آدھا مرد
کئی برس پہلے کی بات ہے ایک لڑکی غم سے نڈھال سوجی آنکھوں کے ساتھ مال روڈ پر چلا چلا کر کہہ رہی تھی، ’’عزت لوٹنے والے درندوں کو موت کی سزا دی جائے۔‘‘ کسی نے پوچھا، ’’یہ وہ لڑکی ہے جس کی عزت لوٹی گئی؟‘‘ دوسرے نے کہا، ’’نہیں، یہ تو پروین عاطف ہے۔‘‘
پروین عاطف پوری پروین ہے نہ پورا عاطف، جب لڑکی تھی تو دولڑکیوں کے برابر تھی اور اب آدھا مرد ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں ایک عورت آدھے مرد کےبرابر ہوتی ہے۔ مردوں کے ساتھ مردوں کی طرح ملتی ہے۔
وہ دیکھنے میں پروین عاطف کی ملازمہ لگتی ہے۔ سفرنامہ نگار، افسانہ نگار، مقرر، سوشل ورکر، خواتین ہاکی ٹیم کی روح رواں یہی نہیں اس کا ایک قدم ترقی پسند خواتین کی تحریک میں بھی ہے۔ یوں وہ بڑی شش پایہ شخصیت ہے۔ محقق بھی ہے، ہر کام کے لیے باقاعدہ تحقیق کرتی ہے۔ اسے تو یہ جاننے کے لیے کہ اس کے کس ہاتھ میں گاڑی کی چابیاں ہیں، باقاعدہ تحقیق کرنا پڑتی ہے۔
عمر کے مقابلے میں پہلےمجھ سے پچیس سال بڑی تھی، اب صرف بارہ سال بڑی ہے۔ جوانی میں اپنے کالج کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ ان دنوں لڑکیوں کو پڑھانے کا کس قدر کم رواج تھا۔ جوانی میںاتنی پرکشش تھی کہ جو بھی ان کے گھر رشتے کے لیے لڑکا دیکھنے آتا، اسے فوراً پسند کرلیتا۔ ساری زندگی دوسروں کے بارے میں سوچتی رہی، اپنے بارے میں سوچنےکا موقع نہ ملا۔ سو اپنے بارے میں جو کیا بغیر سوچے سمجھےکیا۔ اسے مٹرگوشت اور مٹرگشت بہت پسند ہے۔ دیکھنے میں سپورٹ وومین لگتی ہے یعنی دیکھ کر اس کی سپورٹ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ عورت اتنا دنیا کو نہیں دیکھتی، جتنا دنیا اسے دیکھتی ہے مگر اس نے بڑی دنیا دیکھی۔ ظلم کو روکنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ اگر کوئی طیارہ بغداد پرحملہ کرنے نکلتا ہے تو یہ اس کا راستہ روکنے کے لیے مال روڈ کی ناکہ بندی کردیتی ہے۔
محبت میں محبوبہ نہیں، ملازمہ بن جاتی ہے۔ کہو پیاس لگی ہے تو پورا سمندر کٹورے میں بھر لائے گی، یہی نہیں پورا سمندر پلاکے بھی چھوڑے گی۔ اس نے حمید اختر، مسرت نذیر اور کئی لوگوں کی شادیاں کروائیں، لیکن مشورے ہمیشہ لڑکوں کو دیتی لڑکیوں کو اس لیے نہ دیتی کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ لڑکیوں کی شادیاں ہوجائیں۔
حافظہ اپنے بھائی احمد بشیر کی طرح۔ ایک بار مسز احمد بشیر نے گھر بدلنا تھا۔ اس نے نئے گھر کا ایڈرس لکھ کر احمد بشیر کی جیب میں ڈال دیا اور کہا کہ شام تک شیفٹنگ ہوچکی ہوگی۔ احمد بشیر نے دفتر آکر جیب میں یہ ایڈریس دیکھا تو ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ میری جیب میں کس کا پتہ ہے؟ شام کو واپس پرانے گھر آیا تو پتہ چلا کہ سامان تو نئے گھر میں شفٹ ہوچکا ہے۔ پوچھتے پچھاتے ایک گلی میں گیا وہاں بچیاں کھیل رہی تھیں ان سے پوچھا، ’’تمہیں پتہ ہے کہ نئے کرائے دار احمد بشیر کس گھر میں آئے ہیں۔‘‘ تو بچیوں نے کہا، ’’اس گلی میں چوتھا مکان ہے ابو۔۔۔!‘‘
پروین کسی کو پریشان نہیں دیکھ سکتی، اس لیے بہت کم آئینہ دیکھتی ہے۔ جب لکھتی ہے تو دوسروں کو دکھا دکھا کر کہتی ہے، ’’میری پہلی پہلی کوشش ہے، دیکھیں بات بنی بھی ہے یا نہیں؟‘‘ پہلے بچے کی پیدائش پر بھی یہی کیا۔ سوچتے بھول جاتی ہے کہ کیا سوچ رہی تھی۔
گھر میں اس قدر خوشحالی ہے کہ ہر کسی کے لیے علیحدہ علیحدہ کمرہ، ہر چیز الگ بلکہ اس کے تو ہر پاؤں کے جوتے الگ الگ ہوتے ہیں۔ چلتی ہوئی لگتی ہے نیند میں چل رہی ہے بلکہ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ نیند بھی ساتھ چل رہی ہے۔ مردوں کی توجہ سے نروس نہیں ہوتی بے توجہگی سے ہوتی ہے۔ تنقید برداشت نہیں کرسکتی نقاد برداشت کر لیتی ہے۔ اس کی تحریر کے بارے میں سب سےبری رائے اگر کسی کی ہے تو وہ اس کی اپنی ہی ہوگی۔ پوچھو، ’’آپ دائیں بازو کی لکھنے والی ہیں یا بائیں بامو کی‘‘ تو کہے گی، ’’میں تو دائیں بازو سے ہی لکھتی ہوں۔‘‘ اللہ نے اسے معمولی کام کرنے کے لیے غیر معمولی صلاحیتیں دی ہیں۔
کوئی نقصان ہوجائے تو غلطی ہمیشہ اپنی نکالے گی وہ پیدل چلتی ہوئی کسی کار سے ٹکراجائے تو گھر آکر افسوس کرے گی کہ میں نے کار کو سائیڈ کیوں ماری؟ سمجھتی ہے دوبےوقوف مل کر ایک عقلمند بن سکتا ہے۔ حالانکہ دوبےوقوف ایک بے وقوف سے زیادہ بے وقوف ہوتے ہیں۔ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھتی ہے۔ گھر میں اگر کسی کا پرس نہ ملے تو وہ نوکرانی سے کہے گی، ’’دیکھنا پروین عاطف کے کادندھے پر نہ لٹکا ہو۔‘‘
اپنی تحریروں کو سنبھال کر نہیں رکھتی، چاہتی ہے تحریریں اسے سنبھال کر رکھیں۔ کام اس قدر انہماک سے کرتی ہے کہ ارد گرد کو بھول جاتی ے کبھی کبھی تو اسے قدر مصروف ہوتی ہے کہ یہ بھی بھول جاتی ہے کہ کیا کر رہی ہے؟
گھر میں کوئی اور بیمار ہوتو پھر بھی باہر سے آنے والی اکثر اسی کی عیادت کرنے لگتے ہیں۔ چار بچے پیدا کیے۔ شاید اسے پتہ چل گیا ہوگا کہ دنیا میں پیدا ہونے والا ہر پانچواں بچہ چینی ہوتا ہے اور چینی بچےخوبصورت نہیں ہوتے۔ جوانی میں اکثر اسے سردرد رہتا۔ ڈاکٹر اس کے سر کا معائنہ کرتے مگر انہیں وہاں کچھ نہ ملتا۔ جس بات کا پتہ ہو وہ تو سب عورتوں کو بتاہی دیتی ہے اسے جس بات کا نہ بھی پتہ ہو وہ بھی سب کو بتا دیتی ہے۔
بچوں کو اپنا دوست اور دوستوں کو اپنا بچہ سمجھتی ہے۔ ایک دن کہنے لگی، ’’عورتوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’جو عورتوں کی مردوں کے بارے میں ہے‘‘ تو کہنے لگی، ’’مجھے پہلے ہی پتہ تھا تم عورتوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔‘‘
پچھلے دنوں مال روڈ پر ایک عورت جو بولنے سے پہلے کانپتی اور بولتی تو سننے والے کانپ اٹھتے، چولھا پھٹنے سے مرنے والی نوبیاہتا لڑکی کے سسرال کے خلاف احتجاج کر رہی تھی۔ کسی نے پوچھا، ’’یہ عورت اس لڑکی کی ماں ہے؟‘‘ دوسرے نے کہا، ’’نہیں! یہ پروین عاطف ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.