Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کچھ اور ٹکٹ کچھ اور امیدوار

ابن انشا

کچھ اور ٹکٹ کچھ اور امیدوار

ابن انشا

MORE BYابن انشا

    ہم نے اس روز ریلوے کے ریٹائرڈ گارڈ میر دلدار علی سندیلوی کا ذکر کیا تھا جن کو صوبائی اسمبلی کے لیے کسی اور پارٹی کا ٹکٹ نہ ملا تو ریلوے کے ٹکٹ پر ہی کھڑے ہوگئے ہیں۔ یہ غالباً ریٹرن ٹکٹ ہوگا۔ جس میں فائدہ یہ ہے کہ آدمی اور کچھ نہیں تو اپنے گھر تو واپس آسکتا ہے۔ دوسرے ٹکٹوں والوں کا تو یہ دیکھا ہے کہ بعض اوقات نہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔ پروگرام میر صاحب قبلہ کا یہ ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے مخلص کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں۔ میر صاحب کے طویل تجربے کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقعی کریں گے لیکن انہیں کچھ اور چوکسی اور مستعدی دکھانے کی ضرورت ہے، یہ نہ ہو کہ مخلص کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے کرتے خود اتنے لیٹ ہوجائیں کہ

    گاڑی نکل چکی ہو

    پٹری چمک رہی ہو

    میر صاحب مذکور کی الیکشن مہم آج کل چھکاچھک جارہی ہے۔ تقریر میں ایسا فراٹا بھر رہے ہیں کہ بڑے بڑے جنکشن منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ بیچ میں فقط ایک آدھ جگہ رکتے ہیں۔ وہ بھی پانی لینے یعنی پانی پینے کے لیے۔ ان کی ایک آدھ تقریر ہم نے بھی سنی ہے۔ فرمایا آپ نے، حضرات یہ دنیا مسافرخانہ ہے۔ ہم سب یہاں پیسنجر کے موافق ہیں۔ پس جتنے دن زندگی کی گاڑی چلتی ہے، محبت اور اخوت کاسگنل ڈاؤن رکھنا چاہے اور نفرت و عناد کو ہمیشہ لال جھنڈی دکھانی چاہیے۔ غریب اور امیر کا ذکر کرتے ہوئے میر صاحب نے کہاکہ ’’اس وقت ہمارے معاشرے میں بڑی ابتری ہے۔ فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے لوگ تو عیش کی سیٹیاں بجاتے ہیں۔ ہم انٹرکلاس اور تھرڈ کلاس لوگ جوتیاں چٹخاتے ہیں۔‘‘ حاضرین میں سے کسی نے نعرہ لگایا کہ اسلام خطرہ میں ہے۔ میرے صاحب ترنت بولے، ’’اسلام خطرے میں نہیں ہے۔ بار بار خطرہ کی زنجیر مت کھینچو۔ یہ قانون کے خلاف ہے۔ جرمانہ دینا پڑے گا۔‘‘

    ریلوے کا سنا تو ایک صاحب پی آئی اے کے ٹکٹ پر کھڑے ہوگئے۔ آج کل اس قسم کی تقریریں کر رہے ہیں، لیڈیز اینڈ جینٹلمین، سلام الیکم۔ کیپٹن فلک سیر آپ کو الیکشنی پرواز ۱۹۷۰ء پر خوش آمدید کہتا ہے۔ اپنے حفاظتی بند باندھ لیجیے اور سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔ ہم پینتیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے اور خیالی پلاؤ کھاتے ہوئے انشا اللہ مہینہ بھر میں اسمبلی چیمبر میں جااتریں گے۔ راستے میں داہنی طرف اچھرہ موڑ آئے گا اور بائیں طرف لاڑکانہ کے پیپلوں کے جھنڈ پڑیں گے۔ ہم ان کو بے نیازانہ دیکھتے ہوئے گزریں گے۔ امید ہے کہ آپ کا سفر خوشگوار گزرے گا۔ دھنیہ باد شکریہ، تھینک یو۔

    ہوائی جہاز کا ٹکٹ حاصل کرنا ایسا آسان نہیں۔ ریلوے کی کھڑکی پر بھی کبھی کبھی رش ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہمارے کرم فرما خان بنارس خان نے لانڈھی سے اومنی بس کے ٹکٹ پر کھڑے ہونا پسند کیا ہے۔ انہوں نے الیکشن کی مہم کا آغاز کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو اشارہ کیا ہے کہ ’’جانے دوس۔‘‘ اپنی تقریر کا آغاز وہ ہمیشہ کی طرح کسی نہ کسی شعر سے کرتے ہیں۔ ’’آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں۔ سامان سو برس کے ہیں پل کی خبر نہیں۔‘‘ ان کا نعرہ ہے کہ ’’ہارن دے کر پاس کریں۔‘‘ اورتقریر کا انداز یہ ہے،

    بائیو۔ اوپر آجاؤ۔ پائیدانوں پر مت کھڑے ہو۔ جیب پاکٹ سے ہوشیار۔ آج کل ووٹ کترے بہت ہوگئے ہیں۔ ہاں تو بائیو۔ تم ام کو سیٹ پر بٹھاؤ۔ ام تم کو سیٹ پر بٹھائے گا۔ کسی کو کھڑا نہیں رکھے گا۔ ہمارے ہاں پارٹیاں بہت ہیں لیکن سب دھواں چھوڑ رہی ہیں۔ امیدوار میں کسی کا بریک فیل ہے۔ بولنا شروع کرتا ہے تو رکتے رکتے بھی آدھ گھنٹہ اور لگادیتا ہے۔ کسی کی باڈی پرانی ہے بعضوں کے تو سائیلنسر بھی کام نہیں کرتے جیسے ہمارے اوکاڑے والے مولوی صاحب کے۔ پس ام کو ووٹ دو۔۔۔ ارے اٹھ کر کدھر جاتا ہے، ابھی ہمارا تقریر کہاں ختم ہوا ہے۔

    ہر بشر کو ہے یہ لازم صبر کرنا چاہیے

    جب کھڑی ہو جائے گاڑی تب اترنا چاہیے

    اتفاق سے ایک ٹکٹ ڈاک کا بھی ہوتا ہے۔ بابو محمد دین سابق پوسٹ ماسٹر کو اسی پر کھڑے ہونے میں سہولت نظر آئی۔ ان کی تقریر بھی ہم نے سنی ہے، ’’محترم حضرات! السلام علیکم۔ مزاج شریف آپ سب کو ہمارا درجہ بدرجہ سلام پہنچے۔ ہمارے تھیلے میں باتیں تو بہت ہیں لیکن سارٹ کرکے فقط چند ایک آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ یہ جتنے امیدوار ہیں، سب کے دلوں پر مہریں لگی ہوئی ہیں۔ ان کی باتیں محض لفافہ ہیں۔ اندر کچھ بھی نہیں۔ کسی کا پتہ نہیں کہ کب بیرنگ ہوجائے یا پوری قوم کو ڈیڈ لیٹر آفس دھکیل دے۔ ووٹر حضرات سے التماس ہے کہ میرے خط کو تار سمجھیں۔ یعنی میری گزارشات پر توجہ فرمائیں اور پولنگ کے روز اپنے اپنے ووٹ قریب ترین لیٹر بکس میں ڈال دیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ والسلام۔‘‘

    متوالا کا نام تو آپ نے سنا ہوگا۔ فلمی دنیا کی مشہور شخصیت ہیں۔ یہ بھی الیکشن میں کھڑے ہیں اور ان کے پاس سینما کا ٹکٹ ہے۔ یہ اپنی تقریر کا مکھڑا عموماً کسی فلی گیت سے باندھتے ہیں۔ مثلاً، ’’ اے دیکھنے والے دیکھ کے چل۔ ہم بھی تو کھڑے ہیں راہوں میں‘‘ اس کے بعد فرماتے ہیں، ’’حضرات! قوم کی خدمت کرنا آسان کام نہیں۔ لیکن میں یہ سوچ کر کھڑا ہوگیا ہوں کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔ اور چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا؟ کھڑا ہونا میرا کام تھا۔ اب مجھے ممبر بنانا آپ کا کام ہے یعنی اب یہ تہاڈی عزت دا سوال اے۔ صاحبان! آپ کے پاس طرح طرح کا امیدوار آئے گا۔ طرح طرح کی ایکٹنگ کرے گا اور ڈائیلاگ بولے گا۔ ان سے ہوشیار۔ ان کے رونے گانے پر نہ جائیے گا۔ سب پلے بیک ہے۔ خاکسار کی پوری عمر قوم کی خدمت میں ریہرسل کرتے گزری ہے۔ اب تو اسے قومی ہیرو بننے کا موقع ملنا چاہیے۔ آپ اس شیراں دے پتر شیر کو ووٹ نہ دیں گے تو اور کسے دیں گے؟ ایک روز ان کے جلسے میں ایک صاحب نے کھڑے ہوکر کوئی اعتراض کرنا چاہا، آپ نے فوراً آواز لگائی، ’’کٹ۔‘‘ وہ وہیں بیٹھ گیا۔

    خان شیر خان گاندھی گارڈن کے علاقے سے کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے پاس چڑیا گھر کا ٹکٹ ہے۔۔۔ ان کی تقریر بھی سننے کی ہوتی ہے، صاحبان! آج کل ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے۔ دہاڑ رہا ہے۔ چنگھاڑ رہا ہے۔ لیکن ہاتھی کی طرح ان کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور۔ قوم کے لیے قربانی دینے کا وقت آئے گا تو سب کو سانپ سونگھ جائے گا۔ طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں گے۔ دم دباکر بھاگ جائیں گے۔ یاد رکھیے۔ ان لوگوں کا آگا شیر کا ہے اور پیچھا بھیڑ کا ہے۔ بگلا بھگتوں کو ووٹ مت دیجیے۔ خاکسار کو دیجیے کہ شاہین را بلند است آشیانہ۔

    سب سے مختصر تقدیر مرزا برکت اللہ بیگ کی ہوتی ہے۔ یہ لاٹری کے ٹکٹ پر کھڑے ہیں، ’’بھائی صاحبان۔ میں تو صرف اتنا کہوں گاکہ مجھے ووٹ دیجیے اور اسمبلی میں پہنچا دیجیے۔ اس کے بعد میں آپ کی خدمت کرتا ہوں یا آپ کو دغا دیتا ہوں، یہ آپ کی قسمت کی بات ہے۔‘‘

    مأخذ:

    خمار گندم (Pg. 75)

    • مصنف: ابن انشا
      • ناشر: لاہور اکیڈمی، لاہور
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے