aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چند مقبول عام فلمی سین

کنہیا لال کپور

چند مقبول عام فلمی سین

کنہیا لال کپور

MORE BYکنہیا لال کپور

     

    محبت کا سین

    مجنوں، مجھے تم سے کچھ کہنا ہے لیلیٰ۔

     

    لیلیٰ، یہی نا کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔

     

    مجنوں، محبت نہیں بلکہ۔۔۔

     

    لیلیٰ، (بات کاٹ کر)والہانہ عشق ہے۔

     

    لیلیٰ، شکریہ، لیکن مجھ سے بغلگیر ہونے کی کوشش مت کرو، وہیں کھڑے کھڑے میری طر ف دیکھ کر مسکراتے رہو۔

     

    مجنوں، مگر کیوں؟

     

    لیلیٰ، تم کتنے سادہ لوح ہو مجنوں۔اتنا بھی نہیں جانتے کہ اگر تم نے مجھے اپنے بازوؤں میں بھینچنے کی کوشش کی تو عوام کا اخلاق تباہ ہو جائے گا۔ یہ ہندوستان ہے، پیارے فرانس نہیں۔

     

    مجنوں، مگر میں اپنی محبت کا اظہار کس طرح کروں۔

     

    لیلیٰ، میں بتاؤں، آؤ باغیچے میں چلیں۔ میں آگے آگے بھاگتی ہوں، تم میرا تعاقب کرو۔

     

    مجنوں، اچھا خیال ہے۔

     

    لیلیٰ، ہاں لیکن یاد رہے تمہیں بوس و کنار سے قطعاً احتراض کرنا ہے ورنہ۔۔۔

     

    مجنوں، ورنہ یہی نا کہ باپ اور بیٹی یہ فلم مل کر نہ دیکھ سکیں گے۔

     

     

    لیلیٰ، ہاں۔

     

    مجنوں، لیکن لیلیٰ، اگر میں وفور محبت سے بیتاب ہو جاؤں تو۔

     

    لیلیٰ، اس حالت میں تم اپنا سر میرے کندھے پر رکھ سکتے ہو۔

     

    مجنوں، شکریہ، لیکن تم اپنی محبت کا اظہار کیسے کروگی؟

     

    لیلیٰ، اس کی فکر نہ کرو۔

     

    مجنوں، پھر بھی۔۔۔

     

    لیلیٰ، ہم دونوں ایک بے معنی دو گانا گائیں گے۔ اس سے عوام کو پتہ چل جائے گا کہ ہمیں ایک دوسرے سے محبت ہے۔

     

    مجنوں، مثلاً۔۔۔

     

    لیلیٰ، مثلاً میں کہوں گی،میں دیوانی ہوں، دیوانی

     

    مجنوں، اور اس کے جواب میں شاید مجھے کہنا ہوگا

     

    میں دیوانہ ہوں دیوانہ

     

    لیلیٰ، ہاں اور پھر میں کہوں گی

     

    میری چھوٹی چھوٹی آنکھیں

     

    مجنوں، اور میں فوراً بول اٹھوں گا

     

    میری پتلی ٹانگیں

     

    لیلیٰ، اس کے بعد میں بھاگ کر درخت پر چڑھ جاؤں گی اور پتوں میں چھپ کر تیسرا مصرع پڑھوں گی۔ پریت کی ریت نبھاؤ ساجن

     

    مجنوں، اور میں نیچے سے پکار کر کہوں گا۔ اور نہ اب تڑپاؤ ساجن

     

    لیلیٰ، اس کے بعد میں قہقہہ لگا کر ہنسنے لگوں گی۔

     

    مجنوں، اور میں فرط محبت سے درخت سے بغل گیر ہو جاؤں گا۔

     

    لیلیٰ، اور اس طرح ہندوستانی فلموں میں ایک اور پاکیزہ فلم کا اضافہ ہو جائے گا۔

     

    ایثار کا سین
    بیوی، ناتھ آج آپ پھر رات گئے گھر آئے۔

     

    خاوند، تمہیں معلوم ہی ہے، تین ماہ سے میرا یہی معمول ہوچکا ہے۔

     

    بیوی، آپ کے منہ سے شراب کی بو بھی آ رہی ہے ناتھ۔

     

    خاوند، جوئے میں ہارنے کے بعد چارہ ہی کیا تھا۔ اگر دو چار گھونٹ نہ لیتاتو غم سے مر نہ جاتا۔

     

    بیوی، آپ نے جوا کھیلنا بھی شروع کر دیا۔

     

    خاوند، تمہارے زیور بیچ کر آج پانچ ہزار کی رقم ہاتھ لگی تھی۔ میں نے سو چاکہ ایک آدھ داؤ لگا دیکھوں۔

     

    بیوی، تو کیا آپ نے میرے سارے زیور بیچ ڈالے؟

     

    خاوند، سارے نہیں پیاری، ابھی جھومر باقی ہے۔

     

    بیوی، ناتھ یہ آپ نے کیا کیا؟

     

    خاوند، خاموش، ورنہ ابھی جوتوں سے تمہاری مرمت کروں گا۔

     

    بیوی، (انکساری ظاہر کرتے ہوئے) آپ میرے جوتے لگائیے،میں کبھی ناراض نہ ہوں گی بلکہ یہی چاہوں گی کہ۔۔۔

     

    خاوند، کہ میں تمہارے اور جوتے لگاؤں۔

     

    بیوی، ہاں اور جب آپ جوتے لگا کرمجھے ادھ موا کر دوگے، تو میں بھگوان سے پرارتھنا کروں گی کہ۔۔۔ 

     

    خاوند، کہ اگر مرنے کے بعد تمہارا پھر جنم ہو تو تم میری ہی بیوی بنو۔

     

    بیوی، ہاں اور مرتے وقت میرا سر آپ کے چرنوں میں ہو۔

     

    خاوند، شاباش، اگر تم اتنی بیوقوف نہ ہوتیں تو میں کب کا سدھر نہ گیا ہوتا۔

     

    نصیحت آموز سین
    عاشق، میری جان میں اپنی ساری دولت تمہاری نذر کر چکا۔ اب میرے پاس کچھ نہیں۔

     

    رنڈی، (غصے سے) کچھ نہیں؟ تو پھر یہاں کیوں آئے ہو۔

     

    عاشق، اسی لئے کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔

     

    رنڈی، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مفلس عاشقوں کے لئے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں۔

     

    عاشق، میرا خیال تھا تم دل و جان سے مجھ پر فدا ہو۔

     

    رنڈی، بیوقوف، رنڈی کی نگاہ عاشق کے دل پر نہیں اس کی جیب پر ہوتی ہے۔

     

    عاشق، میرا خیال تھا تم عام بازاری عورتوں سے مختلف ہو۔

     

    رنڈی، یہ تم نے کیسے فرض کر لیا، چلے جاؤ یہاں سے۔

     

    عاشق، (گڑگڑا کر) پیاری میری حالت زار پر رحم کھاؤ۔ میں نے تمہارے لئے اپنا مکان بیچ ڈالا۔ بیوی کے زیور فروخت کر دیئے۔ ڈاکہ مارا، ساس او ر سسر سے لڑائی مول لی۔ بیوی کو مار مار کر نیم بسمل کر دیا۔

     

    رنڈی، (غصہ سے) جاتے ہو، یا تمہیں دھکے دے کر نکالا جائے۔

     

    عاشق، اچھا پیاری جاتا ہوں۔ لیکن رخصت ہونے سے پہلے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔


    رنڈی، کیا ؟

     

    عاشق، وہ یہ کہ گھر سے نکالتے وقت میری پشت پر اس زور سے لات جمانا کہ میں سیڑھیوں پر سے لڑھکتا ہوا بازار میں جا پڑوں۔

     

    رنڈی، یہ کیوں؟

     

    عاشق، تاکہ دیکھنے والوں کو عبرت ہو۔

     

    رنڈی، اچھا اب میں سمجھی تم نے کس لئے گھر بار لٹایا۔۔۔ اسی لئے نا کہ جب تم اپنی ساری دولت لٹا چکو اور بالکل دیوالیہ ہو جاؤ تو لوگ تم سے عبرت حاصل کریں۔

     

    عاشق، تم ٹھیک سمجھیں۔۔۔ اچھا اب لگاؤ لات!

     

    بے مثال قربانی کا سین
    رمیش، لیلا تمہیں معلوم ہے، مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔

     

    لیلا، اور تم جانتے ہی ہو رمیش مجھے تم سے کس قدر نفرت ہے۔

     

    رمیش، ہاں یہ غالباً اس لئے کہ تمہیں سریش سے عشق ہے۔

     

    لیلا، یہ ضروری ہے رمیش کیونکہ اگرمیں ایسا نہ کروں تو محبت کی تکون کس طرح مکمل ہوگی؟

     

    رمیش، مگر کیا اس مشکل کا کوئی حل نہیں۔

     

    لیلا، میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا۔

     

    رمیش، اچھا مجھے سوچنے دو۔۔۔ (چٹکی بجا کر) ہاں یہ ٹھیک رہے گا لیلا، بھلا تمہیں معلوم ہے آج کون سا تہوار ہے۔

     

    لیلا، آج راکھی ہے، وہ مبارک دن جب بہنیں اپنے بھائیوں کو راکھیاں پیش کرتی ہیں۔

     

    رمیش، ٹھیک، اچھا تم بھاگ کر ایک راکھی لے آؤ میری بازو پر باندھ دو۔

     

     لیلا، اب میں سمجھی، تو گویا آج سے تم میرے بھائی ہو۔

     

    رمیش، ہاں۔

     

    لیلا، بھیا۔

     

    رمیش، بہن۔

     

    لیلا، بھیا۔

     

    رمیش، بہن۔

     

    لیلا، رمیش، بھیا اور بہن کی گرد ان کو اچھی طرح رٹ لو۔ ایسا نہ ہو کہ تم پھر بہن کی بجائے ’میری پیار ی‘ کہنا شروع کر دو۔

     

    رمیش، نہیں پیاری۔۔۔ نہیں پیاری بہن۔۔۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔

     

    المناک سین
    بوڑھا باپ، میں مر رہا ہوں اور و ہ نالائق بازار حسن کا چکر کاٹ رہا ہے۔

     

    بہو، ایسا نہ کہئے پتا جی۔ ابھی آپ کے مرنے کے کون سے دن ہیں۔

     

    بوڑھا باپ، نہیں نہیں، اب میں زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ اب میں ضرور مر جاؤنگا۔ اف، اف میرا دل۔۔۔ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔

     

    بہو، (سر پیٹ کر) آہ، پتا جی! آپ کو کیا ہوگیا۔ آپ کی تو ایک منٹ میں آنکھیں پتھرا گئیں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ اتنی جلدی۔۔۔

     

    بوڑھا باپ، نہیں بیٹی،میں ابھی مرا نہیں۔ اتنی جلدی نہیں مر سکتا۔ کافی سخت جان ہوںلیکن اف اف میرے دل کو کیا۔۔۔

     

    بہو، پتا جی! دل کو سنبھالئے، آپ کے سوا ہمارا کون ہے۔

     

    بوڑھا باپ، میں جانتا ہوں بیٹی، اسی لئے تو مرنے میں اتنی دیر لگا رہا ہوں۔ مگر یاد رکھو یہ نالائق۔۔۔ نا خلف۔۔۔ جس نے مجھے اتنا دکھ پہنچایا، کبھی سکھ نہیں پائے گا، اف میرا دم گھٹ رہا ہے۔

     

    بہو، (گھبرا کر) پتا جی، پتا جی۔

     

    بوڑھا باپ، (گرج کر) وہ کبھی سکھ کی نیند نہیں سوئے گا۔ اسے کبھی قرارحاصل نہیں ہوگا۔ وہ تڑپ تڑپ کر مرے گا۔ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر۔۔۔ اف میں چلا۔

     

    بہو، (چیخ کر) ہائے پتا جی کیا آپ واقعی چل بسے۔

     

    بوڑھا باپ، ( یک لخت آنکھیں کھول کر) گھبراؤ نہیں بیٹی، میں ابھی بالکل ختم نہیں ہوا۔۔۔ ذرا میرے پاس آؤ۔

     

    بہو، کیا حکم ہے پتا جی۔

     

    بوڑھا باپ، دیکھو اس نالائق سے کہنا میری ارتھی کو ہاتھ نہ لگائے۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے آگ لگانا بیٹی۔۔۔ اور جب۔۔۔ اف اف۔۔۔

     

    بہو، (جلدی سے) اور جب پتا جی؟

     

    بوڑھا باپ، اور جب میری چتا روشن ہو جائے تو کسی سادھو سے کہنا کہ پس منظر میں کوئی رقت انگیز گیت گائے۔

     

    بہو، جو حکم پتا جی۔

     

    بوڑھا باپ، ایسا گیت جسے سن کر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں۔

     

    بہو، جیسے۔۔۔ دنیا ایک سرائے بابا۔

     

    بوڑھا باپ، ہاں یہ گانا لوگوں کو بہت پسند آئے گا۔ اچھا تو اب میں واقعی مرنے لگا ہوں۔۔۔ اف اف اف۔۔۔

     

    بہو، آہ! پتا جی،آپ سچ مچ مر گئے۔ میں نے سمجھا تھا صرف مرنے کی ریہر سل کر رہے ہیں۔ خیر کچھ بھی ہو میں آپ کی روح کی تسکین کے لئے ایک گانا ضرور گاؤں گی،

     

    دنیا ایک سرائے بابا، دنیا ایک سرائے
    جو بھی اس میں آئے بابا
    رو رو جان گنوائے، دنیا ایک سرائے
    مرنے دے مرنے والے کو
    مت کر ہائے ہائے بابا۔ دنیا ایک سرائے۔۔۔

    مأخذ:

    برج بانو (Pg. 138)

    • مصنف: کنہیا لال کپور
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 1992

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے