aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بادشاہ سلامت نے بچہ جنا

چراغ حسن حسرت

بادشاہ سلامت نے بچہ جنا

چراغ حسن حسرت

MORE BYچراغ حسن حسرت

    تاریخ اودھ میں جو عجائبات نظر آتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا عجوبہ غازی الدین حیدر کی بیگم کی بدعات ہیں۔ اس خاتون نے جو مبشر خان نجومی کی بیٹی تھی، سب سے پہلے امام مہدی کی ولادت کا تیوہار منانا شروع کیا، جو ماہ شعبان میں دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ یہاں تو خیر تھی لیکن بادشاہ بیگم نے کچھ عرصے کے بعد ایک اختراع فرمائی یعنی شرفا کی خوبصورت اور کمسن لڑکیوں کو گیارہ اماموں سے منسوب کر کے انہیں الگ الگ مکانوں میں رکھا۔ یہ لڑکیاں اچھوتیاں کہلاتی تھیں۔ ہر اچھوتی کی خدمت کے لیے متعین خادمائیں مقرر تھیں اور وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کرتی تیں۔ صرف حضرت علیؓ سے کوئی اچھوتی منسوب نہیں کی گئی۔ کیونکہ اس طرح حضرت فاطمہؓ کی شان میں گستاخی ہوتی تھی۔

    اچھوتیاں چونکہ ائمہ سے منسوب تھیں اس لئے شادیاں نہیں کر سکتی تھیں۔ ایک اچھوتی نے اس قید تنہائی سے نجات حاصل کرنے کے لیے عجیب طریقہ اختیار کیا یعنی ایک مرتبہ پچھلے پہر اٹھ کر رونا پیٹنا شروع کردیا۔ محل کی عورتیں جمع ہوگئیں۔ بادشاہ بیگم کو خبر ملی وہ بھی آئیں اور پوچھا کیا ہوا۔ اچھوتی نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ امام علیہ السلام میرے سامنے کھڑے ہیں اور نہایت بلند آواز میں مجھ سے کہہ رہے ہیں جا میں نے تجھے طلاق دی۔ میری آنکھ کھلی تو میں نے رونا شروع کردیا، کیونکہ امام کے نکاح سے خارج ہونے کے بعد دین و دنیا میں میرے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ بادشاہ بیگم نے یہ سن کر اس اچھوتی کو اسی وقت پالکی میں سوار کیا اور سامان سمیت اس کے میکے بھجوا دیا۔

    بادشاہ بیگم نے مشہور کر رکھا تھا کہ جنوں کا بادشاہ اس پر عاشق ہے۔ چنانچہ آٹھویں دسویں روز وہ بن سنور کر اور بھاری جوڑا اور زیور پہن کے ایک آراستہ پیراستہ کمرے میں بیٹھ جاتی تھی۔ پھر گائنیں حاضر ہوتی تھیں اور گانا بجانا شروع ہو جاتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ بھی رخصت ہوجاتی تھیں اور بالکل تخلیہ ہو جاتا تھا۔ محل کی خواصوں میں مشہور تھا کہ بادشاہ بیگم سے جنوں کے بادشاہ کی بات چیت بھی سنی ہے۔ تو ہم پرست لوگ جو کچھ سنتے تھے اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کرلیتے تھے اور تو اور خود غازی الدین حیدر کو ان باتوں پر پورا یقین تھا۔ وہ اپنی بیگم سے بہت ڈرتا تھا اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ شاید اسے یہ اندیشہ بھی تھا کہ بیگم کہیں بادشاہ جنات سے کہہ کے سلطنت ہی نہ چھنوادے۔

    نصیر الدین حیدر جو غازی الدین حیدر کے بعد تخت پر بیٹھا، ان بدعات میں بادشاہ سے بھی بڑ ھ گیا۔ وہ صبح دولت نام کےایک خواص کے بطن سے تھا لیکن بادشاہ بیگم نے اسے اپنے بیٹوں کی طرح پالا تھا۔ اس لیے بچپن میں جو دیکھا تھا اس کا نقش ایسا گہرا تھا کہ حکومت ہاتھ آئی تو خود بھی اس قسم کی حرکت شروع کردی۔ اس نے بھی اپنی ماں کی طرح گیارہ اچھوتیاں جمع کیں جو گیارہ اماموں سے منسوب تھیں۔ ان کے لیے بھاری بھاری جوڑے اور زیور تیار کرائے۔ جب کسی امام کی ولادت کا دن آتا تھا تو بادشاہ اپنے آپ پر حاملہ عورت کی سی کیفیت طاری کر لیتا۔ اس طرح روتا اور کراہتا کہ گویا سچ مچ درد زہ میں مبتلا ہے۔

    پھر بچہ کی جگہ ایک مرصع گڑیا بادشاہ کے سامنے رکھ دی جاتی۔ مبارک سلامت کا غل مچتا۔ زچہ گیریاں گائی جاتیں۔ چھ دن بادشاہ زچہ خانے میں رہتا۔ جو مقوی دوائیں اور کھانے زچاؤں کو دیے جاتے ہیں، وہ سب بادشاہ کو کھلائے جاتے۔ لکھنؤ میں ایسے موقعوں پر بڑے تکلفات ہوتے ہیں اور بہت سی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ اس موقع پر یہ تمام رسمیں ادا ہوتیں۔ چھٹے دن بادشاہ غسل کرتا۔ رات ہوتی تو بادشاہ زنانہ لباس پہنے گڑیا کو گود میں لیے لنگڑاتا ہوا تارے دیکھنے نکلتا۔ اب کھانے تقسیم ہوتے۔ گویوں کی تانوں اور مبارک سلامت کی صداؤں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔

    اس رسم سے فراغت ہوتی تھی تو بادشاہ محافہ پر سوار باجے گاجے کے ساتھ شہر میں نکلتا۔ آگے آگے ہاتھی ہوتے تھے۔ ان کے پیچھے سواروں کے پرے، پیدلوں کی پلٹنیں۔ پیچھے بادشاہ کا محافہ جس کے داہنے، بائیں سوار ہوتے تھے۔ امراء دربار اور معززین۔ غرض اس شان سے بادشاہ سارے شہر کا چکر لگا کے پھر شاہی محل میں داخل ہوتا۔

    سلاطین اودھ کے اللے تللوں کا ذکر کتابوں میں پڑھتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کا سارا سال تو اسی قسم کی رسموں میں گزر جاتا ہوگا۔ امور سلطنت کی طرف توجہ کرنے کا موقع کب ملتا ہوگا۔ دراصل یہ امور سلطنت کی جانب توجہ ہی کب کرتے تھے۔ سلطنت کے معاملات پر وزراء اور دوسرے عہدہ دار مسلط تھے جو رعایا کو بے دریغ لوٹتے تھے۔ لکھنؤ جو اس حکومت کا مرکز تھا، وہاں کے لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ اس قسم کی حرکات کو عظمت شاہانہ کا نشان سمجھتے تھے اور جو بادشاہ اس معاملہ میں دوسروں سے آگے بڑھ جاتا تھا، اس کی عظمت کے قائل ہوجاتے تھے۔ آصف الدولہ کو محض اسراف بے جا کی وجہ سے لوگ ’’ولی‘‘ کہتے تھے اور دکاندار یا آصف الدولہ ولی کہہ کے دوکان کھولا کرتے تھے۔

    مأخذ:

    مضامین چراغ حسن حسرت (Pg. 84)

    • مصنف: چراغ حسن حسرت

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے