Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زمین کی نشانیاں

آصف فرخی

زمین کی نشانیاں

آصف فرخی

MORE BYآصف فرخی

    کہانی کی کہانی

    اس کہانی میں تہذیب کے زوال کا نوحہ ہے۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب اخلاق و اقدار کی نشانیاں باقی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کی ترجیحات اور مزاج کا خیال رکھتے تھے۔ کہانی میں مذکور خاندان کے ایک مردہ شخص کی پسند و ناپسند کا خیال اہل خانہ اس طرح رکھتے ہیں جیسے وہ کہیں آس پاس ہے اور جلد ہی لوٹ آئے گا۔ کہانی میں بلی، سینبھل، درخت، مکانات اور اسی طرح کی کئی نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

    گھر کے راستے پر جاتے جاتے میں ٹھٹھکا تھا۔ وہ راستہ اتنا مانوس ہو چکا تھا کہ قدم خود بخود اٹھ جاتے تھے۔ لیکن آج کوئی چیز بدلی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ ’’ادھر رکوانا۔‘‘ میں نے ویگن کے کنڈیکٹر سے کہا تھا، اسی طرح جیسے پچھلے کئی سال سے کہتا چلا آیا تھا۔ ایک خاص نشانی کے بعد اپنی سیٹ چھوڑ دینا، دروازے پر آجانا، ویگن رکوانا، اترنا اور اسی طرف چل دینا، یہ سب کچھ ایک طے شدہ رسم بن چکا تھا جو پوری طرح سے میری شمولیت کے بغیر بھی انجام پاتی رہتی تھی۔

    اتر کر میں اس طرف جانے لگا مگر ایک خلش سی ہو رہی تھی کہ یوں نہیں ہے، کسی اور طرح ہونا چاہیے جو نہیں ہو رہا ہے۔ جب تک مجھے پتہ نہیں چلےگا کہ غلطی کیا ہے، میں صحیح کیسے کروں گا، میں پریشان ہونے لگا۔ وہاں سے گھر نظر آرہا تھا، دوپہر کے سناٹے میں کھویا ہوا، گیٹ کے سامنے لگے ہوئے گل مہر میں دھوپ اور سائے لپٹے ہوئے تھے۔ گیٹ کے سامنے میرا کمرہ تھا۔ مگر اب وہ میرا نہیں تھا۔ تب مجھے یاد آیا آج مجھے ان نشانیوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ہم یہ جگہ چھوڑ چکے تھے۔ اب ہم دوسرے مکان میں رہتے ہیں۔

    وہ ان مکانوں میں سے کوئی سا بھی ہو سکتا تھا۔ سب ایک جیسے تھے۔ گلی میں داخل ہوتے ہی بلی کی آواز آئی۔ وہ ابھی تک گئی نہیں، میں نے سوچا۔ یہ درخت اور دیواریں میرے لیے نئے ہیں۔ یہ ہمیشہ سے اس منظر کی خاموشی کا حصہ تھے۔ میرا وجود ان کے لیے نیا اور اجنبی تھا۔ برگد کی پھیلی ہوئی جڑوں کی وجہ سے سڑک کا اتنا حصہ اوپر اٹھ آیا تھا۔ اس پر سے میرا پیر کئی دفعہ مڑ چکا تھا۔ ابھی اس کی عادت نہیں پڑی تھی۔ سینبھل کا پیڑ مکان کی چھت سے اونچا اٹھا ہوا نظر آرہا تھا۔

    کسی اجنبی جگہ پر مجھے نیند نہیں آتی۔ میں ریل میں یا سفر کے دوران نہیں سو سکتا۔ نیند اس وقت آتی ہے جب چاروں طرف مانوس در و دیوار ہوں۔ میں دوراتوں سے جاگ رہا تھا۔ آنکھ لگنے بھی نہ پاتی کہ نیند اچٹ جاتی۔ میں کہاں ہوں؟ یہ کون سی جگہ ہے؟ اور رات بھر وہ بلی نحوست زدہ آواز میں روتی رہی۔ یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ لان کے کس حصے میں رو رہی ہے۔ ورنہ کوئی نہ کوئی اسے مار کر بھگا دیتا۔ اصل میں اس مکان کے سایوں اور سرگوشیوں سے میری دوستی نہیں ہوئی تھی۔

    ہم نے اس بلی کو نہیں پالا تھا۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ وہ ہمیں اپنا چکی ہے۔ شاید ہم اس کے پالتو انسان بن چکے تھے۔ ہم نے اسے آتے ہوئے بھی نہیں دیکھا تھا۔ پہلے ہی دن جب مکان خالی پڑا تھا اور ہم یہ سوچ رہے تھے کہ ان کمروں میں سامان کس ترتیب سے جمائیں گے اور یہاں ہماری زندگی کیسی ہوگی، اس وقت وہ ایک ایک کمرے میں بھٹکتی، میاؤں میاؤں کرتی پھر رہی تھی۔ وہ کوئی ایسی چیز ڈھونڈ رہی تھی جو وہاں نہیں تھی۔ سامان اٹھا کر اندر لانے والوں کے پیروں میں کئی دفعہ آئی اور الجھی۔ سارا سامان لان میں رکھا ہوا تھا، بےترتیب ڈھیر جس میں اشیاء اپنی افادیت اور ہیئت سے الگ ہو کر گڈمڈ ہو گئی تھیں۔ وہ ان صوفوں پر بیٹھ گئی جو کسی تباہ شدہ شہر کا ملبہ معلوم ہو رہے تھے یا کسی اور زمانے سے بھٹکی ہوئی مخلوق۔ میں نے اسے چپل کھینچ کر ماری، مگر اس نے بےنیازی سے منہ پھاڑ کر جمائی لی اور وہیں بیٹھی رہی۔

    وہ مسافرت کے دن تھے جو ہم نے اس گھر میں گزارے۔ نہ کھانے پکانے کا ٹھکانا نہ اٹھنے بیٹھنے کا۔ گھر کی اجنبیت کم نہ ہوئی تھی۔ نظریں کسی نہ کسی ایسی چیز پر پڑ جاتیں تو وہ عجیب سی لگتی۔ یاوہ بے جگہ تھی یا ہم۔ مکان کی تنہائی ہم سے آباد نہ ہو سکی تھی۔ باہر نکلتے تو خیال آتا کہ یہاں سے اب گھر جائیں گے اور اندر آتے تو ہاتھ اور دروازہ ایک دوسرے کے لمس پر چونک پڑتے۔ اتنے دن بلی نظر نہیں آئی، لیکن راتوں کو لان میں روتی رہتی، میاؤں میاؤں کرتی گھومتی رہتی۔ رات کے اندھیرے میں بھٹکتی ہوئی آواز۔

    پھر جب ہم کچھ سیٹل ہو گئے تو بلی دوبارہ نمودار ہوئی۔ ہم میز کے گرد بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ میز کے دائیں طرف کھڑکی تھی۔ وہ کھڑکی میں نظر آئی۔ وہ مچھلی کی بو سونگھ کر آئی تھی اور وحشی درندے کی طرح خوراک میں سے اپنا حصہ طلب کر رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح میز پر ظہیر کے لیے جگہ خالی تھی۔ اس کے لیے پلیٹ اور گلاس رکھے تھے۔ پلیٹ خالی تھی، گلاس میں کسی نے پانی بھر دیا تھا۔ ہم خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔ لگتا تھا وہ جالی پھاڑ دےگی۔ میز پر کود جائےگی۔ پلیٹیں، ڈونگے، چمچے، گلاس درہم برہم کر دےگی۔ میرے الٹے ہاتھ پر کرسی خالی تھی۔ وہ گلاس اور پلیٹ اس کے سامنے لگے ہوئے تھے۔ اس پلیٹ میں میں نے مچھلی کی ہڈی ٹکا دی۔ یہ بلی کے آگے ڈال دوں گا۔

    ’’اس پلیٹ میں کیوں رکھ دی؟ یہ کوئی بےکار ہے؟‘‘ امی نے کہا۔ ان کا لہجہ دکھ بھرا تھا۔ ابا نے کچھ نہیں کہا۔ ان کی نظریں نہ حمایت میں اٹھیں نہ مخالفت میں۔

    مچھلی کے ٹکڑے میں نے بلی کے آگے نہیں ڈالے۔ میں اپنے کمرے میں آ گیا۔ ایک کمرہ میرا تھا۔ وہاں میں اپنی ساری چیزوں کو اپنے آپ سے ہم آہنگ محسوس کر سکتا تھا۔ ایک کمرہ ظہیر کے لیے رکھا گیا تھا۔ اس کی ہر چیز اسی طرح رکھی تھی جیسے وہ خود پسند کرتا تھا۔ اس مکان میں ہم سب کے لیے کمرے تھے۔ پہلے ظہیر، میں اور بوا ایک کمرے میں رہتے تھے۔ بوا نے الگ کمرے پر بہت واویلا مچایا تھا۔ ’’ہم ہمیشہ بھرے گھر میں رہے ہیں۔ ہم ایک کونے میں کیوں پڑ رہیں؟‘‘ یہ مشترکہ خاندان کے زمانے کی ہیں، پرائیویسی کا لفظ ان کی لغت میں نہیں موجود، میں نے سوچا۔ یہ اصطلاحیں میں نے چند دن پہلے کسی کتاب میں پڑھی تھیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایسی باتیں اس زندگی پر بھی ٹھیک بیٹھ سکتی ہیں جو ہم روز گزارتے ہیں۔

    ٹیلی فون کے کھمبے پر مینا کا گھونسلا تھا۔ بالکل سیدھا تھا۔ ظہیر نے کہا تھا اس پر ٹیلیفون ٹھیک کرنے والا بندر کی طرح چڑھ جاتا ہے۔ اس وقت ہم اس چھوٹی سی بات پر کتنا ہنسے تھے۔ اب یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی زیادہ رلاتی ہیں۔ اس کھمبے کے نیچے بلی کتنے چکر کاٹتی اور بلی کو آتا دیکھ کر مینا زور زور سے بولنے لگتی۔

    رات کو بلی کوڑے کے کنستر میں گھس جاتی۔ ہم اس کے لیے سوکھی روٹی یا چھیچھڑے ڈال دیتے، تو انہیں منہ نہ لگاتی۔ صبح کے وقت کنستر الٹا ہوا ملتا اور موتیے کی کیاری میں توس کے کنارے، چائے کی پتی، مچھر مار جلیبی کے ٹکڑے اور ردی کاغذ بکھرے ہوئے ہوتے۔ اگلی رات میں نے کنستر کے ڈھکنے پر پتھر رکھ دیا، مگر آدھی رات کے بعد کنستر کے لڑھکنے سے میری آنکھ کھل گئی۔ اندھیرے میں کنستر یوں لوٹ رہا تھا جیسے اس کے پیٹ میں درد قولنج اٹھا ہو۔ ایک دن بارش ہوئی تو وہ کیچڑ میں لت پت آن کر برآمدے میں رکھی ہوئی آرام کرسی پر بیٹھ گئی۔ برآمدے کے چکنے ٹائلز پر کیچڑ بھرے بلی کے پنجے بنے ہوئے تھے۔ اس نے پنجے مار مار کر گدے اور کشن پھاڑ دیے۔ ایک دن وہاں سے بدبو آنے لگی۔ ناک پر رومال رکھ کر دیکھا تو اس نے وہاں گندگی کی ہوئی تھی۔

    شام کے وقت باورچی خانے میں دودھ رکھا ہوا تھا۔ جوش کر کے رکھ دیا گیا تھا تا کہ ٹھنڈا ہو جائے تو ریفریجریٹر میں رکھ دیں۔ اور دودھ ڈھکا ہوا ہو تو ملائی کی تہہ نہیں جمتی۔ امی کو خیال ہوا کہ اس میں بلی نے منہ ڈال دیا ہے۔ اسے ایسا کرتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا، مگر انہیں یہ وہم ہو گیا تھا۔ بلی کا جھوٹا دودھ کیا ہوتا، نالی میں بہا دیا گیا۔ بلی کھانے کے وقت کھڑکی میں روز آ جاتی اور جالی کے باہر سے میاؤں میاؤں کیے جاتی۔ اس کی آواز گھٹتی بڑھتی رہتی۔ کبھی اس میں درخواست ہوتی، کبھی جھنجھلاہٹ، کبھی دھمکی۔ اس کی آسیب زدہ موجودگی کی وجہ سے کھانا دشوار ہو جاتا۔

    ’’یہ بلی ان لوگوں کی ہے۔‘‘ امی نے کہا۔ اس مکان کا ایک ماضی تھا۔ بلی اس میں سے آئی تھی۔

    ’’بلی اپنی جگہ نہیں چھوڑتی۔‘‘ ابا کہنے لگے، ’’کتے لوگوں سے مانوس ہوتے ہیں، مگر بلی کی انسیت گھر سے ہوتی ہے۔ بلیاں ہجرت نہیں کرتیں۔ گھر والے چلے بھی جائیں تب بھی وہیں لوٹ کر آتی رہتی ہیں۔‘‘

    ظہیر کو کلیجی کتنی پسند تھی۔ اس دن امی نے کلیجی دھوکر بیسن دانی کے پاس رکھی تھی۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا۔ شاید پیچھے کا دروازہ پورا بند نہیں ہو پایا۔ پچھلے دروازے سے لے کر گیٹ تک گوشت کا لال لال پانی، سرخ پنجوں کے نشان اور کلیجی کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ لگتا تھا یہاں کسی کا قتل ہو گیا ہے۔

    ’’ہمارے ہاں حویلی میں بڑا جغادری بلا آتا تھا۔‘‘ رات کو بوا نے کہنا شروع کیا، ’’نانا میاں اپنے کبوتروں کا بڑا لڑیت کرتے تھے۔ جب سے بلا ان کا شیرازی کبوتر لے کر بھاگا تھا، تب سے تاک میں رہتے تھے۔ انہوں نے یہ بڑا لوہے کا جال بنوایا، بھول بھلیاں کی طرح کا، جس میں اندر جانے کا راستہ رکھا مگر باہر نکلنے کا نہیں۔ اور اس میں سیکڑوں بلیاں پکڑیں۔‘‘

    ’’بلی کو مارنے سے بہت گناہ ملتا ہے۔‘‘ امی نے کہا تھا۔

    مگر اس دن ایک پرانا لحاف ڈال کر بلی کو پکڑوایا گیا اور اسے بوری میں بند کردیا گیا۔ بوری کے منہ پر ستلی میں نے باندھی تھی۔ جس وقت بلی کی بوری لوکل ٹرین میں لے جا کر رکھی ہے تو بوری ہل رہی تھی۔ میں اگلے اسٹیشن پر اتر گیا تھا۔ بلی کے ریل میں چھوڑوا دیے جانے کے دو دن بعد امی کو پیڑ کٹوانے کا خیال آیا۔ خیال تو پہلے سے آیا ہوگا، ہم سے دو دن بعد کہا۔ بہت بڑا درخت تھا، سارے گھر پر چھایا ہوا۔ دن کے وقت بھی پورے مکان پر اس کی چھاؤں رہتی۔ شام ہوئے تک اس کے سوکھے پتے لان پر پھیلے ہوتے۔ اس کا ایک بڑا سا تنا کھلے ہوئے ہاتھ کی طرح چھت پر پھیلا ہوا تھا۔

    ’’اس کی وجہ سے لان پر بہت کوڑا ہوتا ہے۔‘‘ امی نے شروع میں کہا تھا، ’’پتے اتنے جمع ہو جاتے ہیں کہ لان کو صاف رکھنا بہت مشکل ہے۔‘‘

    امی کا وہ روایتی دست سبز تھا کہ جس چیز کو ہاتھ لگائیں ہری بھری ہو جاتی۔ وہ باغ میں پودے لگاتی تھیں اور ان میں پھول آنے لگتے۔ ہمارے پچھلے گھر میں پھل بھی بہت تھے، مگر ان میں کیڑا لگ گیا تھا۔ جب ہم نے وہ گھر چھوڑا ہے تو پورے پورے پھل سڑ کے پھنک جاتے۔ اوپر سے بالکل اچھے، مگر اندر کا پورا گود اکڑ کھایا ہوا۔ کئی پیڑوں کو اندر ہی اندر گھن کھا رہا تھا اور ہمیں پتہ تک نہ تھا۔

    دن بھر کتنی بہت سی چڑیاں اس میں چھپی رہتیں۔ یوں لگتا کہ پتے بول رہے ہیں۔ میرا دل چاہتا تھا کہ جب اس میں سے روئی کے گالے اڑیں تو انہیں تتلیوں کی طرح پکڑ کر جمع کر لوں اور اپنے تکیے میں بھر دوں۔ بوا بتاتی تھیں کہ سینبھل کا تکیہ بہت نرم ہوتا ہے اور اس پر نیند بھی چین کی آتی ہے۔ جب موسم آئےگا تو اس کے پتے جھڑ جائیں گے۔ ننگی شاخیں رہ جائیں گی۔ پھر کلیاں پھوٹیں گی، اتنی موٹی موٹی، گومڑے کی طرح اور ان سے سرخ پھول بن جائےگا۔ بےحد سرخ۔ سارا پیڑ بھبھوکا ہو جائےگا اور جب پھول سوکھ کر کالے ہو جائیں گے، جمے ہوئے خون کے کھرنڈ کی طرح، تو ڈوڈے پھٹ جائیں گے اور روئی نکل کر اڑنے لگےگی۔

    سامنے والی بیگم ہاشمی ایک دن ہمارے ہاں سے منی پلانٹ چرانے آئیں۔ انہوں نے امی کو بتا دیا تھا کہ وہ اس بیل کی ڈنڈی توڑ کر لے جائیں گی۔ سینبھل کے پیڑ پر منی پلانٹ کے چوڑے پتے پھیلے ہوئے تھے۔ پیلے اور ہرے پتے۔ ’’اگر اسے چرایا نہ جائے تو بات نہیں بنتی۔‘‘ بیگم ہاشمی نے کہا، ’’یہ جس گھر میں چل نکلے، اس گھر میں پیسے بہت آتے ہیں۔ یہ اس کا اثر ہوتا ہے۔‘‘ وہ کہنے لگیں کہ’’ یہ ان ڈور پلانٹ ہے، اسے ڈرائنگ روم میں کسی گملے یا بوتل میں لگائیں، دھوپ اور گرمی میں نہ چھوڑیں۔ پودے کا خیال رکھیں۔ گھر میں روپے کی ریل پیل ہو جائےگی۔‘‘ انہوں نے امی کو بتایا کہ ہم ہر سال اپنا پیڑ ٹھیکے پر دے دیتے ہیں۔ ایک آدمی آکر ڈوڈے توڑ لے جاتا ہے۔ دن بھر میں پورا پیڑ خالی کر دیتا ہے ورنہ اگر روئی اڑ جائے تو جمع کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    جب روئی اڑتی ہے تب اصل مصیبت شروع ہوتی ہے، دوسرے پڑوسی نے بتایا۔ ان کی اور ہماری دیوار بیچ تھی۔ روئی اڑ اڑ کر اندر آتی ہے۔ ہر چیز میں گھس جاتی ہے، کھانے کی چیزوں میں گر جاتی ہے، کوئی چیز کھلی نہیں چھوڑ سکتے، صوفے اور قالین میں پڑ جاتی ہے اور اس کا صاف کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لان کی ساری گھاس میں مل جاتی ہے، رات کو اوس پڑنے سے چپک جاتی ہے اور صبح کو سوکھ کر کھڑنک ہو جاتی ہے، سارا لان خراب ہو جاتا ہے۔

    گھر میں روئی اتنی آتی ہے اور سانس کے ساتھ جاتی ہے، اس سے دمہ ہو جاتا ہے۔ کونے کے مکان والے ڈاکٹر صاحب نے بتایا۔ ان کو زکام ہو رہا تھا۔ ہم نے بھی اپنا پیڑ کٹوا دیا تھا، وہ بتانے لگے۔ کاٹنے کے بعد اتنا ساٹھنٹھ رہ گیا تھا۔ اس میں سے ہری ہری شاخیں پھوٹ آتی تھیں۔ اور اتنی تیزی سے بڑھنے لگتیں، جیسے وہ انتقام کے طور پر اگ رہی ہوں۔ ہم نے اس پر مٹی کا تیل چھڑکا، تارکول جلایا اور اس کی جڑوں میں پاؤ بھر افیم پانی میں گھول کر ڈالی۔ اس کا جتنا حصہ زمین کے اوپر ہے، کالا ہولناک ہیولا، جو مر کے نہیں دیتا۔ اس پر سانپ چھتریاں اور جنگلی گھاس نکل آتی ہے۔

    اس وقت تک میں گلی کی آوازوں سے مانوس ہو گیا تھا۔ صبح سویرے اسکول بس کا ہارن۔ دوپہر کو رفیع صاحب کی گاڑی کی آواز جو پچھلی کھڑکی سے آتی تھی اور وہاں سے نظر آنے والا ان کے مکان کا برآمدہ، اخبار والے کی پکار جس سے بیرونی دنیا گلی میں گونج اٹھتی اور اونچے پیڑوں سے چھن چھن کر دیواروں پر اترتی ہوئی دھوپ کے متحرک رنگین سائے۔ یہاں زندگی کا اپنا ایک انداز اور رفتار تھی۔ مجھے اطمینان ہوا کہ میں اس میں کھپ جاؤں گا۔ پیڑ کے نیچے سے گھاس بالکل اڑی ہوئی تھی۔ لان وہاں سے گنجا لگتا تھا۔

    ’’بڑے پیڑ کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ اس کے سائے میں کوئی اور چیز پنپ نہیں سکتی۔‘‘ امی کہنے لگیں، ’’گز بھر دور بھی کیاری کھودو تو اس کی ریشے دار جڑیں نکل آتی ہیں۔‘‘

    اس کو ایک دفعہ میں نہیں کاٹا جا سکا۔ کلہاڑی والا آدمی شاخوں شاخوں پیر رکھتا ہوا اوپر چڑھ گیا اور چھوٹی ٹہنیاں کاٹنے لگا۔ ان چھوٹی ٹہنیوں کے کٹ جانے کے بعد، جن کی لچک دار ڈنڈی میں لکڑی نہیں بنی تھی۔ وہ پیڑ مینار کی طرح لمبا اور سیدھا لگ رہا تھا۔ جگہ جگہ سے چھال ادھڑ جانے کے بعد تنا کیسا نیا نکور نکل آیا تھا اور اس کے شاداب جسم سے لپٹا ہوا وہ آدمی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پیڑ کی آبروریزی کر رہا ہے۔ کلہاڑی گنگنا رہی تھی۔

    وہ آدمی پسینے پسینے ہوا جا رہا تھا۔ کٹتے ہوئے پیڑ کے پتوں میں ہوا سرسرا رہی تھی۔ کلہاڑی کی ضربوں سے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اڑ رہے تھے۔ ان کا رنگ اندر سے کتنا صاف تھا، بالکل اجلا گودا۔ ایک ٹکڑا اڑ کر اس آدمی کی آنکھ میں پڑ گیا جو جڑوں کے پاس گھاس چھیل رہا تھا۔ اس کی آنکھ سے خون ٹپکنے لگا۔ جب اس کی آنکھ پر ہری پٹی باندھ دی گئی تو اس کے بعد تین آدمیوں نے تنے پر رسی باندھی کہ وہ چھت پر نہ گر پڑے، ورنہ چھت بیٹھ جانے کا خطرہ تھا۔ پھر بھی جہاں جہاں بڑی ٹہنیاں گریں لان میں گہرے گڑھے پڑ گئے۔ سارا لان یوں ادھڑا ہوا لگ رہا تھا جیسے کوئی دیوقامت ڈینوسار اسے روندتا ہوا گزرا ہو۔ پیڑ کا تنا آندھی کی زد میں آئے ہوئے بادبانی جہاز کے مستول کی طرح ڈول رہا تھا۔ مگر وہاں موجوں کی اچھال تھی نہ کھوپڑی اور ہڈی والا سیاہ پرچم۔ ٹوٹتی ہوئی شاخ یوں چرچراتی جیسے پیڑ کراہ رہا ہو اور دھپ سے گر پڑتی۔ پتے دیر تک تماشا دیکھنے والے بچوں کی طرح تالیاں بجاتے رہتے۔

    پیڑ کا تنا جہاں دیوار سے ٹکا ہوا تھا، دیوار کا اتنا حصہ ڈھے پڑا۔ اس کے اوپر لگی سیمنٹ کی جالی کا ڈیزائن گر کر بکھر گیا۔ ٹوٹی دیوار پر سے ایک کوا آیا اور اپنی چونچ سے زمین کھودنے لگا۔ کوے کو زمین کھودتے دیکھ کر میں نے تعجب کیا۔ مگر یہ خواب نہیں تھا۔ خواب تو میں نے اس رات دیکھا تھا۔ نئے مکان میں میرا پہلا خواب۔

    اس رات میں نے ظہیر کو خواب میں دیکھا۔ اس کے کمرے میں امی نے دیوار پر اس کی تصویر لٹکا رکھی تھی۔ میں اس کے سامنے روزانہ اگر بتی جلاتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ نیا مکان دیکھنے آیا ہے۔ اسی پیڑ کے نیچے کھڑا ہوا ہے، اس کی شاخوں اور جڑوں میں اگ رہا ہے، اس کی سبز آنکھوں میں مسکراہٹ ہے، ہاتھوں میں گوشت کے ٹکڑے اور مجھ سے کہہ رہا ہے، ’’یہ لو بھائی، یہ میرا جسم ہے، اس سے اپنی بھوک مٹاؤ۔‘‘

    مأخذ:

    چیزیں اور لوگ (Pg. 9)

    • مصنف: آصف فرخی
      • ناشر: احسن مطبوعات، کراچی
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے