Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب کے اڑیں گے پرزے

کنہیا لال کپور

غالب کے اڑیں گے پرزے

کنہیا لال کپور

MORE BYکنہیا لال کپور

    باغ بہشت میں مرزا غالب اپنے محفل میں ایک پر تکلف مسند پر بیٹھے دیوان غالب کی ورق گردانی کر رہے ہیں۔ اچانک باہر سے نعروں کی آواز آتی ہے۔ غالب کے اڑیں گے پرزے۔ غالب کے۔۔۔ اڑیں گے پرزے۔۔۔ مرزا گھبرا کر لاحول پڑھتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ لوگ جنت میں بھی چین نہ لینے دیں گے۔ پھر خدمت گار کو حکم دیتے ہیں باہر جا کر پتہ لگاؤ یہ کون لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ وہ خبر لاتا ہے ’’غالب شکنوں‘‘ نے ایک جلوس نکالا ہے جس کی رہنمائی یاس یگانہ اور طبا طبائی کر رہے ہیں اور یہ جلوس شہنشاہ سراج الدین ابو ظفر کے محل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اتنے میں ’دیوان غالب‘ کے سیکڑوں بلکہ ہزاروں پرزے فضا میں اڑتے ہوئے مرزا کے محل میں گرتے ہیں وہ ان کو اٹھاتے ہیں اور یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ ان پر ان کے اشعار کے علاوہ کچھ اور بھی لکھا ہے۔

    کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے۔۔۔ خوب! محبوب نہ ہوا مرغی ہوئی جو راکھ کرید رہی ہے۔ کریدتے کا لفظ یہاں کتنا غیر مناسب ہے (طباطبائی۔۔۔) بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے۔ واہ صاحب واہ! خدا کا شکر کیجئے کہ بوجھ سر سے گر پڑا ہے۔ اب اسے پھر اٹھا کر گردن تڑوانے کا ارادہ ہے کیا۔۔۔؟ پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا۔ اجی صاحب! کس کا دیدۂ تر؟ اپنا؟ رقیب کا؟ یا محبوب کا۔۔۔؟ سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا۔ یک نہ شد دو شد۔ بھئی کس کا سر یاد آیا؟ مجنوں کا؟ اپنا؟ یا شیخ ابراہیم ذوق کا۔۔۔؟ دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا۔۔۔ کس کو دونوں جہان دے کر کون خوش رہا؟ یہ معمہ ہے یا مصرع؟ شمع بجھتی ہے تو اس میں دھواں اٹھتا ہے۔۔۔ یہ بھی خوب رہی۔۔۔ بجھ شمع رہی ہے اور دھواں ’میں‘ سے نکل رہا ہے۔ (مجاز لکھنوی)

    ان کے ناخن ہوئے محتاج حنا میرے بعد۔ کیوں صاحب! اگر محروم حنا میرے بعد لکھ دیتے تو کیا حرج تھا۔۔۔ یہ مسائل تصوف اور یہ ترا بیان غالب۔۔۔ خدا لگتی کہئے اس غزل میں آپ نے تصوف کی کون سی رمز بیان کی ہے اور ہم آپ کو کیسے ولی سمجھ لیں۔ کیا تیر نیم کش میں تصوف سمویا گیا ہے یا مرکر رسوا ہونے میں۔۔۔؟ اتنے شیریں ہے تیرے لب کہ رقیب۔ گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا۔۔۔ وہ رقیب ہی کیا جس کے مقدر میں محبوب کی گالیاں لکھی ہوں۔ پھر آپ اور رقیب میں فرق ہی کیا رہا۔۔۔؟ میں اور اندیشہ ہائے دور دراز۔۔۔ یہ بھی بتا دیا ہوتا وہ اندیشہ ہائے دور دراز کیا ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اپنی زلفیں سنوارنے میں مصرف ہیں اور آپ انہیں نظر بھرکر دیکھ رہے ہیں۔ آئینے میں سہی۔۔۔ ملنا ترا گر نہیں آساں تو سہل ہے۔۔۔ یہ بات کیا بنی۔ اگر آساں نہیں تو سہل کیسے ہے۔۔۔؟ اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے۔۔۔ کیا ٹھانی ہے؟ کیا امراؤ بیگم کو طلاق دینے کا ارادہ ہے یا ستم پیشہ ڈومنی کو اغوا کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ نیند کیوں رات بھر نہیں آتی۔۔۔ ظاہر ہے کہ مے نوشی کی وجہ سے آپ کا اعصابی نظام کمزور پڑ گیا ہے۔ نیند کیسے آئے۔۔۔؟ موت آتی ہے پر نہیں آتی۔۔۔ جب آتی ہے اسے روک کیوں نہیں لیتے۔۔۔؟ ’’لکھتے رہے جنوں کو حکایات خونچکاں۔ ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‘‘ ہاتھ قلم ہو جانے کے بعد کیا پیر سے لکھتے رہے (طباطبائی۔۔۔) بیٹھا رہا اگر چہ اشارے ہوا کئے۔۔۔ کون کس کو اشارے کرتا رہا۔۔۔ آپ؟ رقیب؟ یا محبوب؟

    غالب ان گستاخانہ تبصروں کو پڑھ کر زیر لب مسکراتے ہیں۔ اب وہ چند اور پرزے ملاحظہ فرماتے ہیں، ’’غالب کے نزدیک شاعری ذہنی عیاشی کا بدل ہے۔ انہوں نے جو کچھ لکھا اپنے بارے میں لکھا۔ عمر بھر وہ غم عشق کا رونا روتے رہے۔ کاش انہیں معلوم ہوتا۔۔۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔‘‘

    ’’غالب نے جی بھر کر عشق کیا عموماً خیالی محبوبوں سے۔ جس قدر مے ملی ہر شب پیتے رہے عموماً قرض کی۔ پھر بھی انہیں شکایت رہی کہ ان کے ارمان بہت کم نکلے۔ اللہ اللہ کتنے بے صبر اور نا شکرے تھے وہ!

    غالب اس پرزے کو پڑھ کر خوب ہنستے ہیں اور اب ایک بہت بڑا پرزہ اٹھاتے ہیں، ’’وہ جسے ہم انگریزی میں اسٹریم آف کانشسں نیسSTREAM OF CONSCIOUS NESS کہتے ہیں۔ مرزا کی تمام غزلوں میں رواں دواں ہے۔ مثال کے طور پر ان کی مشہور غزل لیجئے جس کا مطلع ہے،

    کوئی امید بر نہیں آتی

    کوئی صورت نظر نہیں آتی

    ظاہر ہے ایام غدر میں وہ چاندنی چوک سے گزر رہے ہیں اورانہیں محسوس ہو رہا ہے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ان کی کسی امید کے بر آنے کا امکان نہیں۔ چاندنی چوک میں ہو سناٹا ہے کہ کہیں کوئی اچھی صورت نظر نہیں آ رہی۔ یک لخت ان کا خیال گوروں کے ہاتھ ہندوستانیوں کی پکڑ دھکڑ کی طرف جاتا ہے اور وہ پوچھتے ہیں جب مرنا بر حق ہے تو پھر گوروں کے ڈر سے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی۔ گوروں سے ان کا تخیل اپنے شاگرد رشید مولانا الطاف حسین حالی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور وہ حالی کو دل ہی دل میں جھڑک کر کہتے ہیں۔۔۔ جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد۔۔۔ پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔ پھر وہ سوچتے ہیں یہ حالی بہت بڑا بور ہے، لیکن امراؤ بیگم نے مدت سے جان عذاب میں ڈال رکھی ہے۔ کیوں نہ اسے ایک دن کھری کھری سنائی جائیں۔ پھر ڈرتے ہیں کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں، اس لئے فرماتے ہیں،

    ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

    ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

    چونکہ وہ نشہ میں ہیں۔ اس لئے انہیں مطلقا ً علم نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ اپنی مضحکہ خیز حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی۔ معاً انہیں یاد آتا ہے کہ ظفر نے انہیں حج پر ساتھ لے چلنے کی پیش کش کی تھی، لیکن وہ رند شاہد باز ہیں۔ اس لئے ان کا حج قبول نہیں ہوگا۔ کف افسوس ملتے ہوئے فرماتے ہی،

    کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب

    شرم تم کو مگر نہیں آتی

    اپنی غزل کی یہ تاویل سن کر مرزاایک فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہیں لیکن اس سے اگلا پرزہ پڑھ کر ان کی ہنسی سنجیدگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔’’غالب شاعر نہیں افسانہ نگار تھے۔‘‘ انہیں مختصر ترین افسانے لکھنے میں کمال حاصل تھا۔ ان کے کچھ افسانے تو اپنے اختصار اور اپنی افسانویت کے باعث شاہکار کہے جا سکتے ہیں۔ مثلاً،

    کہاں میخانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ

    پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

    (نوٹ، اس افسانے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوق جن کے زہد کی دہلی میں دھوم ہے۔ کل چوری چھپے شراب پیتے پکڑے گئے۔

    ایک اور افسانے میں انہوں نے پاسباں کے ہاتھوں اپنے پٹ جانے کے واقعہ کو یوں بیان کیا ہے،)

    گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی

    اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے

    اور مندرجہ ذیل شعر تو ایک اچھے خاصے نفسیاتی ناول کا موضوع بن سکتا ہے،

    کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

    ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

    اس سے اگلا پرزہ انہیں سر پیٹنے پر مجبور کر دیتا ہے، ’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ ایک وید مقدس او ر دوسرا دیوان غالب۔‘‘ مرزا غالب نے اپنے بہترین اشعار میں وید منتروں کی بہت عمدہ تفسیر کی ہے۔ رگ وید میں ایک منتر آتا ہے جس کامفہوم ہے انسان بنو۔ مرزا فرماتے ہیں،

    بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

    آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

    یجر وید میں کہا گیا ہے خدا کی ذات کے سوا تمام چیزیں ہیچ اور معدوم ہیں۔ مرزا اس نکتے کویوں بیان کرتے ہیں،

    جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

    پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

    اتھر وید کے ایک منتر میں تلقین کی گئی ہے کہ یہ دنیا دھوکا ہے۔ غالب نےاس خیال کا اظہار اس طرح کیا ہے،

    ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

    عالم تمام حلقہ دام خیال ہے

    مرزا اپنا سر پکڑ کر رہ جاتے ہیں۔ دو ایک منٹ کے سکوت کے بعد کہتے ہیں، ’’توبہ توبہ۔ غالب او ر ویدوں کا مفسر۔‘‘ سفید جھوٹ کی اس سے بڑی مثال مشکل سے ملے گی۔ یا خدا! یہ میں نے کیا کیا۔ کیوں خواہ مخواہ بھینس کے آگے بین بجائی۔ یہ پرزے پڑھ کر تو یہ معلوم ہوتا ہے جیسے میرا دیوان ایک گورکھ دھندا ہے۔ ارے بھئی میاں مہدی حسین مجروح، شیفتہ، ہر گوپال تفتہ ذرا ادھر آؤ اور اپنی آنکھوں سے دیکھو میرے دیوان کی کیا گت بنائی جا رہی ہے۔

    یک لخت دروازے پر دستک ہوتی ہے اور اندرآنے کی اجازت ملنے پر منشی ہر گوپال تفتہ داخل ہوتے ہیں۔

    ’’آداب عرض پیرو مرشد! مبارک ہو۔ بہت بہت مبارک ہو۔‘‘

    ’’منشی ہر گوپال تفتہ، دیکھ نہیں رہے ہو۔ میرے پرزے اڑائے گئے ہیں اور تم مبارک باد پیش کر رہے ہو، گویا میرے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہو۔‘‘

    ’’پیر و مرشد! میں جانتا ہوں جن گستاخ ہاتھوں نے آپ کے پرزے اڑائے اور یہ بھی جانتا ہوں ان کا حشر کیا ہوا۔‘‘

    ’’حشر کیا ہونا تھا، سنا ہے وہ شہنشاہ ظفر کے محل میں پہنچے اور انہیں طعنہ دیا۔ انہوں نے مجھ ایسے، ہیچ مداں کو کیوں منہ لگا رکھا تھا۔‘‘

    ’’گستاخی معاف مرزا، آپ نے غلط سنا۔ جلوس کو شہنشاہ کے محل تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا۔ فرشتوں کی ایک خاص گارڈ نے اسے حراست میں لے لیا۔‘‘

    ’’حراست میں لے لیا! پھر اسے کہاں لے گئے؟‘‘

    ’’داور محشر کی عدالت میں۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’باری تعالیٰ نے جلوس کے رہنماؤں کو سخت ترین سر زنش کرنے کے بعد فرمایا، وجہ بیان کرو کہ غالب شکنی کے جرم میں ابھی کیوں نہ تمہارے پرزے اڑا دیئے جائیں۔‘‘

    ’’او ربھی کچھ کہا؟‘‘

    ’’جی ہاں! انہوں نے مزید فرمایا، ہم حکم دیتے ہیں کہ غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر جوعالم فانی میں منائی جا رہی ہے، دارالبقا میں دیوان غالب سونے کے حروف میں شائع کیا جائے اور ہماری ذاتی لائبریری میں اسے ہی مقام دیا جائے جو کلیات شیکسپیر، کلیات کالی داس، اور کلیات ڈانٹے کو حاصل ہے۔‘‘

    ’’خالق کون و مکاں! تمہارا کس زبان سے شکریہ ادا کروں۔‘‘

    غالب سجدے میں گر جاتے ہیں اورجب اٹھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ’’دیوان غالب‘‘ کے پرزوں نے خوبصورت اوراق کی صورت اختیار کر لی ہے جن پر ان کی غزلیں سونے کے حروف سے لکھی گئی ہیں۔

    مأخذ:

    نازک خیالیاں (Pg. 15)

    • مصنف: کنہیا لال کپور
      • ناشر: کمال پرنٹنگ ورکس، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے