aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

علم دریاؤ

مشتاق احمد یوسفی

علم دریاؤ

مشتاق احمد یوسفی

MORE BYمشتاق احمد یوسفی

     

    نقشہ ہمارے طاق نسیاں کا
    ہمیں نام، مردوں کے چہرے، راستے، کاروں کے میک، شعر کے دونوں مصرعے، یکم جنوری کا سالانہ عہد، بیگم کی سالگرہ اور سینڈل کا سائز، نمازِ عید کی تکبیریں، سال گزشتہ کی گرمی سردی، عیش میں نامِ خدا اور طیش میں خوفِ ناخدا، کل کے اخبار کی سرخیاں، دوستوں سے خفگی کی وجہ۔۔۔ اور نہ جانے کیا کیا یاد نہیں رہتا۔ ن۔ م۔ راشد کے جغرافیہ فراموش ہیرو کی طرح ہم اتنا بڑا دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ ’’اس کا چہرہ، اس کے خد و خال یاد آتے نہیں۔ اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے۔‘‘ اس لیے کہ اس صورتِ حال میں حافظہ کی خرابی سے زیادہ چال چلن کی خرابی نظر آتی ہے۔ اور نہ ہمارا حافظہ اتنا چوپٹ ہوا ہے کہ جوش صاحب کی طرح ساری داستان امیر غمزہ سنانے اور اپنے دامن کو آگے سے خود ہی پھاڑنے کے بعد، جب جرح کی نوبت آئے تو یہ کہہ کر اپنے دعویٰ عصیاں سے دست بردار ہو جائیں کہ۔۔ نسیان مجھے لوٹ رہا ہے یارو۔ 

    ۸ کا ہندسہ اور ہم
    دن مہینہ اور سنہ یاد نہیں رہے۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ۲۶ تاریخ تھی۔ وہ بھی اس لیے کہ کسی سنہ اور مہینہ کی ۲۶ تاریخ کو ہی ایک نجومی نے یہ وہم ہمارے دل میں ڈالا تھا کہ ۸ کا ہندسہ یا وہ عدد جن کا حاصل جمع ۸ ہو، مثلاً ۱۷، ۲۶، ۱۹۶۱ء، وہ کار، مکان یا فون نمبر جس کے ہندسوں کا میزان ۸ بنے ہمارے حق میں نحس ثابت ہوں گے۔ حد یہ کہ انگریزی کے 8 جیسے فگر والیوں، آٹھویں شادی، ۶۲ سالہ عورت اور سترہویں صدی عیسوی سے بھی خبردار کیا تھا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ زندگی کی بیشتر مایوسیاں اور ناخوش گوار واقعات انہی تاریخوں میں رونما ہوئے جن کا میزان یہ منحوس ہندسہ بنتا ہے جسے اب تو نوکِ قلم پر لاتے ہوئے بھی دل ڈرتا ہے۔ 

    اس کی دہشت دل میں ایسی بیٹھی ہے کہ گزشتہ سال ہم منگورہ سے پنڈی رات کے ایک بجے پہنچے اور دسمبر کی پوری رات ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل کے لاؤنج میں بیٹھ کر گزاردی اس لیے کہ منحوس ۵۱۲ نمبر کے کمرے میں ٹھیرنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ اور کوئی دوسرا کمرہ صبح سات بجے سے پہلے خالی ہونے کا امکان نہ تھا۔ ہم یہ منظر دیکھنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے کہ صبح ہم اس کمرے میں مردہ حالت میں پائے جائیں۔ 

    حتی الامکان ہم کوئی نیا کپڑا، نیا کام یا سفرمنحوس تاریخ (۸، ۱۷، ۲۶) کو شروع نہیں کرتے۔ نجس دن ہمیں جنت میں بھی جانے کا اختیار دیا جائے (زبردستی کی اور بات ہے) تو ہم کسی مناسب تاریخ تک دنیا ہی میں غریبا مئوگزر بسر کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ہونے کو تو ہمارے حق میں ۸ نمبر کا جوتا بھی اکثر منحوس ثابت ہوا ہے، لیکن ۷نمبر کاٹتا بہت ہے۔ لاکھ اس SUPERSTITION (توہم) کو ذہن سے نکالنےکی کوشش کرتے ہیں مگر کچھ نہ کچھ بات ایسی ہو جاتی ہے جس سے اس کی تصدیق ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک دن ہم نے اپنی پیدائش کی تاریخ، مہینے اور سنہ کے عدد جوڑے تو حاصل جمع ۸ نکلا! اس دن سے یہ وہم اور راسخ ہوگیا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جو بات عقل و منطق کے ذریعہ ذہن میں داخل نہیں ہوئی، وہ عقل و منطق سے کیسے نکالی جا سکتی ہے۔ توہم کے کارخانے کا دستور نرالا ہے۔ یاں وہی ہے جو اعتبار کیا۔ 

    ہماری معلومات عامہ کا امتحان
    ہم کہہ یہ رہے تھے کہ صرف اتنا یاد ہے کہ ۲۶ تاریخ تھی اور شام کے چھ بج رہے تھے۔ صبح ساڑھے چھ بجے ناشتے کے بعد، معدے کو مزید زحمت ہضم نہیں دی تھی۔ باہر سڑک پر ایک ٹھیلے والا دن بھر دودھیا بھٹوں سے راستہ چلتے لوگوں کو للچانےکے بعد اب خود ہی بھون بھون کر کھارہا تھا۔ سوتی جاگتی انگیٹھی پر بھٹوں اور کوئلوں کے چٹخنے کی چٹرپٹر سے رال بنانے کے غدود اس بری طرح مشتعل ہوئے کہ جب تک ہم نے اپنی اکنی کو بھٹے میں تبدیل نہ کرلیا، یار کو میں نے، مجھے یار نے سونے نہ دیا۔ انگیٹھی سے بھٹا، براہ شاہجہانی روزن، (اس کی تفصیل ’’کوئی قلزم، کوئی دریا، کوئی قطرہ، مددے!‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں) ہم تک پہنچا اور ہم نے بیتابی سے منہ مارا۔ (’’بھٹے، مرغی کی ٹانگ، پیاز اور گنے پر جب تک دانت نہ لگے، رس پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ مرزا عبد الودود بیگ)

    ابھی دس بارہ دانوں پر ہی ہماری مہر لگی ہوگی کہ اینڈرسن فائل ہاتھ میں لیے آ دھمکا۔ اسے دیکھتے ہی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ پھر ہم خود کھڑے ہوگئے۔ دونوں ہاتھ چھوڑ کر ’’انٹشن۔‘‘ البتہ بھٹے کو، جس میں ہماری گاڑھی کمائی کا دودھیا رس بھرا ہوا تھا، دانتوں سے پکڑے رکھا۔ اس صورت میں بھٹا اس کی پتلون پر گرائے بغیر ’’گڈ آفٹرنون‘‘ (رات کے آٹھ بج جائے تب بھی، بینک کے آداب کے مطابق، اسے ’’گڈ آفٹرنون‘‘ ہی کہنا پڑتا تھا۔ ’’گڈ ایوننگ‘‘ سے اس کےآگ لگ جاتی تھی۔ سمجھتا تھا کہ یہ کام چور مجھے یہ جتلانا چاہتے ہیں کہ یہ دیکھ ہم رات تک بغیر اوورٹائم الاؤنس کے تیری جان کو رورہے ہیں۔ تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں! چنانچہ یوم الحساب (سالانہ کلوزنگ) یعنی تیس ستمبر کو جب وہ خود بھی بینک میں موجود ہوتا، رات کے ایک دوبجے تک ’’گڈ آفٹرنون‘‘ ہی چلتا رہتا۔) کہنا ایک ایسے شخص کے لیے جس کے چہرے پر قدرت نے صرف ایک ہی دہن بنایا ہے، ناممکن تھا۔ 

    لہٰذا ہم نےاضطراری طور پر اپنا دایاں ہاتھ، جو نمک اور لیموں کے عرق سے تقریباً دھل چکا تھا، مصافحہ کے لیے آگے بڑھادیا۔ جتنا لمبا ہاتھ ہم نے بصد خلوص آگے بڑھایا تھا، ٹھیک اسی قدر موصوف پیچھے ہٹ گئے۔ تس پر ہم نے اپنا لیموں اور خلوص میں لتھڑا ہوا ہاتھ تہ کرکے پتلون کی جیب میں رکھ لیا اور محض سر اور سٹے کی متوازی ڈبکی سے سلام کیا۔ کڑوی مسکراہٹ کے بعد فرمایا، ’’ہیلو! نیرو! سٹے سے بانسری کیوں بجا رہے ہو؟‘‘ 

    ہم نے اس فقرے کی داد، بغیر منھ کھولے، بند ہنسی یعنی اندرونِ حلق کی ہنسی کو بالا بالا ہی ناک سے خارج کرکے دینی چاہی تو موصوف نے انگلی کے اشارے سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنی کٹلری ڈس انفکٹ کرکے مجھ سے میرے چیمبر میں ملو۔ چنانچہ ہاتھ دھوکر ہم ناخدائے بینک کے حضور پیش ہوئے۔ فرمایا، ’’یہ شے جس کے سرے تمہارے دونوں کانوں سے باہر نکلے ہوئے تھے، بتاؤ یہ کہاں پیدا ہوتی ہے؟‘‘ 

    ’’پاکستان میں۔‘‘ 

    ’’شاباش! تم اسے بہشت کا میوہ بھی بتادیتے تو میں تمہاری ضعیف الاعتقادی میں مخل نہ ہوتا۔ لیکن تمہاری اطلاع کے لیے، صوبہ سرحد میں بہترین مکئی پیدا ہوتی ہے۔ نیشکر بھی۔ بتاؤ نیشکر سے کیا چیز بنتی ہے؟‘‘ 

    ’’شکر۔‘‘ 

    دوبارہ شاباشی دیتے ہوئے فرمایا، ’’تم ان لوگوں سے زیادہ قابل ہو جو تم سے کم قابل ہیں۔ ہاں! خوب یاد آیا۔ شکر سےجس دن تم لوگ میٹھی پُلٹس بناکر مُردوں کو ENTERTAIN کرتے ہو اسے کیا کہتے ہیں؟‘‘ 

    ’’حلوہ۔ شب برات کا۔‘‘ 

    ’’شکریہ! اچھا اب یہ بتاؤ کہ فرنٹیر میں اور کون سی چیز ایسی بکثرت پیدا ہوتی ہے جو دوسری جگہ نہیں ہوتی؟‘‘ 

    ’’پٹھان۔‘‘ 

    ’’شوخی اور گستاخی کی حد فاصل بال برابر ہوتی ہے۔ مسٹر غوری نے ابھی آفٹرنون میں شکایت کی ہے کہ تم نے پھر اپنے گوشوارے کی فاش غلطی کو برنارڈشا کے فحش فقرے سے ڈھکنے کی کوشش کی۔ یہ شکایت دوبارہ نہ سنوں۔ برنارڈشا کے ڈراموں کے بجائے اکاؤنٹنسی اور کمرشل جغرافیہ پڑھا کرو۔ خالی دماغ شیطان کی ورکشاپ ہوتا ہے۔ لیکن تمہارا دماغ تو اس کی حرم سرا بھی ہے۔ ہاہاہا! چمنی کی طرح ہر وقت دھواں دیتے ہو اور یہ بھی پتہ نہیں کہ فرنٹیر میں نہایت عمدہ قسم کا ورجنیا تمباکو پیدا ہوتا ہے۔ انگلینڈ کو تمباکو اور سرطان سے ہمکنار کرنے کا سہرا سروالٹررالے کے سر ہے۔ 

    اس کی کاشت، پیداوار، تجارت اور قرضوں سے متعلق تمہاری معلومات صفر ہیں۔ کیوں نہ آئندہ پیر سے اپنی لاعلمی کی سرحدوں کو معقول حدتک سکیڑ لو۔ سیف الملوک خان اسی نواح کا رہنے والا قبائلی ہے۔ علی قلی خان نے اسے بینک میں رکھوایا تھا۔ تمہاری طرح فکر فردا اور حساب کتاب سے ماورا ہے۔ انتھک محنت اور حماقت کا اس سے حسین امتزاج ایشیا میں میری نظر سے نہیں گزرا۔ مگر نیک آدمی ہے۔ غوری تم سے ناخوش ہے۔ آئندہ چار ہفتے خان کی ڈیسک پر ٹریننگ لو اور اپنی ناقص معلومات کاخلاصہ اگلے مہینے پیش کرو۔‘‘ 

    تمباکو پر ہماری ریسرچ کے ڈائرکٹر
    اور یوں ہم خان سیف الملوک خان کی تحویل میں دے دیے گئے۔ چھریرا بدن، چوڑا ہاڑ، کندھے قدرے خمیدہ جس کا سبب عجز و انکسار نہ تھا۔ چمپئی رنگ دھوپ سے سنولا چلا تھا۔ ناک گندھارا کے مجسموں جیسی۔ سارے دن آنکھوں سے مسکراتے رہتے۔ ستا ہوا، مگر شگفتہ چہرہ۔ مضبوط ٹھوڑی پر کھلنڈرے بچپن کا بین الاقوامی ٹریڈمارک یعنی چوٹ کا نشان۔ کان جیسے کسی نے جگ کا ہینڈل لگا دیا ہو۔ سر پر قراقلی ٹوپی بڑے ٹیڑھے زاویے سے پہنتے۔ اندرمانگ اس سے بھی زیادہ ٹیڑھی ہوتی تھی۔ منجھلے بریکٹ {کو بہلا پھسلاکر چت لٹا دیا جائے تو ا ن کی مونچھ بن جائے۔ انگلیاں سگرٹ کے دھوئیں سے عنابی۔ اتنے لمبے تھے نہیں جتنے لگتے تھے۔ ہنسی آتی تو ایک دم کھڑے ہو جاتے۔ پھر وکٹ کیپر کی طرح رکوع میں چلے جاتے اور اپنے گھٹنے پکڑ کر گردن اٹھاتے اور وہیں سے مخاطب کی صورت دیکھ دیکھ کر قہقہے لگاتے رہتے۔ یہ ان کی خاص ادا تھی۔ 

    صحیح عمر معلوم نہیں لیکن اپنی کوآپریٹیو بنکنگ کی غلط کاریوں کی مدت کو ہماری جوانی کے برابر بتاتے تھے۔ اگر اس زمانے میں خاندانی منصوبہ بندی کے مطابق دستورالحمل بنایا جاتا تو، محمد حسین آزاد کے الفاظ میں، یہ صاحب کمال عالم ارواح سے کشور اجسام کی طرف روانہ ہی نہ ہوتا۔ مطلب یہ کہ اپنے والدین کی چوتھی اولاد تھے۔ پشتو، ہند کو، پنجابی، فارسی اور اردو روانی سے بولتے اور ایک زبان سے دوسری زبان میں اس چابک دستی سے گیئر بدلتے کہ سننے والے کو خبر بھی نہ ہوتی۔ انگریزی صرف ان خاص مقامات پر بولتے تھے جہاں آدمی کچھ نہ بولے، تب بھی بخوبی کام چل جاتا ہے۔ عربی کی دستگاہ کا اندازہ نہیں۔ لیکن ح اور ع صحیح مخرج سے نکالتے تھے۔ یعنی اس مخرج سے جس سےہم جیسے بے علمے صر ف قے کرتے ہیں۔ خوب صورت عورت کے لیے وہ اپنا وضع کردہ مخفف ’’خوبصعورت‘‘ استعمال کرتے جو ان کے منہ سے بھلا معلوم ہوتا تھا کہ اس مرکب میں اختصار اور پیار بحصہ مساوی کوٹ کوٹ کے بھرا تھا۔ 

    اپنی تمام سعی و کاوش کے باوجود کبھی ناکامیابی خان صاحب کے قدم چومنے لگے، یا بیٹھے بٹھائے نقصان و آزار پہنچ جائے تو کمر پر دونوں ہاتھ رکھے، آسمان کی طرف منہ کرکے، دنیا بنانے والے کے معیار کارکردگی پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار فرماتے۔ ذرا سی بات طبیعت کے خلاف ہو جائے تو ہفتوں سارے نظام کائنات سے کھنچے کھنچے رہتے۔ اعزا کے ہاتھوں کافی تکلیف اٹھائی تھی۔ ینش اقرب سے بلبلا اٹھتے۔ ایک دن ہم نے پوچھا آپ کے کتنے بھائی ہیں۔ بولے میرا صرف ایک برادرانِ یوسف ہے۔ 

    اردو غزل، پتی اور تواریخ
    شعر و شاعری سے طبیعت نفور تھی۔ ایک دفعہ یارلوگوں نے انہیں ڈان اخبار کے سالانہ ’’عظیم الڈان‘‘مشاعرے میں لے جانا چاہا۔ کسی طرح رضامند نہ ہوئے۔ ہمارے منہ سے نکل گیا، چھوڑو بھی۔ ٹکٹ زیادہ بک گئے ہیں اور جگہ تنگ۔ دنگا فساد کا اندیشہ ہے۔ اب مصر ہیں کہ ضرور چلوں گا۔ جگر کے ایک ایک شعر کی داد جماہی سے دی اور حفیظ کی ’’رقاصہ‘‘کو تو خراٹوں پر اٹھا لیا۔ ہم نے ٹہوکا دے کر کہا، خراٹے لینا آدابِ مشاعرہ کے خلاف ہے۔ فرمایا، ’’اردو کی دوتین غزلیں لگاتار سن لوں۔۔۔ توجہ سے۔۔۔ تو قسم خدا کی، میرے تو پِتّی اچھل آتی ہے۔‘‘ بایں ہمہ غالب کی ہر غزل کا کم از کم ایک شعر پہچان کر اعلان کرتے کہ غالب ہی کا لگتا ہے۔ ہمارا اشارہ مقطع کی طرف ہے۔ بھاگنے کا موقع نہ ہو تو مارے باندھے شعر سن لیتے تھے۔ سمجھ میں آجائے تو مسکرا دیتے۔ سمجھ میں نہ آئے تو مصافحہ کرتے تھے۔ 

    علمی اور ادبی گفتگو سے خان صاحب کا قبائلی خون کھولنے لگتا۔ اکثر فرماتے، ’’تمہاری علمناک باتیں سن سن کر میرے سر میں تو دانائی کے گومڑے (BUMPS) نکل آئے۔ ٹوپی تنگ ہوگئی ہے۔ کوئی بھی اوٹ پٹانگ شعر پڑھ دے تو اس طرح جھومنے لگتے ہو جیسے۔۔۔ کیا نام اس کا۔۔۔ سانپ کا پھن سپیرے کی پونگی کے سامنے!‘‘ البتہ تاریخ سے شغف تھا، لیکن بس اس حد تک جہاں تک وہ میٹرک کے نصاب میں سموئی جا سکتی ہے، یا غافلوں کی تنبیہ کے لیے استعمال کی جا سکے۔ ہمیں نصیحت کرنی یا عبرت دلانی مقصود ہو تو کسی ناکارہ و بد قوارہ مغل بادشاہ کی نظیر پیش کرتے۔ اپنے انجام سے ہم لرزجاتے، اس لیے کہ ہمارے پاس تو کوئی آبائی سلطنت بھی نہ تھی جسے کھو سکیں۔ مغل بادشاہوں نےاگر خاں صاحب سے مشورہ کرلیا ہوتا تو آج بھی سب پر حکومت کرتے ہوتے۔ اور ہم کمر میں زریں پٹکے اور سرپر راجپوتی پگڑیاں باندھے با ادب با ملاحظہ کھڑے ہوتے۔ 

    ہاتھ لا استاد، کیوں کیسی کہی! عجب مزاج اور زور بازو پایا تھا۔ دروازے پر اگر PUSH لکھا ہو تو الٹا اپنی جانب کھینچتے اور PULL لکھا ہوتا تو باہر کی طرف دھکا دیتے۔ رونا اس بات کا تھا کہ اکثر دروازے ان کی مرضی کے عین مطابق کھل اور بند ہو بھی جاتے تھے۔ کبھی کوئی کثیفہ (DIRTY JOKE) سنانے بیٹھتے تو سننے والے کی سمجھ میں نہ آتا کہ کب اور کہاں ہنسے۔ حظِ ما تفنن کے طو رپر لطیفہ شروع کرنے سے پہلے خود ہنسنے لگتے اور سننے والے کے پنجہ میں پنجہ ڈال کر بیٹھ جاتے۔ ہم بھی گھنٹوں ان کے لطیفوں سے پنجہ لڑا چکے تھے۔ بائیں ہاتھ کو آزاد رکھتے تا کہ مخاطب کے زانو پر مار مار کے لطیفے سے لال کر سکیں۔ لوگ ان کے لطیفے پر اخلاقاً بھی نہیں ہنستے تھے۔ اس ڈر سے کہ جھوٹوں بھی داد دے دی تو دوسرے لطیفے کی کاٹھ میں جکڑ دیے جائیں گے۔ 

    غصہ ناک پر رکھا تھا جو وقتاً فوقتاً پھسل کر منہ سے مغلظات کی شکل میں ڈھل کر خارج ہوتا رہتا۔ گالیاں طبع زاد، برجستہ اور آورد سے پاک ہوتی تھیں۔ نکتہ آفرینی اور سلاست و روانی میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ بازی گر کی طرح اپنے دہانے سےبھی بڑے قطر کے گالیوں کے گولے منہ سے نکالتے رہتے۔ پیش پا افتادہ، پامال مضامین اور بزرگوں کی گڑھی گڑھائی ترکیبوں سےاحتراز کرتے۔ اپنی راہ الگ نکالی تھی۔ کبھی کوئی بہت ہی نازیبا مضمون غیب سے نازل ہوجائے تو زبان کو آلودہ نہیں کرتے تھے۔ خطِ کوفی میں کاغذ پر لکھ کر ہمیں دکھا دیتے۔ گالیوں کی خطاطی کا اس سے بہتر نمونہ آج تک ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ ویسے مرنجان مرنج اور محبتی آدمی تھے۔ بوائے اسکاؤٹ کی طرح روزانہ کم از کم ایک نیکی علی الاعلان کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ کل رات میں نےایک شخص کو بڑی بے عزتی اور ماں بہن کی گالیوں سے بچا لیا۔ 

    پوچھا، ’’کہاں؟ کیسے؟‘‘ فرمایا، ’’میں نے اپنے غصے کو کنٹرول کیا۔‘‘ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض کاہل گلیر، گالی کو تکیہ کلام بلکہ گاؤ تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن خاں صاحب ہر گالی سمجھ کے دیتے تھے۔ جیسے فریدہ خانم سمجھ کے غزل گاتی ہیں۔ ایک دن خان صاحب نےبحثا بحثی کے دوران ایک موقع پرست لیڈر اور چند نو دولتیے صنعت کاروں کو ’’دلے‘‘(دلے، (پنجابی) اردو میں اسے دیوث کہتے ہیں۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔) اور بھڑوے کہہ دیا۔ اس پر حسن ڈبائیوی نے ٹوکا کہ، ’’خان صاحب! کم از کم یوپی میں شرفا کا یہ وطیرہ نہیں کہ کسی کو بھڑوا کہیں۔‘‘ فرمایا، ’’آپ بھی اس زمانے کی بات کرتے ہیں جب سارے شہر میں کل دو بھڑوے ہوا کرتے تھے!‘‘ 

    ۲ 
    ابدالی
    شکار کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ اتوار کو علی الصبح سائیکل پر نکل جاتے۔ کہتے تو یہ تھے کہ کیر تھر اور منگھو پیر کی پہاڑیوں میں سَرح بکرا (IBEX) مارنے جاتا ہوں، لیکن کراچی سے بیس میل کے دائرے میں فاختہ تک نہیں چھوڑی تھی۔ آخر میں تو چیل کوؤں پر غصہ اتارنے لگے تھے۔ بھرمار ٹوپی دار بندوق استعمال کرتے تھے جس میں بارود گز سے ٹھونک ٹھونک کر بھرا جاتا ہے۔ بندوق کی لمبائی ہمارے قد سے دگنی تھی، بشرطیکہ ہم پنجوں کے بل کھڑے ہو جائیں۔ اس کی مکھی اتنی دور واقع تھی کہ ہمیں تو عینک کی مدد سے بھی نظر نہیں آتی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اسی آلہ سے ان کے پر دادا نے احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ہندوستان پر حملہ کیا تھا۔ اسی نسبت سے ہم اسے پیار میں ابدالی کہتے تھے۔ فرماتے تھے کہ عادت سی پڑگئی ہے۔ اسے اپنے پہلو میں لٹاکر، لبلبی پر انگلی رکھے، دائیں کروٹ سوتا ہوں۔ ایک لمحے کو بھی انگلی الگ ہوجائے تو پٹ سے آنکھ کھل جاتی ہے۔ ان کی کیفیت ان ضدی بچوں کی سی تھی جو دودھ چھڑانے کے بعد چسنی منہ میں لیے لیے سو جاتے ہیں۔ 

    ہم نے پوچھا لبلبی پر انگلی رکھ کر سونے سے آپ کو ڈر نہیں لگتا؟ فرمایا، ولایتی بندوق تھوڑا ہی ہے۔ آپ ہی تو اس دن مزے لے لے کے بتا رہے تھے کہ مولانا شبلی نعمانی کی بندوق بھی ان کی طبیعت کی طرح نکلی۔ بلا ارادہ چل گئی۔ پر یہ بندوق آج کل کی کٹ کھنی، بے کہی بندوقوں کی طرح نہیں جو چھیڑ چھاڑ سے ہی مشتعل ہو جاتی ہیں۔ بے قصدو ارادہ۔ یہ بھی بندوق کی نہ سہی، خانصاحب کی کسر نفسی تھی، ورنہ ہم نے تو یہی دیکھا کہ ارادہ اور کوشش سے بھی نہیں چلتی تھی۔ ہمارے فقروں کی طرح رنجک چاٹ جاتی تھی۔ 

    دال روٹی، یعنی غلہ سے غلہ، کھانا
    ناسازیٔ طبع یا کسی اور مجبوری کے سبب اتوار کو شکار کھیلنے نہ جا سکیں تو سنیچرکو ظہر و مغرب کے درمیان قضا کھیلتے۔ اتوار کو شکار کے گوشت کا ناغہ ہو جائے تو صبح سے بولائے پھرتے۔ اس دن مرغے کے گلے پر اللہ کی بڑائی بیان کرتے۔ ایسا مرغا ہرگز نہیں کھاتے تھے جس نے پہلی اذان نہ دی ہو۔ مرغی کو چھوتے تک نہیں تھے۔ فرماتے تھے کہ غزنی خیل گاؤں میں بالغ مرغا زنانے میں گھس آئے تو عورتیں جھٹ برقع اوڑھ لیتی ہیں۔ ایمپرس مارکیٹ سے خود دیکھ بھال کر ناطق و بالغ مرغا خرید کر لاتے اور قبلہ رو کر کے بندوق سے ڈھیر کرتے۔ پھر ذبح کرتے۔ اکثر فرماتے کہ دوسرے کا ذبح کیا ہوا گوشت کھانے سے آدمی بزدلا، یک زوجیہ اور چرب زبان ہو جاتا ہے۔ اس سے تو بہتر ہے آدمی دال روٹی کھا لے۔ مگر ہم قبائلی بھوکے بھلے ہی مرجائیں۔ غلہ سے غلہ نہیں کھاتے۔1  

    جبھی تو یہ حال ہے کہ نسوار کی چٹکی لے کر ذرا چھینک دوں تو سارے دفتر کی ناف ٹل جائے۔ ہم حفاظت کے لیے گھر سے بازو پر امام ضامن بندھوا کر نہیں نکلتے۔ گلے میں پستول ڈال کر نکلتے ہیں۔‘‘ 

    ’’فائدہ؟‘‘ 

    ’’مغل بادشاہ جس دشمن کو اپنے ہاتھ سے مارنا نہیں چاہتے تھے، اسے حج پر روانہ کر دیتے۔ یا جھنڈا، گھوڑا، نقارہ اور خلعت مرحمت فرماکر دکن و بنگالہ فتح کرنے بھیج دیتے۔ لیکن ہم دشمن کو شارٹ کٹ سے جہنم رسید کرتے ہیں۔‘‘ 

    ’’دشمنوں کے، حسب عداوت، تین درجے ہیں۔ دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔‘‘ 

    ’’ایمان سے، یہ جملہ آپ کا نہیں معلوم ہوتا۔ لیکن رشتے دار پھر بھی رشتے دار ہوتا ہے۔ پشتو میں کہاوت ہے کہ رشتے دار اگر قتل بھی کرے گا تو لاش دھوپ میں نہیں پڑی رہنے دے گا۔‘‘ 

    مرغے سے رغبت کے باب میں ہم نے ایک دفعہ استفسار کیا تو فرمایا کہ چالیس کے پیٹے میں آنے کے بعد دال، کھٹائی، ہم عمروں کی صحبت اور آئینے سے پرہیز لازم ہے۔ جھنگ کے علاقہ میں یہ دستور ہے کہ کوئی بڑا بوڑھا مر جائے تو اس کے پسماندگان برادری کو چالیس دن تک مرغے کھلاتے ہیں (اگر کوئی جوان موت ہو جائے تو چہلم تک دال ہی دال کھلائی جاتی ہے۔) چنانچہ کسی بڈھے کو زکام بھی ہو جائے تو گاؤں کے سارے مرغے سہمے سہمے پھرتے ہیں۔ اذان دینی چھوڑ دیتے ہیں۔) 

    تمباکو خوردنی دخانی و چشیدنی، یہ تھے خان سیف الملوک خاں جن کے سامنے ہمارا زانوئے ادب ایک مہینے تک صبح و شام تہ ہوتے ہوتے اور کھلتے کھلتے سن ہو چلا تھا۔ تمباکو پر ’’اتھارٹی‘‘ سمجھے جاتے تھے کہ تمباکو خیز و تمباکو بیز خطے سے تعلق کے علاوہ، سگرٹ اور حقہ پیتے تھے۔ تمباکو کھاتے تھے۔ نسوار لیتے تھے۔ غرض کہ شئے مذکور کو ہر ممکن طریقہ سے اپنے وجود میں داخل کرنے کا جتن کرتے رہتے تھے۔ سلام روستائی کے بعد ہم نے عرض مدعا کیا کہ ہم تمباکو سے متعلق بنیادی واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جواب میں نسوار کی ڈبیا آگے بڑھاتے ہوئے بولے، حاضر ہے! 

    ’’ہماری مراد تمباکو خوردنی و نوشیدنی یا تمباکو دخانی سے نہیں۔‘‘ 

    ’’اس میں میری طرف سے قوام چشیدنی کا اضافہ فرما لیجیے۔ تھوکنے والا اور پھونکنے والا تمباکو کہتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے؟‘‘ انہوں نے ہماری فارسی کی تھوتھنی زمین پر گڑتے ہوئے کہا۔ 

    ’’ہم اس کی کاشت، تجارت، آڑھت وغیرہ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔‘‘ 

    ’’تمباکو کے بارے میں پہلی بات تو یہ یاد رکھیے کہ کراچی کی آب و ہوا اسے موافق نہیں آسکتی۔ اسے ہی کیا، کسی کو راس نہیں آتی۔ البتہ جیسا تندرست، قیمتی اور خالص گدھا یہاں دیکھا، روئے زمین پر اس کا جوڑی دار نہیں ملنے کا۔ عجب شہر ہے۔ ہر بات الٹی۔ وہ قصہ نہیں سنا؟ دھوبی والا۔ بریلی سے تازہ ہجرت کر کے آیا۔ ایک ہزار روپے لے کر گدھا خریدنے نکلا تو گدھے بیچنے والے نےجھڑک دیا، ’’جا، جا! بڑا آیا گدھا خریدنے والا۔ انٹی میں کل ہزار روپلی ہی ہیں تو گھوڑا کیوں نہیں لے لیتا؟ نہ صاحب! تمباکو کراچی کے ریتہ بجری میں جڑ نہیں پکڑسکتا۔‘‘ 

    ’’خان صاحب! منی پلانٹ بغیر مٹی، کھاد اور دھوپ کے محض پانی کی بوتل میں اگتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں کامیاب و کامراں لوگوں کی جڑیں وہسکی کی بوتل میں بڑھتی اور پھیلتی ہیں۔‘‘ 

    اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ پھر رکوع میں چلے گئے اور تین مرتبہ سبحان اللہ! سبحان اللہ! سبحان اللہ! تجوید سے ادا کرنے کے بعد فرمایا، ’’آپ اچھا ڈائلاگ بول رہے ہیں۔ ایسا ڈائلاگ میں نے ۱۹۲۵ میں پشاور میں سنا تھا۔ ایک تھیٹریکل کمپنی آئی تھی۔ ہیروئن کا پارٹ ایک مرد نے غضب کا کیا تھا۔ آپ ہی کے وطن کا تھا۔ گرائیں۔ ایمان سے! آپ کی طرف کے مرد بڑے باکمال بے نظیر ہوتے ہیں۔ حالانکہ آپ تو جے پور کی مشہور چیزیں صرف سانڈ، کھانڈ، بھانڈ اور رانڈ (رانڈ، راجستھان میں ہر خوب صورت اور زودیاب عورت کو رانڈ کہتے ہیں۔ اس کے شوہر کے مرنے کا انتظار نہیں کرتے۔) ہی بتاتے ہیں۔ ہاں تو تمباکو کے ضمن میں دوسری بات یاد رکھنے کے لائق یہ ہے کہ بیوپار کے علاوہ یہ اور کسی مطلب کے لیے مفید نہیں اسی لیے جہانگیر نے تمام قلمرو میں تمباکو نوشی قانوناً ممنوع کردی تھی جب کہ شراب نوشی کی پوری آزادی تھی، یعنی صرف شرعی ممانعت تھی۔‘‘ 

    ’’کچھ آب و ہوا کے بارے میں بھی ارشاد فرمائیے۔ فی ایکڑ پیداوار کیا ہوتی ہے؟‘‘ 

    ’’پہلے سوال کا جواب آٹھویں جماعت کے جغرافیہ میں ہے۔ میرے بیٹے کی کتاب میں لکھا ہے۔ تخمیر (تخمیر، خان صاحب کو جس پر غصہ یا پیار آتا اسے تخمیر کہتے تھے۔ یہ دراصل مخفف تھا تخم خنزیر کا جو شدت اختصار اور اگلا دانت نہ ہونے کے سبب تخمیر بن گیا تھا۔ ’’ظالم‘‘ اور ’’کافر‘‘ بھی پیار دلار میں کہتے تھے۔ مثلاً کوئی مولوی بہت نیک، پابند صوم و صلوۃ اور کٹر ہو تو کہتے کہ بہت کافر ملا ہے!) تین سال سے اسی کلاس میں مانیٹر ہے۔ دوسرے سوال کا جواب چار سدہ کا پٹواری دے گا۔ بڑا بیبا آدمی ہے۔ ہم دونوں ایک ہی سکھ ماسٹر کے ہاتھ سے برسوں پٹے ہیں۔‘‘ 

    ’’تمباکو کا پودا کتنا بڑا ہوتا ہے؟‘‘ 

    ’’جتنا آپ سمجھ رہے ہیں، اس سے کافی بڑا! فرنٹیر کا سیر ۱۰۵ تولے کا ہوتا ہے۔‘‘ 

    ۳ 
    ریڈ کلف کے کان کاٹے گئے، ہم کاغد پنسل لے کر تمباکو پر نوٹس لینے لگے تو وہ روٹھ کر بیٹھ گئے۔ کہنے لگے اگر علم حاصل کرنے کا ایسا ہی لپکا ہے تو پہلے شاگردی اختیار کرنی پڑے گی۔ چھٹی کے دن حجرے پر آئیں۔ شاگرد بنا کر جنگلی بکرے کے کبابوں پر نیاز دلاؤں گا۔ 

    اگلے اتوار کو ہم صبح سات بجے بہار کالونی پہنچے جہاں ان کا حجرہ گھٹنے گھٹنے کیچڑ میں چاکیواڑہ اور بہار کالونی کے سنگم پر ہچکولے کھا رہا تھا۔ سننے میں آیا تھا کہ یہ ساری کالونی سطح سمندر سے کئی فٹ نیچے واقع ہے۔ کنواں کھودنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ غیرت مند صرف منڈیر کھینچ کے چلو بھر پانی نکال کر محاورے کے بقیہ حصے پر عمل کر سکتے ہیں۔ حجرے کے سامنے اسی کھدبداتی دلدل میں دس بارہ لڑکے اور مینڈک مثال صورت خورشید ’’ادھر ڈوبے ادھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔‘‘ لڑکوں کے بے تحاشا بڑھے ہوئے پیٹ نیلے کانچ کی طرح چمک رہے تھے۔ ایک لڑکا پاجامہ پہنے ہوئے تھا، لیکن قمیص ندارد۔ باقی ماندہ لڑکوں کی نیم برہنگی کی ترتیب اس کے برعکس تھی۔ اسے حجرہ اس لحاظ سے بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ ایک کچی پکی مسجد کے زیرسایہ تھا، جس کی دیوار پر گیرو سے لکھا تھا، ’’یہ خانۂ خدا ہے۔ خوفِ خدا سے ڈرو۔ یہاں پیشاب کرنا گناہ (صغیرہ) ہے۔ کسی ظالم نے پہلے فقرے اور چیدہ چیدہ الفاظ پر اس طرح کوئلہ پھیرا تھا کہ دور سے اب صرف ’’خوف خدا سے پیشاب کرنا گناہ (صغیرہ) ہے۔‘‘ پڑھا جاتا تھا۔ 

    ہم نے حجرے کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ وہ طلوع ہوئے۔ ملیشیا کی شلوار پر سفید بنیان جس پر جابجا تازہ خون کے جزیرے بنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں شکاری چاقو جس سے جیتا جیتا خون ٹپک رہا تھا۔ وہ اپنے کتے کا ایک کان کاٹ کر زخم کو حقے کے پانی سے ڈس انفکٹ کر چکے تھے اور دوسرے کی قطع و برید کی تیاری تھی۔ کتے کی ناک ایسی چمک رہی تھی جسے ابھی ابھی وارنش کا پچارا پھیرا ہو۔ پوچھا، خان صاحب! یہ کیا؟ بولے، حلوائی کے اس حرامی پلے کو شکاری کتا بنا رہا ہوں۔ مردان میں جوان گبرو گھوڑے کو آختہ کردو، چوں نہیں کرتا۔ یہ نامرد کان کٹوانے میں اتنا چیغہ2 (واویلا) کرتا ہے۔ آپ کا کراچی بھی عجب شہر ہے۔ نہ خوئے مرداں نہ روئے زناں۔ ان کا خیال تھا کہ کان کٹوانے کے بعد کتا زیادہ وفادار ہو جاتا ہے۔ پھر کبھی دغا نہیں کرتا۔ اس کا نام انہوں نے ریڈ کلف رکھا تھا۔ کچھ دیر مسالہ پیسنے کی سل پر چاقو تیز کرنے کے بعد ہماری ہتھیلی پر ایک پیسہ رکھ کر کہنے لگے ’’اس تخمیر کا خون پتلا ہے۔ ذرا لپک کر پھٹکری تو لے آؤ۔‘‘ ہائے! وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ایک پیسہ ایک پیسہ اور ایک روپیہ ایک روپیہ ہی کے برابر ہوتا تھا! 

    ایک پیسے میں پھٹکری کا اتنا بڑا ڈلا آیا کہ ’بقول ان کے‘ ہمارے کانوں کے لے بھی کافی دشانی تھا۔ سستا سماں تھا۔ مرزا کہتے ہیں کہ آج فقط ایک ٹب پر جتنی لاگت آتی ہے، اس میں ان دنوں پیر الہی بخش کالونی میں پورا مکان بن جاتا تھا۔ اس کے باوجود بندگانِ خدا جھگیوں میں رہتے تھے۔ تنخواہیں کم ضرور تھیں، مگر قیمتیں بھی تو کم تھیں۔ پھر تنخواہیں بڑھیں قیمتیں بھی چڑھ گئیں۔ تنخواہیں اور بڑھیں۔ قیمتیں اس سے زیادہ بڑھ گئیں۔ ملازمت پیشہ طبقہ کی حیرانی بھی دم بدم بڑھتی گئی۔ خان خاناں کا ایک دوہا ہے، 

    بار بار درجن گھر جھگڑت ٹھاڑھ
    جوئی جوئی انگیا سیوت ہوئی سوئی کاڑھ

    ناری بار بار درزن کے گھر جا جا کر جھگڑتی ہے کہ میں تجھے روز انگیا ڈھیلی کرنے کو دیتی ہوں، مگر تو جب سیتی ہے اور تنگ کردیتی ہے۔ جوانی ایسی بھر کر آئی ہے کہ اسے یہ بھی ہوش نہیں کہ درزن بے چاری تو روز اسے ڈھیلا کردیتی ہےمگر وہ ایک اور وجہ سے (جس کا بھلا سا نام ہے) تنگ ہی ہوتی چلی جاتی ہے۔ تو صاحبو! یہی نقشہ سفید پوشوں کی تنخواہ کا ہے۔ 

    ہم نے کہا، ’’خان صاحب! انسداد بے رحمی جانوراں والوں نے کہیں دیکھ لیا تو چالان کردیں گے۔ یہ قساوت ہے۔‘‘ 

    ’’میں ۱۹۴۶ء میں ہُنزہ گیا تھا۔ مرغ زریں اور برفانی چیتے کے شکار کو۔ وہاں نیوزی لینڈ کا ایک BIRD-WATCHER مل گیا۔ اس نے بتایا کہ جب میں بچہ تھا تو گڈریوں او رگلہ بانوں کو دنبوں کو اپنے دانتوں سے، جی ہاں دانتوں سے، کاٹ کاٹ کر آختہ کرتے دیکھا کرتا تھا۔ میں نے تو پھر بھی چھری پھٹکری استعمال کی ہے۔‘‘ 

    ایک جھلک حجرے کی
    خان صاحب کے حجرے کو غور سے دیکھا تو اپنے مکان سے کوئی گلہ نہ رہا۔ چھت ٹن کی نالی دار چادر کی، جس میں کنستر کی چادر کے تین چار پیوند لگے ہوئے تھے۔ ہر پیوند کے گرد تارکول کا زنجیرہ۔ ایک دیوار میں، چھت سے فرش تک، ٹیڑھی میڑھی دراڑیں پڑ گئی تھیں، جن پر پلستر لاغر آدمی کے ہاتھ کی رگوں کی طرح ابھر آیا تھا۔ دیواروں سے عبرت اور پلستر ٹپکنے کے علاوہ پچھلے کرایہ دار کے نور چشموں کے تعلیمی مدارج و مشکلات کا بخوبی اندازہ ہوتا تھا۔ شہتیر کے وسط میں جو آہنی کڑا تھا، اس میں ایک کھلی ہوئی چھتری الٹی لٹکی ہوئی تھی۔ یہی ان کا چھینکا اور الگنی تھی۔ ایک کونے میں ابدالی اس زاویے سے پسری کھڑی تھی گویا دو بجنے میں بیس منٹ ہیں۔ قریب ہی بارہ سنگھے کا سر آویزاں تھا جس کی ایک آنکھ اور کھال جھڑ چکی تھی۔ ہرسینگ پر کچھ نہ کچھ لٹکا ہوا تھا۔ ایک پر پلاسٹک منڈھا ہوا سولاہیٹ، دوسرے پر بنیان سوکھ رہا تھا۔ تیسرے پر بینک کی چابیاں۔ دروازے کی کیبل پر ٹنگی ہوئی پتلون پر مکھیاں اپنے نظام ہضم کے آثار چھوڑ گئی تھیں۔ لیکن کمرے میں کہیں مکھیاں اڑتی بھنبھناتی دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ سب ہمارے منھ پر بیٹھی تھیں۔ 

    دروازے سے ذرا ہٹ کر ایک چیڑ کا کھوکھا رکھا تھا۔ یہ ریڈ کلف کی اقامت گاہ تھی۔ اس کی چھت پر ملاقاتی بٹھائے جاتے تھے۔ سرکنڈوں کا ایک بڑا مونڈھا بھی تھا جس کی بان کی سیٹ گل چکی تھی۔ اس میں ایک چھوٹا مونڈھا، جس کی پشت جھڑ چکی تھی، جڑ دیا گیا تھا۔ دوسرے کونے میں سواتی نمدے پر ایک ماٹ اوندھا دیکھ کر ہم مسکرا دیے تو فرمایا، آپ کے ہاں تو مٹکے صرف پینے، بجانے اور سرپہ رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ دالان (جس کا رقبہ دو چارپائیوں کے برابر ہوگا، بشرطیکہ وہ دولہا دلہن کی ہوں۔ یعنی پٹی سے پٹی ملی ہوئی ہو) کی طرف کھلنے والے دروازے میں ایک تاروں کا پنجرہ جھول رہاتھا جو غالباً عجزو فروتنی کی تعلیم دینے کے لیے لٹکایا گیا تھا۔ اس کے نیچے سے جھک کر بڑی احتیاط سے نکلنا پڑتا تھا کہ پیندے میں سے پانی، باجرے اور بیٹ کی پھواریں پڑتی رہتی تھیں۔ 

    اس میں ایک سہما ہوا خوش رنگ پرند بند تھا۔ پوچھا، اسے کیا کہتے ہیں؟ فرمایا، چکور۔ پوچھا، ’’پنچھی باؤرا چاند سے پریت لگائے‘‘ والا چکور؟ وہی جو چاند کے گرد چکر لگاتا ہے؟ بولے، آپ کی طرف لگاتا ہوگا۔ فرنٹیر کا چکور اتنا الو نہیں ہوتا۔ خیبر کے پہاڑوں میں چاندنی کے علاوہ اس کی دل بستگی کے لیے کچھ اور بھی ہوتا ہے۔ پوچھا، حضور نے دل بستگی کے واسطے پالا ہے؟ بولے، نہیں۔ ہمارے ہاں چکور نیک شگون کے لیے پالا جاتا ہے۔ دافع بلیات ہے۔ مالک کی ہر آفت اپنے اوپر لے لیتا ہے۔ پھر ایک دن اچانک مر جاتا ہے۔ جو اس کی علامت ہے کہ مالک کی آئی اس کو آ گئی۔ کراچی بھی عجب شہر ہے۔ تین چکور مر چکے ہیں۔ یہ تخمیر بھی پرسوں سے اونگھ رہا ہے۔ اسے آپ لیے جائیے۔ آپ کی حالت تو اس سے بھی زیادہ غیر ہے! 

    حضور آہستہ آہستہ، جناب آہستہ آہستہ، انہیں مائل بہ کرم دیکھا تو ہمت بڑھی، ’’خان صاحب! تمباکو کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں؟‘‘ فرمایا، ’’دو۔ پہلی قسم ورجینیا وار دوسری (ہچکچاتے ہوئے) غیر ورجینیا۔‘‘ پوچھا، ’’صوبہ سرحد میں تمباکو کہاں کہاں پیدا ہوتا ہے؟‘‘ فرمایا، ’’جہاں جہاں کاشت کی جاتی ہے بکثرت پیدا ہوتا ہے۔‘‘ پوچھا، ’’سنا ہے مردان، چار سدہ، نواں کلی اور تحصیل صوابی میں تمباکو کے آڑھتی پائے جاتے ہیں۔‘‘ فرمایا، ’’جہاں مال ہے وہاں تجارت۔ اور جہاں تجارت ہے وہاں آڑھت ضرور ہوگی۔‘‘ 

    انہوں نے تمباکو کا علم پانی کر دیا۔ راہِ مضمون تازہ بند نہیں۔ سرور صاحب نے کچھ دن بعد تمباکو کی تیسری قسم بتا کر ہمارے معلوماتی خلا کو پر تو نہیں کیا، لیکن اس پر پل ضرور بنا دیا جس پر سے اینڈرسن کی سواری گزر سکتی تھی۔ فرمایا کہ تمباکو کی توقیر تو سرکار عالیہ ہرہائی نس نواب سلطان جہاں بیگم کے زمانے میں ہم رامپوری پٹھان بڑھاتے تھے۔ منقش چلم میں پرانے گڑ کا قوام اور دو آتشہ تمباکو کڑوا دورسا (دورس والا) بغیر توے کے رکھ کر پوری قوت سے کش لگاتے تو ایک ایک بالشت اونچا شعلہ لپک اٹھتا۔ جس کے سلفے کا شعلہ زیادہ اونچا جاتا وہی مرد ٹھہرتا۔ سب سے تیز تمباکو رمضانی کہلاتا تھا۔ رمضان میں حقے کے رسیا اسی سے با جماعت روزہ افطار کرتے۔ پہلا کش لیتے ہی حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بلکہ جہاں لیٹ گئے لیٹ گئے۔ روزہ دار باری باری حسب مراتب دم لگا کر روزہ کھولتے اور اسی ترتیب سے حسب مراتب بے ہوش ہوتے چلے جاتے۔ رامپوری تمباکو سے کسی کو کینسر ہوتے نہیں دیکھا۔ ہارٹ فیل ہوتا تھا۔ ان کی فاتحہ بھی اسی پر دلائی جاتی تھی۔ 

    خان صاحب کی طبیعت مکدر ہوچلی تھی۔ ہم نے موضوع بدلنے میں عافیت جانی۔ 

    ’’جب سے آپ کی دائیں آنکھ کھلی ہے (بائیں ہم نے تو ہمیشہ بند ہی دیکھی۔ مخاطب کا چہرہ بھی شست باندھ کر دیکھتے تھے۔) آپ کو شکار کی دھت ہے۔ کچھ BIG GAME کے بارے میں بتائیے۔ ہمیں بچپن ہی سے ہاتھی اور وہیل کے شکار کے قصوں سے دلچسپی ہے۔‘‘ اپنے دلآویز تبسم کے بعد فرمایا، ’’۸ نمبر کی بس میں بیٹھ کر وہیل کا شکار قدرے دشوار ہے۔ آپ علم کے بارے میں بڑے لالچی واقع ہوئے ہیں۔ سب کچھ ایک ہی ہلے میں جان لینا چاہتے ہیں۔ میرا ماسٹر سردار گرو بچن سنگھ مستانہ کہتا تھا کہ پتر جی! علم بھنگ نہیں افیم ہے۔ اس کا نشہ دھیرے دھیرے رگ وپے میں اترتا ہے۔ کیا بتاؤں، ہیرا استاد تھا۔ کوردیہہ تھا۔ کل تین ملا تھے۔ نزدیک ترین ڈامر کی سڑک ستر میل دور تھی۔ بہتوں کے گھروں میں لالٹین تک نہ تھی۔ ماسٹر گروبچن سنگھ کڑکڑاتے جاڑے میں ہری کین لالٹین لے کر نکلتا۔ گھر گھر جاکر لڑکوں کو جمع کرتا۔ اپنے گھر لے جاتا اور وہاں چٹائی پر بٹھا کر ہمیں رات کے گیارہ بجے تک امتحان کی تیاری کرواتا۔ ایک دن اپنے کرپان پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا، ’’اوئے بقراط دیا پترا! سائنس علم دریاؤ ہے۔ بھنگ کا گلاس نہیں کہ سیدھا دماغ کو چڑھا اور چنگا بھلا بندہ بھک سے اڑ گیا۔ اور ہاں بھنگ چھاننے کے کپڑے کو ریش قاضی کہتے ہیں۔ قاضی قہقہہ والے ق سے۔ جہاں ق اور ک میں ذرا بھی شک ہو وہاں ق لکھا کرو۔‘‘ 

    ت سے تلِیر، تیتر اور تلِور
    ’’تو آج میں آپ کو سب سے چھوٹے پرندے کے شکار کی ترکیبیں بتاؤں گا۔ پھر بتدریج چرندوں، خطرناک گزندوں، پھاڑ کھانے والے درندوں اور آخر میں کالے سر والے کی باری آئے گی۔ آپ نے تلیر دیکھا ہے؟‘‘ 

    ’’شیو بناتے وقت روز آئینے میں زیارت کر لیتا ہوں۔‘‘ 

    ادائے خاص کے ساتھ رکوع میں چلے گئے اور گھٹنے پکڑے پکڑے ہماری صورت دیکھ کر دیر تک ہنستے رہے۔ پھر ارشاد ہوا، ’’چتکبرا ہوتا ہے۔ اس لیے ابلقہ بھی کہتے ہیں۔ مٹھی میں دبا لیں تو پتہ بھی نہ چلے کہ خالی ہے یا بھری۔ آپ اسے تنہا کبھی نہیں دیکھیں گے۔ دوتین سو کا جھنڈ بنا کر بسیرا کرتے ہیں۔ چٹکی بھی بجا دو تو ساتھ بھرا مار کر اڑجائیں گے۔ تلیر صرف فصل کے وقت نظر آتا ہے۔ فصل کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کو کھا جاتا ہے۔ اسی لیے حکومت کا تحفظ حاصل ہے۔ چوری چھپے مارنا پڑتا ہے۔ قدرت نے ’کیموفلاژ‘ کے لیے ایسا رنگ اور شکل بنائی ہے کہ درخت پر بیٹھا پتوں میں بالکل نظر نہیں آتا۔ لیکن دنیا کی کوئی طاقت اسے چونچ کھولنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ بس اسی سے مار کھاتا ہے۔ آواز پر نشانہ لگایا جاتا ہے۔ اسے مرنا منظور ہے مگر چپکا نہیں رہ سکتا۔ اس کی زبان کا ماء اللحم سہ آتشہ بنا کر گونگے آدمی کو پلائیں تو سات دن میں سپڑ سپڑ بولنے لگے۔ بے زبان بہو ایک گھونٹ بھی پی لے تو دودن میں اس کی ساس باؤلی ہو کر مر جائے۔ اور مردے کی زبان پر دفن سے پہلے ایک قطرہ ٹپکا دیا جائے تو منکر نکیر اس قبرستان کا رخ ہی نہ کریں۔ 

    ’’بڑے چھرے کی تاب نہیں لاتا۔ ڈسٹ (چورا۔ بہت مہین چَھرے) استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایک فیر میں سوتلیر گرا لیجیے۔ دو تین تو چَھروں کے ذرات سے زخمی ہو کر گرتے ہیں۔ پچاس ساٹھ محض آواز کے صدمے سے جاں بحق تسلیم۔ بقیہ دیکھا دیکھی۔ ہاں! ایک بات کا خیال رہے۔ زمین پر گرنے کے خوف سے راستے ہی میں ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کلمہ پڑھ کر فیر کریں ورنہ مردار ہو جائے گا۔ ذرا چھری پھیرو تو بیری سی گردن الگ ہو جاتی ہے۔ چہے سے بھی زیادہ خوشبودار گوشت، ہڈیاں سویوں سے زیادہ باریک اور کرکری۔ ہڈی سمیت کرر کرر کھاتے ہیں۔ شکل و جثہ سب کا ایک ساں۔ کم از کم انسانی آنکھ نرمادہ میں فرق نہیں کر سکتی۔ تلیر اور اردو الفاظ کی تذکیر و تانیث معلوم کرنے کے لیے چھٹی حس درکار ہے۔ ان کی نسل بڑی تیزی سے بڑھتی پھیلتی ہے۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں نر بھی ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ اردو میں تو طبلہ کے بھی نر مادہ ہوتے ہیں۔ 

    اچھا! اب آئندہ اتوار کو تیتر کے شکار پر گفتگو ہوگی۔ میدانی پنچھی ہے۔ لڑاکا۔ ہم جنس کے سوا کسی سے نہیں لڑتا۔ دادو میں ایک از کار رفتہ رئیس نے بیٹے کے عقیقہ پر بیس دیگیں کالے تیتروں کی پکوائی تھیں۔ جشن میں پورا قصبہ مدعو تھا۔ اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ بچہ کی پیدائش پر اسے خوشی سے زیادہ تعجب ہے۔ اچھا پرند ہے۔ سبحان تیری قدرت! سبحان تیری قدرت!‘‘ عرض کی، ’’اب تیتر سیانے ہوگئے ہیں۔ سلطان تیری قدرت! سلطان تیری قدرت!‘‘ فرمایا، ’’اس فقرے کی داد کسی اور سے لیجیے۔ میں موجودہ حکومت کے خلاف نہیں ہوں۔ پھر کسی دن آپ کو سجاول لے چلوں گا۔ جھیل میں پڑی ہوئی مرغابیاں دور سے ایسی لگتی ہیں گویا ابھی ابھی کسی جلسے میں لاٹھی چارج کے بعد لوگ جوتے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں! سندر بن چلیں تو شیر کا شکار بھی کھلوا سکتا ہوں۔ شیر کے شکار میں دو تین سو آدمی چاروں طرف سے ہانکا کریں تو سب سے پہلے سور نکلتے ہیں!‘‘ عرض کیا، ’’سیاست میں بھی یہی ہوتا ہے۔‘‘ بولے، ’’پھر وہی! آپ نے بسٹرڈ (تلور) دیکھا ہے۔ کوہستانی چڑیا ہے۔ ٹھٹھہ کے پاس براد آباد کی پہاڑیوں میں نومبر سے اترنی شروع ہوتی ہے۔‘‘ کہا، ’’تو آج کا سبق ہوا، ت سے تلیر، تیتر اور تلور۔ اور تمباکو؟‘‘ فرمایا، ’’کبھی پٹھور مورنی کے کوفتے کھائیں ہیں؟ بڑے خستہ ہوتے ہیں۔‘‘ 

    آپ سے تم، تم سے تو ہونے لگا
    اگلے اتوار کو شکار پر جانے کا وعدہ کر کے ہم تمباکو سے متعلق جو باتیں انہوں نے تعلیم فرمائی تھیں اپنے سینے سے لگائے رخصت ہوئے۔ پیر کو بینک میں دوپہر تک تو دونوں ہی لیے دیے رہے۔ سہ پہر کو پشتو کی تین چار دلکشا گالیوں سے حجابات من و تو اٹھ گئے۔ آپ سے تم، تم سے تو ہونے لگا۔ تین چار دن میں ہم دونوں ایک دوسرے کی زندگی میں اس طرح داخل و دخیل ہوگئے کہ خود بھی یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون کس میں گھسا ہوا ہے۔ ہماری کیا مجال کہ چھوٹے منہ سے بڑی بات کہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی خربوزہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ دستہ تک چھری میں گھس گیا ہے۔ جمعرات تک بے تکلفی اس حد تک بڑھ گئی کہ ہم نے کہا آپ گرو، ہم چیلے۔ کسی دن غریب خانے پر بھی تو تشریف لائیے۔ فرمایا آپ کا غریب خانہ کہاں ہے؟ عرض کیا پیر الہی بخش کالونی میں۔ یہاں سے ۸ میل۔ فرمایا راستے میں کوئی شکار شکور ہے؟ ہم چپ ہو رہے۔ کیا کہتے،

    انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
    مرے گھر کے راستے میں کوئی فاختہ نہیں ہے

    ہمیں آزردہ دیکھا تو دلجوئی فرمائی، ’’دعوت سرآنکھوں پر۔ مگر برا نہ مانیے گا۔ کراچی میں آپ لوگ پلاؤ میں برابر کا گوشت ڈالتے ہیں۔ ہم دگنے کے عادی ہیں۔‘‘ ہم نے ذرا برا نہ مانا اس لیے کہ اپنے بیان کے اس حصے میں جس کا تعلق ہمارے پلاؤ سے تھا، انہو ں نے پہلے ہی ۹۰ فیصد گوشت زیادہ ڈال دیا تھا۔ ورنہ کیا فدوی کیا فدوی کا شوربہ۔ پھر ارشاد ہوا آپ چار سدہ آئیں تو رِیتا کھلاؤں گا۔ سالم دنبے کو اسی کی کھال میں لپیٹ کر اسی کی چربی میں انگاروں پر بھونتے ہیں۔ قصبہ شب قدر کے دنبے کا گوشت بڑا میٹھا اور حلوان ہوتا ہے۔ 

    گلے میں نتھیا گلی
    شامتِ اقوال، ہمارے منہ سے نکل گیا کہ فاختہ امن و آشتی کی علامت ہے۔ اور کبوتر تو بڑا ہی بھولا پنچھی ہے۔ اسے مارنا مہا پاپ ہے۔ کہنے لگے، رام! رام! تو بیٹی برہم کی، کیا جانے ماس کا سواد۔ ماسٹر گوربچن سنگھ، خدا اسے معاف کرے، کہتا تھا کہ مسلمان کسی جانور کو زندہ نہیں دیکھ سکتے، سوائے سوؤر کے! آپ کو شاید علم نہ ہو، اگلے وقتوں میں کسی رئیس کو ادھیڑ عمر میں لقوہ ہوجاتا۔۔۔ جو اکثر ہوتا تھا۔۔۔ تو حکیم اس کا علاج جنگلی کبوتر کے بازوؤں کی گرم پھڑپھڑاہٹ اور ہریالی سبزی کے آنچل کی ہوا سے کرتے تھے۔ 

    خان صاحب ہر سولہویں منٹ ایک سگرٹ پیتے تھے۔ اس میں پندرہ منٹ اپنے ہاتھ سے سگرٹ ’مینوفیکچر‘‘ کرنے کے ہوتے تھے اور ایک منٹ پینے کا۔ سگرٹ سلگانے سے پہلے پنکھا بند کر دیتے۔ فرماتے کہ ہوا سے سگرٹ شتابی ختم ہو جاتا ہے اور سارا دھواں ضائع جاتا ہے۔ مہین کاغذ پر تمباکو کی تہ جماتے۔ ہر پتی، ہر ریزے کا رخ درست کرتے۔ بیچ میں پیپرمنٹ کی ایک سلائی رکھتے اور تھوک سے چپکا کر برفیلے کش لیتے اور سگرٹ نہ پینے والوں کی محرومی پر ایک منٹ تک مسکراتے رہتے۔ 

    ’’آپ اس کھیکھڑ میں کیوں پڑتے ہیں؟ بنے بنائے سگرٹ کیوں نہیں پیتے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ 

    ’’ریڈی میڈ سگرٹ؟ آپ نے کبھی تخمی آم چوسا ہے؟‘‘ 

    ’’جی ہاں! ہزار بار۔‘‘ 

    ’’اگر کوئی تخمی کا رس نکال کر بلورین فنجان میں پیش کرے تو سچ بتائیے کیا وہی مزہ ہوگا جو بقلم خود دوہنے میں آتا ہے؟‘‘ 

    ’’ایک تخمی ہمیں بھی عنایت ہو۔‘‘ 

    فوراً یعنی پندرہ منٹ میں ایک سگرٹ بنایا اور اس میں پیپرمنٹ کی سب سے تندرست سلائی رکھی۔ ہم نے جو آنکھ میچ کر دم لگایا تو گلا نتھیا گلی ہو گیا۔ (جن پڑھنے والوں کی سمجھ میں یہ استعارہ نہ آئے اُن سے درخواست ہے کہ اس ترکیب سے سگرٹ بناکر کش لگائیں۔ اور اگر اس میں زیادہ محنت اور صرفہ نظر آئے تو نتھیا گلی جاکر دیکھ لیں۔) 

    پوچھا، ’’ آپ پائپ کیوں نہیں پیتے؟‘‘ فرمایا، ’’پائپ سے صرف ان لوگوں کو آرام آتا ہے جو نہ سگرٹ کی استطاعت رکھتے ہیں، نہ حقے کی طاقت۔‘‘ دس برس پہلے مردان میں انہوں نے حقہ شروع کیا تھا۔ لیکن پہلے تو ان کی اہلیہ نے غالب کی بیوی کی طرح ان کے کھانے پینے کے برتن الگ رکھے۔ پھر خود انہیں بھی الگ رکھنے لگیں۔ سنیچر کو پوچھنے لگے، ’’تو پھر کل چل رہے ہیں شکار پر؟ شاگردی کے لیے کل کا دن سعد ہے۔ ۸ تاریخ ہے۔ ۸ میرا لکی نمبر ہے۔‘‘ 

    ’’چلنے کو تو چلے چلیں گے۔ مگر ایک گزارش ہے۔ وہ یہ کہ دوران سفر و شکار، سرکار کوئی گالی نہیں دیں گے۔‘‘ 

    ’’منظور۔ مگر ایک شرط پر۔ آپ بھی کوئی شعر نہیں بکیں گے۔ دفتر کی اور بات ہے۔ باہر بندہ کوئی لغو و مہمل بات برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ 

    ’’لیلیٰ بھی ہم سفر ہو تو ’مہمل‘ نہ کر قبول!‘‘ 

    ’’پھر وہی! آپ کی دم کبھی سیدھی نہیں ہوگی۔ آپ کو معلوم ہے؟ گولکنڈہ کے سلطان کا ایک مہمل شعر سن کر جہانگیر بادشاہ اس قدر برافروختہ ہوا کہ فی الفور گولکنڈے پر چڑھائی کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ جہانگیر اگر آج زندہ ہوتا تو خدا کی قسم مغل فوج تمام عمر آپ کا محاصرہ کیے پڑی رہتی۔‘‘ 

    ۴ 
    ہماری نسینی اور ناسٹل جیا
    بینکوں میں اتوار رو رو کے آتا ہے اور سوموار رلا رلا کے جاتا ہے۔ اتوار کو ذرا دیر سے آنکھ کھلی اور ہم بہار کالونی والی بس سے اترے تو دیکھا کہ خان صاحب ہماری پذیرائی کے لیے بس اسٹینڈ پر آدھ گھنٹے سے کھڑے سگرٹ بنارہےہیں۔ معانقہ، مصافحہ اور سلام ہوا۔ (جی ہاں! ان کے ہاں اظہار و اخراج خلوص کی یہی ترتیب تھی) ایسی قبائلی گرم جوشی سے بغل گیر ہوئے کہ ہم بڑی مشکل سے بقیہ رسوم کی ادائیگی کے لیے خود کو ان کے شکنجۂ خلوص سے آزاد کروا سکے۔ اگر ہم اپنے سینے پر اس طرح ہاتھ نہ باندھ لیتے جیسے جنتی بیبیاں نماز پڑھتے وقت باندھ لیتی ہیں، تو چار پانچ پسلیاں ٹوٹ چکی ہوتیں۔ قبائلی معانقہ میں باہمی خلوص کا اندازہ ان پسلیوں کی تعداد سے لگایا جاتا ہے جو اس فعل کے دوران ٹوٹ جائیں اور مردانگی کا ان سے جو بچ جائیں۔ ہمارے دبلے پن اور ابھری ہوئی پسلیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے بولے کہ آپ کو سینے سے لگا کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا بانس کی نسینی سے بغل گیر ہو رہا ہوں۔ 

    ازاں بعد بجلی کے کھمبے سے لگی ہوئی سائیکل اٹھائی۔ ہم نےکہا، ’’یہ تو پطرس کی سائیکل معلوم ہوتی ہے۔‘‘ 

    ’’نہیں تو۔ میری ہی ہے۔ کیا وہ بھی چاکیواڑہ میں رہتا ہے؟‘‘ 

    اس کے شمشیر برہنہ ڈنڈے پر بٹھا کر ہمیں اپنے گھر لے چلے۔ ہم نے پیچھے آرام دہ کیریر پر بیٹھنا چاہا تو انہوں نے اجازت نہیں دی۔ کہنے لگے، ’’اول تو یہ سیٹ جنگلی بکرے کی لاش فانی کے لیے ’ریزرو‘ ہے۔ دوم، ہمارے یہاں مہمان عزیز کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا خلاف تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ مہمان کسی وقت بھی پیچھے سے چھرا گھونپ سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے آپ نےتاریخ کا ٹھیک سے مطالعہ نہیں کیا۔ تاریخ پڑھنے سے تین فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بزرگوں کے مفصل حالات سے آگاہی کے بعد دورِحاضر کی حرامزدگیوں پر غصہ نہیں آتا۔ دوسرے، حافظہ تیز ہو جاتا ہے۔ تیسرے، لاحول ولا! تیسرا فائدہ ذہن سے اتر گیا۔ کراچی بھی عجیب شہر ہے۔ ہاں! تیسرا بھی یاد آگیا۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، بھائیوں کے ساتھ سلوک کے مغلئی آداب سے واقفیت پیدا ہوتی ہے۔ آگے بیٹھنے پر یاد آیا کہ شاہجہاں کے زمانے میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ مہاوت شاہی عمارت کے آگے بادشاہ کی طرف پشت کر کے بیٹھتا ہے جو سر تا پا سوئے ادب ہے۔ چنانچہ ہمارےاپنے علاقہ غیر سے ایک نجیب الطرفین سید صاحب امپورٹ کیے گئے جو مہاوت کی پیٹھ سے پیٹھ ملا کر بادشاہ کی طرف منہ کرکے بیٹھتے تھے۔ تعجب ہے بادشاہ کو یہ خیال کبھی نہ آیا کہ گستاخ ہاتھی اس کی طرف مستقلاً پیٹھ کیے رہتا ہے!‘‘ 

    اس پر ہم نے کہا، ’’راجستھان کے راجپوتوں میں الٹا دستور ہے۔ اونٹ پر بیٹھی ہوئی عورت کے انداز نشست کو دیکھ کر ایک میل دور سے بتا سکتے ہیں کہ وہ سوار کی بہن ہے یا بیوی۔ بہن کو راجپوت سردار ہمیشہ آگے بٹھاتے ہیں تاکہ وہ خدانخواستہ گر پڑے تو فوراً پتہ چل جائے۔ بیوی کو پیچھے بٹھاتے ہیں۔‘‘ 

    ’’اورمحبوبہ کو؟‘‘ 

    ’’اغوا کے لیے دیس میں ہمیشہ گھوڑے استعمال ہوتے ہیں۔‘‘ 

    ’’دیس میں! آپ کا من ابھی تک میرابائی کے دیس میں اٹکا ہوا ہے، پنڈت یوسفی! ریت کے ٹیلے، بنجر زمین، اونٹ، حد یہ کہ ٹھ، ڈھ، ڑھ دیکھ کر آپ ’ناسٹل جک‘ ہو جاتے ہیں! آپ کے دیس جے پور میں لے دے کے ایک جھیل تھی۔ سانبھر جھیل۔ اور یہ سڑانڈی کھاری جھیل ہے جو سارے ہندوستان کو نمک سپلائی کرتی ہے۔ آپ کو یہ یاد نہیں رہا کہ برہمنوں کا دھرم اپنی رسوئی میں مسلمان کے تھاپے ہوئے اپلے جلانے سے بھرشٹ ہو جاتا تھا۔ پاکستان کا دانا پانی کھاتے اتنے دن ہوگئے۔ مگر اب بھی وہی رٹ ’میں چنے مٹر کے کھالوں گی تو لے چل جمنا پار‘ تھان ہے تھان! (گھوڑا جیسے ہی آکر تھان پر کھڑا ہو رہا ہو اور اچانک ڈر کر ہنہنانے، بدکنے لگے تو سائیس یہ یاد دلا کر کہ یہ تو تیرا اپنا تھان ہے اس کی چمک اور ڈر نکالتا ہے۔) یہ پاکستان ہے۔ آپ بھی کس پولی، پپلی، پوپلی زمین کو یاد کرتے ہیں جس میں کشور کشاشہ سوار اپنے نیزوں سے خیمے بھی نہ گاڑ سکیں۔ کبھی آکر خیبر کی سرزمین دیکھیے۔ ذرا بے ادبی سے پاؤں بھی پڑجائے تو ٹن ٹن خطرے کا الارم بجاتی ہے۔ گولیوں کے منہ پھیردیتی ہے۔‘‘ 

    وہ تلخا گئے تھے۔ ہم نے کانٹا بدل کر گمبھیر فلسفیانہ سوال کیا، ’’عورت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ 

    ’’اکثر خیال آتا ہے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ 

    ’’عجیب بات ہے، ہم نے بار ہا راجپوتوں کی غیرت و شجاعت کی داستانیں سنائیں۔ ذرا جو متاثر ہوئے ہوں۔ ایک دن برسبیل تبصرہ ہم نے کہا کہ ۳۱ دسمبر ۱۹۴۹ء تک جب ہم جے پور سے چلے ہیں، بنا پستی گھی بیچنا، خریدنا، بنانا، رکھنا اور کھانا راجستھان کی حدود میں تعزیری جرم تھا۔ چھ مہینے کی قید بامشقت ہوتی تھی۔ پھڑک اٹھے۔ بولے یہ بات ہوئی۔ اس کے بعد کبھی راجپوتوں کا ذکر آتا تو بڑی توجہ اور احترام سے سنتے۔ ہم تازہ تازہ ہندوستان سے گردِ مسافرت و مہاجرت جھاڑتے وارد ہوئے تھے۔ ایک نئے جنم اور آدرش کی آرزو میں اپنا زائد المیعاد نال نہ صرف برضا و رغبت بلکہ خود اپنے دست شوق سے کاٹا تھا۔ گھاؤ بھر چلا تھا، پر بھرتے زخم کی میٹھی میٹھی سلسلاہٹ کا ہنوز یہ عالم کہ۔۔۔ جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے۔ 

    اسی عالم میں ایک دن ان سے پوچھا، ’’آپ کو ہندوستانی کلچر پسند نہیں؟‘‘ 

    ’’اس کے جو حصے ہمیں پسند آتے ہیں، ان سے بے شک نکاح کرلیتے ہیں۔‘‘ 

    شکار کو روانہ ہونے لگے تو انہوں نے ہمیں سختی سے تنبیہ کی کہ شکار پر روانہ ہونے سے پہلے چاقو کا نام ہرگز ہرگز نہیں لینا چاہیے۔ شکار نہیں ملتا۔ چنانچہ یہی ہوا۔ پھر ایک چھاگل پانی کی (جو بآسانی ایک اونٹ کو سیراب کرسکتی تھی) اپنے گلے میں ڈالی اور ایک تھیلا مونگ پھلیوں کا ہمارے گلے میں حمائل کرنا چاہا تاکہ دونوں ہاتھ، جن سے آگے چل کر بہت سے کام لینے تھے، خالی رہیں۔ ہم نے پیچھا چھڑانے کے لیے کہا، ’’ہم مونگ پھلی نہیں کھاتے۔‘‘ بولے، ’’ہم نے تمام عمر بادام کھائے ہیں۔ مگر اس میوہ میں کیا خرابی ہے؟‘‘ عرض کیا، ’’مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کردے تو سمجھ میں نہیں آتا ختم کیسے کرے۔‘‘ ہماری رائے سے اتفاق کرتے ہوئے مونگ پھلی کا تو بڑا انہوں نے اپنی گردن میں لٹکا لیا۔ ہم چیختے چلاتے ہی رہ گئے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے پکھال ہمارے کندھے پر ڈال دی ’’اونٹھ اڑانڈے ای لدی دے نیں۔‘‘ (اونٹ کو بلبلاتے ہوئے ہی لاد دینا چاہیے۔ یہ انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ اونٹ بلبلانا بند کرے تو ہم لادنا شروع کریں۔) 

    پوچھا فواکہات میں حضور کو کون سا میوہ مرغوب ہے؟ فرمایا نکاح کا چھوارا! 

    ساڑھے آٹھ بجے ہم دونوں سائیکل پر منگھوپیر کی پہاڑیوں کی طرف جنگلی بکرے کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ تھوڑی مسافت طے کرنے کے بعد ہمیں کیریر پر بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔ ذرا دیر بعد ہانپتے ہوئے کہنے لگے، ’’اب آپ پیچھے بیٹھے بیٹھے آرام سے پیڈل ماریے، میں ہینڈل چلاتا ہوں۔ ذرا احتیاط سے پیڈل ماریے گا۔ کراچی کا ٹریفک باؤلاہے۔‘‘ حسب الحکم، ہم ان کی کمر پکڑ کے پیڈل سے زور آزمائی کرنے لگے۔ سائیکل چلانے کے اس طریقہ کا ایک نہایت باریک قانونی نکتہ انہوں نے یہ بتایا کہ پولیس ڈبل سواری کے جرم میں دونوں میں سے کسی کا چالان نہیں کر سکتی۔ جو ہینڈل پکڑے ہوئے ہے وہ پیڈل مارنے کا مرتکب نہیں، اور جو پیڈل مار رہا ہے اس کا بقیہ سائیکل سے کوئی قانونی تعلق نہیں! اگر آپ کو مجسٹریٹ نے ایک مہینے کی بھی سزا کی تو تخمیر کے پاؤں کے ناخن کھینچ لوں گا اور پیدل علاقہ غیر میں لے جاکر پراسرار قتل کردوں گا۔ 

    سائیکل کے وہ تمام فاضل پرزے اور آرائشی تکلفات جن کا شمار میکانکی عیاشی میں ہوسکتا تھا، خود کو سپرد خاک کر چکے تھے۔ اور دیکھنے میں اب یہ ڈھانچہ سائیکل کا ایکس رے معلوم ہوتا تھا۔ ہینڈل پر نہ جانے کیسے ایک آئینہ لگا رہ گیا تھا جس کا بظاہر یہ مصرف معلوم ہوتا تھا کہ سوار کو پتہ چلتا رہے کہ پچھلا پہیہ ابھی تک سائیکل میں لگا ہوا ہے یا نہیں۔ پوچھا، ’’اس میں تیل کیوں نہیں دیتے؟‘‘ بولے، ’’تیل دینے میں جھنجھٹ یہ ہے کہ پھر گھنٹی لگانی پڑے گی۔‘‘ سائیکل کے مڈگارڈ ہی نہیں بریک بھی غائب تھے۔ لیکن چلانے کے بعد بریک کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے کہ سائیکل کا جو پرزہ جس جگہ تھا، وہیں سے بریک کا کام کرتا تھا۔ تاہم ہمارے سپرد یہ کام تھا کہ جیسے ہی وہ اشارہ کریں، ہم جوتے کی ایڑی سے ننگے پہیےکو آگے بڑھنے سے باز رکھیں۔ چار پانچ میل بریک لگانے کے بعد دائیں ایڑی جھڑ کر کہیں گر گئی۔ خان صاحب نے بائیں ایڑی استعمال کرنے کا اشارہ کیا تو ہمیں حکم عدولی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ استادی شاگردی اپنی جگہ، لیکن اس سے تو آپ کو بھی اتفاق ہوگا کہ ایک پاؤں سے لنگڑانا دونوں پاؤں سے لنگڑانے سے بہتر ہے۔ 

    وہ جو پنجابی مثل ہے کہ گدھے کا ایک میل اور کمہار کا سوا میل، سو وہ ہم پر میل بہ میل صادق آئی۔ یارائے ضبط نہ رہا تو ہم نے شکایت کی کہ کیریر بہت چبھ رہا ہے۔ بولے آپ میری سیٹ پر بیٹھ کر دیکھیں تو پتہ چلے چبھنا کسے کہتے ہیں۔ آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔ آپ کے کولہوں پر گوشت نہیں ہے۔ یہ در اصل آپ ہی کی ذاتی ہڈیاں ہیں جو آپ کے چبھ رہی ہیں۔ آپ کے اگر کولہے ہوتے تو آج یہ نقشہ نہ ہوتا کہ ذرا پائینچہ سائیکل کی چین میں آگیا تو ساری پتلون اتر کے ٹخنوں پہ آرہی۔ در اصل آپ کے یہاں کمر سے لے کر ٹخنوں تک پتلون کے لیے کوئی روک ہی نہیں۔ خیر سے ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے۔ اس سن میں تو کولہے نئی فصل کے پہلے گرمے (خربوزے) کی مانند ہوتے ہیں۔ آپ نے لختئی ناچ دیکھا ہے؟ خون ہو جاتے ہیں۔‘‘ 

    ’’ہماری تربیت نہایت پاکیزہ ماحول میں ہوئی ہے۔ جوانی میں ہم نے مور کے ناچ کے علاوہ اور کوئی ناچ نہیں دیکھا۔‘‘ 

    اتر کر رکوع میں چلے گئے
    ’’پھر بھی! آپ لوگ خوش ہوتے ہیں تو مجرے، مشاعرے کرواتے ہیں۔ آتش بازی چھوڑتے ہیں۔ لیکن ہم ہر جذبے کی ترجمانی بندوق سے کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں فلم کا کوئی گانا یا مکالمہ پسند آئے تو ناظرین باتمکین اس کی داد پستول سے دیتے ہیں۔ ڈش ڈش ڈشاؤں! ہال میں جتنے زیادہ پستول چلیں، اتنا ہی مالک خوش ہوتا ہے کہ فلم ہٹ ہوگئی۔‘‘ 

    ’’گولی چھت سے ٹکراکر الٹی تماشائیوں کو نہیں لگتی؟‘‘ 

    ’’چھت ایسی بناتے ہیں کہ بارش اور گولی کو گزرنے میں تکلیف نہ ہو۔‘‘ 

    خان غلام قادر خان، فرلانگ بھر مکالمے کے بعد ہم نے چبھن سے بے قرار ہو کر خود کو ہتھیلیوں کے جیک پر اٹھا لیا تو کہنے لگے آپ یہ بندروں کی سی حرکتیں کیوں کر رہے ہیں؟ عرض کیا بندر میں ہمیں اس کے علاوہ اور کوئی عیب نظر نہیں آتا کہ وہ انسان کا جد اعلیٰ ہے۔ دیگر احوال یہ کہ کیریر کا ایک انچ گہرا سانچہ ہمارے جسم پر نقش ہو چکا ہے اور اب اس میں ایسے کئی کیریر ڈھالے جا سکتے ہیں۔ دونوں ہاتھ چھوڑ کر تالی بجائی۔ پھر اس چرمی میخ کو جس پر وہ بیٹھے تھے اپنی رانوں سے دباتے ہوئے اپنے دادا خان غلام قادر خان کا قصہ سنانے لگے کہ انہوں نے ایک دفعہ اپنی رانیں بھینچ کر ایک منہ زور گھوڑے کی پسلیاں توڑدیں تھیں۔ ہم نے کہا، ’’آپ کے دادا جانی مرحوم۔۔۔‘‘ قطع کلام کرتے ہوئے بولے، ’’دادا جانی؟ جان کیا مطلب؟ آپ ریختی کب سے بولنے لگے۔ وہ خان، ابن خان، ابن خان تھا۔‘‘ 

    ’’آپ کے دادا خان اور ابا خان مرحوم تو بہت غیور اور خونخوار ہوں گے؟ تلوار، جی نہیں، بندوق کے دھنی ہوں گے؟‘‘ مونگ پھلی کی شنگر فی جھلی اتارتے ہوئے بولے، ’’اس شک میں آپ کو شبہ کیوں ہوتا ہے؟ ایک دفعہ کا ذکر ہے، میرا دادا موضع نواں کلی، تحصیل صوابی، ضلع مردان میں (نوٹ کر لیجیے۔ یہ خطہ تمباکو کا دل ہے۔ پھر نہ کہیے گا میں تمباکو کے متعلق کچھ بتاکے نہیں دیتا) ہاں تو میرا داد خان غلام قادر خان موضع نواں کلی میں سڑک پر گولی کھیل رہا تھا۔ اردو والی کچی گولی نہیں۔ اصلی کانچ کی گولی۔ سات سال کا تھا۔ اتنے میں انگریز ڈپٹی کمشنر سفید گھوڑے پر سوار ادھر آنکلا۔ تخم نیشکر نے بڑے توہین آمیز لہجے میں اپنے اردلی کو حکم دیا کہ اس ڈیم چھوکرے کو ہمارے رستے سے ہٹا دو۔ میرا دادا غصہ سے قندھاری انار ہو گیا۔ یہ بندوق تو خیر گھر پر تھی۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ گلے میں لٹکی ہوئی غلیل میں وہی شیشے کی گولی بھر کر ایسی تاک کے ماری کہ ٹھیک نشانے پر یعنی تخمیر کی دائیں آنکھ میں جاکر بیٹھ گئی اور ایسی فٹ ہوئی کہ نکالے نہیں نکلی۔ تمام عمر وہی لگائے پھرا۔ 

    ہم نے پوچھا، ’’اس زمانے میں نواں کلی میں ورجینیا تمباکو پیدا ہوتا تھا؟‘‘ جواب ملا، ’’وہ شیردل اور غیرت مند پٹھان تھا۔ ایک دفعہ کسی کام سے درہ گیا۔ وہاں ایک حجرے کے سامنے چارپائی پر شمروز خاں چادر تانے قیلولہ کر رہا تھا۔ مہمند قبیلہ کا سردار اور قدیم شناسا تھا۔ میرے دادا نے سلام کیا مگر اس نے لیٹے لیٹے ہی پخیر را غلے! کہہ کر مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ قبائلی آداب کے مطابق تعظیم کو نہ اٹھا۔ میرا دادا اس ہتک سے بہت کبیدہ خاطر ہوا۔ اس کے دو ماہ بعد کا ذکر ہے۔ بارش کے دن تھے۔ دادا خان غلام قادر خان کچی سڑک پر کھڑا خوانین سے ہنس بول رہا تھا کہ سامنے سے شمروز خان کیچڑ میں پھچاپھچ کرتا، آتا ہوا دکھائی دیا۔ دادا وہیں چادر اوڑھ کر کیچڑ میں لیٹ گیا۔ لوگوں نے پوچھا غلام قادر خان خیر تو ہے؟ دادا نے جواب دیا۔ اس کا خانہ خراب ہو۔ شمروز خان نے مجھ سے لیٹے لیٹے ہاتھ ملایا تھا۔ میں بھی لیٹے لیٹے ہی ملاؤں گا۔‘‘ 

    ’’تمباکو کی فصل منڈی میں کب آتی ہے؟‘‘ سوال کا نوٹس نہ لیتے ہوئے بیان جاری رکھا، ’’خان غلام قادر خان سرداروں کا سردار تھا۔ بغیر کلاہ کے ساڑھے چھ فٹ قد۔ ڈنڑ کی مچھلیاں اتنی سخت کہ حجام ان پر استرا تیز کر لیتا تھا۔ ۹۸ سال ی عمر پائی۔ ایک محفل میں بنارس کی ببو طوائف ناچتے ناچتے ان کے سامنے آئی۔ نہ جانے کون سی ادا بھاگئی۔ اپنی ہتھیلی پر کھڑی کھڑی کو اَدھر اٹھا لیا۔ تخت پر سوتا تھا۔ مگر جب تک اس پر اس کا مخصوص گدا بچھا نہ ہو، نیند نہیں آتی تھی۔ اس میں کافر دشمنوں کی مونچھیں بھری تھیں۔ ناشتے میں بارہ انڈے سالم نگل جاتا تھا۔‘‘ 

    ’’سالم؟!‘‘ ہمارے منہ سے بے اختیار نکلا۔ 

    ’’جی ہاں! میں نے تو کسی مرغی کو نصف انڈہ دیتے نہیں دیکھا۔ آخری وقت تک دانتوں سے دنبے کی نلی توڑ کر گودا نکال لیتا۔ بھنا ہوا آدھا برّا چٹ کرکے پارا چنار کے ایک درجن سیب کھاجاتا تھا۔ کبھی دیکھے ہیں؟ چترالن کے گال جیسے ہوتے ہیں۔ پارا چنار سے آگے جو فلک بوس پہاڑ ایران، افغانستان اور پاکستان کی سرحد کا سنتری ہے اسے کوہ سفید کہتے ہیں۔ سارا پہاڑ کالا سیاہ اور ننگا ہے۔ صرف چوٹی پر برف کی ’بکینی‘ (BIKINI) بارہ ماس اٹکی رہتی ہے۔ دادانے یہاں دو برفانی چیتے مارے تھے۔ ننھیال کی طرف سے اس کی رگوں میں تاتاری خون تھا۔ وہ جب جوش مارتا تو اس کا پرنا ناگھوڑی کا دودھ ضرور چکھ لیتا تھا۔ چالیس سفید گھوڑیاں علیحدہ اصطبل میں بندھی رہتی تھیں، جہاں مردوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ گھوڑے کے سوا کوئی قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ 

    اس کے رخساروں پر سنہری رواں چمکا اور آواز دوشاخہ ہونے لگی تو باپ کے حکم کے مطابق ۱۰۱چڑیاں، پیر باندھ کر، علی الصبح اس کے سامنے ڈال دی جاتی تھیں۔ اور وہ اپنے جوتوں تلے ان کے سریکے بعد دیگر کچلتا چلا جاتا تھا۔ کرڑ کرڑ کرڑ۔ ایک سال تک یہی معمول رہا تاکہ دل مضبوط ہوجائے۔ میرا دادا بھی گھوڑوں کا شیدائی تھا۔ دو میل دور سے، ٹاپ سے پہچان لیتا تھا کہ گھوڑے پر کوئی چوڑی چھاتی والا شیر دلیر سوار ہے یا بزدلا۔ کبھی رکاب پر پاؤں رکھ کے گھوڑے پر نہیں چڑھا۔ جب وہ دشمن کے تعاقب میں رات کو تورخم کے پہاڑی راستوں میں گھوڑا ڈالتا تو دور دور تک سموں سے چھوٹتی ہوئی چنگاریوں کی جگمگ جگمگ DOTTED LINE۔۔۔ بن جاتی تھی۔ شب و روز شہسواری کے سبب اس کی ٹانگیں بریکٹ () کی طرح مڑگئی تھیں۔ اس نے پورے ۴۹ سال یعنی اپنی نصف زندگی گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر گزاری۔‘‘ 

    ’’اور بقیہ نصف؟‘‘ 

    ’’اس نے گیارہ عورتیں کیں۔ کھرا، نر آدمی تھا۔ بغیر ڈھال اور زرہ بکتر کے تلوار چلاتا تھا۔‘‘ 

    ’’مگر آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپ کے دادا مرحوم و مغفور کے پاس یہ بندوق تھی۔‘‘ 

    ’’ہاں تھی۔ مگر بندوق سے صرف کافروں کو جہنم رسید کرتا تھا۔ قبائلی رشتہ داروں اور مسلمانوں کو تلوار سے شہید کرتا تھا۔‘‘ 

    کریدتے ہو جو اَب راکھ جستجو کیا ہے؟ ہماری تمباکو کی کھڑی فصل کو پالا مار گیا۔ کچھ دیر بعد ہم نےچھیڑا، ’’مرشدی! آپ نے کبھی عشق کیا؟‘‘ بندوق چھتیاتے ہوئے بولے، ’’خدارا! خاموش رہیے۔ مجھے جنگلی بکرے کی مست بو آرہی ہے۔ بوک بکرا لگتا ہے۔‘‘ ہم نے مولی کی بھجیا اور پراٹھے کی باقی ماندہ ڈکار نگلتے ہوئے خاموشی اختیار کی۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے راکھ کو پھر کریدا، ’’خان صاحب! آپ نے کبھی عشق بھی کیا؟‘‘ 

    ’’آپ کی مراد لونڈے سے ہے، یا زنخے سے؟‘‘ وہ خود استہزائی پر اتر آئے۔ 

    ’’آپ کو کبھی کوئی عورت اچھی لگی؟‘‘ 

    ’’میں نے تو کوئی جوان عورت بدصورت نہیں دیکھی۔ مگر آپ بھی تو اپنے پتے دکھائیے۔ کبھی کسی کو تختہ عشق بنایا؟ شادی والدین کی پسند سے کی یا۔۔۔؟‘‘ 

    ’’کس کے والدین؟‘‘ 

    ’’میرا مطلب ہے، شادی والدین نے طے کی یا اپنی پسند سے کی؟‘‘ 

    ’’میں نے اپنی بیوی کی پسند کی شادی کی۔‘‘ 

    رکوع میں چلے گئے، ’’اپنی شادی تو اس طرح ہوئی جیسے لوگوں کی موت واقع ہوتی ہے۔ اچانک۔ بغیر مرضی کے۔‘‘ کچھ دیر بعد استفسار فرمایا، ’’شادی کے بعد کوئی شکار شکور ہوا یا مچان پہ ٹنگے ٹنگے ہانکا شانکا ہی دیکھتے رہے۔ کوئی AFFAIR؟‘‘ 

    ’’مفلسی وجہ پارسائی ہے۔‘‘ 

    ’’تو مفلس ہی سے سہی۔‘‘ 

    ’’بحمد للہ! ہم بہت قانع اور مُقمح ہیں۔‘‘ 

    ’’یہ مقمح کیا بلا ہوتی ہے جی؟‘‘ 

    ’’مقمح اس اونٹ کے متعلق کہا جاتا ہے جب وہ سیر ہوکر حوض پر سر اونچا کر کے کھڑا ہو جائے۔‘‘ 

    ’’قرآن کی قسم کھا کر بتاؤ یہ لفظ تم نے کس سے سیکھا؟‘‘ 

    ’’جمعہ کے خطبہ میں مولوی خیرالدین نے اس کے فضائل بیان کیے تھے۔‘‘ 

    ’’تو یوں کہو۔ مولوی چاکیوماڑہ ہی میں رہتا ہے۔ اس کی تو دو بیویاں ہیں۔ تیسری مولویائن چند روز ہوئے موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے والے کے ساتھ بھاگ گئی۔ اور کیا کیا فضائل بیان کیے تھے اس مقمح نے؟‘‘ 

    ’’شراب طہور، حور و غلمان اور دیگر لذائز کا ذکر فرمایا تھا اور کہا تھا کہ جو مومن اپنی نظریں نیچی رکھے گا اور پاک دامن رہے گا، اس کو بہشت میں اپنی ہی بیوی حور کی شکل میں ملے گی۔‘‘ 

    ’’خو! پھر مرنے سے فائدہ ہی کیا ہوا؟‘‘ 

    ریڈ کلف سے ہماری بے تکلفی، اس سفر نمونہ سقر میں سب سے کم تکلیف سائیکل کو اٹھانی پڑی۔ بلکہ ہمیں تو سائیکل بھی اٹھانی پڑی۔ آگے آگے رَیڈ کلف چل رہا تھا اور اس کے نقش قدم پر ہم۔ منجملہ دیگر فوائد و فضائل کے، ریڈ کلف کا ایک کھلا فائدہ تو یہ نظر آیا کہ لونڈوں نے سائیکل پر پتھر نہیں مارے کتے کو مارے۔ راستے میں خان صاحب کھوں کھوں کھانسنے لگے۔ پوچھا، ’’کھانسی ہوگئی؟‘‘ بولے، ’’اونہہ! کوئی قابل فکر بات نہیں۔ سگرٹ کا تمباکو ختم ہوگیا۔ اس سے NICOTINE DEFICIENCY (نکوٹین کی کمی) پیدا ہوگئی ہے۔‘‘ ہم نے کہا، ’’نہیں! آپ کئی دن سے کھانس رہے ہیں۔ علاج کیوں نہیں کراتے؟‘‘ بولے، ’’ڈاکٹر شفیع کو گلا دکھایا تھا۔ فیس لے کر کہنے لگے، سگرٹ چھوڑدو۔ میں نے کہا، اگر سگرٹ ہی چھوڑنی ہوتی تو تیرے پاس کیوں آتا؟‘‘ 

    ذرا دیر دم لینے کے لیے ایک پپیتے کے درخت کے نام نہاد سایہ میں بیٹھے تو ہم نے رَیڈ کلف کی دم پر ہاتھ پھیرا کہ یہی حصہ ہمیں اس کے جبڑے سے دور ترین نظر آیا۔ علاوہ ازیں اسے خارش بھی ہو رہی تھی۔ ایک مہینے پہلے خان صاحب کو ہو چکی تھی۔ روانگی سے قبل انہوں نے اسے کار بالک صابن سے خوب رگڑ رگڑ کر نہلایا، لیکن صاحبو، گیلا غسل شدہ کتا سوکھے کتے سے کہیں زیادہ پلید ہوتا ہے۔ ہمیں رَیڈ کلف کی دم سہلاتے اور ثانی الذکر کو آخر الذکر ہلاتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے غور کیجے تو بھونکنا کتے کا حق اور دم ہلانا اس کا فرض ہے۔ اس کافر کے سامنے افغان گرے ہاؤنڈ بھی پانی بھرتا ہے۔ آس پاس کی گلیوں کی کتیا اس پر جان چھڑکتی ہیں۔ 

    ’’تو ہی ناداں چند گلیوں پر قناعت کرگیا۔‘‘ ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ 

    ’’کیا یہ بھی غالب کا ہے؟ اس کتے کی وفاداری کا ابھی سے یہ عالم ہے کہ جس راستے سے میں گزر جاؤں۔۔۔ خواہ کتنا ہی پیچ دار ہو۔۔۔ اس کے دو گھنٹے بعد آپ اسے آنکھوں پر پٹی باندھ کے چھوڑدیں تو یہ میری خوشبو لیتا، اس لیک سے ایک انچ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوگا۔‘‘ 

    ’’لیک نہ کہیے۔ شاہراہِ نسوار کہیے۔‘‘ 

    پان اور کلچر کار چاؤ
    نسوار کا نام آتے ہی بگڑ گئے، ’’سرکار مجرا عرض ہے! پان، تمباکو، گلوری، قوام کے بارے میں حضور کی کیا رائے ہے؟‘‘ 

    ’’پان کی کیا بات ہے! پان میں جب تک کتھا، چونا، چھا لیا اور کلچر ایک خاص تناسب اور نفاست سے آمیخت نہ کیے جائیں، پان پان نہیں بنتا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ آدمی کو کھانا اپنی بیوی کے ہاتھ کا پچتا ہے اور پانی پرائی کے ہاتھ کا رچتا ہے۔ ساجد رضا لکھنوی تو کہتے ہیں کہ گنگا جمنی خاصدان سے ورق لگی گلوری اٹھاکر، صحیح لب و لہجہ اور انداز سے ’آداب عرض! کہنےکے لیے تین نسلوں کا رچاؤ درکار ہے۔‘‘ 

    ’’گستاخی معاف! میرا خیال ہے کہ اگر تین نسلیں اس ترکیب سے پان کھا لیں تو چوتھی نسل ’آداب عرض!‘ کرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوگی۔ اور ہاں! یہ بھی تو آپ ہی نے بتایا تھا کہ ماشاء اللہ خاں ماشا کی کہانی رانی کیتکی۔۔۔‘‘ 

    ’’انشاء اللہ خاں انشاء کہیے۔‘‘ 

    ’’چلو بابا یونہی سہی۔ ایک حال کا صیغہ ہے، دوسرا مستقبل مشکوک کا۔ ’رانی کیتکی‘ کی ہیروئن نے اپنے منہ کی پیک سے اپنے پریمی کو پریم پتر لکھا تھا۔ اور یہ بھی آپ ہی نے بتایا تھا کہ واجد علی شاہ جس زمانےمیں مٹیابرج میں قید فرنگ میں تھے تو انہوں نے لکھنؤ سے معشوق محل کے ہاتھ کے کٹے ہوئے ناخن اور اپنی ایک چہیتی لونڈی کے پان کا اگال بطور نشانی منگوایا تھا۔ ہم نسوار سے کم از کم یہ کام تو نہیں لیتے۔ مجبوبہ کو خط ہم لعاب دہن سے نہیں، خون سے لکھتے ہیں۔ اپنا خون نہیں۔ دشمن کا۔‘‘ 

    ’’قبلہ! خط پتر تو پوسٹ آفس کے ذریعہ ہم جیسے مجبور و اپاہج بھیجتے ہیں۔ آپ تو ماشاء اللہ خود مکتوب الیہ کو مع چارپائی اٹھا لاتے ہیں۔‘‘ 

    ’’اگرایک لفظ بھی زبان سے اور نکالا تو یہیں تمہارا ریتا بنا دوں گا۔‘‘ 

    ابدالی کی نال کا اگلا حصہ پتلون کی بیلٹ سے ہینڈل کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ اس کا دھڑ کبھی ہم بائیں ہاتھ سے تھام لیتے، کبھی کندھے پر رکھ لیتے۔ کندہ پچھلے پہیے سے تین فٹ پیچھے نکلا ہوا تھا۔ ٹائی زیادہ پھڑپھڑانے لگی تو ہم نے اس پر باندھ دی۔۔۔ جس طرح لوہے اور سریوں کے ٹرک کے پیچھے لال جھنڈی لہرا دی جاتی ہے۔ ہم نے پوچھا ہماری غیرموجودگی میں آپ ابدالی کس طرح ڈھوتے تھے؟ بولے، آپ بھی کیسے EMBARRASSING سوال کرتے ہیں! عرض کیا ہم تو محض اپنے علم کو جلادینے کی خاطر پوچھ رہے تھے۔ ہماری ہوس علم پر دھیرے سے مسکرادیے۔ فرمایا بہار کالونی کاایک ملنگ اتوار کے اتوار منگھو پیر ’’دے اس کا بھلا۔ جو نہ دے اس کا بھلا‘‘ کرنےجاتا ہے۔ اسے پیچھے بٹھا لیتا ہوں۔ اندھا ہے۔ آنکھوں والے سب فقیر اس پر رشک کرتے ہیں۔ فقیر کے لیے آنکھیں نہ ہونا بڑی نعمت ہے۔ 

    ۵ 
    اگر فردوس۔۔۔ آخری بریک لگا کر ادھر اُدھر دیکھا تو یقین نہ آیا کہ یہ جگہ ان کی شکار گاہ ہو سکتی ہے۔ منگھوپیر کے اتھلے تالابوں کے کنارے جنگلی بکروں کے پگ مارک کہیں نظر نہ آئے۔ البتہ چند ضعیف مگر مچھ اور ان سے زیادہ ضعیف العقیدہ جذامی غوطے لگا رہے تھے۔ اور ہر دو کے غسل علالت کے پانی کو معمولی جلدی بیماریوں کے مریض اپنےجسم پر ڈال رہے تھے۔ یہاں سائیکل ایک تنور والے کے سپرد کرکے اور چار تنوری روٹیوں کی پیشگی بکنگ کرا کے شکار کی تلاش میں پاپیادہ نکلے۔ خان صاحب نے منگھو پیر کی پہاڑیوں پر نگاہ کی تو دیر تک افسوس کیا کیے کہ سیکڑوں سال سے بے کار بے مصرف پڑی ہیں۔ ورنہ قبائلی جنگ کے لیے اس سے بہتر جگہ، قسم خدا کی، روئے زمین پر تو کیا فردوس میں بھی نہیں ملے گی۔ ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

    ابدالی چلتی ہے
    انہوں نے ابدالی کے کندے کو ایک تین فٹ گہرے گڑھے میں ٹکا دیا اور خود اس کے دہانے پر کھڑے ہوگئے۔ تب کہیں نال ان کے کانوں تک آئی۔ اب بندوق بھرنے کا عمل شروع ہوا۔ بندوق بھرتے جاتے اور اس کی ہلاکت خیز خوبیاں بیان کرتے جاتے۔ ’’ہالینڈ اینڈ ہالینڈ، ویبلی اسکاٹ اور پرڈی کی بندوقیں تو اس کے سامنے ٹین کی پھنکیاں ہیں پھنکیاں!‘‘ ٹائلٹ پیپر، گتے کی ٹکلیاں، اونٹ کی مینگنی، ببول کے زرد زرد پھول، بارود، چھروں اور گالیوں کی لاتعداد تہیں جمائی گئیں۔ ہر تہ کے بعد آہنی گز سے ٹھونکنے، کوٹنے کا کام ہمارے سپرد ہوا۔ اور ہم ہر تہ کو کوٹتے رہے، کوٹتے رہے تاوقتیکہ جملہ مسالہ جات اور ہ، یکجان نہ ہوگئے۔ 

    آخر میں ٹوپی چڑھائی گئی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اس کارروائی میں ایک گھنٹہ لگا تو مبالغہ ہوگا، اس لیے کہ ۵۵ منٹ لگے تھے، جن میں دس منٹ نابالغ اونٹ کی مینگنی (چھوٹی نہ بڑی، بلکہ منجھولی، جو نال میں اس طرح چلی جائے گویا اسی کے لیے ڈھالی گئی تھی) تلاش کرنے کے ہم نے شامل نہیں کیے۔ تین چار دفعہ رنجک چاٹنے اور اتنی ہی زبانوں میں گالی کھانے کے بعد ابدالی چلی ہے تو ایک عالم تھا۔ 

    پرنداں نمی پرند
    ہم نے ایسا دھماکا زندگی میں نہیں سنا تھا۔ ہم تو ہم، چرندے، پرندے اور گزندے تک اپنے حواس خمسہ، یا جتنے بھی ان کے حواس ہوتے ہیں، کھو بیٹھے۔ بھیڑوں کو ہم نے زندگی میں پہلی بار مختلف سمتوں میں بھاگتے دیکھا۔ منگھوپیر کے مگر مچھ گھبرا کر تالابوں سے باہر نکل آئے اور تماشائی تالابوں میں کود پڑے۔ جس جگہ ہم پانی کی چھاگل چھاتی پہ رکھے چکراکر گرے تھے، وہاں سے ہم نے چند لمحوں تک ایک پہاڑی کو بھی قلابازی کھاتے دیکھا۔ ہمارا حال، بالمراحل، مثنوی گلزار نسیم کے آدم خور دیو جیسا ہوا، 

    تیورا کے وہیں وہ بار بردوش
    بیٹھا تو گرا، گرا تو بے ہوش

    خدا نے خیر کی، ورنہ بیچ میں اگر گڑھا حائل نہ ہوتا تو خان صاحب بندوق کے دھکے سےاس پار نہ جانے کتنی دور پتھروں میں جا کر گرتے۔ بھونچال ہی گو آ گیا۔ فضا میں دور دور کاغذ کے پرزے، سگرٹ کی پنی، گتے کے ڈاٹ، دھول، دھواں اور نہ جانے کیا کیا اڑنے لگا۔ ان تمام اشیاء کی مدد سے انہوں نے چھروں کو شکار کے مدار میں پہنچایا۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی۔۔۔ یعنی چھ انچ تک۔۔۔ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ہم نے اپنے چہرے پر جمے ہوئے آتش گیر فضلے کو رومال سے پونچھا۔ ابھی تک فضا میں لاتعداد چیزیں، مع ہمارے ہوش کے، اڑ رہی تھیں۔ چھرے تو چھرے، نابالغ اونٹ کی مینگنی تک مع ٹائلٹ پیپر شکار کا تعاقب کر رہی تھی۔ اب کچھ کچھ سمجھ میں آیا کہ مرہٹے پانی پت میں میدان چھوڑ کر کیوں بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ 

    خان صاحب نے قدرے توقف کرنے کا اشارہ کیا تاکہ جب ہراڑنے والی چیز زمین پر گر چکے تو پتہ چلے کہ ان میں سے کون سی غیر پرند تھی۔ پھر پانچ منٹ بعد دونوں نے ہرگری ہوئی چیز کو اٹھا اٹھا کر دیکھا کہ یہ سابق پرند تو نہیں۔ بعد تلاش بسیار، کیکر کی اوٹ میں ایک تیتر کا بچہ نظر آیا جسے ہم نے رومال ڈال کر آسانی سے پکڑ لیا۔ یہ اڑ نہیں سکتاتھا۔ اس کے جسم پر چھرے کا کوئی نشان نہ تھا! کھسیانے ہوگئے۔ فرمایا کہ پینتالیس سال پہلے میں اپنے سوتیلے بھائی کے سرپر اخروٹ رکھ کر اڑا دیتا تھا۔ لیکن اب پرندے ایک لحظہ نچلے نہیں بیٹھتے۔ نشانہ خطا ہوتے ہی وہ پرند کے شجرہ نسب کی زنانہ شاخوں پر ہلہ بول دیتے۔ سب جانوروں اور پرندوں کو پشتو میں گالی دیتے، لیکن کبوتر سے اردو میں خطاب فرماتے۔ کہتے تھے کبوتر سید ہوتا ہے۔ 

    ہماری چپاتی کا الٹا سیدھا
    تین فاختائیں گرانے کے بعد انہوں نے ہمیں سوکھی ٹہنیاں، تنکے، چھپٹیاں اور جھاڑ جھنکار جمع کرنے کا حکم دیا اور خود چولہے کا ڈول ڈالا۔ ابدالی میں پرندے کے پر نوچنے اور آلائش نکالنے کا آٹومیٹک انتظام تھا۔ وہ اس طرح کہ دس فٹ کے فاصلے سے (یہی بندوق کی لمبائی ہوگی) چھروں کی باڑھ سے اس کے سارے پر و بال مع بازو اڑجاتے تھے۔ بعض اوقات تو مرحوم کا قیمہ اور باقیات دیکھ کر یہ بتانا مشکل ہو جاتا کہ اس کا تعلق کس نسل سے ہے۔ خان صاحب نے نچی نچائی فاختائیں بندوق کے گز (جو دوگز لمبا تھا۔ فرماتے تھے کہ لڑکپن میں ایک دفعہ گز پر جھاڑی باندھ کر لاہور میں بسنت پر پتنگ لوٹے تھے۔) میں پروکر آگ پر بھونیں۔ بھونتے بھونتے کہنےلگے کہ دیگچی سے تہذیب یافتہ انسان وہ کام لیتا ہے جو قدیم زمانےمیں معدے سے لیا جاتا تھا۔ یعنی غذا کو گلانا۔ 

    آپ کی کراچی میں تو قیمے میں بھی پپیتے کی لگاوٹ لگاتے ہیں۔ حد یہ کہ سادہ پانی ہضم کرنے کے لیے اس میں فروٹ سالٹ ملاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو روٹی بھی پتھر پر پکتی ہے۔ اور آٹے کا کیا کہنا! جس چکی کا پسا ہم کھاتے ہیں وہ ندی کے کنارے فاختہ کی طرح کو کو، کو کو کرتی جاتی ہے اور آدم کو جنت سے نکلوانے والی شے پیستی جاتی ہے۔ گستاخی معاف! کراچی کی روٹی تو دونوں طرف سے الٹی معلوم ہوتی ہے۔ کراچی بھی عجب شہر ہے! آپ ہماری نان کھاکر باڑہ کا دو گھونٹ پانی پی لیں تو قسم وحدہٗ لاشریک کی، یا تو حکومت کے خلاف فی الفور بغاوت کردیں یا قاضی کے سامنے پھر سے ہار پھول پہن کر بیٹھ جائیں۔ 

    خان صاحب نے دو فاختائیں ہمیں عنایت کیں اور ایک چھوٹی سی ٹوٹرو فاختہ پر توکل فرمایا۔ ہم نے تکلفاً ایک بڑی فاختہ واپس کرنا چاہی تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ ٹھیک سے ذبح نہیں ہوئی تھی۔ روٹی کے بارے میں یہ طے ہوا کہ اس کا روکھا بھگتان تنور پر پہنچ کر کردیں گے۔ ہماری مسلم فاختہ میں چھرے ہی چھرے بھرے ہوئے تھے، جنہیں ہم پپول پپول کر اس طرح تھوک رہے تھے جیسے جننگ فیکڑی چھانٹ چھانٹ کر بنولے پھینکتی جاتی ہے کہ روئی کی روئی، بنولہ کا بنولہ الگ ہو جاتا ہے۔ کھانے کے بعد چھاگل سے پانی نکال کر تام چینی کے مگ میں ابالا۔ تھیلے میں سے چائے کی پتی اور چینی نکالی اور ایک بکری کو پکڑ کے چوتھا جزو نکالا۔ 

    ہمارا کچے گھڑے سے دریا پار کرنا، شکار ختم ہوا تو ہم پھر حرفِ مطلب زبان پر لائے۔ تمباکو کے بارے میں بھی کچھ ہو جائے۔ کہنے لگے اس برگِ حرام کے بارے میں ایک اہم بات یہ اور یاد رکھیے کہ یہ واحد پودہ ہے جس پر کوئی پرندہ چونچ نہیں مارتا۔ چنانچہ آج تک کوئی پرندہ حلق کے کینسر اور مالی مشکلات میں مبتلا نہیں پایا گیا۔ آپ نوٹس لینے کے شوقین ہیں، بے شک نوٹ کرلیجیے۔ ہماری ہمت بڑھی۔ پوچھا، ’’اور اس کی کاشت کے لیے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں؟‘‘ فرمایا، ’’تمباکو کے پودہ جات کے لیے مٹی اور پانی نہایت ضروری ہیں۔‘‘ پوچھا، ’’اور آب و ہوا؟‘‘ فرمایا، ’’ہاں! وہ بھی ہونی چاہیے۔‘‘ 

    یہ تھی امرت کی وہ بوند جو سارے ساگر کو متھ کر ہم نے نکالی۔ واپسی میں ادھر ادھر کے موضوعات کی کمین گاہ سے نکل کر ہم نے آخری وار کیا۔ 

    ’’ضلع مردان میں تمباکو پہلے پہل کس سنہ میں اگایا گیا؟‘‘ فرمایا، ’’یہ کون سا سنہ ھ ہے؟‘‘ 

    ’’یاد نہیں۔‘‘ 

    ’’نور جہاں کا باپ کون سے سنہ میں دختر نیک اختر کو رخت سفر میں باند ھ بوندھ کر ہندوستان میں وارد ہوا؟‘‘ 

    ’’یاد نہیں۔‘‘ 

    ’’سکندر لودھی کی والدہ نے بابر کو کون سے سنہ میں کوہِ نور ہیرے کی نذر گزرانی تھی؟‘‘ 

    ’’یاد نہیں۔‘‘ 

    ’’آپ کتنے سال پہلے پیدا ہوتے تو نادر شاہی قتل عام میں مارے جاتے؟‘‘ 

    ’’خبر نہیں۔‘‘ 

    ’’تو پھر تمباکو کی تخم ریزی کا سنہ جانے بغیر آپ مولی کی بھجیا ہضم نہیں کر سکتے؟ علم کے زور سے آپ اسکول ماسٹری کر سکتے ہیں، بینک میں افسری نہیں کر سکتے۔ کچے گھڑے سے یہ دریا پار نہیں ہونے کا۔ فلسفہ پڑھ کے آدمی صرف ایک کام کرسکتا ہے، دوسروں کو فلسفہ پڑھا سکتا ہے۔ فلسفہ پڑنےکے بعد سود کھانے سے ٹھنڈا گرم ہوجاتا ہے۔‘‘ 

    لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے! 

    شائستہ لوگ کیسے گالی دیتے ہیں، پاکستانی بزنس مین، بیوروکریٹ اور بینکر کی ڈکشنری میں ’’انٹلکچویل‘‘سے زیادہ سڑی گالی کوئی نہیں۔ اور ہم یہ بات ساری عمر یہی گالی کھاکے بے مزا ہوئے بغیر کہہ رہے ہیں۔ شروع شروع میں یہ عجیب سا لگا کہ ڈپٹی جنرل منیجر سے لے کر چپراسی تک، سب ہی ہماری ایم۔ اے کی ڈگری کا مذاق ضرور اڑاتے ہیں۔ حالانکہ ہم نے بارہا اطمینان دلایا کہ ہم نے فلسفہ میں ایم۔ اے محض دفع الوقتی کے لیے کیا تھا۔ تعلیم ہرگز مقصود نہ تھی۔ علم کے قد بالا پر قبائے معاش تنگ ہی نہیں چٹکیوں سے جگہ جگہ سے مسکنے لگی تھی۔ حد یہ کہ بینک کے اکاونٹنٹ بھی جو ایک مڈل اسکول کے فارغ التحصیل تھے اور خود کو بجا طور پر انڈر گریجویٹ کہتے تھے (بجا اس لیے کہ کنڈر گارٹن سے لے کر تھرڈ ایر تک اگر ہم انڈرگریجویٹ نہ کہیں تو کیا پوسٹ گریجویٹ کہیں گے؟ ) وہ بھی جہاں ہم سے جمع و تفریق کی کوئی خطائے جلی یا خفی ہوجائے، اسی ڈگری پر ہاتھ ڈالتے تھے۔ 

    ایل۔ ایل۔ بی کو تو پھر بھی لوگ ایک مکمل اور بین معذوری سمجھ کر معاف کردیتے تھے، لیکن فلسفہ کا ایم۔ اے؟ ہمارے ہاں مذاق کانے کا اڑایا جاتا ہے۔ اندھے کو اندھا اور نائی کو نائی نہیں کہتے۔ حافظ جی اور خلیفہ کہتے ہیں۔ حد ادب یہ کہ جس نے استرے سے حضرت احسان دانش کے گہرا چرکا لگایا، اس نائی کو انہوں نے الزاماً ناعی لکھا ہے۔ فیض صاحب کہ مشکل پسند آدمی ٹھہرے، اپنی شاعری کے صلہ میں وصل کے علاوہ کچھ اور راحتیں بھی مانگتے ہیں۔ دار اور پھانسی سے کم کی بات نہیں کرتے۔ لیکن ہم تو اپنے آپ کو سطح زمین سے اتنی بلندی پر دیکھنے کے آرزومند نہ تھے۔ پھر یہ بزرگ کیوں ہمیں روز صبح نو بجے سے شام کے سات بجے تک اس ڈگری کی سولی پر چڑھائے رکھتے تھے۔ ہم خود بھی نیچے اترنا زیادہ مہلک سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ نیچے تو وہ خود ہوتے تھے۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ زارِ روس نے اپنی ملکہ کیتھرین کو یہ سزا دی تھی کہ اس کے آشنا کا سر قلم کرکے اسپرٹ کے بلوری مرتبان میں اس کی خواب گاہ میں عین نظروں کے سامنے سجا دیا تھا۔ سو ہماری یہ داشتہ آید ڈگری بھی کچھ اسی قبیل کی چیز نکلی۔ 

    ہم نے کہا، ’’آپ بجا کہتے ہیں۔ جو کچھ پڑھا لکھا، وہ ہمارے کچھ کام نہ آیا۔ ایم۔ اے فلسفہ تو بعد کی بات ہے، ہم تو زندگی کا کوئی مسئلہ میٹرک کے الجبرا کی مدد سے بھی حل نہ کر سکے۔ تین دن ہوئے بچی سخت بیمار تھی۔ اس کے لیے انجکشنوں کی ضرورت پڑی۔ ہم نے نیورسٹی میں اول آنے کا گولڈ میڈل جو کئی سال سے بیکار پڑا تھا، پروفیسر قاضی عبد القدوس کے ہاتھ میٹھادر (صرافہ) میں بکوا دیا۔ ڈھائی تولہ کا طلائی تمغہ ۲۷روپے میں بکا۔ آگرہ یونیورسٹی نے چاندی پر سونے کا پتر چڑھوا دیا تھا۔ قاضی عبد القدوس نے ۷ روپے نقد اور ۲۷ روپے کی سالم رسید ہمیں تھمادی۔ کہنے لگے ۲۰ روپے ذرا خرچ ہوگئے۔ بڑی سخت ضرورت تھی۔‘‘ 

    خان صاحب چونک کر سائیکل سے اتر پڑے، ’’اچھا! ہم پر بھی ذرا پیغمبری وقت آن پڑا ہے۔ یہ انگوٹھی بیچنی ہے۔ صراف کا پتہ کیا ہے؟ اعتباری آدمی ہے؟‘‘ دوسرے دن لنچ کے وقفہ کے بعد ہمارے پاس آئے اور علیحدہ لے جاکر ایک لفافہ ہمیں تھما دیا۔ اس میں ہمارا گولڈ میڈل تھا۔ ان کی انگلی میں انگوٹھی نہیں تھی۔ 

    دوست آں باشد کہ۔۔۔ شکار تو ایک بہانہ تھا، ورنہ اصل مقصد اپنی طبیعت اور ابدالی کا زنگ دور کرنا تھا۔ اس رفیقہ کو کندھے پر رکھتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا، ’’خیر میں تو پھر بھی پتا مارلوں۔ مگر اس پٹھانی کو ہفتہ واری ورزش چاہیے۔‘‘ منگھوپیر کی جن ’’پہاڑیوں‘‘ کو وہ اکھیڑ کر قبائلی علاقے میں لے جانا چاہتے تھے، ہمیں تو وہ ایسی لگیں جیسے ریگستان کو گرمی دانے نکل آئے ہوں۔ بارش کے ایک ہی چھینٹے میں بھوسی سی اڑجائے گی۔ اس تاریخی شکار کے بعد مساوات سی ہوگئی۔ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔ استاد شاگرد کا فرق مٹ گیا۔ مطلب یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے استاد ہو گئے اور نجی معاملات میں ایک دوسرے کو نہ صرف غلط مشورے دینے لگے، بلکہ ان پر سختی سے عمل بھی کرنے لگے۔ شام کو توڑ کے وقت ایک دوسرے کے کام میں ہاتھ بٹاتے۔ باہمی صلاح و مشورے کے بغیر کبھی کوئی غلطی نہیں کرتے تھے۔ 

    بینک کے ’’لیجر‘‘اور صفحات کے ہر کالم میں بالعموم تیس پینتیس اندراجات ہوتے ہیں۔ انہیں روانی کے ساتھ ٹوٹل کرنے (جوڑنے) میں ان دنوں ہمیں خاصی دشواری ہوتی تھی۔ کبھی پائی کھا جاتے کبھی آنے بڑھادیتے۔ اور روپیوں کا صحیح حاصل لگانا تو کبھی یاد ہی نہیں رہتا تھا۔ (خان صاحب کھینچ تان کے ہمارے آنوں کی ناف تو بٹھا دیتے مگر دونوں طرف کی پسلیاں توڑ دیتے تھے۔ یعنی پائیوں اور روپیوں کا میزان نہیں ملتا تھا۔) پروفیسر قاضی عبد القدوس ایک شام اپنی زیارت کروانے بینک آئے تو ہم نے حاصل بھول جانے کی عادت کا ذکر کیا۔ ارشاد ہوا، ’’آپ بھی وہی کیجیے جو واجد علی شاہ کرتا تھا۔‘‘ 

    ’’یہاں بینک میں؟‘‘ 

    ’’اور کیا! واجد علی شاہ مٹیا برج میں نظربند ہونے کے بعد نماز پڑھنے لگے تھے مگر رکعتیں بھول جاتے تھے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایک چوبدار ہر رکعت کے بعد ایک بادام جانماز کے حاشیے پر رکھ دیتا تھا۔ تاجدار اودھ ہر سجدے کے بعد کنکھیوں سے بادام گن کر یہ فیصلہ کرتے کہ انہیں پھر خدا کے حضور رکوع و سجود کرنا ہے یا آرام سے التحیات پڑھنی ہے۔‘‘ 

    ہماری عرائض نویسی
    ایک دن کہنے لگے ہر چند کہ آپ کی انگریزی اتنی اچھی تو نہیں جتنی میری پشتو، تاہم ایک درخواست انگریزی میں اس مضمون کی لکھ دیجیے کہ مجھے فوراً ترقی دے کر مردان کا منیجر بنا دیا جائے۔ زور پیدا کرنے کے لیے آخر میں یہ بڑھا دیجیے کہ مکرر آنکہ، اس علاقے میں جو رقمیں ڈوبیں گی، انہیں سوائے میرے کوئی تخمیر وصول نہیں کر سکتا۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ جس علاقے کا ہرن ہوتا ہے وہیں کے کتوں کے قابو چڑھتا ہے۔ اس کا لفظی ترجمہ کردیجیے۔ 

    ہم نے کہا مگر مردان میں تو بینک کی کوئی شاخ نہیں ہے۔ بولے مجھے ترقی دینی ہے تو پدرسوختہ کو شاخ بھی کھولنی پڑے گی۔ اورہاں یہ بھی صاف صاف لکھ دیجیے کہ اگر میری ترقی نہ ہوئی تو میں پڑوسی کی لڑکی کو ٹیوشن پڑھانی شروع کردوں گا۔ ہم نے کہا یہ دھمکی تو پڑوسی کو دہلا سکتی ہے، انگریز جنرل منیجر اس سے خوف نہیں کھائے گا۔ جھلا کر بولے تو پھر یہ وارننگ دے دیجیے کہ میں SPANISH CIVIL WAR میں چلا جاؤں گا۔ ہم نے کہا مگر یہ خانہ جنگی تو بند ہو چکی۔ بولے افوہ! میں نے دودنِ سے اخبار نہیں دیکھا۔ عرض کیا اسے ختم ہوئے تو تیرہ سال ہو گئے۔ فرمایا اچھا تو پھر کوئی اور مناسب دھمکی تحریر کر دیجیے۔ 

    ہم نے ایک نہایت فدویانہ عرضداشت ایک انگلی سے ہجے کرکرکے اس طرح ٹائپ کی جیسے ملکہ پکھراج اور طاہرہ سید گانا ٹائپ کرتی ہیں۔ اس میں حضور فیض گنجور کی توجہ، کمترین کی ذہانت اور اہلیت سے زیادہ اس کی ضعیف العمری، کثیر العیالی اور غبن سے پیدائشی نفرت کی طرف منعطف کرائی۔ بکراہت دستخط کرنے کے بعد انہوں نے اس کے چاروں طرف اپنے ہاتھ سے سیاہ ماتمی حاشیہ کھینچا۔ اب ایک ایک سے کہتے پھر رہے ہیں کہ میں نے جنرل منیجر سے جواب طلب کرلیا ہے کہ میری ترقی تین سال سے کیوں رکی ہوئی ہے۔ کل ہی تخمیر نے مجھے بلایا۔ میرے ’شوکاز نوٹس‘ کو حرفاً حرفاً پڑھا۔ اپنا ’پارکر‘ ہتھیلی پر رکھ کر مجھے پیش کیا اور کہنے لگا خود اپنا پروموشن آرڈر لکھو اور جہاں چاہو خود کو پوسٹ کرلو۔ 

    حیرت ہمیں اس پر ہوئی کہ چھ ہفتے کے اندر اندر مردان میں بینک کی شاخ کھل گئی اور وہ سچ مچ اس کے منیجر مقرر ہوگئے۔ انہوں نے ہمیں کامیاب درخواست لکھنے پر مبارکباد دی اور وہ انگلی چومی جس سے ہم نے ٹائپ کیا تھا۔ اس دن سےوہ ہماری انگریزی دانی اور ہم ان کی انگریز شناسی کےقائل ہوگئے۔ یہ ان کی محبت تھی کہ اٹھتے بیٹھتے ہماری عرائض نویسی کی داد دیتے ورنہ، انہی کے بقول، پھنسی ہوئی گھوڑی نکلوانے کے بعد کون کسی کو پہچانتا ہے۔ ہم نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مرزا سے کہا، ’’دیکھا! یہ سب قوتِ ارادی کے کرشمے ہیں۔ قوتِ ارادی سے پہاڑ بھی جگہ سے ہل جاتے ہیں۔‘‘ فرمایا، ’’اگر تمہاری مراد پہاڑ کی اپنی قوت ارادی سے ہے تو مجھے بھی اتفاق ہے!‘‘ 

    طبع آزاد صوم و صلوۃ کی پابند نہ تھی۔ ماہ صیام میں ہمارے ساتھ اسٹیشنری روم میں چائے پیتے ہوئےارشاد فرمایا کہ ’’رمضان میں ذرایہ قباحت ہے کہ سحری اور افطاری کرنےسےلنچ اور ڈنر کی اشتہا میں فرق آجاتا ہے۔‘‘ ہم نے پوچھا، ’’ حضور نےکبھی کھانا قضا بھی کیا؟‘‘ فرمایا، ’’ہاں! بارہ سال پہلے تین روزے رکھے تھے۔ ہر ایک سےتکرار۔ جس سے دیکھو گالی گفتار۔ اس کو جھڑکا۔ اس کو ڈانٹا۔ اور تو اور، اپنے باس کے طمانچہ مار دیا کہ روزہ رکھتا ہے۔ نماز کیوں نہیں پڑھتا؟ اس کے بعد دونوں روزوں سے تائب ہوئے۔ چوتھے روزے سے باسی عید تک ایک ایک کے گھر جاکر فرداً فرداً معافی مانگتا رہا۔ اب مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ ہر ایرے غیرے کی ٹھوڑی میں ہاتھ دے دے کر معافیاں مانگتا پھروں۔ 

    نوشہرہ کی لڑائی
    جس زمانے کا یہ ذکر ہے اس کے اٹھارہ انیس سال بعد ۱۹۷۰ میں نوشہرہ جانے کا اتفاق ہوا۔ جنوری کی ایک نہایت یخ صبح تھی۔ تورخم کے پہاڑوں پر دودن سےبرف گر رہی تھی۔ ہم بینک کی زیرتعمیر عمارت کے سامنےدھوپ میں نقشہ پھیلائے ٹھیکیدار سےالجھ رہے تھے۔ پہلا نزاعی مسئلہ تو یہ تھا کہ دوسری منزل پر جہاں زینہ ختم ہوتا تھا، سیڑھی سے چھت کی اونچائی ٹھیکیدار کے قد کے برابر تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ پانچ فٹ ایک انچ سے زیادہ لمباکوئی شخص رات کو تیزی سے چڑھتا چلا جائے تو آخری سیڑھی پر اس کے سرپر غرور کا زائداز ضرورت حصہ خود بخود علیحدہ ہوجائے۔ ٹھیکیدار کا موقف تھا کہ اول تو نقشہ پاس کرتے وقت ہماری آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ دوم، یہ تو ایک طرح کا SAFETY DEVICE (حفاظتی تدبیر) ہے۔ بینک سے نقب زنوں اور ڈاکوؤں کے سر بریدہ لاشے آئے دن اس طرح نکلیں گے جیسے گردن تراش چوہے دانوں میں سے لالچی چوہوں کی لاشیں۔ 

    دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ڈرائنگ روم بالائی منزل پر تھا اور ظالم نے ڈھلان ایسا رکھا تھا کہ اس منزل کے تمام کمروں اور ساری چھت کا پانی پچھلی بارش میں ڈرائنگ روم میں کھڑا ہو گیا۔ خیر، اس کا حل تو اس نے یہ نکالا کہ ڈرائنگ روم میں ایک کشادہ موری نکال دی جائے گی۔ اس سے پانی کا آخری قطرہ تک کھینچ کر نیچے کھڑی ہوئی کار پر گرے گا، جس سے وہ دھل دھلاکر جھماجھم کرنےلگے گی۔ نقشہ میں یہ کار برابر دکھائی گئی تھی۔ بے دھیانی میں ہم نے یہ نوٹس نہیں کیا تھا کہ یہ اتنی چمک کیوں رہی ہے۔ 

    چاہِ یوسفی
    چوتھا قضیہ یہ کہ نچلی منزل میں مہمان کے کمرے کے سامنے بلکہ عین دہلیز پر ایک ۲۵ فٹ گہرا کنواں تھا جسے وہ بھرنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں تھا، اس لیے کہ اس کا پانی بہت میٹھا تھا۔ نقشہ میں اس کنویں کی جگہ ایک گول نشان بنا ہواتھا جسے ہم نے ستون سمجھ کر نقشہ پاس کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد ہم نے ایک امریکن خاتون آرکیٹکٹ سے کراچی کے ایک آفس کا نقشہ بنوایا تو اس میں ہمیں بیس ایسے نشان نظر آئے۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ ہم نے پوچھا بی بی! اتنے بہت سےکنوؤں کا کیا کریں گے؟ ٹھنڈے میٹھے پانی کے ہیں؟ وہ ہکا بکا رہ گئیں۔ شادی کی انگوٹھی کو تیزی سے انگلی پر گھماتے ہوئے بولیں مجھے پاکستان میں دفتر ڈیزائن کرتے ہوئے آٹھ سال ہو گئے۔ مگر ایسا مذاق کسی CLIENT نے آج تک نہیں کیا۔ آپ کو یہ خیال کیسے آیا؟ پھر یہ کہ پانچویں فلور پر کنویں کیسے کھودے جا سکتے ہیں؟ سنا ہے آپ اردو میں JOKES لکھتے ہیں۔ کیا اردو میں ستون کو کنواں کہنا FUNNY بات ہوتی ہے؟ 

    ذکر نوشہرہ کے ٹھیکیدار اور چاہ شیریں کا ہو رہا تھا، بات کسی اور میٹھے دھارے میں بہ نکلی۔ کافی دیر جھک جھک کے بعد سمجھوتا ہماری اس تجویز پر ہوا کہ متنازعہ کنویں کو SOAK-PIT میں تبدیل کر دیا جائے۔ ٹھیکیدار اس اخلاقی فتح پر بہت مسرور و نازاں تھا کہ گڑھا اپنی جگہ قائم رہے گا۔ نام میں کیا رکھا ہے۔ 

    فن تعمیر کی نزاکتوں پر ابھی بحث و تکرار کا دروازہ (جواب تک بارہ دری بن چکا تھا) بند نہیں ہوا تھا کہ عمارت کے سامنے ایک تانگہ، جس کا دایاں پہیہ بھینگا تھا، آکر رکا۔ اس سے خان صاحب برآمد ہوئے۔ ہمیں سر راہ زور زور سے جھگڑتے دیکھا تو سلام دعا کے تکلفات کو بالائے بندوق رکھ کر پہلے ٹھیکیدار سے اس کا اور اس کے باپ کا نام پوچھا اور پھر اس کا نام، مع ولدیت، لے لے کر گالیاں دینی شروع کردیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں تھی کہ قضیہ کیا ہے اور کون حق پر ہے۔ وہ دوست کے ساتھ تھے۔ گالیاں اور ریتا بنانے کی دھمکیاں بڑھنے لگیں اور ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا تو ہم نے ثالث بن کر بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کرایا۔ اسے قرار واقعی سزا دینے کے بعد انہوں نے ’’بائی دی وے‘‘ جرم کی نوعیت سمجھنے کی کوشش کی اور چٹکی بجاتے مسائل نمبر ۳ اور ۴ کا ایک جڑواں حل یہ پیش کیا کہ بینک کے سامنے جو شیشم کا گھنا درخت عمارتی حسن کو داغدار کر رہا ہے اسے اکھیڑ کر متنازعہ کنویں میں لگادیا جائے۔ 

    پھول کی معراج
    غصے کی لالی چہرے سے رخصت ہوئی تو خان صاحب کو دیکھ کر کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ ریٹائر ہونے کے بعد ایک عرصہ سے عزلت گزیں تھے۔ غالباً بینک ہی کے کسی آدمی نے انہیں ہماری آمد کی اطلاع کردی تھی اور وہ تانگہ پکڑ کے ایسی شدید سردی میں آٹھ میل نوشہرہ ملنے آئے تھے۔ سرپر کتھئی رنگ کا اونی کنٹوپ جسے پورا کھول لیں تو منہ کا لیٹر بکس سابن جاتا ہے۔ ملیشیا کی شلوار قمیص۔ تہ کی ہوئی سفید چادر کا سینہ پر کراس بنائے ہوئے۔ کف کے بٹن اور مصنوعی دانت غائب۔ منہ کی پڑیا سی بندھ گئی تھی۔ ہاتھ اور انگلیاں جیسے بوڑھے درخت کی جڑیں۔ ایک آنکھ پر سبز رنگ کا چھجے نما کپڑا جو روشنی سے بچنے کے لیے آنکھ بنوانے کے بعد بعض لوگ لگاتے ہیں۔ شانے خمیدہ۔ چہرہ گرد ملال سے اٹا ہوا۔ انگیٹھی کے سامنے بھی ہم نے اپنے دونوں ہاتھ بغل میں دے رکھے تھے اور محسوس ہو رہا تھا گویا جوتوں میں انگلیوں کی جگہ برف کی ڈلیاں رکھی ہیں۔ پشاوری چپل میں ان کے پاؤں موزوں سے بے نیاز تھے۔ وہ ہمارے لیے دھوپ چھوڑ کر، ایک طرف سائے میں بیٹھ گئے۔ 

    وقت نے کیسی عمارت ڈھائی تھی۔ دوبارہ آنکھ بھر کر دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ بہت سوچا، کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہیں۔ آخر یہ مشکل انہوں نے آسان کردی۔ کہنے لگے، ’’ہائے! یوسفی صاحب! یہ آپ کو کیا ہوگیا؟ وہ ہمارا دلدار کہاں گیا؟‘‘ ہم نے کہا، ’’آپ نے بڑی زحمت کی۔ میں کار بھیج کر بلوا لیتا۔‘‘ جواب میں انہوں نے انگلی سے ابدالی کی طرف اشارہ کیا جو کار میں صرف اس صورت میں کھڑی کی جا سکتی تھی کہ چھت میں ایک سوراخ کردیا جائے جس میں سے نال چمنی کی طرح نکلی رہے اور سلگتی گالیوں کا دھواں خارج ہوتا رہے۔ 

    پوچھا آج کل کیا شغل ہے؟ بولے اسی برگ حرام کی کاشت کی تھی۔ پوری کھاد، پورا پانی اور پراویڈنٹ فنڈ ڈالا۔ مگر عجب باؤلی منڈی ہے۔ جب فصل زور دارہوئی تو قیمتیں گر گئیں۔ اور جب میری ساری فصل کو پالا مار گیا تو چڑھ گئیں۔ بس اسی جوار بھاٹے میں سب کچھ بہہ گیا۔ اب طبیعت میں مندی کارجحان پایا جاتا ہے۔ ہم نے آنکھ کے آپریشن پر اظہار افسوس و ہمدردی کیا تو دوسری آنکھ سے مسکراتے ہوئے بولے، ’’جی ہاں! میری آنکھیں اب اتنی کمزور ہوگئی ہیں جتنی آپ کی بیس سال پہلے تھیں۔‘‘ 

    کچھ دیر بعد انہوں نے ایک ٹرے سےخوان پوش ہٹایا۔ کہنے لگے، ’’آپ کے لیے ریتا لایا ہوں۔ بیٹی نے ساری رات جاگ کر پکایا ہے۔‘‘ 

    ’’اور بھابی۔۔۔؟‘‘ 

    انہوں نے مضبوطی سے ابدالی کو تھاما اور سر جھکا لیا۔ ہمیں اپنے سے زیادہ دل گرفتہ دیکھ کر کہنے لگے، ’’مادے چہ زہ بہ درتا جارم تہ دبیدیانہ ستر کے سرے راورے ماینہ۔ (میں تو تمہارے پاس رونے کو آیا تھا مگر تمہاری آنکھیں تو پہلے ہی سرخ ہیں) یہ آپ کو کیا ہوگیا؟ آدھ گھنٹہ گزر گیا۔ آپ نے ایک مصرع تک نہیں پڑھا۔ کوئی شعر سنائیے۔ جی بہت اداس ہے۔‘‘ 

    ’’وہ باتیں، وہ راتیں سب خواب و خیال ہوئیں۔ وہ جوان مرگیا۔ اب تو آپ سنائیے۔‘‘ 

    ’’خاوندہ ما کل دکلاب کری
    چہ دجانان پہ غپز کبز پانرے، پانرے شمہ‘‘

    (اے خدا! مجھے گلاب کا پھول بنا دے کہ میں محبوب کی آغوش میں پتی پتی ہوکر بکھر جاؤں۔) 

    رخصت ہونے لگے تو ملیشیا کی قمیص پر موتیوں کی مالا بکھر گئی۔ ابدالی پر سرٹیک کر کہنے لگے، ’’بچے سب گھر بار کے ہوئے۔ وقت ناوقت ہوا چاہتا ہے۔ منزل اب دور نہیں۔ بابا نے مجھ سے یہ بندوق پہلے پہل چلوائی تھی تو میری عمر سات سال تھی۔ ۶۵ سال کی سنگی ساتھی ہے۔ اس نے بہت دکھ بٹائے ہیں۔ کبھی کبھی موہوم سی خواہش ہوتی تھی کہ اسے میرے ساتھ ہی دفن کردیا جائے۔ لیکن کل رات خیال آیا آپ سے پہلی دفعہ وطن میں ملاقات ہو رہی ہے۔ آپ کو ’اینٹیک‘ جمع کرنے کا شوق بھی ہے۔ ایک دوست، ایک پٹھان کی طرف سے یہ تحفہ قبول کر لیجیے۔ مانا کہ بے مصرف ہے۔‘‘ 

    ’’لیکن ایک شرط پر۔ آپ میری طرف سے وہ سونے کا ٹھیکرا۔۔۔ تمغہ۔۔۔ قبول کرلیں گے جو زندگی میں کسی کام نہ آیا۔‘‘ 

    زندگی نے انہیں کیا دیا؟ کچھ بھی تو نہیں۔ اپنے علاوہ کچھ بھی تو نہیں۔ مگر ہاں، جینے کا ایک نرالا بانکپن۔ ہرحال میں خوش رہنے اور خوش رکھنے کا حوصلہ۔ دلداری و دلسوزی کا ایک سلیقہ۔ انہوں نے اپنی کج کلہی سے زیست کو معتبر اور محترم بنا دیا۔ یادوں اور باتوں کے ان اوراق کو ابھی پلٹ کر دیکھا تو خود چونک پڑا۔۔۔ اک مہک سی دم تحریر کہاں سے آئی۔ 

    زندگی کو انہوں نے کیا دیا؟ اب جو غور کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی تنگی، اتنی محرومی اور ایسی تنہائی کے باوجود وہ کتنے مطمئن و مسرور تھے۔ کتنی خوشیاں، کیسی کیسی خوشبوئیں بکھیرتے چلے گئے کہ آج دامن میں نہیں سماتیں۔ پھول جو کچھ زمین سے لیتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اسے لوٹا دیتے ہیں۔ 

     

    حاشیہ

    (1) اناج سے اس سختی کے ساتھ پرہیز کرتے تھے کہ ایک افسر کی الوداعی پارٹی میں انہیں مٹن سینڈوچ پیش کی گئی تو انہوں نےاس کے پرت کھول کر گوشت کا ایک ایک ریزہ اور ریشہ بین لیا۔ اور دونوں سلائس جوڑ کر بیرے کو واپس کردیے کہ یوسفی صاحب کو دے آؤ۔ 

     (2) چیغہ کرنا، پشتو۔ ڈاکہ، قتل، اغوا یا کوئی اور سنگین واردات ہوجائے تو سارے قبیلے کامل کر تعاقب، شور و غوغا اور تفتیش و مشورہ کرنا۔ اردو میں اس کا مترادف نہیں ہے۔ لہٰذا اسے اردو ہی سمجھنا چاہیے۔ 

     

    مأخذ:

    زرگزشت (Pg. 102)

    • مصنف: مشتاق احمد یوسفی
      • ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے