غالب اور تیلن
میر مہدی مرزا صاحب بھی بہت برہم ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ان نااہلوں کو اب میں ہرگز اپنا کلام نہیں سناؤں گا۔جو شاعرانہ نکات ورموز سے واقف ہیں نہ علمی استعداد رکھتے ہیں۔ عزل میں صرف معاملہ بندی اور چونچلا چاہتے ہیں۔
نواب نیر ان کا یہ فرمانا بالکل بجا ہے۔ عام لوگ مرزاصاحب کے کلام کی ایمائی کیفیت کو سمجھ نہیں سکتے۔ اس لیے اعتراض کرتے ہیں ورنہ ان کےاکثر اشعار تو موتیوں میں تولنےکے لائق ہیں۔ ایک غزل ولایت خاں نے بھی سنائی تھی۔ لطف آگیا۔کیسی مشکل زمین ہے جس میں اتنے اچھے اچھے شعر کہے ہیں۔
میر مہدی مجروح بھائی نیر! یہ غزل اس وقت سنوائیے تو لطف آجائے۔
نواب صاحب کوئی ہے؟ ولایت خاں کوابھی بلا لاؤ۔
چندمنٹ بعد ولایت خاں حاضر ہوکر سب صاحبوں کو جھک جھک کر آداب بجالاتا ہے۔
نواب صاحب ہاں، ولایت خاں! مرزا صاحب کی وہ غزل سناؤ جو کل تم نےسنائی۔
ولایت خاں دست بستہ ہوکر عرض کرتا ہے ’’بہت بہتر سرکار!‘‘ اورستار کےتار چھیڑ کر چند منٹ میں سردرست کرنےکے بعد سوز بھری آواز میں گاتاہے،
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
حاضرین پر عالم وجد طاری ہے۔ سب کیف میں ڈوبے ہوئے جھوم رہے ہیں۔ فضا پر نشہ بن کر غالب کی غزل چھائی ہوئی ہے۔ ولایت خاں دلنشین لہجےمیں کہتاہے،
بوجھ وہ سر سےگرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
میرن صاحب (طنزیہ انداز سے، قہقہہ لگاکر) اے واہ مرزاصاحب! کیا کہنے ہیں آپ کے۔ کس قدر بے معنی شعر کہا ہے، لیکن آپ کے عقیدت مند ہیں کہ اس بے تکی ہانک پر بھی جھوم رہے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی تک ہوا۔ جو بوجھ سر سے گرنےکے بعد اٹھاکر سرپر نہیں رکھا جاسکتا وہ پہلے ہی کیسے سرپر آگیا تھا۔ بالکل فضول شعر ہے۔ میری سمجھ میں تو یہ آیا نہیں۔ آپ حضرات سخن گو، سخن فہم ہیں، مجھے اس کا مطلب سمجھادیں۔
نواب نیر خیر، سمجھا تو ہم میں سے ہر ایک سکتا ہے لیکن اچھا ہے کہ حضرت غالب سے ہی اس کی تشریح کرائی جائے۔
میر مہدی مجروح میں ابھی پوچھ آتا ہوں۔
نواب نہیں بھائی! آپ بیٹھے۔۔۔ اپنے بڑے لڑکے مرزااشہاب الدین خاں ثاقب سےکہتے ہیں۔۔۔ شابومیاں! جاؤ مرزا صاحب سے ہم سب کاسلام عرض کرنااور میرن صاحب کی جانب سے یہ گزارش کرنا کہ اس شعر کامطلب سمجھادیں۔
ثاقب جاتے ہیں۔ مرزا صاحب اس وقت شغل مے و مینا میں مصروف ہیں۔ ایک جام پی چکے ہیں، دوسراہاتھ میں ہے، عالم کیف و سرور میں اس غزل کا مقطع گنگنارہے ہیں،
عشق پرزور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
جو لگائےنہ لگے اور بجھائےنہ بنے!
قدموں کی آہٹ پر چونک کر مرزا صاحب نے آنکھیں کھولیں اور ثاقب کو دیکھ کر محبت بھرے لہجے میں کہا، ’’آؤبیٹا!‘‘
ثاقب نےآداب کرکے مؤدبانہ، میرن صاحب نے جو کہا تھا، دبے لہجے میں دہرایا۔ مرزا صاحب ہنس کر بولے،
’’ارے، اس کنجوس سے کہہ دینا کہ توفنِ شعر کو کیا جانے اور رموز شعری سے تجھے کیا مطلب ۔۔۔ روپے جمع کرنے کے طریقے سیکھ۔ استاد فن کے منہ آنےکی کیا ضرورت ہےؤ اور شعر و شاعری سے تیرا کیا واسطہ ہے؟ ارے بے وقوف! یوں سمجھ، تیلن تیل لیے جارہی ہے۔ تیل کی بھری ہوئی مٹکی سرپر رکھی ہے۔ ٹھوکر لگی، پاؤں پھسلا، تیلن گری، مٹکی ٹوٹ گئی، تیل بہہ گیا۔ اب وہ اس گرے ہوئے تیل کو سمیٹ کر کیسے سر پررکھے۔۔۔
بوجھ وہ سر سےگرا ہےکہ اٹھائے نہ اٹھے!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.