی حالت کے پیشِ نظر وہاں رکنا پڑا۔ ابامیاں تین دن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے اور پھر ایک صبح خاموشی سے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ موت کی آہٹ سے پھیلا سناٹا، دل کی ہر رگ میں اپنے پنجے بہت اندر تک گاڑ دیتا ہے کہ ایک بار ہی سہی مگر موت کی ازیت سارے جسم میں جمعود طاری ضرور کر دیتی ہے۔ مگر اس دل چیرتے سناٹے کو زندگی کی ایک چہکار ہی درہم برہم کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے، شاید زندگی کی تیز رفتاری اسی لئے ہےکہ اپنے پیاروں کی موت کے غم کو کسی حد تک بھلایا جا سکے، موت کی سرد چاپ سے، زندگی کی آہٹ کشید کی جا سکے۔ ابامیاں سے محبت کرنے والے، انھیں یاد کرنے والے بہت سے لوگ اور بھی تھے جن کی تربیت اور کامیابی میں ابامیاں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ وہ لوگ بھی اپنے پیارے اور شفیق استاد کی موت کا افسوس کرنے جوق در جوق آ ریے تھے۔

    ''پروفیسر صاحب جیسے نیک لوگ بہت کم ہوتے ہیں، میں ایسے بہت سے غریب اور مستحق طالب علموں کو جانتی ہوں، جن کی تعلیم کا خرچہ پروفیسر صاحب نے بخوشی اٹھایا ہوا تھا۔'' وہ خاتون کافی دیر سے وہاں بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔ ابامیاں کو آج اس دنیا سے گئے ہوئے دس دن گزر چکے تھے۔ ''ویسے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔۔۔! سنا ہے کہ پروفیسر صاحب آخری دنوں میں عجیب بہکی بہکی باتیں کرتے تھے؟ کیا سچ میں وہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوگئے تھے؟'' اس عورت کے پوچھنے پر بڑے بھائی افسوس بھرے انداز میں بولے تھے۔

    ''جی بس! آخری دن ان کے کچھ ایسے ہی گزرے ہیں۔ بس اللہ کی جو مرضی۔۔ !’‘ صبا نے ایک ںظر سامنے بیٹھے، ذی ہوش لوگوں پر ڈالی تھی۔ جو کتنی آسانی سے کسی کو پاگل ہونے کا سرٹیفیک دے رہے تھے۔ ان لوگوں کے پاس اس بات کا کامل یقین تو تھا کہ ابامیاں ذہنی مریض بن گئے تھے مگر اس بات کے پیچھے کون سے عوامل تھے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی۔ صبا کسی سے کیا کہتی کیونکہ یہ بھی سچ ہے کہ ابامیاں پچھلے کچھ سالوں سے کسی گم شدہ چیز کی تلاش میں پریشان ریتے تھے۔ پہلے پہل ابامیاں کی تلاش کی کسی کو خبر نہیں ہوئی، کیونکہ وہ یہ کام بہت خاموشی سے کرتے تھے اور سب اپنی اپنی زندگی میں اتنے مگن اور گم تھے کہ ابامیاں کے معمولات میں تبدیلی آنے کی خبر نہیں ہوئی۔ مگر جب ابامیاں کی تلاش میں تیزی اور شدت آنی لگی تو سب چونک پڑے۔ سارے گھر میں اماں کی وفات سے کچھ پہلے ہی نیا سامان لایا گیا تھا۔ اماں کے زمانے کی سب چیزوں کو پرانا کہہ کر گھر کے سب سے آخر والے کونے میں بنے سٹور روم میں پہنچا دیا تھا۔ ان دنوں ابامیاں، اماں کی بیماری سے بہت پریشان اور حواس باختہ تھے کہ کسی اور بات کا ہوش ہی نہیں رہا تھا اور پھر اماں کی وفات کے کچھ عرصے بعد تک ابامیاں گم سم رہے مگر پھر نجانے انھیں کیا یاد آیا کہ وہ بے چین ہو کر پرانی چیزیں کھنگالنے لگے۔

    اپنی تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے پہلے یہ کام چھٹی والےدن کرتے تھے۔ مگر جب ابامیاں اپنی اس ذمہ داری سے بھی سبکدوش ہو گئے تو وہ اکثر ہی پرانے سٹؤر روم میں پائے جانے لگے تھے۔ پہلے اس بات کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کر دیا گیا مگر آخر کب تک۔۔۔! گھر کی دوںوں بہووں روز روز کی اس تلاش سے چڑنے لگیں تھیں کیونکہ ابامیاں اکثر گھر کے بچوں کو بھی اپنے ساتھ سامان اٹھانے یا گھیسٹنے میں لگا لیتے تھے۔ بچے یہ کام بہت شوق سے کرتے اور اتنے ہی شوق سے ان کی مائیں، اس بات پر ان کی پٹائی کرتی تھیں۔ ان دنوں چھوٹے بھائی باہر جا چکے تھے اور بہت جلد اپنے بیوی، بچوں کو بھی اپنے پاس بلانے والے تھے۔ وہ وقت بھی بہت جلد آ گیا، جب نظر کے سامنے رہنے اور بسنے والے، پردیسی بن گئے۔ ابامیاں کا آنگن بہت سی آوازوں سے خالی ہو گیا تھا۔ ابامیاں کی تلاش میں اب شدت آتی جا رہی تھی۔ سردی ہوتی یا شدید گرمی، وہ موسم کی سختی کی پرواز کئے بغیر، سٹور روم میں پہنچ جاتے اور اپنی زندگی کے آخری دنوں تک بھی یہ لگن لگی رہی۔ جو ان کے ساتھ ہی مٹی کا حصہ بن گئی تھی۔

    آج دو مہینے کے بعد صبا پھر اسی پُرانے سٹور روم کے دروازے پر نم آنکھیں لئے کھڑی تھی۔ سٹور کا سب سامان کاٹھ کباڑ والوں کو بیچا جا چکا تھا جو تھوڑا بہت باقی تھا وہ بھی ردی کے بھاو بیچا جا رہا تھا۔ جب اس سامان کو استعمال کرنے والے اپنے پیارے اور عزیز لوگ ہی زندہ نہ رہیں ہوں تو اس سامان کی کیا ایمیت رہ جاتی تھی۔ مگر نجانے کیوں صبا کو آج بھی ہر چیز پر اپنے والدین کا شفیق لمس محسوس ہو رہا تھا۔ وہ آج بھی گزرے لمحوں کے لہراتے سائے، پُرانے در و دیوار پر دیکھ رہی تھی۔ اماں اور ابا میاں نے کبھی بہت محبت اور چاہ سے یہ سب بنایا تھا۔ جو آج اتنی بے دردی سے کوڑیوں کے دام بک رہا تھا۔ شاید یہ ہی زمانے کا چلن ہے پرانی چیزوں کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں۔ مگر کیا یادوں کی جگہ بھی کوئی چیز لے سکتی ہے؟ یہ بیٹیاں بھی ناں! ہمیشہ ماں باپ کے آنگن سے وابستہ ہر چیز سے گہری محبت اور وابستگی رکھتی ہیں۔ بابل کے آنگن کی آس اور امید ہمیشہ ان کے دل کو گھیرے رکھتی ہے مگر آج صبا کی یہ آس بھی کہیں کھو گئی تھی۔ صبا نے ڈوپٹے کے پلو سے اپنی نم آنکھوں کو آہستگی سے صاف کیا اور خاموشی سے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ جب سامان کو اٹھواتے، بڑے بھائی کی نظر اس پر پڑی تو وہ اپنی خجالت چھپانے کے لئے بولے۔ ’‘میں نے تو بار بار تمہیں کہا تھا ک اگر ان چیزوں میں سے تم کچھ لینا چاہو تو شوق سے لے جاو مگر تم نے منع کر دیا۔’‘ ‘‘جی بھائی میں نے کب کہا کہ آپ نے مجھے روکا ہے کسی بات سے!'' صبا نے نرمی سے ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا جیسے کسی اپنے کے عیب پر پردہ ڈال کر اسے معتبر بنا نا چاہ رہی ہواور یہ ہنر بھی اس نے اپنے والدین سے ہی سیکھا تھا۔ ''دیکھو نہ صبا ہم خوامخواہ، ایسے ہی ابا میاں پر شک کرتے رہے۔ سٹور خالی کروایا تو سامان کے نیچے سے لیدر کا یہ بیگ مل ہی گیا اور مزے کی بات ہے اس میں کچھ بھی خاص نہیں ہے۔ سوائے کچھ پرانے حساب، کتاب کے! ابا میاں بھی ناں۔ پتا نہیں کیوں اسے ڈھونڈتے رہتے تھے۔’‘ بڑی بھابھی نے کوکھلی سی ہنسی ہنستے ہوئے ہاتھ میں پکڑا بیگ اس کی طرف بڑھایا تھا۔ جسے صبا نے خاموشی سے تھام لیا اور افسردہ لہجے میں بولی

    ہم نہیں صرف آپ ابامیاں پر شک کرتی تھیں۔ ہمارے لئے ابامیاں سچ اور ایمانداری کا پیکر تھے۔ ویسے آپ کے منہ سے ''ابامیاں'' سن کر اچھا لگا، چاہے ان کے مرنے کے بعد ہی سہی آپ نے اپنے اور ان کے رشتے کا احترام تو کیا۔۔۔! اور اس بیگ کے لئے بہت شکریہ کہ آپ نے اسے بھی ردی سمجھ کر پھینک نہیں دیا اور اگر آپ لوگوں کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں اس انمول خزانے کو اپنے پاس رکھنا چاہوگی۔ ‘‘ انمول خزانہ؟''

    اب کی بار دونوں میاں بیوی چونکے تھے۔ ان کے حساب سے اس میں سب بےکار چیزیں تھیں۔ بڑے بھائی نے سوچتی ہوئی نظروں سے بیوی کی طرف دیکھا تھا جیسے اس سے پوچھ رہے ہوں کہ تم نے اچھی طرح بیگ کی تلاشی لی تھی ناں! ''ایسا کیا ہے اس میں؟''بڑی بھابھی نے پرتجس لہجے میں پوچھا تھا۔ صبا نے خاموشی سے بیگ کھولا اور چند بوسیدہ اوراق کے ساتھ ساتھ کالے رنگ کی ایک ڈائری بھی برآمد کی۔ اور مدھم آواز میں کہنے لگی۔ ''مرنے سے ایک رات پہلے ابا میاں نے اپنی تلاش کا راز کھولا تھا۔۔۔!''

    اس کی آنکھوں سے آنسو کے شفاف قطرے نکل کر ہاتھ میں پکڑی چیزوں پر ایسے گر رہے تھے جیسے تازہ قبر پر بکھرے سرخ پھولوں کی پتیوں پر اوس کی نمی ٹھہر جائے! ''ابامیاں‘‘ نے بتایا تھا کہ جب ان لوگوں نے زندگی کا نیا سفر شروع کیا تھا تب ان کے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ اماں کی بہت سی چھوٹی، بڑی خواہشوں کو پورا کر پاتے، مگر ابامیاں کو اماں سے بہت محبت تھی اور وہ ان کی ہر خواہش کو پورا کرنا چاہتے تھے اس لئے ابا میاں کے اصرار کرنے پر ہی ان دونوں نے یہ ڈائری لکھنا شروع کی تھی۔ جس میں اپنے اپنے احساسات اور روزانہ کی روٹین کی چھوٹی چھوٹی بے شمار باتیں ہوتیں۔ جب ابا میاں کی مصروفیت بے تحاشا بڑھ گئیں کہ وہ اماں کو وقت نہیں دے پاتے تھے، تب اماں نے یاد دہانی کے طور پر اس ڈائری پر وہ سب کچھ محفوظ کرنا شروع کر دیا تھا! جو وہ کہنا چاہتی تھیں یا ابامیاں سے شیر کرنا چاہتی تھیں، ابا میاں اکثر رات اکو دیر سے گھر آتے تھے اور سونے سے پہلے مطالعہ کرنا ان کی عادت میں شامل تھا۔ اس ڈائری کو پڑھ کر وہ اماں کی دن بھر کی مصروفیات اور احساسات سے واقف رہتے تھے اس لئے کبھی ان میں کسی قسم کی غلط فہمی یا زہنی فاصلہ پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ جب جب ابامیاں اور اماں ایک دوسرے سے ناراض ہوتے، یا کسی کو کسی کی کوئی بات بری یا تکلیف دہ لگتی تو وہ بھی اس ڈائری میں لکھ دیتے۔

    اس طرح دونوں زندگی کی گہماگہمی اور مصروفیت میں بھی ایک دوسرے کے دل کے حال اور سوچوں سے واقف رہتے تھے! مگر کئی سالوں کے بعد، وقت کی تیز رفتاری اور بچوں کی ذمہ داریوں میں گم ہو کر یہ سلسلہ موقوف تو ہوگیا تھا۔ مگر ابا میاں اور اماں نے اسے اپنے انمول خزانے کا نام دے کر بہت سنبھال کر رکھا تھا کہ جب سب ذمہ داریوں سے فراغت پا لیں گے تو ایک دوسرے کی سنگت کو پھر سے محسوس کرتے ہوئے، گزرے دنوں کو مل کر یاد کیا کرے گے۔۔۔!

    اس وقت گزرے لمحوں کو پھر سے دہرائیں گے اور اپنی تنہائی کو، اپنے ماضی سے سجائیں گے! مگر افسوس کہ اس کی نوبت ہی نہیں آئی بہت سال پہلے اماں کی اچانک وفات نے ابامیاں کو ایکدم اکیلا اور تنہا کر دیا تھا۔ جب تک اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں ابامیاں مصروف رہے اماں کی یادوں سے لڑنا ان کے لئے آسان رہا مگر اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں وہ یاد ماضی کے گرداب میں الجھتے، اپنے انمول خزانے کو ڈھونڈتے رہے مگر کامیاب نہ ہو سکے جسیے جیسے ان کی تنہائی کا صحرا پھیلتا گیا، وہ یاد کی پرچھائیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے، خود یاد کا بوڑھا شجر بن گئے تھے اور آپ سب یہ سمجھتے رہے کہ وہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہو گئے ہیں، جبکہ وہ صرف اپنی تنہائی اور اکیلے پن سے لڑنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کرتے تھے۔۔۔! ''صبا نے گہری سانس لے کر بات ختم کی تھی اور گم سم سے کھڑے، احساسات سے عاری، ان بتوں پر نظر ڈالی تھی جو محبت، ایثار، سادگی، وفاداری کے اصل زائقوں سے بھلا کب آشنا تھے!'' اور تو سب ٹھیک ہے مگر مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔! ''کچھ دیر کی خاموشی کے بعد صبا نے پرسوچ انداز میں کہا تو دونوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔'' ابامیاں کی سب جائیداد اور اثاثے ان کی اولاد میں شرعی لحاظ سے تقسیم کر دیے گئے ہیں مگر اس دن سے میں اس سوچ میں ہوں کہ اس انمول خزانے کی وراثت کسے ملنی چائیے؟ بیٹوں کو یا ہیٹیوں کو؟ کون اس وراثت اک اصل حقدار ہے؟ کیا یادوں، احساسات، محبت کے اثاثے بھی، سب اولادوں میں برابر تقسیم کیے جا سکتے ہیں؟ کیا اسے بھی دینا کے بازار میں نیلام کیا جا سکتا ہے؟ کیا ان جذبوں کی بولی بھی لگتی ہے بازاروں میں؟ میرے پاس ان سب سوالوں کے جواب تو نہیں ہے مگر ایک خوف ضرور ہے کہ کل جب ہمارے بچے، بڑے ہو کر وراثت کے دعویدار بوں گے تو کیا ہماری طرح وہ بھی صرف مادی چیزوں کی ہی وراثت مانگیں گے؟ کیا ہم بھی یاد کا بوڑھا شجر بن کر اپنی اپنی جان لیوا تنہائی کا آخری پہر کاٹیں گے؟ اسی لئے، میں یہ انمول خزانہ اپنے سب بچوں میں تھوڑا تھوڑا کر کے ضرور تقسیم کروں گی تاکہ آنے والے وقت میں، وہ اپنے والدین کو یاد کا بوڑھا شجر بننے سے بچا سکیں۔ صبانے لیدر کے بیگ کو مضبوطی سے بند کیا اور دہلیز پار کر گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے