Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خط کا جواب

واجد علی گوہر

خط کا جواب

واجد علی گوہر

MORE BYواجد علی گوہر

    عزیز دوست!

    آداب!

    سب سے پہلے تو جہنم میں سلامتی اور خیریت کے ساتھ پہنچنے پر صد ہا تہنیت قبول کیجیے اور یہ جان کر گونہ مسرت ہوئی کہ وہاں تم اب سیٹل بھی ہوگئے ہو۔ مکتوب کے جواب میں تاخیر کی معذرت کہ تمہارا مکتوب مجھے آج دو مہینے بعد موصول ہوا ہے۔ اگرچہ تم اسی ملک اشرافستان میں چوالیس سال برباد کرنے کے بعد راہی جہنم بنے ہو اور یہاں کے اہلکاروں کی مستعدی اور چاق و چوبندی سے کماحقہ واقف ہو ، مگر پھر بھی بتلائے دیتا ہوں کہ دراصل جس وقت تمہارا مکتوب ہمارے متعقلہ ڈاکخانے میں پہنچا ، وہ رات کا وقت تھا اور ڈاکخانے والےبابو نے نہ جانے وہ مکتوب کس کیفیت میں موصول کیا کہ اُس پر درج پتے سلطان آباد کو وہ شیطان آباد سمجھ بیٹھا اور یوں تمہارا مکتوب طاقِ نسیاں میں ڈال کر ، دیگر کارہائے ضروری میں ایسا الجھا کہ دو ماہ تک اُسے تمہارا سرنامہ دوبارہ دیکھنے کی فرصت تک میسر نہ آئی۔یہ سرنامہ شاید طاقِ نسیاں میں ہی دھرا رہتا کہ ایک دن ڈاکخانے کی صفائی کے دوران یہ اچانک کہیں سے اُس کے سامنے آگیا اور اُس وقت چونکہ بابو کی کیفیت بھی ہوش و سلامتی والی تھی، لہذا اُنہیں شیطان آباد کو سلطان آباد پڑھنے اور سمجھنے میں بالکل دقت نہیں ہوئی ۔

    میں نے تمہارا سر نامہ کئی کئی بار پڑھا اور ہر بار پڑھ کر ذہن میں یہی سوچ آتی تھی کہ جس جگہ کے احوال تم نے بیان کیے ہیں ، وہ واقعی جہنم ہے یا کہیں تمہیں ایک بار پھر دھوکے سے کسی دوسری جگہ پہنچا دیا گیا ہے، اس لئے کہ یہاں دھوکہ دہی سے لوگوں نے دریا تک بیچ کر اُن میں سوسائٹیاں بنا ڈالیں تو ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ تمہیں تمہارے اصلی گھر پہنچا کر آئے ہوں۔بہر حال اگر تمہیں واقعی اس بار دھوکہ نہیں ملا اور تم واقعی اپنی اصلی منزل یعنی جہنم میں پہنچ گئے ہو تو اس کا مطلب تم اُن چند خوش نصیب اشخاص میں شامل ہو ، جو مسلسل دھوکہ کھانے اور جھوٹے وعدوں پہ اعتبار کرنے کے باوجود بھی اپنی منزلِ مقصود تک کامیابی و کامرانی سے پہنچ جاتے ہیں۔ اس عظیم کامیابی اور جہنم میں سلامتی کے ساتھ وارد ہونے پر ایک مرتبہ پھر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے صد ہا مبارک باد اور ساتھ ہی یہ دعا کہ میں بھی جلد سے جلد اس ملکِ اشرافستان سے سلامتی و حفاظت کے ساتھ تمہارے پاس جہنم میں پہنچ کر بقیہ زندگی سکھ اور چین کے ساتھ گزا ر سکوں ( آمین باآوازِ بلند کہنا تاکہ جلدی قبول ہو اور سفر کی سبیل نکلے!)۔

    میرے جانِ من ! تم نے وہاں کی حالات اجمالا لکھے جس سے مجھے اتنا اندازہ ہوگیا ہے کہ جہنم جیسی بھی ہے، ہم جیسے بد بختوں اور شود ر کلاس کے لوگوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔یہاں سے تمہیں گئے ایک سال سے زائد ہوچلا اور یقینا تم اس بات کے خواہاں ہوگے کہ تمہیں یہاں کے بارے میں آگاہ کیا جائے تو جانِ من! یہاں ہماے راوی چین ہی چین ہی لکھ رہے ہیں ( اہم نوٹ! راوی سے مراد دریائے راوی نہیں ہے کیونکہ اُن کی زمین پر قبضہ ہونے کی وجہ سے وہ آج کل غصے میں ہیں اور مخالفین کی اینٹ سے اینٹ اکھاڑ مم میرا مطلب بجا رہے ہیں)۔ہمارے یہ تمام راوی چونکہ ایک خاص کمپنی کا چشمہ پہنتے اور کانوں میں ایک خاص قسم کی مشین لگاتے ہیں اس لئےاُن کو صرف وہی نظر آتا اور سنائی دیتا ہے جو اچھا ہی اچھا ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد کیونکہ اُن کے دماغ کا سافٹ وئیر بھی اشرافستان کی خاص کمپنی میں اپ ڈیٹ ہوا ہے ، اس لئے وہ صرف ایسی انفارمیشن ہی پراسیس کرتا ہے ، جس میں خوشحالی کا دور دورہ اور سکھ چین کے دریا بہہ رہے ہوتے ہیں۔

    عزیز دوست ! محلے سلطان آباد کی گلیسرونٹ آباد میں بھی سب اچھا ہے۔ چاچا گامو ساٹھ سال سرونٹ جیسی اونچی پوسٹ پر اپنی خدمات ادا کرنے کے بعد کل سرکار کے ہاں سے یٹائرڈ ہوا اور آج صبح دنیا ہی سے ریٹائرڈ ہوکر راہی ملک عدم ہوگیا ہے۔ اب وہ تمہارے پاس جہنم میں آتا ہے یا کسی دوسری جانب ، اس پرمیں لب کشائی سے قاصر ہوں، اغلب یہی ہے کہ تمہارے پاس ہی آئے گا کیونکہ بعد از مرگ اُس کے داماد نے یہ درفطنی چھوڑی ہے کہ موصوف نے مجھے شادی کے وقت سلامی میں جو گھڑی دی تھی وہ اُس کی شان کے مناسب نہیں تھی ، لہذا اب اُن کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے اس پر تمہارے جواب کا منتظر ہوں۔ اس کے ساتھ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ماسی ویلی کے یہاں ساتواں سرونٹ مم میرا مطلب ساتواں بچہ پیدا ہوا ہے اور مارے خوشی سے نہال ہو رہی ہے۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ ماسی کچھ سوچو کیا کر رہی ہو، تو کہنے لگی بھلا سرونٹ بھی سوچتے ہیں؟ یہ تو بس مالکوں کو شوبھا دیتا ہے۔ مزید سنو کہنے لگی سرونٹ بھی اگر سوچنا شروع کردے گا تو پھر کام کون کرے گا، اس ملک کا کا روبار کیسے چلے گا، اشرافستان میں خوشحالی کیسے آئے گی۔ میری بدبختی دیکھو بس اتنا کہہ بیٹھا کہ ماسی پہلے ہی چھ جاہل سرونٹ تمہاے گھر میں بیٹھے ہیں اس پر ساتواں بھی۔۔۔۔ بس جناب میرا یہ کہنا تھا کہ ماسی نے مجھے وہ بے نقط سنائیں کہ کانوں سے دھواں بھی باہر نکلنا شروع ہوگیا۔ وہ مجھے بار بار ایک ہی بات کہتی تھی کہ تم ہمارے محلے سرونٹ آباد میں نیچی ذات کے بچوں کو پڑھنے لکھنے کا کہہ کر چاہتے ہو کہ وہ اشرافستان کے شرفاء کے برابر ہوجائیں، جبکہ ہمارا تو فخر ہی یہی ہے کہ ہم جدی پشتی سرونٹ ہیں۔ سرونٹ ابن سرونٹ ابن سرونٹ ابن سرونٹ ۔ اب بتاؤ میں کیا کرتا ماسی ویلی کے آگے ہاتھ جوڑ کر اور ناک رگڑ رگڑ کر معافی مانگی اور اس مشرکانہ فعل جیسے گناہِ عظیم سےنہ صرف زبانی توبہ کی بلکہ بیس مسکینوں کو سیلابی لنگر خانے سے کھانا بھی کھلایا تاکہ میرا یہ گناہ کبیرہ میرے نامہ اعمال سے یوں غائب جائے جیسے غریب کا گھر بارش کے پانی سے ۔

    اب میں انہی سطور پر اپنی تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔

    فقط تمہارا دوست

    اداس مضطر سرونٹ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے