شادی حماقت ہے
شادی کے بعد سے اس بات پر غور کرنے کی کچھ عادت سی ہوگئی ہے کہ شادی کرنا کوئی دانشمدانہ فعل ہے یا حماقت! یعنی اگر یہ دانشمندی ہے تو پھر بعض اوقات اپنے بے وقوف ہونے کا بے ساختہ احساس کیوں ہونے لگتا ہے اور اگر یہ حماقت ہے تو اس حماقت میں دنیا کیوں مبتلا نظر آتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ کوئی غور کرنے کی بات تھی تو شادی سے پہلے غور کیا ہوتا۔ مگر میرا خیال یہ ہے کہ غور کرنے کا شعور عام طور پر شادی کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے۔ ورنہ اس دنیا سے شادی کی رسم کب فنا ہوچکی ہوتی۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد ایک سوا ل اور پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ شادی ہو چکنے کے بعد اس پر غور کرنے سے فائدہ ہی کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا فائدہ ایک شادی شدہ انسان کو تو خیر نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن خلق اللہ کو فائہ پہونچنے کا قوی امکان موجود ہے۔ جس طرح دنیا کے تمام تجربے حاصل کرنے والے بنی نوع انسان کے محسن ہیں۔ اسی طرح ہم شادی شدہ لوگ بھی آئندہ نسلوں کے محسن ہوسکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ نسلیں؛
دیکھیں ہمیں جو دیدہ ٔ عبرت نگاہ ہو
یقیناً وہ عظیم المرتبت شخص ہم سب کا محسن تھا جس نے سب سے پہلے زہر کھاکر مرنے کا تجربہ کیا اور دنیا کو زہر کے متعلق یہ شعور عطا کیا کہ اس کے کھانے سے آدمی مرجاتا ہے۔ چنانچہ ہم نے بھی شادی اس لیے کی ہے کہ غیر شادی شدہ ہم کو دیکھیں کہ شادی کرنے کے بعد انسان وہ ہوجاتا ہے جو ہم ہوگئے ہیں۔
شادی تو خیر ایک مستقل مبحث بلکہ ایک فن مکمل ہے۔ اس صحرا کا صرف ایک ذرّہ اور اس قلزم کا صرف قطرہ اس وقت موضوع بحث ہے۔ یعنی بیوی بھی نہیں بلکہ بیوی کے رشتہ دار، اب اگر آپ اس ذرّے کی وسعتوں اور اسی قطرہ کی گہرائیوں پر غور کریں تو چیخ اُٹھیں گے۔
اسی قطرہ میں دریا ہے اسی ذرّے میں صحرا ہے۔ بیوی کے رشتہ دار ایک شادی شدہ انسان کے لئے عام طور پر سانپ کے منھ والی چھچھوندر ثابت ہوتے ہیں جن کو نہ اُگلا جائے نہ نگلا جاسکتا کہ وہ بیوی کے رشتہ دار ہیں۔ اور نگلا اس لئے نہیں جاسکتا کہ اپنے رشتہ دار نہیں ہیں۔ اپنے رشتہ داروں کے متعلق ایک آدمی کو ہر وقت اُگلنے یا نگلنے کااختیار حاصل رہتاہے۔ اُن سے دل خوش ہے، طبیعت میل کھارہی ہے۔ دل قبول کررہا ہے تو تعلقات قائم ہیں، ورنہ بہانہ ڈھونڈھ کر لڑ لئے۔ وہ اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش، لیکن بیوی کے رشتہ داروں کے متعلق تو یہ گویا ایک طے شدہ بات ہے کہ اُن سے ہر حال میں تعلقات رکھنا ہیں۔ اُن سے خلوص کا اظہار کرنا ہے، ان کی مدارات میں دل، جگر اور آنکھوں کے فرش بچھاکر اُن پر جذبات کے گاؤ تکیے لگانا ہیں۔ اگر وہ بڑے ہیں تو سعادت مندی کے ان کو وہ جوہر دکھانا ہیں جو خود اُن کی ذاتی اولاد سے ممکن نہ ہوں۔ اگر برابر کے ہیں تومحبت کا وہ اظہار کرنا ہے کہ بھی منافقت کے قائل ہوجائیں۔ اگر چھوٹے ہیں تو اس قسم کی شفقت کرنا ہے جس میں گستاخی کا کوئی امکان نہ ہو۔
البتہ اگر ادب کا پہلو نمایاں ہوجائے تو چنداں مضائقہ نہیں ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس قسم کی زبردستی اور نفس کشی سے ایک انسان کس حد تک جرائم پیشہ ہوجاتا ہے۔ یعنی اس کی اخلاقی جرأت فوت ہوجاتی ہے، ضمیر کی زبان پرفالج گر جاتا ہے۔ سچائی کے عالم میں آجاتی ہے، ایمانداری اختلاج میں مبتلا ہو جاتی ہے اور بحیثیت مجموعی وہ انسان اگرکچھ باقی رہ جاتاہے توصرف منافق، دروغ باف، اور ایک حد تک ڈرپوک بھی۔ لیکن کچھ بھی ہو اگر اس کو بیوی پیاری ہے تو بیوی کے رشتہ داروں سے اچھے تعلقات رکھنا ہی پڑتے ہیں۔ خواہ دل ہی دل میں وہ خودکشی یا فرار کے امکانات پر کتنا ہی غور کیوں نہ کرے۔
بیوی کے رشتہ داروں کی بھی عجیب عجیب قسموں سے ایک بیوی والے کو دوچار ہونا پڑتاہے۔ ان میں سے موت کا درجہ تو کم وبیش سب ہی کو حاصل ہوتاہے۔ لیکن بعض ہوتے ہیں محض موت، بعض ناگہانی موت، بعض غریب الوطنی کی موت اور بعض ہر حال میں ملک الموت، محض موت تو خاص خاص لوگ ہوتے ہیں جن کا ایک انسان تقریباً عادی ہوجاتا ہے مثلاً بیوی کے والد، بھائی، ماں، خالہ، چچا، چچی، ماموں اور ممانی وغیرہ۔ ناگہانی موت وہ رشتہ دار ہوتے ہیں جن کا کوئی علم ہی نہیں ہوتا۔ بس دفتر سے آکر یہ معلوم ہوتا ہے کہ باورچی خانہ میں مرغ مسلّم پک رہا ہے۔ نعمت خانہ میں فیرینی کے پیالے چنے ہوئے ہیں۔ اور گھرکے تمام نوکر پلاؤ سے کشتی لڑرہے ہیں۔ دریافت کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ خسر صاحب کے کوئی پھوپھی زاد بھائی جنوبی افریقہ سے تشریف لائے ہیں چنانچہ صحن میں قالین بچھے ہوئے، تخت پر گاؤ تکیہ سے لگے ہوئے حقہ پیتے اور پان چباتے ایک سند با د جہازی نظر آتے ہیں۔ جن کے سامنے بیوی صاحبہ پان پر پان اور الائچیوں پر الائچیاں رکھتی نظر آتی ہیں۔ مجبوراً نہایت ادب سے آداب عرض کرنا پڑتا ہے۔ جس کے جواب میں یہ فرعون مصر فرماتے ہیں۔
’’سلامت رہو میاں، آؤ بیٹھو، بڑی طبیعت خوش ہوئی تمھیں دیکھ کر۔ برخوردار من یہ عجیب طریقہ ہے تمہارے یہاں کا کہ صبح سے غائب اب آئے ہو شام کو۔‘‘
عرض کیا کہ ’’دفتر کے اوقات کچھ ایسے ہی ہیں۔‘‘
نہایت رعونت سے فرمایا، ’’دراصل ملازمت غلامی کا دوسرا نام ہے۔ ہمارے خاندان میں سب تجارت پیشہ ہیں۔ اب یہ ان لڑکیوں کی قسمت تھی۔ کہ ان کو ملازمت پیشہ برملے۔ او ر دراصل تجارت کا کہنا ہی کیا۔ انسان بادشاہی کی حد تک ترقی کرسکتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں تمہاری دعا سے پہلے ایک چائے اسٹال تھا میرا، اب دوہوٹل ہیں اور خوب چل رہے ہیں۔ بھائی صاحب کو دیکھو، یعنی اپنے خسر کو لیس بیل فیتہ وغیرہ بیچتے تھے مگر اب خدا کے فضل سے محض دوکان کا کرایہ دیتے ہیں۔ آٹھ روپیہ ماہوار تو مطلب یہ کہ تجارت کچھ اور ہی چیز ہے۔ بہر حال کیا تنحواہ ملتی ہے؟‘‘
عرض کیا، ’’پچاسی روپے۔‘‘
نہایت حقارت سے ان بساطی کے بھائی ہوٹل والے صاحب نے فرمایا، ’’اس قدر آمدنی تو ایک تانگہ رکھ کر اور کرایہ پر چلاکر بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ اب بیوی کو جو رحم طلب نظروں سے دیکھا تو وہ گویا اپنے افریقین چچا جان کی تائید میں تھیں، نتیجہ یہ ہوا کہ زہرہ گھونٹ پی کر اور ان کے ساتھ مرغ پلاؤ اور فیرینی کھاکر رہ گئے۔
ایک تو آئے دن کی مصیبت یہ ہے کہ سوسائٹی میں ہر وقت کے طعنے ہیں کہ سنیے جناب آپ کے خسر تو بڑے گراں فروش ہوگئے ہیں۔ سیپ کے بٹن تمام دنیا میں چار آنے درجن مل رہے ہیں، اور وہ دیتے ہیں پانچ آنہ درجن، اب کون ان پڑھے لکھے دوستوں کو سمجھائے کہ بھائی ان کو گھما پھرا کر بساطی نہ کہو۔ ملک التجار کہو، بہرحال اس قسم کی باتوں کی توخیر عادت پڑجاتی ہے۔ مگر یہ بھانت بھانت کے ناگہانی رشتہ دار جو ٹپکتے رہتے ہیں ان کا آخر کیا علاج اور ان سے بھی زیادہ لاعلاج وہ قسم ہے جس کو غریب الوطنی کی موت عرض کیاہے۔ بیوی کے یہ رشتہ دار غربت میں بہت ستاتے ہیں۔ فرض کرلیجئے کہ آپ بسلسلۂ ملازمت یا بسلسلہ شامت کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔ بڑے لئے دیئے بیٹھے ہیں۔ دل مطمئن ہے کہ یہاں کسی کو یہ خبر نہیں کہ ہم بساطی کے داماد ہیں کہ یکایک ایک صاحب داڑھی چڑھائے لٹھ ہاتھ میں کچھ چوروں کی سی وضع قطع تشریف لے آئیں گے اور اتنی زور سے السلام علیکم کریں گے کہ آپ اُچھل پڑیں۔ اب وہ گل افشانی شروع کردیں گے کہ ’’ارے بھائی یہاں آئے اور خبر تک نہ کی۔ ہم لاکھ غریب ہیں مگر پھر بھی تم ہمارے دل وجگر ہو میں تمہارے خسر صاحب کی حقیقی خالہ کا داماد ہوں۔ اس قدر قریب کے عزیز اور یہ بیگانگی اور جو یہ کہو کہ میرا پتہ نہ تھا تو میاں یہ بات میں ماننے کانہیں، اسٹیشن پر جس تانگہ والے سے پوچھ لیتے کہ بھائی تمہارے چودھری کہاں رہتے ہیں وہ پتہ بتا دیتا۔‘‘ اب بتائیے کہ ان چودھری صاحب کے پردیسی داماد کا سارا وقار اس غریب الوطنی میں کس کی بغلیں جھانکتا پھرے اور جو سکہ یہاں جمانا چاہتے تھے اس کی کھوٹ معلوم ہو جانے کے بعد اپنی قیمت کیونکر قائم رکھی جائے۔
خیر یہ صورتیں تو ایسی حالت میں پیدا ہوتی ہیں کہ آدمی ضعف بصر کے ما تحت یا تو اپنے سے پست درجہ کے لوگوں سے سسرالی تعلقات پیدا کرنے یا دماغ کی خرابی کے ماتحت بلا وجہ خود اپنی اصلیت چھپا رہا ہو اور وہ اس طرح بے نقاب ہوتی ہے۔ لیکن ایسی صورتیں اگر نہ بھی ہوں تو سسرالی رشتہ دار کچھ عجیب خدائی فوجدار قسم کے لوگ تو ضرور ہی ثابت ہوتے ہیں۔
ہمدردی وہ اس لیے نہیں کرسکتے کہ اپنے نہیں ہوتے اور نکتہ چینی اس لیے اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی ایک عزیزہ کے نہایت خاص قسم کے رشتہ دارہوتے ہیں۔ یعنی وہ اچھی طرح ٹھونک بجا کر اس قابل تو سمجھ لیتے ہیں کہ اپنی عزیزہ کی شوہری کے اعزاز سے ہم کو سرفراز کردیں۔ مگر یہ اندیشہ ان کو قدم قدم پر رہتا ہے کہ ممکن ہے ان کی نظر انتخاب نے دھوکا کھایا ہو۔ بہرحال پہلے تو وہ رسمی طور پر اپنی عزیزہ کا شوہر بنا دیتے ہیں۔ اس کے بعد عملی طور پر گویا شوہر بننے کی ٹریننگ دیتے رہتے ہیں۔ شوہر غریب، نسبت سے لے کر شادی تک اور شادی سے لے کر موت تک یہی سمجھتا رہتا ہے کہ اس نے اپنے کو صرف ایک ہستی سے وابستہ کیا ہے۔ لیکن اُس کی یہ غلط فہمی طرح طرح سے دور کی جاتی ہے اور اس کو بتایا جاتا ہے کہ نکاح تو صرف ایک سے ہوا۔ مگر نباہ اُن سب سے کرنا ہے جو کسی نہ کسی حیثیت سے بیوی کے رشتہ دار ہیں یا ہوسکتے ہیں یا سمجھے جاسکتے ہیں۔ یا سمجھے جانے کا کوئی بھی امکان موجود ہے۔ ان رشتہ داروں سے نباہ بھی مرکھپ کر گوارا کرلیا جائے۔ مگر ہوتا عام طور پر یہ ہے کہ نباہ اخلاقی، تمدنی، معاشرتی، اقتصادی اور معاشی ہر حیثیت سے اول تو ناممکن ہوتاہے اور اگر ممکن بنابھی لیاجائے تو بہت گراں رہتاہے۔ مثلاً اخلاقی حیثیت سے یوںگراں ثابت ہوتاہے کہ ان کی ہر بد اخلاقی کو سراہنا آخر کیوں کر ممکن ہے۔
تمدنی اور معاشرتی حیثیت سے یہ نباہ اس لیے گراں بیٹھتا ہے کہ اپنا تمدن اور اپنی معاشرت چھوڑ کر ان کے رنگ میں رنگ جانا اول تو ایک قسم کی زن مریدی ہے۔ دوسرے یہ بھی کوئی ضروری بات نہیں کہ وہ تمدن اور وہ معاشرت قابل قبول بھی ہو۔
فرض کرلیجئے کہ وہ لوگ پہلوان ہیں۔ اب بتائیے کہ ہم اپنی معاشرت میں ڈنٹر اور مگدر کیوں کر شامل کر سکتے ہیں۔ اقتصادی حیثیت کا پوچھنا ہی کیا جتنی تقریبیں، شادیاں، کن چھیدن، دودھ بڑھائی، مونچھوں میں، کونڈے، منگنیاں اور حد یہ ہے کہ موتیں ان سسرالی رشتہ داروں میں ہوتی ہیں۔ اتنی اپنے رشتہ داروں میں کبھی نہیں ہوتیں، اس لیے کہ اپنے رشتہ دار تو گنے گنائے محدود ہوتے ہیں۔ مگر ان سسرالی رشتہ داروں کا تو کوئی شمار نہیں ہوتا۔ پھر یہ کہ ہر تقریب میں بیوی کا جانا اور شوہر کا اس سلسلہ میں مقروض ہونا برحق ہوتاہے۔ تاکہ سسرال میں بات بنی رہے۔ خواہ مہاجن بات کا بتنگڑ بنالے۔ معاشی حیثیت کاذکر میں نے اس لیے کیا ہے کہ بہت سے داماد قسم کے یتیم لوگ یا تو سسرالی پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کردیئے جاتے ہیں۔ یا کم سے کم سسرالی بزرگوں کے مشورے سے کسی ملازمت سے مستعفی ہونے یا کسی ملازمت کی امیدواری کرنے کا فیصلہ ضرور کرتے ہیں۔ ان تمام امور کے علاوہ ایک سب سے بڑی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ سسرالی رشتہ داروں کی تبلیغ سے اپنے رشتہ داروں سے آدمی دور ہوجاتا ہے۔ خیریت اسی کو سمجھئے کہ امن وسکون سے تعلق ختم او ر وہ استوار ہوتا رہے۔ ورنہ اس سلسلہ میں فوجداریاں تک دیکھی اور سُنی ہیں اور کیا عجب ہے کہ کبھی ان ہی فوجداریوں کی ذاتی طور پر نوبت آجائے اس لئے کہ لاکھ سمجھدار سہی مگر پھر بھی آخر شادی شدہ تو ہم ہیں ہی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.