aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کراچی اور لاہور

چراغ حسن حسرت

کراچی اور لاہور

چراغ حسن حسرت

MORE BYچراغ حسن حسرت

    ایک زمانے میں دلی اور لاہور حریف سمجھے جاتے تھے۔ ہم لوگوں نے امرتسر کو لاہور کے مقابلے پر کھڑا کردیا۔ وہانی تو ملتان بہ گیا۔ اب کراچی اور لاہور حریف اور مد مقابل سمجھے جاتے ہیں۔ کراچی سارے پاکستان کا دار الحکومت ہے اور لاہور صرف مغربی پاکستان کے صوبے کا صدر مقام ہے۔ پھر بھی کراچی کے مقابلہ میں کسی شہر کا نام آتا ہے تو وہ لاہور ہی ہے۔

    ہم نہ کراچی کے طرف دار ہیں نہ لاہور کے۔ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ لاہور میں جو بھاری بھرکم پن ہے وہ کراچی میں نام کو نہیں۔ کراچی عزت اور مرتبہ میں لاہور سے آگے سہی لیکن لاہور کا سا وقار کہاں سے لائیے گا۔ لاہورمیں سنجیدگی اور متانت ہے۔ کراچی میں نو دولتیوں کا سا چھچھورا پن۔ آخر عمر کا فرق بھی کوئی چیز ہے۔ لاہور دو اڑھائی سال کا بڈھا کراچی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش کہاں کراچی اور کہاں لاہور؟

    جو لوگ کراچی کی صاف ستھری سڑکیں دیکھ کے آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ لاہور کی سڑکیں دیکھ کے جی بہت کڑھتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ میاں تم اس بڈھے کے چہرے کی جھریوں کا قصہ لے کر بیٹھ گئے۔ اس کے دوسرے کمالات پر بھی تو غور کرو۔ سنا نہیں کہ شاعر کیا کہہ گیا ہے،

    میرے چہرے کی جھریوں پر نہ جا

    دل ابھی تک جوان ہے پیارے

    اور ہاں اس غزل میں ایک شعر کراچی کے حسب حال بھی تو ہے،

    دیکھ کے قد یار کہتا ہوں

    تیری اونچی دکان ہے پیارے

    وہ کہتے ہیں کراچی سمندر کے کنارے آباد ہے۔ جواب دیتا ہوں کہ سمندر کے کنارے آباد ہونا کون سا بڑا کمال ہے۔ ہاں اگر سمندر کراچی کے کنارے ہو تو پھر اور بات تھی۔ اور سچ پوچھو تو بیچارے سمندر میں کون سی ایسی شاخ زعفران ہے۔

    بحراگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا۔

    یہ نہیں دیکھتے کہ راوی جیسا دریا لاہور کے قدموں میں پڑا ہے۔

    کراچی میں بڑی خوبیاں سہی لیکن شالار مار باغ، جہاں گیر کا مقبرہ، کامران کی بارہ دری، شاہی قلعہ، شاہی مسجد، نہ گھد و شاہ کا تکیہ نہ داتا کا دربار نہ ایسے جلے تن جو چلے کے جاڑے میں ململ کے کرتے پہنتے ہیں، لسی پیتے ہیں اور وارث شاہ کی ہیر پڑھتے ہیں۔ ذرا موچی دروازہ کے اندر چلے جائیے۔ صبح و شام دودھ دہی کی دکانوں پر کیا بھیڑ بھڑکا ہوتا ہے۔ توبہ کیجئے کہاں کراچی اور کہاں لاہور۔ صاف ستھری سڑکوں اور سمندر کے قریب سے تو کوئی شہر سچ مچ شہر نہیں بن جاتا۔ ذرا آپ ہی خدا لگتی کہیے جس شہر میں بچ مورتوں کی آواز سننے میں نہیں ا ٓتی وہ بھی کوئی شہر ہے۔

    کراچی میں وزیر ہیں، سفیر ہیں، بڑے بڑے عہدہ دار ہیں جو تمکنت کے مارے زمین پر قدم نہیں رکھتے۔ دولت مند تاجر ہیں، جن کے قبہ شکم کا دامن قبہ فلک سے بندھا ہوا ہے لیکن کراچی والوں میں اقبال سا کوئی شاعر بھی ہوا ہے۔ اور اقبال کا ذکر کیا وہاں تو چھوٹا موٹا شاعر بھی مشکل ہی سے ملتا ہے۔ ایک صاحب غلطی سے مشاعرے کا اعلان کربیٹھے لیکن جب مشاعرہ کی تاریخ قریب آئی تو معلوم ہوا کہ پورے شہر میں ڈھائی شاعر ہیں اور ان میں بھی ڈیڑھ شاعر لاہور ہی سے آیا ہے۔ وکٹوریہ والوں اور رکشا والوں کی منتیں کیں کہ ارے بھئی کہیں سے ایک آدھ شاعر مہیا کرو نہیں تو خود شاعر بن جاؤ۔

    سارے دفتر چھان مارے کہ شاید کوئی کلرک ہی ایک آدھ شعر موزوں کر لے لیکن شاعری کو کراچی کی آب و ہوا راس نہیں آئی۔ یاتو ایک مصرعہ سے دوسرا مصرعہ بڑھ جاتا ہے یا پھر ایطائے جلی یا ایطائے خفی ہو جاتا ہے۔ اور ان آفتوں سے بچ نکلے تو شتر گربہ کے مرض سے تو بچنے کی کوئی صورت ہی نہیں۔ آخر تھک ہار کر لاہور کا رخ کیا۔ بڑی مشکل سے کچھ شاعر ہاتھ آئے اور کراچی نے لاہور کے شاعروں کے بل پر ایک مشاعرہ کر لیا۔ اب اخباروں میں کراچی کے مشاعرہ کا پروپیگنڈہ ہو رہا ہے۔ اور کراچی والے اس مشاعرے کا ذکر اس طرح کرتے ہیں جیسے انہوں نے کراچی میں شاعری کے کارخانے کھولے ہوئے ہیں۔ جن میں فرشی اور عرشی کا مشاعرہ ڈھل جاتا ہے۔ حالانکہ لاہور کے شاعروں کے طفیل کراچی میں مشاعرہ کر لینا بالکل ویسا ہی ہے کہ پرزے امریکہ سے آئیں، انجینئر بھی وہیں سے بلائے جائیں اور کراچی میں انہیں جوڑ کے موٹر کار تیار کر لی جائے۔

    لاہور پر نظر ڈالو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ پراتم بڈھا جس کی سفید ڈاڑھی نے اس کے سینے کو ڈھانک رکھا ہے۔ سر پر سپید پگڑ باندھے ململ کا کرتہ پہنے اور تہہ بند باندھے اور ایک ہاتھ میں لٹھ لیے دوسرا ہاتھ پھیلائے وسط ایشیا کی سب سے بڑی شاہراہ پر کھڑا ہے۔ اس نے گردش لیل و نہار کے بہت سے تماشے دیکھے ہیں، قوموں کے عروج و زوال کے سینکڑوں مناظر اس کی نظروں سے گزرے ہیں۔ وہ دل پر صدیوں کا بوجھ لیے کھڑا ہے۔ لیکن چہرہ مسکراہٹ کے نور سے جگمگا رہا ہے اور آنکھیں کہہ رہی ہیں کہ میاں جھجکتے کیوں ہو؟ آؤ یہاں تم سب کے لیے جگہ موجود ہے۔

    لاہور میں متانت ہے، وقار ہے، حلم ہے اور حلم ہی نہیں علم بھی تو ہے۔ یہاں کی ادبی محفلیں، یہاں کی لائبریریاں، یہاں کے کالج اور اسکول، یہاں کے اخبار کراچی میں کہاں؟ اور یہ چیزیں بھی میسر ہو جائیں تو نو عمر کراچی بڈھے لاہور کی سی شفقت کہاں سے لائے گا؟ اسے دیکھ کر تو یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی صاحب بہادر منہ میں سگار لیے گٹ پٹ کر رہے ہیں۔ اٹھتی جوانی ہے۔ دولت کی کمی نہیں پھر بڑے چاؤ چوچلے سے پرورش پائی ہے، اس لیے طبیعت میں ذرا اکھڑپن آگیا ہے۔

    اسٹیشن سے بڑھ کر شہر میں قدم رکھو تو پاؤں کچھ رکتے معلوم ہوتے ہیں اور خیال آتا ہے کہ نا جانے صاحب بہادر کب ڈانٹ دیں۔ غرض کہاں لاہور کہاں کراچی؟ کراچی سے متعلق زیادہ سے زیادہ آپ یہی کہہ سکتے ہیں کہ،

    غرور حسن با جہل پٹھانی

    مأخذ:

    مضامین چراغ حسن حسرت (Pg. 34)

    • مصنف: چراغ حسن حسرت

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے