Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مکان کی تلاش

احمد جمال پاشا

مکان کی تلاش

احمد جمال پاشا

MORE BYاحمد جمال پاشا

    ایک آدمی دریا میں ڈوبتے ہوئے چلّا رہا تھا۔

    ’’بچا ؤ! بچا ؤ!‘‘

    ایک شخص دوڑا اور اس سے پوچھا، ’’تم کہاں رہتے ہو؟‘‘

    اس کاپتہ نوٹ کرکے بھاگا لیکن جب اس کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ ایک منٹ پہلے نیا کرایہ دار آچکا ہے۔

    آنے والے نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا، ’’ہو نہ ہو! نیا کرایہ دار وہی شخص ہے جس نے مرحوم کو دریا میں دھکیلا تھا!‘‘

    ہم نے یہ ٹریجڈی سُننے کے بعد اپنا سر پیٹ لیا کہ کاش ہم نے مرحوم کو دریا میں دھکیلا ہوتا تو اس وقت وہ نئے کرایہ دار ہم خود ہوتے!

    اس کے بعد ہم افتاں وخیزاں مکان کی تلاش میں نکل پڑے۔ راستے میں ایک جنازہ جارہا تھا۔ ہم نے پوچھا، ’’یہ کس کا جنازہ ہے؟‘‘

    مرنے والے کا نام وپتہ نوٹ کرکے فوراً الاٹمنٹ کے دفتر پہنچے اور درخواست دی۔

    ’’فلاں شخص مرگیا ہے، اُس کا مکان ہمیں الاٹ کردیا جائے۔‘‘

    تھوڑا بہت لے دے کر مکان اپنے نام الاٹ کرالیا۔ اس کے بعد ہم تقریباً دو درجن تعزیت کرنے والوں کو لے کر پہنچے اور روتے ہوئے پوچھا؛

    ’’مرحوم کس کمرے میں رہتے تھے؟‘‘

    کمرہ دیکھنے کے بعد ہم نے کہا، ’’مرحوم سے مجھے اتنی محبت تھی کہ اب میں جیتے جی یہ جگہ نہیں چھوڑ سکتا!‘‘ اورہم نے وہاں آسن جما دیا۔ لیکن تعزیت کرنے والوں کے جانے کے بعد مرحوم کے پس ماندگان نے ہماری ایک نہ سنی اور زبردستی نکال باہر کیا۔

    مرحوم کے دولت خانے سے نکالے جانے کے بعد بھی ہم ہمّت نہ ہارے اور مکان حاصل کرنے کے لیے کچھ کرایہ کی عورتیں تیار کیں پھر انہیں سکھا پڑھا کر چلتا کیا اور پیچھے پیچھے ہم خود چلے۔

    یہ عورتیں پیٹھ پر سامان لادے گھر گھر جاکر پوچھتیں۔

    ’’مکان کا کوئی حصہ کرایہ پر مل سکتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں!‘‘

    اس کے بعد عورتیں سامان رکھ کر بیٹھ گئیں اور بولیں، ’’پانی پلا دیجئے۔‘‘

    پانی پینے کے بعد سستانے کے لیے ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گئیں۔ پھر مچل گئیں۔ ’’ہم رات یہاں گزارلیں؟‘‘

    صبح جب ان سے مکان خالی کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے چلانا شروع کیا۔

    ’’تم نے ہمیں آدھا مکان کرایہ پر دیاہے!‘‘

    ان کا شور سُن کر باہر منتظر ہم لوگ اندر آگئے اور وہ شور مچا کہ پولیس آگئی۔ زبردستی مہمان بنے رہنے کے شرف کو برقرار رکھنے کے لیے ہم نے عدالتی چارہ جوئی کی۔ عدالت نے حکم امتناعی جاری کردیا۔ ایک طرف مقدمہ چلتا رہا اور دوسری طرف ہم مہمان لوگ میزبان کو پریشان کرتے رہے۔ یہاں تک عاجز کیا کہ مجبوراً مکان والے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس سے پہلے کہ مکان پر ہمارا قبضہ ہوجاتا کسی نے مالک مکان کو گھر خالی کرتے دیکھ کر فوراً الاٹ منٹ کے دفتر کا رُخ کیا اور مکان الاٹ کراکے ہمیں نکال باہر کیا۔

    کہتے ہیں ڈھونڈے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔ ضرور مل جاتاہے لیکن لاکھ لاکھ تلاش کے باوجود مکان نہیں ملتا۔ اسی چکر میں یہ طے کرکے نکلے کہ یا مکان تلاش کرلیں گے ورنہ خود ہی لاپتہ ہوجائیں گے! لیکن ہوا یہ کہ نہ مکان مل سکا اور نہ خود جیتے جی لامکاں ہوسکے! لیکن ہر مکان کو خالی سمجھ کر اس پر لپکنے کے چکر میں کئی بار پولیس کے ہتھے چڑھتے چڑھتے ضرور بچے!

    جب سارے شہر میں ایک بھی’’ٹولٹ‘‘ کا بورڈ نہ ملا اور نہ کسی نے بتایاکہ کسی کا کوئی مکان کہیں خالی ہے تو ہم نے اخباروں اور رسالوں میں ’’مکان چاہیے، مکان!‘‘ کے اشتہار نکلوائے۔ احباب کو دھمکی دی کہ اگر مکان نہ ملا تو مع سامان کے تمہارے یہاں دھرنا دیں گے لیکن اس طرح مکان یا اس کا اتہ پتہ تو نہ ملا البتہ دوستوں کی بھیڑ ضرور چھٹ گئی۔

    جب ہم کسی خالی مکان میں تالا لگا دیکھتے تو اس خیال کے تحت اسکے چکّر لگانے لگتے کہ یہ ضرور خالی ہوگا! جس سے پاس پڑوس والوں کو شک ہونے لگتا کہ کہیں ان کا ارادہ قفل شکنی کا تو نہیں؟

    لیکن یہاں قفل شکنی تو کُجا کسی کی دل شکنی بھی نہیں کرسکتے اور اسی مروت کے مارے آج مکان کی تلاش میں زمین کا گزبنے ہوئے ہیں۔

    ہوا یہ کہ جس مکان میں ہم رہتے تھے اس کے مالک نے ہمیں بڑے سبز باغ دکھائے کہ ’’اگر ہم کچھ دن کے لیے کہیں اور چلے جائیں تو وہ اس ٹوٹے ہوئے مکان کو توڑ کر نئی بلڈنگ کھڑی کردیں گے، جس میں ہمیں بجلی اور پانی کے پائپ وغیرہ کی خاص سہولتیں بالکل مفت حاصل ہوں گی۔‘‘ ہم نے ان کی باتوں میں آکر اپنے دوست خاں صاحب کے یہاں ڈیرا جمایا۔ مالک مکان نے مکان بنوانے کی بجائے اسی کھنڈر کا پیشگی کرایہ اور پگڑی لے کر ایک نیا کرایہ دار بسالیا جبھی سے ہم مکان ڈھونڈتے اور خاں صاحب سے آنکھیں چراتے پھرتے ہیں۔

    ہمارے ایک دوست جو مکان تلاش کرنے میں ہماری کافی مدد کررہے تھے سخت بیمار پڑگئے۔ ہم نے بہت جی لگاکر ان کی تیمارداری کی تاکہ وہ جلد از جلد اچھے ہوکر ہمارے لئے مکان ڈھونڈ سکیں لیکن جوں جوںان کا علاج کیا، حالت بگڑتی گئی۔ یہاں تک کہ آخر ان کا انتقال ہوگیا۔ ہم نے اپنے دوست کا کفن دفن اور تیجہ، چالیسواں اس خیال سے کر دیا کہ پگڑی اور پیشگی کرایہ نہیں دیا، مرحوم کی آخری رسوم ادا کردیں اور ہم مرحوم کے مکان منتقل ہوگئے لیکن ابھی ہم نے اچھی طرح سامان بھی نہ جمایا تھا کہ پولیس نے ہمیں نکال باہر کیا، کیونکہ مرحوم کے پس ماندگان نے مکان اپنے نام الاٹ کرالیا تھا۔

    اس بار خاں صاحب نے بھی ہمیں پناہ نہ دی۔ مجبوراً ہم نے سامان اسٹیشن کے لگج روم میں جمع کروایا اور پلیٹ فارم پر رات کو سونے کے ساتھ ساتھ دن کو مکان کی تلاش کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس تلاش کے باوجود کچھ دنوں میں گھر تو نہ ملا لیکن ایک عدد گھر والی ضرور مل گئی۔ جس کی وجہ سے رات بسر کرنے کے لیے کرایہ پر رات میں ’’رین بسیرے‘‘ میں جگہ مل جاتی۔ لیکن مکان کے بارے میں ہماری مایوسی یہاں تک بڑھ گئی کہ ہم سوچنے لگے، کیوں نہ ہم دونوں کوئی ایسا جرم کر ڈالیں کہ ہمیں جیل ہوجائے اور اس طرح رہنے کا سہارا ہوجائے۔

    مکان نہ ملنے کی صورت میں ہم نے یہاں تک کوشش کی کہ مکان نہ سہی ایک کمرہ یا کوٹھری ہی مل جائے لیکن گولر کے پھول کی طرح وہ بھی نہ ملی۔ ہم نے اپنے دوستوںاور رشتے داروں پر ہر ہر طرح سے زور دیا لیکن کوئی بھی ’’ہاں، ہوں‘‘ یا زبانی ہمدردی سے آگے نہ بڑھا۔ رفتہ رفتہ ہمارا یہ عالم ہوگیا کہ ہم محل اور کوٹھی بنگلے کا کیا ذکر، کسی غریب کی جھونپڑی، فٹ پاتھ یا سایہ دار درخت دیکھ لیتے تو ہماری رال ٹپکنے لگتی اور چلتے پھرتے فٹ پاتھ پر چھپر چھانے کے امکانات پر غور کرنے لگے۔

    جب کسی کا کوئی آسرانہ رہاتو ہم خود مکان کی تلاش میں نکلے۔ ایک دن ایک مخبر نے سراغ دیا کہ فلاں محلے کی فلاں گلی میں فلاں مکان کا ایک حصہ کرایہ کے لیے خالی ہے۔

    مکان جاکر دیکھا۔ مکان تو کیا مکان کا نام تھا جس کی چھت آسمان اوردیواریں سرسبز تھیں۔ گھنٹوں آوازیں دینے پر ایک بڑے میاںاندر سے برآمدہوئے۔ بولے، ’’مکان تو مل جائے گا لیکن اس شرط پر کہ پہلے اسے بنوانا پڑے گا!‘‘

    ہم نے کہا، ’’ٹھیک ہے، پہلے اس کا نقشہ بنوا کر منظور کروالیں۔‘‘

    اس کے بعد ہم وہاں سے سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔

    ایک اور مکان کا پتہ لگا۔ اس میں سے ایک برخوردار برآمد ہوئے اور پوچھا، ’’کیا بیچتے ہو؟‘‘

    عرض کیا، ’’مکان خریدنے نہیں کرایہ پر لینے آئے ہیں۔‘‘

    یہ سُن کر وہ اپنے بڑے بھائی کو بلالائے۔ ان کے بڑے بھائی نے ہماری تعلیم، مالی اور خاندانی حالت اور ہماری باتوں اور عادتوں کے بارے میں سیکڑوں باتیں پوچھ ڈالیں۔

    اس کے بعد پوچھا، ’’آپ بچوں کو پڑھا سکتے ہیں؟‘‘

    عرض کیا، ’’اس سے پہلے کبھی نہیں پڑھایا ۔‘‘

    ’’کھانا پکانا آتا ہے؟‘‘

    ’’یہی تو ایک شوق ہے ہمیں۔ جب سے ہمارا باورچی بھاگا ہے تب سے ہم نے باورچی رکھنا ہی چھوڑ دیا۔‘‘

    ’’شادی ہوگئی؟‘‘

    ’’جی ہاں!‘‘

    ’’پھرخواہ مخواہ دیواریں کالی کروانے سے فائدہ؟‘‘

    یہاں سے جو چلتے کئے گئے تو ایک اور مالک مکان کے پاس پہنچے۔ انہوں نے اپنے ایک مقدمہ کی پوری مثل ہمیں سنانے کے بعد ہم سے قانونی مشورہ لیا۔ اس کے بعد بولے، ’’باپ رے باپ! ہم اتنے قانونی آدمی کو اپنا مکان نہیں دے سکتے۔ مسٹر چلتے پھرتے نظرآئیے! چلتے پھرتے!‘‘

    دوسری جگہ جب قسمت آزمائی کے لیے پہنچے تو انہوں نے ہمیں اپنی مکمل کلیات سنادی۔ ان کا کلام سنتے سنتے ہم بے ہوش ہوگئے۔ جب ہم ہوش میں آئے اور موقع غنیمت پاکر عرض مدعاکیا، تو بولے، ’’کسی نے آپ کو بہکادیا، بھلا شاعر اور مکان؟ میں خوددن رات مشاعروں میں رہتا ہوں۔ مکان وکان میرے پاس کہاں؟‘‘

    ایک گلی میں ہم نے جاکر مکان کے سلسلے میں اتنی آوازیں (مکان ہے مکان؟) لگائیں کہ کسی دل جلے بہرے نے تنگ آکر اوپر سے ہمارے اوپر ایک بالٹی پانی پھینک دیا۔ اب جو ہم وہاں سے چوہا ہوکر بھاگے اوراوپر والوں نے چور! چور! کانعرہ بلند کیا تو آگے آگے ہم پیچھے پیچھے محلہ کے لونڈوں اور گلی کے کتّوں نے تالیاں بجا بجاکر اور بھونک بھونک کر ہمیں دوڑالیا۔ پھر جو ہم بے تحاشا بھاگے تو ایک صاحب سے ٹکراتے ٹکراتے بچے۔ انہوں نے، ’’یا وحشت؟‘‘ کہہ کر ہمیں پکڑلیا اور بولے، ’’خیریت؟‘‘

    عرض کیا، ’’مکان!‘‘

    ’’بجلی بنانا جانتے ہو؟‘‘

    ’’جانتے ہیں!‘‘

    اس کے بعد انہوں نے ہم سے فیوز وغیرہ بنوانے کے بعد کہا، ’’وہ سامنے والا کمرہ آپ کو مل سکتا ہے لیکن ہر ماہ پیشگی سوروپے دینا ہوں گے۔‘‘

    ہم نے کرایہ کی پروانہ کرتے ہوئے جاکر کمرے کا معائنہ کیاتو معلوم ہوا کہ محض ایک تنگ وتاریک کوٹھری ہے جس میں صرف پنجوں کے بل داخل ہوا جاسکتا ہے۔ ہم داخل ہوتے ہی مکڑی کے جالوں اور گردوغبار میں اَٹ گئے۔ نہ دروازہ، نہ روشن دان، کچھ بھی نہ تھا۔ بولے،

    ’’آپ اس میں آجائیے، ہم اپنی بکریاں کہیں اور باندھ دیاکریں گے۔‘‘ چلتے وقت انہوں نے پوچھا، ’’آپ کی شادی ہوگئی۔‘‘

    عرض کیا، ’’نہیں!‘‘

    وہ گرجے، ’’اگر شادی نہیں ہوئی ہے تو کوئی اور مکان دیکھئے۔ یہ گھر ہے کوئی سرائے نہیں۔‘‘

    پھر نکالے جانے کے بعد ایک قبر رسیدہ بزرگ کے پاس پہنچے اور کہا، ’’سُنا ہے آپ کے یہاں مکان خالی ہے؟‘‘

    انہوں نے جُگالی کرتے ہوئے پوچھا، ’’کھانے میں آپ کو کیا کیا پسند ہے؟‘‘

    عرض کیا، ’’جومل جائے!‘‘

    بولے، ’’ہم لوکی کھاتے ہیں۔‘‘

    ’’ہم بھی آج تک لوکی کھاتے آئے ہیں۔‘‘

    ’’مجھے بٹیر اور مقدمہ لڑانے کا شوق ہے۔‘‘

    ’’اپنا بھی یہی شوق ہے!‘‘

    انہوں نے ہمیں گلے لگاتے ہوئے کہا، ’’بس ہم ایساہی آدمی چاہتے تھے جو ہمارے ساتھ رہے اور لوکی کھائے۔‘‘

    مکان ڈھونڈے کے بارے میں ہماری اتنی معلومات ہیں کہ راہ چلتوں، دوستوں اور رشتہ داروں کی چال ڈھال اور بات چیت سے اندازہ لگالیتے ہیں کہ یہ ایک مکان کی تلاش میں ہیں۔ اخباروں میں اس قسم کے اشتہار اور خبریں نظروں سے گزریں۔ مثلاً ایک خبر تھی؛

    ’’کیا واقعی آپ کو مکان کی بہت سخت ضرورت ہے؟ اگر آپ مکان کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں تو لگے ہاتھوں ایک مکان ہمارے لئے بھی تلاش کرڈالیے۔ مکان تلاش کرکے ہلچل مچادیں۔‘‘ و ہ تصویر میں مکان دیکھ کر اس طرح مسکرارہاتھا جیسے زمین دیکھ کر کولمبس پہلی بار مسکرایا تھا۔

    اکثر احباب جو پرلے سرے کے بے فکر ے تھے اور جن کے ساتھ گپ شپ میں بآسانی وقت کٹ جاتا تھا، اچانک غائب ہوگئے اور اتنا زمانہ گزر گیا کہ ہم انہیں بھول گئے لیکن پھر اچانک ایک طویل مدت کے بعد مع مکان کے برآمد ہوئے۔

    ایک شادی میں گئے۔ دعوت کے بعد دولہا کو جاکر مبارکبادی۔ دولہا نے سہرے میں سے چاند سامکھڑا نکال کر مسکراتے ہوئے کہا،

    ’’ہاں صاحب! نہ مکان ملتا، نہ ہم سب کو جمع ہونے کا موقع ملتا۔‘‘

    گویا یہ سب کچھ شادی نہیں، مکان ملنے کا ہنگامہ تھا جس کاسہرا ان کے سر باندھا گیاتھا۔

    ایک انٹرویو میں کئی سوا فراد نے شرکت کی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کسی صاحب کے پاس ایک فاضل کوٹھری نکل آئی تھی۔ انہوں نے آمدنی میں اضافے کے خیال سے اسے کرایہ پر اٹھانے کا اشتہار دیاتھا۔ جس کے نتیجے میں ان کے پاس ہزاروں درخواستیں آگئیں۔ وہ غریب بھلے آدمیوں کا انٹرویو لیتے جاتے اور سر پیٹتے جاتے کہ ’’کس کس سے جھوٹ بولیں اور کس کس سے تعلقات خراب کریں۔‘‘

    اکثر دوست ’’ہالی ڈے موڈ‘‘ میں نظرآئے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آج کل مکان تلاش کررہے ہیں۔ جب تک مکان سے چھٹی نہ مل جائے دفتر سے چھٹی رہے گی۔

    مکان تلاش کرنے کے سلسلے میں خود ہماری حالت سب سے پتلی تھی اس لئے ’’ٹیبل ٹاک‘‘ کے دوران ہمیشہ گھما پھرا کر گفتگو کا رخ اس پہلو کی جانب لاکر نہایت گمبھیر آواز میں کہتے، ’’صاحب مکان تو بہت ہی سیریس پرابلم بنتا جارہا ہے!‘‘

    اور لوگ ’’ہاں صاحب! ہاں صاحب!‘‘ کہہ کر اس پر روشنی ڈالنے لگتے۔ لوگ پوچھتے بھی کہ ’’بھئی کیا کررہے ہو؟‘‘

    کہتے، ’’مکان تلاش کررہے ہیں۔‘‘

    اس مکان تلاش کرنے کی وجہ سے وہ پیسہ جو اب تک ہم اپنے گھر والوں کے علاج معالجہ میں حکیم ڈاکٹروں پر صرف کرتے تھے، اب بڑی فیاضی کے ساتھ مکان تلاش کرنے والوں پر خرچ کررہے تھے۔ دوست اور دلال مکان کا وعدہ اتنے زور شور سے کرتے کہ ہم ان سے کہہ کر شرمندہ ہوتے اور ان کے خلوص کے آگے ہمارا سرجھک جاتا۔ بار بار اپنے محسنوں کو ٹوکتے خود اچھا نہ لگتا بلکہ اکثر کوتو ٹوکنے سے پہلے ہی اپنے غم میں برابر کا شریک پایا لیکن ایسے لوگوں کا ساتھ رکھنا خطرے سے خالی نہ تھا کہ اگر کہیں مکان ملتا بھی ہو تو بیچ سے نہ اچک لے جائیں۔ تعلقات تو تھوڑے سے نشیب وفراز کے بعد سب ہی سے استوار ہوجاتے ہیں لیکن نادر موقع زندگی میں بار بار نہیں آتا۔

    اکثر ایسے مکان بالکل بس ملتے ملتے رہ گئے جس کے بارے میں کبھی پتہ نہ لگ سکا کہ اس میں مکانیت کیاہے۔ یہ کہاں سے شروع ہوتاہے اور کہاںختم ہوتاہے۔ ایسے مکانوںمیں تلاش کے باوجود ہمیں زمین وآسمان کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔

    ہمارے ایک بے تکلف دوست ایک دن راستے میں ہم سے کتراکر نکلنے لگے۔ ہمیں انہیں یوں کچھ لے جاتے دیکھ کر شک ہوا۔ ہونہ ہو! ضرور ہم سے چھپا مٹھائی لیے جارہے ہیں اور ہم سے بچ کر نکل جانا چاہتے ہیں۔ جب دوستی کے درمیان سے بے تکلفی کا پردہ اٹھ جائے تو جیب میں ہاتھ ڈال دینا عین محبت سمجھی جاتی ہے لیکن انہوں نے ہمارے اصرار کے باوجود جیب میں ہاتھ نہ ڈالنے دیا۔ ہم نے کہا، ’’ہم بھی کھائیں گے!‘‘

    کہنے لگے، ’’کھانے میں نہیں ہے۔‘‘

    پوچھا، ’’سونگھنے میں سہی! لیکن ہم اس وقت بلاسونگھے ہرگز نہ مانیں گے۔‘‘

    بولے، ’’پریشان نہ کرو۔‘‘

    اتنے میں ہمارا ہاتھ ان کی جیب کی گہرائیوں میں پہنچ کر کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔ ہم نے کہا، ’’یہ اکیلے اکیلے اڑانے کے لئے حلوہ سوہن لئے جارہے ہو؟‘‘

    بولے، ’’نہیں مانتے۔ اچھا تمہاری ضد سہی!‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے شرماتے ہوئے جیب سے وہ سے نکالی۔ ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا،

    ’’ارے یہ تو اینٹ ہے! بھلا اس کا کیا کرو گے؟‘‘

    انہوں نے فخر سے سربلند کرکے کہا، ’’جب مکان نہ ملا تو اب مکان بنوانے کا ارادہ ہے۔ اس کے لئے ابھی مٹیریل جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘

    مکان کا تذکرہ انہوں نے کچھ اس انداز سے کیا جیسے ان کے گھر میں خوشی ہونے کے آثار ہوں۔ معصومیت ان کے چہرے پر کھیل رہی تھی۔

    بس وہ دن ہے اور آج کا دن! قسم لے لیجئے جو ہم نے کبھی مکان تلاش کرنے کا نام بھی لیا ہو!

    مأخذ:

    مضامین پاشا (Pg. 52)

    • مصنف: احمد جمال پاشا
      • ناشر: اردو اکادمی، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1974

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے