Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یاں آگے درد تھا

انتظار حسین

یاں آگے درد تھا

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    کہانی کی کہانی

    اس افسانے میں اپنی جڑوں سے کٹ جانے اور تہذیب کے پامال ہو جانے کا نوحہ ہے۔ کالج میں آم کا ایک درخت ہے جس پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے حامی طلبا اپنا جھنڈا لگایا کرتے ہیں لیکن نظریاتی اختلافات کی وجہ سے درخت پر جھنڈے لگانے کی روایت ختم کر دی جاتی ہے۔ اس پابندی نے وہ تمام نشانات مٹا دیے جو اس جگہ پر انجام پذیر ہوتے تھے، وہ جگہ ویران ہو گئی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس درخت کو کاٹ کر نئی عمارات تعمیر کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔

    اس کالج کی عمارت عجیب بے تربیتی سے بنی ہے، ایک طرف سب سے الگ تھلگ مثلث کی شکل میں چند کمرے بنے ہوئے ہیں، پھر اس سے بالکل ہٹ کر کمروں کی ایک مختصر سی قطار نظر آتی ہے، اس کے ختم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ کالج کی عمارت ختم ہو گئی، لیکن اس سے تھوڑے ہی فاصلہ پر کمروں کا ایک اور ہجوم ہے۔ جس کی شکل بگڑے ہوئے دائرے کی سی ہو گئی ہے، یہاں کالج ہال ہے، اس کے برابر پروفیسروں کا کمرہ ہے۔ پھر پرنسپل کا کمرہ ہے اور اس سے ملا ہوا لڑکیوں کا کمرہ ہے۔

    اس بگڑے ہوئے دائرے سے جب اس قطار کی طرف آتے ہیں جو آرٹس کی کلاسوں کے کمروں کا سلسلہ ہے تو رستے سے ہٹ کر الٹے ہاتھ پر ایک ویران سا آم کا درخت کھڑا ہے اور اس کے نیچے ایک ٹوٹا ہوا نل ہے، اس نل کا ہتھا اس انداز سے لٹکا رہتا ہے کہ کوئی پرندہ ہو جس کا بازو ٹوٹ کر لٹک گیا ہے۔ نیچے کے حصے پر زنگ لگتا چلا جا رہا ہے اور ایک قسم کی زردی سی کھنڈ گئی ہے، کھراجوں کاتوں موجود ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برسوں سے اس پر پانی کا قطرہ نہیں گرا۔ گرد، آم کے زرد خشک پتے، اکا دکاّ کتاب کا ورق، کوئی گھسی گھسائی ٹوٹی پھوٹی پینسل، ایک دو کپڑوں کے چیتھڑے، کوڑے کرکٹ کا یہ مختصر سا انبار کبھی پورے کھرے پر بکھرا ہوا ہوتا ہے، اورکبھی ہوا کے اثر سے سمٹ کر نالی پر جمع ہوجاتا ہے، اس نالی میں اب اتنی مٹی اٹ گئی ہے کہ اس کا سوراخ تقریباً بند ہوگیا ہے اور اب اس کے کھلے رہنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ نہ تو نل چلتا ہے، نہ پانی گرتا ہے اور نہ اس کے نکاس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ زمین کے اس ننھے منے ویران گوشے کی فضا سے کچھ ایسا احساس پیدا ہوتا ہے جیسے یہاں کوئی نگرآباد تھا اور اب اجڑ گیا ہے، یا کوئی دریا یہاں بہتا تھا جو رستہ بدل کر اب کسی اور رخ بہنے لگا ہے۔

    ویرانی کا بھی عجب طور ہے، بعض بستیاں بار بار اجڑتی ہیں اور اجڑ اجڑ کر بس جاتی ہیں، اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بستی کیوں ویران ہوئی تھی، اس کی موقع کی اہمیت باقی ہے، ارد گرد شاداب زمینیں ہیں، آس پاس آبادیاں ہیں، قریب سے سڑک گزرتی ہے، لوگوں کو تاریخی اہمیت کا بھی احساس ہے اور پھر کوئی اس طرف کا رخ نہیں کرتا۔ نشیب باقی ہے، ریتی موجود ہے لیکن تری کا نشان نہیں، دریا نے رخ بدل لیا ہے، کیوں بدل لیا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا، رونق ماجرا بن کر پھیلتی ہے اور ویرانی بھید بن کر آتی ہے۔ اس ننھے منے گوشے کی ویرانی بھید ہو یا نہ ہو، اس کی رونق کوئی ماجرا نہیں تھی، موقعہ تھا ہی ایسا کہ یہاں ہنگامہ رہنا ہی چاہیے تھا، ہرا بھرا سایہ دار آم کا درخت، پانی کا نل، پھر کلاسوں کے قریب بھی اور کلاسوں سے الگ بھی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لڑکیاں کالج میں داخل ہوتیں تو ادھر سے نکلتیں۔

    کلاس ٹوٹی ہے، کمرے میں اچانک ایک خوشگوار سے شور کی کیفیت پیدا ہوگئی، لڑکے اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھ کر بے تحاشہ باہر نکل پڑے ہیں، ان کا رخ نل کی طرف ہے، یہ شخص جس نے نل کا ہتھا سنبھال رکھا ہے زاہد ہے، زاہد کو زاہد بہشتی کہا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ پانی کوئی بھی پئے نل زاہد چلاتا ہے اور کبھی کبھی اس چکر میں آنکھیں سینکنے کا موقع بھی کھو بیٹھتا ہے، اے لو جگدیش کو دیکھو ابھی اوک سے پانی پی رہا تھا اور اب پانی چھوڑ چھاڑ کر پیڑ کے نیچے آکھڑا ہوا ہے۔ یہ دوسرے لڑکے بھی زاوئے بنا بنا کر کھڑے ہوگئے ہیں۔

    تارا ساہنی آ رہی ہے، سفید ساڑی، ماتھے پہ ننھی سی بندی، ہونٹوں پہ اک ہلکی مسکراہٹ سی، بھرا بھرا جسم، جگمگ چال۔۔۔ مگر یہ کیا؟ اس کی چال میں فرق آرہا ہے، دراصل اس اڈے کے پاس سے گزرتے ہوئے ہر لڑکی کی چال میں فرق آجاتا ہے، البتہ رمولا کو مستشنیٰ سمجھنا چاہئے۔ رمولا یعنی وہ بنگالی لڑکی جو اس کالج میں آکر رمولا کہلائی اور جس کا اصلی نام معلوم کرنے کی کبھی کسی کو آرزو نہ ہوئی، اس کی آمد کا انکشاف اسی درخت کے نیچے ہوا تھا، تیسرے گھنٹے کے ختم پر ممتاز دوڑا دوڑا آیا۔ سلام نہ دعا، چھوٹتے ہی ایک سنسنی خیز خبر سنائی، ’’یارو ایک نئی لڑکی آئی ہے، بنگالن ہے، غضب ہے بالکل رمولا کی شکل۔‘‘

    ’’رمولا کی شکل؟‘‘ سب چونک اٹھے۔

    ’’قسم قرآن کی بالکل رمولا ہے۔‘‘

    یہ خبر نشر تو یہاں ہوئی تھی لیکن پندرہ منٹ بعد جب رسیس ختم ہوئی اور چوتھا گھنٹہ شروع ہوا تو اس درخت کےنیچے ہی لوگ چشم براہ نہیں تھے بلکہ سامنے والے برآمدوں کے آگے بھی لڑکوں کی ایک طویل قطار نظر آرہی تھی لیکن کیا مجال کہ رمولا کی چال میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔ گرلز روم سے نکل کر بیالوجی کی کلاس تک پہنچنے میں دو چار سخت مقام آتے ہیں، اس زمانے میں شاید سب سے سخت مقام یہی اڈا تھا، یہاں پہنچ کر اچھی اچھی مستقل مزاج لڑکیوں کی چال میں فرق پڑ جاتا تھا۔ ایک ثریا نے تو ضرور یہ رویّہ اختیار کیا تھا کہ یہاں سے گزرتے ہوئے ماتھے پر اور زیادہ شکنیں ڈال لیتی تھی، بہرحال وہ نوٹس تو لیتی ہی تھی۔

    یہ بات رمولا ہی میں دیکھی کہ ادھر سے گزرتے وقت اس نے یہاں کھڑے ہونے والوں کے وجود کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا، یہاں سے گزرتے ہوئے اس نے کبھی نہ تو اپنی ساڑی کا پلو درست کیا نہ کسی پریشان لٹ کے سنوارنے کی ضرورت محسوس کی۔ بڑی بے اعتنائی سے گزری چلی جاتی، یہ بے اعتنائی تھی بہت اشتعال انگیز۔ کیا قیامت ہے کہ جس منزل سے گزرتے ہوئے لڑکیوں کے چہروں کے رنگ بدل جائیں اس منزل سے رمولایوں گزر جائے، گویا کوئی بات ہی نہیں ہے۔ شرمیلی لڑکیاں تو خیر کوئی مسئلہ ہیں ہی نہیں۔ رعونت رکھنے والی لڑکیوں سے انتقام لینا بھی ان لڑکوں کو آتا تھا، لیکن یہ بے اعتنائی ان کے لئے ایک نئی اور انوکھی چیز تھی اور اس سے مقابلے کی صورت ان میں سے کسی لڑکے کی سمجھ میں کبھی نہ آئی۔

    اس اڈے کی ٹولی والے رمولا کا علاج نہ سوچ سکے ہوں یہ الگ بات ہے، ویسے ان کے دماغ سے بات یوں نکلتی تھی جیسے بوندا باندی کے عالم میں آموں کے باغ میں ٹپکا لگتا ہے، ہاں یہ پیڑ تھا اس پہ مول تو ضرور آتا تھا اور اکثر اکاّ دکاّ ہری امیاں بھی پتوں میں چھپی ہوئی نظر آجاتی تھیں، لیکن آم آتے کبھی نہیں دیکھے گئے، اس درخت پہ نہ کبھی آم آئے، نہ کبھی کوئل بولی، نہ کبھی طوطوں کی ڈار اتری، نہ کسی کھوہ میں طوطوں کے بچے نظر آئے۔ لیکن آم کے درختوں پہ تو بس فصل کے زمانے میں بہار رہتی ہے، اس کے بعد تو وہ چپ چاپ حسرت کی تصویر بنے نظر آتے ہیں، یہ آم کا پیڑ ایک چھٹیوں کے مختصر سے زمانے کو چھوڑ کر ہمیشہ ہی آباد رہتا تھا۔

    اس کالج میں تیسرے اور چوتھے گھنٹے بڑی مصروفیت کے گھنٹے ہوتے ہیں۔ تقریباً سبھی لڑکے کلاسوں میں ہوتے ہیں، تیسرے گھنٹے کے ختم پہ لڑکے رواروی میں آتے، نل پہ پانی پیتے، چلتے ہوئے دو چار باتیں کرتے اور کلاسوں کو ہو لیتے، برامدوں اور روشوں پر سکوت چھا جاتا، کلاسوں میں لیکچر شروع ہو جاتے اور طلبا دم سادھے ٹکٹکی باندھے لیکچرار کو تکتے رہتے، وقت کی رفتار دھیمی ہوتی اور لمحے تھکی ہوئی چینٹیوں کی قطار بن جاتے، برامدوں اور روشوں پر بدستور سناٹا چھایا رہتا اور لیکچرار کی بے کیف آواز میں اور زیادہ بے کیفی اور زیادہ یکسانی پیدا ہوجاتی اور لڑکوں کو جماہیاں آنے لگتیں، آنکھیں بند ہونے لگتیں، تھکی ہوئی چینٹیوں کی بے رنگ قطار رینگتی رہتی اور پھر اچانک کسی کمرے میں لیکچرار کی آواز تھم جاتی، کرسیوں اور میزوں کے سرکنے کا ایک شور ہوتا۔ پھر برابر کے کسی کمرے میں اسی انداز سے لیکچرار کی آواز تھمتی اور اسی انداز سے میزوں اور کرسیوں کے سرکنے کا ایک شور ہوتا، پھر یہ شور ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں اور دوسرے کمرے سے تیسرے کمرے میں منتقل ہوتا چلا جاتا۔

    تھکی ہوئی چینٹیوں کا بےرنگ جلوس کہیں گم ہو جاتا اور فضا میں چراغ سے جل اٹھتے، لڑکے ہنستے بولتے ایک کمرے سے نکلتے اور درخت کی طرف ہولیتے، پھر کسی دوسرے کمرے سے اسی انداز سے ایک ٹولی برآمد ہوتی، پھر مختلف کمروں سے لڑکے گروہ در گروہ نکلتے اور برامدوں میں اور روشوں پہ ایک گہما گہمی پیدا ہوجاتی۔ خاموش نل کو حرکت ہوتی اور پھر وہ مسلسل شور کرتا چلا جاتا، ایک سبیل لگ جاتی اور پیاسوں کا جمگھٹا کم ہونے میں نہ آتا، پھر نل کا شور اچانک مدھم پڑ جاتا اور نگاہیں پانی سے ہٹ کر سامنے والے رستے پر جم جاتیں، مثلث کے کسی کمرے سے لڑکیوں کی ایک ڈار نکلتی اور فضا میں ایک دم روشنی سی پھیل جاتی۔ رنگوں میں ڈوبی ہوئی چراغوں کی ایک قطار ندی کی طرح بہتی چلی آتی اور بگڑے ہوئے دائرے والی عمارت میں جا کر گم ہوجاتی، سرگوشیاں اور مسکراہٹیں بلند آہنگ فقروں اور قہقہوں کی شکل اختیار کر لیتیں اور نل پھر زور زور سے چلنے لگتا۔

    یہ ۱۹۴۲ء کا ذکر ہے۔ کانگریس کی تحریک سوِل نافرمانی زوروں پر تھی۔ کالج کے طلباء میں خاصا جوش پھیلا ہوا تھا، کئی ایک مظاہرے ہو چکے تھے، لڑکے کلاسوں سے احتجاجاً اٹھ اٹھ کر چلے آتے، نعرے بلند ہوتے، ہجوم جلوس کی شکل اختیار کر لیتا اور یہ جلوس برامدوں میں اور روشوں پہ گشت کرتا اور نعرے لگاتا۔ پولیس گیٹ تک آتی اور کالج کی حدود میں داخلے کی اجازت نہ پاکر واپس چلی جاتی اور جلوس ایک برامدے سے دوسرے برامدے میں اور دوسرے سے تیسرے برامدے میں جاتا اور لڑکیوں کو کلاسوں سے نکل آنے پر آمادہ کرتا، ایک دن اس جلوس کے دل میں نہ جانے کیا سمائی کہ اس کا رخ اس آم کے پیڑ کی طرف ہوگیا۔ پہلے نعرے لگتے رہے پھر ایک لڑکا ترنگا جھنڈا لے کر آگے بڑھا اور درخت پہ چڑھ گیا، درخت پہ جھنڈا لہرا دیا گیا۔ درخت پہ جھنڈے کا لہرانا غضب ہوگیا۔

    کالج میں ہر قسم کے طالب علم تھے، مسلم لیگی، احراری، خاکسار، کمیونسٹ، سوشلسٹ، اسلامی، جماعتی۔ جس نے یہ منظر دیکھا اسے اپنے نظریے پہ حملہ تصور کیا، سارے دن کالج کی فضا میں ایک سنسنی سی طاری رہی، مختلف لڑکے آتے، ترنگے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھتے اور واپس چلے جاتے، پھر برامدوں کے کونوں پر کھڑے ہوکر سرگوشیاں ہوتیں، اشارے ہوتے، وہ سارا دن اسی عالم میں گزرا، لیکن دوسرے دن کیا ہوا۔ فضا میں اور زیادہ کشیدگی پیدا ہوگئی، ترنگے کے برابر مسلم لیگ کا پرچم لہرا رہا تھا، لڑکوں نے دیکھا اور ہکاّ بکاّ رہ گئے۔

    کانگریسی طلباء کا ایک غول کا غول آیا، یہ منظر دیکھا، آنکھیں لال پیلی ہوگئیں، سرگوشیاں کرتا آگے بڑھ گیا، پھر دن بھر یہ عالم رہا کہ لڑکوں کی ایک ٹولی آتی، غور سے دونوں جھنڈوں کو دیکھتی، جلدی جلدی پانی پیتی اور جھنڈوں کو تعجب اور ہراس سے دیکھتی ہوئی واپس ہوجاتی، کوئی دوسری ٹولی گھبراہٹ میں جلدی جلدی آتی اور درخت سے چند قدم کے فاصلے پہ کھڑی ہوجاتی اور اس کی نگاہیں درخت کی پھننگ پہ لگے دو جھنڈوں پہ جم جاتیں، وہ جمےکھڑے رہتے، ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے، اور پھر آہستہ آہستہ دبے پاؤں واپس چلے جاتے۔ چار لڑکے یہاں کھڑے ہیں، دو لڑکے وہاں کھڑے ہیں، ایک تناؤ کی کیفیت ہے، لڑکوں کی ٹولیاں باتیں بھی کرتی ہیں اور چل پھر بھی رہی ہیں، لیکن باتیں سرگوشیوں میں ہوتی ہیں اور اٹھتے ہوئے قدم اپنی چاپ سے ڈرتے ہوئے اٹھ رہے ہیں۔

    اور دوسرے دن جب کالج کھلا تو لڑکوں نے دیکھا کہ اب ایک تیسرا جھنڈا بھی درخت پر لگا ہوا ہے، یہ خاکساروں کا جھنڈا ہے، تناؤ کی کیفیت اور بڑھی اور کالج کی فضا میں بدستور خاموشی چھائی رہی، نل اور نل کے آس پاس کی فضا میں ایک سناٹا سا طاری رہا، شام کو جب کالج ختم ہونے لگا تو اسلامی جماعت کے چند لڑکوں نے بھی پانچویں سواروں میں شامل ہونے کی کوشش کی۔ لیکن جو لڑکا جھنڈا لے کر درخت پہ چڑھ رہا تھا اسے ایک خاکسار نے پکڑ کر نیچے کھینچ لیا اور اس کا گریبان پکڑ لیا، اسلامی جماعت والے اس خاکسار کی اس غیر اسلامی حرکت سے بہت دل برداشتہ ہوئے، فوراً امیر جماعت سے رجوع کیا گیا۔ وہاں سے جواب ملا کہ نیت مستحسن ہے لیکن چونکہ فتنے کا اندیشہ ہے اس لئے اسے ملتوی کر دو۔ لیکن اپنے رفیقوں کو جتا دو کہ ہم محض رفع شر کی خاطر علم لہرانے کے حق سے دست بردار ہوتے ہیں۔

    اسلامی جماعت والوں نے اپنے رفیقوں پر یہ بات جتادی اور مطمئن ہوگئے، لیکن کمیونسٹ فتنے سے کب ڈرنے والے تھے، ایک کمیونسٹ طالب علم کلاس سے ایک ڈیسک اٹھا لایا اور درخت کے نیچے اس پہ کھڑے ہوکر تقریر شروع کردی، ’’ساتھیو! مسلم لیگ اور کانگریس دونوں انگریز کے پٹھو ہیں۔ مسلم لیگ فرقہ پرست جماعت ہے اور زندگی کو سیکڑوں سال پیچھے لے جانا چاہتی ہے، کانگریس برلاؤں اور ڈالمیاؤں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے، خاکسار فسطائیت پرست ہیں۔‘‘

    اس تقریر کا اثر کچھ ہوا، کچھ نہ ہوا، لیکن دوسرے دن یہ گل کھلا کہ جن جن گدوں پہ جھنڈے نصب تھے وہ قلم کر دیے گئے تھے اور ایک سب سے اونچی شاخ پر سرخ پرچم لہرا رہا تھا، سب کے سب سناٹے میں آگئے، پھر کانگریسیوں نے ایک جلوس ترتیب دیا اور کمیونسٹ مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے پورے کالج میں گشت کیا۔ مسلم لیگ سے وابستہ پرجوش طلبہ نے کسی باقاعدہ جلوس کی ضرورت نہ سمجھی، ایک بے ہنگم سا ہجوم جمع ہو گیا اور ٹوپیاں اچھال اچھال کر نعرے لگانے لگا، ’’ملحد مسلم ایک دو، اسٹالن کی ٹوپی پھینک دو۔‘‘ خاکسار طلباء اینٹ پتھر لے کر لڑنے پہ آمادہ ہوگئے، لیکن جب کوئی کمیونسٹ نظر نہ آیا تو جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔

    دوسرے دن جب لڑکے کالج آئے تو دیکھا کہ جس شاخ پر سرخ پرچم نصب تھا، وہ غائب ہے اور ایک دوسری شاخ پہ ترنگا لہرا رہا ہے، دوسرے دن ترنگا مع شاخ کے غائب ہوگیا اور سبز پرچم لہرانے لگا، تیسرے دن سبز پرچم والی شاخ غائب تھی، ایک شاخ پر خاکساروں کا جھنڈا بندھا ہوا تھا۔ چوتھے دن پھر کانگریس کا جھنڈا آگیا، سوشلٹ طلباء نے بھی اس سمرن میں تھوڑے موتی پروئے لیکن ایک مرتبہ ان کا جھنڈا ایسا غائب ہوا کہ پھر اس کی صورت ہی نظر نہ آئی۔

    آخر ایک روز ہنگامہ برپا ہوہی گیا، کالج میں اکثریت تو بہر صورت کانگریسی طلباء ہی کی تھی، انہوں نے ایک لمبا چوڑا جلوس بنایا اور نعرے لگاتے ہوئے آم کے درخت کے پاس پہنچے، چند لڑکوں نے درخت پہ چڑھ کے مسلم لیگ کا جھنڈا اتار پھینکا اور ترنگا لہرا دیا، اس پہ سارے مسلمان طلبہ میں سخت جوش پھیل گیا۔ پرنسپل تک خبر پہنچی، اس نے اس طوفان کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن یہ طوفان روکے نہ روکا اور خون خچر کی نوبت آگئی، پرنسپل نے گھبرا کر پولیس کو کالج کے اندر بلا لیا، پولیس دندناتی ہوئی کالج میں گھس آئی، مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا، پکڑا دھکڑی کی اور پیڑ کے پاس پہرہ لگا دیا۔

    دوسرے دن سے آرٹس کی کلاسوں کے پیچھے ایک چھوٹی سی کوٹھری میں پانی کے مٹکے لاکرر کھوائے گئے اور حکم ہوگیا کہ لڑکے پانی یہاں پئیں اور کوئی درخت کے پاس نہ جائے، ایک سپاہی دن رات وہاں تعینات رہتا، کبھی وہ بندوق کاندھے پہ رکھے ٹہلتا رہتا اور کبھی بندوق کو اسی انداز سے کاندھے پہ رکھے رکھے وہ بالکل ساکت ہوجاتا اور یوں لگتا کہ اس کی روح پرواز کر گئی ہے، اور اس کی آنکھیں کھلی رہ گئی ہیں، وہ کبھی بندوق پیڑ کے تنے سے لگا کے رکھتا اور تنے سے کمر لگا کے بیٹھ جاتا، اس کی آنکھیں بند ہونے لگتیں، پھر اچانک نیند کے جھونکے سے اس کا سر پیچھے کی طرف ڈھلک کر تنے سے کھٹ سے ٹکراتا، وہ پھر چونک پڑتا اور بندوق کاندھے پہ رکھ کے پھر ٹہلنا شروع کر دیتا، آس پاس خاموشی چھائی رہتی۔ لڑکے دور دور سے ہراس آمیز نگاہوں سے سپاہی کو دیکھتے اور کلاسوں میں داخل ہوجاتے، پروفیسر گھنٹہ شروع ہونے پر رجسٹر بغل میں دابے اپنے کمرے سے نکلتے اور نظریں جھکائے پیڑ کے پاس سے گزرے چلے جاتے۔

    لڑکیاں گرلز روم سے خاموشی سے باہر آتیں اور سرد مہری سے نکلی چلی جاتیں اور سپاہی اسی انداز سے بندوق کاندھے پہ رکھے ٹہلتا رہتا، ٹہلتا رہتا اور لکڑی کی طرح ساکت ہوجاتا۔ یہ پہرہ امتحانوں کے زمانے تک رہا تھا پھر چھٹیاں آگئی تھیں۔ کالج بند ہوگیا، بات آئی ہوگئی۔ اب یہ واقعہ ایک بھولی بسری یاد بن کے رہ گیا ہے، جن طلباء نے اس ہنگامے میں زور شور سے حصہ لیا تھا وہ کالج سے رخصت ہو کر اب زندگی کے ہنگاموں میں مصروف ہو چکے ہیں، شاید انہیں یہ واقعہ کبھی یاد بھی نہ آتا ہو لیکن اس درخت پر اس واقعہ کا اثر بڑا گہرا پڑا ہے، کہتے ہیں کہ ہرے درخت کو نہیں کاٹنا چاہئے، اس سے بربادی آتی ہے۔ اس درخت کی ہری بھری شاخوں اور گدوں کے کٹنے سے کالج میں کوئی بربادی نہیں آئی، وہ تو اور ترقی کر رہا ہے۔ ہاں یہ درخت خود ہی ویران ہوگیا، ایک خشک سا تنا، دو تین ٹیڑھے میڑھے گدّے۔ ان گدّوں پہ پتے تو بس برائے نام ہی ہیں اور یہ پتے بھی سوکھے سوکھے بدرنگ سے ہیں۔

    باروں مہینے ایک پت جھڑ کی کیفیت رہتی ہے، پتوں اور ٹہنیوں سے محروم ایک گدّا عجب ٹیڑھ میڑھ سے فضا میں بلند ہوتا چلا گیا، اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ درخت سے دامن چھڑا کر خلاء میں گم ہوجانا چاہتا ہے۔ ایک دوسرا گدّا اک ذرا ترچھا ہوکر آسمان کی طرف اٹھتا چلا گیا ہے، صرف اس کی پھننگ پہ پتوں کا ایک گچھا ہے۔ باقی وہ خشک لکڑی ہے جس میں اکاّ دکاّ ٹہنیاں ہیں اور ان ٹہنیوں میں دو چار پتّے لگے ہیں، اس کے نیچے والا نل مدّتوں سے خشک پڑا ہے۔ اس کا ہتھا ٹوٹ کر نیچے لٹک گیا ہے۔ آم کے زرد خشک پتّے، اکاّ دکاّ کتاب کا ورق، کوئی گھسی گھسائی ٹوٹی پھوٹی پینسل، ایک دو کپڑوں کے چتھڑے۔

    یہ اس نل کے کھرے کی پونجی ہے، کبھی کبھی جب دوپہر کو زور کی ہوا چلتی ہے تو یہ کچرا سمٹ کر نالی کے خشک سوتے پہ جمع ہوجاتا ہے، لڑکے مختلف روشوں پہ گھومتے ہیں اور بالعموم اس طرف کا رخ نہیں کرتے، لڑکیاں اپنے کمرے سے نکل کر اسی راستے سے ہو کر کلاسوں میں جاتی ہیں، وہ بے اعتنائی سے گزری چلی جاتی ہیں۔ یہاں سے گزرتے ہوئے ان کے چہرے پہ سرخی نہیں دوڑتی، نہ چال میں فرق آتا ہے اور نہ کسی بکھری ہوئی لٹ کو سنوارنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

    سنتے ہیں کہ اس کالج کی عمارت کو اور وسیع کرنے کا منصوبہ ہے، یہ بھی سنا گیا ہے کہ اس آم کے پیڑ کو یہاں سے کٹوا دیا جائے گا اور یہاں کامرس کی کلاسوں کے لئے کمرے تعمیر ہوں گے۔

    مأخذ:

    گنی چنی کہانیاں (Pg. 21)

    • مصنف: انتظار حسین
      • ناشر: وکاس پبلیشنگ ہاؤس پرائیویٹ لمیٹڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1992

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے