Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یہ کون

MORE BYرابندرناتھ ٹیگور

    (۱)

    ڈاکٹر! ڈاکٹر!

    میں نے آنکھیں مل کر دیکھا۔ تو ہمارے زمیندار دکشنا چرن بابو سامنے کھڑے تھے۔ میں جھٹ اٹھا۔ گھڑی دیکھی تو رات کے ڈھائی بجے تھے۔ دکشناچرن منہ بگاڑ کر بولے، ’’آج پھر وہی وقوعہ پیش آیا!‘‘ میں نے کہا، ’’شاید آپ نے شراب کی مقدار بڑھا دی۔‘‘ دکشنا بابو بگڑ کر بولے، ’’یہ شراب کا اثر نہیں۔ آپ شروع سے آخر تک سب حال سنے بغیر اصلی سبب نہ جان سکیں گے۔‘‘

    مٹی کا چراغ ٹمٹما رہا تھا۔ میں نے اس کی روشنی تیز کر دی اور چادر اوڑھ کر بیٹھ گیا۔ دکشنا بابو کہنے لگے، ’’اگرچہ میری پہلی استری کے برابر دوسری کا ملنا کٹھن تھا۔ مگر اس زمانہ میں میری عمر چھوٹی اور طبیعت میں عاشقی بہت تھی۔ اچھے اچھے پاتر دیکھے تھے۔ اس لیے اپنی استری کا گرہستی کی طرح رہنا اچھا نہ لگتا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی اس سے عشق کی گفتگو کرتا تو وہ میری باتوں کو ہنسی میں اڑا دیتی۔ اس کی ہنسی سے میری آرزوؤں اور امیدوں کا خاتمہ ہو جاتا۔‘‘

    چار برس ہوئے، مجھے بخار آنے لگا۔ جینے کی امید نہ رہی اور ایک دن تو ڈاکٹر نے بھی جواب دے دیا۔ اس وقت میرے ایک دوست کہیں سے ایک برہمچاری کو لائے۔ اس نے دودھ گھی کے ساتھ مجھے ایک دواپیس کر دی اور میں اس دوا کے اثر یا قسمت کی خوبی سے بچ گیا۔ بیماری میں میری استری نے تن من دھن سے خدمت کی۔ دروازہ پر بیٹھ کر اپنی سنیتا کے تیج سے یم راج کا مقابلہ کیا۔ اسے نہ کھانے کی سدھ تھی نہ پینے کی۔ نہ گھر سے مطلب تھا، نہ دنیا سے۔ یم راج مجھے تو چھوڑ گئے۔ مگر جاتے جاتے اس پر چوٹ کر گئے۔ وہ اس وقت حاملہ تھی۔ پرسوت کے بخار اور طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئی۔ میں نے اس کی خدمت شروع کی۔ مگر اس نے مجھ سے خدمت کرانا منظور نہ کیا۔

    ہمارا برہان نگر والا گھر تو آپ نے دیکھا ہی ہے۔ گھر کے سامنے باغ ہے اور باغ کے سا منے گنگا جی بہتی ہیں۔ اس کے ایک حصہ میں میری استری نے اپنی خواہش کے مطابق اپنے ہاتھ سے پھولوں کا کنج لگایا تھا۔ اس میں بیلا گلاب وغیرہ کے پیڑ تھے۔ ایک مولسری کے بوٹے کے نیچے سنگ مرمر کا چبوترہ تھا۔ گرمی کے دنوں میں شام کو ہم دونوں اس چبوترہ پر بیٹھ جاتے تھے۔

    بہت دن تک چارپائی پر پڑے رہنے سے میری استری اکتا گئی تو مجھ سے کہنے لگی میرا جی گھبراتا ہے۔ آؤ آج باغ میں چل کر بیٹھیں۔ میں بڑی کوشش سے اس کو سہارا دے کر آہستہ آہستہ باغ تک لے گیا اور اس چبوترہ پر بٹھا دیا۔ ایک ا یک دو دو کرکے مولسری کے پھول گرنے لگے۔ چاند کی روشنی ڈالیوں اور پتوں کے اندر سے ہوتی ہوئی اس کے بےرونق چہرہ پر پڑی۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ میں بھی اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔ دیکھتے دیکھتے میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میں نے اور پاس جاکر اس کا دبلا پتلا ہاتھ پکڑا۔ کچھ دیر یونہی چپ رہنے کے بعد دل آپے سے باہر ہو گیا۔ میں نے کہا، تمہاری محبت مجھے عمر بھر نہ بھولےگی۔

    یہ سن کر میری استری ہنس دی۔ اس ہنسی میں علم و حیا کے ساتھ بےاعتمادی بھی تھی۔ اس کی مسکراہٹ کا مطلب یہ تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں تم مجھے کسی وقت نہ بھولو۔ نہ میں ایسی امید ہی کرتی ہوں۔ اس دل آویز مگر تلخ ہنسی کے ڈر سے میں نے پھر کبھی محبت کا ذکر نہیں چھیڑا۔ جو باتیں دل میں پیدا ہوتیں، اس کے سامنے جاتے ہی نامعلوم کہاں جاتیں۔ کتابوں میں جن باتوں کے پڑھنے سے آنکھوں میں آنسو بہنے لگتے ہیں، نامعلوم ان کے سننے سے اسے کیوں ہنسی آتی تھی۔

    (۲)

    بہت دوادوش کے باوجود میری استری کی صحت یابی کے آثار نظر نہ آئے تو ڈاکٹر نے آب و ہوا کی تبدیلی کا مشورہ دیا اور میں اسے لے کر الہ آباد چلا گیا۔ وہاں ہرناتھ بابو اس کا علاج کرنے لگے۔ مگر چند ہی روز بعد معلوم ہو گیا کہ یہ روگ جانے والا نہیں۔ یہ جاننے کے بعد کہ اب دائم المریض رہ کر ہی زندگی بسر کرنی ہوگی، ایک دن میری استری نے مجھے مذاق سے کہا، تم ایک شادی اور کر لو۔ جس پر بڑی سنجیدگی اختیار کرکے میں نے کہا، ’’جب تک میرے جسم میں جان ہے۔۔۔‘‘ میری بات کاٹ کر اس نے کہا، ’’ایسا نہ کہو۔ تمہاری بات سن کر مجھے دکھ ہوتا ہے۔‘‘ میں نے اب بھی ہار نہ مانی۔ پھر بول اٹھا، ’’اس زندگی میں میں اور کسی سے محبت نہ کروں گا۔‘‘ یہ سن کر میری استری زور سے ہنسی۔ میں چپ ہو گیا۔ اس کی خدمت کرتے ہوئے میں نے دل ہی دل میں برہمچریہ رہنے کا عہد کر لیا تھا۔

    ڈاکٹر ہرناتھ کی اور ہماری ذات ایک تھی۔ ان کے گھر میں اکثر کھانا کھاتا تھا۔ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر نے اپنی لڑکی منورما سے میری ملاقات کرا دی۔ اس کی شادی ابھی نہ ہوئی تھی۔ اس وقت اس کی عمر پندرہ سال کی تھی۔ بابو ہرناتھ کہتے تھے کہ یوگیہ ور نہ ملنے سے ابھی تک اس کی شادی نہیں ہوئی۔ لڑکی خوبصورت اور پڑھی لکھی تھی۔ اس لیے اس سے باتیں کرتے ہوئے گھر آنے میں دیر ہو جاتی اور استری کو دوا دینے کا وقت نکل جاتا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ میں ہرناتھ بابو کے گھر جاتا ہوں مگر دیر ہونے کا سبب اس نے ایک دن بھی نہیں پوچھا۔

    (۳)

    پیاسے مسافر کو ریت میں پانی کا سراب نظر آتا ہے۔ میرے دل میں محبت کی پیاس تھی۔ سامنے صاف اور ٹھنڈا پانی جھکورے لے رہا تھا۔ اپنی طبیعت کو نہ روک سکا۔ اب مریض کی صحبت شاق ہوتی تھی۔ خدمت کرنا اور دوا دینا بھی وقت طلب ہو گیا۔ ہرناتھ بابو کبھی کبھی کہا کرتے تھے، جس مریض کے اچھا ہونے کی امید نہ ہو اس کا مرنا ہی بھلا ہے۔ ایک دن میں نے اپنے کمرہ میں سنا میری استری ڈاکٹر سے کہہ رہی ہے، ڈاکٹر بابو، جب میں ا چھی ہی نہیں ہو سکتی تو مہربانی سے ایسی دوادو جس سے پران جلد چھوٹ جائیں۔ یہ باتیں سن کر میرے دل پر چوٹ لگی۔ ڈاکٹر کے چلے جانے پر میں اپنی استری کی چارپائی کے پاس بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس نے کہا، یہاں گرمی ہے، ہوا خوری کرآؤ، ورنہ رات کو بھوک نہ لگےگی۔ ہواخوری کا مطلب ڈاکٹر بابو کے گھر جانے سے تھا۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ بھوک لگنے کے لیے تھوڑا سیر کرنا اچھا ہوتا ہے۔ اب میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ میری چالبازیوں کو خوب سمجھتی تھی۔ مگر اس وقت یہی خیال کرتا تھا کہ وہ کچھ نہیں جانتی۔

    ایک دن ڈاکٹر بابو کی لڑکی نے میری استری کو دیکھنے کی خواہش کی۔ نہ معلوم مجھے یہ بات کیوں اچھی نہ لگی مگر میں اسے روک بھی نہ سکا۔ ایک دن شام کو وہ میرے گھر آئی۔ اس دن میری استری کو اور دنوں سے زیادہ تکلیف تھی۔ منہ نیلا ہو گیا تھا اور ہاتھ کی مٹھیاں کسی ہوئی تھیں۔ اس دن اس میں اتنی طاقت نہ تھی کہ مجھ سے ہوا خوری کے لیے کہتی۔ اس کی آنکھوں کو روشنی سے بچانے کے لیے چراغ دروازہ کے پاس رکھا ہوا تھا۔ گھر میں اندھیرا اور سناٹا تھا۔ اس وقت منورما دروازہ کے پاس آکر کھڑی ہو گئی۔ سامنے سے چراغ کی روشنی اس کے چہرہ پر پڑی۔ وہ دروازہ پر چپ چاپ کھڑی تھی۔ میری استری، اسے دیکھ کر چونک گئی اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولی، ’’یہ کون!‘‘ غالباً اس ضعف و نقاہت میں وہ ایک اجنبی صورت کو دیکھ کرڈر گئی تھی۔ دو تین بار مجھ سے پوچھا یہ کون! یہ کون! یہ کون! نہیں معلوم میری عقل پر کیا پردہ پڑ گیا کہ میں بول اٹھا، ’’میں نہیں جانتا۔‘‘

    اتنا کہتے ہی ایسا معلوم ہوا گویا کسی نے میرے دل پر کاری ضرب لگا دی۔ بے اختیار منہ سے نکلا، ’’اوہو، یہ تو ہمارے ڈاکٹر بابو کی لڑکی ہے۔‘‘ میری استری نے میری طرف دیکھا لیکن میں اس کی طرف نہ دیکھ سکا۔ اس نے ڈاکٹر بابو کی لڑکی کو اندر بلایا اور مجھ سے چراغ لانے کو کہا۔ منورما اندر بیٹھ گئی اور میری استری آہستہ آہستہ اس سے باتیں کرنے لگی۔ اتنے میں ڈاکٹر بابو آ گئے۔ وہ اپنے ساتھ دوا کی دوشیشیاں لائے تھے۔ انہوں نے شیشیاں نکال کر میری استری سے کہا، اس نیلی شیشی میں مالش کرنے کی دوا ہے اور دوسری میں کھانے کی۔ دیکھو دونوں کو ملا نہ دینا۔ نیلی شیشی والی دوا زہر ہے۔

    چلتے وقت ڈاکٹر نے اپنی لڑکی کو بلایا مگر جب منورما کو لے کر جانے لگے تو میری استری نے کہا، ’’ڈاکٹر بابو یہ بڑی دیر سے اندھیرے میں بیٹھے ہیں۔ ان کو بھی ذرا گھما لائیے۔ میں نے برائے نام حیل حجت کی۔ پھر چلنے کو تیار ہو گیا۔ ڈاکٹر نے چلتے چلتے دوا کے لیے پھر تاکید کی۔ اس دن میں نے ڈاکٹر کے گھر پر بھوجن کیا۔ گھر آتے آتے رات ہو گئی۔

    (۴)

    واپس آکر دیکھا تو میری استری کی حالت خراب تھی۔ میں نے گھبراکر پوچھا کیا زیادہ تکلیف ہے؟ وہ جواب نہ دے سکی۔ چپ چاپ میرے منہ کی طرف دیکھنے لگی۔ بظاہر گلا بند ہو گیا تھا۔ میں نے فوراً ڈاکٹر کو بلایا۔ ڈاکٹر بابو پہلے تو کچھ نہ سمجھے پھر بولے، ’’تعجب ہے تکلیف اتنی بڑھ گئی۔ معلوم ہوتا ہے دوا کی مالش ایک بار بھی نہیں ہوئی۔ یہ کہہ کر انہوں نے شیشی کو دیکھا مگر وہ خالی تھی۔ ڈاکٹر نے گھبراکر کہا، ’’ارے کیا تم نے یہ دوا پی لی؟‘‘ میری استری نے گردن ہلاکر جواب دیا، ’’ہاں۔‘‘ ڈاکٹر پمپ لینے گاڑی پر گھر گیا۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور بے ہوش سا ہوکر اپنی استری کے بچھونے پر گر پڑا۔

    جس طرح ماں اپنے دکھی بچہ کو ڈھارس دیتی ہے، اسی طرح میری استری نے میری گردن میں باہیں ڈال کر مجھے اپنی چھاتی سے لگا لیا۔ شکستہ جملوں میں اس نے اتنا ہی کہا، ’’رنج مت کرنا۔ جو ہوا، اچھا ہوا، تم سکھی رہوگے۔ یہی جان کر میں سکھ سے مرتی ہوں۔‘‘ جس وقت ڈاکٹر صاحب لوٹ کر آئے تو زندگی کے ساتھ ساتھ میری پیاری استری کی ساری تکلیفوں کا خاتمہ ہو چکا تھا!

    (۵)

    منورما سے شادی کرکے اور اسے اپنے ساتھ لے کر میں اپنے وطن کو لوٹا۔

    منورما نے اپنے والد کی صلاح سے مجھ سے شادی کی تھی۔ مگر جب کبھی اس سے محبت کی باتیں کرتا اور اس کے دل پر قابو پانے کی کوشش کرتا تو وہ ہنسنے کے بدلے سنجیدہ ہوجاتی۔ میں نہیں جانتا اس کی وجہ کیا تھی۔

    ایک دن سرشام منورما کو ساتھ لے کر میں اپنے باغ کی سیر کرنے گیا۔ جھٹ پٹا ہو چلا تھا۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ کچھ دیر ادھر ادھر پھرنے کے بعد جب منورما تھک گئی تو اسی سنگ مرمرکے چبوترہ پر لیٹ گئی اور دونو بازو سر کے نیچے رکھ لیے۔ میں بھی پاس بیٹھ گیا۔ درختوں کے سایہ میں اس جگہ اور بھی اندھیرا تھا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی، آسمان تاروں سے ڈھکا ہوا تھا۔ اتنے میں ایسا معلوم ہوا گویا جھاڑیوں اور درختوں کی چوٹیوں کو آگ سی لگ گئی ہے۔ اس کے بعد کرشن پکش کا پہلا چاند آہستہ آہستہ درختوں کے اوپر آسمان پر چڑھنے لگا۔ سپید پتھر پر سپید ساری پہن کر لیٹی ہوئی میری استری پر چاند کی سپید روشنی پڑی تو بےاختیار طبیعت پرکیف و و جدان طاری ہوا۔ پاس سرک کر میں نے منورما کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور کہا، ’’منورما تم شاید نہ مانو مگر میں سچ کہتا ہوں کہ تم سے مجھے وہ گہری محبت ہے جسے میں کسی حال میں نہ بھولوں گا۔‘‘

    اتنا کہتے ہی میں چونک گیا۔ یاد آیا کہ ایسے ہی الفاظ ایک اور موقعہ پر کسی اور سے کہے تھے۔ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آسمان پر ایک قہقہہ کی آواز سنائی دی۔ ہوش آنے پر دیکھا تو گھر میں اپنے بستر پر پڑا تھا! تو کیا جو کچھ میں نے دیکھا وہ محض ایک خواب تھا؟

    میری استری نے اس وہم کو دور کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ دور نہ ہوا۔ شام ہوتے ہی ہر طرف ہنسی کی پراسرار آوازیں سنائی دیتیں۔ منورما سے ذکر کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ کچھ دنوں یہی حال رہا تو میں نے برہان نگر والا گھر چھوڑ دیا اور منورما کو ساتھ لے کر کشتی کا سفر کیا۔

    اگہن کا مہینہ تھا۔ ندی کی تازہ ہوا نے عبد شباب کے ولولوں کو تازہ کر دیا۔ وہ فرضی خوف بھی دور ہو گیا۔ کئی دن بڑے سکھ میں گزرے۔ منورما بھی دریا کی خیال انگیز محویت سے متاثر ہوکر زیادہ محبت کرنے لگی۔ گنگا کو چھوڑ کر آخر ہم پد ماندی میں پہنچے۔ دریا کے شمال میں بالو کا وسیع میدان تھا، جہاں ریت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ یہاں خشکی پر پھرنے کی سہولت دیکھ کر میں نے ناؤ باندھ دی اور عارضی قیام کیا۔

    ایک دم ہم پھرتے پھرتے بہت دور نکل گئے۔ غروب آفتاب کی سنہری کرنوں سے ملتی ہوئی چاند کی ہلکی روشنی آہستہ آہستہ پھیلنے لگی۔ تھوڑی دیر میں وہ اس وسیع ریگستان میں اور آسمان پر چاروں طرف پھیل گئی۔ اس وقت کیسا دل کش سماں تھا! ایسا معلوم ہوتا تھا دوراہ روان عشق چاند کی دنیا میں سیر کرنے جا رہے ہیں۔ منورما سرخ شال اوڑھے ہوئے تھی۔ اتنے میں چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ یکایک منورما نے شال سے ہاتھ نکال کر میرا ہاتھ پکڑا اور میرے پاس آکر اس طرح کھڑی ہو گئی گویا اپنا تن من دھن جوبن اور زندگی سب کچھ مجھ پر نثار کرنے کو تیار ہے۔ میری خوشی کا کیا ٹھکانا تھا۔ خیال آیا، ایسی محبت ایسے ہی پرفضا منظر میں ہو سکتی ہے۔

    ایسا معلوم ہوتا تھا نہ کہیں ہمارا گھر ہے، نہ ہمیں کہیں لوٹ کر جانا ہے۔ اسی طرح ہاتھ میں ہاتھ دیے چلتے رہنا ہے۔ ایک جگہ ریت کے گڑھے میں پانی بھرا ہوا تھا۔ اس پانی میں چاند کا عکس ایک عجیب سرور انگیز منظر پیدا کرتا تھا۔ ہم دونوں اس نظارہ کو دیکھنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس وقت اس وسیع ریگستان میں جہاں کسی انسان کا نام و نشان بھی نہ تھا، کسی نے تین بار کہا، یہ کون! یہ کون! یہ کون!

    میں چونک گیا۔ میری استری بھی کانپنے لگی۔ مگر آنکھ اٹھانے پر معلوم ہوا کہ آواز آدمی کی نہ تھی۔ کسی آبی پرندہ کی ہانک تھی۔ جو شاید اس ویرانے میں انسانوں کو دیکھ کر گھبرا گیا تھا۔ مگر ایک بار ڈرنے کے بعد ہمیں آگے جانے کاحوصلہ نہ ہوا۔ ہم ناؤ کی طرف لوٹے۔ منورما تو تھک کر سو گئی مگرمیں جاگتا رہا۔ تھوڑی دیر میں ایسا معلوم ہوا کوئی مسہری کے پاس کھڑا اپنی خشک استخوانی انگلی سے منورما کی طرف اشارہ کرکے آہستہ آہستہ میرے کان میں کہتا ہے، یہ کون! یہ کون! یہ کون!

    میں نے اٹھ کر چراغ جلایا۔ یکایک مسہری ہلی۔ اس کے ساتھ ہی ایک پراسرار قہقہہ کی آواز سنائی دی۔ جو ناؤ کو ہلاتی اور میرے خون کو منجمد کرتی ہوا میں مرتعش ہوکر پدما کو عبور کرکے گاؤں اور قصبوں کے پار کمزور ہوتی ہوئی دور تک چلی گئی۔ آواز بند ہو گئی مگر میرا دماغ اس کی یاد سے آزاد نہ ہوا۔ چاروں طرف سے یہی آواز سنائی دینے لگی، یہ کون! یہ کون! یہ کون! رات کے سناٹے میں ناؤ کی الماری پر رکھی ہوئی بے جان گھڑی بھی کہہ رہی تھی، یہ کون! یہ کون! یہ کون! پانی کی لہروں سے ایک پراسرار آواز سنائی دیتی تھی، یہ کون! یہ کون! یہ کون!

    اتنا کہہ کر دکشنا چرن بابو کا رنگ پیلا پڑ گیا اور حلق خشک ہو گیا۔ میں نے تھوڑا سرد پانی پیش کیا، جس سے ان کی طبیعت سنبھلی۔ اسی وقت چراغ بجھ گیا۔ دیکھا تو سویرا ہو چکا تھا۔ چڑیاں بولنے لگی تھیں۔

    دن کی روشنی میں دکشنا چرن بابو کا انداز بالکل بدل گیا۔ جو قصہ انہوں نے اس ہولناک پیرایہ میں مجھ سے بیان کیا تھا، اس کے لیے خود ہی شرمندہ ہوئے اور کچھ کہے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔

    اس دن آدھی رات کو میرے دروازہ پر پھر ان کی معروف آواز سنائی دی، ڈاکٹر! ڈاکٹر!

    مأخذ:

    انار کلی (Pg. 4)

    • مصنف: رابندرناتھ ٹیگور
      • ناشر: آزاد بک ڈپو، لاہور
      • سن اشاعت: 1945

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے