تصویر کے دو رخ
یہ کہانی آزادی سے پہلے کی دو تصویر پیش کرتی ہے۔ ایک طرف پرانے روایتی نواب ہیں جو عیش کی زندگی جی رہے ہو ہیں۔ موٹروں میں گھومتے ہیں، دل بہلانے کے لیے طوائفوں کے پاس جاتے ہیں، ساتھ ہی زندگی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو کوستے ہیں، گاندھی جی کو گالیاں دیتے ہیں۔ دوسری طرف آزادی کے لیے مر مٹنے والے وہ نوجوان ہیں جن کی میت کو کوئی کندھا دینے والا بھی نہیں ہے۔
احمد علی
غلامی
سرمایہ داری نے ہر غریب انسان کو غلام بنا دیا ہے۔ ایک خوشگوار شام کو دو دوست ندی کنارے بیٹھ کر اپنی غربت کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ اس بات سے افسردہ ہیں کہ غریب کتنی مصیبتوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ دونوں دوست اب یہاں سے چلنے کی تیاری کرتے ہیں، جبھی ایک غریب عورت ان کے پاس سے گزرتی ہے۔ ان میں سے ایک اس عورت سے فصل کے بارے میں دریافت کرتا ہے کہ وہ عورت رونے لگتی ہے۔ دوسرا دوست اس کی مدد کرنا چاہتا ہے کہ پہلا دوست یہ کہہ کر اسے مدد کرنے سے روک دیتا ہے کہ غلامی تو ان کے اندر بسی ہوئی ہے۔
احمد علی
مزدور
’’یہ سماج کے سب سے مضبوط اور بے بس ستون ایک ایسے مزدور کی کہانی ہے، جو شب و روز خون پسینہ بہاکر کام کرتا ہے۔ مگر اس کی اتنی آمدنی بھی نہیں ہو پاتی کہ اپنے بچوں کو بھر پیٹ کھانا کھلا سکے یا اپنی بیمار بیوی کی دوا خرید سکے۔ وہ فیکٹری مالک سے بھی درخواست کرتا ہے، لیکن وہاں سے بھی اسے کوئی مدد نہیں ملتی۔‘‘
سدرشن
دیوالی
میکوا ساہوکار کے یہاں کام کرتا ہے۔ وہ اپنے کام کو ایمانداری سے اور وقت سے پورا کر دیتا ہے۔ دیوالی کے موقع پر وہ گھر کی صفائی میں مصروف ہے، اسی درمیان اسے دیوار پر لگی لکشمی جی کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ تصویر دیکھ کر اسے اپنی منگیتر لکشمی کی یاد آتی ہے۔ وہ سارا دن اس کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔ شام کو دیوالی کا پرشاد لینے کے بعد وہ مہتا جی کی خوشامد کر کے چار گھنٹے کی چھٹی مانگ لیتا ہے اور سائیکل پر سوار ہو کر اپنی منگیتر کے گاؤں کی طرف بھاگتا ہے لیکن وہاں جاکر اسے جس سچائی کا علم ہوتا ہے اس سے اس کے پاؤں تلے کی زمین ہی کھسک جاتی ہے۔
قاضی عبد الستار
مالکن
تقسیم ملک سے بہت سی زندگیوں میں عجیب و غریب تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ یہ کہانی ایک ایسے ہی زمیندار کی ہے جس کا پورا خاندان پاکستان ہجرت کر جاتا ہے لیکن حویلی کی مالکن نے ہجرت کرنے سے انکار کر دیا۔ مالکن حویلی کے اندر باہر کا کام اپنے وفادار چودھری گلاب سے کرا لیا کرتی تھیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حویلی کی بچی کھچی شان و شوکت بھی جاتی رہی اور حویلی کھنڈر میں تبدیل ہو گئی۔ حویلی کی مالکن کو گزر بسر کرنے کے لیے سینے پرونے کا کام کرنا پڑا اور اس کام میں بھی چودھری گلاب مالکن کی مدد کرتا رہا۔ چودھری گلاب کی انسانی ہمدردی کو دنیا والے اپنی ہی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
قاضی عبد الستار
آنکھیں
یہ کہانی مغل شہنشاہ جہانگیر کی ہے، جس میں مغل سلطنت کی سیاست، بادشاہوں کی محفل اور ان محفلوں میں ملنے والوں کا تانتا ہے، انھیں ملنے والوں میں جہانگیر کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے ہوتی ہے جس کی آنکھیں انھیں مسحور کر دیتی ہیں۔ صایمہ بیگم کی آنکھیں ایسی ہیں کہ دیکھنے والے کے دل و دماغ میں براہ راست پیوست ہو جاتی ہیں اور بادشاہ جہانگیر کے ذہن پر ہر وقت ان آنکھوں کا تصور چھایا رہتا ہے۔
قاضی عبد الستار
مجو بھیا
افسانہ ایک ایسے شخص کی داستان بیان کرتا ہے جس کا باپ پنڈت آنند سہائے تعلقدار کا نوکر تھا۔ اکلوتا ہونے کے باوجود باپ اسے رعب داب میں رکھتا تھا۔ باپ کے مرتے ہی اس کے پر نکل آئے اور وہ پہلوانی کے دنگل میں کود پڑا۔ پہلوانی سے نکلا تو گاؤں کی سیاست نے اسے گلے لگایا اور اس میں اس نے ایسے ایسے معرکے سر کیے کہ اپنی ایک الگ پہچان بنالی اور ساتھ ہی دوست و دشمن بھی، جنھیں ایک ایک کرکے اپنے راستے سے ہٹاتا چلا گیا۔
قاضی عبد الستار
لالہ امام بخش
دیوی پرساد بخش نے اپنے اکلوتے بیٹے کا نام لالہ امام بخش اسلیے رکھا تھا کہ وہ محرم میں مانگی گئی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔ چونکہ لالہ امام بخش کی پرورش بڑے لاڈ پیار سے ہوئی تھی اسلیے امام بخش سرکش ہو گیا تھا۔ دیوی پرساد کی موت کے بعد وہ اور بھی بے لگام ہو گیا اور اس کا ظلم گاؤں والوں پر بڑھتا گیا۔ گاؤں والوں نے مشورہ کرکے اسے پردھان بنا دیا۔ حالات اس وقت بدل گیے جب گاؤں میں ایک قتل ہوا اور قتل کے جرم میں لالہ امام بخش کو گرفتار کر لیا گیا۔
قاضی عبد الستار
پنچایت
یہ ایک بوڑھی برہمنی کی کہانی ہے، جو اپنے پتی کے انتقال کے بعد تیرتھ یاترا پر جاتی ہے۔ تیرتھ یاترا پر جانے سے پہلے وہ بغیر رسید کے اپنی جمع پونجی گاؤں کے ساہوکار کے پاس رکھ جاتی ہے۔ واپس لوٹ کر جب وہ ساہوکار سے اپنی امانت واپس مانگتی ہے تو ساہوکار انکار کر دیتا ہے۔ ساہوکار کے انکار پرگاؤں کی پنچائت بلائی جاتی ہے۔ پنچایت میں بوڑھی برہمنی ساہوکار کی بیوی کو ہی اپنا گواہ بنا لیتی ہے۔