لاکھوں برس گزرے۔ آسمان پر شمال کی طرف سفید بادلوں کے پہاڑ کے ایک بڑے غار میں ایک بہت بڑا ریچھ رہا کرتا تھا۔ یہ ریچھ دن بھر پڑا سوتا رہتا اور شام کے وقت اٹھ کر ستاروں کو چھیڑتا اور ان سے شرارتیں کیا کرتا تھا۔ اس کی بدتمیزیوں اور شرارتوں سے آسمان پر
یہ بھائی، بہنوں کو عجیب عجیب طریقے سے بیوقوف بناتے ہیں۔ بھائی کے ہاتھوں نکو بننے والی بہن کی روداد
علی زے ایک بہت پیاری بچی ہے۔ اس کے پاس ایک گڑیا ہے۔ دیکھنے کے لائق۔ علی زے اپنی گڑیا سے بہت پیار کرتی ہے۔ ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ میں اپنی گڑیا کی شادی کردوں۔ کل جمعہ ہے۔ جمعے کا دن اچھا رہےگا۔ سب سے پہلے علی زے اپنی آپا کے پاس گئی اور بولی: ’’آپا!
’’بیگم اب ہماری پنشن ہونے والی ہے، ذرا گھر کا خرچ کم کرو۔‘‘ ہمارے ابا میاں نے پنشن سے پہلے یہ مناسب سمجھا کہ ہماری اماں جان کو (جو ہمارے ابا میاں سے بھی زیادہ کھلے ہاتھ کی تھیں) اونچ نیچ سمجھا دیں۔ ’’اے ہے میں زیادہ خرچ کرتی ہوں تو اپنے ہاتھ میں گھر
کسی دور دراز کے ملک میں ایک بادشاہ رہا کر تا تھا جس کے تین بیٹے تھے تینوں بہت ذہیں اور تمام عمل و فن میں یکتا تھے۔ تیر اندازی ہو یا تلوار چلانے کے جوہر ،جنگ کے تمام باریکیوں سے واقف تھے۔ شہزادے جوان ہو چکے تھے بادشاہ کی خواہش تھی کہ انکی شادی کر دی
ابا جان بھی بچوں کی کہانیاں سن کر ہنس رہےتھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح ہم بھی ایسے ہی ننھے بچے بن جائیں۔ نہ رہ سکے۔ بول ہی اٹھے۔ بھئی ہمیں بھی ایک کہانی یاد ہے۔ کہو تو سنا دیں! ’’آہاجی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے۔ ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔
پیرس میں ابراہیم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ ایک معمولی اوقات کا عیال دار تھا۔ مگر تھا بہت ایماندار اور سخی۔ اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔ اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سے سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے
ایک دیہاتی اپنی لاٹھی میں ایک گٹھری باندھے ہوئے گانے گاتا سنسان سڑک پر چلا جارہا تھا۔ سڑک کے کنارے دور دور تک جنگل پھیلا ہوا تھا اور کئی جانوروں کے بولنے کی آوازیں سڑک تک آ رہی تھیں۔ تھوڑی دور چل کر دیہاتی نے دیکھا کہ ایک بڑا سا لوہے کا پنجرہ سڑک
میں اسکول سے چھٹی لے کر اپنے ماما کی شادی میں گاؤں گیا تھا۔ ایک ہفتہ اسکول سے غائب رہنے کے بعد اسکول آیا تو مجھے کلاس میں کچھ کمی سی محسوس ہوئی۔ دراصل میرے سامنے بیٹھنے والا شہزاد اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھا۔ درمیانی چھٹی میں میں نے اپنے دوست کیلاش سے
ایک تھی چوہیا اور ایک تھی چڑیا۔ دونوں کا آپس میں بڑا اخلاص پیار تھا اور بہنیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک روز صبح کو چڑیا نے کہا: ’’کہ چلو بہن چوہیا ذرا ہوا کھا آئیں‘‘ چوہیا نے کہا چلو دونوں سہیلیاں مل کر چلیں ہوا کھانے۔ چڑیا تو ارتی اڑتی جاتی تھی اور چوہیا پھدک
ترکستان کے ایک سوداگر کی درھم کی ایک تھیلی راستہ میں کہیں گرپڑی۔ اس نے گاؤں میں منادی کردی کہ تھیلی جس کوملی ہو واپس کردے۔ تھیلی میں جس قدر درھم ہوں اس کے نصف انعام کا وہ حقدار ہوگا۔ اس تھیلی میں دوسودرہم تھے۔ یہ تھیلی کسی جہاز کے ملاّح کو ملی تھی
ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ اس کے ماں باپ مرچکے تھے۔ وہ بچاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ ایک امیر آدمی کے گھر میں اسے بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ پانی بھر کے لاتی، کھانا پکاتی۔ بچوں کی دیکھ بھال کرتی اور اتنے کاموں کے بدلے اسے بس دو وقت کی روٹی ملتی۔ کھیلنا
ایک مور تھا اور ایک تھا گیدڑ۔ دونوں میں محبت تھی۔ دنوں کی صلاح ہوئی۔ کہ چل کر بیر کھاؤ۔ وہ دونوں کے دونوں مل کر چلے کسی باغ میں۔ وہاں ایک بیری کا درخت تھا۔ جب اس درخت کے قریب پہنچے۔ تو مور ار کر اس درخت پر جا بیٹھا۔ درخت پر بیٹھ کے پکے پکے بیر تو آپ
یارے بچو! آج میں آپ کو اپنے موجودہ دیس نیوزی لینڈ کی ایک لوک کہانی سناتی ہوں جو یہاں کے قومی پرندے کیوی سے متعلق ہے۔ آپ نے یا آپ کے امی ابو نے وہ اشتہار شائد سنا ہو جس میں سوال کیا جاتا ہے۔ ’’پیارے پچو کیوی کیا ہے؟ اور پھر جواب دیا جاتا ہے کہ ’’کیوی
ایک فقیر تھا۔ وہ اپنی جھونپڑی میں رہا کرتا تھا۔ اس نے ایک مینا پال کے پنجرے میں بند کر کے اپنی جھونپڑی میں لٹکا رکھی تھی۔ فقیر روز بھیک مانگنے جایا کرتا تھا۔ اس مینا نے جو اس فقیر کو بھیک مانگتے دیکھا۔ تو اس پر بھی فقیر کی صحبت کا اثر ہوا۔ اور وہ بھی
پرانے زمانے میں کونکن دیس میں بڑے عالم رہا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب وہاں ودھوا راجن نامی ایک شاعر بھی رہا کرتا تھا۔ ایک اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دولت مند بھی کافی تھا۔ لیکن ایک بار سیہ یادری دیس کے راجہ نے کونکن پر ایک بھاری فوج لے کر چڑھائی کر
ایک مکھی بیٹھی اپنا گھر لیپ رہی تھی۔ گھر لیپتے لیپتے اپنا نام بھول گئیں۔ گھر لیپتے لیپتے لیپتے جو انہیں اپنے نام کا خیال آیا۔ تو گئیں ہمسائی کے ہاں۔ ہمسائی سے جاکر کہا۔ بی ہمسائی بی ہمسائی میرا نام بتاؤ۔ اس نے کہا۔ بوا میں نہیں جانتی۔ میرے گھر میں جو
اڈھاک تلے کی میں لکڑی لائی۔ لکڑی لے میں نے بڑھیا کو دی۔ بڑھیا نے مجھے آدھی روٹی دی۔ آدھی روٹی لے میں نے کمہار کو دی۔ کمار نے مجھے گھڑا دیا۔ گھڑا لے میں نے گھوسی کو دیا۔ گھوسی نے مجھے بھینس دی۔ بھینس لے میں نے دولہا کو دی۔ دلہا نے مجھے دلہن دی۔ دلہن لے
ننھے بھائی ہمیں کتنی بار ہی بےوقوف بناتے، مگر ہم کو آخر میں کچھ ایسا قائل کر دیا کرتے تھے کہ ان پر سے اعتبار نہ اٹھتا۔ مگر ایک واقعے نے تو ہماری بالکل ہی کمر توڑ دی۔ نہ جانے کیوں بیٹھے بٹھائے جو آفت آئی تو پوچھ بیٹھے، ’’ننھے بھائی! یہ ریشم کیسے بنتا
سورگ میں ایک دیوی رہتی تھی۔اس کا نام پھرکی تھاوہ بنائی کاکام اتنی ہوشیاری سے کرتی تھی کہ کچھ نہ پوچھئے جس وقت ہاتھ میں تیلیاں لے کر بیٹھتی تھی بات کی بات میں بڑھیا سے بڑھیا سوئٹر ،بنیان، مفلر وغیرہ بن کر رکھ دیتی تھی۔ اس لئے دور دور تک اس کی تعریف ہورہی
ایک بادشاہ تھا ۔اس کی سات لڑکیا ں تھیں۔ وہ ان ساتوں سے بیحد محبّت کرتا تھا اور ان کے ہر آرام کا خیال رکھتا تھا۔ ایک بارجب دسترخوان سجا ہوا تھا وہ سب لوگ ساتھ کھانے پر بیٹھے تھے بادشاہ نے ا پنی بیٹیوں سے ایک سوال پوچھ لیا۔ کہ تم لوگ مجھے کتنا چاہتی
حسن اور روہن کی دوستی گاؤں بھر میں مشہور تھی۔ بچپن کے دوست تھے، جوانی میں بھی دوستی قائم تھی۔ دونوں کے مزاج میں اتنی ہم آہنگی تھی کہ ایک چیز ایک کو پسند آتی تو دوسرا بھی اسے پسند کرنے لگتا۔ کسی بات سے ایک ناراض ہوتا تو دوسرا بھی اس طرف سے رخ پھیر
ایک سپاہی تھے۔ وہ کہیں سے چلے آتے تھے۔ رستے میں ایک آواز آئی کہ ’’اے میاں گھوڑے سوا! لمبی چوٹی برخوردار۔‘‘ ایک سندیسہ لیتے جائیو۔ اس نے دیکھا۔ تو ادھر ادھر کوئی نظر نہ آیا۔ پھر اس نے گھوڑا ہانکا تو پھر اس کو یہی آواز آئی کہ ’’اے میاں گھوڑے
ایک تھا طوطا اور ایک تھی مینا۔ طوطے کا گھر تو تھا نون کا اور مینا کا گھر تھا موم کا۔ ایک دن جو پڑی دھوپ۔ ایسی دھوپ پڑی۔ ایسی دھوپ پڑی۔ کہ مینا کا گھر جو تھا سو پگھل گیا۔ وہ گئیں طوطے کے پاس۔ کہ اے بھئی طوطے آج ایسی دھوپ پڑی۔ کہ میرا گھر پگھل گیا۔ اگر
بچو! تم حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہو، انھیں اپنے ملک ہندوستان سے بےپناہ محبت تھی، یہاں کی ہر چیز کو پسند کرتے تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسروؒ گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہرولی پہنچتے ہی انھیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدّت بڑھتی چلی
کسی گاؤں میں ایک بوڑھا اور بڑھیا رہا کرتے تھے۔ ان کے پاس پوچی نام کا ایک کتا تھا۔ اس کو دونوں بہت پیار کرتے تھے۔ ایک دن جب بوڑھا اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا، پوچی اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور بھونک بھونک کر پنجوں سے زمین کریدنے لگا۔ بوڑھا جتنا
کسی نگر میں ایک راجہ راج کرتا تھا۔ اس کی ایک رانی تھی۔ اس رانی کوکپڑے اورگہنے کابہت زیادہ شوق تھا۔ اسے کبھی سونے کاکرن پھول چاہئے، کبھی ہیرے کا ہار تو کبھی موتیوں کی مالا۔ کپڑوں کی توبات ہی نہ پوچھئے۔ بھاگل پوری ٹسراور ڈھاکے کی ململ اوررات کوسونے کے
گھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔ بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا ’’اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔‘‘ چوہا اس بات پر چڑ گیا۔
ایک آدمی گاڑی میں بھوسا بھر کر لیے جا رہا تھا۔ راستے میں کیچڑ تھی۔ گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی۔ وہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور لگا چیخنے، ’’اے پیاری پریوں، آؤ اور میری مدد کرو۔ میں اکیلا ہوں گاڑی کو کیچڑ سے نکال نہیں سکتا۔‘‘ یہ سن کر ایک پری آئی اور
دلی میں ایک بازار ہے، بازار سیتا رام۔ محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں وہاں ساہو سیتا رام رہا کرتے تھے۔ ساہو سیتا محمد شاہ رنگیلے کے شاہی خزانچی تھے اور لاکھوں کروڑوں کے مالک بھی۔ انہیں کے نام پر بازارسیتا رام آباد ہوا۔ ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ شادی بیاہ
شرارت اور حماقت میں سے کون بازی لے گیا۔ اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ معلوم نہیں کہ بچپن کا دور ایسا ہی سہانا، حسین، دلفریب اور سنہرا ہوتا ہے یا وقت کی دبیز چادر کے جھروکے سے ایسا لگتا ہے۔ اب میرے سامنے میرے خاندان کی تیسری نسل کے شگوفے پروان چڑھ رہے
ابا جان بھی بچوں کی طرح کہانیاں سن کر ہنس رہے تھے کہ کس طرح ہم بھی ایسے ہی ننھے بچے بن جائیں۔ نہ رہ سکے بول ہی اٹھے، ’’بھئی ہمیں بھی ایک کہانی یاد ہے کہو تو سناؤں؟‘‘ ’’آہا جی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔ سنائیے ابا
بڑا سنسان جزیرہ تھا۔ اونچے اونچے اور بھیانک درختوں سے ڈھکا ہوا۔ جتنے بھی سیاح سمندر کے راستے اس طرف آتے، ایک تو ویسے ہی انھیں حوصلہ نہ ہوتا تھا کہ اس جزیرے پر قدم رکھیں۔ دوسرے آس پاس کے ماہی گیروں کی زبانی کہی ہوئی یہ باتیں بھی انھیں روک دیتی تھیں کہ
بھرپور چوماسے کے دن کھیتوں کی بات نہ پوچھئے! باجرے کی ہری بالیں ان میں دودھیا دانے اوران پر سنہری کوں کوں، جیسے موتیوں پر کسی نے سونے کا پانی چڑھا دیا ہو۔ تربوز کی ہری ہری بیلوں کی نالیں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ننگ دھڑنگ رہنے والی سنہری ریت نے اپنے
’’اب تک اس مکان میں جھاڑو نہیں دی گئی؟‘‘ شمیم نے رعب جمایا۔ ’’تو بڑی کام چور ہوگئی ہے شہناز‘‘ اور شہناز اپنے پھٹے ہوئے دوپٹے سے گھروندے کو اس طرح تندہی سے صاف کرنے لگی جیسے واقعی وہ اس گھر کی ماما ہو اور شمیم اس کی مالکن۔ لوگ اکثر کہا کرتے ہیں کہ بچوں
ننھی شیلا ایک دن اپنی گڑیوں کے لئے چائے بنا رہی تھی۔ کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شیلا نے خیال کیا کہ اس کی کوئی سہیلی اس سے ملنے آئی ہے۔ لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے تین بچوں کو گود میں لئے کھڑی ہے۔ اس عورت
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب بندوق ایجاد نہیں ہوئی تھی اور لوگ تیر کمان سے شکار کھیلتے تھے۔ ایک دن کچھ شکاری شکار کی تلاش میں جنگل میں پھر رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ایک ہرن پر پڑی۔ وہ سب اس کے پیچھے ہو لیے۔ شکاری ہرن کو چاروں طرف سے گھیر رہے تھے اور
چنچل ہرے دانتوں اور سبز بالوں والی ایک شوخ ننھی جل پری تھی۔ وہ نیلی جھیل کے سب سے زیادہ گہرے حصے میں رہتی تھی۔ ایک دن اس نے دل میں سوچا۔ ’’میں اپنی روزمرہ کی زندگی سے اکتا گئی ہوں۔ اب مجھے سیر کے لئے کہیں باہر جانا چاہئے، میں سوکھی زمین پر جاکر دیکھوں
ایک تھا چوہا۔ ایک تھی چوہیا۔ دونوں میں ہوئی لڑائی۔ چوہیا روٹھ راٹھ کر ایک کونے میں بیٹھ گئیں۔ چوہے گئے کہ بی چوہیا اٹھو آٹا گوندھو۔ چوہیا نے کہا : ’’ماری کوٹی کونے لاگی‘‘ میں کیا تیرا آٹا گوندھوں گی؟ چوہا گیا آپ آٹا گوندھ آیا۔ پھر آیا کہ اٹھو بی چوہیا
پٹنہ کے قریب ایک جنگل تھا۔ اس کا نام تھا پیلی کانن۔ بہت دن ہوئے پیلی کانن میں ایک طرف ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا گویا کبھی اس عمارت کی شان بھی نرالی ہوگی۔ ایک روز دوپہر کے وقت چند بچے عمارت کے قریب ایک ٹیلے پر راجہ کا
ایک بہت ہی پیارا سا بونا جنگل میں رہتا تھا۔ اس کے باغ میں ایک چھوٹی سی چڑیا رہتی تھی، جو روز صبح ہونے کے لئے گانا گاتی تھی، گانے سے خوش ہو کر بونا چڑیا کو روٹی کے ٹکڑے ڈالتا تھا۔ بونے کا نام منگو تھا وہ چڑیا سے روز گانا سنتا تھا۔ ایک دن بہت ہی عجیب
دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا، اس لیے وہ کبھی کبھار ہی ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ ایک دن جو ملاقات ہوئی
ایک اونٹ سڑک پر چلا جاتا تھا۔ ایک مینڈکی اس کے پیر تلے آ گئی۔ مینڈکی نے اونٹ سے کہا۔ کہ لنبو لنبو کے لم ٹنگو شہزادی نبو کچلی تھی۔ اونٹ نے کہا۔ کہ لنبو لنبو کے لم ٹنگو شہزادی بنو کچلی تھی۔ اونٹ نے جواب دیا۔ کہ چل موئی نکٹی چیٹی تجھے کسی نے دیکھا تھا؟
رشیدہ کا شوہر شہاب کاروباری دورے پر ہانگ کانگ گیا ہوا تھا۔اس کا ایک پررونق علاقے کی مارکیٹ میں گارمنٹس کا ایک بڑا سا اسٹور تھا جس میں بچوں کے ملبوسات فروخت کے جاتے تھے۔ اسٹور میں تین سیلزمین کام کرتے تھے_ ایک لڑکا بھی تھا جو صفائی ستھرائی اور دوسرے چھوٹے
ایک دفعہ ایک گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دن بھی اس کے لیے کتنا منحوس تھا۔ اسے دن بھر بھوکا ہی رہنا پڑا۔ وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔ راستہ ناپتا رہا۔ بالآخر لگ بھگ دن ڈھلے وہ ایک شہر میں پہنچا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ ایک گیدڑ
کسی چھوٹی سی بستی میں کوئی بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے آگے پیچھے ایک لڑکی کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ بڑھیا نے لاڈ پیار میں اسے ایسا اٹھایا تھا کہ وہ اپنوں کو خاطر میں لاتی نہ غیروں کو۔ زبان دراز۔ کلے کار۔ پھوہڑ کام چور۔ ماں کے جھونٹے نوچنے کو تیار مگر مال تھی
جاڑے کی رات۔ کھانا ختم ہوا۔ لحاف کے اندر دادی نے جب اپنے پیر گرم کیے توانہیں گھیر کر سارے بچے بیٹھ گئے اور کہانی سنانے کا اصرار کرنے لگے۔ دادی نے سب سے چھوٹے پوتے کو گود میں بٹھایا اور ہمیشہ کی طرح کہا بیچ کہانی میں کوئی نہیں بولے گا۔ جی دادی۔۔۔
گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر میں جب سورج آگ برسا رہا تھا اور لوکے تھپیڑے سوکھے پتھوں کو بگولوں کی شکل میں اڑا رہے تھے، فضلو اپنے آم کے باغ میں طوطوں کو اڑانے مشغول تھا۔ شریر طوطے ہرے ہرے پتوں میں چھپے چوری چوری آم کتر رہے تھے۔ فضلو مٹی کا ڈھیلا رسی کی غلیل
جب میں اپنے استادوں کا تصور کرتا ہوں تو میرے ذہن کے پردے پر کچھ ایسے لوگ ابھرتے ہیں جو بہت دلچسپ، مہربان، پڑھے لکھے اور ذہین ہیں اور ساتھ ہی میرے محسن بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا خیال کر کے مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور ان پر پیار بھی آتا ہے۔ اب میں باری باری
اتفاق سے ایک لومڑی ایک کنویں میں گر پڑی۔ اس نے بہت ہاتھ پیر مارے اور باہر نکلنے کی ہر طرح کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئی۔ ابھی وہ کوشش کر ہی رہی تھی کہ اتنے میں ایک بکری پانی پینے کے لیے وہاں آ نکلی۔ بکری نے لومڑی سے پوچھا، ’’اے بہن! یہ بتاؤ کہ پانی
Sign up and enjoy FREE unlimited access to a whole Universe of Urdu Poetry, Language Learning, Sufi Mysticism, Rare Texts
Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online