Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم شریف ہوتے ہیں

علی حسن اویس

ہم شریف ہوتے ہیں

علی حسن اویس

MORE BYعلی حسن اویس

    انتساب: مکھڑے پر ہی تان توڑ کر گانے کا مزا کرکرا کرنے والے دوست ”ش“ کے نام

    میرے دوست ہمیشہ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ یار لاہور میں جا کر تم خراب ہو گئے ہو۔ ویسے وہ ایسا نہیں کہتے بلکہ ان کی کہنے کی زبان ذرا میٹھی ہوتی ہے۔ اگر آپ بھی میری طرح پنجابی ہیں تو آپ اس مٹھاس سے ضرور آشنا ہوں گے۔ اور جو دوست پنجابی نہیں، وہ کسی پنجابی کی خدمات لے لیں۔

    اگر یہ معاملہ دوستوں تک محدود رہتا تو میرے لیے تشویش کی بات نہ تھی۔ اب تو وہ لوگ بھی مجھے خراب تصور کرتے پائے جاتے ہیں جن کی اپنی شکلوں میں پڑوسی پن کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ گلی سے گزر رہا ہوں تو مائیں اپنے بچوں کو گھر گھسیٹ لے جاتی ہیں کہ کہیں مجھ خراب کا سایہ ان پر نہ پڑ جائے۔

    میں آج اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ لوگوں کو یہ بتا سکوں کہ ”بھئی، ہم شریف ہوتے ہیں۔“ ہمارے خراب ہونے کی گپ کسی رقیب نے اڑائی ہو گی۔ دیکھئے اب یہ نہ کہیے گا کہ اپنے منہ میاں مٹھو تو ہر کوئی ہوتا ہے۔ میں آپ کے سامنے باقاعدہ ثبوت رکھتے ہوئے اپنی شرافت کا فیصلہ آپ پر چھوڑ خاموش ہو جاؤں گا۔ پھر آپ جانئیے یا خدا جانے۔

    ہماری شرافت کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ ہم ہر اس چیز سے دو فٹ کی دوری پر رہتے ہیں جس میں نسائی پن یا اس کے اثرات ہوں۔ (نوٹ: دوستوں کی محفل میں، یہ مضمون پڑھتے ہوئے جب اس جملہ پر پہنچا تو ایک دوست پھڑک کر کہنے لگا، ”اس سے بڑی کمینگی اور کیا ہو سکتی ہے۔“)

    پچھلے دونوں کی بات ہے میرے ایک دوست فلاسفر شیدا نے مجھے اپنے گھر لنچ پر مدعو کیا۔ کھانے کے آخر میں کھیر پیش کی گئی مگر ہم نے صرف اس وجہ سے کھانے سے انکار کر دیا کیونکہ کھیر کے نام میں نسائی پن کی کھنک ہے۔

    اس سے بڑا اور ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ میرے موبائل کی کنٹیکٹ لسٹ میں جتنے بھی نمبر محفوظ ہیں ان میں کوئی بھی آپ کو کسی ایسے نام سے نہیں ملے گا جس میں بی بی، عورت یا لڑکی کی جھلک ہو۔ وہ الگ بات ہے کہ احمد پان والا کے میسجزز میں محبت کا اظہار ہو اور وکی کیبل والا پوچھ رہا ہو کہ ”میرے بابو نے تھانا تھایا۔“ (نوٹ: ایک دوست کا بیان ہے کہ اس جملہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ لکھاری شادی شدہ ہے۔ پھر مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر یہ جملہ تمہارا ہے تو ہماری بھابھی سے کب ملو رہے ہو۔ اگر یہ معاملہ نہیں تو ضرور تم نے کسی دوسرے شخص کے جملے پر ہاتھ صاف کیا ہے۔)

    میری معصومیت کے لیے یہی کافی ہے کہ جب میرے موبائل سے کسی کو فون کیا جائے تو جو باجی کہتی ہے کہ، ”آپ کے مطلوبہ نمبر سے جواب موصول نہیں ہو رہا۔“ کی جگہ ہم نے ایک معروف مولوی کی آواز بھروا رکھی ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ مجھے ان کے صرف وہ بیان پسند ہیں جن میں حوروں کے کپڑوں اور ٹانگوں کا تذکرہ تفصیلاً کیا جاتا ہے۔

    عمر کے جس حصے میں ہم ہیں، اس حصے میں لڑکوں سے ان کی محبوبائیں تصاویر مانگتی ہیں تاکہ نظر اتارنے کے ساتھ ساتھ نظریں جمائی بھی جا سکیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، یا رشتہ کروانے والی ماسیاں تصاویر لے جاتی ہیں۔ مگر میری شرافت کے لیے یہی کافی ہے کہ مجھ سے جب بھی تصویر مانگی گئی کسی تقریب کے اشتہار کے لیے مانگی گئی۔

    میرا روم میٹ اس بات کا گواہ ہے کہ ہم رات کے اس پہر، جب ہمارے ہم عمر لڑکے بابو سہنے کی تسبیح نکالتے پائے جاتے ہیں، ہم محو رٹہ ہوتے ہیں تاکہ یونی ورسٹی کے امتحان دے سکیں۔

    ایک مرتبہ خاندان کی کسی تقریب میں میرا ذکر کیا گیا تو حسبِ معمول ساتھ ہی یہ بات بھی دہرائی گئی کہ لڑکا یونی ورسٹی میں لڑکیوں کے ساتھ پڑھتا ہے۔ کسی دل جلے نے کہا، ”خوب گل کھلاتا ہو گا۔“ یہ سن میرے ایک عزیز، جو میری شرافت اور معصومیت کے جملہ اوصاف سے کما حقہ واقف تھے بھڑک کر کہنے لگے، ”وہ تو اتنا شریف ہے کہ خود برقع پہن کر کلاس میں جاتا ہو گا تاکہ بری نظروں سے بچ سکے۔ اس بے چارے نے کیا گل کھلانے ہیں۔“ وہ الگ بات ہے کہ میں نے یونی ورسٹی آنے سے قبل منٹو کا افسانہ ”پانچ دن“ اسی کی شہ پر پڑھا تھا اور اس میں سے حسب ضرورت نسخے کشید کیے تھے۔

    کہتے ہیں کہ انسان جتنا مرضی شریف ہو، اگر اس کے خوابوں میں کمینگی ہو تو وہ ہرگز شریف نہیں ہو سکتا۔ مگر میری شرافت کے لیے یہی ثبوت کافی ہے کہ میرے خوابوں میں یا تو کتابوں کے بھاری بھرکم مکالمے سر اٹھاتے ہیں یا الٹے پاوں والی مورتیں شور مچاتی پائی جاتی ہیں۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ الٹے پاؤں والی صورت دیکھ کر بندے کو کمینگی کا ہوش رہتا ہے۔

    بندہ یونی ورسٹی کا طالب علم ہو، اور اوپر سے حسین بھی تو اکثر دوشیزائیں اس پر فریفتہ ہو جایا کرتی ہیں۔ مگر مجھے جب بھی کسی دوشیزہ نے مخاطب کیا، جملہ کا آغاز ہمیشہ یہی تھا کہ ”بھائی زرا سنیے گا۔۔۔“ میرے دوست کا بیان ہے کہ، ”ارے وہ تمہیں بھائی احتراماً نہیں بلکہ احتیاطاً کہتی ہیں۔“ مگر یاد رہے کہ جب ایک شخص کوئی بات کرتا ہے تو اس کی نظر میں اپنی تصویر ہوتی ہے۔ لہذا میرے دوست کے جملے کو مجھ پر مسلّط کرنے سے احتراز کیا جائے۔

    محسوس ہو رہا ہے کہ اگر مزید ثبوت فراہم کیے تو آپ کو اکتاہٹ کے ساتھ ساتھ فیصلہ کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لیے آپ کی عدالت میں آخری ثبوت فراہم کرتے ہوئے اجازت چاہیں گے۔

    میری شرافت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ نسائی ازار بند کھولنے کی عمر میں امتحانی پرچوں کے بنڈل کھولتے رہے اور آج تک ہماری زیب تن قمیص کے بٹنوں پر نائی کے علاؤہ کس اور انسانی شکل نے ہاتھ نہیں ڈالا۔

    فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے مگر ہم تو خود کو ”شریف“ خیال کرتے ہیں۔

    انتباہ: وہ لوگ جو باپ کہلاتے ہیں، اس مضمون کو اپنے بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بے احتیاطی کی صورت، ان کے بچے میرے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے باپ دادا کا نقشِ قدم گم کر بیٹھیں۔

    جواب: ایک کرم فرما کی جانب سے،

    آپ شریف نہیں ہوتے صاحب

    میرا خیال ہے کہ اس مضمون میں ہجو نگار اپنی خوبیاں اشارتاً گنوا چکا ہے اس پر کچھ کلام نہیں مگر وہ جو اپنی حقیقی خامیوں کے ثبوت میں اس نے امثال کا بیان کیا ہے اس پر ضرور کلام ہے۔

    یہ جو انہوں نے بات کہی کہ ہم رات کو محوِ رٹا ہوتے ہیں تو مجھے اکبر کا یہ شعر بے ساختہ یاد آ گیا،

    میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ

    علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ

    یہ جو تصور انہوں نے اپنی شرافت کے ثبوت میں باندھا ہے یہ مجھے ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم کی عملی تصویر بناۓ دیتا ہے۔ پھر نسائی پن سے آپ کی دوری تو کوئی قابلِ رشک شے نہیں بلکہ مجھے اس فعل سے تیسری قسم کی خواہش کی بو آتی ہے۔ میری اس بات کو جو شے مضبوط کرتی ہے وہ اسی ہجو میں مثال کے ساتھ موجود ہے: موصوف کی قمیص کے بٹنوں پر کسی نائی کا ہاتھ ان کے خوش ذائقہ ہونے کی دلیل ہے اور ”نائی کے علاوہ کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا“ ان کے مستقل مزاج ہونے کی طرف اشارہ۔

    بات اتنی ہوتی تو خوب ہوتا مگر یہ موبائل فون میں احمد پان والا اور وکی کیبل والا کے پیغامات کی مسلسل آمد و رفت ان کے متنوع مزاج ہونے پر دال ہیں اور یہی نہیں بلکہ یہ صاحبان کسی نسوانی رقیب کے وجود کو باعثِ عار خیال کرتے ہیں، ہاں اگر کوئی موصوف ہوں تو کوئی ہرج نہیں۔ اگر موصوف یہ وضاحت بھی کر دیتے کہ کس قسم کی تقریبات کی خاطر ان کی تصویر اشتہار کے لیے منگوائی جاتی ہے تو خوب ہوتا۔ موصوف کا کلاس میں برقع ان کی خوش شکلی کا حالا ہے کہ جس کے پار دیکھنا حسیناؤں کے بس میں نہیں۔ جناب! آپ کے یہ تمام افعال جنہیں آپ اپنی شرافت بتلاتے ہیں در اصل آپ کی خوش شکلی کا نتیجہ ہیں مبادہ کوئی شخص آپ کے ان افعال سے دھوکہ نہ کھائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے