Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بن بیاہوں کی کانفرنس

ہاشم عظیم آبادی

بن بیاہوں کی کانفرنس

ہاشم عظیم آبادی

MORE BYہاشم عظیم آبادی

    پورا پنڈال بن بیاہوں سےبھرا ہواہے۔ شوروغل لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ کہیں سے سیٹی بجنے کی آواز آرہی ہے تو کہیں سے الم غلم بکنے کی۔ اس عرصہ میں ایک صاحب زادے مائک کے سامنے آکر گہر افشانی کرتے ہیں۔۔۔ ’’دوستو! اب کانفرنس کی کاروائی شروع کی جارہی ہے۔ میری درخواست ہے کہ خاموش بیٹھ کر بن بیاہوں کی اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔‘‘

    دوستو ابھی ہمارے سامنے مرحلہ ہے صدر کے انتخاب کا۔ اس کانفرنس کی صدارت کے لیے ’حضرت لنگوٹ بند‘ رونق افروز ہوکرہماری عزت افزائی فرمانے والے تھے۔ لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ کل سے صاحبِ موصوف پر کچھ ایسی وجدانی کیفیت طاری ہے کہ ان کا تشریف لانا ناممکن ہے۔ پھر بھی ہماری خوش بختی ہے کہ اس پنڈال کے اندر ایک ایسی معزز ہستی موجود ہے جس کی ذاتِ گرامی پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔۔۔ آپ کےاسم ِمبارک سے کون واقف نہیں بھلا۔ آپ ’تلک بڑھاؤ کمیٹی‘ کے سرگرم رکن ہیں۔ آپ کا مقابلہ بیسوں مرتبہ ’تلک توڑ جماعت‘ سے ہو چکا ہے۔ مگر اپنی گونا گوں خوبیوں کے باعث ہمیشہ ’تلک توڑ‘ والوں پرغالب رہے ہیں۔۔۔ تو میں ’حضرت بیڈھب‘ یعنی تلک بڑھاؤ کے صدر کا اسم گرامی بن بیاہوں کی اس کانفرنس کی صدارت کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ حضرت سلامت ہمیں مایوس نہ فرمائیں گے۔‘‘

    (ایک صاحب کھڑے ہوکر) میں اس تجویز کی پر زور تائید کرتا ہوں۔۔۔ حضرت بیڈھب کرسیٔ صدارت سنبھال لیتے ہیں، ہر طرف سے تالیاں بجنے لگتی ہیں۔

    ’حضرت بیڈھب‘ مقرروں کی فہرست دیکھ کر پکارتے ہیں، ’’عزیزم لق لق سلمہ تشریف لاکر اظہارِ خیال فرمائیں۔‘‘ ارے! یہ میاں لق لق تو واقعی اسم با مسمٰی نکلے۔ میں انہیں دیکھتے ہی بے ساختہ بول اٹھا،

    پھر قبر سے اللہ نے مجنوں کو نکالا

    میاں لق لق نے تقریر شروع کی، ’’جناب صدر اور معزز حاضرین! میں مشکور ہوں کہ جناب صدر نے اس بندۂ ناچیز کو سب سے پہلے اظہارِ خیال کا موقع عنایت فرمایا۔ میں چاہتا ہوں کہ پہلے اپنے بن بیاہے دوستوں سے اپنا تعارف کرادوں۔ اور ساتھ ہی اپنے نام کی وضاحت بھی۔۔۔ (ادھر ادھر دیکھ کر) خدا نخواستہ یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ میں واقعی لق لق ہوں۔ اجی صاحب یہ نام میرے بزرگوں کا رکھا ہوا ہے۔۔۔ میرا نام لق لق سہی لیکن جرأت و ہمت دیکھئے کہ میری ہی قوتِ عمل کا نتیجہ ہے کہ آج سینکڑوں کی تعداد میں بن بیاہے ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکراپنےمستقبل کو درخشاں بنانے کے لئےغورکررہےہیں (رومال سے پسینہ پونچھ کر) یہ سن کر آپ لوگوں کو مسرت ہوگی کہ اس بندۂ ناچیز ہی کو سب سے پہلے یہ احساس ہوا کہ جب بوڑھے اپنی کانفرنس بلا کر ہم نوجوانوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے طرح طرح کےریزولیشن پاس کرسکتے ہیں تو کیا ہم بن بیاہے بھی اپنے مستقبل کے متعلق غور وخوض کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو سکتے۔

    اللہ پاک کا ہزار ہزار شکر ہے کہ میری دیرینہ تمنا بار آور ہوئی اور سینکڑوں کی تعداد میں بن بیاہے دوست پنڈال کے اندر لہلہاتے نظر آرہے ہیں۔ (تالیاں)

    میرے دوستو ! کچھ ایسا وقت آگیا ہے کہ ہم بن بیاہوں کو اپنے تحفظ کے لئے سینہ سپر ہونا ہی پڑے گا۔۔۔ (آواز۔۔۔ بیشک بیشک) اب وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑاتے تھے۔ یعنی اب ہمارا معیار ِشادی بہت بلند ہو چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شادی کے قبل اب ہمیں یہ بھی دریافت کرنے کی ضرورت نہیں کہ لڑکی کی صورت و شکل کیسی ہے۔ تعلیم کہاں تک ہے۔ تندرستی کیسی ہے۔۔۔ معاف کیجئے گا،ہم شاعرہیں نہیں کہ ان فضولیات میں پڑ کر اپنا عزیز وقت ضائع کریں۔ بلکہ میں توکہتا ہوں کہ لڑکی کی شکل الٹےتوے کو بھی مات کررہی ہو تو بھی ہمیں انکار کی گنجائش نہ ہونی چاہئے۔ بشرطیکہ ہونے والے سسر موٹے اسامی یعنی خوب پیسے والے ہوں اور اتنی نقدی ملنے کی امید ہو کہ اگر خدا نخواستہ نوکری نہ ملی تو چین سے زندگی بسر ہو سکے گی۔ کہئے، کیا میں غلط کہہ رہا ہوں۔ میرا خیال بلکہ یقینِ واثق ہے کہ میرے بن بیاہے دوستوں کو ضرور اس سے اتفاق ہوگا۔ کسی نے خوب کہا ہے،

    چلوچال اب تم زمانےکےقابل

    ’’معاف کیجئےگا میں اپنی تقریر نامکمل چھوڑ کر رخصت ہو رہا ہوں۔ بات یہ ہےکہ نہ جانے کیوں چکر سا آنے لگا ہے۔۔۔‘‘ (ایک کونے سےآواز۔۔۔ لق لق جو ٹھہرے)

    جناب صدر کا اشارہ پاکر دوسرے صاحب تشریف لاتے ہیں اور اپنی شیروانی کے بٹن سے کھیلتے ہوئے گہر افشانی کرتے ہیں۔

    ’’صاحب صدر، اور بن بیاہے دوستو۔ میں اپنی عادت کے موافق طوالت کو راہ نہ دے کر سیدھا اپنے موضوع کی طرف رجوع کرتا ہوں۔۔۔‘‘

    دوستو۔ بعض کھوسٹ اور پرانے خیال کے لوگ ہم پر منہ آتے ہیں کہ ہم اپنے ہونے والے سسر سے روپیوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عجیب واہیات اور بے ڈھب اعتراض ہے۔ خدا کی قسم، بسا اوقات یہی طبیعت چاہتی ہے کہ ان کا منہ نوچ لوں۔ اجی صاحب ہم بن بیاہے ضرور روپئے کا مطالبہ کریں گے چاہے سارے خسر قسم کے لوگوں کی معاشی اورملکیت نیلام پر کیوں نہ چڑھ جائے۔

    (ایک گلاس پانی پی کر) دوستو! انصاف دنیا سے رخصت ہوگیا ۔ لوگوں کا خون سفید ہوگیا۔ سنئے اور ذرا دھیان سے سنئے۔ لڑکیاں اپنے گھروں میں کس قدر بھاری ہوتی ہیں۔ صرف اپنے عزیز و اقارب ہی پر نہیں بلکہ محلہ والوں پر بھی بار ہوتی ہیں۔اور جیسا کہ سننے میں آتا ہے کہ کنواری لڑکیوں کو دیکھ کر اڑوس پڑوس والے بھی دست بدعاء رہتے ہیں کہ خدا انہیں جلد سے جلد اپنے گھروں کا بنا دے۔۔۔ تو ایسےبوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے لڑکی والا ہمیں روپئے دے یا ہماری طرف سے مطالبہ ہو تو کون سی بری بات ہوئی۔ ہم زبردستی تو کسی سے مانگتے نہیں۔ خود ہی موٹے اسامی آکر پھنستے ہیں۔ جو خوشامدیں کرتے ہیں۔ خود کہتے ہیں دوسرے سے کہلاتے ہیں، یہ دینگے وہ دینگے، تعلیم کے لئے ولایت بھیجیں گے۔ ایسا کریں گے ویسا کریں گے (قصداً کھانس کر) پھر تو خواہ مخواہ ہمیں بدنام کیا جاتا ہے کہ ہم شادی کے قبل روپے کا مطالبہ کرتے ہیں۔۔۔ ارے بابا، ہم نے کسی کا بوجھ ہلکا کردیا تو یہ لازم ہے کہ ہم کو بھی کوئی فکرِ معاشی سے ہلکا کردے۔ ہمیشہ کے لئے نہیں تھوڑے ہی دنوں کے لئے سہی۔۔۔ ہاں، یہ تو کہا ہی نہیں نقد روپئیے کا، جو ہماری طرف سے مطالبہ ہوتا ہے تو ہمارے دشمنوں اور مخالفت کرنے والوں نے اس کا نام تلک رکھ چھوڑا ہے۔ حالانکہ تلک، اور اس روپئے سے دور کا بھی واسطہ نہیں کیونکہ یہاں تو خوشی کا سودا ہے کہ سسر جی اتنی نقدی گن کر دو ورنہ،

    ’’تم اپنا منہ ادھرکرلو ہم اپنا ادھرکرلیں۔‘‘

    مقررین اپنی گرما گرم تقریروں سےپورے پنڈال کوگرمائےہوئے ہیں۔ وقت کی تنگی کےباعث جنابِ صدر کسی کو پانچ منٹ سے زیادہ وقت نہیں دیتے۔ جناب صدر نےایک صاحب زادےکا نام لےکرپکارا۔ وہ میاں اٹھے تو سہی لیکن ایک ایک قدم پرسوسوبل کھاتے ہوئے۔لاغری کا یہ عالم جیسے کسی نے خیر خوبی سے تھائیسس کےتیسرے درجہ میں قدم رکھا ہو۔ سرپررومال بندھا تھا جس کے متعلق بعد میں معلوم ہواکہ ان کےسرِاقدس کے بالوں میں بالخورہ لگ جانے کے باعث چٹیل میدان ہوگیا ہے۔ صاحبِ موصوف مائک کے سامنےآتے ہی بولے۔۔۔

    ’’میرے دوستو اورصاحبِ صدر(ٹھہرکر) معاف کیجئے گا۔ مجھے صاحبِ صدر پہلے کہنا چاہئے تھا۔ خیرجو ہوا سو ہوا۔۔۔ جی ہاں!مجھے وقت کی نزاکت کا خود ہی خیال ہےاوراسی لےتوبغیر کسی تمہید کےاپنے موضوع کی طرف رجوع کر رہا ہوں۔۔۔ میرے بن بیاہے دوستو مجھ سے پہلے کےمقرروں نےوہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو مجھے عرض کرنا تھا۔ اس ضمن میں مجھے اسی قدر کہنا ہے کہ جہاں ہم بن بیاہے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکراپنے مستقبل کو زیادہ سے زیادہ درخشاں بنانے کی کوشش کررہے ہیں وہاں اس جماعت میں ایسے دل و دماغ رکھنے والے بھی موجود ہیں جن کی حالت زارپرکم ازکم مجھے رونا آتا ہے۔ میرے کہنےکا مطلب یہ ہےکہ اب ایسے بن بیاہے بھائی بھی دکھائی دینےلگےہیں جواپنےہونےوالےسسرکےٹکڑوں پرپل رہے ہیں۔

    واضح الفاظ میں یوں سمجھئے کہ سسر ہی کے روپئے سے اس وعدہ پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں کہ فارغ التحصیل ہوتے ہی ان کی فرزندی میں آجائیں گے۔ (انگلیاں چمکا کر) تو کیا یہ زندگی یتیم اور لاوارثوں کی طرح نہیں۔ کیا اس طرح ہمارے وقار اور ہماری خود داری کو ٹھیس لگنے کا احتمال نہیں۔ سوچئے اور غور کیجئے۔ میں دو منٹ مہلت لے رہا ہوں۔ اس عرصہ میں ایک گلاس پانی پی لوں گلا خشک ہوتا جارہا ہے۔۔۔ ہاں تو جیسا کہ میں نے ابھی بتلایا کہ یہ نہایت بے شرمی کی بات ہے ہم بن بیاہوں کے لئے۔ لہٰذا میں پرزور گزارش کروں گا کہ ایسے گندہ خیالات رکھنے والے بن بیاہے دوستوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے۔ کیونکہ اس طرح ہماری قیمت روز بروز گھٹنےکا اندیشہ ہے۔ اس کے علاوہ سسرال والوں کی نگاہ میں وہ وقعت نہیں رہتی جو نقد روپےگنوا کرہوتی ہے۔ اس کانفرنس کےبلانےکا مقصدہی یہ ہےکہ ان ساری باتوں کوزیرِبحث لاکرہم ایساطریقہ اختیارکریں جس سےہماری قیمت زیادہ سےزیادہ لگ سکے۔ (نعرۂ تکبیر۔۔۔ اللہ اکبر)

    علاوہ ازیں ہمارا رکھ رکھاؤ ایسا ہونا چاہئے کہ سسرال والے ہمیں ذلیل نہ سمجھیں اور نہ کسی کو بعد میں منہ آنے کا موقع ملے (سرپر بندھا ہوا رومال کھول کر) ایک گر کی بات عرض کئے دیتا ہوں یعنی ہم سارے بن بیاہے خواہ پاس میں ایک ٹکا نہ رکھتے ہوں لیکن سسرال ایسا تلاش کریں کہ پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں۔ اور نکاح کے قبل فرمائشوں کا اس قدر انبار لگادیں کہ اگر سسر جی دو چار سال زندہ رہنے والے بھی ہوں تو مارے صدمے کے گھل گھل کر چھ مہینے کے اندر راہی ملکِ عدم ہوں تاکہ لائن کلیر ملے (آواز۔۔۔ بیشک ایسا ہی ہونا چاہئے)

    ہاں ایک بات اورکہےدیتا ہوں یعنی یہ دیکھا جارہا ہےکہ اگرکسی کم حیثیت غریب لڑکےکو فرمائش کے بعد بہترین سوٹ، سائیکل اور ریڈیووغیرہ کےعلاوہ نقد روپےملتےہیں توکہنےوالےکہہ دیتے ہیں کہ میاں تمہارے باپ نے بھی اتنا بیش قیمت سوٹ کبھی پہنا تھا۔ یہ توخیرمناؤسسرکا کہ بڈھےنےاپنا گھرفروخت کرکے تمہاری مانگیں پوری کردی۔۔۔ دیکھا آپ نے، یہ ہیں وہ بھپتیاں جو ہم پر کسی جانے لگیں ہیں۔ لہٰذا جنابِ صدر کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کراتے ہوئے درخواست کروں گا کہ ایسا ذلیل خیال رکھنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے ورنہ ایسا سوٹ پہننے سے لنگوٹی بہتر ہے۔۔۔ ایں! یہ باہر اس قدر شورو غل کیسا ہو رہا ہے۔‘‘

    سارے بن بیاہے چوکنّا ہو جاتے ہیں۔ لیکن جلد ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ ’تلک توڑ‘ جماعت والوں نے حملہ بول دیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ زیادہ تر بن بیاہوں کی گھگھی بندھ جاتی ہے۔ اور کچھ پرایسی بد حواسی طاری ہوتی ہے کہ جس کو جدھر راستہ ملتا ہے بھاگ نکلتا ہے، اور ساری آئی گئی پڑتی ہے صاحبِ صدر یعنی ’تلک بڑھاؤ‘ کے سرگرم کا رکن پر۔ حملہ آور تلک توڑ نےوالوں نے جناب صدر کی جو درگت بنائی و ہ صیغہٗ راز میں رہے۔ لیکن سنتے ہیں کہ صاحب موصوف نے بے ڈھب پھنس جانے کے بعد سے ’تلک بڑھاؤ‘ والی اسکیم سے توبہ کر لی ہے اور اب ’تلک توڑ‘ جماعت میں سب سے آگے آتے ہیں۔

    مأخذ:

    کانفرنسیں (Pg. 66)

    • مصنف: ہاشم عظیم آبادی
      • ناشر: لیتھو پریس، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے