Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اگر میں شوہر ہوتی

سرور جمال

اگر میں شوہر ہوتی

سرور جمال

MORE BYسرور جمال

    آپ پوچھیں گے کہ میرے دل میں ایسا خیال کیوں آیا؟ آپ اسے خیال کہہ رہے ہیں؟ جناب یہ تو میری آرزو ہے، ایک دیرینہ تمنا ہے۔ یہ خواہش تو میرے دل میں اس وقت سے پل رہی ہے، جب میں لڑکے لڑکی کا فرق بھی نہیں جانتی تھی۔ اس آرزو نے اس دن میرے دل میں جنم لیا، جب پہلی بار میرے بھائی کو مجھ پر فوقیت دی گئی، ’جب‘ اور’اب‘ میں اتنا ہی فرق ہے کہ جب میں یہ سوچا کرتی تھی کاش میں لڑکا (بھائی) ہوجاتی، اور ان سارے سرکش اور فضول سے بھائیوں سے گن گن کر بدلہ لیا کرتی اور ان کی وہ پٹائی کرتی، کہ وہ بھی یاد کرتے، اور اب یہ سوچا کرتی ہوں کاش میں مرد (شوہر) بن جاتی اور میرے ’مظلوم اور بے زبان‘ شوہر میری بیوی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار جب ’وہ‘ بڑے طمطراق سے بولے، ’’کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں بیوی ہوتا اور تم شوہر‘‘، تو میں نے جھٹ یہ جواب دیا، ’’تو بن جائیے نا، اس میں سوچنے کی کیا بات ہے؟‘‘

    ’’اچھا تو یہ بتاؤ کہ تم شوہر، ہوتیں توکیا ہوتا؟‘‘

    ’’وہ نہ ہوتا جوآج ہورہا ہے۔‘‘

    ’’مان لو کہ تم شوہرہوگئیں۔ اب بتاؤ، تم کیا کروگی؟‘‘

    ’’توپھرمیں گن گن کر بدلہ لوں گی اورکیا کروں گی، لیکن ذرا مجھے اس بات پرخوش تو ہولینے دیجئے۔‘‘

    اور سچ مچ میرے اوپر تھوڑی دیر تک ایک عجیب سی کیفیت طاری رہی، اس روح پرور خیال نے میرے پورے جسم و جان میں ایک وجدانی کیفیت پیدا کردی اور میں سوچنے لگی، کہ واقعی اگر میں شوہر بن جاتی تو کیا ہوتا، لیکن اتنا ہی تو کافی نہیں ہوتا کہ میں شوہربن جاتی،اس کے ساتھ میرے شوہر بھی تو میری بیوی بنتے۔۔۔ مزہ تو جب ہی تھا۔

    ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھئے۔۔۔ اب میں شوہر بن گئی ہوں۔ مجھے کہیں دعوت میں جانا ہے، میں اپنی تیاری شروع کرتا ہوں۔ شیوبناتا ہوں، نہاتا ہوں، گھنٹہ بھر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکرکریم پوڈر مل مل کر بڑی مشکل سے اپنے کالے چہرے کو سانولے کی حد تک لے آتا ہوں، پھر ٹائی باندھتا ہوں، ناٹ درست کرنے میں بھی کم وبیش آدھا گھنٹہ لگ ہی جاتا ہے، پریس کی ہوئی پینٹ کی کریز درست کرتا ہوں، ٹائی کے ہم رنگ نمائشی رومال کو کوٹ کی اوپری جیب میں باقاعدہ جماتا ہوں، وہ گندا رومال جو منہ، ہاتھ، چشمہ اورجوتے پونچھنے کے کام آتا ہے، اسے پینٹ کی جیب میں رکھتا ہوں۔ اپنے فارغ البال ہوتے ہوئے سر پر بچے کچھے بالوں کی تہہ اچھی طرح جماتا ہوں، تاکہ کہیں سے سپاٹ چاند نہ نمودارہوجائے۔ گھر میں بدقسمتی سے ایک ہی آئینہ ہے اور اس پر کم وبیش ڈھائی تین گھنٹے میرا قبضہ رہتا ہے۔ گھر کے جملہ امور نوکر کو سمجھانے اور دروازے وغیرہ اچھی طرح بند کرنے کی ہدایت دے چکنے کے بعد جب میری بیوی (یعنی میرے موجودہ شوہر) آئینہ کے سامنے کھڑی ہوکر میک اپ شروع کرتی، تو میں ٹھیک اپنے موجودہ شوہر کی طرح کہتا ہوں، ’’بس اب تیار ہوبھی چکو، تمہاری وجہ سے پارٹی میں دیر ہوگئی۔ خدا بچائے عورتوں کے سنگار اور آرائش سے۔‘‘

    میرے باربار کہنے پر، کہ دیر ہو رہی ہے، جلدی کرو، وہ غریب پندرہ منٹ میں الٹی سیدھی تیار ہوجاتی ہے اور جلدی میں ایک نئی اور ایک پرانی چپل پہن کر، یا ساڑی سے میچ کرتا ہوا پرس میز ہی پر چھوڑ کر پرانا پھٹا ہوا پرس ہاتھ میں لٹکائے چل پڑتی ہے، اور میں اس کی سابقہ شوہرانہ زیادیتوں کو یاد کر کے دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوا اس کے ساتھ ہولیتا ہوں۔ جب ہم دعوت میں پہنچتے ہیں تو تقریباً لوگ واپس جارہے ہوتے ہیں۔ لیکن میں بڑی آسانی سے یہ کہہ کر صاف بچ جاتا ہوں۔

    ’’معاف کیجئے گا، ان کی تیاریوں میں دیر ہوگئی۔ عورتوں کا میک اپ تو آپ جانتے ہی ہیں۔‘‘

    پھربھلا کس میں ہمت ہے کہ اس عالمگیر جھوٹ (جسے حقیقت کہا جاتا ہے) سے انکار کردے۔

    شوہر بننے کے ایک اور افادی پہلو پر بھی ذرا غور کرلیں۔ مجھے کہیں صبح سویرے ہی جانا ہے، دسمبر کی کڑکڑاتی سردی ہے۔ میں گھڑی میں چار بجے کا الارم لگا کر سوجاتا ہوں، میری بیوی الارم کی کرخت اور مسلسل آواز سے گھبراکر اٹھ بیٹھتی ہے اور باورچی خانہ میں جاکر ناشتے کی تیاری میں جٹ جاتی ہے۔ اتنے سویرے نوکر کو اٹھانے کی کس میں ہمت ہے آپ ہی بتائیے، جب شوہر نہیں اٹھتا، تو نوکر کیا اٹھے گا۔ باورچی خانے میں کھٹ پٹ کی آواز ہوتی رہتی ہے، اور میں لحاف میں دبکا پڑا رہتا ہوں۔ گرما گرم پراٹھوں، انڈوں حلوے وغیرہ کی اشتہاانگیز خوشبو بھی مجھے بستر سے اٹھانے میں ناکام رہتی ہے تو پھر میری بیوی آتی ہے، ہولے ہولے مجھے اٹھاتی ہے، اور پھر جب میں گرم پانی سے شیو کرنے اور نہانے کے بعد تیار ہوکر میز پر پہنچتا ہوں تو ناشتہ کی بیشتر چیزیں اور چائے ٹھنڈی ہوچکی ہوتی ہے، اور ان چیزوں کے دوبارہ گرم ہونے میں جو وقت لگتا اسے اپنے لیٹ ہونے کا ذمہ دار قرار دے کر بکتا جھکتا میں گھر سے روانہ ہوجاتا ہوں۔

    اگر میں شوہر ہوتی۔ تو اس وقت کتنا مزا آتا جب دفتر سے ٹھیک ٹائم سے واپسی پر دفتر کے کینٹین یا کسی دوسرے ریستوران میں دوستوں کے ساتھ چائے ناشتہ کرتے ہوئے خوش گپیاں کرنے کے بعد منہ سکھائے ہوئے دفتر کے کام سے تھک جانے اور اپنے باس کی زیادتیوں کی شکایت لئے ہوئے گھر میں داخل ہوتا اور بے دم ہو کر مسہری پر گر پڑتا۔ بیوی بے چاری لپک کر جوتے اتارتی، پنکھا آن کرتی اور تکئے وغیرہ ٹھیک سے رکھ دیتی اور تھوڑی دیر کے لئے میرے آرام وسکون کی خاطر گھر کے تمام ہنگاموں کو روک دیا جاتا اور میں بیوی کی طرف سے کروٹ لئے دل ہی دل میں ہنسا کرتا۔

    اوراس سےبڑھ کرمزا تواس وقت آتا، جب دفتر سے نکلتے ہی یار لوگ کسی ادبی یا غیرادبی پروگرام کے لئے باہر ہی باہر مجھے گھسیٹ لیتےاورساڑھےپانچ بجے کی بجائے دس بارہ بجے رات کو تھکا ماندہ گھر پہنچتا اور بیوی کی عقلمندی اور تیزی وطراری کے باوجود اسے یہ باور کرانےمیں کامیاب ہوجاتا، کہ اسٹاف کی کمی کی وجہ سے آج میری ڈبل ڈیوٹی لگادی گئی تھی۔ میری بیوی دفترکے بدانتظامیوں کو برا بھلا کہتی ہوئی کھانا گرم کرنےچل پڑتی۔ باورچی خانےسےاس کی بڑبڑانے کی آواز آتی رہتی اور میں دل کھول کرخوش ہوتا اور مزے لیتا۔

    ایک اورپرلطف بات یہ ہوتی کہ میرے لئے پڑھنے لکھنے کا سامان اور سکون ہر وقت موجود ہوتا اور فرصت کے اوقات میں، میں بڑی آسانی سے لکھ پڑھ لیتا، میری زیادہ مصروفیت دیکھ کر میری بیوی گرم گرم چائے کی پیالی میزپررکھ جاتی یہی نہیں، بلکہ ایسے وقت میں ہر آنے والے کو’’صاحب گھر میں نہیں ہیں‘‘ کا پیغام پہنچا دیا جاتا۔

    اس وقت تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ ہوتا جب میں دیکھتا کہ میری بیوی اب کچھ لکھنے کو بیٹھی ہے۔ ابھی اسے کاغذ قلم لے کر بیٹھے ہوئے کچھ دیر بھی نہ ہوئی ہوتی کہ ملازم آدھمکتا۔

    ’’بی بی جی، سودا لایا ہوں، حساب ملالیجئے۔‘‘ تھوڑی دیر بعد ہانک لگاتا، ’’بی بی جی گوشت کیسا پکے گا، شوربے دار یا بھنا ہوا۔‘‘ پھر ایک آواز آتی، ’’بی بی جی! کپڑے لائی ہوں، ملالیجئے۔‘‘ اورمیری بیوی بھناتے ہوئے کاغذ قلم پٹک کر دھوبن کا حساب کتاب کرنے اور پھر میلے کپڑے لکھنے کو چل پڑتی، اور جب اس سے کوئی پوچھتا کہ آپ کےلکھنےپڑھنے کو کیا ہوا تو جل کر جواب دیتی، ’’چولھے بھاڑ میں گیا۔‘‘

    پہلی تاریخ کوایک فرماں بردارشوہرکی مثال قائم کرتے ہوئےتنخواہ بیوی کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے تمام آسانی اور زمینی آفتوں سے بری الذمہ ہوجاتا۔ بے فکری کے دن اور رات کٹتے، کبھی سوچنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ گھر کیسے چل رہا ہے۔ مقررہ جیب خرچ کے علاوہ بیوی کی صندوقچی پر بھی چھوٹے موٹے ڈاکے ڈالا کرتا اوراس کےپوچھنے پراچھی خاصی جنگ کا ماحول پیدا کردیتا۔ مجھے کبھی یہ پتہ نہ چلتا، کہ کب عید آئی اورکیسے بقرعید منائی گئی۔ ایک قربانی کے لئے بیوی نے کتنی قربانیاں دیں۔ دوسروں کے یہاں کی تقریبات نےاپنےگھرگرہستی کی دنیا میں کتنا بڑا زلزلہ پیدا کیا اورتنخواہ کی بنیادیں تک ہلیں۔ میں توبس ٹھاٹ سے ان تقریبات میں حصہ لیا کرتا، دوستوں اورعزیزوں سے ملاقاتیں ہوتیں، مزے دار کھانے ملتے اور خوب تفریح رہتی۔ اگر میری بیوی کبھی میری فضول خرچی سے تنگ آکر بجٹ فیل ہونے کی بات کہتی، تو میں بڑے پیار سے کہتا، ’’جان من! بجٹ فیل تو ہر بڑی حکومت کا رہتا ہے، بجٹ کا فیل ہونا باعثِ فکر نہیں، بلکہ باعث عزت وشوکت ہے۔‘‘

    توجناب یہ ہے کہ میراپروگرام، بس خدا ایک بار مجھے شوہر بنادے، تاکہ میں بھی فخر سے کہہ سکوں،

    زندگی نام ہے ہنس ہنس کے جئے جانے کا

    مأخذ:

    مفت کے مشورے (Pg. 80)

    • مصنف: سرور جمال
      • ناشر: بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1981

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے