aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھوک ہڑتال

محمد یونس بٹ

بھوک ہڑتال

محمد یونس بٹ

MORE BYمحمد یونس بٹ

    پہلے لوگ اپنا وزن کم کرنے کے لیے سلمنگ سنٹروں کے چکر لگاتے تھے۔ میرے ایک دوست نے بھی بیرون ملک ایک سلمنگ سنٹر سے سو پونڈ کم کیے۔ میں نے پوچھا، ’’کیسے؟‘‘ کہنے لگا، ’’جب میں سلمنگ سنٹر میں گیا تو میرے پاس ڈیڑھ سو پونڈ تھے۔ باہر نکلا تو میری جیب میں صرف پچاس پونڈ رہ گئے تھے۔‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی کارکنوں اور سیاست دانوں کو سمارٹ اور ایکٹو بنانے کے لیے بھوک ہڑتال کا اہتمام کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ علامتی ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کم سے کم وقت کی بھوک ہڑتال سے مستفید ہو سکیں۔ مجھے لگتا ہے یہ حکومت کی بجائے سلمنگ سنٹرز کا کاروبار ٹھپ کرنے کے لیے ہے۔ بہرحال دیکھتے ہیں اس کے ہماری سیاست پر کیا نقوش مرتب ہوتے ہیں؟

    مجھے یقین ہے کہ محترمہ کو بھوک ہڑتال کا یہ مشورہ کسی سیاست دان نے نہیں کسی سیانے ڈاکٹر نے دیا ہے۔ اگرچہ محترمہ کی اپنی صحت تو ہمارے جیسی ہی ہے اور ہماری صحت ایسی ہے کہ ایک بار پارسل بھیجنا تھا، سوڈاک خانے گئے تو انہوں نے کہا، ’’فوری ڈیلیوری (یہاں ڈیلیوری سے مراد وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں) کے لیے پندرہ روپے لگیں گے اور روٹین میں دس روپے۔‘‘ ہم نے کہا، ’’بھئی کوئی جلدی نہیں، بس ہماری زندگی میں یہ منزل پر پہنچ جانا چاہیے۔‘‘ تو انہوں نے ہمیں سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا اور کہا، ’’ٹھیک ہے نکالیں پندرہ روپے۔‘‘ محترمہ تو پہلے ہی ایسی ہیں کہ کسی نے کہہ دیا، انہوں نے سالم انڈہ کھایا ہے تو ناہید خان کو وضاحت کرنی پڑی کہ سالم انڈا نہیں کھایا، توڑ کر کھایا ہے۔ بہرحال انہوں نے ’’بڑے پیٹ‘‘ کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیاست دان اور پیٹ میں یہ قدر مشترک ہے کہ پیٹ ہمیشہ بھول جاتا ہے کہ ہم نے اسے پہلے کیا دیا اور جونہی خالی ہوتا ہے درد کرنے لگتا ہے۔ ایڈلائی سٹیو نسن نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جس کا پیٹ خالی ہوتا ہے وہ آزاد آدمی نہیں ہوتا۔ یوں ہمارے ملک میں سیاست دان ہی آزاد ہیں۔

    علامتی بھوک ہڑتال کا مفہوم مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوتا ہے جیسے اگر خواجہ ناظم الدین ہوتے جو اپنے ہاضمے کی وجہ سے خواجہ ہاضم الدین کہلاتے تھے، تو علامتی بھوک ہڑتال کا مطلب یہ ہوتا کہ صرف ایک چرغہ کھائیں گے۔ نواب زادہ نصراللہ خان کی علامتی بھوک ہڑتال کا مطلب ہوتا سارا دن حقہ نہیں پئیں گے۔ مولانا نورانی کا ہوتا پان نہیں کھائیں گے، جب کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی بھوک ہڑتال کا مطلب یہ ہے کہ دوپہر کو ابلے آلو نہیں کھائیں گی، محترمہ کو آلو پسند ہیں۔ بھٹو مرحوم کو بھی اتنے پسند تھے کہ جسے پسند کرتے اسے ’’آلو خان‘‘ کہتے۔ اس بھوک ہڑتال میں ملک قاسم کے ساتھ اصغر خان بھی پیش پیش ہیں۔ اگرچہ ان کا تو پہلے ہی کوئی وزن نہیں، وہ کم کیا کریں گے؟ ایک شخص نے کہا، ’’ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغر خان بھوک ہڑتال کرنے اسلام آباد جا رہے ہیں۔‘‘ تو دوسرے نے کہا، ’’اس دن اسلام آباد کہاں جا رہا ہے؟‘‘

    شیخ رشید جو پیپلز پارٹی کے سینئر نائب صدر ہیں، اس قدر مستقل مزاج ہیں کہ جب بلاول پارٹی کا چیئرمین ہوگا تب بھی یہی نائب صدر ہوں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھوک ہڑتال جو ان لوگوں کا کام ہے۔ یوں انہیں جوان ہونے کا اک موقع مل رہا تھا مگر اپنی طبیعت کے ہاتھوں رہ گئے۔ وہ تو پیڑھی پر بیٹھے ہوں تو کہا جائے کرسی پر بیٹھ جائیں تو پیڑھی سمیت کرسی پربیٹھنے کی کوشش کریں گے۔

    ویسے محترمہ اگر بھوک ہڑتال ماہانہ کردیں اور ایک دن کا کھانا ان لوگوں کو بھجوا دیا کریں جن کے ہاں پورے مہینے بھوک ہڑتال رہتی ہے بلکہ وہاں بھوک ہی تو ہوتی ہے جو ہڑتال پر نہیں ہوتی، کھانا ہڑتال پر ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کو ان بھوکوں کے دکھ بانٹنے چاہئیں جیسے ایک خاتون نے ہونے والے خاوند سے کہا، ’’شادی کے بعد میں آپ کے دکھ بانٹا کروں گی۔‘‘ اس نے کہا، ’’مگر مجھے تو کئی دکھ نہیں۔‘‘ تو وہ بولی، ’’میں شادی کے بعد کی بات کر رہی ہوں۔‘‘ شاید اسی لیے ہر سیاست دان یہی کہتا ہے اگر میں جیت گیا تو آپ کے دکھ بانٹوں گا۔

    دیکھتے ہیں بھوک ہڑتال سے کہیں ان کے وزن کے ساتھ ساتھ ان کی باتوں کا وزن بھی نہ کم ہو جائے۔ ایک بار ایک خاوند کو بیوی نے ہسپتال سے فون کیا اور کہا، ’’ہسپتال میں دوہفتے قیام سے میرا آدھا وزن کم ہوگیا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے گھر آجاؤں یا ابھی ایک آدھ دن وہیں رہوں۔‘‘ تو شوہر نے جواب دیا، ’’تمہیں تمام سہولتیں بہم پہنچائی جائیں گی مزید دوہفتے ہسپتال میں ضرور قیام کریں۔‘‘

    مأخذ:

    افرا تفریح (Pg. 51)

    • مصنف: محمد یونس بٹ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے