Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یہ تیرے پراسرار بندے

نورالحسنین

یہ تیرے پراسرار بندے

نورالحسنین

MORE BYنورالحسنین

    اس کے دماغ میں انجیل مقدس کے الفاظ گونج رہے تھے، ‘’بدن میں ایک ہی عضو نہیں، بلکہ بہت سے ہیں، اگر پاؤں کہے چونکہ میں ہاتھ نہیں اس لیے بدن کا نہیں، تو وہ اس سبب سے بدن سے خارج تو نہیں اور گر کان کہے چونکہ میں آنکھ نہیں اس لیے بدن کا نہیں، تو کیا وہ بدن سے خارج ہو گیا؟ نہیں، اگر سارا بدن آنکھ ہی ہوتا تو سننا کہاں سے ہوتا؟ اگر سننا ہی سننا ہوتا تو سونگھنا کہاں ہوتا؟ مگر فی الواقع خدا نے ہر ایک عضو کو بدن میں اپنی مرضی کے موافق رکھا ہے۔ اگر وہ سب ایک ہی عضو ہوتے تو بدن کہاں ہوتا؟ مگر دیکھو، اعضا تو بہت ہیں لیکن بدن ایک ہی ہے۔ پس آنکھ ہاتھ سے نہیں کہہ سکتی کہ میں تیری محتاج نہیں اور نہ سر پاوں سے کہہ سکتا کہ میں تمہارا محتاج، بلکہ بدن کے وہ اعضا جو اوروں سے کمزور ہوتے ہیں، بہت ضروری ہوتے ہیں اور بدن کے وہ اعضا جنھیں ہم اوروں کی نسبت ذلیل جانتے ہیں ان ہی کو زیادہ عزت دیتے ہیں اور ہمارے نازیبا اعضا بہت زیادہ زیبا ہو جاتے ہیں حالانکہ ہمارے زیبا اعضا محتاج نہیں، مگر خدا نے بدن کو اس طرح مرکب کیا ہے کہ جو عضو محتاج ہےاسی کو زیادہ عزت دی جائے، تاکہ بدن میں تفرقہ نہ پڑ ے، بلکہ اعضا ایک دوسرے کی برابر فکر رکھیں۔’‘

    اس نے ایک بار اپنے آپ کا جائزہ لیا، آسمان کی طرف دیکھا، یہ دنیا نہ صرف بچوں سے ہے، نہ صرف نوجوانوں سے، نہ صرف بوڑھوں سے، یہ سب بھی ایک طرح کا جسم ہیں۔ پھر بڑھاپا نازیبا کیوں؟

    وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا۔ چاروں طرف ملگجی اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ اس نے نظریں سامنے کیں ،اس کی طرح بہت سارے افراد بھی مارننگ واک کے لیے نکلے ہوئے تھے۔ کوئی سست قدم تھا۔ کوئی تیز تیز چل رہا تھا۔ کچھ عمر رسیدہ لوگ تھے۔ جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں اور وہ کچوے کی چال سے مارننگ واک کا لطف اٹھا رہے تھے۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ ایک مہینہ پہلے ہی کلکٹر کے باوقار عہدے سے سبکدوش ہوا تھا اور اس کے دماغ میںاس کی ملازمت کا پہلا دن تھا جب وہ اپنے آفیس کو جانے سے پہلے چرچ گیا تھا اور انجیل مقدس پر ہاتھ رکھے فادر کہے رہے تھے، ‘’تم زمین کا نمک ہو، لیکن اگر نمک کا مزہ جاتا رہا تو وہ کس چیز سے نمکین کیا جائےگا؟ پھر وہ کسی کام کا نہیں، سوائے اس کے کہاسے باہر پھینکا جائے اور آدمیوں کے پاؤں کے نیچے روندا جائے۔ تم دنیا کا نور ہو، جو شہر پہاڑ پر بسا ہو وہ چھپ نہیں سکتا اور چراغ جلاکر پیمانے کے نیچے نہیں بلکہ چراغ دان کے اوپر رکھتے ہیں تاکہ اس سے گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچے۔ اسی طرح تمہاری روشنی سب کے سامنے روشن ہو، تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمانوں پر ہے تمجید کریں۔’‘

    یہی وہ عہد نامہ تھا، جس پراس نے ملازمت کے پہلے ہی دن سے عمل کرنا شروع کر دیا تھا۔ ساری زندگی اسے ہی حکم کی طرح بجا لایا۔ نہ کبھی اپنے قلم سے کسی کو نقصان پہنچایا، نہ کبھی رشوت لی، نہ زبان سے کبھی کوئی ایسا لفظ نکالا جس سے کسی کی دل آزاری ہو، لیکن ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے ایک ہی مہینے کے اندر۔۔۔

    طنزیہ ہنسی اس کے چہرے پر پھیل گئی ،اس کا بیٹا اسے مشورہ دے رہا تھا، ‘’ڈیڈ اب آپ کو بھی مارننگ واک کرنا مانگتا!’‘

    اس نے سوالیہ نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا، تو کیا ہم ریٹائرڈ ہوتے ہی بوڑھا ہو گیا؟ لیکن آواز اس کے حلق سے نکلی ہی نہیں۔

    ‘’آپ واکننگ کرےگا تو آپ کا ہیلتھ بھی اچھا رہےگا۔’‘

    ‘’ہوں!’‘اس نے ہنکاری بھری اور بیٹے کی طرف دیکھا، جو اپنی ٹائی کی ناٹ کو درست کر رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ ریٹائرڈ ہوتے ہی ہمارا ہیلتھ بھی ڈاؤن ہو گیا؟

    ‘’ڈیوڈ ۔۔!’‘اس نے بیٹے کو آواز دی۔ جو بیگا ٹھاکر اپنے آفیس کے لیے نکل رہا تھا۔

    ‘’ڈیڈ۔۔۔ شام کو بات کرےگا۔ یو نو۔ ابھی ہم کتنا لیٹ ہوگیا ہے۔’‘ اور پھر وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ وہ بھی اپنی جگہ سےاٹھا اور دروازے پر آکر کھڑا ہو گیا۔ ڈیوڈ نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی جانب دیکھا، ہاتھ ہلایا اور پھر زن سے اس کی کار گیٹ سے باہر نکل گئی۔

    اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ مارننگ واک کرنے والوں کا ایک ریلا تیزی سے چلتا ہوااس سے آگے نکل گیا۔

    ‘’ہیلو مسٹر جان۔!’‘

    اس نے پلٹ کر دیکھا، ‘’ہیلو مسٹر پرشوتم! ہاؤ ڈو یو ڈو؟’‘

    ‘’فائن سر!’‘ پرشوتم کے چہرے پر بڑی تازگی تھی۔

    ‘’مسٹر پرشوتم ۔۔۔!’‘ اس نےاسے نیچے سے اوپر تک دیکھا، ‘’تم بھی مارننگ واک کے لیے نکلا ہے؟’‘

    ‘’نو سر!’‘ اس کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ تھی، ‘’مجھے کیا ضرورت؟ نو بی پی، نو شوگر ۔۔ آئی یم کوئیٹ ویل سر!‘‘

    جان کا سر جھک گیا۔ بی پی تو ہم کو بھی نہیں ہوا، شوگر بھی نہیں، پھر ڈیوڈ ہم کو مارننگ واک کا کیوں بولا؟ وہ سوچنے لگا۔

    ‘’کیا سوچ رہے ہو سر؟’‘

    ‘’اوہ ۔۔ نو ۔۔ کچھ بھی نہیں۔’‘

    جان نے قدم آگے بڑھایا، لیکن اس کا دماغ ابھی تک اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ پرشوتم کا عمر ہم سے صرف چھ مہینے ہی کم ہے۔ چھ مہینے بعد یہ بھی ریٹائرڈ ہو جائےگا۔ پوز کرتا ہے سالا، جیسے چھ برس چھوٹا ہے۔

    ‘’سر برا نہیں ماننا، مگر آپ کے بھلے کے لیے کہتا ہوں۔’‘

    جان نےاس کی طرف دیکھا۔

    ‘’آپ کو غصہ بہت جلد آتا ہے، مگر اب کنٹرول کرنا چاہیے ورنہ نقصان آپ ہی اٹھائیں گے۔’‘

    ‘’اوکے۔ اوکے۔۔۔!’‘اس نے لاپرواہی سے جواب دیا اور تیزی سے آگے نکل گیا۔ اس کے دماغ میں اب بھی وہی جملے گونج رہے تھے۔ وہ پھر سوچنے لگا، یہ لوگ ایسا کیوں سوچتا ہے کہ آدمی ریٹائرڈ ہوتے ہی بیمار ہو جاتا ہے؟ کمزور ہو جاتا ہے؟ اس کو مارننگ واک کرنا چاہیے؟ ہم تو ابھی پوری طرح فٹ ہے۔ سب کے برابر شام کو دو پیگ شراب بھی پیتا ہے۔ اس کی نظریں سڑک پر پھینکے ہوئے کوک کے خالی ٹین پر پڑی اور اس نے حقارت سے پوری قوت کے ساتھاسے لات ماری، لیکن عجلت میں پیر لچک گیا اور پیر کی انگلیاں جھنجھنا اٹھیں۔ وہ سڑک کے کنارے لگے میل اسٹون پر بیٹھ گیا اور تکلیف سے کراہنے لگا۔ سورج نکل چکا تھا۔ روپہری سنہری کرنیں زمین پر پھیل رہی تھیں۔ جب ذرا تکلیف کم ہوئی تواس نے جھک کر دیکھا، اسٹون پر لکھا تھا، حیات پور ساٹھ میل۔۔۔ اسے ہنسی آ گئی، وہ بیٹھا بھی تو اس اسٹون پر جو حیات کے ساٹھ برسوں ہی کا حوالہ دے رہا تھا۔ اس نے پھر ایک بار نظریں سامنے کیں، مارننگ واک کے متوالے خوف کی چادر اوڑھے آگے پیچھے قدم اٹھا رہے تھے۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور انجیل مقدس کے صفحات کھل گئے۔

    ‘’اور یسوع مسیح کو پکڑھنے والے انھیں کائفا نامی کاہن سردار کے پاس لے گئے۔ جہاں فقیہ اور بزرگ جمع تھے اور کاہن سردار اور صدر عدالت یسوع مسیح کو ختم کرنے کے لیےان کے خلاف جھوٹی گواہیاں تراشرہے تھے۔’‘

    وہ نڈھال قدموں سے گھر پہنچا۔

    اباس کا روز کا یہی معمول بن گیا تھا۔ برسر روزگار احباب کے گھر اس نے آنا جانا چھوڑ دیا تھا حالانکہ ان میں سے کئی ایک ایسے تھے جو اس کی وجہ سے ابھی تک اسی شہر میں ٹکے ہوئے تھے۔ کئی لوگوں کے نجی معاملات اس نے ہی سلجھائے تھے۔ روپیوں پیسوں سے کتنے ہی لوگوں کی مدد کی تھی، اپنے سرکاری اثر و رسوخ کی وجہ سےاس نے ہمیشہ ہی دوسروں کی بھلائی کا کام کیا تھا۔ لیکن اب وہ سب کے لیے غیر ضروری ہو گیا تھا۔ وہ بھی گھر کے باہر نہیں نکلتا تھا کیونکہ اباس کا گرم جوشی سے استقبال کوئی بھی نہیں کرتا تھا۔ جو بھی سامنے آتا، دعا سلام کے بعد یہی ایک سوال کرتا ،طبیعت کیسی ہے؟ حالانکہ ریٹائرڈمنٹ کے بعد شاید ہیاس نے بستر پکڑا ہو، یا پھر بنا مانگے مشورے شروع ہو جاتے، کھانے پینے کی ہدائتیں، یوگا کی تلقین، گھرہی میں آرام کرنے کی باتیں، ٹریفک کی بد انتظامیوں کے گلے شکوے، جبکہ اسی سڑک پر یہ سب بھی تو چلتے پھرتے ہیں۔ بیٹا کار کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا، ڈرتا ہے کہ کہیں اس کا ایکسیڈنٹ نہ ہو جائے، جبکہ برسوں سے وہ خود ہی کار ڈرائیو کرتا آیا ہے۔ ریٹائرڈمنٹ کے آخری دن بھی وہ اپنے آفیس سے گھر تک خود ہی کار ڈرائیو کرتا ہوا آیا تھا۔ لیکن اس کے ریٹائر منٹ کے کچھ دنوں کے بعد ہی یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ اب وہ کار کو ہاتھ نہ لگائے کیونکہ اس عمر میں بریک اور ایکسیلٹر میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔

    ‘’ڈیڈ ۔۔ ہم کھانا لگا دیا ہے۔ تم بھی ہمارے ساتھ ہی کھائےگا؟’‘

    بہو کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس نے اخبار کو تپائی پر رکھا اور اٹھتا ہوا بولا، ‘’اوہ۔۔۔ یس۔۔۔ چلو، کیا بنایا ہے؟’‘

    ‘’بنایا تو بہت کچھ ہے۔ بٹ ڈیڈ یو نو، وہ ڈیوڈ بولا آپ کے کولسٹرال کو بڑھنا نہیں مانگتا، اس لیے ہم آپ کے لیے۔۔۔‘‘

    ‘’اوکے۔ اوکے۔!’‘ اس نے جملہ پورا ہونے نہیں دیا۔

    ‘’ڈیوڈ بولتا تھا، کولسٹرال ہائی ہوجائے تو ہارٹ اٹیک آتا ہے اور ڈیڈ یو نو۔۔۔ ادھر سے اسپتال بھی کتنی دور ہے!’‘

    ‘’یو اینڈ یور ہسبنڈ آر جینیس ( You and your husband are genius )’‘ اس نے تعریفی طنزیہ انداز میں آنکھیں مٹکائیں، ‘’ہم کو اٹیک آیا تو ہم مر ہی تو جائےگا؟’‘ وہ اس کے پیچھے پیچھے قدم اٹھانے لگا، ‘’اسی لیے تو روزی تمہارا ہسبنڈ اور ہمارا اکلوتا بیٹا ہمارے اکاؤنٹ سے سارا روپیہ نکال لیا ہے کہ بعد میں کون جھنجھٹ اٹھائےگا؟’‘

    روزی کے چہرے پر کھسیانی ہنسی تھی لیکن اس کے گلے کا سونے کا لاکٹ اصلی چمک دکھا رہا تھا۔

    وہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گیا اور بدمزہ کھانوں کے نوالے توڑنے لگا اوراس کے نتھنوں میں مرغن کھانوں کی سوندھی سوندھی خوشبو مہک رہی تھی۔اس نے نظریں اٹھائیں، کھڑکی کے باہر دیکھا، تیز دھوپ میں ہر چیز چمک رہی تھی۔ اشوک کے اونچے اونچے درختوں اور چنبیلی کے منڈوے سے بلند ہوتے ہوئے آنکھوں کے دائرے وسیع ہوتے جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ناریل کے درختوں کے جھنڈ سے پرے فٹ بال گراؤنڈ آ گیا اور گراؤنڈ کی دوسری جانب جھیل تھی۔ جھیل میں لہریں اٹھ رہی تھیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈبکیاں لگا رہے تھے۔ آسمان میں پرندے اڑ رہے تھے اور گیند اس کے پیروں میں ایسی تھی جیسے مقناطیس سے لوہا چپک جاتا ہے۔ وہ بہت تیزی سے مخالف ٹیم کے گول پول کی طرف بڑھ رہا تھا۔ پہلے جوزف نے اس کے پیروں سے گیند لینا چاہا اور ڈاچ کھاکر پیچھے رہ گیا۔ پھر وکرم پوری طاقت کے ساتھ اس کے مقابل آیا لیکن گیند کو اس کے پیروں سے جدا نہ کر سکا، ایک جھکائی کے ساتھ ہی وہ چھوٹی ڈی میں داخل ہو گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے گول کیپر مستعید تھا۔ بس ایک کک اور ٹیم کی فتح تھی، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کک لگاتا اور گیند گول کیپر کو ڈاچ دیتے ہوئے گول پول میں داخل ہوتی، ایک زنانی چیخا بھری۔۔۔ شبیر۔۔۔!

    اور پھر شبیر میریاٹھی ہوئی کک کو نیچے آنے سے پہلے ہی گیند کو لے اڑا اور وہ پھر ایک بار سینٹر پر ٹپ کھاتے ہوئے اس کے گول پول کی طرف چلی جا رہی تھی۔ اس نے رک کر مخالف ٹیم کے گول پول کی طرف دیکھا۔ بہت سارے لوگوں کے درمیان ایک لڑکی کھڑی تھی۔ سفید لباس میں وہ فرشتوں کی طرح نظر آ رہی تھی۔ اس کے سنہرے بال ہوا میں اڑ رہے تھے اور وہ اب بھی شبیر کے لیے تالیاں بجا رہی تھی۔

    اس کی ٹیم ہار گئی تھی۔ شبیر اس کا بھی دوست تھا۔ بچپن کا دوست۔ میچ کے بعد جباس نے اس لڑکی کی طرف اشارہ کیا تو شبیر نے زور سے قہقہہ لگاتے ہوئےاسے بتایا کہ وہ پچھلے دو برس سے اس کی پڑوسن ہے۔ بہت اچھی لڑکی ہے۔ اس کی بےتکلف دوست ہے۔ پھر اس نے اچانک اس کی طرف غور سے دیکھا تھا، ’’جان تو بھی تو کرسچین ہے۔ چل میں تیرے کو اس سے انٹرڈیوس کراتا ہوں۔ پنکی لنڈا سے وہ اس کی پہلی ملاقات تھی۔ میچ ہارکر بھی اس نے زندگی کا سب سے بڑا انعام جیت لیا تھا۔ زندگی کے چالیس برس دونوں نے میاں بیوی بن کر گزارے۔ اس نے زندگی میں اس کے ہاتھوں کبھی بد مزہ کھانا نہیں کھایا تھا۔ بات بات پر ہنسنے مسکرانے والی پنکی لنڈا، ہر مشکل گھڑی میں ڈھال بن کر ڈٹ جانے والی پنکی لنڈا، اپنے سکھ تیاگ کر اس کے دکھ درد بانٹنے والی پنکی لنڈا ہنستے ہنستے ہی اس کی زندگی سے اچانک چلی گئی۔ تابوت میں لٹاتے ہوئے بھی اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ سچ مچ ہمیشہ کے لئے چلی گئی۔ اس کے بعد اس نے کسی دوسری عورت کا چہرہ نہیں دیکھا۔ اپنی ساری زندگی اپنے دونوں بچوں کے لئے وقف کر دی۔ پہلے روزی کی شادی کی اور بعد میں بیٹے کی بھی شادی کر دی۔‘‘

    ’’ڈیڈ آپ کیا سوچتا ہے؟ پلیز کھانا ٹھنڈا ہوتا ہے!‘‘

    ’’اوہ سوری!’‘اور وہ پھر چکھتے مکھتے نوالے حلق سے نیچے اتارنے لگا۔

    روز و شب اسی طرح گزر رہے تھے۔ بیماریوں کی صفائی دیتے دیتے اب اسے بھی احساس ہونے لگا تھا کہ واقعی وہ کمزور ہو گیا ہے۔ مشوروں نے اسے بہت حد تک اپنا اسیر بنا لیا تھا۔ اس میں تبدیلیاں آنا شروع ہو گئی تھی۔ اب جب بھی وہ مارننگ واک کے لیے نکلتا۔ اس کے جسم پر اوورکوٹ، سر پر ہیٹ اور گلے میں مفلر پھنسا ہوا ہوتا، اس کے مزاج میں عجیب سی سنجیدگی آ گئی تھی۔ اس نے لوگوں سے ملنا جلنا تو ترک کر ہی دیا تھااب گھر کے لوگوں سے بھی بات چیت بہت کم کرتا تھا۔ مارننگ واک کے بعد یا تو وہ گھر مین اخبار پڑھتا رہتا، یا پھر بستر پر لیٹا رہتا اور اپنی ہی سوچوں میں گم رہتا۔ عجیب عجیب بیماریوں کی علامتیں اسے اپنے اندر بھی دکھائی دینے لگی تھیں اور اکثر گھبراہٹ کے مارے اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھیں۔

    ’’ڈیڈ۔۔۔ تم کو اب پابندی سے چرچ بھی جانا منگتا!‘‘ اس کا بیٹا پھر ایک بار اس کے مقابل بیٹھا تھا۔

    ’’چرچ۔۔۔ وہ تو ہم پہلے روز جاتا تھا۔‘‘

    ’’ڈیڈاب آپ کو روز جانا منگتا۔‘‘

    ’’او کے کل سے ضرور جائےگا۔‘‘اس کی آواز بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔

    ’’گڈ ڈیڈ۔۔۔! موت تو سب کو آئیگا بٹ جب آپ یسوع مسیح سے ملےگا تو وہ آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوگا۔‘‘

    اسے اچانک محسوس ہوا جیسے موت کا فرشتہ دروازے پر کھڑا ہے۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

    ‘’اور جب یہ فانی جسم بقاء کا جامہ پہن چکےگا، تو وہ قول پورا ہو جائےگا، جو لکھا ہے کہ موت فتح کا نغمہ ہوگی، مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے یسوع مسیح کے وسیلے سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔ بس ائے میرے عزیز بھائیوں ثابت قدم رہو اور خدا وند کے احکام بجا لاؤ، یقین جانو تمہاری محنت خداوند کے حضور بےاجر نہیں ہے۔’‘

    دوسرے ہی دن وہ چرچ کی طرف جا رہا تھا۔ چرچ تک پہنچنے کے لیےاسے مین سڑک کو چھوڑ کر اس پگڈنڈی پر بھی چلنا تھا جو چھوٹی سی پہاڑی پر واقع چرچ تک پہنچاتی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا۔ پہاڑی پر چرچ کی عظیم الشان عمارت کھڑی تھی۔ چاروں کونوں پر بڑے بڑے برج بنے ہوئے تھے۔ ان پر مثلث نما گنبد تھے اور گنبدوں کے اوپر صلیبیں استادہ تھیں۔ چرچ کا عالی شان بلند دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لوگ عقیدتوں میں ڈوبے ہوئے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔

    آج کچھ بھیڑ زیادہ ہی تھی۔ اس نے دل میں سوچا اور جلدی جلدی قدم اٹھانے لگا۔ پہاڑی کی بلندی پر پہنچ کر اس نے نیچے کی طرف دیکھا، ڈھلان پر غریبوں کی بے شمار جھونپڑیاں تھیں اور ان کے ننگ دھڑنگ بچے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ اس نے جھونپڑیوں سے نظریں اٹھاکر چرچ کی عالیشان عمارت کی طرف دیکھا۔ چرچ کے بلند دروازے پر ایک خوبصورت حلقہ بنا ہوا تھا اور اس میں ماں مریم کی نہایت خوبصورت سنگ مرمر کی مورتی تھی۔ بے اختیار وہ دل ہی دل میں بدبدایا، مدر یہ غریب لوگ ہی اب تک تیرے سے جڑا ہوا ہے۔ جیسے مسیح کے ٹائم پر بھی وہ مسیح کے ساتھ تھا۔ تمان کے واسطے کچھ کیوں نہیں کرتا؟۔۔۔ وہ بلندی سے غربت کا نظارہ کرنے لگا۔۔۔ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔ ہم سمجھ گیا مدر، کیونکہ اگر یہ خوش حال ہو گیا تو یہ جگہ چھوڑ دےگا اور بلڈنگوں میں آباد ہو جائےگا۔ تم اکیلا رہ جائےگا۔ بٹ مدر ہم تم کو یقین دلاتا ہے، یہ انڈیا ہے۔ یہ جب تک دُنیا کے میپ (Map) پر رہےگا ادھر سے غریبی نہیں جائےگا۔ تمہارا پڑوسی ہمیشہ باقی رہےگا۔

    وہ چرچ میں داخل ہوا۔ اندر کی جگمگاہٹ دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ چھت پر لٹکے ہوئے بڑے بڑے فانوس روشن تھے۔ روشنی سے ہر چیز جگمگا رہی تھی۔ عالیشان فرنیچر تھا۔ معبد مقدس کے چبوترے پر بےشمار موم بتیاں روشن تھیں۔ اس پر ایک چھوٹی سی سنگی تپائی تھی اور اس پر انجیل مقدس رکھی ہوئی تھی۔ لوگ دو رویہ بینچوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور رئیس شہر کا انتظار کر رہے تھے۔ جو حال ہی میں منتخب ہوا تھا۔ وہ بھی ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ سامنے کی دیوار پر یسوع مسیح کا نہایت خوبصورت پورٹریٹ بنا ہوا تھا۔ وہ اب بھی صلیب پر موجود تھے۔ چرچ میں کا رندے، نن اورپادریوں کا نصاب مکمل کرنے والے طلباء حمد و ثنامیں مشغول تھے اور گھنٹیوں کی آوازوں سے ساری فضا گونج رہی تھی۔ پورے ماحول پر تقدس کی فضا چھائی ہوئی تھی۔ اچانک پچھلے راستے سے رئیس شہر، پادریوں کے جھرمٹ میں چرچ میں داخل ہوا۔ سب لوگ اس کے استقبال کے لیےاٹھ کھڑے ہو گئے۔ حمد کی لئے تیز ہو گئی۔ گھنٹیوں کے بجنے کی رفتار میں اضافہ ہو گیا۔

    بڑے پادری نے اسے معبدِ مقدس کے چبوترے کے قریب لے کر گیا۔ چرچ کے اصولوں کے مطابق اسے لباس فاخرہ عطا کیا گیا۔ روشنی پوری شدت کے ساتھ رئیس شہر کے چہرے پر پڑ رہی تھی اور جان حیران نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ پادری نےاس کے ہاتھوں میں عصائے کلیسا تھما دیا تھا۔ وہ سب معبد مقدس کے چبوترے کے اطراف چکر لگانے لگے۔ ان کے پیچھے پیچھے بہت سارے پادری تھے۔ جن کے ہاتھوں میں شمع دان تھے۔ ان میں سے بعض نے جلتے ہوئے لوبان کے تھال بھی اٹھا رکھے تھے۔

    جان پھٹی پھٹی آنکھوں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ یہ پیٹر بلیک مارکیٹر رئیسِ شہر کیسے بن گیا؟ مدر مریم تم دیکھ رہا ہے۔ پادری معبد خاص کے چبوترے سے لگ کر حمد و ثنا میں مصروف تھا اور جان کے دل و دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے۔ اے مقدس مسیح تم ادھر فانوسوں کی جھوٹی روشنیوں میں جگمگاتا ہے۔ چوتھے آسمان سے زمین کو نہیں دیکھتا، دیکھ تیرے چاہنے والے آج بھی جھونپڑیوں ہی میں بستا ہے۔ ائے عظیم الشان چرواہے تیری اس بھیڑ کو ان بلیک مارکٹیوں نے پھاڑ ڈالا ہے۔ تم ابھی آنے میں اور کتنا ٹائم لےگا۔۔۔ ہمیشہ زندہ رہنے والے مقدس باپ کے مقدس بیٹے تم کو جلدی ایک بار پھر زمین پر آنا مانگتا۔۔۔

    دکھ اور غصے سےاس کا سر پھٹا جا رہا تھا۔ وہ خاموشی سے چرچ سے باہر نکل گیا اور بنا سوچے سمجھےاس کے قدم اٹھ رہے تھے۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ غصے کے باعث اس کی دھڑکن تیز ہو گئی ہے۔ اس کے پیر کپکپانے لگے ہیں، ‘’مسیح ہم ساری زندگی تیرے عہد نامہ سے بندھا رہا، تیرے بتائے ہوئے راستوں پر چلتا رہا، تم ہم کو کیا دیا؟ ایک کمزور بدن اور جیتے جی وہ غذا جس میں کوئی لذت نہیں؟ تمان کو وہ سب کچھ دیا جو تمہارے راستے پر کبھی چلا ہی نہیں، رشوت خور، بلیک مارکیٹر، کالا روپیہ جمع کرنے والا معبدِ خاص تک پہنچ گیا اور ہم۔۔۔ ہم چرچ سے باہر۔۔۔؟

    وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا۔ دھوپ میں تیزی آنا شروع ہو گئی تھی۔ سڑکوں پر ٹریفک بڑھ گئی تھی۔ چاروں طرف ایک شور تھا۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب جھیل کے قریب پہنچ گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تاافق جھیل کا پانی پھیلا ہوا تھا۔ آسمان میں پرندے اڑ رہے تھے۔ وہ جھیل کے کنارے بنی ہوئی سنگی بینچوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا اور جھیل کے اس حصّے کی طرف دیکھنے لگا جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تیر رہے تھے۔ ایک دوسرے کو چھیڑ رہے تھے۔ ایک دوسرے پر پانی اچھال رہے تھے۔ ادھر ادھر اور بھی لوگ تھے جو سنگی بینچوں پر بیٹھے جھیل کا نظارہ کر رہے تھے۔ ناریل کے درختوں کے جھنڈ سے پرے وہی فٹبال کا میدان تھا اور غالباً اب بھی وہاں کوئی میچ کھیلا جا رہا تھا۔ وقفے وقفے سے سیٹیاں گونج رہی تھیں۔ اس نے دور سے ایک طائرانہ نظر گراونڈ پر ڈالی اور پھر سوچوں میں گم ہو گیا۔ اس کا دل اب بھی عجیب عجیب وسوسوں سے گھرا ہواتھا۔ پتہ نہیں وہ کب تلک سوچتا رہا۔ اس نے اپنی آنکھیں بھی موند لیں تھیں۔ شاید وہ اپنی ہی سوچوں سے نبرد آزما تھا کہ ٹھیک اسی وقت کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور پلٹ کر دیکھا۔ نیلی جینس پینٹ اور پیلی جرسی میں ملبوس کوئی جانی پہچانی صورت دکھائی دے رہی تھی۔

    ’’جان۔۔۔ مجھے نہیں پہچانا۔۔۔؟ یار۔۔۔ میں شبیر ہوں۔ تمہارے بچپن کا دوست!‘‘

    ’’شبیر۔۔۔‘‘ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور اس کے گلے لگ گیا، ’’کدھر تھا تم مین اتنے دنوں سے؟‘‘

    ’’گوا میں۔۔۔ وہاں میرا فشیری (Fishery) کا بزنس ہے۔‘‘ وہ اسے لے کر دوبارہ بینچ پر بیٹھتا ہوا بولا ’’اور تم۔۔۔ یہ کیا سونگ اٹھایا ہے بوڑھے کی مانند، یہ اوورکوٹ، گلے میں بیماروں کی طرح مفلر، آنکھوں میں اس قدراداسیاں۔۔۔ میرے یار کیا ہو گیا ہے تم کو۔۔۔؟‘‘

    ’’کچھ نہیں یار۔۔۔ ابھی ہم ادھر اپنی ڈیوٹی سے ریٹائرڈ ہو گیا ہے۔‘‘ جان کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ تھی۔

    اس نے اس کی مایوسیوں کو پڑھ لیا تھا۔ اسے جان پر ترس آنے لگا، ’’جان۔۔۔! تم صرف ڈیوٹی سے ریٹائرڈ ہوئے ہو، زندگی سے نہیں۔‘‘ اس نے اپنی چھاتی کو پھلایا، ’’مجھے دیکھ عمر تو میری بھی بڑھی ہے۔لیکن میں بوڑھا نہیں ہوا۔ وہ۔۔۔ وہادھر اپنا فٹبال کا گراؤنڈ تھانا۔۔۔ ارے اب بھی ہے، میں وہیں پر تھا۔ لڑکے میچ کھیل رہے تھے اور میرا دل بار بار اچھل رہا تھا کہ میں بھی کھیل میں شامل ہو جاؤں۔۔۔‘‘ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور جان کے مقابل کھڑا ہوتے ہوئے گویا ہوا، ’’تم کو یاد ہے نا۔ ہم دونوں اسی گراؤنڈ پر تو کھیلا کرتے تھے۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔‘‘ جان کے لبوں سے آہستہ سے نکلا۔

    ’’اور جان! کھیل کے بعد یہی جھیل تھی جس میں ہم دونوں گھنٹوں تیرا کرتے تھے؟ یاد کرو۔‘‘

    جان کی آنکھوں میں لمحہ بھر کے لئے چمک پیدا ہوئی۔ ’’شبیر تم سالا بالکل بوڑھا نہیں ہوا۔‘‘

    ’’ہوتا بھی کیسے۔۔۔؟‘‘ شبیر نے قہقہہ لگایا، ’’میں تمہاری طرح گورنمنٹ جاب میں تھوڑا ہی تھا جو ریٹائرڈ ہو کر بوڑھا ہو جاتا؟ دیکھ۔۔۔اب بھی فٹ ہوں!‘‘ اس نے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بنائیں اور ہاتھوں کو ہوا میں لہرایا، ’’مگر تم گورنمنٹ کے غلام ریٹائرڈ ہوتے ہی اپنے آپ کو خود ہی بوڑھا بنا لیتے ہو، یار جیو جی بھر کر جیو! زندگی ایک ہی بار ملتی ہے۔۔۔ ‘‘وہ پھر بینچ پر بیٹھ گیا، ’’چل جان میرے کو بتا تیرے کو بلڈ پریشر ہے؟‘‘

    ’’نہیں تو۔۔۔!‘‘ جان نے فوراً جواب دیا۔

    ’’میرے کو بھی نہیں ہے اور شوگر۔۔۔؟‘‘

    ’’وہ بھی نہیں ہوا ابھی تک!‘‘

    ’’گڈ۔۔۔! لیکن تم پھر بھی احتیاط کا کھانا کھاتے ہونگے۔ لوگوں کے ڈراؤنے مشوروں کو سچ سمجھتے ہوں گے۔۔۔ جان! اس بکواس سے باہر نکلو، یہ کیا بیماروں کی طرح بیٹھے ہو، چلو آج ہم دونوں پھر ایک بار اس جھیل میں نہاتے ہیں اور دیکھتے ہیں اس ٹارگیٹ تک پہلے کون پہنچتا ہے؟‘‘

    جان نے حیرت سے کبھی شبیر کی طرف اور کبھی جھیل کی طرف دیکھا۔ پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھل اٹھی۔ اس نے گلے سے مفلر کو نکال پھینکا اور اوورکوٹ کو اتارتے ہوئے شبیر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا، ’’ہو جائے۔۔۔ ابھی دیکھیں گا، کس میں ہے کتنا دم!‘‘

    شبیر کا قہقہہ جھیل کی لہروں پر اچھلتا ہو افٹ بال کے گراؤنڈ سے ہوتا ہوا آسمانوں میں گونجنے لگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے