Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لاہوری بلیاں

علی حسن اویس

لاہوری بلیاں

علی حسن اویس

MORE BYعلی حسن اویس

    لاہور ایک ایسی الکھ نگری ہے جو جکڑنے کی صلاحیت (جادو کہیں یا حسن) سے لبریز ہے۔ جو شخص اس نگری کا ایک بار مسافر ٹھہرا پھر اس کی بھل بھلیوں میں ایسا کھویا کہ واپسی کا راستہ چاہ کر بھی تلاش نہ سکا۔ لاہور میں ٹھہرا متلاشی منزل اندرونی کشمکش، جس کی وجہ ماضی کی کشادہ یادوں کا تنگ گلیوں سے تصادم ہے، میں مبتلا ہوتا ہے۔

    تعلیم کے سلسلے میں گاؤں سے لاہور ہجرت کی اور ہاسٹل میں مقیم ہوئے۔ گاؤں میں کھلا ماحول اور وسیع درودیوار، جن میں درخت موسموں کے تغیر کا پتہ دیتے تھے اور پرندے ہر موسم کا ترانہ سنایا کرتے تھے، چھوڑ لاہور آئے تھے۔ لاہور کی تنگ گلیاں کیسے راس آ سکتی تھیں۔ ہاسٹل کی گھٹن اور درودیوار کی بوجھل خاموشی سے دل گھبراتا اور گاؤں کا ماحول، پرندوں کی بولیاں، بلیوں کا رات کے تیسرے پہر ایک دوسرے سے لڑنا، گیدڑوں کا کماد کے کھیت سے طرح مصرعہ دینا، کتوں کا جوابی دو غزلے سنانا اور مرغے کا وقت سے قبل اذان دے کر محفلِ مشاعرہ برخاست کرنے کی کوشش کرنا شدت سے یاد آتا۔ اور لاشعور میں ان کی بازگشت گونجتی۔

    یاد کی شدت سے دو طرح سے نمٹا جا سکتا تھا۔ یا تو یاد کو محو کر دیا جائے یا کوئی متبادل راہ تلاش لی جائے۔ یاد کو محو تو نہ کر سکا اور نہ ہی محو کی جا سکتی تھی کیونکہ زندگی کا بیس سالہ عرصہ گاؤں کی گلیوں میں گھومتے گزرا تھا اور بیس سال کی یادوں کو چند لمحوں میں جلا کر راکھ کر دینا کسی صورت میں ممکن نہ تھا۔

    دوسرا رستہ چنتے ہوئے، دل بہلانے نزدیکی پارک پہنچ جایا کرتا ہوں۔ یہاں اکثر تین طرح کے پرندے اور ایک جانور دیکھائی دیتے ہیں۔ پرندوں میں کوا وہ بھی کالا، چیل ، چڑیا، اور جانور ہے بلی۔ چیل اور کوے ہر وقت دکھائی دیتے ہیں مگر چڑیا شام سورج ڈھلنے سے ذرا قبل، جب وہ سرخ مائل ہو جاتا ہے، تو مغرب سے مشرق کی جانب اڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ اور صبح جب سورج طلوع ہو رہا ہوتا ہے ان کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھولتی ہے۔ کبھی کبھار بھیڑ اور میمنا جن کی گردن میں رسی ہوتی ہے، اپنے خاوند کے ساتھ نظر آتے ہیں اور ہفتہ میں ایک آدھ دن ایک لیورے کتا، جسے مالک سیر کروا رہا ہوتا ہے، دیکھا جاتا ہے۔

    پطرس بخاری نے کہا تھا لاہور میں طلباء کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ مگر میری جدید تحقیق کے مطابق لاہور میں آلودگی کے بعد سب سے زیادہ بلیاں پائی جاتی ہیں۔ ہر گلی، در، دیوار ، سڑک اور پارک میں یہ نسل سوتی، خراٹے لیتی، جاگتی، اچھلتی بھاگتی نظر آتی ہے اور ہوٹل مالکان کن انکھیوں سے انہیں گھورتے۔ یہ منظر دیکھ کر اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں گدھوں کی طرح انہیں بھی ہوٹل مالکان کی نظر نہ لگ جائے۔ لاہور میں بلیوں کی اتنی کثرت ہے کہ وہ روایات کو بدل کر نیا مفروضہ پیش کر چکی ہیں۔ بلیوں کے مشترکہ علامیے میں یہ سامنے آیا ہے کہ جب لاہوری ان کا راستہ کاٹیں، انہیں سفر ترک کر دینا چاہیے۔ کیونکہ لاہوریوں کا راستہ کاٹنا بلیوں کی زندگی میں تلاطم لانے کا باعث ہے۔ حالیہ تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ آوارہ قسم کی کچھ لاہوری بلیاں رکشوں کے اندر آرام کرتی اور رات کو خراٹے لیتی ہیں جبکہ آدمی فٹ پاتھ پر۔

    عموماً بلیوں میں تین طرح کے عوامل پائے جاتے ہیں۔ کھانے کی تلاش، کھیل کود اور خیال رکھے جانے کی تمنا۔ مگر لاہوری بلیاں عجب بلکہ غضب بلیاں ہیں۔ ایسی بلیاں میں نے پہلے کہیں نہیں دیکھیں۔ پیچھے بھاگنے والوں کے آگے بھاگتی ہیں اور آگے بھاگنے والوں کے پیچھے۔

    لاہوری بلیوں کے رنگوں میں بہت تنوع ہے۔ کالی، بھوری، سفید، مٹیالی، سرمئی، ہلکی پیلی اور سبز مائل بلیاں ہر گلی کوچے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ رنگوں کے اختلاط سے اور بھی کئی رنگ جھلکتے نظر آتے ہیں۔ جلد کے رنگوں کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی رنگت بھی لاجواب ہے۔ اس میں ہلکی سبز مائل آنکھیں، سرمئی، کالی، ہلکی پیلی، سرخ، سنہری چمکدار اور ہلکی نیلی آنکھوں والی بلیاں ادھر ادھر بھاگتی ملتی ہیں۔ ایک روز پارک گیا، شام کا وقت، فضا میں دھند چھائی ہوئی تھی۔ ایک ہلکی کالی بلی، جس پر بھورے رنگ کا شبہ ہوتا تھا، درخت کے نیچے بیٹھی ہڈی چبا رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی میں اس جانب چل دیا۔ ہڈی چباتے ہوئے اس نے مجھے ایسے گھور کر دیکھا جیسے میں اس سے ہڈی چھیننے آ رہا ہوں۔ اس کے قریب پہنچا ہی تھا کہ وہ ہڈی لے کر بھاگ گئی۔ مگر بھاگنے سے قبل غورررر (purr)“ کی آواز سے مجھے کچھ کہہ بھی گئی۔ شاید یہی کہا تھا۔ ”آج کل تم بلیوں کو بہت تاڑ رہے ہو باز آجاؤ“ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو وہ بلی نہیں بلّا تھا۔

    ایک رات ، نو کا عمل ہوگا، چہل قدمی کی غرض سے نہرو پارک گیا۔ وہاں ایک سفید رنگ کی بلی کو پودے کی اوٹ میں بیٹھے دیکھا۔ اس کی سرخ مخمور آنکھوں نے ایسا متاثر کیا کہ اس کے پاس جا کر تھپکی دینے کو دل چاہا۔ قریب گیا تو اس نے دو قدم پیچھے ہٹ کر اتنی خوفناک آواز نکالی کہ میں فوراً دور ہٹ گیا۔ سائیکالوجی کے مطابق جب بلی پیچھے ہٹ کر گھورتی ہے تو وہ حملہ کرنے کی تیاری میں ہوتی ہے۔ مگر اس بلی کی خوفناک آواز نکالنے سے شک گزرا کے اس پر کسی پیرا نارمل چیز کا اثر ہے۔ جسے پیرا نارمل سائیکالوجی میں anpsi کہا جاتا ہے۔

    نہرو پارک میں ایک روز آوارہ خرامی کر رہا تھا۔ سڑک پر سے گاڑیاں گزر رہی تھیں اور گاڑیوں سے پرے عمارتیں پیلی اور سفید روشنی تلے خاموش کھڑی تھیں۔ پیلی اور سفید روشنی کے امتزاج کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی کے انتظار میں چمکتا سفید بلب، ہجر کی لمبی شب کی بدولت پیلا پڑ گیا ہو۔ وہاں ایک کھمبے کے درمیان پڑے کپڑے پر سفید دم والی کالی بلی، سردی سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے اسے دو تین مرتبہ آواز دی اور چھونا چاہ۔ کان ہلا، چہرہ پاؤں سے میری جانب اٹھا، نظر بھر دیکھنے کے بعد میاؤوں کہتی ہوئی، سڑک کے کنارے دور بھاگتی، فضا میں چھائی کہر میں چھپ گئی۔ بلی میاؤوں اس وقت کہتی ہے، جب اسے انسانوں سے بات کرنا ہوتی ہے۔ میاؤوں کی سختی سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کچھ الٹا سیدھا کہہ گئی ہے۔ بعد میں سمجھ آیا کہ اس نے کہا تھا، لعنتی لونڈا مجھے چھیڑتا ہے“۔

    ایک روز میں اور میرا روم میٹ سیماب نہرو پارک سے پانی بھر کر باہر نکل رہے تھے۔ ایک بھورے رنگے کا بلی کا بچہ راستہ کاٹتے ہوئے درخت پر چڑھ گیا۔ راویت کے مطابق مطلب تھا کہ سفر ترک کر دیا جائے۔ مگر ہم نے سوچا کہ بلی ہوتی تو روایت کے متعلق سوچا جا سکتا تھا۔ مگر وہ تو بلونگڑا تھا۔ اور بلونگڑا لونڈوں کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ سو ہم نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے سفر جاری رکھا۔ دو قدم چلے ہوں گے کہ اچانک کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ پیچھے مڑ دیکھا تو بلونگڑا درخت سے گرا تھا۔ بلیوں کا مشترکہ اعلامیہ ذہن میں گردش کرنے لگا۔ مگر تعجب اس بات پر ہے کہ ہم دونوں لاہوری نہ تھے۔

    اور بھی کئی قصے بلکہ معرکے ہیں جنہیں پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ البتہ اتنا ضرور کہنا چاہوں گا، جس نے لاہور دیکھا مگر لاہوری بلیاں نہ دیکھیں ، تو اس نے پھر کیا دیکھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے