Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جشن جمہوریت کی ایک دوپہر

فرقت کاکوروی

جشن جمہوریت کی ایک دوپہر

فرقت کاکوروی

MORE BYفرقت کاکوروی

    گورستان عیش باغ لکھنؤ کے ’’چمن‘‘ نمبر۵ میں دور تک قبروں کا سلسلہ چلاگیا ہے۔ درمیان میں جو حصہ قبروں کی زد سے بچا ہوا ہے۔ اس پر چھوٹی چھوٹی چوکیوں کو ملاکر کچھ اس طرح بچھادیا گیا ہے کہ اس نے چبوترے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس چوکی دار چبوترے پر ایک میلی کچیلی دری بچھی ہے۔ چوکیوں کے پستہ قد پاؤں میں جکڑی ہوئی چار چھڑوں پر ایک سفید پھٹی چادر اس طرح تان دی گئی ہے کہ اس نے خود بہ خود شامیانے کے فرائض انجام دینا شروع کردیے ہیں۔ اس ننھے منے چبوترے پر گنتی کے چار پانچ افراد بیٹھ کر بارش یا دھوپ سےاپنے کو کم و بیش محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بقیہ ساٹھ ستر مدقوق اور کرم خوردہ افراد جو اس وقت اس گورستانی جنگل میں منگل مناتے نظر آرہے ہیں، مختلف ٹکڑیوں اور ٹولیوں میں تقسیم ہیں۔ ان نحیف الحبثہ حضرات کے چسے اور ڈھلے عبرتناک جسموں سے کافور کی بو آنےلگی ہے۔ تین چار حضرات شامیانے کی بغل میں بیٹھے پُرانے گر کی ڈلیوں کو توڑ توڑ کرننھی ننھی کنکریوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ اس ٹولی کے عقب میں کچھ فاصلے پر چارعرق کشیدہ جسم اپنے مدک، چرس اور گانچے کی نگالیوں کو کلّی اور غرارہ کرانے میں مصروف ہیں۔ ایک جگہ پر بڑی سی دیگ میں چائے کی یخنی بن رہی ہے۔ اور تھوڑے تھوڑے وقفہ سےکچھ لوگ اٹھ اٹھ کر اس میں جھانک بھی لیتے ہیں تاکہ باتوں کی جھک میں یخنی کی تیاری اور عدم تیاری سے باخبر رہیں۔ اتنےمیں قبرستان کے پھاٹک سے کچھ لوگ کندھوں پر شاہی وقتوں کے کرم خوردہ دو شالے ڈالے ہاتھوں میں عصااور بغل میں کابکیں لٹکائے داخل ہوتے ہیں۔ وضع قطع سے یہ لوگ اس گروہ کے معززین معلوم ہوتے ہیں۔

    قبرستان کے پھاٹک پر دفتی کاایک بڑا سا سائن بورڈ آویزاں ہے جس پر جشنِ جمہوریت ۵۱ء جلی حرفوں میں لکھا ہے چنانچہ ہر نوارد پھاٹک میں داخل ہوتے ہی ٹھٹھک کر اس سائن بورڈ کواس طرح پڑھتا نظر آتا ہے جس طرح سنیما کے علتی تماشہ گاہ میں داخل ہونے سے پہلے گیلری کی تصاویر پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ کچھ لوگ سپاٹ قبروں پر چادریں بچھائے بغل میں کابکیں رکھے سینک سلائی پونڈوں کو ہاتھ روک روک کراحتیاط سے تراش رہے ہیں کہ گنوّں کی سبزی چھریوں کی زد سےمحفوظ رہے، انہی میں ایک صاحب افیون کے فضائل بیان فرما رہے ہیں۔

    منّے، سچ کہیے گا میر صاحب۔ اس معبود حقیقی نے چنیا جان کیا شے پیدا کی ہے۔

    میر صاحب، اے حضت کیا کہنے۔ نوشدارو کہیے ’’بل کن‘‘ آب بقا۔

    منّے، حضور والا اس کے فرائض کے لیے دفتر چھپیں، رنگت یہ نکالے، قوت یہ بخشے۔ علم یہ سکھائے۔ شب زندہ دار دل و دماغ حاضر۔ پھر پیتے ہی رگ رگ میں طاقت دوڑجائے۔ عضو عضو میں خون کے عوض طاقت نظر آئے۔

    میر صاحب، ارے میاں یہ کرامت کیوں نہیں بیان کرتے کہ چاہے ہوش نہ باقی رہے، گردن زمین سے مل جائے مگر نیند کا آنا حرام۔ اِدھر چسکی پی ادھر مراقبہ میں گئے۔ پھر انجام پر نگاہ کیجیے تو یعنی کہ افیونی کی موت پر تو فرشتوں نے رشک کیا ہے۔ قبلۂ عالم انجیل میں دیکھیے تو جگہ جگہ اس کاذکر آیا ہے۔

    آگے بڑھ کر فضا میں طلسم ہوش ربا گھوم رہی ہے۔۔۔

    ’’صف آرائی شروع ہوئی، میمنہ و میسرہ قلب و جناح و ساقہ ومکیں گاہ چودہ صفیں شامل سکندری کے آراستہ ہوئیں۔ سواروں کے آگے پیادے جنگ کے آہادے دیوار فوج تھے۔ سوار دریائے لشکر میں موج درموج تھے۔ گھوڑے برابر تھوتھنی اور پٹھے سے پٹھا، دم سے دم سم سے سم ملائے ہوئے تھے۔ نقیب جو آگے بڑھ آتا تھا اس کو پیچھے ہٹاتے تھے، گھٹے ہوئے کو آگے برھاتے تھے۔ دم بدم باجے دری بجتے تھے۔ مرکب الف ہوتے تھے۔‘‘ (واہ واہ سبحان اللہ کی آوازیں بلند ہوئی اور ایک ساتھ فضا میں یہ آوازیں ارتعاش کرتی سنائی پڑتی ہیں) ’’یہ سوچ کر ایک ترنج اٹھا کر تخت سے شدید کے مارا کہ سینے کے پار ہوگیا۔ غلغلہ اس کے مرنے کا برپاہوا۔ پھر افراسیاب نے ہاتھوں کو ہلایا، برقیں دسوں انگلیوں سے لپک کر گریں اور پھر ہمراہیان شدید کے خرمن ہستی کو جلاکر خاک کردیا۔ بڑی دیر تک شور و غل رہا۔ جب وہ ہنگامہ برطرف ہواافرا سیاب گنبد پر آیا۔ حیرت نےتعظیم کی۔ افرا سیاب نے کہا اے حیرت یہ تمھارا ابھینابھی بہار کاپہلا سحر تھا کہ شدید آپ میں نہ تھا۔ یہ تمھاری ذات سے اتنا بڑا لشکر میرا ہلاک ہوا۔‘‘

    (پھاٹک کی سیدھ میں کچھ فاصلہ پر بعض حضرات بحث و مباحثہ میں مصروف ہیں)

    ایک، اماں۔ دتی سنا کہ کوئی شاہ صاحب پیر محمد صاحب کے ٹیکے پر ٹکے ہیں اور مردے زندہ کرتے ہیں۔

    دوسرا، نہیں واللہ

    تیسرا، سنا تو میں نے بھی ہے بل کن یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ پرسوں فتو کی لڑکی کی خبر اڑگئی کہ وہ مرگئی۔ باپ بھائی کا جو حال تھا نہ پوچھو۔ اماں فضل پائی والے کے بڑے لڑکے فجو کو تو بیاہی تھی۔ فجو کا برا حال تھا۔ چنانچہ شاہ صاحب کے پاس سب اس کی میت کو لے گئے۔ دوسری شام کو لڑکی بھلی چنگی آگئی۔

    چوتھا، اچھا تو آج پلیٹتوں میں چل کر دیکھیں گے واللہ یہ تو معجزہ ہوگیا۔ معجزہ۔ کچھ تفصیل بھی معلوم ہوئی۔

    تیسرا، یہ مرزا صاحب بیٹھے تو ہیں۔ اماں مرزا چھوٹونا۔

    پہلا، اما ں ہاں، مرزا صاحب بیان کرو نا۔

    (کئی افیونی کھسک کھسک کر قریب آجاتے ہیں)

    مرزا صاحب، بھائی صاحب وہ شاہ صاحب یہاں کی مخلوق تو ہیں نہیں۔ کہیں عرب ورب کی طرف کے ہیں۔ مگر پرسوں جومعجزہ دکھایا ہے۔ قسم قرآن کی پروفیسر معشوق علی بھی اس کے آگے مات۔ جب سے ٹکے ہیں ایک خلقت انھیں دیکھنے چلی آرہی ہے۔ اماں وہ بھیڑ ہے کہ معاذ اللہ۔ سنا ہے کہ دن ہی دن دکھائی پڑتے ہیں، اِدھر شام ہوئی۔ ادھر غائب۔ صرف معصوم کنواریوں کو نظر آتے ہیں۔ حالانکہ کسی وخت (وقت) اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔

    پہلا، اماں فجو کی لڑکی کا واقعہ بیان کرو۔ لگے اِدھر ادھر کی اڑانے۔

    مرزا صاحب، ذری چھری تلے دم لو۔ سنی سنائی تو واللہ مجھے بھی یقین نہ آتا مگر آنکھوں دیکھی ہے تو جھوٹ بولنے والے پر خدا کی مار۔

    دوسرا، تو ہوا یہ کہ جونہی لاش شاہ صاحب کے سامنے رکھی گئی، انھوں نے پہلے تو اس کاسراہنا اپنی طرف کیا۔ اس کے بعد فجّو کے باپ اور اس کے شوہر کو بلایا اور کچھ کان میں کہا۔ اس کے بعد زری زور سے بولے ’’تو تیار ہونا؟‘‘ اس کے بعد جب ان دونوں نے ہامی بھرلی۔ حلفہ حلفی ہوگیا تو شاہ صاحب نے ایک استرا نکال کر اپنا سر کاٹ لیا۔ قسم قرآن کی یہ دیکھ کر میرے تو ہوش اڑ گئے۔ پھر اسی حالت میں ایک بکرا جو ان شاہ صاحب کے سرہانے بندھاتھا۔ اس کاسر کاٹ لیا۔ اس کے بعد اپنے دھڑ پر بکری کا سر رکھا اور بکرے پر اپنا سر رکھ دیا۔ اس پر دونوں میں خوب لڑائی خوب گتھم گتھا ہوئی۔ ہوتے ہوتے دونوں کے سر سے ایک شئے زرد رنگ کی گری جو نہایت چمکیلی تھی۔ ایسی چمکیلی کہ گو ہر شب تاب اس کے آگے مات۔ رفتہ رفتہ اس زری کا ڈھیر بن گیا اور اس ڈھیر کو اچانک ایک چڑیا نے جو جھپٹ کر نہ جانے کہاں سے آگئی کھا لیا۔ بس مفت چڑیا کو شاہ صاحب نے جھٹ پکڑا اس کاکباب سیخ کیا اتنے میں جو دیکھتے ہیں تو شاہ صاحب کے سر اقدس پر خاص انھیں کاسر تھا۔ شاہ صاحب نے جھٹ کباب لے فتّو کی لڑکی کے منہ میں رکھ ہی تو دیا۔ کباب کا منہ میں رکھنا تھا کہ لا اللہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

    ایک دور کی آواز، اماں جھوٹے مر گئے اور اولاد چھوڑ گئے۔

    دوسری آواز، اماں چھٹن صاحب کہاں تھے؟ واللہ تمھاری تلاش میں تو کنوؤں میں بانس ڈال دیے۔ پچھلے سال نہیں ملے تھے۔ تب کا دن اور آج کی گھڑی ہے کہ عید کا چاند ہوگئے۔ پھر پچھلے اتوار جانی مرزا کے یہاں بھی پانی میں نظر نہیں پڑے۔ اور آج بھی کچھ بجھے بجھے نظر پڑتے ہو (نگالی بڑھاتے ہوئے) لو ایک چھینٹا ابھی اغن صاحب پی کر گئے ہیں تم بھی پیو اور ہمیں بھی پلاؤ۔ واللہ مدّت سے تمھارے ہاتھ کے بنے ہوئے چھینٹوں کو ترس گئے۔ یاد ہیں بنّے نواب کی محل والی صحبتیں اماں کیا زمانہ تھا (بغل میں ایک ساتھی کاشانہ ہلاکر) فجوّ صاحب دیکھتے ہو یہ کون صاحب تمھارے سامنے آرم پار کھڑے ہیں۔

    فجوّ صاحب، جی ہاں۔ ملاحظہ کیا۔ میں نے تو قسم ہے قرآن کی اسی مارے ان سے میل ملاقات ترک کردی کہ جب گھر پر جاؤ تو یہ حضرت ندارد۔ اماں ہم تو کہتے ہیں زندگی چند روزہ۔ ہنس بول کر گزار لو۔ نہ جانے کس وقت کہاں سے بلوّا آجائے۔ نہ آج جشنِ آزادی کے موقع پر پوسٹر کے ذریعہ ان تک ہمارے اس جلسہ کی بھنک پہنچتی اور نہ یہ آج یہاں دکھائی پڑتے۔ اماں ہاں ذری یہ تو بتانا کہ جلسہ ہے کَے بجے سے۔ ۱۲بجے مجھے بٹیر کو گولی کھلانا ہے۔

    وہی صاحب، اماں خیر تو ہے نصیبِ اعداء۔ یہ بٹیر پر کیا افتاد گزری۔

    فجو صاحب، پرسوں شبن صاحب کے بٹیر سےشد کرنے میں بٹیر مکھی کھا گیا شب بھر طبیعت بدمزہ رہی۔ صبوں (صبح) پھر بظاہر چاق و چوبند تو ہوگیا۔ مگر اب بھی وقفہ سے اونگھ جاتاہے۔ حالانکہ مکھی کھاتے ہی میں نے دن سے اوٹھا وہیں قے کرادی تھی۔

    ایک آواز، حضرات اب جلسہ شروع ہونے جارہاہے۔ آپ سب اِدھر شامیانے کی طرف کھسک آئیں۔

    دوسری آواز، ٹھہرو یار آتے ہیں۔ ذری نگالی دھولیں۔

    تیسری آواز، لو صاحب جلسہ تو شروع ہوگیا۔

    چوتھی آواز، اماں اچھے آغا چل کر ذری ان کی بھی سن لو۔

    پانچویں آواز، اماں تمھیں قسم ہے ذری دیکھو تو ہر شخص چوکی پر بیٹھنے کے لیے کتنا بے چین ہے۔ بھئی کیا ننھا سا شامیانہ تان رکھا ہے۔

    تیسرا، اماں برس برس کے دن تو ایک بدھی لے کر کسی بانس ہی واس پر ٹانگ دی ہوتی۔

    پہلا، واللہ کیا پیٹ بھروں کی سی باتیں ہیں۔ بٹیروں کی کاکن کے دام میسر نہیں چلے ہیں ادھی بدھی نصب کرنے۔ اماں دیکھ رہے ہو۔ شامیانے کا خرچہ کس مشکل سے نکلا ہے۔

    چوکی پر کی ایک آواز، حضرات اب جلسہ شروع ہونے جارہا ہے۔ میں اس کی صدارت کے لیے اچھے آغا صاحب کانام پیش کرتا ہوں۔

    (سامعین کی چاؤں چاؤں کے ساتھ)

    ایک اور آواز، لو بنّے صاحب رہ گئے۔

    دوسری آواز، کیوں صاحب دلارے جانی آغا صاحب سے کس چیز میں کم تھے جو انھیں صدر نہیں بنایا گیا۔

    تیسری آواز، اماں کیا جھک لگا رکھی ہے۔ نکلے دانت اب بیٹھنےسے رہے۔ خوشی کے موقع پر بے فضول کی باتوں سےکیا حاصل۔

    چوتھی آواز، اچھاصاحب آپ جامے سےباہر نہ ہوں لیجیے ہم چپ ہوئے جاتے ہیں۔ اب جو زبان سے بولے اس پر تین حرف۔

    شامیانے سے صدر کی آواز، تو چھٹّن صاحب۔ آپ کچھ فرمائیں گے؟

    چھٹن صاحب، (باقر مرزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو ایک طرف چوکی پر پیر لٹکائے بیٹھے ہیں) مرزا صاحب۔ واللہ پہلے آپ شروع ہوں۔ میرا نمبر تو آپ کے بعد ہی ہوگا۔

    باقر مرزا، جناب صدر نے تو آپ سے درخواست کی ہے نہ کہ اس ناچیز سے۔

    صدر، مرزاصاحب واللہ معاف فرمائیے گا قسم ہے قرآن کی آپ کچھ اس طرح کیری کی طری پتیوں میں چھپے چھپائے بیٹھے تھے کہ آپ تک نگاہ ہی نہیں گئی تو پھر آئیے نا۔

    چھٹن صاحب، (مرزا صاحب سے) واللہ بس اب شروع ہوجائیے۔ کچھ کلمات آپ فرمادیں۔ کھڑے ہو کر میں کہہ دوں گا پھر تو اچھے آغا اپنا حق اداد ہی کریں گے۔

    مرزاصاحب بڑے تکلف سے اٹھ کر پہلے تو ہر چہار طرف جھک جھک کر کورنش اور تسلیمات عرض کرتے ہیں پھر صدر سے مخاطب ہوکر اشارہ سےاجازت لیتے ہیں۔

    صدر، بسم اللہ۔

    مرزا صاحب، بھائیو! آج پورےایک سال کے بعد ہم لوگ دوبارہ جشنِ جمہوریت منانے کی غرض سے اپنے آباو اجداد کے اس پرانے ٹھیے پر جمع ہوئے ہیں۔ گردوپیش مرنےوالوں کی روحیں نہ شرمائیں تو ایک بات عرض کروں کہ اس پچھلے ایک سال کے عرصے میں ہمارے بہت سے ساتھی ہم سے بچھڑ کر پیوند خاک ہوگئے۔ تا ہم اس بات پر جس قدر بھی اظہار مسرت کریں کم ہے کہ اگرچہ وہ پاک روحیں ہم میں موجود نہیں تاہم وہ ہم سے دور بھی نہیں۔ وہ ہم عاشقانِ صادق ہیں نہ ہوتے ہوئے بھی ہم میں موجود ہیں۔

    ہرگز نمیرد آں کہ دِلش زندہ شد بہ عشق

    ثبت است پرجریدۂ عالم دوام ما

    ہم میں اور ان حضرات میں اگر بعد ہے تو صرف گز دو گز کاکہ ہم اوپر بیٹھے جشنِ آزادی منارہے ہیں اور وہ اپنی ڈھائی گری تربتوں میں لیٹے لیٹے جشن کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ہمارے طبقے کی حکومت سے وفاداری کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔ جلسے سے واہ واہ سبحان اللہ، قسم قرآن کی کیا گوشہ نکالا ہے۔ جزاک اللہ کی آوازیں بلند ہوتی ہیں اور مرزا صاحب جھک جھک کر سلام کرتے ہیں۔

    حضرات! عمائدینِ حکومت مجھے معاف فرمائیں میں یہ عرض کروں کہ ہم اور ہمارے جملہ رفقا جن میں سے بیشتر اس وقت ہم میں موجود نہیں ہیں۔ ان کو حکومت سے صرف اس بات کاشکوہ ہے کہ جب سے ہمارے دیس کے نیتاؤں نے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی ہے اس وقت سے کاکن کے دام بہت چڑھ گئے ہیں جس کے سبب ہماری پالیاں بے رونق ہو کر رہ گئی ہیں۔ پیٹ بھر کاکن میسر نہ ہونے کے سبب ہمارے اکثر چوٹی کے بٹیر گزر گئے لہٰذا ان بے زبانوں کی طرف سے ہم اس جشنِ آزادی کے موقع پر حکومت سے دادرسی کےطالب ہیں۔ دوسری چیز اس سلسلہ میں یہ عرض کرنے کی ہے کہ خاتمہ زمینداری کے معاملے میں عمائدینِ حکومت کی طرف سے جو اقدامات عمل میں لائے جارہے ہیں ان کی ضرب بھی براہِ راست ہم ہی وفاداروں پر پڑ رہی ہے۔ جو باوجوود مالی مشکلات کے آپ کی ہر خوشی کو اپنی خوشی اور ہر غم کو اپنا غم تصور کرتے ہیں کیونکہ بڑے بڑے زمیندار جن کے علاقوں میں ہر فصل میں بٹیروں کا شکار لگتا ہے، ان سے مٹنے کے سبب ہمارے ہاتھ پاؤں کٹ کر رہ گئے ہیں۔ ہم تباہ و برباد ہوگئے ہیں۔ ہماری حالت ایک یتیم بچے کی سی ہوگئی ہے۔ جس کا کوئی وارث نہ ہو۔ اچھے بٹیر بازار میں آنا بند ہوگئے جو گھاگر کبھی آٹھ دس آنے کو ملتا تھا۔ یقین جانیے کہ اب وہ پانچ سات روپے میں بھی میسر نہیں آتا۔ درحقیت زمینداروں کی تباہی ہماری تباہی ہے اور ہمارے مظلوم طبقے کی تباہی زمینداروں کی تباہی ہے۔ کیونکہ نواب اغن صاحب اور بھورے نواب صاحب جن کے دم سے سالہا سال سے چوٹیوں پر اتواریں ہوا کرتی تھیں خاتمہ زمینداری کی آواز سنتے ہی بند ہوگئیں اور حضور یہ واقعہ ہے کہ خاتمہ زمینداری کااعلان کرکے سرکار نے نہ صرف زمینداری کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ہمارے ڈربے بھی پھونک دیے ہیں۔ ہمارے بٹیروں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا ہے۔ مگر ہم عمائدین حکومت کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ چاہے اسے باور کریں یا نہ کریں مگر اس مادّی دنیا سے گزرنے کے بعد زمیندار پھر زمیندار ہی رہتا ہے خواہ اس پر جور و تشدد گزرنے والوں کا ہی حال کیوں نہ ہو۔ چنانچہ عرض کرتا ہوں،

    مرنے کے بعد بھی نہ ریاست کی بو گئی

    دو گز زمین پا کے زمیندار ہوگئے

    (چہار جانب سے سبحان اللہ۔ مکرّر ارشاد، ماشاء اللہ قسم قرآن کی طبیعت خوش کردی، واللہ مرزا کیا کیا حق ادا کر رہے ہو کی آوازیں بلند ہوتی ہیں)

    ایک زور کی آواز، مرزا صاحب! واللہ سیری نہیں ہوئی پھر ارشاد ہو (مرزا صاحب جھک جھک کر اور دوہرے ہو ہو کر شعر کو دہراتے جاتے ہیں اور سلام کرتے جاتے ہیں)

    تو اس سلسلہ میں مجھے آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ جہاں ہماری سرکار کی طرف سے ملک کے گوشہ گوشہ میں بڑے بڑے فارم اور بڑے بڑے مرغی خانے کھولے جانےکی اسکیم ہے وہاں کچھ فارم ایسے بھی کھلوائے جائیں جہاں ہم بٹیروں کاشکار لگاکر اچھی بٹیریں حاصل کرسکیں۔

    ایک آواز، حضت، کچھ افیون چرس، مدک اور گانجے کی زحمتوں پر بھی روشنی ڈالتے چلیے۔

    مرزا صاحب، (سلسلہ تقریر کو جاری رکھتے ہوئے) تو جن دوسری چیزوں کی طرف میں اربابِ حکومت کی توجہ مبذول کرانا چاہتاہوں۔ ان میں سےایک یہ ہے کہ اِدھر بعض حضرات نے مجھے آن کر بتایا کہ اِدھر کچھ نشے پانی پر بھی سرکار کی طرف سے بندشیں عائد ہوتی ہیں جس کےسبب دوکانداروں نےافیون چرس، مدک اور گانجے سے شوق رکھنے والوں کے راستہ میں رکاوٹ پیدا کردی ہیں جو سرکار برطانیہ کے دور میں بھی نہیں تھیں۔ منشیات پر محصول بڑھ گئے ہیں۔ افیون بازاروں سے عنقا ہوگئی ہے جس کےسبب ہمارے بہت سے رفقاء کارشتۂ حیات منقطع ہوگیا ہے اور ہمارےبڑے بڑے کہنہ مشق اساتذہ ہم کو داغِ جدائی دے گئے جس کے سبب ہم ان کے فیضانِ صحبت سے محروم ہوگئے۔ لہٰذا اس جشنِ آزادی کے موقع پر ہمارامطالبہ ہے کہ کوآپریٹیو سوسائٹی اور گاؤں پنچایتوں کے ذمہ داروں کو سرکاری طور پر توجہ دلائی جائے کہ وہ اس ضمن میں ہم کو سہولتیں پہنچائیں اور بٹیروں کی دوا دارو کے لیے جہاں شہروں اور دیہاتوں میں مرغیوں کے ہسپتال قائم کیےجارہے ہیں، وہاں بٹیروں کے لیے بھی سرکاری شفاخانے کھولے جائیں اور ان شفاخانوں میں ہمارے ان آدمیوں کو جگہیں دی جائیں جنھوں نے اپنی عمر کے بہترین حصے بٹیروں پر ریاض کرنے میں صرف کردیے ہیں۔ (صفِ سامعین سے سبحان اللہ، واہ واہ، کیا نکات بیان کر رہے ہو مرزا کی آوازیں بلند ہوتی ہیں اور فاضل مقررّ گھوم گھوم کر ہر آواز پر دہرے ہو ہو کر سلام کرتا ہے)

    کئی آوازیں، جزاک اللہ، جزاک اللہ۔

    مرزا صاحب، (سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے) تاکہ ہمارے طبقے کو بھی احساس ہو کہ ہم آزاد ہوئے۔ ہمارے نیتاؤں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور آئی۔ اور ہماری غلامی کی بیڑیاں کٹیں۔

    صدر، (مرزا صاحب سے) واللہ کیا کیا پہلو نکال رہے ہو۔ قسم قرآن کی ختم تقریر پر چھٹن صاحب کے ہاتھوں کے بنے ہوئے دو چھینٹے میری طرف سے۔

    (سامعین میں سے کئی آوازیں۔ مرزا صاحب دو چھینٹے ختم تقریر پر چھٹن صاحب کے ہاتھوں کے بنے ہوئے میری طرف سے بھی قبول فرمائیے)

    مرزا صاحب، (سلسلۂ کلام کو ختم کرتے ہوئے) ان الفاظ کے ساتھ میں اپنی تقریر کو ختم کرتاہوں۔

    (سامعین کی صفوں سے پھر ایک شور اور ایک غوغا بلندہوتا ہے اور ’’واللہ مرزا صاحب حق ادا کردیا کیا تیور سے تقریر کی ہے۔‘‘ کی آواز بلند ہوتی ہے اور صدر سبحان اللہ اور واہ واہ کےساتھ مرزا کی پیٹھ تھپ تھپاتے ہیں اس کے بعد)

    صدر، (سامعین سےمخاطب ہوکر) نواب چھٹن صاحب جو ہمارے شہر کے مشہور و معروف بٹیرباز ہیں۔ اور بٹیروں کے معالج خصوصی بھی ہیں۔ آپ کے سامنے اپنے زرّیں خیالات پیش کریں گے۔

    چھٹّن صاحب، (اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر اور صدر سے مخاطب ہوتے ہوئے) بھائی مجھے معاف کردو۔ اب کون سا گوشہ مرزا صاحب نےچھوڑا ہے جس پر بولاجائے بہرحال آپ کےحکم کی تعمیل کرتا ہوں (جھک کر سلام کرتے ہوئے اور اشارے سے اجازت طلب کرتے ہوئے)

    صدر، بسم اللہ چھٹن صاحب۔

    چھٹن صاحب، بھائیو! میں آپ کا زیادہ وقت نہ لوں گا۔ مجھے شراب کی بندش کے سلسلے میں صرف اتنی سی بات عرض کرناہے کہ اِدھر بعض اضلاع سےمیرے دوستوں کے خطوط آئے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ وہاں سرکار کے حکم سے شراب کی خرید و فروخت موقوف ہوگئی ہے، حتی کہ بٹیروں کے لیے چمچے دوچمچے برانڈی کی ضرورت ہوتی ہے تو سونے کے بھاؤ بھی برانڈی میسر نہیں آتی۔ تو حضرات حکومت کے اس اقدام کو بہ نظرِ تحسین دیکھتے ہوئے کیونکہ اس موذی شے کا استعمال شرعاً ناجائز اور مذہباً حرام ہے، مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ اتنی بھی سختی کیا کہ جانور تڑپ تڑپ کرمرجائیں مگر دو بوند شراب نہ ملے۔ چنانچہ پرسوں کانپور سے بڑے آغا نے لکھا ہے کہ ان کا پیارو بٹیر برانڈی دو بوندیں میسر نہ آنے کے سبب راہی ملکِ عدم ہوگیا۔ پیار و مرحوم کی جیتی ہوئی پالیاں آپ کے سامنے ہیں۔ وہ اس وقت کم از کم ہماری ٹکڑی میں بڑا عزت دار بٹیر تھا۔ لہٰذا اس کے اس طرح تڑپ کر مرجانے کامیری دانست میں کیا اپنےکیا پرائے سبھوں کو غم ہوگا (جلسہ گاہ سے اظہارِ تاسف کی آوازیں) لہٰذا اس ضمن میں حکومت کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ اتنی سختی بنی نوع انسان تو گوارا کرلے گا مگر پرندوں کے بس کی بات نہیں جو وہ ان سختیوں کو برداشت کریں۔ وہ تو اپنی جان ہی سے گزر جائیں گے۔

    ایک صاحب، (صفِ سامعین میں کھڑے ہوکر) جناب چھٹن صاحب آپ کی یہ اطلاع غلط ہے۔ دواخانوں میں بطورِ دوا ہر وقت اور ہرجگہ شراب مل سکتی ہے۔ یہ خبر حکومت کے کسی بدخواہ کی اڑائی ہوئی ہے کہ پیار و شراب نہ ملنے کے سبب مرگیا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس کا کوّا بیٹھ گیا تھا جس کے سبب دم گھٹنے سے اس کی وفات واقع ہوئی۔ اس مداخلت کو معاف فرمایا جائے۔

    چھٹن صاحب، اچھا کیا آپ نے اس غلط فہمی کی وضاحت فرمادی۔ بہرحال میں حکومت سے اپنے مطالبہ کو واپس لیتا ہوں۔ اور اب اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ نیز جناب صدر سے درخواست کروں گا کہ وہ اس ضمن میں اگر کوئی شکایت رہ گئی ہو تو بتاکر ہم کو شکریہ کا موقع دیں۔ چار بجے ننھے نواب صاحب کے یہاں جشنِ آزادی کے سلسلے میں پالی ہے اور اس وقت ڈھائی بجنے کو ہیں۔

    صدر، حضرات! ان تقریروں کے بعد جو جناب مرزا صاحب اور چھٹن صاحب نے کیں اس کی چنداں ضرورت نہیں کہ میں آپ کے قیمتی وقت کو ضائع کروں جب کہ چار بجے آپ سب حضرات کو ننھے نواب صاحب کے یہاں بھی جانا ہے۔ تاہم طلسمِ ہوشربامیں ایک مقام پر بے ثباتی عالم کے باب میں بہادری اور جرأت کی تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ اس عبارت کی روشنی میں آپ کو چند نصیحتیں کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اس وقت آپ اپنے مطالبات کی دھن میں پاگل ہورہے ہیں۔ طلسم ہوشربا میں ایک جگہ آیا ہے۔

    ’’تلوار کی آنچ مشہور ہے گیلے سوکھے دونوں جلتے ہیں سرد گردن میں لاگ ہے یعنی غضب کی آگ ہے۔ زندگی دونوں کے نام ہیں، نام کرلو اےنوجوانو! لڑبھڑ کر سرخ رو ہو۔ جس کا قدم ڈگمگایا وہ کہیں آبرو نہ پائے گا۔‘‘

    یہ ٹکڑا میں نے طلسم ہوشربا سے آپ حضرات کے سامنے اس غرض سے پیش کیا کہ اس وقت ہم کو اپنے آبا و اجداد کی پرانی روایات کو زندہ رکھنا ہے۔ ان کی عزت و ناموس کو برقرار رکھنا ہے۔ اسی کےلیے مرنا اور اسی کے لیے جینا ہے اور جدید سرکارکی بادِ حوادث کے جھونکوں سے مردانہ وار مقابلہ کرنا ہے۔ اس وقت ہم کو پورے عزم اور بے باکی کےساتھ اپنے مطالبات حکومت کے روبرو پیش کرنا ہے۔ خواہ اس کا انجام کچھ ہی کیوں نہ ہو۔

    اتنے میں ایک شخص نے قبرستان کے پھاٹک سے جلسہ گاہ میں باآواز بلند اعلان کیا ’’اماں بھاگو دوڑ آگئی کسی بدبخت نے مرزا کی تقریر کی پوری پوری رپٹ چوکی پر کرادی۔‘‘ یہ سننا تھا کہ جلسہ گاہ میں ایک بھگدڑ مچ گئی۔ گرتے پڑتے افیونی مد کیے اور چرسیے کابکیں اور پیالیاں چھوڑ چھوڑ کر قبروں کی آڑ اور جھاڑیوں میں چھپ گئے، جلسہ ختم ہوگیا۔

    بعد میں معلوم ہوا کہ دو مسلمان سپاہی سرخ پگڑیاں باندھے، اپنے کسی عزیز کی قبر پر فاتحہ پڑھنے عین اسی وقت پھاٹک کے قریب سے گزر رہے تھے جس وقت کہ جلسہ گاہ میں آغا صاحب کی تقریر ہو رہی تھی۔

    مأخذ:

    آزادی کے بعد دہلی میں اردو طنز و مزاح (Pg. 46)

      • ناشر: اردو اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1990

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے