Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اگر شیطان مرجائے

عطاء اللہ سجاد

اگر شیطان مرجائے

عطاء اللہ سجاد

MORE BYعطاء اللہ سجاد

    میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ زمانہ مردہ پرست واقع ہوا ہے، جب تک کوئی شخص زندہ رہتا ہے اس کے خلاف ہزاروں زبانیں زہر اگلتی ہیں۔ وہ اپنی بدکاریوں، غداریوں اور بے ایمانیوں کے لیے انگشت نما رہتا ہے (یہ اور بات ہے کہ ان الزامات کی صداقت اور عدم صداقت کا امتحان نہ کیا جائے)لیکن موت اس کے تمام عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ اس کے مخالفین جب یہ سنتے ہیں کہ وہ دنیا کی فضا میں آخری سانس لے چکا ہے تو ان کا لب و لہجہ فوراً بدل جاتا ہے اور وہی شخص جو کچھ عرصہ سے پہلے ان کی نظر میں دنیا جہاں کی برائیوں کا منبع ہوتا ہے دفعتہ حسن اخلاق اور دیانت و امانت کا دلکش پیکر بن جاتا ہے۔ اس دلچسپ تمثیل کا ایک پہلو یہ ہے کہ مرنے والا خود اس مدحت سرائی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا اورشاید اس کے دشمن دل ہی دل میں کہتے ہوں، ’’وہ ایک ایسے جہان میں پہنچ گیا ہے جہاں ہماری آواز اس تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے ہمیں اس بات کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے منہ سے اپنی تعریفیں سن کر غرور سے سر بلند کر سکے۔‘‘

    آپ اور آپ کے دوست کسی شخص کو تمام عمر حد درجہ کا بخیل اور کنجوس مشہور کرتے رہیں گے لیکن جب وہ موت سے ہم کنار ہو جائے گاتو آپ ہی میں سے کوئی شخص کہہ اُٹھے گا، ’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔‘‘ دوسرے صاحب فلسفیانہ انداز میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہیں گے، ’’بھائی وہ آدمی بڑا دانا تھا، شہدوں کی طرح دولت لٹاتا نہیں تھا۔ اس کا اصول تھا کہ دولت کی نمائش کم ظرفوں کا کام ہے۔‘‘ تیسرے صاحب کہتے ہیں، ’’لوگ کہتے ہیں وہ دل کا بڑا سخی تھا۔ آج تک کوئی سائل دروازے سے واپس نہیں گیا۔‘‘ اور اس موقع پر وہ اپنی طباعی سے فائدہ اٹھا کر مرحوم کی سخاوت کے دو تین قصّے ارتجالاً گڑھ دیتے ہیں اور لوگ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ دنیا اپنا بہترین انسان کھوچکی ہے۔

    محلّہ کے مولوی صاحب تمام عمر کسی آدمی کو کرسٹان، بے ایمان اور دوزخی کہتے رہیں، ان کی زبان اس کے خلاف سالہا سال تک تکفیر اگلتی رہے لیکن جب وہ مرجاتا ہے تو مولوی صاحب خود اسے غسل دیتے ہیں۔ اسے کفناتے ہیں اور اس کے بعد اپنے مقتدیوں کے سامنے مہینوں اس کاذکر کرتے ہیں، واللہ کیا مسلمان تھا۔ موت کے بعد چہرے پر جلال اور انوار کی بارش ہوتی رہی۔ مرتے وقت زبان پر کلمہ شہادت تھا۔ مجھ سے کہنے لگے مولوی صاحب میرے کلمے کے گواہ رہیو۔‘‘ سیاسی لیڈر اپنے مخالفین سے ہمیشہ لفظی جنگ میں مصروف رہتے ہیں۔ اسے ملک کا غداراور ملّت کا دشمن بتاتے ہیں لیکن جب وہ مر جاتا ہے تو ایک عظیم الشان جلسہ جس میں انسانی سروں کا ’’ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر‘‘ نظر آتا ہے۔ منعقد کیا جاتا ہے جس میں مرحوم کی ملی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے، پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا مانگی جاتی ہے اور عوام کو بتایا جاتا ہے کہ قصرِ قومیت کا ایک بہت بڑا ستون گرپڑا۔

    انہیں حقائق کے پیش نظر میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر شیطان آج مرجائے تو دنیا والوں کا رویہ کیا ہو شیطان ہی ایک ایسی ہستی ہے جسے خدا، اس کے فرشتوں اور کائنات انسانی نے ہمیشہ ملعون و مغضوب قرار دیا ہے۔ دنیا کی تمام زبانوں کے لغات میں جس قدر ملامت کے الفاظ ہیں وہ تمام شیطان پر صرف کیے جاتے ہیں لیکن شیطان اگر آج فنا کا جام پی لے تو اس کے متعلق دنیا کا نقطہ نظر یقینا بدل جائے گا۔ آج جس قدر برائیاں شیطان کے سر تھوپی جارہی ہیں، تقریباً اس سے دو گنی نیکیوں کا سہرا اس کی لاش پر باندھا جائے گا۔ دنیا کے اس سرے سے اس سرے تک ایک جوش پھیل جائے گا اور بڑے بڑے اخبار نویس، شاعر، فلسفی، عالم اور سیاسی لیڈر شیطان کو خراجِ تحسین ادا کریں گے۔ عوام ایک دوسرے سے اس کی صفات بیان کریں گے۔ ’’اجی کیسا دل گردے والا تھا۔ خدا اور اس کے سارے فرشتوں کے مقابلے میں آخر تک ڈٹا رہا۔ وہ تو عزرائیل نے موقع پاکر دبوچ لیا ورنہ یوں مر سکتا تھا۔

    ’’آدم کو سجدہ کرنے کی بات ہی کیا تھی۔ اتنی سی بات پر خدا سے بگڑ گئی۔ وہ دن اور یہ دن یہ خدا کی مخالفت سے باز نہیں آیا۔‘‘

    ایک فلسفی اخبار کے نمائندے کو بیان دیتے ہوئے فرمائیں گے :’’دنیا ایک ایسی قوت سے محروم ہوگئی ہے جس نے کائنات کا توازن برقرار رکھا ہوا تھا۔ شیطان کی عظمت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس نے آدم کو جنت کی بے عمل اور بے کیف زندگی سے نکال کر اسے حیات کی لذتوں اور رنگینیوں سے روشناس کرایا۔ اُس کی موت سے زندگی پھر نیکیوں کا گہوارہ بن جائے گی اگر ہم نے شیطان کی روح کو برقرار نہ رکھا تو مجھے ڈرہے کہ دنیا ہنگاموں سے خالی ہو جائے گی اور ہم جمود اور بے حسی کے اُسی جال میں گرفتار ہو جائیں گے۔ جس سے ابتدائے آفرینش میں حضرت شیطان نے ہمیں نجات دلائی تھی۔‘‘

    ایک اخبار نویس اس کی موت پر یوں تبصرہ کرے گا:۔

    ’’حضرت عزرائیل سے ہمیں ذاتی تعارف حاصل تھا اور ان کی موت کی خبر قارئین کو پہنچاتے وقت ہمارا دل غم سے فگار ہو رہا ہے وہ دنیا کے سب سے پہلے اخبار نویس تھے اور پروپیگنڈا کا فن ان کی طباعی کا مرہون منت تھا۔ انہوں نے حوا کو بہکا کر آدم اور حوّا کے خلاف جو کامیاب پروپیگنڈا کیا اس کا نتیجہ آج آپ کو اور ہمیں اس وسیع و عریض کائنات کی صورت میں نظر آرہا ہے حضرت عزرائیل کی تمام اِدھر اُدھر پروپیگنڈا کرتے گزری وہ اخبار نویسوں کے لئے منبع الہام تھے اور ان کی وفات صحافتی برادری کے لئے ایک صدمہ جانکاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘

    بذلہ سنج شاعر اس پرسوز نظمیں لکھیں گے اور تو اور علماء کے طبقے میں بھی ہلچل مچ جائے گی اور وہ کہیں گے

    ’’شیطان گمراہ کر کے ہمیں اس بات کا موقع دیتا تھا کہ ہم کفر کے فتوؤں کے لٹھ سے ان کی اصلاح کریں لیکن اس کی موت نے ہم سے یہ موثر طریقہ چھین لیا ہے۔ وہ مرچکا ہے اب دنیا میں حکومت نیکی کی ہوگی۔ افسوس کہ اب تقریریں کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی موضوع نہیں رہا۔‘‘

    سیاسی لیڈروں کو یہ خیال ستائے گا کہ شیطان کی موت سے سیاست کا بازار سرد پڑجائے گا اور اس بات کا اثر لازمی طور پر ہماری اقتصادی حالت پر ہوگا۔ دنیا کے جنگجو ڈکٹیٹر اس بات پر افسوس کریں گے کہ اب جنگ کے لیے بہانے تراشنے کا فن انھیں کون سکھائے گا۔ وہ حسرت سے اپنے آلاتِ حرب پر نظر کریں گے اور ’’ہائے شیطان پکار کر خاموش ہو جائیں گے۔ البتہ فرشتے ضرور اس واقعہ سے مسرور ہوں گے اور سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے کہیں گے۔ ’’اچھا ہوا مر گیا۔ کم بخت نے بہت پریشان کر رکھا تھا۔ اب جب تک خدا کوئی نیا شیطان نہیں بناتا ہم چین کریں گے‘‘ اور جبرائیل پکار اٹھے گا۔ ’’خاموش رہو۔ وہ ہم سب کا استاد تھا۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے