Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دل نہیں کرتا

واجد علی گوہر

دل نہیں کرتا

واجد علی گوہر

MORE BYواجد علی گوہر

    دنیا میں ازل سے کچھ بیماریاں لاعلاج تھیں ، لاعلاج ہیں اور لاعلاج رہیں گی۔ میڈیکل سائنس، حکمت، ہومیو پیتھک، روحانیت، کالا جادو، عملیات اور علم نجوم جتنی بھی ترقی کرلے اور جیسی بھی ممکن ہو ایڈوانس ریسرچ کرلے مگر افسوس کہ یہ لاعلاج بیماریاں لاعلاج ہی رہیں گی اور ان بیماریوں کے شکار مریض مایوسی و ناکامی کے ساتھ یہاں سے واپس چلے جائیں گے۔ ان میں سب سے مہلک اور لاعلاج بیماری کا نام ہے دل نہیں کرتا۔میں جب ایسے لاعلاج مریضوں کو دیکھتا ہوں اور ان کے شکستہ چہروں پر نگاہ دوڑاتا ہوں تو دل یہ سوچ کر خون کے آنسو روتا ہے کہ کاش! کوئی چارہ گر ایسا بھی ہوتا جو اس لاچاری کا مسیحا بن کر ان کی زندگیوں کو مسرت اور شادمانی سے لبریز کردیتا، جو در در پہ جاکر اپنے دکھڑا سناکے عاجز آگئے اُن کا ایک ہی چٹکی میں کام کردیتا اور افق کے ساتھ نظریں گاڑھے کہیں کسی دوسری دنیا سے مدد کی آمد کے منتظر مشتاق نگاہوں کی آس کو اپنی طلسمی پھکی سے پورا کردیتا۔

    آپ دور کیوں جاتے ہیں کسی بے کارنوجوان سے پوچھیے کہ سارا دن موبائیل پہ بیٹھ کر وقت ضائع کرتے ہو ، اس کی بجائے سٹڈی کیوں نہیں کرلیتے تو جواب ملتا ہے آپ کا ارشاد بجا مگر دل نہیں کرتا۔اور دل نہیں کرتا والی بیماری چونکہ لاعلاج ہے اس لئے ایسا مریض بھی لاعلاج ہے جس کیلئے آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے سوائے درگزر کرنے اور خاموشی اختیار کرنے کے۔ اس لئے کہ اگر آپ نے ایسے لاعلاج مریض کے ساتھ زیادہ چھیڑ چھاڑ کرکے بیماری کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی تو اغلب امکان ہے کہ مریض اپنا ذہنی توازن کھو کر آپ کے توازن کو بھی غیر متوازن کردے گا اور آپ شام تک کسی سرکاری ہسپتال میں درد کی شدت سے ہائے میں مرگیا کہتے ہوئے پائے جائیں گے۔

    ہمارے حلقہ ارباب کے ایک اہم رکن اور دیرینہ شناسا قبلہ پتلے میاں آٹھوں پہر والے کا شمار بھی اُن مریضوں میں ہوتا ہے جو دل نہیں کرتا جیسی بیماری کا شکار ہیں۔ آپ کے اپنے بقول آپ پر اس خطرناک وائرس کا حملہ کب ہوا یہ تو یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ پہلی مرتبہ یہ بیماری اُس دن آپ پر ظاہر ہوئی تھی جب آپ اپنے ہی گھر کے ماہانہ خوراک کے بجٹ کا توازن تباہ و برباد کرتے ہوئے چھ عد پراٹھے، چار انڈے اورتین پیالے چنے کے ہڑپ کرگئے۔ آپ کا ارادہ چونکہ اگلی چوکی بھی تباہ کرنے کا تھا لہذا تازہ دم ہوکر لڑنے اور مورچے کو خالی کرنے کی غرض سے آپ ٹوائلٹ تشریف لے گئے جہاں محتاط اندازے کے مطابق آدھا گھنٹہ آپ نے تابڑ توڑ گولہ باری کی اور باہر نکل کر دوبارہ دستر خوان پر اُسی آن بان شان سے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔آپ کی اماں جان نے جب آپ کے خطرناک تیور دیکھے تو چمٹا آگ میں گرم کرکے بہت لاڈ سے پچکارتے ہوئے پوچھا پتلےبیٹے! میرے رستم ِ خوارک !چمٹا ہاف فرائی کھاؤ گے یا فل فرائی؟۔آپ نے مگر یہ کہہ کر ماں کا دل توڑ دیا کہ نہیں بس۔ اب دل نہیں کرتا۔ اُس چمٹے کا مگر کمال دیکھیے کہ وہ وائرس اب گھر میں سویا رہتا ہے لیکن جیسے ہی پتلے میاں کہیں خوشی کی دعوت پر جائیں یا فوتگی کے سوگ پر ، وہ فورا بیدار ہوکر پتلے میاں کے پتلے معدے کو سگنل بھیج دیتا ہے اور بس پھر وہ گھڑمس مچتا ہے کہ کوئی ڈونگا، پرات یا روٹی سلامت نہیں بچتی اور جب دھول بیٹھتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ پتلے میاں ہیں اور وہ اُن کے آگے خالی پلیٹوں کا لشکر جرار شکست کھا کے نیم مردہ عالم میں پڑا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود پتلے میاں جہاں بھی جائیں ، اپنی روایت اور پرم پورہ نبھانے کے بعد یہی کہتے ہیں اب نہ وہ خوراک رہی نہ وہ خوراک کھلانے والے۔ اسی وجہ سے اب میرا دل نہیں کرتا۔

    مجھے ایک ایسے ڈاکٹر صاحب سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا ہے جو معمولی سے سر درد کیلئے بھی مریض کو آٹھ سے دس ہزار کے ٹیسٹس کروانے کا کہہ کر اُنہیں اپنے کلینک کے ساتھ ملحقہ لیب میں پرچی دے کر ریفر کر دیتے ہیں جس کے ایک کونے میں بہت ہی باریک لکھائی میں م-19، م-20 وغیرہ لکھا ہوتا ہے جس کا مطلب مریض نمبر 19 اور مریض نمبر 20 ہے۔ میں نے وجہ معلوم کی تو پتہ چلا کہ ایک مرتبہ لیب والے اور ڈاکٹر صاحب کا مریضوں کی تعداد پر جھگڑا ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول اُن کی دیہاڑ نو ہزار بنتی تھی مگر لیب والا آٹھ ہزار نو سو پچاس روپے دینے پر مصر تھا۔ اُس وقت تو ڈاکٹر صاحب نے پیٹ پر پتھر رکھتے ہوئے پچاس روپے کا بھاری نقصان برداشت کرلیا مگر مستقبل میں ایسے ہولناک حادثات سے بچنے کیلئے پریس سے نئی پرچیاں چھپوائیں جن پر ایک کونے میں م۔۔۔۔۔۔۔ لکھو ادیا۔اُس کے بعد سے اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ میں نے اُن سے اپنا چیک اپ کرواتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ سر! کیا ایسے نہیں ہوسکتا کہ معمولی امراض کے مریضوں کو صرف میڈیسنز دے کر آپ بھیج دیا کریں۔ اُنہوں نے میری بات کو بہت توجہ سے سن کر جواب دیا کہ آپ کی بات تو بہت معقول ہے مگر کیا کروں دل نہیں کرتا۔

    ایک مرتبہ اپنے عزیز کے ولیمے پر ایک ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن سے منسلک صاحب سے ملاقات ہوگئی، جہاں بین الاقوامی سیاست سے لیکر ہوم سیاست تک تمام موضوعات زیرِ بحث آئے جن میں تمام شرکائے محفل نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بین الاقوامی سیاست کو سمجھنا اور اُس کے متعلق پیشن گوئی کرنا ہوم سیاست کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہے۔ اثنائے گفتگو میں نے اُن صاحب کے کان میں یہ مسئلہ بھی ڈال دیا کہ شناختی کارڈ بنوانے والے حضرات پہلے نادرا کے دفتر جا کر فارم بنواتے ہیں اور پھر اُس فارم کو تصدیق کرنے کیلئے اُنہیں چار پانچ میل کا سفر کرکے واپس شہر میں جاکر ہائی سکول کے درجہ چہارم کی منت کرنا پڑتی ہے مگر وہ آگے سے ایک ہی جواب دیتا ہے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب دورے پر ہیں، تو کیا ایسے ممکن نہیں کہ تصدیق کا عمل بھی نادرا کے اندر ہی شروع کروادیا جائے تاکہ عوام کیلئے سہولت پیدا ہوا۔اُنہوں نے کمال شفقت اور مہربانی سے سارے امور سے توجہ موڑ کر میری بات پر توجہ فرمائی، سر بھی ہلایا اور آخر میں مجھے اس جواب سے مشرف فرمایا، آپ کہتے تو ٹھیک ہیں۔ اس میں عوام کیلئے تو واقعی سہولت ہے اور ہمیں ایسا قانون بنانے کی فوری ضرورت بھی ہے مگر دل نہیں کرتا۔

    گمی کڑچھا نام کے ایک صاحب ہمارے محلے میں کرائے دار بن کر آئے اور اچھو ڈیپارٹمنٹل سٹور سے سودا سلف لینے کا کھاتہ کھلوا کر باقاعدگی سے ہر ماہ کی یکم کو راشن اپنی نگرانی میں تلوا کر لے جاتے۔ اچھو بھائی کیونکہ شریف آدمی تھے اوپر سے اقلیتی برادری سے اُن کا تعلق تھا اس لئے زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے تھے اور بس اتنا پوچھ لیتے تھے کڑچھا جی ! پھر کیا نئی تازی ہے۔ اس بار کچھ نیا ہوگا یا وہی نپا تلا سامان ِ کریانہ۔ گمی جی کیونکہ ایک سیدھے سادھے بھولے بھالے انسان ہیں اس لئے اچھو کے اشاروں کنایوں کی زبان کو کیا خاک سمجھتے ، بس جواب میں اتنا ہی کہتے ارے نہیں اچھو میاں! نیا ملک بنا کر دیکھ لیا اُس سے کچھ نہیں ہوا تو نیا سامان لے جانے سے کیا ہوگا بھلا۔ تم مجھے وہی پرانی لسٹ والا سامان ہی دے دو۔ اور یوں کرتے کرتے اچھی خاصی ادھار کی رقم بن گئی جس کے بعد ایک دن چپکے سے رات کو گاڑی منگوائی اور بمع ساز و سامان محلے سے آسانی اور سہولت کے ساتھ منتقل ہوگئے۔ ایک دن مجھے بازار میں سرِ راہ مل گئے تو میں نے جھک کر مصافحہ کرنے کی کوشش کی لیکن اُنہوں نے پہچاننے سے انکار کردیا۔ میں نے اس پر اچھو کریانے والے کی دکان یاد دلائی تو بہت مسرور ہوئے اور سُن کر فرمایا کہ بھئی! خدا لگتی کہوں تو اچھو جیسا شریف سخی اور ادھار کھاتے داروں کو بھولنے والا انسان مجھے پھر کبھی نہیں ملا۔ بس کچھ نامساعد حالات نے مجبور کردیا تھا ورنہ میں اچھو کے محلے سے کبھی نہ نکلتا۔ میں نے جواب میں عرض کرتے ہوئے کہا کہ اُس کے ادھار کی واپسی کا ہی کچھ سوچ لیں۔ میری بات سُن کر رنجیدگی اور افسردگی کے ساتھ سر جھکا کر کچھ دیر کیلئے سوچا اور پھر سر اٹھاکے فرمایا میاں تم ٹھیک کہتے ہو ۔ میرا دماغ بھی یہی کہتا ہے کہ اچھو کے بارے میں سوچوں۔ مگر کمبخت دل نہیں کرتا۔

    سو صاحبان! میرے ساتھ آپ بھی مل کر میڈیکل، حکمت ، ہومیو ، کالے جادو، عملیات ، سفلی علم ،علم جفر اور علم نجوم کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرکے اس لاعلاج بیماری کا علاج دریافت کریں جس کا نام ہے دل نہیں کرتا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے