Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کچھ سگریٹ کے بارے میں

محمد یونس بٹ

کچھ سگریٹ کے بارے میں

محمد یونس بٹ

MORE BYمحمد یونس بٹ

    سائنس دانوں نے اپنی طرف سے یہ بری خبر سنائی ہے کہ ہر بڑے شہر کی ہوا میں ایک دن سانس لینا دوپیکٹ سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ حالانکہ اس سے اچھی خبر اور کیا ہوگی کہ ہم مفت میں روزانہ دو ڈبی سگریٹ پیتے ہیں۔ مجھے تو گاؤں کی صاف فضاؤں میں رہنے والوں سے ہمدردی ہے جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ بس اگر کوئی ڈر ہے تو وہ یہ ہے کہ کہیں حکومت بڑے شہروں میں سانس لینے پر ٹیکس نہ لگا دے۔ جلد ایسا وقت آجائے گا کہ گھر سے نکلتے وقت لوگ یہ بتا کر جایا کریں گے کہ دوکش انار کلی کے لگانے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں، کوئی پوچھے گا کہ آپ کو لاہور آئے کتنی دیر ہوئی تو دوسرا جواب دے گا، ’’آدھی ڈبی ہوگئی، ایک ڈبی اور قیام کروں گا۔‘‘

    سگریٹ پینے سے جو مالی نقصان ہوتا تھا وہ بھی نہیں ہوگا۔ میرے ایک جاننے والے نے سگریٹ نوشی سے بچنے بچانے کا یہ طریقہ نکالا تھا کہ وہ ہمیشہ سگریٹ سے سگریٹ سلگاتا، یوں ماچس کا خرچ بچتا۔ اس سے پہلے ایک سردار جی بھی ایسا کر چکے تھے کہ اس طرح ماچسوں پر رقم ضائع نہیں ہوتی کیونکہ سردار جی کو لائٹر جلانے کے لیے کئی ماچسیں جلانا پڑتی تھیں۔

    سگریٹ ہے کیا؟ کاغذ کی ایک نلی جس کے ایک سرے پر شعلہ اور دوسرے پر ایک نادان ہوتا ہے۔ کہتے ہیں سگریٹ کے دوسرے سرے پر جو راکھ ہوتی ہے دراصل وہ پینے والے کی ہوتی ہے۔ ایش ٹرے وہ جگہ ہے جہاں آپ یہ راکھ اس وقت ڈالتے ہیں جب آپ کے پاس فرش نہ ہو۔ ویسے تو سگریٹ پینے والے کے لیے پوری دنیا ایش ٹرے ہی ہوتی ہے بلکہ ہوتے ہوتے یہ حال ہو جاتا ہے کہ وہ سگریٹ منہ میں رکھ کر سمجھتا ہے ایش ٹرے میں رکھا ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کہتا ہے کہ ایک عورت صرف ایک عورت ہوتی ہے جبکہ اچھا سگار بس دھواں ہوتا ہے۔ دنیا کا سب سے مہنگا سگریٹ آپ کا پہلا سگریٹ ہوتا ہے، بعد میں سب سستا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ پینے والا بھی۔

    ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے پانچ سال کی عمر میں سگریٹ شروع کیے، اب ساٹھ بر س کا ہوگیا ہوں مگر اتنا ہی طاقتور ہوں جتنا سگریٹ پینے سے پہلے تھا۔ میں نے پوچھا، ’’کیسے؟‘‘ کہنے لگا، ’’وہ جو سامنے پتھر پڑا ہے سگریٹ پینے سے پہلے بھی میں اسے نہیں اٹھا سکتا تھا اب بھی نہیں اٹھا سکتا، یعنی مجھ میں اب بھی اتنی ہی طاقت ہے جتنی پہلے تھی۔‘‘ کہتا ہے، ’’سگریٹ پینے سے عمر کم ہوتی ہے سو اگر میں سگریٹ نہ پیتا تو میری عمر ساٹھ کی بجائے نوے برس ہوتی۔‘‘ میں نے کہا، ’’سگریٹ تو گدھے بھی نہیں پیتے۔‘‘ کہنے لگا، ’’ہاں گدھے سگریٹ نہیں پیتے۔‘‘ اب تو وہ سگریٹ منہ میں لگا کر اسے جلانا بھول جاتا ہے۔ اس میں اتنی پریشانی نہیں، پریشانی یہ ہے کہ کبھی سگریٹ جلاتے وقت سگریٹ منہ میں ڈالنا بھول جاتا ہے۔ بہر حال یہ مانتا ہوں کہ بوڑھوں کا سگریٹ پینا در اصل ورزش کرنا ہی ہے۔ پہلے کش پر وہ کھانسی شروع ہوتی ہے کہ منٹ میں جوڑ جوڑ کی بیٹھے بیٹھے ورزش ہو جاتی ہے۔

    مارک ٹوئن نے تو سگریٹ کم کرنے کا یہ حل نکالا تھا کہ اصول بنا لیں کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ سگریٹ نہیں پئیں گے۔ ویسے دوستوں رشتہ داروں کے سگریٹ کم کرنےکا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ ان کی ڈبی سے سگریٹ نکال کر پینے لگیں، کچھ تو کم ہوں گے۔ البتہ نئی نسل کواس سے بیزار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سگریٹ پینا نصاب میں شامل کر دیا جائے۔ تاہم جو شادی شدہ اسے چھوڑنا چاہتے ہیں وہ سگریٹ کی ڈبی میں بیوی کی تصویر رکھا کریں۔ میرے ایک دوست نے سگریٹ نوشی چھوڑنے کا وعدہ کیا۔ اگلے روز آکر کہنے لگا کہ میں نے آدھا وعدہ پورا کردیا ہے باقی آدھا رہ گیا ہے۔ میں نے پوچھا، ’’کیسے؟‘‘ کہنے لگا، ’’تم سے سگریٹ نوشی چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا، نوشی کو چھوڑ دیا۔ سگریٹ رہ گئے وہ بھی چھوڑ دوں گا۔‘‘ ویسے اس کے سگریٹ چھوڑنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ قسم کھائے کہ آئندہ کبھی کسی سے سگریٹ نہیں مانگے گا۔

    انگریز ہم پر سگریٹ کے زور پر حکومت کر گئے کیونکہ پہلے حقہ تھا۔ سب لوگ اس کے گرد ہالہ بنا کر بیٹھتے اور ایک ہی حقہ یوں مل کر پیتے کہ لگتا یہ ایک ہی جسم کے مختلف منہ ہیں۔ مگر انگریز نے انہیں سگریٹ تھما کر علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ سگریٹ بڑوں کی چوسنی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم چوس رہے ہیں حالانکہ وہ انہیں چوس رہی ہوتی ہے۔ سگریٹ پینا دراصل اپنے سانس پینا ہے۔ مجھے تو سگریٹ کا دھواں اتنا برا لگتا ہے کہ جب کوئی میرے پاس سگریٹ پیتا ہے تو میرا دل چاہتا ہے اسے صاف صاف سنا دوں مگر اس لیے منہ نہیں کھولتا کہ کہیں یہ دھواں اندر نہ چلاجائے۔ میں تو اس حق میں ہوں کہ دھواں دینے والے رکشوں اور مردوں کا چالان ہونا چاہیے۔ میرا ایک دوست ان باتوں سے اس قدر متاثر ہوا کہ کہنے لگا، ’’میں ابھی سگریٹ ختم کرتا ہوں۔‘‘ اور وہ اس وقت میرے سامنے سگریٹ کے لمبے لمبے کش لے رہا ہے تاکہ اسے جلدی جلدی ختم کر سکے۔

    مأخذ:

    افرا تفریح (Pg. 18)

    • مصنف: محمد یونس بٹ

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے