Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فینی ڈارلنگ

مشتاق احمد یوسفی

فینی ڈارلنگ

مشتاق احمد یوسفی

MORE BYمشتاق احمد یوسفی

     

    رقم ڈوبنے کا منظر
    سارے بینک میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ ہم نے احمد نواز چیمہ سے پوچھا، ’’یہ کیا شور شرابا ہے؟ بولے، ’’یہاں تو روز ایک نہ ایک سیاپہ ہوتا رہتا ہے۔ قبر کھودنے والا ہر میت پر آنسو بہانے بیٹھ جائے تو روتے روتے اندھا ہو جائے۔ مٹی پاؤ، بادشاہو!‘‘ 

    مسٹر کینٹین والا سے دریافت کیا، ’’صاحب یہ کیا ہلا گلا ہے؟‘‘ فرمایا، ’’ادھر تو چوبیس کلاک ہاہاکار مچیلا ہے۔ اجن جونا ٹٹنا ختم نئیں ہوا کہ نوا پھڈا ہوگیا۔ بینک کا بھٹہ بیٹھ گیا۔ جب تلک سالا لوگ ہمارا پگار نئیں بڑھائیں گا، اکھادن، ڈیلی، اسی موافق لفڑا رہیں گا۔ ابھی تو تم سالا انسپکٹر آف برانچز ہوا ہے۔ آگےآگے دیکھیے ہوئیں گا کیا!‘‘ 

    ہوا یہ کہ ایک برانچ منیجر نے زنجبار الیکٹرک کمپنی کو ایک ریڈیو گرام اور استری کے نذرانہ کے عوض ساڑھے چار لاکھ روپے ہیڈ آفس کی اجازت و منظوری کے بغیر چپ چاپ قرض دے دیے۔ اور اس قرض کو ماہانہ گوشواروں میں بھی رپورٹ نہیں کیا۔ آٹھ نو مہینے بعد یہ لاش بدبو دینے لگی۔ تفتیش سے انکشاف ہوا کہ زنجبار الیکٹرک کمپنی نے جعلی انوائس اور شپنگ کمپنی کے بل آف لیڈنگ (جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس نے ساڑھے چار لاکھ روپے کی مالیت کا سامان اپنے ڈھاکہ آفس کو بھیجا ہے۔) سے جل دے کر بینک سے ساڑھے چار لاکھ روپے ہتھیا لیے۔ ڈھاکہ میں جب نومہینے تک ہنڈی نہیں سکاری گئی تو مال کی ڈھنڈیا پڑی۔ بینک کی چاٹگام برانچ نے اطلاع دی کہ جو کریٹ، بوریاں اور پیٹیاں بندرگاہ پر پڑی ہیں انہیں SURVEYOR نے کھولا تو اندر پتھر، کوئلے، لوہے کے ٹکڑے اور ڈان اخبار کی ردی نکلی۔ چند لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔ یہ ان چوہوں کی تھیں جو اخبار مذکور الصدر کا ایڈیٹوریل کھاتے ہی ڈھیر ہوگئے۔ 

    مزید تحقیقات سے پتہ چلا کہ اس کمپنی نے اسی طرح تین اور بینکوں کےساتھ دھوکہ کیا ہے۔ اور اب اس کا مالک نور الحسن شیخ نقل مکان ودوکان کرکے ڈھاکہ چلا گیا ہے، جہاں اس نے ایک بنگالی لیڈر کو اپنا ’’سلیپنگ پارٹنر‘‘ بنا کر حکومت مشرقی پاکستان سے بجلی کی مصنوعات کی فیکٹری لگانے کے لیے پچاس لاکھ روپے کے درآمدی لائسنس حاصل کرلیے ہیں، جنہیں دھڑادھڑ بلیک میں بیچ کر راتوں رات کروڑپتی بن گیا ہے۔ حال ہی میں ایک اور بنگالی سلیپنگ پارٹنر مسز۔۔۔ کو پانچ لاکھ روپے کا نذرانہ خوش خوابی دے کر جوٹ مل کا لائسنس حاصل کیا جسے پندرہ لاکھ میں فروخت کر کے پاکستان سےجانےوالے بڑے افسروں کے لیے روم میں ایک کیڈلک کار، شاندار فلیٹ اور مسافر کو ’’ہوم سک‘‘ ہونے سے بچانے کے لیے ایک خوب صورت سی سیکرٹری کا بندوبست کیا جس کی انگریزی اس کے چال چلن سے بھی زیادہ ٹوٹی پھوٹی تھی۔ لیکن اس کا شمار فضول خرچی میں نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھا گیا ہے کہ بزنس میں ۱/۴سرمایہ کےساتھ ۳/۴سیکس کا ’’انوسٹ منٹ‘‘ کردیا جائے تو پھر ملیں اور فیکٹریاں ہر سال بچے دیتی چلی جاتی ہیں۔ 

    یہ سب باتیں سامنے کی سہی مگر نور الحسن شیخ بینکوں کی رقمیں واپس نہیں کرتا۔ کہتا ہے ’’اتاؤلا سو باؤلا۔ رقمیں محفوظ ہیں۔ (یہ کچھ جھوٹ بھی نہ تھا، اس لیے کہ رقمیں سوئٹزرلینڈ کے بینک میں نمبری اکاؤنٹ میں واقعی محفوظ تھیں۔) جب میرے بنائے ہوئے ریڈیو، پنکھے، ریفریجریٹر اور ایئرکنڈیشنر بازار میں گرم پکوڑوں کی طرح بکنے لگیں گے تو ان سودخوروں کی پائی پائی چکا دوں گا۔‘‘ وہ ان میں سے تھا جن کا سب سے بڑا سرمایہ ان کی زبان ہوتی ہے۔ جب تک وہ چلتی رہے، ہن برستا ہی رہے گا۔ اس نے بینکوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی، بڑی صفائی سےسرمہ لگایا تھا۔ لیکن ایسی وارداتیں بینکوں میں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ بینک کے بڑے افسروں کے چہروں پر فکر و پریشانی کے کوئی آثار نہ تھے۔ یوں بھی بینک میں ملازم ہونے کے بعد کروڑ پتیوں کی دولت کا حساب رکھتے رکھتے آٹھ ہندسوں سے کم کی رقم آنکھوں میں جچتی ہی نہیں۔ اور اپنی تنخواہ تو بالکل ریزگاری معلوم ہوتی ہے۔ 

    ہمچو سوزن دائم از پوشش گریز اینم ما
    جامہ بہر خلق می دوزیم و عریانیم ما

    تاہم ہماری کھال ابھی حسب ضرورت موٹی نہیں ہوئی تھی۔ اور ہم ہمہ وقت سیسموگراف کی طرح لرزتے رہتے تھے کہ اس کا کام ہی زلزلوں کے جھٹکے ریکارڈ کرنا ہے۔ تیئس سال اس پیشے سے متعلق رہنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ آدمی اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کو کروڑپتی بنتا دیکھ لے تو انسانیت اور اعلیٰ اقدار پر سے اس کا ایمان یکسر اٹھ نہیں جاتا تو متزلزل ضرور ہو جاتا ہے۔ بینکر کی پتھرائی ہوئی آنکھیں روز یہی منظر دیکھتی ہیں۔ اور اس بچارے کو، بقول مرزا، اپنےایمان کو روز حقے کی طرح تازہ کرنا پڑتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس کی بھی احتیاج نہیں رہتی۔ اقتدار اور دولت کے حصول کا یہی انداز رہا ہے۔ سدا سے یونہی ہوتا آیا ہے۔ جس مٹی سے پھول کھل سکتے ہیں، جس کو کھ سے دھان پھوٹ سکتے ہیں۔۔۔ وہ تپتی زمین جو اس انتظار میں ہے کہ کوئی پیاسا اسمعیل ایڑیاں رگڑے اور اس کی چھاتی سے زمزم کے دھارے پھوٹ نکلیں۔۔۔ اسے ہم نے پتھر ہوتے دیکھاہے۔ اور پھر اسی پتھر کو ہیرا بنتے دیکھا ہے۔ جس سے ہرچیز کٹ جاتی ہے، جسے کوئی چیز نہیں کاٹ سکتی۔ 

    اس وقت ہمارے ساتھی گیلانی صاحب مدراس میں چھپی ہوئی کتاب BANK FRAUDS AND FORGERIES اپنی دراز سے نکال کر کھولے بیٹھے تھے۔ کتاب کیا تھی، جعلسازی اور فریب دہی کی مکمل ’’گائیڈ‘‘ تھی۔ اس میں بینک سے متعلق ہر نوع کے فراڈ اور دھوکہ دہی کی واردات اتنی تفصیل اور دلآویز طریقے سے بیان کی گئی تھی کہ بینک میں جو بچارے یہ تک نہیں جانتے تھے کہ غبن کیا ہوتا ہے، وہ بھی دس پندرہ منٹ میں اس فن شریف کی نزاکتوں سے کام چلاؤ واقفیت پیدا کر کے خود کو اقدام غبن میں گرفتار کروا سکتے تھے۔ پانچ چھ منٹ کی ورق گردانی کے بعد گیلانی صاحب نے اعلان کیا کہ اگر بینک کے ہر افسر کو اس کاصفحہ ۴۳ پڑھوا دیا گیا ہوتا تو آج بینک کی تجوری میں ساڑھے چار لاکھ روپے زائد ہوتے۔ پنجاب بینک لمیٹڈ، امرتسر کے ایک کیشیر نے اسی طرح ۲۵ہزار روپے کا غبن کیا تھا۔ سردار موہن سنگھ سب انسپکٹر نے اس صحیفہ جعل سازی کی مدد سےاس کے گھر سے ۳۵ ہزار روپے برآمد کر لیے۔ اس کے بعد امرتسر میں کوئی فراڈ نہیں ہوا۔ 

    شام تک حکم ہوا کہ اس کیس کی تحقیقات اور رقم کی وصولیابی کے لیے ہمیں پہلی فلائٹ سے ڈھاکہ جانا ہوگا۔ چنانچہ ہم باامتثال امر دوسرے دن ڈھاکہ پہنچ گئے۔ تاریخ اب ذہن سے محو ہوگئی۔ اتنا یاد ہے کہ پہلی بار ہوٹل شاہ باغ کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو کرشنا چورا کے درختوں میں آگ سی لگی ہوئی تھی۔ ایک ایک پتی پھول، اور ہر پھول انگارہ بن گیا تھا۔ نیچے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ یاکائی کی مخملیں چادر تانے ٹھہرا ہوا پانی۔ زمین کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی پتی یا پتے کو چھو بھی لیا تو پانی ٹپک پڑے گا۔ ہریالی کے اتنے مختلف شیڈ ہم نے زندگی میں نہیں دیکھے تھے۔ 

    اس شاداب منظر کے جن حصوں میں جان پڑگئی تھی وہ چڑیوں کی شکل میں چہچہانے لگے تھے۔ بارش تھمنے کے بعد بجلی کے تاروں پر تلے اوپر بیٹھی ہوئی چڑیاں ایسی لگ رہی تھیں جیسے مغربی موسیقی کی NOTATION۔ شام کو مٹفورڈ روڈ اور نواب گنج کی سیر کو جانے لگے تو ایک دوست نے خبردار کیا کہ ’’راستہ بھول جاؤ تو کسی سے اردو میں نہ پوچھنا۔ سمجھتے سب ہیں۔ جواب کوئی نہیں دے گا۔ انگریزی میں پوچھنا۔ ڈھاکہ شہر کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے ہمارے عہد کے سب سے ممتاز و مکرم عالم دین کو اردو کی حمایت پرسربازار جوتوں کا ہار پہنایا۔‘‘ 

    گائے، بکری کے برابر اور بکری، بلی کے برابر دیکھ کر بڑا پیار آیا۔ بلیاں نظر نہ آئیں۔ البتہ مچھربہت تندرست و توانا نکلے۔ تتیے کے برابر۔ ذرا غور کیا تو ہر شور مچانے والی چیز۔۔۔ مینڈک، مینا، ندی، کوے، بادل اور لیڈر۔۔۔ اپنے سائز سےبڑی دکھلائی دی۔ ڈھاکہ مسجدوں کا شہر کہلاتا ہے۔ فجر کی اذانوں کے بعد ہر تیسرے گھر سے لڑکیوں کے گانے اور ہارمونیم کی آواز سنائی دی۔ دفتر پہنچے تو بینک کے جرمن منیجر نے شکایت کی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا بنگالی منیجر کمرشل بینکوں کی روزمرہ کی ضروریات کے لیے بھی ڈھاکہ سے کراچی روپیہ بھیجنے میں پس و پیش کرتا ہے۔ کہتا ہے بنگال کا روپیہ بنگال ہی میں رہنا چاہیے۔ یاد رہے پاکستان بنے ابھی دس سال بھی نہیں ہوئے تھے۔ 

    ایک صاحب ایجاد سے ملاقات
    نور الحسن شیخ (جنہیں ڈھاکہ میں سب نورل کہتے تھے) کا اطمینان اور بشاشت دیکھ کر خیال گزرا کہ شاید ہم ہی اعصابی کمزوری کا شکار ہیں کہ خواہ مخواہ گھبرائے گھبرائے پھر رہے ہیں۔ ممتاز ماہر اقتصادیات لارڈکینس نے بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ اگر آپ بینک سے ایک ہزار پونڈ قرض لیں تو آپ بینک کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ لیکن اگر دس لاکھ پونڈ قرض لے لیں پھر بینک آپ کے رحم و کرم پر ہوگا۔ یہ بھی کچھ اسی قسم کا کیس تھا۔ نورل کا دفتر اور شوروم نہایت شاندار اور بینک کے ہیڈ آفس سے بدرجہا بہتر تھا۔ انہوں نے اپنے گودام کا معائنہ کروانے سے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگے آپ اس کے مجاز نہیں۔ میں درزی کو دائی کے فرائض انجام دینے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ البتہ اپنی فیکٹری کا معائنہ کرایا جسے وہ اپنی تجربہ گاہ کہتے تھے لیکن جوفی الحقیقت بینک کے روپے کی آخری آرام گاہ تھی۔ 

    ریفریجریٹروں کے بیس پچیس خول پڑے تھے، جنہیں وہ ایجادِ بندہ بتاتے تھے۔ ان کی صرف مشین ایجاد کرنی باقی تھی۔ اسی طرح ایئرکنڈیشنر کے سوئچ ایجاد کرلیے تھے۔ بقول ان کے، سوئچ ہی میں ساری مشین کی جان ہوتی ہے۔ آپ نے سوائے کارخانہ قدرت کے کوئی اور کارخانہ بغیر سوئچ کے چلتے دیکھا ہے؟ بس دس لاکھ مزید قرضہ کی کسر تھی۔ قرضہ جات کو پرزہ جات میں ڈھالنا اس صاحب ایجاد کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ لیکن قرضہ بلاسود ہو۔ یہ نہیں کہ، رقم بڑھتی گئی جوں جوں ادا کی۔ میں اس وقت ایشیا کا مقروض ترین آدمی ہوں۔ لہٰذا رہن، مال اور ضمانت کی قید بھی نہ ہو۔ ارے صاحب! امریکہ میں تو بینک مسکراہٹ پر بھی قرض دے دیتے ہیں۔ 

    البتہ ایک الیکٹرک شیور مکمل ایجاد کرچکے تھے، جس کی لمبائی چھ فٹ ہوگی۔ ہمارے خیال میں اس سے کھڑے ہوئے اونٹ کی حجامت بآسانی کی جا سکتی تھی۔ کچھ اور روپیہ ہوتا تو وہ اس آلہ کو مختصر کر کے انسانی حجامت پر رضامند کر سکتے تھے۔ یہ اور بات کہ چند روز قبل اس کی کار کردگی کا تجرباتی مظاہرہ ایک بھیڑ کے حق میں مہلک ثابت ہوا۔ اس شیور کے خود کار زنبور، موچنے، موتراش رندے اور منہ تراش برقی بسولے دیکھ کر ہم جیسا سائنس سے نابلد انسان بھی فوراً قائل ہوگیا کہ یہ آلہ آدمی توآدمی، جٹادھاری بڑ کی داڑھی مونچھ کو بھی مع جڑ اکھاڑ کر پھینک دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ وہ اپنی ایجاد کے فوائد ملک ہی میں محدود رکھنا چاہتے تھے، ورنہ امریکہ میں تو یہ آلہ ELECTRIC CHAIR کی بجائے بخوبی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ 

    نورل دیر تک قوم کی بدنصیبی پر افسوس کرتے رہے جو ان کے ذہن سے پورا فائدہ اٹھانے سے گریز کر رہی تھی۔ صوبائی اداروں نے البتہ ان کی بھرپور مالی امداد کی جس سے ان کی بربادی میں بھرپور اضافہ ہوا۔ انہوں نے ایک اور قابل ذکر ایجاد دکھائی۔ یہ ایک چھوٹی سی ڈبیا تھی جو مجموعہ یک خوبی و صد خرابی تھی۔ اس کا مصرف یہ بتایا گیا کہ اگر آپ اسے اپنے ٹیلی فون کے تار سے جوڑ دیں تو جو شخص بھی آپ کو فون کرے گا، اس کا فون ’’ڈیڈ‘‘ ہو جائے گا۔ پوچھا، اس سے فائدہ؟ فرمایا، سائنس کا کام تو ایجاد کرنا ہے۔ دنیا اپنے آپ فائدے دریافت کرتی پھرے گی۔ نوبل پرائز کے بانی الفریڈ نوبل نے جب ڈائنامائٹ ایجاد کی تو اس کے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ اسے اس طرح استعمال کیا جائے گا۔ ایجاد اور اولاد کے لچھن پہلے سے ہی معلوم ہو جایا کرتے تو دنیا میں نہ کوئی بچہ ہونے دیتا اور نہ ایجاد۔ 

    ایکس رے عینک
    فرمایا ایک ’’ایکس رے عینک‘‘ کا پلان بھی ذہن میں بالکل تیار ہے۔ شیور چھوٹا ہوجائے تو اس کی باری آئے۔ پوچھا، یہ کیا شے ہوتی ہے؟ فرمایا، آپ کے مطلب کی چیز ہے۔ آپ نے گوجرانوالہ کی ترک افیون گولیوں کا اشتہار دیکھا ہے؟ یہ بھی در اصل ایک اصلاحی آلہ ہے۔ ہم اور چکرائے۔ ارشاد ہوا کہ اس عینک کو لگا کر جسے دیکھا جائے، اس کا گوشت پوست، خط و خال، رنگ روپ سب غائب ہو جائے گا۔ صرف جسم کی ۲۰۶ ہڈیاں نظرآئیں گی۔ پیرس کےنائٹ کلبوں، ساحل سمندر، نیوڈ کالونیز اور رقص گاہوں میں داخل ہونے سے پہلے تماشائیوں کو زبردستی یہ عبرت آموز عینکیں پہنا دی جائیں گی۔ پوچھا، یہ عینک پہن کر بلو فلم دیکھی جائے تو کیا صرف ہڈیاں نظر آئیں گی؟ ہمارے غیر متوقع سوال پر بالترتیب تعجب، تذبذب، تبسم فرمانے کے بعد ارشاد ہوا کہ جب اس عینک کا استعمال عام ہو جائے گا تو بلو فلموں کی شوٹنک ایکس رے کیمروں سے ہوا کرے گی۔ 

    یہ سب ادھوری ایجادات ڈرائینگ بورڈ پر تشنہ زرپڑی تھیں۔ عام مصنوعات مثلاً ریفریجریٹر، ریڈیو، پنکھے وغیرہ کی تفصیلات ہم نےاس لیے نہیں دیں کہ ان پر تو وہ پہلے ہی قرض لے کر ٹھکانے لگا چکے تھے۔ انہوں نے ہماری باتوں کو پوری توجہ اور حقارت سے سنا۔ اور ہمارے تقاضے کے جواب میں عندیہ ظاہر کیا کہ اگر ہمارا بینک مزید پچیس لاکھ قرض دے دے تو دوسرے چار کم ظرف بینکوں کے قرضے بیباق کردیں۔ اس میں یہ سبتیا رہے گا کہ اکٹھے چار بینکوں سے چومکھی کے بجائے صرف ایک سے سلٹنا، ایک سے دیوانی، فوجداری کرنی پڑے گی۔ 

    سٹے کی مروجہ اصناف
    نورل ایک زمانے میں روئی کے سٹے میں بھی بینکوں کی قسمت آزما چکے تھے۔ اپنا ہی دوالا نہیں نکالا، تین چار بڑی مضبوط پارٹیوں کو بھی لے ڈوبے۔ وجہ یہ بتاتے تھے کہ بینک اناپ شناپ قرض دیتے چلے گئے۔ چنانچہ میں نے پُھٹی خریدنے میں عجلت اور بیچنےمیں دیر کردی۔ یہاں تک کہ جولائی کا مہینہ آن لگا۔ ملتان کی گرمی بنولے کے جگر تک اتر گئی۔ گرمی کھائی ہوئی روئی اور لڑکی کا کون لیوال ہوتا ہے؟ انہوں نےاس کے علاوہ سٹہ کی دیگر مروجہ اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ اس زمانے میں تو نیوچالی میں اس پر بھی شرطیں بدی جاتی تھیں کہ اب جو کار سامنے سے گزرے گی اس کا نمبر جفت ہوگا یا طاق۔ فلاں عورت امید سے ہے، بتاؤ لڑکا ہوگا یا لڑکی؟ جان پہچان کے حاملہ گھرانے اور زچگیوں میں لمبے لمبے وقفے ان کی قیاس آرائی و قماربازی کے لیے بالکل ناکافی ثابت ہوئے تو اسپتال کے میٹرنٹی وارڈ میں داخلہ لینے والیوں پر شرطیں لگائی جانے لگیں۔ اسی وارڈ میں کسی پٹھان ’’گن مین‘‘ کے ہاں لڑکی پیدا ہوگئی تو ایک سیٹھ کا ایسا دوالا نکلا کہ زچگی ختم ہونے سے پہلے اس کے اپنے بچے روٹی کے محتاج ہوگئے۔ 

    نالش سے ملا نصر الدین اور رسیلے نین تک
    ہم نے ہمت کر کے پوچھا، ’’آپ نے کراچی سے جو سامان، سوئچ، پلگ، تار، الیکٹرک موٹر اور پمپ مشرقی پاکستان ارسال فرمائے تھے، وہ کوئلے میں کیونکر تبدیل ہوگئے؟‘‘ 

    ’’یہ سوال تو مجھے کرنا چاہیے۔ آخر بینک میرے سامنے جواب دہ ہے۔ میں اپنے سلیپنگ پارٹنر کو کیا منھ دکھاؤں گا۔ آپ نے چٹگانگ پورٹ ٹرسٹ سے بھی پوچھا؟‘‘ 

    ’’یہ واقعہ ہے کہ آپ نے اس مال کے بل آف لیڈنگ پر ہماری کراچی برانچ سے ساڑھے چارلاکھ روپے وصول کیے۔‘‘ 

    ’’آپ درست فرماتے ہیں۔‘‘ 

    ’’پھر آپ نے ہنڈی نہیں چھڑائی اور مال نو مہینے چٹگانگ میں سڑتا رہا۔‘‘ 

    ’’آپ پھر درست فرماتے ہیں۔ مال نو مہینے تک سڑتا رہا اور آپ کا بینک سوتا رہا۔ آپ نے سائنس پڑھی ہے؟‘‘ 

    ’’میں فلسفہ کا طالب علم تھا۔‘‘ 

    ’’جبھی! تو گویا آپ کوئلے کی کان میں سرمہ لگا کر جاتے ہیں۔ لیکن جناب پرسقراط سے زیادہ بقراط کی چھاپ ہے۔ توبندہ نواز! اگر آپ اسے نومہینے اور پڑا رہنے دیتے تو عجب نہیں کہ کاربن کےعمل سے کوئلے ہیرے بن جاتے۔‘‘ 

    ’’کریٹ اور پیٹیاں آپ نے بند کی تھیں۔‘‘ 

    ’’مگر کھولیں کسی اور نے۔ بینک نے مال بدل دیا ہے۔ میرے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ میں لٹ گیا۔ برباد ہوگیا۔ نالش کر رہا ہوں۔ (ایک فٹ لمبا کیلا بڑھاتے ہوئے) لیجیے۔ غصہ تھوکیے اور اسے نوش فرمائیے۔ ارے صاحب! تین چار انچ ہی سہی۔ منشی گنج کا ہے۔‘‘ نورل نے ایکا ایکی اپنا انداز بدل کر کہا۔ 

    کیلے کی لمبائی کو چار انچ فی بکٹا کم کرتے ہوئے عرض کیا، ’’نالش پر یاد آیا۔ ملانصرالدین پرایک ہمسائے نے نالش کی کہ ملا نے مجھ سے ایک نہایت نادر اور بیش بہا صراحی عاریتاً لی، مگر جب لوٹائی تو تڑخی ہوئی تھی۔ ملا نصرالدین نے جواب دعویٰ میں لکھا کہ اول تو میں نے مدعی سے صراحی لی ہی نہیں۔ دوم، میں نے جس وقت صراحی واپس کی تو وہ بالکل ثابت و سالم تھی۔ سوم، جب میں نےصراحی لی تو وہ پہلے سے ہی تڑخی ہوئی تھی۔‘‘ پھڑک گئے۔ ہاتھ پر ہاتھ مار کے کہنے لگے، بینک میں بھی بڑا بڑا پڑا ہوا ہے! اسی بات پر انناس کی ایک قاش ہو جائے۔ کوملہ سے منگایا ہے۔ اور یہ کچے ناریل کی ڈاب مفرح ہے۔ کاسر ریاح ہے۔ مقوی بصر بھی۔ آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں۔ آپ کوچشم بنگال دکھائیں؟ نین رسیلے، بان کٹیلے۔ (وقفہ تبسم) اچھاکل سہی۔ ہاہا! ہاتھ لاؤ، یار! 

    ٹیبل فین اور فین ٹیبل کا فرق
    یہاں ہم اپنے بے قصور قارئین کو قرضے کی وصول یابی اور ڈوبی ہوئی رقومات کی بازیابی کی مہم میں خواہ مخواہ بلاتنخواہ شریک کرنا نہیں چاہتے کہ قضیہ اپنی جگہ اور تفنن اپنی جگہ۔ اول الذکر ہمارا پیشہ ہے اور ثانی الذکر مشن۔ بہرحال ان کے اس طلسماتی کارخانے میں جہاں ہم اپنی آنکھوں سے سونے کو پیتل بنتے دیکھ چکے تھے، ایک ایجاد ایسی نکلی جس کی جدت اور کارآمدیت کے ہم قائل ہی نہیں خریدار بھی ہوگئے۔ یہ ایک پنکھا میز تھی جو اپنے موجد کے دس سالہ بینک شکن تجربات کا نچوڑ تھی۔ 

    تین ہندوستانی کو آپریٹیو بینک اس کے ’’شاک‘‘ سے سات سال سے کلکتے میں غش کھائے پڑے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس میں کہیں کوئی جوڑ، کوئی کیل نہیں ہے۔ براہِ راست PIG IRON (اس کا ترجمہ پروفیسر قاضی عبد القدوس ’’خنزیری فولاد‘‘ کرتے ہیں) سے ڈھالی گئی تھی۔ تیزاب اور ہماری داستانوں کی دوشیزاؤں کی طرح تھی۔ یعنی کسی انسانی ہاتھ نے نہیں چھوا تھا۔ اس کے پایوں کے بیچ میں چاربرقی پنکھوں کو تختہ میز پر الٹی پھانسی دی گئی تھی۔ ازبسکہ ہمارا قلم عجز رقم اس کی لفظی تصویر کھینچنے سے قاصر ہے، لہٰذا موقلم کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ ( اس کے بعد کتاب میں ایک تصویر ہے)

    ہم نے ٹیبل فین تو بھانت بھانت کے دیکھے تھے، لیکن یہ فین ٹیبل ان سب کی الٹ تھی۔ وہ اسے فین ٹیبل کے نام ہی سے پیٹنٹ کرانا چاہتے تھے۔ اسکا مخفف فینی وضع کیا۔ زیادہ پیار آتا تو ڈارلنگ کہتے۔ اس کا بھولا بھولا ڈیزائن دیکھا تو بے اختیار موجد پر پیار آنے لگا۔ پوچھا، صاحب! پنکھے تو میز کے اوپر رکھے جاتے ہیں۔ آپ نے انہیں نیچے الٹا کیوں لٹکا دیا؟ بولے، آپ نے بڑی دیر بعد ایک معقول سوال کیا ہے۔ عام بازاری پنکھے PHYSICS (طبیعات) کے گھسے پٹے اصولوں پر بنائے جاتے ہیں۔ میں نے یہ پنکھا ANATOMY (علم الابدان) کے اصولوں پر بنایا ہے۔ اسی لیے آپ کو سمجھنے میں دیر لگ رہی ہے۔ کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہو تو بتائیے سب سے زیادہ سردی کسے لگتی ہے؟‘‘ 

    ’’ہمیں؟‘‘ 

    ’’لا حول و لا قوۃ! میرا مطلب تھا کس حصہ جسم کو؟ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سردی میں سب سے پہلے پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ دم بھی پہلے پیروں ہی کا نکلتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اگر انسانی جسم کو ٹھنڈک پہنچانی مقصود ہے تو پنکھے کا رخ پاؤں کی طرف ہونا چاہیے نہ کہ سر کی طرف۔ چھت اور میز کے پنکھے سائنس کی رو سے سراسر ’’ان سائینٹفک‘‘ ہیں۔ میں نے اس پر بڑی دماغ سوزی کی ہے۔ پنکھے کو سر سے پیر تک اتارنے میں ساڑھے تین لاکھ روپے لگے ہیں۔ اچھا، اب یہ بتائیے کہ جب آپ رات کو لان پر بیٹھے ہوں تو آپ کو سب سےزیادہ کس چیز سے تکلیف پہنچتی ہے؟‘‘ 

    ’’خواتین کے چہرے صاف نظر نہیں آتے۔‘‘ 

    ’’اے قربان جائیے! مگر یہ تو اندرونی تکلیف ہوئی، خارجی تکلیف بتائیے۔‘‘ 

    اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے
    ہم نے اپنے ذہنِ نارسا پر بہیترا زور ڈالا، مگر کوئی اور قابل علاج تکلیف یاد نہ آئی۔ ہمیں عاجز دیکھ کر خود تشخیص فرمائی کہ لان پر سب سے بڑی NUISANCE مچھر ہوتے ہیں جو پیروں پر ڈنک مار مار کے لال چنری بنا دیتے ہیں۔ ٹیبل فین کی ہوا صرف چہرے اور دھڑ کو لگتی ہے اور اونچے پیڈسٹل فین کی ہوا سے استفادہ کوئی دوسرا پیڈسٹل فین ہی کر سکتا ہے۔ نتیجہ آپ نے بچشمۂ خود ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ پارٹیوں میں خواتین ایک ہاتھ سے بڑے سلیقے سے پلو ڈھلکاتی رہتی ہیں اور دوسرے سے پنڈلی کے دَدَوڑوں کی سوزش رفع کرتی ہیں۔ تو انہیں اس عالم میں دیکھ کر آپ کا کیا رد عمل ہوتا ہے۔‘‘ 

    ’’مچھروں پہ رشک آتا ہے۔‘‘ ہم نے نور جہاں کی طرح دوسرا کبوتر بھی چھوڑ دیا۔ 

    ’’بھئی آپ تو شاعری کرنے لگے۔ اسے کل رات کے لیے اٹھا رکھیے۔ تو عرض یہ کر رہا تھا کہ جب فینی پوری رفتار سے چلے گی تو مجال ہے کہ ایک مچھر بھی پیروں کے پاس پھٹک جائے۔‘‘ 

    ’’پھر رخ روشن کے گرد منڈلانے لگیں گے۔‘‘ 

    جواب میں انہوں نے ہمیں مچھروں کی نفسیات سے آگاہ کرتے ہوئے اطمینان دلایا کہ پیروں کا مار کھایا مچھر، چہرے کو پھونک پھونک کر کاٹتا ہے۔ نیز یہ کہ جو مچھر بھی ہم جیسے ندیدوں کی شعاعِ نظر کی لپیٹ میں آگیا وہ وہیں بھسم ہو جائے گا۔ 

    بازار ہم گئے تھے اک چوٹ مول لائے
    بعد ازاں انہوں نے میز پر دومن کے باٹ رکھوائے اور خود بھی اس پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ پھر سوئچ آن کیا گیا۔ فیکٹری کے معائنے اور ناملائم بحث کے دوران ہم پسینے میں شرابور ہو چکے تھے۔ اور ’’کارڈ رائے‘‘ کی پتلون میں سے پسینہ پھوٹ رہا تھا۔ یوں بھی ڈھاکہ میں کپڑے چھ مہینے بارش سے تر رہتے ہیں اور چھ مہینے پسینے میں۔ لیکن فینی نے دو ہی منٹ میں نہ صرف ہمارا سارا پسینہ خشک کردیا، بلکہ ہمیں تو اندیشہ ہونے لگا کہ اگر یہ دوچار منٹ اور چلتی رہی تو ساری اندرونی رطوبت بھی کھینچ کر ہمیں کھڑنک کردے گی۔ ہماری بھیگی ہوئی قمیص پاپڑ ہوگئی تھی اور ذرا چلے تو وہی پتلون سوش سوش کرنے لگی۔ ہم نے بالکل ’’کیژول‘‘ انداز میں اس کی قیمت پوچھی۔ گھاگ تھے۔ بھانپ گئے۔ 

    ’’نذر ہے، سرکار! دو بنائی تھیں۔ ایک تو گورنر مشرقی پاکستان ہیلی کاپٹر میں ڈال کر لے گئے۔ دوسرا دانہ آپ کی نذر۔ تحفہ چیز ہے۔ فینی ڈارلنگ!‘‘ انہوں نے اس عزیزہ کو چمکارتے ہوئے کہا۔ 

    ’’قیمت کیا ہے؟‘‘ ہم نے پھر پوچھا۔ 

    ’’ماچس ہوگی؟‘‘ 

    ’’جی نہیں۔‘‘ 

    انہوں نے اپنی سکریٹری سے ماچس منگوا کر ہمیں پکڑادی اور ڈپٹ کر بولے، ’’جلائیے۔‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے ایک تیلی جلائی تو کہنے لگے، ’’اب اس فیکٹری کو آگ لگائیے۔‘‘ ہم نے ہکا بکا ہو کر پوچھا، ’’کیوں؟‘‘ بولے، ’’پہلے آگ لگائیے، پھر جرح۔ جلدی کیجیے۔ آپ کی انگلی جل رہی ہے۔‘‘ دریافت کیا، ’’مگر کیوں؟‘‘ فرمایا، ’’اس لیے کہ برادر! یہ سب کچھ آپ ہی کا ہے۔ آپ مجھے اپنے سلیپنگ پارٹنر سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ یقین نہ آئے تو خدا کی قسم فیکٹری کو آگ لگا دیں۔‘‘ 

    ’’یہ آپ کی محبت ہے۔ مگر قیمت کیا ہے؟‘‘ ہم نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ آس پاس کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی جس میں اکیلی ماچس سے آگ لگائی جاسکے۔ چاروں طرف لوہا ہی لوہا تھا۔۔۔ خنزیری فولاد۔ 

    ’’عرض تو کیا۔ ساڑھے تین لاکھ روپے لاگت آئی ہے۔ آپ کو رعایت سے نوسو میں دے دوں گا۔ گھر کی بات ہے، برادر!‘‘ 

    ’’ہم نے پانچ سو نقد اور چار سو کا چیک پیش کیا جنہیں جھپٹ کر جیب میں رکھنے کے بعد وہ دس منٹ تک قبول کرنے سے انکار کرتے رہے۔ انہوں نے ہمارے وزٹنگ کارڈ پر چھیالیس سال کی گارنٹی تحریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس عرصہ میں پنکھوں کی کارکردگی میں بال برابر بھی فرق آجائے تو میری قبر پر جمعرات کی جمعرات جوتے مارنا۔ ۴۶سال سے زیادہ کی گارنٹی پر ہم نے بھی اصرار نہیں کیا، اس لیے کہ پھر بات ۲۰۰۰ء سےآگے نکل جاتی۔ اکیسویں صدی تک محض اس مقصد کے لیے زندہ رہنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ بس بیٹھے قبر پر جوتے مارتے رہیں اوروہ بھی ڈھاکہ میں۔ پنکھوں کی پائیداری کا سبب یہ بتاتے تھے کہ یہ انہوں نے ایک نیم غرقاب جہاز سے ’’سالویج‘‘ کیے تھے جو چٹگانگ کے قریب ایک جزیرے سے ٹکرا کر ناکارہ ہوگیا تھا۔ یہ اس کے EXHAUST FANS تھے۔ غرقاب جہاز تو ہم نے نہیں دیکھا، لیکن ریلوے کمپارٹمنٹ ضرور دیکھے ہیں جہاں بالکل ایسے ہی پنکھے محض زیبائش اور مسافروں کو آپس میں لڑوانے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ 

    جیسور سلک، جامدانی کی ساری، ڈھاکہ ململ کے دوپٹے، بید کی پکنک باسکٹ، شاہی قوام، دریائی موتی، اجگر کی کھال کا پرس، آرائشی کشتی اور سمپان، رس گلے اور چم چم، مرزا کے لیے کومل کونپلوں کی چائے جن میں سلہٹی دوشیزاؤں کے ہاتھوں کی خوشبو بسی ہو۔۔۔ ہمارا پرس ایسی فرمائشوں کی پرچیوں سے بھرا ہوا تھا۔ لیکن فینی کی قیمت چکانے کے بعد ہمارے پاس اتنے پیسے بھی نہ رہے کہ منشی گنج کا آدھا کیلا یا جمعہ کی نماز کے بعد کشائش رزق کی دعا مانگنے کے لیے ڈھاکہ ململ کی ایک دو پلی ٹوپی بھی خرید سکیں۔ 

    خیر سے ہم گھر کو آئے
    گھر واپس آئے تو سوغات میں فقط اپنے آپ کو لائے۔ لیکن جب ہم نے ذرا تفصیل کے ساتھ بتایا کہ کرنا فلی پپیر ملز میں ہمارے ہم شکلوں کو کس طرح چھانٹ چھانٹ کر بیدردی سےقتل کیا گیا اور پھر دیکھتے دیکھتے ہزاروں آدمی ہیضے میں کیسے چٹ پٹ ہوئے تو سب نے ہماری خالی ہاتھ واپسی کو غنیمت جانا۔ بیوی اور بچے شکر بجا لائے کہ ہم نے اپنی چالاکی سےان کو بالترتیب بیوہ اور یتیم ہونے سے بچا لیا۔ فینی کی خریداری کی اطلاع ہم نے عمداً کسی کو نہیں دی تاکہ ’’سرپرائز‘‘ کا عنصر باقی رہے۔ 

    بالم گاڑی
    ایک مہینے بعد کلیرنگ ایجنٹ نے اطلاع دی کہ فینی بخیریت پہنچ گئی ہے۔ ہم اس کی پذیرائی کو خود گودی پہنچے۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اسے گھر کیوں کر پہنچایا جائے۔ ٹرک کے لیے یہ بہت چھوٹی تھی۔ ایسا ہی تھا جیسے کوئی کرین سے ماچس کی ڈبیا اٹھوائے۔ پھر کرایہ تیس روپے۔ اونٹ گاڑی کے منہ میں یہ زیرہ معلوم ہوتی۔ گدھا گاڑی والا کہتا تھا کہ زمین پر انگلی سے نقشہ کھینچ کر پتہ سمجھا دو، سات روپے ڈیڑھ آنے میں گھر پہنچادوں گا۔ (ڈیڑھ آنہ بیڑی کے بنڈل کا بھی ہمارے ہی متھے چڑھا۔ اس کی عورت بڑی چنڈال تھی۔) ہم فینی کو گدھا گاڑی میں تن تنہا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، حالانکہ وہ بچارا تو ہمیں ڈرائیور کی اعزازی سیٹ پر بٹھا کر بندر روڈ اور جمشید روڈ ہوتا ہوا، دس میل، پیر الہی بخش کالونی تک ہماراجلوس نکالنے کے لیے تیار تھا۔ لیکن گدھے پر بغیر منھ کالا کیے بیٹھنا ہمیں ادھورا ادھورا سا لگا۔ 

    آخر یہ حل نکالا کہ ہم نے خاں سیف الملوک خاں کی سائیکل لی اور پخ سے لگے لگے چلنے لگے۔ ذرا دیر میں پسینے کے ریلے بہنے لگے تو اس خیال سے بڑی طراوت محسوس ہوئی کہ اگر ٹرک سے لے جاتے تو ناحق ۳۰ روپے کا خون ہو جاتا۔ ۲۳ روپے کی بچت دل لگی نہیں۔ (اس سے پندرہ پیکٹ سگرٹ خریدے جا سکتے تھے۔) محض حسابی بچت کے زور سے ہماری جیب پھٹی پڑ رہی تھی۔ سچ مچ کی بچت تو خدا جانے انسان کو کتنا مغرور بنا دیتی ہوگی۔ پرانی نمائش کے پاس بالم گاڑی (گدھے کا نام بالم اور پخ کا نام بلموا تھا۔) والے نے تالی بجا کر کہا، بابو جی! تمہارے ٹائر میں بہت خوبصورت پھکنا نکل رہا ہے۔ قبل اس کے کہ اس نظارہ سے ہم بھی لطف اندوز ہوتے، ٹیوب کا غبارہ اتنے زور سے پھٹا کہ ہم ایک فٹ ہوامیں اچھل کر بالم کی پیٹھ پر گرے اور وہ ہمیں لے کر تین فٹ اچھلا۔ سائیکل بغیر سوار کے پندرہ بیس قدم آوارانہ چل کر ایک امریکن ٹورسٹ خاتون (جو گدھا گاڑی کا فوٹو لے رہی تھی) کی سڈول ٹانگوں کے درمیان ہینڈل کی رکاوٹ کے سبب رک گئی۔ خاتون کے ہاتھ میں کیمرہ اورناک میں گالی تھی۔ (’’ناک میں‘‘ ہم نے اس لیے کہا کہ امریکن تینوں گاف۔۔۔ یعنی گفتگو، گانا اور گالی۔۔۔ ناک سے ادا و عطا کرتے ہیں۔) 

    ہم نے امریکن گالی اور گیہوں کا مزا چکھا
    ہم بھی اس امریکن بی بی کو کچھ جواب دیتے، لیکن ہمارا نمک حلال معدہ اس وقت امریکن گیہوں کی روٹی ہضم کرنے میں سرگرم عمل تھا۔ سن کر جو پی گئے یہ مزا مفلسی کا تھا۔ یادش بخیر! امریکہ سے پہلے پہل خیراتی گندم کی کھیپ آئی تو وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے کراچی کے اونٹوں کے گلے میں ’’تھینک یو، امریکہ!‘‘ کی تختیاں لٹکوا کر شہر میں گشت کروایا تھا۔ امریکہ کو خمارِ گندم اور اونٹ کی زبانی قومی جذبہ تشکر کی ترجمانی بہت بھائی۔ چنانچہ اس نے بجا طور پر وزیر اعظم کے بجائے بشیر ساربان کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی۔ مرزا عبد الودود بیگ کا قول ہے کہ امریکی گندم بالکل خالص اور اصلی ہوتا ہے۔ اصلی سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس کے بیج خاص اسی خوشے سےحاصل کیے گئے تھے، جس کا ایک دانہ کھاتے ہی حضرت آدم جنت سے نکالے گئے۔ 

    اس سےخدا نخواستہ گناہِ آدم کی بے توقیری مقصود نہیں۔ یہ آدم ہی کا گناہ تھا کہ ایک انسان بیابان خرابے۔۔۔ کرۂ ارض۔۔۔ کو گلزار بنا گیا۔ ورنہ نہ جانے کتنے سیارے، کتنے مہ و مہر ہوں گے کہ اندھی خلاؤں میں قرن ہا قرن سے، ازازل تا بہ ابد، اپنے آدم کی تلاش میں یونہی گردش کرتے رہیں گے۔ 

    نانِ حلف
    ویسٹ و ہارف سے پیر الہی بخش کالونی کی مسافت طے کرنے میں ساڑھے تین گھنٹے لگے۔ گھر آیا تو بالم گاڑی (وہ اسے گدھا گاڑی نہیں کہتا تھا۔) والے نے نیا شوشہ اٹھایا۔ کہنے لگا چارمن وزنی کارخانہ ڈھویا ہے۔ چار روے چڑھانے اتارنے کے علیحدہ دینے ہوں گے۔ ہم نے کہا، ’’بندۂ خدا! یہ تو گیارہ روپے بن گئے۔ اتنے میں تو ہم اسے نئی وکٹوریہ گاڑی میں ٹھاٹ سے لا سکتے تھے۔‘‘ بولا، ’’بروبر لا سکتے تھے، پن وہ گھسیارا بھی چڑھائی اترائی کے دام اوپر سے لیتا۔ گھوڑے کے گھانس کے پیسے الگ۔ پندرہ روپے ٹھاٹ سےدھروا لیتا۔ کیا نام اس کا، سب ٹھاٹ پڑارہ جاوے گا جب لاد چلے گا گھسیارا۔ بابو جی، سات روپے تو اکیلے بالم ہی کی مجوری ہوئی۔ میں تو اس کی آدھی دہاڑی مانگ رہا ہوں۔ کرانچی میں گدھا آدمی سے زیادہ کماوے ہے۔‘‘ ہم نے کہا، ’’مسلمان ہو۔ خدا سے ڈرو۔ سامان چڑھانے اتارنے کی اجرت تو کرائے ہی میں شامل ہوتی ہے۔‘‘ 

    ہمارا یہ کہنا تھا کہ اس نے گدھے کے تو بڑے میں سے روٹی کا ایک سوکھا ٹکڑا نکالا اور ہمارے ہاتھ پر رکھ کر بولا، ’’تمہارا مجاز شریف چاہے تو بھلے ہی گدھے کا حق مار لو۔ پر میرے معصوم بال بچوں کے گلے پہ کائے کو چھری پھیر رہے ہو۔ بابو جی! تم بھی مسلمان، میں بھی مسلمان۔ لا الہ الا اللہ! جو بے فضول اڑی کرے اللہ اس پہ، اس کی آل اولاد پہ، رزق کا دروازہ بند کر دے۔ اسے پل صراط پہ اندھے سور کی سواری نصیب ہو۔ تم خود ہی اس رزق کے ہاتھ لگا کے بتاؤ۔ مجوری اور کرائے میں فرق ہے کہ نہیں؟‘‘ ہم نے روٹی کا ٹکڑا ہاتھ میں لے کر قرار کیا کہ ہے تو۔ یہ سن کر وہ فاتحانہ انداز میں مسکرایا۔ اب ہم نے ٹکڑا اس کے ہاتھ میں تھما کر پوچھا، ’’اب تم ایمان سے بتاؤ کہ اتارنے اور چڑھانے کی واجبی مزدوری کتنی ہوتی ہے؟‘‘ روٹی کو ہونٹوں اور پیشانی سےلگاتے ہوئے بولا، ’’سائیں! ڈیڑھ روپیہ۔‘‘ یہ کہہ کر ٹکڑا ہماری ہتھیلی پر منتقل کیا اور ہمارے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا، ’’تمہیں یہ بھی منجور نہیں تو بابا رزق کے ہاتھ لگا کرجو کچھ دے دوگے، لے لوں گا۔ دونوں وقت مل رہے ہیں۔‘‘ 

    دونوں کے ایمان پر بن آئی تھی۔ ہم نے بعجلت یہ غذائی بومرنگ اس کے ہاتھ پر رکھ کر، اپنے دونوں ہاتھ پتلون میں چھپاتے ہوئے کہا، ’’لو یہ ڈیڑھ روپیہ۔ مگر رزق تمہارے ہاتھ میں ہے۔ حلفیہ کہو، میں نے لادنے اتارنے میں برابر کی محنت کی تھی یا نہیں؟‘‘ اس نے سوکھے ٹکڑے کو سر پر رکھ کر اقرار کیا اور ڈیڑھ روپے میں سے ہماری نصف مزدوری، بارہ آنے، ہمارا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہمیں ادا کر دی۔ اوراس سے قبل کہ حلف جاریہ سے ہم ایک دوسرے کے ایمان کو آزمائش میں ڈالیں، اس نے لپک کر اپنے گدھا کا جبڑا کھولا اور کہنی تک اندر ہاتھ ڈال کر نانِ حلف اس کے حلق میں اتار دی۔۔۔ پہنچی وہیں پہ نان جہاں کا خمیر تھا۔ 

    تھوڑی دور جانےکے بعد وہ مزدور خوش دل کچھ سوچ کر واپس آیا اور بقیہ بارہ آنےبھی لوٹاتے ہوئے کہنے لگا، ’’بابو جی! دونوں وقت مل رہے ہیں۔ روزِ قیامت کے دن خدا کو عاقبت میں منہ دکھانا ہے۔ حشر کے میدان میں بالم تمہارا دامن پکڑے گا۔ پر یہ تمہارا اور اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ تم جانو، وہ جانے۔ اپنی اپنی گور اپنا اپنا جواب۔ میں تو یہ جانوں، تم تو مجھ سے بھی زیادہ پسینے میں لہو لہان ہو رہے ہو! تمہارے بچے میرے بچوں سے بھی چھوٹے ہیں!‘‘ 

    ہم بھینس سے کیوں چمک گئے
    فینی کو جب اتار کر ڈھویا جا رہا تھا تو چند پڑوسی ٹوہ لینے کے لیے مع اپنی ہم شکل و ہم رنگ و ہم زبان ذریات کے فینی کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ بالشت بھر کے لونڈوں نے جن مشوروں اور سوالوں کے سینگوں پر ہمیں دھرلیا، ان کی ایک جھلک ملاحظہ ہو،

    ’’انکل! اسے دری پہ لٹال کے اتارئیے۔‘‘ 

    ’’ابے یہ تیری نانی کی میت تھوڑی ہے۔‘‘ 

    ’’پاک ایئرویز کا جو جہاز گرا تھا، نا! یہ وِسی کے انجن کی اَگاڑی ہے۔ کیوں نا انکل؟‘‘ 

    ’’سالے سڑی ہوا ہے! بینک کے گودام سے آئی ہے۔ انڈے پھینٹنےکی فیکٹری ہے۔ اندھے کو بھی نظر آوے ہے۔ آنکھیں ہیں یا بھینس کے۔۔۔‘‘ 

    ’’چوٹی کے! اس سے کیا شتر مرغ کے انڈے پھینٹے گا؟‘‘ 

    ’’تجھے کچھ پتہ بھی ہے۔ آنٹی بھینس کے گھی کے لوندے کے لوندے ڈال کے انڈے کا ایسا حلوہ بناویں ہیں کہ بس اسٹینڈ تک بھبکے جاویں ہیں۔ ایک ہی چمچ کھا کے مرکھنے سے مرکھنے آدمی کے منہ پر رُعاب آجاوے ہے۔ کیا نام، ٹھٹھہ سے کھویا آوے ہے۔ پھر برنس روڈ کی ملائی کے ساتھ ترنوالہ کھلاویں ہیں۔۔۔‘‘ 

    ’’دیکھو لمڈے کی دل لگی! بھینس کا نام آتے ہی سالا رواں ہو گیا!‘‘ 

    فینی کو برآمدے میں رکھوا کر ہم نہانے دھونے چلے گئے۔ چھوٹے سے (۶x۶) غسل خانے میں ہمارے ہی قدوقامت کی ایک پانی کی ٹنکی رکھی تھی جو ہر نہانے والے کے ساتھ شانہ بشانہ غسل کرتی تھی۔ اسے غسل کروا کےنکلے تو دیکھا کہ محلے کے لڑکوں کی مدد سے فینی کمرے کے وسط میں پہنچ چکی ہے اور چمگادڑ کی طرح چھت کی طرف پاؤں کیے پڑی ہے۔ ہم نے بیگم سے پوچھا، ’’اسے الٹا کیوں کر دیا؟‘‘ بولیں، ’’اور لو! میں نے تو پنکھے سیدھے لگائے ہیں۔ مگر یہ ہے کیا؟‘‘ ہم نے کہا، ’’تمہاری برتھ ڈے کا پیشگی تحفہ۔ فینی تمہاری فینی!‘‘ فینی کے ایک الٹے پائے کے تلوے کو سہلاتی، چمکارتی ہوئی بولیں، ’’برتھ ڈے میں تو ابھی گیارہ مہینے ہیں۔ خیر۔ مگر یہ کرتی کیا ہے؟‘‘ ہم نے کہا، ’’بجلی سےچلتی ہے۔‘‘ بولیں، ’’یہ تو اندھے کو بھی نظر آتا ہے۔‘‘ ہم خاموش ہوگئے۔ اس دہشت سے کہ اندھے کے توسط سے مکالمہ میں پھر بھینس اپنی جملہ مصنوعات سمیت نہ کود پڑے۔ 

    خانۂ انوری میں لان کہاں
    تھوڑا سا بھلاوادے کر ہم نے بیگم کو رسان رسان فینی کی کارکردگی سے متعارف کراتے ہوئے بتایا کہ گرمیوں میں شام کے وقت لان پر اس سے زیادہ کارآمد شے کا نسوانی دماغ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ تس پر انہوں نے بڑے ’’میٹر آف فیکٹ‘‘ لہجے میں ہمیں اطلاع دی کہ جس کوارٹر میں ہم پانچ سال سے رہ رہے ہیں اس میں لان نہیں ہے۔ نزدیک ترین لان گاندھی گارڈن میں واقع ہے جو یہاں سے چار میل ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ عورتوں میں INTUITION ہوتا ہے وہ غالباً اسی شے کا نام ہے جس کا وہ اس وقت مظاہرہ کر رہی تھیں۔ 

    خدا گواہ ہے کہ فینی سے پہلی نظر میں محبت کے بعد سے اس لمحہ انکشاف تک ہمیں یہ خیال ہی نہیں آیا تھا کہ ہمارے دو کمروں والے کوارٹر میں لان نہیں ہے۔ جس جگہ ہمارا پائیں باغ اور نہایت کشادہ ہرا بھرا لان لگ سکتا تھا وہاں یار لوگوں نے ہم سے پہلے اپنے کوارٹر کھڑے کرلیے تھے۔ بعضوں نے تو پگڑی پر بھی اٹھا دیے تھے۔ خود ہم نے سونےکے بٹن بیچ کر ۳۵۰ روپے پگڑی پر راتوں رات قبضہ لیا تھا۔ پگڑی میں مکان کے علاوہ ایک عدد لوٹا جس کی ٹونٹی جڑ سے جھڑ گئی تھی، دو جھاڑو مگر ایک عمدہ ڈبل بیڈ جس پر پچھلے کرایہ دار کا انتقال ہوا تھا، شامل تھے۔ 

    ان مکانوں1  کی دیوار سے ہی نہیں، بلکہ رات کو مکینوں کے سر سے سر اور ان سے کان ملے ہوئے تھے، اس لیے کہ ان کے درمیان صرف کاغذی اینٹ کی ’’گوش دارد‘‘ والی دیوار ہوتی تھی۔ چنانچہ جب رات ڈھلے کھسر پھسر ادھر ہوتی تو کسی بزرگ کے کھنکارنے کی آواز اِدھر سے آتی۔ تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیدار بیٹھے ہیں۔ 

    کیل اُدھر ٹھونکی جاتی تو پلستر اِدھر کا جھڑتا۔ بسا اوقات یہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا کہ آدھی رات کو جو بچہ پیٹ کے درد سے چیخ چیخ کر ہمیں ہلکان کر رہا ہے وہ اپنا لخت جگر ہے یا سرودِ خانۂ ہمسایہ۔۔۔ تا وقتیکہ اندھیرے میں اپنے ہر بچے کے منہ پر ہاتھ رکھ کر یہ تحقیق نہ کرلی جائے کہ چیخ کا صوتی مرکز دیوار کے اس طرف ہے یا اس طرف۔ عرصہ کی بات ہے، مگر اچھی طرح یاد ہے کہ پڑوسی عبد الغفور کےالارم سے ہمارا مرغا جاگتا تھا اور وہ محلے کی مسجد کے ملاکو جگاتا۔ پھر حشر بپا ہوتا۔ 

    ہماری زندگی میں کسی شے کی کمی
    ہمیں اس کا بڑا قلق تھا کہ جس جگہ جیل کی بنی ہوئی دری بچھی ہے وہاں گھاس ہوتی اور گھاس میں مچھر ہوتے تو عیش آ جاتے۔ یہ ’’شاک‘‘ اپنے سسٹم میں جذب کرنے کے لیے کہ جس گھر میں ہم پانچ سال سے رہ رہے ہیں، اس میں لان نہیں ہے، ہمیں تین چار دن لگ گئے۔ میر بے دماغ پر تو اتنا ہی الزام تھا کہ اس نے کبھی دریچہ کھول کر اس طرف نہیں دیکھا کہ باغ میں بہاریں کیسی دھومیں مچا گئیں۔ مگر ہم نے تو کھڑکی کے اس طرف والے نقشہ کا بھی نوٹس نہیں لیا جہاں فرش پر چار پیارے پیارے بچے دیوار تا دیوار لوٹتے لڑھکتے اور ان کے سر ایک دوسرے سے بلیرڈ کی خوشنما گیندوں کی طرح ٹکراتے رہتے تھے۔ 

    اس واقعہ کے کئی برس بعد کا ذکر ہے۔ ہم نے بڑے رومینٹک موڈ میں ایک محفل میں کہا، ’’اب ہمیں ہر نعمت، ہر آسائش میسر ہے۔ مگر آج بھی زندگی میں کسی شے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ مرزا، جو ہمارے جہل اور نالائقیوں کا مکمل عرفان رکھتے ہیں، سن کر بولے، ’’جس شے کی کمی تمہیں ہمیشہ محسوس ہوتی رہی ہے، اسے قدما کی اصطلاح میں عقل کہتے ہیں۔‘‘ 

    ہماری مچھردانی
    دو تین دن تو جی اداس اداس رہا۔ پھر یکبارگی خیال آیا کہ طبیعت کی جولانی اگر زر و جواہر، ابر و بہار، اور سبز و گل پر ہی موقوف ہوتی تو کتنے ہیں کہ خود کو شادمان و شاد کام کہہ سکتے۔ جس انجانی مہک کے سہارے یہ ساری زندگی گزاری اسے ہوا کا جھونکا کہیں سے اڑا کر نہیں لایا۔ ساری دوانی خوشبوئیں نافہ آرزو ہی سے پھوٹیں،

    جو بہارآئی مرے گلشن جاں سےآئی۔ 

    اس تعلی متصوفانہ کو موجودہ صورت حال پر، جو مایوس کن ہونے کے علاوہ مضحک بھی تھی، منطبق کیا تو طبیعت پر جو زنگ لگ گیا تھا اس کے چھلکے ایک ایک کر کے اترنے لگے۔ ظاہر سی بات تھی کہ جو آلہ لان پر اپنا کرشمہ دکھا سکتا تھا، وہ ہمارے کمرے میں بھی سائنسی کمالات دکھانے سے باز نہیں رہ سکتا۔ بس اتنی سی بات پہ دل پکڑ کے بیٹھ گئے! مچھروں کی مردم شماری کر کے تخمینہ لگایا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ گاندھی گارڈن کے تمام لانز پر جتنے مچھر ہوں گے ان سے دگنے تو ہمارے ۱۲x۱۲ کمرے میں پلے ہوئے تھے۔ لان کی ضرورت تو ہمیں محض اس لیے محسوس ہوئی تھی کہ اس پر مچھر ہوتے ہیں۔ گاندھی گارڈن کی کوئی اجارہ داری تو نہیں۔ گوش حقیقت نیوش سے سنا تو کراچی کے مچھروں کا بچہ بچہ زبان حال سے طعنہ زن تھا کہ ’’اسیر خواہش قید مقام تو ہے کہ میں؟‘‘ سچ پوچھئے تو کراچی میں مچھردانی بھی اس معنی میں استعمال ہوتی ہےجس میں سرمہ دانی، چائے دانی، دودھ دانی، ہمدانی، صمدانی، اردودانی وغیرہ، جن میں اشیائے متعلقہ کو بحافظت تمام بند کیا جاتا ہے کہ نکلنے نہ پائیں۔ 

    چائے کے چونچلے
    تنخواہ سے قرض کی پہلی قسط وضع ہوتے ہی ہم نے فینی کی رونمائی کا اہتمام کیا۔ ۱۲x۱۲ کمرے میں جتنی خواتین و حضرات باہم بغل گیر ہوئے بغیر سما سکتے تھے، اس سے کچھ زیادہ ہی چائے پر مدعو کیے۔ کراچی میں چائے کی ضیافت کی ایک خوبی یہ ہے کہ چائے ہی پیش کی جاتی ہے۔ چائے کے بہانے دودھ نہیں پیتے۔ لاہور کی طرح نہیں کہ سالم مرغی اور کباب پہ کباب چلے آ رے ہیں۔ اور ایک صاحب نہیں، کئی ہیں، کہ دودھ سے لبالب کپ میں تین قطرے چائے ٹپکوا کر کہہ رہے ہیں کہ ’’میں تے ہمیشاں سٹرانگ چاہ پیناواں۔‘‘ (میں تو ہمیشہ اسٹرانک چائے پیتا ہوں۔) ہم اس میں صرف اتنی سی اصلاح کریں گے کہ چائے دودھ دان میں ہونی چاہیے اور دودھ چائے دانی میں۔ 

    جاپانی اپنی رسم چائے TEA CEREMONY اور اس کے صدیوں پرانے چونچلوں کی بڑی ڈینگیں مارتے ہیں۔ لیکن انہیں چاہیے کہ چائے، باتیں اور صحت ایک ساتھ بنانے کا ہنر زندہ دلانِ لاہور سے آ کر سیکھیں۔ کراچی میں چونکہ پپیتے اور خربوزے کا شمار سبزیوں میں نہیں ہوتا، اس لیے اگر ہم یہ کہیں کہ ہم نے چائے پر پھلوں کا تکلف بھی کیا تھا تو اسے مبالغہ آرائی نہ سمجھا جائے۔ آم، اسپاگیٹی، شریفے اور خستہ پے ٹیز کھانے کا مہذب طریقہ ابھی تک دریافت نہیں ہوا، اس لیے شریفوں اور پے ٹیز کا ذکر ہم نےدانستہ نہیں کیا۔ اور ہاں ایک تربوز بھی تھا۔ بہت میٹھا تو نہیں لیکن خالص۔ خالص سے ہماری مراد یہ کہ اس زمانے میں کراچی کے تربوز گلابی رنگ اور سیکرین کے انجکشنوں کے عادی نہیں ہوئے تھے۔ اور تربوز کی قاشوں نے گاہکوں کو رجھانے کے لیے لپ اسٹک لگانی نہیں سیکھی تھی۔ 

    تربوز کا چھلکا اگر گہرا سبز ہو تو ہما شما مطمئن ہو جاتے اور اندر کا حال قسمت پر چھوڑ دیتے۔ تربوز اس زمانے میں اس طرح خریدا جاتا تھا جیسے آج کل شادی کی جاتی ہے۔۔۔ محض صورت دیکھ کر۔ مگر صاحب! اگلے وقتوں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ کچی صراحی بھی خریدنی ہوتی تو یہی نہیں کہ بزرگ سرعام ٹن ٹن بجا کے راستہ چلتے ہوؤں تک کی تشفی کر دیتے تھے کہ دیکھ لو کہیں سےتڑخی ہوئی یا جھوجھری نہیں ہے، بلکہ کمہار کے چاک اور کمہاری کے چال چلن پر بھی ایک نگہ ڈال لیتے تھے۔ وہ اِک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے۔ 

    یہ کنارا چلا کہ ناؤ چلی
    آخری مہمان کے آنے تک مدعوئین کے نصف بہتر حصہ کا میک اپ پسینے سے بہہ کر رومالوں میں محفوظ ہونے لگا تھا۔ پھر کیا کیا رنگ بہے اس دم، کچھ ڈھلک ڈھلک کچھ چپک چپک! سب پسینے میں نہا چکے تو ہم نے فینی پر سے کمبل کا گھونگھٹ اٹھایا جس کی کانی اوٹ میں وہ ہمارے حکم کی منتظر کھڑی تھی۔ جیسے ہی سوئچ آن کیا، چاروں پنکھے بڑے زٰر سے چلنے لگے اور ان کے ساتھ فینی بھی چلنے لگی۔ چند لمحے تیزی سے چکر کاٹنے کے بعد وہ پلک جھپکتے میں دھڑدھڑاتی ہوئی ایک خاتون کی کرسی کے پایوں میں جا کر ایسی فٹ ہوئی کہ وہ وہیں سینڈوچ ہوکر رہ گئیں۔ اٹھ کر جھپاک سے برآمدے میں بھی نہ جا سکیں۔ وہ تو خدا نے بڑی خیر کی ورنہ اگر ان کے چنے ہوئے لال دوپٹے میں الجھ کر پنکھے ’’جیم‘‘ نہ ہو جاتے تو ہمیں بڑی شرمندگی اٹھانی پڑتی۔ 

    شکر ہے، دوپٹے سے فینی کو کوئی ناقابل مرمت نقصان نہیں پہنچا۔ دوپٹے کے اس اثنا میں نہایت موزوں سائز کے سرخ ربن بن گئے تھے جن سے اسکول جانے والی بچیوں کی چٹیاں چار پانچ سال تک گوندھی جا سکتی تھیں۔ فینی کو تو مناکر ہم پھر کرتب دکھانےکے لیے وسط میں لے آئے، لیکن وہ خاتون کمبل کا گھونگٹ کاڑھ کے ایسی بیٹھیں کہ فینی کو ناخون تک نہ دکھایا۔ اب ہمیں ایکا ایکی خیال آیا کہ جس وقت ڈھاکہ میں فینی کی کارکردگی کی نمائش کی گئی تھی تو اللہ بخشے (نور الحسن شیخ کو ۱۹۷۱ کے ہنگاموں میں اس کی ’’سلیپنگ پارٹنر‘‘ مسز۔۔۔ نے پناہ دی اور دوسرے سلیپنگ پارٹنر نے قتل کروا دیا۔) ۲۵۰ پونڈوزنی موجد اس پر جم کر بیٹھ گیا تھا، جیسے سرکس میں کرتب دکھانے والی حسینہ گھوڑے کی پیٹھ پر دونوں ٹانگیں ایک طرف کرکے بیٹھ جاتی ہے۔ چنانچہ اس دفعہ ہم بھی اسی آسن سے بیٹھ گئے۔ 

    اب جو بیگم نے سوئچ آن کیا تو فینی ہمیں اٹھائے اٹھائے پھر کی کی صورت گھومنے لگی۔ ایک بچہ اپنی ممی کی گود سے اترکر ضد کرنے لگا کہ میں بھی انکل کےساتھ MERRY-GO-ROUND پر بیٹھوں گا۔ چار پنکھوں کی ہارس پاور کے زور سے فینی اتنی تیزی سے گھوم رہی تھی کہ اپنا توازن قائم رکھنے کے لیے ہم نے اپنی ٹانگیں آخری انچ تک پھیلا دیں۔ اور ہماری REVOLVING لات کے قطرے سے بچنے کے لیے مہمانانِ گرامی اور ان کی بیگمات نزدیک ترین کونے میں منھ دے کر کھڑے ہوگئے۔ 

    فینی پر سے چھلانگ لگا کر ہم نے سوئچ آف کیا۔ اب کی د فعہ ہم نے بیگم کو بھی فینی پر بٹھا کر پنکھے آن کیے تو مجال ہے کہ فینی اپنی جگہ سے ذرا بھی ہل جائے۔ اب جو فینی جم کے، جی لگا کے چلی ہے تو ایک قیامت آگئی۔ چوطرفہ جھکڑ چلنے لگے۔ کمرہ در اصل اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں زیادہ آکسیجن کی سمائی بھی نہیں تھی۔ ایسی طوفانی ہوائیں ہم نے تو زندگی میں صرف ایک بار دیکھی تھیں، جب چٹگانگ میں سرخ سائیکلون آیا تھا۔ ایسا لگتا تھاکہ کمرے کی ہر وہ چیز جس کا وزن فینی اور ہم میاں بیوی کے وزن سے کم ہو، ہوا میں اڑ رہی ہے۔ دیوار پر ٹنگے ہوئے کیلنڈر کے تمام ورق بیک وقت پڑھے جا سکتے تھے۔ مردوں کے گال اپنی ہی ٹائیوں کے تھپڑ کھا کھا کے لال ہوگئے۔ سگرٹوں کے جلتے سرے سگرٹوں سے علیحدہ ہوکر جگنوؤں کی طرح اڑنےلگے۔ جیسے ہی فینی نے پوری اسپیڈ پکڑی، چھوٹے سے کمرے میں نیلی پیلی آندھی آگئی۔ 

    کھڑکی دروازوں کے پردے اس طرح لہرانے لگےجیسے ایئرپورٹ پر نارنجی رنگ کی بادنما سونڈ لہراتی رہتی ہے۔ ایک خاتون کی چوٹی ایریل کی طرح کھڑی ہوگئی۔ ایک صاحب کی داڑھی میں ہو اسے قدرتی مانگ نکل آئی۔ فرنچ شفان اور بمبئی سے اسمگل کی ہوئی بنارسی ساریوں میں کچھ دیر تو ٹھنڈے جھکڑ چلتے رہے۔ پھر ایسی ہوا بھری کہ بھری کی بھری رہ گئی۔ خواتین گلے گلے تک ان رنگین بلبلوں میں ڈوب گئیں۔ کچھ نے پنجوں سے بارڈر اور دانتوں سے پلو دبانے کی کوشش کی تو بنارسی غبارے اور پھول گئے۔ ایک غیور شوہر نے پہلے تو اپنے ہاتھوں سے ان بلبلوں کو آگ کی طرح بجھانے کی کوشش کی اور پھر ایک ہی جھپٹے میں دوسری خاتون کے سر سے کمبل اتار کر اپنی بیگم پر ڈال دیا۔ اور انہوں نے کمبل کے خیمے کے حاشیے پر اونچی ایڑی کی نکیلی چوبیں گاڑ دیں۔ لیکن تابکے؟ 

    جب اٹھتی تھی چوبیں تو جھکا جاتا تھا خیمہ
    بھرتی تھی ہوا جب تو اڑا جاتا تھا خیمہ

    لیکن آفریں ہے اس باہمت خاتون پر جس نے اس آندھی میں کمرے سے بھاگنے کی کوشش کی۔ ان کی پھولدار ساری کا جو نقشہ ہوا وہ قابل دید و ناقابل بیان تھا۔ آپ نے آندھی پانی میں کبھی رنگین چھتری کو ایکا ایکی اوپر الٹتے دیکھاہے؟ ڈنڈی پر کنول سا کھل جاتا ہے۔ اس واقعہ کو سولہ سترہ سال ہونے کو آئے۔ گھر بھی مدتیں ہوئیں ہم نے تبدیل کر لیا۔ اور اب چھت کے پنکھے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس بی بی نے پھر کبھی ہماری دہلیز پر قدم نہیں رکھا حالانکہ اب تو وہ تنگ موری کا چست پاجامہ پہننے لگی ہیں۔ 

    مکرر آنکہ، اس افراتفری میں ہم فینی ڈارلنگ کا انجام بتانا تو بھول ہی گئے۔ اس رونمائی کے چند ہفتے بعد ہمیں اوکاڑہ منڈی جانا پڑا۔ وہاں گڑ کی ایک دکان کا اسٹاک چیک کرنے پہنچے تو مال کہیں نظر نہ آیا۔ مالک دکان سے پوچھا، میاں صاحب! گڑ کہاں ہے؟ انہوں نے اپنے منھ پر انگوچھا ڈالا اور دونوں ہاتھوں سے زور زور سے کھجور کا پنکھا جھلا تو زندہ مکھیوں کے نیچے سے بوریاں اور بھیلیاں برآمد ہوئیں جن میں مردہ مکھیوں کو گڑ میں حنوط کیا گیا تھا۔ خیال آیا، آئندہ اسٹاک چیکنگ میں آسانی رہے گی، فینی اس غریب کو ہی کیوں نہ پہنچوا دیں۔ لیکن ایک دن مسٹر اینڈرسن سے یونہی ذکر آگیا تو انہوں نے محض اس بنا پر گہری شیفتگی کا اظہار کیا کہ اس کے پنکھے کبھی بحری جہاز کا حصہ رہ چکے تھے۔ ’’سمندری جہاز شاہی سواری ہے۔ کیا کہنا! اور فرسٹ کلاس میں تو ڈرنکس اتنے وافر کہ کوئی گدھا ہی ہوگا جو ایسے میں ٹھوس غذا کو ہاتھ لگائے۔‘‘ 

    دوسرے دن ہم نے پنکھے نکلوا کر ان کی نذر کر دیے۔ اور انہوں نے انہیں دوبارہ الٹا کر کے غسل خانوں میں (جہاں اطمینان کی چند گھڑیاں گزاری تھیں) EXHAUST FANS کے طور پر لگوا لیے۔ چونکہ اصولاً وہ ماتحتوں سے مفت چیزیں لینے کے سخت خلاف تھے، اس لیے بدلے میں انہوں نے ہمیں اپنا پارسپورٹ فوٹو دستخط کر کے عنایت فرمایا۔ 

     

    حاشیہ 
    (1) اگر ہم نے یہ مضمون برادرم سید ضمیر جعفری کی شاہکار نظم ’’ضمیر کا گھر‘‘ (لکڑی کی نصف HUT) سے سرقہ کیا ہے تو کیا ہوا۔ ان کے مالک مکان نے بھی تو میونسپل کارپوریشن سے منظور شدہ نقشہ ہمارے ہی مکان کا چرایا تھا۔ 
     

                                                                                           

    مأخذ:

    زرگزشت (Pg. 170)

    • مصنف: مشتاق احمد یوسفی
      • ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے