Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بندہ پرور! کب تلک؟

کنہیا لال کپور

بندہ پرور! کب تلک؟

کنہیا لال کپور

MORE BYکنہیا لال کپور

    بندہ پرور! یہ سگریٹ جو میں نے ابھی آپ کو پیش کیا ہے دو سال ہوئے دو پیسےمیں یہاں بکتا تھا۔ پچھلے سال تین پیسے میں اور ان دنوں ایک آنے میں مل رہا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ آپ نے اس کی قیمت بڑھا کر مجھ پر احسان کیا ہے۔ میں آپ کی طرح ریاضی میں ماہر نہیں ہوں۔ لیکن یہ بات تو کسی معمولی ریاضی داں کی سمجھ میں بخوبی آ سکتی ہے کہ آپ نے سگریٹ کی قیمت سو فی صد بڑھا کر کرم نہیں ستم کیا ہے۔ اس پر بھی آپ فرماتے ہیں کہ میں اس ستم کو ستم نہ کہوں۔

    اچھا آپ کی خاطر اسے کرم تسلیم کر لیتا ہوں کہ آپ شریف آدمی ہیں۔ میرا مطلب ہے کبھی ضرور شریف ہوا کرتے تھے۔ آپ کہتے ہیں، اگر سگریٹ مہنگے ہوگئے ہیں، تو میں بیڑی کیوں نہیں پیتا۔ لیکن بندہ پرور! بیڑی بھی آج کل کونسی سستی ہے۔ بیڑی سگریٹ کے بھاؤ بکتی ہے۔ سگریٹ سگار کے بھاؤ اور سگار اتنا مہنگا کہ آپ کے علاوہ بہت کم لوگ پی سکتے ہیں۔ خیر سگریٹ اور بیڑی کی بات جانے دیجئے۔ ان کے بغیر بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے۔ راشن کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ خدا نخواستہ کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھتے کہ راشن کے بغیر بھی آدمی زندہ رہ سکتا ہے۔

    بندہ پرور! پچھلے ہفتے جو مجھے راشن ملا، اس میں گیہوں کم اور کنکر زیادہ تھے۔ آپ یقین فرمائیے کہ گیہوں صاف کرتے وقت کئی بار سوچنا پڑا کہ اس میں سے کنکر چنے جائیں یا گیہوں۔ اگر ایسا راشن کھا کھا کر میری انتڑیاں یا گردے یا دونوں بیکار ہوگئے تو آپ تو یہی کہیں گے کم بخت اندھا تھا۔ مٹی اور گیہوں ملا کر کھاتا رہا اور شاید میں تسلیم کرلوں گا کہ میں واقعی اندھا تھا کیونکہ آپ شریف آدمی ہوں نہ ہوں چالاک ضرور ہیں۔ راشن کی کوالٹی کو چھوڑیئے۔ اس کی کوانٹٹی کو لیجئے۔ کسی ہفتے آپ مجھے پانچ چھٹانک دیتے ہیں اور کسی ہفتے تین چھٹانک۔ کیا آپ کا یہ تو خیال نہیں کہ ایک ہفتے مجھے بھوک زیادہ لگتی ہے اور دوسرے ہفتے کم۔ آپ کی دعا سے ابھی میرا ہاضمہ خراب نہیں ہوا۔ مجھے ہر ہفتے ایک جیسی بھوک لگتی ہے۔ اس لئے کم از کم جب تک میرا ہاضمہ بگڑتا نہیں مجھے پانچ چھٹانک راشن دینے کی عنایت کیجئےاور سنئے بندہ پرور! جب خراب راشن اور نا خالص گھی کھانے کے بعد بیمار پڑتا ہوں تو بخدا! بیماری سے اتنا ڈر نہیں لگتا جتناآپ کے ڈاکٹروں سے۔ سبحان اللہ! کیا خیراتی شفا خانے کھول رکھے ہیں آپ نے۔ گھنٹوں قطار میں کھڑا رہتا ہوں لیکن باری نہیں آتی۔ ایک انار و صد بیمار والا معاملہ ہوتا ہےاور پھر اسپتال! اگر بستر ملتا ہے تو دوا نہیں ملتی۔ دوا ملتی ہے تو بستر نہیں ملا۔ ڈاکٹر بات سن لیتا ہے تو نرس پروا نہیں کرتی۔ نرس مہربان ہوتی ہے تو کمپونڈر روٹھ جاتا ہے۔ گستاخی معاف! کہیں آپ نے یہ شفا خانے آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لئے تو نہیں کھولے۔ اگر یہ بات ہے تو پھر تو وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔

    بندہ پرور! پچھلے چند سالوں سے آپ نے اتنے ’’جرمانے‘‘ لگا دیئے ہیں کہ بسا اوقات سوچتا ہوں کہ آپ کا کام صرف جرمانے لگانا اور میرا کام جرمانے ادا کرنا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں کماتا اسی لئے ہوں کہ آپ کے لگائے ہوئے جرمانے ادا کر سکوں۔ اگر گھڑی خریدتا ہوں تو گھڑی خریدنے کا جرمانہ ادا کرتا ہوں۔ اگر قلم لیتا ہوں تو قلم خریدنے کا جرمانہ دیتا ہوں۔ گھڑی یا قلم خریدنے کے بعد جو تھوڑی بہت ’’کمر‘‘ بچ جاتی ہے۔ اسے آپ کا جرمانہ توڑ دیتا ہے۔ خون پسینہ بہا کر روپیہ کماتا ہوں۔ لیکن روپیہ کمانے کا بھی جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ آپ میری ہمت اور مشقت کو سراہتے اور مجھے ایک آدھ تمغہ عطا فرماتے لیکن آپ تو الٹا جرمانہ طلب کرتے ہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ آپ یہ جرمانے اپنے قول کے مطابق میری بہبودی کے لئے وصول کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ میں میری بہبودی کیا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ آپ میری کھال اتراتے یا خون نچوڑتے چلے جائیں اور ساتھ ساتھ کہیں کہ آپ میری بہبودی کے لئے کر رہے ہیں۔ میں آپ جیسا ذہین نہ سہی لیکن اتنا کند ذہن بھی نہیں کہ آپ میری کھال اتاریں، مجھے تکلیف محسوس ہو اور میں اسے اپنی بہبودی سمجھوں۔

    اچھا یہ بھی جانے دیجئے۔ یہ جو آج کل آپ مجھے فلمیں دکھا رہے ہیں ان کے متعلق کیا ارشاد ہے۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجھے دکھانے سے پہلے جب آپ خود دیکھتے ہیں تو آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں اور کانوں میں روئی ٹھونس لیتے ہیں۔ اسی لئے تو آپ کو عریاں سے عریاں منظر نظر نہیں آتا اور بیہودہ سے بیہودہ گانا سنائی نہیں دیتا۔ ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ آپ ایسی فلمیں مجھے اور میرے بچوں کو کبھی نہ دکھاتے، پھر ستم یہ کہ کسی بھی اچھے ملک کی بنی ہوئی فلمیں آپ مجھے دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ کہیں آپ کی رائے میں فلموں سے مراد محض’’ننگی پنڈلیاں‘‘ یا ’’نیم عریاں سینے‘‘ تو نہیں۔ بندہ پرور کچھ سمجھ دار لوگ تو فلموں سے بڑے بڑے کام نکالتے ہیں۔ پھر آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ نیم عریاں اعضا کی نمائش ہی فلموں کا سب سے بڑا افادی پہلو ہے۔ آپ کا اپنا مذاق لاکھ پست سہی لیکن آپ میرامذاق بگاڑنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ آپ شاید کہیں گے کہ تمہارا مذاق سنوارنا میر اکام نہیں۔ یہ ادباء اور معلمین کا ہے لیکن آپ نے ادباء اورمعلمین کے لئے کیا کیا ہے۔ یہی نا کہ بہترن ادباء اورمعلمین کو جیل کی کوٹھریوں میں بند کر دیا اور باقی کی تصانیف کو نذر آتش کر ادیا۔

    یہ بھی فضول بات ہے؟ اچھا اسے بھی رہنے دیجئے۔ خدارا یہ بتائیے کہ آپ مجھ سے خواہ مخواہ کیوں ڈرتے رہتے ہیں۔ میں تو ایک بے ضرور انسان ہوں۔ میرے پاس نہ پستول ہے نہ بم۔ پستول میں نے دوسروں کے پاس دیکھا ضرور ہےلیکن یقین فرمایئے،چلایا کبھی نہیں اور بم! بم کی شکل سے ہی نا واقف ہوں لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ میں ہر وقت ہاتھ میں پستول اور بغل میں بم لئے پھرتا ہوں۔ یہ جو آپ نے نصف درجن خادم صرف میری نگرانی کے لئے تعینات کر رکھتے ہیں، میرے خیال میں بڑے مضحکہ خیز ہیں۔ انہیں اس کے سوا کوئی کام نہیں کہ سائے کی طرح میرے پیچھے لگے رہیں۔ سایہ تو صرف روشنی میں تعاقب کرتاہے۔ یہ تاریکی میں بھی پیچھا کرنے سے باز نہیں آتے۔ اگر میں کسی ہوٹل میں چائے پینے جاتا ہوں تو یہ بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ میں چائے کا پیالہ اٹھاتا ہوں، یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ میں پیالہ دائیں ہاتھ سے اٹھاتا ہوں یا بائیں ہاتھ سے۔ اگر میں فلم دیکھنے جاتا ہوں تو وہ یہ دیکھنے جاتے ہیں کہ میں کون سی فلم دیکھنے گیا تھا اور پھر یہ میرےمتعلق عجیب و غریب انکشافات کرتے رہتے ہیں۔’’آج شام کے پانچ بجے یہ خطرناک شخص فلاں سڑک پر کھڑا تھا۔ معلوم ہوتا ہے سڑک کو بارود سے اڑانے کی ترکیب سوچ رہا تھا۔‘‘ کل دن کے ایک بجے یہ شخص فلاں بینک میں داخل ہوا۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بینک کو لوٹنا چاہتا تھا‘‘۔ ’’آج صبح کے سات بجے یہ شخص سیکریٹریٹ کے سامنے سے گذر رہا تھا۔ صاف ظاہرہے حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا تھا۔‘‘

    بندہ پرور! جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بتایا، میرے پاس پستول ہے نہ بم۔ پیشہ آبا سو پشت نہیں ہزار پشت سے سپہ گری نہیں رہا۔ ایک معمولی سا سیکنڈ ہینڈ قلم ضرور ہے۔ اس کی نب بھی اتنی گھس چکی ہے تین بار روشنائی میں ڈبوؤں تو ایک لفظ لکھتی ہے۔ پھر خواہ مخواہ میرا تعاقب کیوں کیا جا رہا ہے۔

    بندہ پرور! آپ کہیں گے کہ میری سب شکایتیں فضول ہیں یا یہ کہ وہ جائز ہیں لیکن آپ انہیں رفع کرنے کی کوشش کریں گے۔ پانچ سال ہوئے آپ نے یہی کہا تھا آج بھی وہی کہتے ہیں۔ مجھے نہ اس وقت یقین آیا تھا نہ اب آ رہا ہے۔ لیکن ان پانچ سالوں کے بعد بھی اگر چہ آپ وہی ہیں جو پہلے تھے۔ کم از کم میں یقینا وہ نہیں ہوں جو کبھی تھا۔ آپ کے پاس لاکھ خوبصورت الفاظ سہی لیکن اب آپ مجھے ان خوبصورت جھنجھنوں سے بہلا نہیں سکتے۔ میں جانتا ہوں آپ بڑےشعبدہ باز ہیں لیکن اتنا تو آپ بھی تسلیم کریں گے کہ جب کسی شعبدے کا بھانڈا چوراہے پر پھوٹ جاتا ہے تو وہ شعبدہ نہیں رہتا، ایک بہت بڑا مذاق بن جاتا ہے۔ آپ مجھے ہزاروں سبز باغ دکھائیں لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ وہ باغ ہیں جہاں بہار کا بھولے سے بھی گزر نہیں ہوتا۔ یہ نہ صر ف میں نے جان لیا ہے بلکہ میرے جیسے لاکھوں انسانوں پر یہ راز کھل چکا ہے کہ آپ اورداغ دہلوی کے ’’بت حیلہ جو‘‘میں صرف یہ فرق ہے کہ وہ خوبصورت تھا اور آپ خوبصورت نہ ہونے کے باوجود’’حیلہ جو‘‘ ہیں۔ ان حالات میں آپ کا یہ کہنا کہ آپ ایک بارپھر مجھے فریب دینے کی کوشش کریں گے، کہاں تک کار آمد ہو سکتاہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ عوام کو فریب دیا جا سکتا ہے اور دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بندہ پرور کہ بندہ پرور! کب تلک؟

    مأخذ:

    بال و پر (Pg. 123)

    • مصنف: کنہیا لال کپور
      • ناشر: لاجپت رائے اینڈ سنز، دہلی
      • سن اشاعت: 1953

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے