Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈرپوک

MORE BYشفیق الرحمان

    اتنے دنوں کے بعد آج صبح موٹرسائیکل کو ہاتھ لگایا۔ اسے چلاتے وقت جیسے ٹھٹک کر رہ گیا اور نظریں سامنے کی کھڑکیوں کی جانب چلی گئیں۔ آج سے کئی سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ بالکل ایسی ہی رنگین صبح تھی۔ گلاب کے تختے بالکل سرخ ہو رہے۔ شبنم کے چمکیلے قطروں سے ہر طرف موتیوں کی بارش ہوچکی تھی۔ رنگ برنگ پرندے سریلی سیٹیاں بجا رہے تھے۔ ہواکے ہلکے ہلکے جھونکے طرح طرح کی خوشبوئیں پھیلا رہے تھے۔ جب میں نے اور ایک سنہرے بالوں اور نیلگوں آنکھوں والی ننھی منی گڑیا نے ڈاکٹر صاحب کی موٹرسائیکل سٹارٹ کردی تھی۔

    اس روز ہمیں موقع مل گیا۔ اختر نے مہینہ بھر سے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ صبح شام اٹھتے بیٹھتے بس ایک فقرہ رہ گیا تھا جس کا ورد وہ کرتی رہتی۔ تم ڈرپوک ہو۔ تم ڈرتے ہو۔۔۔ تم یوں ہو۔۔۔ تم ووں ہو۔ کئی بار اس سے کہا کہ میں بالکل نہیں ڈرتا۔ آخر سائیکل تو چلاہی لیتا ہوں۔ لیکن موٹرسائیکل کس طرح چلاؤں؟ چلانا تو ایک طرف رہا، میں تو اسے ہلا بھی نہیں سکتا۔ نہ یہ پتہ ہے کہ چلانے کے لے کون سی کمانی گھماتے ہیں اور اگر چل پڑے تو روکتے کس طرح ہیں؟ وہ منہ چڑا کر کہتی۔ ڈاکٹر صاحب تو روز چلاتے ہیں، چلانا سیکھ کیوں نہیں لیتے۔ میں کہتا۔ کوئی سبق ہو تو یاد کر لوں۔ وہ تو ہینڈل پکڑ کر ایک دلتی سی مارتے ہیں اور پھٹ پھٹ کی آواز آنے لگتی ہے۔ پھر نہ جانے کیا کھینچا تانی کرتے ہیں کہ دیکھتے دیکھتے موٹر سائیکل ہوا ہو جاتی ہے۔

    تب کہا جاتا کہ ’’تم یہ سب کیوں نہیں کر سکتے؟ بس ڈرتے ہونا!‘‘ میں سمجھاتا کہ ابھی موٹرسائیکل کے برابر تو ہم خود ہیں۔ بڑے ہوگئے تو موٹرسائیکل چھوڑ پوری موٹر چلایا کریں گے۔ بھلا کبھی ہمارے جتنے بچوں کو موٹرسائیکل پر چڑھتے کہیں دیکھا ہے؟ اس کے جواب میں ایک تصویر پیش کی جاتی۔ ایک موٹرسائیکل کوئی لڑکا چلا رہا ہے اور ایک لڑکی پیچھے بیٹھی ہے۔ میں بہتیرا کہتا کہ یہ تصویر فرضی ہے۔ یونہی کسی نے کھینچ دی ہے، لیکن جواب وہی ملتا کہ بس ڈرپوک ہو! اختر کے کہنے پر میں طرح طرح کی حماقتیں کر چکا تھا۔ ہم دونوں نے مشورہ کرکے ابا جان کی سنہری گھڑی کیاری میں بو دی۔ اختر کا خیال تھا کہ پودے میں پہلے تو ننھی منی گڑیاں لگیں گی۔ پھر ٹائم پیس لگیں گے اور جب پودا بڑا ہو کر درخت بن جائے گا تب کلاک لگیں گے۔ لیکن باوجود ایک ماہ کی دیکھ بھال اور پانی دینے کے کچھ بھی نہ ہوا۔

    پھر اس کے مجبور کرنے پر بہادر بننے کے سلسلے میں اباجان کی بندوق چلا دی۔ جب بندوق چلی تو میں کہیں گرا اور بندوق کہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میری غلیل تک چھین لی گئی۔ اختر کہتی تھی کہ جو چیز جانور کو جا لگتی ہے وہ سالم بندوق ہی ہوتی ہے۔ یہ گولی اور چھرے یونہی بناوٹی چیزیں ہیں۔ اس روز بندوق چلانے پر کچھ بھی ثابت نہ ہوسکا۔ یہ ضرور ہوا کہ گولی تو خدا جانے کہاں گئی، البتہ چھت پر ڈبو میاں (جو غالباً بلی سے لڑ کر چھت پر دھوپ سینک رہے تھے) تڑپ کر اچھلے اور ساتھ رکھے ہوئے ٹب میں جاپڑے اور وہاں سے اچھل کر روشن دان میں سے ہوتے ہوئے سیدھے کمرے میں جاگرے، جہاں آپا کے پاس ہونے کی خوشی میں پارٹی ہو رہی تھی۔ بھیگے کتے کو اس انداز سے کمرے میں آتے دیکھ کر خدا جانے ان کی سہیلیوں پر کیا بیتی۔ آپا بے حد ناراض ہوئیں۔ ان کے رنگ برنگے سیٹیاں بجانے والے پرندے سہم کر رہ گئے۔ اور وہ کمبخت طوطا تو یوں دبک گیا جیسے مر ہی گیا ہو۔

    پھر پریوں کی بہت سی کہانیاں پڑھنے کے بعد اختر کے کہنے پر ساری رات چھوئی موئی اور نرگس کی کلیوں پر پہرہ دینے میں گزار دی۔ ہم وہاں پریاں پکڑنے گئے تھے۔ اختر کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا جال تھا (جس سے ہم تتلیاں پکڑا کرتے تھے۔) ہم دبے پاؤں پہرہ دیتے رہے، جب چاند طلوع ہوا تو ہم اور بھی محتاط ہوگئے۔ اس رات مجھے بڑا ڈر لگا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے سبکیاں آرہی تھیں۔ جب مرغ کی اذان سنائی دی تو اپنے اپنے کمروں میں جا دبکے۔ صبح صبح ہمیں کھانسی بھی ہوگئی اور زکام بھی۔ سہ پہر کو ہم باغ میں کھیل رہے تھے۔ دیکھا کہ ایک درخت کے نیچے منشی جی نماز پڑھ رہے ہیں۔ اختر کی اور منشی جی کی آپس میں چٹم چوٹ رہتی تھی۔ اختر بولی، ’’جب کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘

    بولی، ’’اب یہ جو منشی جی نماز پڑھ رہے ہیں۔ اگر تم ان کا کان کاٹنا چاہو تو ہرگز نہیں کاٹ سکتے۔‘‘ میں نے کہا، ’’کاٹ سکتا ہوں۔‘‘ وہ بولی، ’’بالکل نہیں۔‘‘ میں مصر ہوا۔ آخر طے ہوا کہ جب منشی جی اس دفعہ نیت باندھیں، تو میں ان کا کان کاٹ دوں۔ شرط بھی لگی۔ اختر دوڑ کر چچا جان کی شکاری چھری لے آئی۔ میں نے اچھی طرح چھری پکڑی اور تاک میں بیٹھ گیا۔ منشی جی سجدے میں گئے۔ اب جو وہ بیٹھے ہیں تو لپک کر ان کا کان پکڑا اور چھری پھیردی۔ ادھر کان ہے کہ کٹتا نہیں۔ میں ہوں کہ زور لگا رہا ہوں۔ کیا مجال ہے کہ منشی جی ذرا بھی ہلے ہوں، بدستور نماز پڑھتے رہے۔ اختر کے قہقہوں پر نوکر آگئے۔ جو دیکھتا ہوں تو چھری الٹی پکڑ رکھی ہے۔ نوکروں کو دیکھ کر ہم وہاں سے بھاگے۔ کتنے دنوں تک ڈرتا رہا کہ اگر چھری کی دھار منشی جی کے کان پر پھیر دیتا، تو واقعی ان کا کان میرے ہاتھ میں آجاتا اور پھر خون بھی نکلتا۔

    ایک روز ہم آپا کے ساتھ سینما گئے جہاں مکے بازی کی فلم دیکھی۔ اختر کو مکہ بازی بہت پسند آئی۔ گھر پہنچ کر کہنے لگی آؤ لڑیں۔ مجھے ان دنوں بخار آتا تھا۔ وہ ساری گرمیاں پہاڑ پر گزار کر آئی تھی اور خوب سرخ ہو رہی تھی۔ پہلے تو ٹال مٹول کی کہ بھلا ایک لڑکی سے کیا لڑوں گا۔ وہ کہنے لگی تم ڈرتے ہو۔ خیر مکہ بازی ہوئی۔ اس نے اپنے لمبے لمبے تیز ناخنوں سے میرا چہرہ نوچ لیا اور جب میں نے اسے پرے دھکیلا تو اس نے دوڑ کر میری کلائی میں اس بری طرح کاٹا کہ اب تک نشان موجود ہے۔ پھر جو روئی ہے تو چپ کرانا مشکل ہوگیا۔ تتلیوں کے سارے پر، چاکلیٹ سے نکلی ہوئی تصویریں، گولیاں۔۔۔ جو کچھ میرے پاس تھا سب کچھ اسے دیا۔ تب جاکر چپ ہوئی۔

    میں کچھ ایسا ڈرتا بھی نہیں تھا۔ ایک تو مجھے اختر کے جنوں، بھوتوں کے قصوں نے پریشان کر رکھا تھا۔ صبح سے شام تک طرح طرح کی جھوٹی سچی کہانیاں سنایا کرتی اور میں یقین کر لیتا۔ رات کے گیارہ بجے ہوں گے۔ سب سیکنڈ شو دیکھنے گئے ہوئے تھے۔ ہم دونوں کو استانی جی پڑھا کر چلی گئیں۔ کمروں میں ڈر لگتا تھا۔ اس لیے دونوں برآمدے میں بیٹھے تھے۔ باہر زور سے بارش ہو رہی تھی۔ بجلی چمک رہی تھی۔ بادل گرج رہے تھے۔ اختر نے ایک کہانی شروع کی، ’’اندھیری رات تھی۔ ایک بہت ہی ڈراؤنے اور اجاڑ جنگل سے ایک ٹرین گزر رہی تھی۔ بری طرح بارش ہو رہی تھی۔ ایک لمبے خطرناک سے ڈبے میں صرف دو آدمی بیٹھے تھے۔‘‘

    مجھے ڈر لگنے لگا۔ یہ اختر کبھی خواہ مخواہ ایسی باتیں کرتی ہے۔ بھلا ریل کا ڈبہ خطرناک کیسے ہوگیا؟ سوچنے لگا شاید اب یہی ہوگا کہ ایک آدمی دوسرے می مرمت کرے گا۔ یا چلتی ریل سے باہر پھینک دے گا۔ میں نے اپنی کرسی کھینچ کر اس کے نزدیک کرلی۔ وہ بڑے اطمینان سے کہانی سنا رہی تھی، ’’دونوں آدمی چپ چاپ بیٹھے تھے۔ بجلی زور سے کڑکی اور ایک نے دوسرے سے پوچھا، ’’کیوں جناب بھوت پریت پر آپ کا اعتقاد ہے یا نہیں؟‘‘ دوسرا بولا، ’’جی نہیں! قطعاً نہیں۔۔۔ اور آپ؟‘‘ پہلا بولا، ’’میرا تو ہے۔‘‘ اور یہ کہتے ہی دہ دھواں بن کر اڑ گیا۔

    ’’دھواں بن کر اڑگیا؟ کہاں اڑگیا؟‘‘ میں نے قریب قریب چیختے ہوئے کہا۔

    ’’بھئی غائب ہوگیا۔ دراصل وہ خود بھوت تھا اور آدمی کا بھیس بدلے بیٹھا تھا۔‘‘

    ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

    ’’پھر کیا ہونا تھا۔۔۔ جو بیچارہ ڈبے میں رہ گیا تھا اس کا کیاحال ہوا ہوگا؟ ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘‘

    میں نے اپنی کرسی اور نزدیک کھینچ لی۔ وہ ڈراؤنا منہ بنا کر بولی، ’’اور اگرمیں یہاں بیٹھی بیٹھی غائب ہوجاؤں؟ بس دھواں بن کر اڑجاؤں تب؟‘‘ میں نے لپک کر اسے پکڑ لیا۔ اتنے زور سے دبوچا جیسے وہ سچ مچ اڑ جائے گی۔ وہ کہنے لگی، ’’اور جو میں انسان نہ ہوں تب۔۔۔؟ کچھ اور ہوں تو؟‘‘ میں اس قدر ڈرا کہ ایسی سرد رات میں بھی اتنا پسینہ آیا کہ کپڑے بھیگ گئے۔ مدتوں یہی سوچا کرتا کہ کیا ہو جو یہ اختر کوئی چڑیل وغیرہ ہی ہو۔

    ایک رات امی بولیں، ’’ننھے ذرا اندر سے ٹارچ اٹھا لاؤ۔ مالی کہیں باہر جائے گا۔‘‘ میں بڑا دلیر بن کر اندھیرے کمرے سے ٹارچ اٹھا لایا۔ اختر بولی، ’’بڑے بہادر بنے پھرتے ہو۔ وہ کہانی بھی سنی ہے تم نے اندھیرے کمرے میں ماچس والی؟‘‘ میں سہم گیا، ’’کون سی کہانی؟‘‘

    ’’وہی کہ ایک شخص اندھیرے کمرے میں ماچس لینے گیا۔ اندر سخت تاریکی تھی۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ وہ ادھر ادھر ٹٹول رہا تھا کہ یکلخت اس کے ہاتھ میں ماچس تھما دی گی!‘‘

    ’’ماچس دے دی۔ کس نے؟‘‘

    ’’نہ جانے کس چیز نے دے دی۔ وہ شخص چیخ مار کر باہر بھاگا۔ لوگوں نے بہتیرا تلاش کیا لیکن اندر کوئی نہ تھا۔ لہٰذا اندھیرے کمرے میں جاتے ہوئے ذرا ہوشیار رہنا چاہیے۔‘‘ اس کے بعد مدت تک میں کسی اندھیرے کمرے میں نہیں گھسا۔

    آخر اس کے بار بار کہنے پر تنگ آکر میں نے تہیہ کرلیا کہ ضرور ایک روزموٹرسائیکل چلاؤں گا۔ اختر کو یقین تھا کہ سارا ڈر تب تک ہے جب تک موٹرسائیکل چلتی نہیں۔ ایک دفعہ چل پڑے تو بس پھر یوں لگے گا جیسے معمولی سائیکل چلا رہے ہوں۔ جب کبھی ڈاکٹر صاحب موٹر سائیکل چلاتے تو ہم بڑے غور سے سارا عمل دیکھتے۔ شروع شروع کی باتیں تو سمجھ میں آجاتیں، لیکن بعد میں جو تین چار حرکتیں اکٹھی کرجاتے ان کا کچھ پتہ نہ چلتا۔ اختر بولی، ’’تم پوچھ کیوں نہیں لیتے ڈاکٹر صاحب سے۔‘‘ میں نے کہا، ’’بتائیں گے نہیں۔ اور ممکن ہے کہ ناراض ہوجائیں اور پینے کو سخت کڑوی کسیلی دوائیاں دیں۔‘‘ بولی، ’’تم ڈرپوک ہو۔‘‘ میں جھلا اٹھا اور سینہ پھلا کر بولا، ’’آج ڈاکٹر صاحب سے ضرور پوچھوں گا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب اندر سے نکلے۔ میں برآمدے میں کھڑا تھا۔ ان کے ساتھ باہر تک گیا، انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے عجیب طرح گھور کر دیکھا تو میں گھبرا گیا۔ اختر کھڑکی کے پردوں سے جھانک رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب بولے، ’’سناؤ بچے! کیسے ہو؟‘‘

    ’’جی بالکل اچھا ہوں۔ ایک بات پوچھنے آیا تھا۔ بات یہ ہے کہ۔۔۔ وہ۔۔۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم باغ میں جاکر گالیاں اور موجریں کھا لیا کریں۔‘‘

    ’’کیسے مہمل الفاظ استعمال کر رہے ہو برخوردار! یقیناً تم بہت برا اِملا لکھتے ہوگے۔ میں استانی صاحبہ سے ضرور کہوں گا۔ گالیوں اور موجروں سے کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘

    ’’جناب میں کہہ رہا تھا کہ مولیاں اور گاجریں۔ غلطی سے وہ۔‘‘

    ’’افوہ۔۔۔! ہاہاہا۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔۔ خوب! ہاں گاجریں مفید ہیں اگر تھوڑی مقدار میں کھائی جائیں تب!‘‘

    میں نے بڑی مسمسی شکل بنا کر اختر کی طرف دیکھا۔ اس نے میرا منہ چڑا دیا۔ میں یکلخت ایک بہادر لڑکا بن گیا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب! ایک بات ہے۔ آپ ناراض تو نہ ہوں گے۔ پوچھوں؟‘‘

    ’’ضرور پوچھو برخوردار! یقیناً تمہارے سر میں درد ہوگا۔ کیوں؟‘‘

    میں پھر گھبرا گیا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب! یہ آپ کی ٹائی بہت خوشنما ہے۔ بالکل اسی رنگ کی ایک تتلی ہم نے پکڑی تھی۔‘‘

    ڈاکٹر صاحب شرما گئے۔

    اختر نے میرا منہ چڑایا۔ میں جلدی سے آگے بڑھا۔ ڈاکٹر صاحب نے پھر مجھے دیکھا اور میں پھر بوکھلا گیا۔ میں نے کہا، ’’ڈاکٹر صاحب! آپ بہت اچھے ہیں۔ اب میں ضرور آپ کا کہا مانا کروں گا۔ آپ جس وقت چاہیں میری زبان دیکھ سکتے ہیں۔ اگر اب آپ کہیں تو میں حلق بھی دکھادوں۔ یہ دیکھیے۔‘‘ ادھر کیا تو وہ جانے کی تیاری کر رہے تھے کیا چونک پڑے۔ ’’ننھے! تم ضرور جامنیں کھاکر آئے ہو۔ تمہاری زبان رنگی ہوئی ہے۔۔۔ اور دیکھو!‘‘ میں وہاں سے سرپٹ بھاگا۔

    اختر نے مجھے پکڑ لیا۔ منہ بنا کر بولی، ’’آپ کی ٹائی نہایت اچھی ہے جناب، آپ کی مونچھیں بہت بڑھیا ہیں جناب، آپ بہت اچھے ہیں جناب، ڈرپوک کہیں کے! دو لفظ منہ سے نکلے کہ آپ کی موٹرسائیکل کس طرح چلتی ہے جناب!‘‘ میں نے کہا، ’’کسی اور سے پوچھ لیں گے۔ بجلی کا مستری ہے، ڈاکیا ہے، شوفر ہے، استانی جی ہیں،۔۔۔ کوئی نہ کوئی تو بتاہی دے گا۔‘‘ لیکن ہمیں کسی نے نہ بتایا۔ شاید قسم کھا رکھی تھی سب نے۔ آخر ہفتہ بھر کی محنت کے بعد مجھے کچھ کچھ پتا چل ہی گیا کہ سٹارٹ کس طرح کرتے ہیں۔ اب سوال تھا روکنے کا۔ اختر بولی، ’’جب چل پڑے گی تب دیکھا جائے گا۔‘‘

    کئی روز تک موقع نہ مل سکا۔ ڈاکٹر صاحب نے نہ جانے کہاں سے بیہودہ سی موٹر خرید لی تھی۔ جب وہ ایک میل دور ہوتے تب سے ہمیں پتہ چل جاتا کہ ڈاکٹر صاحب آ رہے ہیں۔ موٹر کا شور اتنا تھا کہ ہارن کی ضرورت نہیں تھی۔ دو چار مرتبہ موٹرسائیکل بھی لائے، لیکن فوراً واپس چلے گئے۔ پھر یکلخت ان کا آنا جانا بند ہوگیا۔ میں تو دل ہی دل میں خوش تھا، لیکن اختر ہر روز مجبور کرتی کہ ڈاکٹر صاحب کو بلاؤ۔ بڑی منتوں سے کہتا کہ کس طرح بلاؤں آخر؟ ڈاکٹر صاحب کو بلانے کے لیے کم از کم ایک آدھ کو تو ضرور بیمار ہوناچاہیے۔ ایک صبح ہمیں پتہ چلا کہ چچا جان کے کان میں درد ہے۔ فوراً سوجھی کہ ڈاکٹر صاحب کو چچا جان کی طرف سے فون کیا جائے۔ ہم چوری چوری ٹیلیفون کے کمرے میں گئے اور کمرہ چاروں طرف سے بند کرلیا۔ اختر نے مجھ سے کہا کہ میں موٹی آواز میں چچا جان کی طرح بولوں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے فون کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی بھاری سی آواز آئی، ’’ہیلو!‘‘

    میں نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا، ’’ہے ہے۔ لووو۔!‘‘ پہلے آواز بالکل باریک تھی پھر اختر کی چٹکی سے یک لخت موٹی ہوگئی۔

    ’’کون صاحب ہیں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’جی ہم ہیں۔۔۔ میرا مطلب یہ کہ میں ہوں (پھر بہت موٹی آواز سے) میں ہوں!‘‘

    ’’آپ کی تعریف؟‘‘

    ’’میں ہوں چچا جان۔۔۔ ار میرے کان میں درد ہے۔ (میں گھبرا گیا اور آواز پھر پتلی ہوگئی) جناب ڈاکٹر صاحب اس وقت فون پر چچا جان بول رہے ہیں۔ آپ ذراتشریف لے آئیے۔‘‘

    ’’صاحب کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون بول رہا ہے اور میں کہاں آؤں؟‘‘ آواز آئی۔

    اختر نے میرے ہاتھ سے ریسیور چھین لیا اور بھاری آواز سے بولی، ’’آپ پہچانتے ہی نہیں ڈاکٹر صاحب! میں ہوں (چچا جان کا نام لے کر) آپ ذرا آئیے تو سہی!‘‘

    ’’افوہ! ابھی حاضر ہوا!‘‘

    ہم بھاگے سیدھے باغ کی طرف اور فوارے کی آڑ میں چھپ گئے۔ پھٹ پھٹ کرتی ڈاکٹر صاحب کی موٹرسائیکل کوٹھی میں داخل ہوئی۔ انہوں نے حسب معمول اسے برآمدے کے سامنے ٹھہرادیا اور اندرچلے گئے۔ میرا حلق خشک تھا۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ دل تھا کہ بری طرح دھڑک رہاتھا۔ لیکن اختر کو ذرا بھی پروانہ تھی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور لپکی سیدھی موٹر سائیکل کی طرف۔ اس نے ایک دفعہ پھر مجھے ڈانٹا اور ڈرپوک کہا۔ میں ذرا بہادر سا بن گیا۔ ہم نے موٹرسائیکل کو بمشکل ہلا کر دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ طے ہوا کہ پہلے اختر پچھلی سیٹ پر بیٹھے اور جب میں بیٹھوں تو وہ میری کمر پکڑے۔

    جونہی اس نے میری کمر پکڑی، میں اچھل کر اتر کھڑا ہوا۔ کیونکہ اتنی گدگدی ہوئی کہ کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔ ادھر اس کا ہاتھ لگا اور میں ہنستے ہنستے بے حال ہوگیا۔ میں نے کہہ دیا کہ اس طرح تو میں گر پڑوں گا، چلانا تو ایک طرف رہا۔ پوچھنے لگی کہ کہاں گدگدی نہیں ہوتی؟ میں نے کہا کہ بازو پکڑلو۔ اس نے مضبوطی سے بازو پکڑا۔ ادھر میں پورے زور سے اچھل کر سٹارٹر پر کودا اور موٹرسائیکل سٹارٹ ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب فوراً باہر نکلے، ’’لینا۔ پکڑنا!‘‘

    موٹر سائیکل جو تیزی سے چلی ہے۔ کچھ پتہ نہ تھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ موتیے کے تختوں اور پھول دار بیلوں کو روندتے ہوئے جھاڑیوں میں گھس گئے۔ فوارے سے بال بال بچے۔ موڑ پر ڈبو میاں کو بچایا ورنہ وہ نیچے ہی آچلے تھے۔ پھر موٹرسائیکل یک لخت تیز ہوگئی۔ ہم نے ایک قلابازی سی کھائی۔ ایک زور دار دھماکا ہوا اور پھر پتہ نہ چلا کہ ہم موٹرسائیکل کے اوپر تھے یا وہ ہمارے اوپر۔ تھوڑی دیر کے لیے میں بالکل بیہوش ہو گیا۔ جب آنکھ کھلی تو سدابہار کی ٹہنیوں میں اس طرح الجھا ہوا تھا کہ نکلنا محال تھا۔ ہاتھ منہ لہولہان ہو رہے تھے۔ اب جو ہلنے کی کوشش کرتا ہوں تو بمشکل دیکھتا ہوں کہ اختر بازو سے چمٹی ہوئی ہے۔ آنکھیں بند ہیں، لیکن گرفت اسی طرح ہے۔

    بڑی مشکل سے سر باہر نکال کر دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب، چچا جان اور نوکر ہمیں ڈھونڈ رہے تھے۔ اپنا بازو چھڑانا چاہا۔ بہتیرا کہا کہ اب تو ہاتھ چھوڑ دو، لیکن اس کی گرفت بدستور رہی۔ بڑی مصیبتوں سے ٹہنیوں سے باہر نکلا اور ساتھ ہی میرے بازو سے لٹکی ہوئی اختر! موٹرسائیکل سدابہار کی گھنی ٹہنیوں کے اس طرف نکل گئی تھی اور ہم جھاڑی میں الجھ کر رہ گئے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ ہمیں دھمکایا گیا۔ ہر قسم کی ڈانٹ دی گئی۔ بزرگوں سے لے کر چھوٹوں تک سب نے ہمیں حسب توفیق لیکچر دیے۔ ٹیلیفون کو ایک اونچی سی الماری پر رکھ دیا گیا (غالباً وہ یہ بھول گئے کہ ہم میزیں رکھ کر بھی وہاں پہنچ سکتے تھے۔) ڈاکٹر صاحب نے توبہ کی کہ وہ کبھی موٹر سائیکل پر ہمارے ہاں نہ آئیں گے اور اسی بیہودہ موٹر میں آیا کریں گے جس سے ہمیں نفرت تھی۔ اختر کے ابا کو یہ ساری کہانی لکھ کر بھیجی گئی اور ہمیں کسی دور دراز اسکول میں بھیجنے کی دھمکی دی گئی۔

    کچھ دنوں بعد اختر کہیں چلی گئی۔ مجھے بھی کسی اور جگہ پڑھنے بھیج دیا گیا۔ پھر مدت کے بعد اس کی تصویر آئی، جس میں وہ ایسی بنی ہوئی تھی کہ یقین نہ آتا تھا کہ یہ وہی چھوٹی سی ضدی اختر ہے جس کے ہاتھ اور کپڑے مٹی میں لتھڑے رہتے تھے۔ جس نے میری کلائی میں اس بری طرح سے کاٹ کھایا تھا۔ کئی اور تصویریں آئیں۔۔۔ ہر نئی تصویر میں وہ سنجیدہ اور مدبر بنتی گئی۔ پھر سنا کہ اس کی کہیں منگنی ہوگئی۔ اس کے خط آنے بند ہوگئے۔ اس کے بعد کچھ پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں ہے۔

    آج صبح موٹرسائیکل سٹارٹ کرتے وقت میں ٹھٹک کر رہ گیا۔ یونہی بیتی ہوئی باتیں یاد آگئیں۔ بالکل ایسی ہی رنگین صبح تھی۔ شبنم کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ گلاب کے تختے سرخ ہو رہے تھے۔ ہوا کے جھونکے طرح طرح کی خوشبوئیں پھیلا رہے تھے۔ رنگ برنگ پرندوں کی سیٹیاں سنائی دے رہی تھیں۔ میں نے جلدی سے سامنے کھڑکی کی طرف دیکھا کہ شاید پردوں کے پیچھے کوئی نیلگوں آنکھوں اور سنہری بالوں والی گڑیا میرا منہ چڑا رہی ہو اور باہر ہاتھ نکال کر زور سے کہہ دے۔

    ’’ڈرپوک!‘‘

    مأخذ:

    شگوفے (Pg. 80)

    • مصنف: شفیق الرحمان
      • ناشر: کتاب والا، دہلی
      • سن اشاعت: 1994

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے