aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کچھ اعداد و شمار کے بارے میں

ابن انشا

کچھ اعداد و شمار کے بارے میں

ابن انشا

MORE BYابن انشا

    ہمارا حساب ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔ یوں تو اور بھی کئی چیزیں کمزور رہی ہیں۔ مثلاً مالی حالت، ایمان، لیکن ان کے ذکر کا یہ موقع نہیں۔ ادھر آج کی دنیا اعداد و شمار اور حساب کتاب کی دنیا ہے حتی کہ ہمارے دوست طارق عزیز بھی جو ہماری طرح نرے شاعر ہوا کرتے تھے، حساب لگانے اور اوسطیں نکلوانے لگے ہیں۔ نیلام گھر کے گزشتہ پروگرام میں انہوں نے پوچھا کہ وہ کون سا مہینہ ہے جس میں سب سے زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے۔ کسی نے بتایا، کسی نے نہ بتایا۔ طارق عزیز کی طرف سے جواب آیا کہ فروری میں کیونکہ اس مہینے میں فقط ۲۸ دن ہیں۔

    ہمارا یہ خیال تھا کہ کوئی آدمی ایک ہی جھوٹ ایسا بول سکتا ہے کہ کسی دوسرے کے عمر بھر کے جھوٹوں پر بھاری پڑے۔ لیکن اعداد و شمار میں چیزوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے۔ بہرحال خوشی کی بات ہے کہ جھوٹ ناپنے کا پیمانہ دریافت ہو گیا ہے اور طارق عزیز کے ہاتھ آگیا ہے جو ہماری طرح سوشلسٹ خیالات رکھتے ہیں۔ ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بہ جانب ہوں گے کہ اس کا راشن مقرر کر دیا جائے۔ اسے نیشلائز کرکے سب کو حصہ رسد تھوڑا تھوڑا حق جھوٹ بولنے کا دیا جائے۔ یہ بات ہمیں قرین انصاف معلوم نہیں ہوتی کہ بڑے لوگ تو جھوٹ بولیں، پیسے والے تو جھوٹ کا طومار باندھیں۔ سیاست دان تو پریس کانفرنسیں تک کریں لیکن عوام سے کہا جائے کہ صر ف سچ بولو۔ مساوات کا تقاضا یہ ہے کہ ایک طرف غریب غرباء کو بھی جھوٹ بولنے کا حق دیا جائے۔ دوسری طرف بڑے لوگوں کو بھی سچ کے استعمال پر راغب کیا جائے۔ جسے یہ لوگ کڑوا ہونے کی وجہ سے بالعموم تھوک دیتے ہیں۔

    کسی دانا یا نادان کا مقولہ ہے کہ جھوٹ کے تین درجے ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار۔ لیکن ہم یہ نہیں مانتے۔ اعداد و شمار بڑی اچھی چیز ہیں۔ اعداد و شمار کی برکت سے اب ہم یہ جانتے ہیں کہ سورج کتنے کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور چاند کی روشنی کتنے سال میں ہم تک پہنچتی ہے۔ بے شک اس سے سورج کی روشنی پر چنداں اثر نہیں پڑا نہ چاند کی چاندنی متاثر ہوئی ہے۔ نہ ہم ان چیزوں میں کمی بیشی کرسکتے ہیں۔ تاہم علم خواہ کتنا ہی بے مصرف ہو آخر علم ہے اور اس کی قدر کرنی چاہیے۔ اب ہر ملک کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس کی GNP کیا ہے، اوسط آمدنی فی کس کتنی ہے۔ مہنگائی کا اعشاریہ کیا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ ایسا کرنے سے مہنگائی کم ہو جاتی ہے یا آمدنی بڑھ جاتی ہے یا پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن علم میں تو اضافہ ہوتا ہی ہے۔ ہم مہذب اور تعلیم یافتہ تو گنے جاتے ہی ہیں۔

    ہمیں معلوم نہیں کہ پرانے حکمران، بابر، شیر شاہ، اکبر اعظم اور فیروز تغلق وغیرہ اعداد و شمارجمع کیا کرتے تھے اور اوسط نکالا کرتے تھے یا نہیں، مثلاً شیرشاہ، اکبر اعظم اور فیروز تغلق کے زمانے میں خاصی ارزانی اور خوش حالی تھی لیکن یہ ذکر نہیں ملتا کہ فی کس کتنے موٹھ مٹر آتے تھے، یا شیر شاہ کی سڑکیں فی کس کتنے ہزار ہر آدمی کے حصے میں آتی تھیں یا GNP کیا تھی۔ آج کل اقتصادی مشیر اور وزیر وغیرہ ہونے کے باوجود اقتصادیات گڑبڑ رہتی ہیں۔

    پرانے زمانے میں اقتصادی مشیر نہ ہونے کے باوجود شاید اسی وجہ سے کوئی اقتصادی خلل واقع نہیں ہوتا تھا، لیکن اس بات کی ہم تعریف نہیں کر سکتے کیونکہ اٹکل پچو چیز اٹکل پچو چیز ہوتی ہے۔ لوگ تو حکمت اور ہومیو پیتھی کی دواؤں سے بھی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ اس کامطلب یہ تھوڑا ہی ہے کہ ہم ان کو صحیح طریقہ علاج مان لیں اور ایلوپیتھی کو جس پر انگریزوں نے اتنا روپیہ صرف کیا ہے خدائی کا درجہ نہ دیں۔

    آج کل ہر چیز کے لیے کیلکولیٹر اور کمپیوٹر وغیرہ نکل آئے ہیں۔ کسی کو ۲+۲ کا جواب چاہیے تو مشین ہی پر حساب کرتا ہے۔ ایک کلرک کو ہم نے دیکھا کہ اس نے ایک کیلکولیٹر خرید لیا تھا تاکہ اپنی ماہانہ آمدنی بڑھا سکے اور ایک کسان نے ایک بینک سے کہا تھا کہ میرے ہاں فی ایکڑ پیداوار کم ہوتی ہے۔ اپنے کمپیوٹر سے کہیے کہ اسے بڑھا دے۔ یہ سادہ لوحی ہے۔ یہ سچ ہے کہ جتنے لوگ ہمارے ہاں کمپیوٹروں کے شعبے میں کام کرتے ہیں اگر جاکر کھیت میں ہل چلائیں تو پیداوار بڑھ سکتی ہے لیکن پھر ساینٹفک اعداد و شمار کی کمی واقع ہوجائے گی، جو پیداوار سے کم ضروری چیز نہیں۔

    اوسط کا مطلب بھی لوگ غلط سمجھتے ہیں۔ ہم بھی غلط سمجھتے تھے۔ جاپان میں سنا تھا کہ ہر دوسرے آدمی کے پاس کار ہے۔ ہم نے ٹوکیو میں پہلے آدمی کی بہت تلاش کی لیکن ہمیشہ دوسرا ہی آدمی ملا۔ معلوم ہوا پہلے آدمی دور دراز کے دیہات میں رہتے ہیں۔ حساب لگایا ہے کہ ایک امریکی سال میں اوسطاً ساڑھے گیارہ بار چھینکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بارہویں چھینک آئے تو اسے روک لیتا ہے یا آدھی روک لیتا ہے، ناک سکیڑ کر رہ جاتا ہے۔ نہ ہر خاندان کے پاس ۱/۲ ٹیلی ویژن اور ۱/۴ کار ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ہر گھر میں ایک ٹیلی ویژن اور ایک خالی کھوکھا ہوتا ہے یا کار کا ایک پہیہ ہوتا ہے، چاہو دروازے پر لٹکاؤ چاہے ہوا بھر کر لڑھکاتے پھرو۔ اور ایسا سوچنا تو اعداد و شمار کا مذاق اڑانا ہے۔ ملک کی ساری کاروں اور سارے ٹیلی ویژنوں کو ساری آبادی پر تقسیم کرکے اوسط نکالی جاتی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ کاریں اور ٹیلی ویژن سچ مچ غریب غرباء سمیت سب کو دے دیے جاتے ہیں۔ خدا نخواستہ ایسی بدعتیں تو سوشلزم وغیرہ میں سنی جاتی ہیں فقط حساب کتاب کی حد تک۔

    تاہم اوسط نکالنے میں کچھ احتیاط ضرور چاہیے۔ ایک بار ایک حساب دان نے دریا پار کرتے وقت اوسط نکالی تھی۔ لوگوں نے بہت منع کیا کہ بابا ڈوب جاؤگے لیکن اس نے بانس بنوایا۔ ایک جگہ آٹھ فٹ گہرا پانی تھا، دوسری جگہ تین فٹ ایک جگہ چار فٹ۔ اوسط نکلی پانچ فٹ۔ سو یہ کچھ گہرائی نہ ہوئی۔ دریا میں اتر پڑا اور لگا ڈبکیاں کھانے۔ لوگوں نے مشکل سے نکالا۔ پھر بھی حیران کہ اوسط پانچ فٹ کی ہے، میں چھ فٹ کا ہوں گا۔ ڈوبا تو کیوں ڈوبا۔

    ایسا ہی ایک حساب دان اصفہان کی سیر کو گیا تھا۔ وہاں بازار میں کئی جگہ ٹھٹکا۔ خریداری کی اور ہوٹل واپس آیا تو معلوم ہوا کہ چھاتا کہیں کسی دکان پر رہ گیا۔ پہلی دکان پر گیا۔ دکان دار نے کہا کہ حضرت یہاں نہیں۔ دوسرے نے کہا، آپ لے گئے تھے۔ تیسرے نے کہا میں نے دیکھا ہی نہیں۔ چوتھے نے بھی انکار میں سر ہلایا۔ پانچویں دکان دار نے البتہ شکل دیکھتے ہی چھاتا نکال حوالے کیا کہ میاں جی آپ بھول گئے تھے۔ اس پر اس شخص نے اہل اصفہان کے بارے میں یہ حکم لگایا کہ اصفہانیوں میں ہر پانچ میں سے صرف ایک آدمی ایماندار ہے۔ یہ اوسط آج بھی سچ ہے ورنہ تو ہر مسافر وہاں ایک چھاتہ لے کر جاتا اور پانچ چھاتے اٹھائے واپس آتا۔

    مأخذ:

    آپ سے کیا پردہ (Pg. 41)

    • مصنف: ابن انشا

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے