Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کلکتہ کا ذکر

کنہیا لال کپور

کلکتہ کا ذکر

کنہیا لال کپور

MORE BYکنہیا لال کپور

    لاہور سے کلکتہ کا سفر در پیش ہو تو دو ہی طریقے ہیں۔ مقدور ہو تو ہوائی جہاز میں سفر کیجئے۔ ناشتہ لاہور میں اور شام کا کھانا کلکتہ میں کھائیے اور مقدور نہ ہو تو تھوڑا سا کلوروفارم جیب میں رکھ کر سیکنڈ کلاس کے ڈبے میں بیٹھ جائیے۔ جونہی گاڑی روانہ ہو، اللہ کا نام لیکر کلوروفارم سونگھنا شروع کر دیجئے۔ جب آپ کو ہوش آئے گا۔ تو آپ اپنے آپ کو لکھنؤ کے اسٹیشن پر پائیں گے۔ ایک بار کلورو فارم پھر سونگھئے اور ہوش آنے تک بردوان پہنچ جائیے۔ بردوان سے ہوڑہ نزدیک ہے۔ اس لئے کلورو فارم کو احتیاط سے بیگ میں رکھ لیجئےکہ واپسی کے وقت کام آئے۔ اگر آپ اس طریقہ پر عمل نہیں کریں گے تو صبر اور انتظار کرتے کرتے چاہے آپ ختم ہو جائیں، سفر ختم نہیں ہوگا۔ آپ لاکھ جتن کر یں، ہم سفرسے گپیں ہانکیں، رسائل کی ورق گردانی کریں، کلکتہ میل کو گالیاں دیں، جمائیاں لیں، لاحول پڑھیں، لیکن منزل قریب آتی نظر نہیں آئے گی۔

    کلکتہ کی ہر چیز نرالی ہے۔ اس کو ہی لیجئے کہ کلکتہ نام کا کوئی ریلوے اسٹیشن نہیں، حالانکہ کلکتہ شہر میں درجنوں مقامی اسٹیشن ہیں۔ کلکتہ کی گھڑیاں باقی شہروں کی گھڑیوں سے ایک گھنٹہ آگے رہتی ہیں (اس بو العجبی کو کلکتہ ٹائم کہتے ہیں) کلکتہ میں لوگ بیڈ منٹن بجلی کی روشنی میں کھیلتے ہیں۔ ہوٹلوں میں پانی بوتلوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ کلکتہ میں ہندوستانی فلمیں بنتی ہیں جنہیں عموماً وہ لوگ ڈائریکٹ کرتے ہیں جو ہندوستانی نہیں جانتے۔ کلکتہ میں ’’س‘‘ ’’ش‘‘ ہو جاتا ہے۔ ٹانگہ ،گھوڑا گاڑی اور شلوار ساڑھی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ویسے تو کلکتہ میں ہر صوبہ اور ہر قماش کا انسان دیکھنے میں آتا ہے لیکن سب سے دلچسپ آدمی کلکتہ کے اصلی باشندے ہیں۔ سانولے سلونے متین، بخل کی حد تک کفایت شعار، سادگی اور بھلمن ساہت کے پتلے، نگاہ اولین میں بنگالی لوگ بہت بھلے معلوم ہوتے ہیں لیکن ان سے گفتگو کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہر بنگالی وہ نہیں جو وہ نظر آتا ہے۔ در اصل ہر بنگالی کی بات میں ایک نکتہ ہوتا ہے، جسے صرف ایک دوسرا بنگالی ہی سمجھ سکتا ہے۔ اگر آپ کوشش کر کے اس نکتہ کو پا بھی لیں تو بنگالی بابو جھٹ پینترا بدل کر ایک اور نکتہ پیدا کر دیتا ہے اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک آپ چکرا کر اپنی ہارمان نہیں لیتے۔بنگالی بابو دو طرح سے اپنے حریف کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ باتیں بنا کر یا بالکل خاموش رہ کر۔ اگر وہ نوجوان ہے، تو بڑھ بڑھ کر باتیں کرے گا۔ اگر ادھیڑ عمر کا ہے تو فلسفیوں کے انداز میں گھنٹوں مراقبہ میں بیٹھا نظر آئے گا۔ بیشتر بنگالی چالیس برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد مسکرانا اور ہنسنا ترک کر دیتے ہیںاور اونگھنا یا بڑ بڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ خدو خال کے اعتبار سے بنگالی لوگ دو قسموں میں بانٹے جا سکتے ہیں۔ بنگالی جن کا چہرہ فٹ بال یا رس گلا سے ملتا ہے اور بنگالی جن کا چہرہ بوتل یا بیلن سے مشابہت رکھتا ہے۔

    اول الذکر کے گال ضرورت سے زیادہ پھولے ہوئے او ر موخر الذکر کے گال ضرورت سے زیادہ پچکے ہوئے ہوتے ہیں۔ کلکتہ میں حسن ملیح کی فراوانی ہے۔ اس شہر میں حسنِ صبح کی تلاش کرنا صحرا میں سبزہ زار کی جستجو کرنے کے مترادف ہے۔ چراغ لے کر بھی ڈھونڈھیں تو رخ روشن تو کیا ’’بجھی ہوئی شمع‘‘ بھی کہیں نظر نہیں آئے گی۔ ’’بالی عمریا‘‘، ’’پتلی کمریا‘‘ اور سانوری صورتیا‘قدم قدم پر ملتی ہے لیکن وہ قندیلیں جن کی تجلی کے سامنے عشق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں کلکتہ کے حصہ میں نہیں آئیں۔

    کلکتہ میں زندگی صرف چار محوروں کے گرد گھومتی ہے۔ روپیہ، بوتل، گھوڑا، لڑکی۔ یہاں ہر شخص روپیہ کمانے کے لئے آتا ہے۔ سوائے پنجابیوں کے جن کا شغل ہر ملک اور ہر شہر میں روپیہ خرچ کرنا ہے ۔ کروڑ پتی مارواڑی سیٹھ سے لے کر بنگالی رکشا کھینچنے والے تک ہر ایک شخص کی نگاہ کسی کی جیب پر ہے۔ روپیہ کمانے کی دھن میں لوگ اس برق رفتاری سے ادھر سے ادھر بھاگتے ہیں کہ انسان انہیں دیکھ کر بد حواس ہو جاتا ہے۔ یہاں کسی شخص کو ایک منٹ کی فرصت نہیں۔ تاجروں اور سوداگروں سے لدی ہوئی کاریں، ٹریمیں، ٹیکسیاں کلکتہ کی سڑکوں پر جب زناٹے بھرتی ہوئی گزرتی ہیں تو ایک نوارد کو یہ شک گذرتا ہے کہ وہ کلکتہ نہیں بلکہ لندن یا نیویارک کے مضافات میں آپہنچا ہے۔ ٹریفک کا یہ حال ہے کہ سڑک کو پار کرنے کے لئے کئی دفعہ پورے تیس منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آپ ہمت کر کے ایک یا دو گز آگے بڑھتے ہیں، دائیں طرف سے پچاس موٹریں اور بائیں طرف سے اتنی ہی ٹیمیں آپ کو للکار کر کرکہتی ہیں ’’خبر دار‘‘ اگر کوئی شخص موٹر کے نیچے آ کر خود کشی کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کے لئے کلکتہ کی سڑکیں نہایت موزوں ہیں۔

    ’’بیوپار میں روپیہ کماؤ،ریس میں گھوڑوں پر داؤ لگاؤ، ہوٹلوں میں شراب پیو اور اگر کسی طرح بھی دل نہ بہلے تو کسی سے آنکھیں لڑاؤ۔ کلکتہ میں امیر طبقہ کے یہی مشاغل ہیں۔ کلکتہ تجارت کا مرکز ہے دیگر اجناس کی طرح یہاں حسن کی تجار ت بھی اگر دن دونی نہیں تو یقینا رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ اس جنس کے دلال عموماً ہوٹلوں اور سینما گھروں کے گردو نواح میں دیکھے جاتے ہیں۔ گربہ مسکین، منکسر المزاج، مفلوک الحال یہ لوگ جو عموماً میرٹھ،بلند شہر اور لکھنؤ سے کلکتہ آتے ہیں، بڑے کام کے آدمی ہیں۔ شریف الطبع اتنے کہ ہر راہرو سے پوچھ لیتے ہیں، ’’صاحب چاہئے؟‘‘ اگر آپ انہیں دھتکاریں تو برا ماننے کی بجائے شاعری کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

    ’’برس تیرہ کا یا چودہ کا سن‘‘

    ’’ستم کی چال ،ستم کی ادا، ستم کی نگاہ‘‘۔

    ’’ابھی نتھ بھی نہیں اتری صاحب۔

    کلکتہ میں ایک مثل مشہور ہے کہ اگر آپ نے کلکتہ کی ریس نہیں دیکھی تو کچھ بھی نہیں دیکھا۔ کلکتہ کی ریس واقعی عجیب تماشا ہے۔ دیوانوں کا سب سے بڑا ہجوم دیکھنا مطلوب ہو تو کلکتہ کی ریس ضرور دیکھئے۔ اتنا بڑا ہجوم بڑے سے بڑے سیاسی جلسہ یا جلوس میں بھی آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ اس ہجوم کو کہ جو تمام صوبوں کے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے، دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہندوستان کی آبادی چالیس کروڑ نہیں بلکہ اسی کروڑ ہے۔ ہر ایک شخص کے ہاتھ میں ریس کی کتاب ہے جس کا وہ اس انہماک سے مطالعہ کر رہا ہے جیسے وہ نہایت دلچسپ ناول ہو۔ ایک دوسرے سے ٹپ (TIP) لئے جا رہے ہیں۔ قیاس کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں۔ اپنے اپنے گھوڑے کی تعریف میں قصیدے کہے جا رہے ہیں۔ یک لخت گھنٹی بجتی ہے جوں جوں گھوڑے نزدیک آتے جاتے ہیں تماش بین گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک بآواز بلند پکار رہا ہے، ’’بھائی صاحب، بھائی صاحب‘‘۔ دوسرا زور زور سے چیخ رہا ہے۔ ’’بھابی جان، بھابھی جان‘‘۔ یہ نعرہ سن کر ایک نوارد یہی سمجھتا ہے کہ بھائی صاحب،بھابی جان کی معیت میں ریس کورس میں تشریف لا رہے ہیں لیکن اسے بعد کو پتہ چلتا ہے کہ ’’بھائی صاحب‘‘ اور ’’بھابی جان‘‘ تو گھوڑوں کے نام ہیں۔ جس وقت فاصلہ دو ایک فرلانگ رہ جاتا ہے، اس وقت ہجوم کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ جو بیٹھے ہوئے ہیں وہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جو کھڑے ہیں وہ ناچنا شروع کر دیتے ہیں، جو ناچ رہے ہیں وہ ایک دوسرے سے بغلگیر ہو نے لگتے ہیں۔

    کلکتہ کی ریس کے بعد کلکتہ میں دوسری قابل دیدچیز فلمی اسٹوڈیوز ہیں۔ یہ تقریباً سب کے سب ٹالی گنج میں واقع ہیں۔ ٹالی گنج ہوڑہ اسٹیشن سے کافی دور اور قبرستان کے کافی نزدیک ہے۔ چونکہ فلمیں بنانے والے شور و شغب اور تنقید و تبصرہ سے گھبراتے ہیں اس لئے انہوں نے اسٹوڈیوز قبرستان کی بغل میں بنائے ہیں۔ ہر ایک اسٹوڈیو کا ایک دربان ہوتا ہے جو اردو شاعری کے روایتی دربان کی طرح بے حد مغرور اور بد دماغ ہوتا ہے۔ جب تک آپ دس بارہ دفعہ کورنش بجا نہ لائیں آپ کو اسٹوڈیو کی حدود میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ فلمی اسٹوڈیو چھوٹے پیمانے پر عجائب گھر ہوتا ہے۔ زیادہ صحیح الفاظ میں عجائب گھر اور چڑیا گھر کا مرکب ہوتا ہے۔ یہا ں ہر ایک شے اور ہر ایک شخص عجوبہ روزگار ہے۔

    کلکتہ کے اسٹوڈیو ز میں عموماً ہر ایک شخص پرکسی دوسرے شخص کا دھوکا ہوتا ہے۔ مثلا جسے آپ مسخرا سمجھ رہے ہیں، وہ مسخرا نہیں ڈائریکٹر ہے۔ جسے آپ پنواڑی سمجھتے ہیں، وہ پنواڑی نہیں سیٹھ صاحب ہیں۔ جسے آپ نے بزرگ سمجھ کر سلام کیا ہے وہ بزرگ نہیں بلکہ چھوکر اہے،جس نے مصنوعی داڑھی لگا رکھی ہے۔ جسے آپ نے اکسٹرا لڑکی سمجھ کر نظر انداز کر دیا ہے وہی در اصل ہیروئین ہے جن سرمگیں پلکوں کی آپ تعریف کر رہے ہیں وہ دراصل سر مگیں پلکیں نہیں بلکہ نہایت معمولی پلکیں ہیں جن پر ایک خاص مصالحہ لگایا گیا ہے۔جس زلف دراز کی آپ غور سے دیکھ رہے ہیں وہ دراصل مانگے کی زلف دراز ہے۔ بعض اوقات اسٹوڈیو میں ہیرو، ڈائریکٹر اور پرڈیوسر میں تمیز کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ عام طو پر جو شخص سب سے زیادہ شو ر مچائے وہ ڈائریکٹر، جو اکسٹرا لڑکیوں کے جھرمٹ میں کھڑا ہوا مسکرا رہا ہو وہ ہیرو اور جو ہیرو ئن کے ارد گرد منڈلا رہا ہو،وہ پروڈیوسر ہوتا ہے۔ ہر اسٹوڈیو کی طرح کلکتہ کے اسٹوڈیوز میں تین اصطلاحیں کثرت سے استعمال کی جاتی ہیں۔ مثلا ’’ہٹ سانگ‘‘ ہٹ سانگ وہ گانا ہوتا ہے جسے فلم دیکھنے کے بعد کوچوان، ٹیکسی ڈرائیور اور اس قماش کے لوگ گاتے ہیں۔’’فلاپ‘‘ اس فلم کو کہتے ہیں جس کی نا کامیابی کی خبر سن کر پروڈیوسر کے قلب کی حرکت بند ہوجاتی ہے۔ ’’مکھن لگانا‘‘ یعنی حد سے زیادہ چاپلوسی کرنا۔ کلکتہ کے اسٹوڈیوز میں اکثر مکالمہ نویس ڈائریکٹر کومکھن لگاتا ہے۔ ڈائریکٹر پروڈیوسر کو، پروڈیوسر ہیروئن کو اور ہیروئن کسی کو مکھن نہیں لگاتی۔

    کلکتہ میں جن چیزوں کے لئے جی ترس جاتا ہے وہ ہیں کڑاکے کی سردی۔ پکی ہوئی گندم کی سنہری کھیت۔بیلوں کی طرح بل کھاتی ہوئی لٹھے کی شلواریں۔ بھرے بھرے جسم والی عورتیں، وزنی پنجابی گالیاں۔ کیکر اور جنڈ کے ذلیل درختاور کلکتہ سے واپس آکر جن چیزوں کی یاد مدت تک دماغ کے تہ خانوں میں رینگتی رہتی ہے وہ ہیں پنچم میں گاتی ہوئی کوئلیں۔ تالابوں پر لہراتے ہوئے ناریل کے سائے، چاندی کی طرح دمکتا ہوا ہوڑہ کا پل،قطب مینار کا منہ چڑاتی ہوئی سر بفلک عمارتیں۔ نرگس کو شرماتی ہوئی خوبصورت بنگالی آنکھیں۔ گھٹی گھٹی فضا، دبی دبی سسکیاں اور ہگلی کا غلیظ پانی!

    مأخذ:

    چنگ و رباب (Pg. 93-99)

    • مصنف: کنہیا لال کپور
      • ناشر: انڈین اکیڈیمی، لاہور
      • سن اشاعت: 1946

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے