Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مشورے

MORE BYشفیق الرحمان

     

    (ریڈیو کا ایک فیچر)

    اناؤنسر، خواتین و حضرات! اس مہینے ہمیں طرح طرح کے مشورے موصول ہوئے۔ پہلے تو ہم ہچکچائے، لیکن چونکہ جدت کو ہر جگہ پسند کیا جاتا ہے اس لیے انہیں پیش کرتے وقت ہمیں ذرا بھی تامل نہیں ہے۔ خود ہی سوچیے جہاں ایک کرکٹ کا میچ نشر ہو سکتا ہے اور مشاعرے نشر کیے جاسکتے ہیں وہاں ایک لڑائی کیوں نہیں پیش کی جا سکتی؟ یا ایک قدرتی نظارے کو کیوں نہیں بیان کیا جا سکتا؟ جن صاحب نے ہمیں یہ مشورے بھیجے ہیں ہم ان کے احسان مند ہیں۔ انہوں نے ہماری توجہ روزمرہ کی ROUTINE چیزوں سے ہٹا کر ایک ترقی پسند راستے کی جانب مبذول کرائی ہے اور ترقی پسند باتوں پر تو لوگ جان چھڑکتے ہیں۔ آج ہم اس فیچر میں تین مشورے پیش کر رہے ہیں، جو یکے بعد دیگرے نشر کیے جائیں گے۔ بقیہ مشورے ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ 

    ۱۔ جنگ

    سب سے پہلے ہم ایک سچ مچ کی جنگ نشر کرتے ہیں۔ یہ جنگ مغلوں اور مرہٹوں کے درمیان ہوئی ہوگی۔ کہاں؟ مغربی گھاٹ کے کسی ناہموار میدان میں، یا شاید مشرقی گھاٹ کے آس پاس۔ ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے، کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ یہ کہیں وسطی سطح مرتفع پر ہی نہ ہوئی ہو۔ دونوں فوجیں لڑائی پر کیوں آمادہ ہیں۔۔۔؟ اس کی وجہ ’’بابر میموریل شیلڈ‘‘ بتائی جاتی ہے۔ 

    سامعین! اس سے پہلے اس شیلڈ کے لیے مرہٹوں نے لاکھ کوشش کی، اچھی سے اچھی ٹیم بھیجی۔ ہمارا مطلب فوج سے ہے۔ لیکن ہمیشہ مغل ہی جیتتے رہے، کیونکہ ان کی صحت کہیں بہتر تھی۔ اس مرتبہ دیکھیے کیا ہوتا ہے؟ ہم چند انگریزی استعمال کریں گے۔ آپ چنداں خیال نہ فرمائیں، یہ ہم مجبور ہوکر کر رہے ہیں۔ ہاں تو اس سالانہ ٹورنامنٹ کی چوتھی جنگ پیش کی جا رہی ہے۔ 

    اس وقت ساڑھے سات بجے ہیں۔ ہم ایک چھوٹی سی پہاڑی پر کھڑے ہیں۔ سامنے ایک وسیع میدان ہے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے سب کو سبکیاں آ رہی ہیں۔ سورج ابھی ابھی نکلا ہے۔ امید ہے دوپہر کو خاصی گرمی ہو جائے گی۔ میدانِ جنگ کی گھاس چند روز ہوئے کاٹی گئی تھی، لیکن میدان پر اوس بہت پڑی ہوئی ہے۔ کہیں لوگوں کے اور گھوڑوں کے پاؤں نہ پھسلنے لگیں۔ سفید لائنیں لگائی جارہی ہیں۔ ہمارے سامنے ایک بہت بڑے خیمے کے نیچے بے شمار سپاہی کھڑے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہزاروں ہوں گے، ہزاروں نہیں تو لاکھوں ضرور ہوں گے۔ مغل اور مرہٹے آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ شروع شروع میں یہ لوگ لڑائی سے پہلے کبھی نہ ملتے تھے، لیکن اب سپورٹس مین بن گئے ہیں۔ ایک دوسرے سے سفر کے حالات پوچھ رہے ہیں۔ کچھ نعرۂ جنگ لگانے کی مشق کر رہے ہیں اور چند سپاہی پنجے لڑا رہے ہیں۔ پورے آٹھ بجے لڑائی شروع ہوگی۔ صرف پچیس منٹ باقی رہ گئے ہیں۔ 

    پہلے لڑائی کے فیصلے کے متعلق بڑی گڑبڑ ہوتی تھی۔ بعض اوقات تو فیصلہ بالکل نہیں ہو سکتا تھا کہ کون جیتا ہے۔ مرہٹے کہتے تھے ہم جیتے ہیں اور مغل کہتے تھے ہم۔ چنانچہ اس سال دو امپائر آئے ہیں۔ ایک امپائر بنگال سے بلایا گیا ہے اور دوسرا بلوچستان سے۔۔۔ ان دونوں کو اس لڑائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، اس لیے ہمیں امید ہے کہ فیصلہ غیر جانبدارانہ ہوگا اور بلاحیل و حجت قبول کیا جائے گا۔ 

    سامعین! پچھلے سال جنگ ختم ہوئی اور جب فیصلہ سنایا گیا تو اس قدر ناپسند کیا گیا کہ لڑائی دوبارہ شروع ہوگئی اور ہفتوں تک ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ دونوں ٹیموں کا بھرکس نکل گیا۔۔۔ ہمارا مطلب ہے فوجوں کا! وہ دیکھیے! دونوں امپائر گھوڑوں پر سوار، سفید زرہ بکتر پہنے میدان میں آ رہے ہیں۔ ان کے گھوڑے بڑے تندرست ہیں اور بالکل سفید رنگ کے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک لمبا سا بگل ہے جسے وہ فاؤل ہونے پر یا لڑائی روکنے کے لیے بجائیں گے۔ 

    وہ انہوں نے اشارہ کیا۔ اب دونوں فوجوں کے کپتان میدان میں آرہے ہیں۔ مغل کپتان جس کانام مرزا بعلبک بیگ ہے، ایک لمبا تڑنگا مضبوط ALL-ROUNDER ہے، جسے دیکھ کر آنکھوں میں نور اور دل میں سرور پیدا ہوتا ہے۔ ادھر مرہٹوں کا کپتان بالا جی باجی کھڑبڑدیو مقابلتاً پستہ قد ہے۔ اس کارنگ کچھ سیاہی مائل ہے، صحت واجبی سی ہے، مگر سنتے ہیں کہ چستی اور چالاکی میں کسی سے کم نہیں۔ وہ انہوں نے ڈھال ہوا میں اچھالی اور ٹاس کیا۔ ڈھال سیدھی گری۔ مرہٹے ٹاس جیتے گئے۔ ان کا کپتان ناچتا کودتا واپس جا رہا ہے۔ اب مرہٹوں کی ساری فوج بائیں طرف اکٹھی ہو رہی ہے۔ مغل دہنی طرف ہیں۔ مغلوں کے سامنے سورج ہے، جس سے ان کی آنکھیں لازمی طور پر چندھیا جائیں گی، لیکن وہ ٹاس جو ہار چکے ہیں۔ 

    ارے! یہ کیا۔۔۔؟ ہاں۔۔۔! امپائروں نے دونوں کپتانوں کو پھر بلایا ہے۔ انہیں سمجھا رہے ہیں کہ کہیں کوئی ایسی ویسی بات نہ ہو جائے جس سے ناک کٹ جائے یا کان اڑ جائے۔ لڑتے وقت ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا، آدمیت سے لڑنا، کیونکہ انسانیت ہی اصلی چیز ہے۔ سامعین ہمیں ایک شعر یاد آ گیا۔ ہمیں ایسے موقعوں پر اکثر شعر یاد آجاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو، 

    آدمیت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
    پست ہمت یہ نہ ہووے، پست قامت ہو تو ہو

    اب دونوں کپتان واپس اپنی اپنی فوجوں میں جا رہے ہیں اور ٹیموں کو ترتیب دے رہے ہیں۔ مغل کپتان نے اپنی ساری فوج اگلی صفوں میں ٹھونس دی ہے۔ فل بیک دستہ بالکل معمولی سا ہے اور گول کیپر دستہ تو سرے سے غائب ہے۔ پیچھے کوئی سپاہی نظر نہیں آتا۔ عجب تماشا ہے! مرہٹے بالکل برعکس کر رہے ہیں۔ اپنا اپنا طریقہ ہے صاحب!

    (چوب کی آواز)

    وہ لیجیے، ڈھول بج رہے ہیں۔ بگل بجایا گیا۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ لڑائی شروع ہوگئی!

    اس وقت ہماری حالت بھی قابل دید ہے، ہمارا دل بری طرح دھڑک رہا ہے۔ آہاہاہا! مغلوں کا سنٹر فار ورڈ دستہ تیر کی طرح جا رہا ہے۔ مرہٹوں کے ہاف بیک دستے نے اسے جانے دیا اور اِدھر اُدھر ہوگئے۔ سامعین! اس میں ضرور کوئی چال معلوم ہوتی ہے۔ اب وہ فل بیک دستے تک پہنچ گئے ہیں۔ ارے! یہ کیا؟ وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا۔ فل بیک دستہ بجلی کی طرح تڑپا۔ ہاف بیک دستہ واپس پلٹا اور مغل دستہ وہیں دھرلیا گیا۔ امپائر گھبرائے ہوئے اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں۔ کیوں نہ ہو؟ آج کی جنگ کی لاج ان کے ہاتھ ہے۔ وہ دیکھیے دو سپاہی باہر نکالے جارہے ہیں۔ کیا بات ہے؟ ٹھہریے ہم دریافت کرکے بتاتے ہیں۔ 

    (ایک وقفہ)

    بات یہ تھی کہ مغل سپاہی نے ایک مرہٹے کو دھکا مار کر گھوڑے سے گرا دیا تھا۔ مرہٹے نے مغل کی ٹانگ میں کاٹ کھایا۔ مغل حقارت سے بولا، ’’اُف! اب علاج کے لیے ناحق کسولی جانا پڑے گا۔‘‘ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ کسولی میں باؤلے کتے کے کاٹے کاعلاج ہوتا ہے۔ اس سے مرہٹے کے لطیف جذبات کو ٹھیس لگی۔ وہ بولا، ’’ٹھہر تو سہی۔ ابھی کہتا ہوں امپائر سے۔‘‘ چنانچہ دونوں کو باہر نکال دیا گیا۔ 

    اچھا ہوا، جب تک ایسی سزائیں نہ دی جائیں لڑائی میں گڑبڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ افوہ! دوسرے مغل دستے کا بھی یہی حشر ہوا۔ آخر مغل کوئی اور طریقہ کیوں نہیں استعمال کرتے؟ مرہٹے چپ چاپ اپنی اپنی پوزیشن پر جمے کھڑے رہتے ہیں۔ مغل تیزی سے آتے ہیں۔ یہ کوئی مدافعت پیش نہیں کرتے اور جب ان کا دستہ گول کیپر دستے تک پہنچتا ہے تو سب مرہٹے ٹوٹ پڑتے ہیں اور انہیں دبوچ لیتے ہیں۔ اس قسم کے داؤ سے تو کبڈی ہی اچھی۔۔۔ واہ واہ۔۔۔ یوں کب تک ہوتا آخر؟ آب و ہوا کا اثر بھی کوئی چیز ہے۔ غذا اور صحت بھی کوئی معنی رکھتی ہے۔ اتنی سی دیر میں مرہٹے تھک گئے۔ بری طرح ہانپ رہے ہیں۔ کئی حضرات اپنے خود اور زرہ بکتر اتار اتار کر امپائروں کو دے رہے ہیں۔ وہ امپائروں نے خیمے کی طرف چلا کر کہا، ’’ذرا پانی بھجوانا۔‘‘ چنانچہ چند سقے پانی پلانے جا رہے ہیں۔ 

    اب مغلوں کا پلہ بھاری ہے۔ مرہٹوں کی خوب خاطر تواضع ہو رہی ہے۔ مغل انہیں پچھاڑے ڈالتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مرہٹے ورزش نہیں کرتے۔ اگر یہی حال رہا تو لڑائی دیرتک نہیں چلے گی۔ مغلوں کے پوائنٹس بڑھتے جا رہے ہیں۔ 

    (بگل کی آواز)

    افوہ! یہ کیا ہونے لگا؟ بادل آگئے، آسمان پر اندھیرا چھا گیا، بجلیاں کوند رہی ہیں۔ 

    (بجلی کوندنے کی آواز اور بوندوں کا شور)

    یہ دیکھیے بونداباندی شروع ہوگئی۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑرہی ہے۔ بگل بجائے گئے اور لڑائی بند ہوگئی۔ موسم خوش گوار ہو گیا ہے۔ اب پھر لوگوں کو سبکیاں آ رہی ہیں۔ قدرت مرہٹوں کی مدد کو آپہنچی، اتنی دیر میں وہ تازہ دم ہوجائیں گے۔ سارے سپاہی بڑے خیمے کے نیچے کھڑے ہیں۔ غالباً بارش دیر تک نہیں رہے گی۔ لیجیے اتنی دیر تک آپ ایک ریکارڈ سنیے۔۔۔ شاید یہ میاں کی ملہار ہے۔ 

    (ریکارڈ بجتا ہے، ’برسن لاگی رے بدریا ساون کی۔۔۔‘ اور اس کے بعد دوسرا ریکارڈ، ’چھا رہی کالی گھٹا جیا مورا لہرائے ہے۔‘)

    (بگل کی آواز)

    بارش بند ہوگئی۔ امپائر اور کپتان میدان کا بغور معائنہ کر رہے ہیں۔ یہ لیجیے انہوں نے میدان کو پاس کر کے فوجوں کو بلا لیا۔ پھر لڑائی شروع ہوگئی۔ مرہٹے بڑے جوش و خروش سے لڑ رہے ہیں اور اس وقت وہ گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے کہ ہم بیان نہیں کرسکتے۔ چند سپاہی لڑتے لڑتے بالکل ہمارے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ڈر ہے کہ کہیں ایک آدھ ہاتھ ہمارے رسید نہ کردیں۔ آپ ان کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ اوہ! مرہٹے کی تلوار ٹوٹ گئی۔ مغل نے بڑی سپورٹس مین سپرٹ دکھائی اور ایک طرف ہوگیا۔ اب ان کی آواز سنیے۔۔۔ 

    مرہٹہ، ’ماریے صاحب!‘

    مغل، ’نہتوں پرحملہ کرنا بہادروں کا شیوہ نہیں۔‘

    چنانچہ مرہٹے نے جھک کر کہا، ’شکریہ!‘ اور فوراً نئی تلوار منگائی، اتنی دیر مغل دوسری طرف منہ کیے کھڑا رہا۔ غالباً ضبط کرتا رہا۔ نوکر نئی تلوار لیے آیا۔ مرہٹے نے تلوار ہاتھ میں لے کر اِدھر اُدھر ہوا میں وار کیے۔ پھر مغلوں کو اشارہ کیا اور اس کی ڈھال پر تین چار وار کیے۔ جب اطمینان ہوگیا کہ تلوار مضبوط ہے تو دونوں لڑنے لگے۔ اب وہ لڑتے لڑتے دور نکل گئے ہیں۔

    (بگل کی آواز)

    یہ نفیریاں کیوں بج رہی ہیں؟ کہیں سے ڈھول کی آواز بھی آرہی ہے۔۔۔ اخاہ۔۔۔ لنچ انٹرول ہوگیا۔ فوجیں کھانا کھانے واپس جا رہی ہیں۔ فی الحال ہم بھی اجازت چاہتے ہیں۔ گھنٹہ بھر آپ کو جنگلی ریکارڈ سنائے جائیں گے۔ 

    (ریکارڈ بجتا ہے، ’چل چل رے نوجوان۔۔۔‘ اس کے بعد، ’چھائی پچھم سے گھٹا نونہالو جاگو۔۔۔‘ اور کئی اور ریکارڈ۔)

    لیجیے اب لنچ انٹرول ختم ہونے کو ہے۔ ہم ابھی ابھی خیموں سے آ رہے ہیں۔ مغلوں نے خوب مرغن غذائیں کھائی ہیں۔ میٹھے ٹکڑے تو وہ اس قدر کھا گئے ہیں کہ حیرت ہوئی کہ آخر ان لوگوں کا ارادہ کیا ہے؟ لیکن مرہٹوں نے نہ جانے کس پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ذرا ذرا سے چاول پھانک کر صبر کرلیا۔ اب وہ پان کھا رہے ہیں۔ شاید وہ سوچتے ہوں کہ انسان خالی پیٹ اچھا لڑ سکتا ہے، لیکن ہمیں اس سے اختلاف ہے۔ طبی نقطہ نگاہ سے بھی جب پیٹ خالی ہو تو دم خم کہاں سے آئے گا؟ جسمانی قوت کا دار و مدار اعلیٰ درجے کی غذا پر ہے اور پھر بزرگوں نے بھی کہا ہے کہ بھوکا بٹیر کیا لڑے گا؟ معاف کیجیے ہم خواہ مخواہ اِدھر اُدھر کی ہانک جاتے ہیں۔ اب فوجیں آرہی ہیں، انہوں نے میدان تبدیل کرلیے ہیں۔ مغل پہلے ہمارے دہنی طرف تھے۔ اب بائیں طرف آگئے یں۔ مرہٹے بھی دوسری طرف چلے گئے۔ 

    (بگل کی آواز)

    یہ لیجیے لڑائی شروع ہوگئی۔۔۔ لیکن یہ کیا ہو رہا ہے؟ مرہٹے بجلی کی طرح تڑپ رہے ہیں اور مغلوں پر چھائے جاتے ہیں۔ شاید یہ خالی پیٹ کا اثر ہے۔ ادھر مغل ہیں کہ بالکل سست پڑ گئے ہیں۔ غالباً پراٹھوں کا خمار چڑھ رہا ہے۔ ابھی ابھی امپائروں نے کئی سوئے ہوئے مغل سپاہیوں کو جگایا ہے۔ یہ مغل کپتان اشارے کسے کر رہا ہے؟ افوہ! ڈھول والوں کو کر رہا ہے۔ تبھی ڈھول زور زور سے بجنے لگے۔ 

    (ڈھولوں کی آواز)

    مغل سپاہی چونک پڑے۔ جو اونگھ رہے تھے وہ بھی ہشیار ہوگئے اور لڑنے لگے۔ مغل کپتان کی اس دانش مندی کی ہم داد دیتے ہیں، اگر وہ ڈھول نہ بجواتا تو غالباً ساری فوج قیلولہ کر رہی ہوتی۔ ارے یہ کیا تماشا ہے؟ بالکل ہمارے قریب ایک نوکر کسی مرہٹہ سپاہی کو بلا رہا ہے۔ اس نے ٹفن کیرئر پکڑ رکھا ہے اور اس کے اشاروں پر دو سپاہی لڑتے لڑتے ادھر آگئے ہیں۔ نوکر ہے کہ بدستور بلا رہا ہے۔ آخر دونوں سپاہی ٹھہر جاتے ہیں۔ آپ ان کا مکالمہ سنیے۔۔۔ 

    مرہٹہ، ’کیا ہے؟ دیکھتا نہیں ہم مصروف ہیں؟‘

    نوکر، ’حضور کھانا۔۔۔!‘

    مرہٹہ، ’بے وقوف! تجھے آدابِ حرب و ضرب کی الف بے بھی معلوم نہیں۔ ہم جب لڑ رہے ہوں تو کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمارا وقت ضائع نہ کر!‘

    مغل، ’کیا بات ہے بھئی؟‘

    نوکر، ’میں ان کا کھانا لایا ہوں۔‘

    مغل، ’کھانا لائے ہو۔۔۔؟ اب۔۔۔؟ تو جناب آپ اب تک بھوکے لڑ رہے تھے؟‘

    مرہٹہ، ’جی ہاں! اس نامعقول نے دیر کردی۔‘

    مغل، ’افوہ! آپ نے پہلے کیوں نہ بتایا۔ میں نادم ہوں، اپنے کیے پر پشیمان ہوں۔ جائیے کھانا کھائیے۔ میں اتنی دیر انتظار کروں گا۔‘

    مرہٹہ، ’اجی صاحب، آپ بھی ساتھ ہی چلیے!‘

    مغل، ’میں چلوں۔۔۔؟ ابھی تو کھانا کھایا تھا۔ خیر! اچھا کیا ساتھ لائے ہو؟‘

    نوکر، ’حضور! بہت سی چیزیں ہیں، لیکن خاص چیز میٹھے ٹکڑے ہیں!‘

    مغل، ’میٹھے ٹکڑے۔۔۔؟ آہ! کس نے کہا میٹھے ٹکڑے؟ خدایا یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ کیا سچ مچ میٹھے ٹکڑے ہیں۔ چلیے جناب! میں ساتھ چلتا ہوں!‘

    ان کا مکالمہ ختم۔۔۔ اب دونوں نوکر کے ساتھ ساتھ لڑتے ہوئے دور چلے جاتے ہیں۔ سامعین! ہمیں یہاں اختلاف۔ آخر یہ مغل میٹھے ٹکڑوں کو دیکھ کر بے قابو کیوں ہوجاتے ہیں۔۔۔؟ مانا کہ اچھی مزیدار چیز ہے، لیکن ایسی بھی نہیں کہ اسی کا وہم ہو جائے۔ ہمیں ایک مرتبہ تجربہ ہو چکا ہے، ایک مغل دوست کی دعوت میں ہم نے میٹھے ٹکڑے کھالیے اور دیر تک ہمارے پیٹ میں درد ہوتا رہا۔۔۔! اب ہم جنگ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ مغلوں کے پوائنٹس پھر بڑھتے جا رہے ہیں۔ غالباً مرہٹے تھک گئے ہیں۔ مغل عجب بے نیازی سے لڑ رہے ہیں۔ غالباً انہیں یقین ہوگیا ہے کہ فتح ان کی ہوگی۔ اگر یہ صحیح ہے تو وہ خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ لڑائی اور امتحان کے نتیجے کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ 

    (بگل کی آواز)

    یہ غل کیسا مچا۔۔۔؟ لڑائی بند ہوگئی۔۔۔ اخاہ! ٹی انٹرول ہے۔ اب پورے چار بجے ہیں۔ پندرہ منٹ لڑائی بند رہے گی۔ کچھ دیر کے لیے ہم پھر رخصت چاہتے ہیں۔ اتنے میں آپ مرہٹوں اور مغلوں کے فوجی بینڈ سنیے۔

    (ایک وقفہ جس میں بینڈ کے ریکارڈ بجتے ہیں)

    یہ لیجیے، اب جنگ کے منعقد ہونے میں صرف تین منٹ باقی رہ گئے ہیں اور میں مائکروفون دوسرے اناؤنسر کو دیتا ہوں۔ 

    دوسرا اناؤنسر، شکریہ۔۔۔!

    سامعین! ہم ایک بہت بری خبر سنانے والے ہیں۔ ہمیں بہت افسوس ہے کہ جہاں مغلوں نے شربت پیا ہے وہاں مرہٹوں نے جی بھر کر تاڑی پی ہے اور بھنگ بھی پی ہے۔ اب وہ عجیب عجیب باتیں کر رہے ہیں۔ ہمیں بھنگ، تاڑی اور چرس وغیرہ سے سخت نفرت ہے! مرہٹوں سے ہرگز یہ امید نہیں تھی۔۔۔ فوجیں پھر میدان میں آگئیں۔ 

    (بگل کی آواز)

    یہ لیجیے لڑائی شروع ہوگئی! لیکن لڑ کون رہا ہے؟ سب کے سب قطعاً بیزار ہیں۔۔ مغل اخروٹ، پستے اور کشمش پھانک رہے ہیں۔ ادھر مرہٹوں پر تاڑی کا اثر ہے۔ امپائر بڑے پریشان ہیں۔ بے چارے اِدھر اُدھر منتیں کرتے پھر رہے ہیں کہ یارو کچھ تو لڑو۔ وہ لیجیے! تنگ آکر امپائروں نے دھمکی دے دی کہ اگرلڑائی شروع نہ کی گئی تو دونوں ٹیموں یعنی فوجوں کو DISQUALIFY کر دیا جائے گا۔ طوعاً و کرہاً جنگ آہستہ آہستہ پھر شروع ہو رہی ہے، لیکن سپاہی اس طرح لڑ رہے ہیں جیسے کسی پراحسان کر رہے ہوں۔ اف یہ مرہٹے کیا کر رہے ہیں؟ آپس میں ہی لڑ رہے ہیں! چند مرہٹے بالکل ہمارے پاس کھڑے ہیں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ ان کی آوازیں غالباً آپ کوصاف سنائی دے رہی ہوں گی۔ سنیے۔ 

    ’ہمیں کیوں مار رہے ہو؟‘

    ’تو اور کسے ماریں؟‘

    ’اُن کو مارو!‘

    ’اُن کو؟ کن کو؟‘

    ’جن سے لڑنے آئے ہو!‘

    ’لڑنے کس سے آئے ہیں؟‘

    ’پتہ نہیں۔۔۔! لیکن ہمیں نہ مارو!‘

    الغرض ایسی ہی الٹی سیدھی باتیں ہرطرف ہو رہی ہیں۔ اب بیس منٹ باقی ہیں۔ وہ دیکھیے مرہٹوں کا کپتان آگے بڑھ کر امپائر سے روشنی کی کمی پر اعتراض کرتا ہے کہ اندھیرا سا ہو گیا اور اچھی طرح لڑا نہیں جاتا، دوست دشمن میں تمیز مشکل ہے۔ امپائر آپس میں مشورہ کرتے ہیں، پھر مغلوں کے کپتان سے پوچھتے ہیں۔ بھلا اسے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ 

    (ڈھول بجتے ہیں)

    ڈھول بجائے جا رہے ہیں۔ لڑائی ختم! نتیجے کے لیے لوگ بے قرار ہیں۔ سارے سپاہی میدان میں جمع ہیں۔ ہم خود منتظر ہیں! ہمارا خیال ہے کہ مغل جیتیں گے۔ 

     

    اے لو! وہ فیصلہ سنا دیا گیا۔ لوگ نعرے لگا رہے ہیں۔ 

    (شور و غل)

    اس غل غپاڑے میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ اخاہ! یہ ہم کیا سن رہے ہیں؟ برابر رہے! سنا آپ نے۔۔۔؟ دونوں فوجیں برابر رہیں! مغلوں اور مرہٹوں کے پوائنٹس بالکل برابر ہیں۔ پہلی مرتبہ اس قسم کا فیصلہ ہوا ہے۔ ویسے بابر میموریل شیلڈ رہے گی مغلوں کے پاس ہی، کیونکہ انہوں نے پچھلے سال جیتی تھی۔ سب سپاہی ایک دوسرے کے کندھے تھپتھپا رہے ہیں۔ چند شوقین حضرات آٹو گراف لیتے پھر رہے ہیں۔ ہم مائیکر و فون کو عین میدان کے بیچ لیے چلتے ہیں۔ 

    (آواز آتی ہے )

    تھری چیرز فار مغلز۔۔۔ ہپ ہپ ہپ ہرے!

    ہپ ہپ ہپ ہرے!

    تھری چیرز فار مرہٹاز۔۔۔ ہپ ہپ ہپ ہرے!

    ہپ ہپ ہپ ہرے!

    (آوازیں مدھم ہوتی جاتی ہیں)

    FADE OUT

    ۲۔ عاشق
    خواتین و حضرات! شام کے سات بج کر پچپن منٹ ہوئے ہیں۔ ابھی ابھی آپ نے بلیوں کی لڑائی سنی۔ کچھ دیر میں ہم جیتے جاگتے عاشق کو براڈ کاسٹ کریں گے۔ پچھلے مہینے ہمیں بے شمار شکایتیں آئیں کہ ریڈیو کا پروگرام خشک ہوتا ہے، چنانچہ ہم اس کی تلافی کر رہے ہیں۔ جن صاحب نے ہمیں یہ مشورے دیے ہیں، ایک مرتبہ پھر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ 

    آپ نہیں جانتے کہ ہمیں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور صحیح قسم کے عاشق کی تلاش میں کتنے دنوں مارے مارے پھرے۔ عاشق تو بہت ملتے تھے، لیکن آئیڈیل عاشق نہیں ملتا تھا۔ پرسوں قسمت نے یاوری کی اور ہم نے اسے پا لیا۔ اب ہم آپ کو کسی شہر کے کسی گوشے کی کوٹھی میں لیے چلتے ہیں۔ کل ہم اس عاشق کے متعلق معلومات فراہم کرتے رہے۔ آج چپکے سے اسے براڈ کاسٹ کیا جا رہا ہے۔ لطف یہ ہے کہ عاشق کو خود پتہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہم اپنی اس حرکت پر پشیمان ہیں، لیکن اس کے بغیراور کوئی چارہ نہیں تھا۔ 

    یہ لیجیے، اب اصل پروگرام شروع ہوتا ہے۔ ہم جھاڑیوں میں چھپے بیٹھے ہیں اور ٹکٹکی باندھے عاشق کو دیکھ رہے ہیں جو اس وقت باغ میں ٹہل رہاہے۔ عاشق کا حلیہ ہم ہرگز نہیں بتائیں گے۔ ویسے بتانے کی ضرورت بھی کیا ہے، پبلک عاشق کا حلیہ جانتی ہے۔ تو سامعین اس عاشق نے اپنے مجبوب کو کبھی نہیں دیکھا۔ فقط اس کی تعریفیں سنی ہیں۔ بس سن سن کر ہی فریفتہ ہوگیا ہے، اور ہونا بھی ہونہی چاہیے۔ ابھی ابھی ایک ناصح یہاں سے برا منہ بنائے گیا ہے۔ عاشق کے بزرگوں نے چند PART TIME ناصح رکھے ہوئے ہیں جن کا فرض دن میں دو تین مرتبہ سمجھانا بجھانا ہے، لیکن عاشق ان سے بری طرح پیش آتا ہے اور ہمیشہ انہیں بھگا دیتا ہے۔ اور اکثر شعر پڑھنے لگتاہے۔ ابھی ابھی اس نے ناصح کو ڈانٹتے ہوئے ایک شعر پڑھا تھا جو ہمیں یاد ہے۔ شعر سن کر ہمارا دل تڑپ اٹھا تھا۔ آپ بھی سن لیجیے۔ اس نے کہا تھا، 

    اب ضرورت ہے ہم کو عینک کی
    کوئی صورت نظر نہیں آتی

    آہ، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ کتنا درد ہے اس مصرعے میں؟ یوں تو عاشق ہر وقت کوئی نہ کوئی شعر گنگناتا رہتا ہے، لیکن اس کے محبوب شعر صرف چند ایک ہیں۔ ملاحظہ ہو، 

    ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
    کاش پوچھو کہ ذائقہ کیا ہے 

    اور دوسرا شعر ہے، 

    اپنی تصویر سامنے رکھ کر
    تیرا انجام سوچتا ہوں

    سبحان اللہ۔۔۔ تیرا انجام سوچتا ہوں۔۔۔ کیا سوز مضمر ہے اس میں۔۔۔ ایک اور شعر ہے جو وہ عموماً آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر گایا کرتا ہے، 

    اپنی صورت کو دیکھتا ہوں
    اس کی قدرت کو دیکھتا ہوں

    عاشق نے پیٹ کے بل لیٹ کر چار آہیں بھریں، اب اس نے کروٹ لی اور پانچ ٹھنڈے سانس لیے۔ اب وہ سیدھا لیٹ کر چاند کی طرف دیکھ رہا ہے اور منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہا ہے۔ اے لو! وہ لپک کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ سامنے میز پر کاغذات پڑے ہیں۔ عاشق کیا شاعری کر رہا ہے۔۔۔؟ نہیں۔۔۔! اُف! یہ تو تارے گن رہا ہے۔ آسمان کو دیکھتا ہے اور کاغذ پر پرکار وغیرہ سے نقشہ بنانے لگتا ہے۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ عاشق علم ریاضی میں ماہر ہے۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ عاشق نے نامہ بر کے ہاتھ ایک پینسل بھیجی تھی کہ محبوبہ کے ہاتھ سے کسی طرح چھوا لائے۔ پھر ایک رومال بھیجا کہ محبوبہ اس پر چھینک دے، لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ 

    سامعین! آپ افسردہ نہ ہوں۔ سچی محبت میں ایسی باتیں اکثر ہواکرتی ہیں۔ دنیامیں رنج والم نسبتاً زیادہ ہیں۔ یہ کون مسخرہ آرہاہے۔۔۔؟ اوہ! یہ چارہ گر ہے۔ اس کے ہاتھ میں چاء کا سیٹ ہے۔ اگر عاشق چائے نہ پیے تو اس کا سٹیمنا ختم ہو جائے۔ عاشق نے جلدی جلدی چاء پی۔ چاء دانی کو ایک پتھر پر دے مارا، پیالیاں ادھر ادھر پھینک دیں۔ چھلانگیں مارتا ہوا بھاگا اور گھاس کے ایک قطعے پر لیٹ کر مجبوبہ کو یاد کرنے لگا۔ اتوار کے روز ریگستان کا پروگرام ہوتا ہے۔ عاشق ایک چھوٹی سی ٹوکری میں کھانے پینے کی چیزیں، تھرماس اور چند دیوان ساتھ لے جاتا ہے۔ وہاں صبح سے شام تک ٹیلوں پر بھاگنا، فرضی اونٹوں کا تعاقب کرنا، دھول اڑانا، کانٹوں پر ننگے پاؤں پھرنا اور آہ وزاری وغیرہ کرنے کا پروگرام ہوتا ہے۔ 

    وہ اس نے منہ میں تھرمامیٹر لگایا اور گھڑی نکال کر نبض گننا شروع کی۔ تھرمامیٹر پڑھا، کاغذ پر ٹمپریچر لکھا اور نبض درج کی۔ یہ اس لیے کہ اس سے گرمی عشق کا اندازہ رہتا ہے۔ اگر ٹمپریچر یا نبض گر جائے تو ظاہر ہے کہ عشق کا جذبہ سرد ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ جب کبھی یوں ہونے لگتا ہے تو عاشق دگنے جوش سے اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ 

    سامعین! ہم نے یہ چارٹ دیکھا تھا، عاشق کا ٹمپریچر ایک سو ایک اور نبض ڈیڑھ سو تک پہنچ چکی ہے۔ ویسے آج صبح بھی ٹمپریچر خاصا تھا۔ شاید اس لیے کہ آج عاشق کو زکام ہے اور وہ کچھ بیزار بھی ہے۔ عاشق کے کمرے میں ایک گراموفون ہے اور بے شمار ریکارڈ ہیں۔ نوکر ہر پندرہ منٹ کے بعد ایک ریکارڈ لگا دیتا ہے۔ خواہ عاشق باغ میں ہو یا چھت پر۔ چنانچہ اگر آپ اب بھی کانوں پر زور ڈالیں تو مدھم آواز میں ایک ریکارڈ سنیں گے۔ (آواز آتی ہے۔۔۔ ) عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب۔ 

    اس کے محبوب ترین ریکارڈ یہ ہیں!
    ’ہم تو تنگ آکے دنیا سے مرجائیں گے۔، 

    ’کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو۔‘

    ’تیرے جہاں سے چلے دل میں دل کی بات لیے۔‘

    ان ریکارڈوں کے نمبر ہیں۔۔۔ تین ہزار پانچ سو سترہ سے بیس تک اور یہ آپ کو نیلے گنبد کی دکان سے مل سکتے ہیں۔ عاشق ایک دو بجے کے قریب بستر پر لیٹ جائے گا جس پر بے شمار سلوٹیں پڑی ہوں گی، اور ساری رات آہ و زاری میں گزارے گا۔ خوب کروٹیں لے گا اور شاید ایک دو مرتبہ پلنگ سے نیچے بھی گر پڑے گا۔ پھر صبح صبح اٹھ کر بھاگتا ہوا دریا کے کنارے جائے گا۔ وہاں پانی کی لہروں سے دل کے راز کہے گا۔ دوپہر تک جنگلوں میں پھرے گا۔ شام کو غروب آفتاب دیکھنے ایک مینار پر چڑھ جائے گا۔ چاندنی راتوں میں عاشق کی صحت بہت گرجاتی ہے۔ جب بارش ہو رہی ہو تو اس کی حالت مخدوش ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات تو ترس آنے لگتا ہے۔ اس کی آہ وزاری سے تنگ آکر اڑوس پڑوس کے تمام ہمسائے مکان خالی کر گئے ہیں۔ ان میں سے چند ایک تو دیکھا دیکھی عاشق بن گئے۔ چارمہینوں سے عاشق نے سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا۔ تبھی اس کی جیبوں میں اکثر خشک میوے ملتے ہیں۔ آج کل اس کا گزارا چاء پر ہے۔ 

    اچھا سامعین! اب ہم اجازت چاہتے ہیں۔ ایک ننھی سی چڑیا ہمارے کان میں کہتی ہے کہ یہ عاشق اس وقت کیا کرے گا جب اپنی محبوبہ کو سچ مچ دیکھ پائے گا۔ نہ تو ہم نجومی ہیں، نہ غیب کی باتیں جانتے ہیں۔ اچھا خدا حافظ!

    ۳۔ مزدور
    کچھ دن ہوئے ہم نے ہوا کی لہروں پر چند شخصیتوں کا انٹرویو پیش کیا تھا۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ وہ ضرور مقبول ہوا ہوگا۔ آج مزدر سے انٹرویو ہو رہا ہے۔ سامعین! کبھی آپ نے اس شخص پر بھی غور کیا جسے مزدور کہا جاتا ہے؟ غالباً نہیں! کتنے افسوس کی بات ہے۔ مزدور کے سینے میں بھی دل ہے اور اتفاق سے وہ دھڑکتا بھی ہے۔۔۔ اس میں جذبہ ہے، احساس ہے، تڑپ ہے۔ آج ہم زمانے بھر کی دکھیا اور سماج کی ستائی ہوئی روح کی پکار آپ کے کانوں تک پہنچائیں گے۔ سامعین! ہم نہیں چاہتے کہ کمزور دل خواتین و بچے اسے سنیں، کیونکہ یہ داستان اس قدر پردرد ہے کہ ابھی سے ہماری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ ننھے منے بچوں اور خواتین کو ریڈیو سے ہٹا دیا جائے۔ 

    مزدور سے ملک کی تین مقتدر ہستیاں انٹرویو کریں گی۔ پہلے جناب نقشین مرادآبادی آئیں گے جو مایۂ ناز قومی شاعر ہیں، پھر حضرتِ آوارہ گرد صاحب جو ہندوستان کے چوٹی کے ترقی پسند افسانہ نویس ہیں، آخر میں پنڈت چڑی لڑاوا لکھنوی تشریف لائیں گے، جن کے متعلق کچھ کہنا ان کی اور اپنی توہین ہے۔ ہم فقط یہ کہیں گے کہ آج کل کوئی سیاسیات پر قادر ہے تو وہ پنڈت صاحب ہیں۔ یہ لیجیے مزدور کمرے میں آ گیا، سلام کرو مائیکرو فون کو بھئی مزدور۔۔۔ ہاں ہاں۔۔۔ شاباش۔۔۔! سامعین مزدور کا سلام شوق قبول ہو۔ وہ لیجے نقشین مرادآبادی بھی تشریف لے آئے۔ اب مکالمے آپ خود سنیے!

    (شاعر کی آواز آتی ہے۔۔۔ )

    ’’آ۔۔۔ اے غم دیدہ، خمیدہ روح کی پکار۔ مصیبت میں گرفتار۔ اے سماج کے شکار۔ تو ہے اپنی شکست کی آواز۔ بول۔ اے زمانے بھر کے ٹھکرائے ہوئے۔۔۔ سرمایہ داری کے ستائے ہوئے۔۔۔ اور پھرتا کیوں ہے دربدرتو ہاتھ پھیلائے ہوئے!‘‘ 

    مزدور، ’’ایں؟‘‘ 

    شاعر، ’’آہ ناداں! انہیں گالیاں سمجھتا ہے۔۔۔ آہ ناداں۔۔۔ اُف ناداں۔۔۔ ہائے ناداں

    تو ہی ناداں چند کلیو ں پر قناعت کر گیا
    ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی ہے ‘‘ 

    مزدور، ’’جناب کسی آسان سی زبان میں باتیں کیجیے۔ میرے پلے کچھ نہیں پڑ رہا!‘‘ 

    شاعر، ’’تمہارے ابا کیا کرتے تھے؟‘‘ 

    مزدور، ’’مزدور تھے!‘‘ 

    شاعر، ’’اور دادا؟‘‘ 

    مزدور، ’’مزدور!‘‘ 

    شاعر، ’’اور بیٹا؟‘‘ 

    مزدور، ’’وہ بھی مزدور ہے!‘‘ 

    شاعر، ’’سبحان اللہ! تمہارا خاندان ہی مزدوروں کا ہے۔ میں تو مزدوروں پر جان چھڑکتا ہوں۔ ہمارا سب خاندان مزدوروں پر مرمٹا ہے۔ میں نے کیا کہا تھا۔۔۔؟مرمٹا ہے! ہاں ایک شعر عرض ہے، 

    تیرے سب خاندان پر عاشق
    میرا سب خاندان ہے پیارے 

    مزدور، ’’کیا کہا۔۔۔؟ پھر سے کہنا ذرا۔۔۔ دیکھیے صاحب میں۔۔۔‘‘ 

    شاعر، ’’بس بس! ہشت! اچھا۔ کبھی وہ شعر بھی سنا؟

    جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
    اس کھیت کے ہرخوشۂ گندم کو جلادو

    سنا ہے کبھی یہ شعر؟

    مزدور، ’’نہیں سنا!‘‘ 

    شاعر، ’’اور جب رات کی سیاہی رخصت ہوتی ہے اور صبح کا نور آسمان سے زمین تک لہریں مارتا ہے تو اس وقت تم کیا کرتے ہو؟‘‘ 

    مزدور، ’’کیا فرمایا آپ نے؟‘‘ 

    شاعر، ’’یعنی صبح کو کیا کرتے ہو؟‘‘ 

    مزدور، ’’میں ورزش کرتا ہوں صبح اٹھ کر!‘‘ 

    شاعر، ’’ورزش۔۔۔؟ چچ چچ۔۔۔! اور جب آفتاب عین نصف النہار پر ہوتا ہے اور زمین پر اپنی تیز کرنیں پھینکنے سے باز نہیں آتا۔ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں کن مشقتوں سے دوچار ہوتے ہو؟‘‘ 

    مزدور، ’’کھانا کھا کر سو جایا کرتا ہوں!‘‘ 

    شاعر، ’’اور جب شام کے دلفریب لمحے دن بھر کے تھکے ماندوں کو مسرت کا پیغام سناتے ہیں، اس وقت کس مصیبت میں گرفتار ہوتے ہو؟‘‘ 

    مزدور، ’’اکھاڑے میں ورزش کرتا ہوں!‘‘ 

    شاعر، ’’ورزش! ورزش! ہم بھی ورزش کرتے ہیں، لیکن ڈینگیں نہیں مارتے تمہاری طرح! صبح اٹھ کر ہم دو ڈنٹر پیلتے ہیں، پانچ بیٹھکیں نکالتے ہیں اور پندرہ مرتبہ لمبے لمبے سانس لیتے ہیں۔ شام کو ہم پچاس قدم تیزی سے چلتے ہیں!‘‘ 

    اناؤنسر، ’’ہمیں افسوس ہے، نقشین صاحب نے اتنی دیر بھی لگائی اور ایک بات بھی کام کی نہ کی۔ خفا نہ ہوں نقشین صاحب! ہم بات خدا لگتی کہتے ہیں۔ 

    آہا ہمیں ایک شعر یاد آ گیا۔ 

    بات سچی ہے بے مزا لگتی
    میں کہوں گا مگر خدا لگتی!

    اچھا! آوارہ گرد صاحب! اب آپ تشریف لے آئیے۔ آوارہ گرد صاحب کے افسانے محض مزدوروں کے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ مزدوروں کی رگ رگ سے واقف ہیں اور مزدور ان کی رگ رگ سے۔ لیکن آوارہ گرد صاحب! یاد رہے کہ سوالات نپے تلے ہوں۔ مختصر ہوں اور بامعنی ہوں۔ ادھر آجائیے۔ یہ لیجیے اب آپ خود سنیے!‘‘ 

    آوارہ گرد، ’’بھئی مزدور! جب تم کسی امیر آدمی کو دیکھتے ہوگے تو تمہارا خون ضرور کھولنے لگتا ہوگا؟‘‘ 

    مزدور، ’’نہیں تو!‘‘ 

    ادیب، ’’نہیں؟ غضب خدا کا! اور جب تم کسی خوش پوش شخص کو موٹر میں دیکھتے ہو تو سماج پر لعنت ملامت نہیں بھیجتے؟‘‘ 

    مزدور، ’’سماج کیا ہوتا ہے؟ اور میں کبھی کسی کو گالی نہیں دیتا۔۔۔ یہ بہت بری بات ہے!‘‘ 

    ادیب، ’’تمہیں خیال تو آتا ہوگا کہ یہ شحص موٹر میں کیوں بیٹھا ہے؟‘‘ 

    مزدور، ’’اس لیے کہ اس کے پاس موٹر ہے!‘‘ 

    ادیب، ’’اوں ہوں! وہ تو ٹھیک ہے، لیکن آخر کیوں ہے اس کے پاس موٹر؟‘‘ 

    مزدور، ’’اس نے موٹر خریدی جو ہے۔‘‘ 

    ادیب، ’’تم سرمایہ داری کی اس لعنت پر نفرت کی بوچھاڑ ڈالتے ہوئے مساوی حقوق کے لیے کوشاں ہونا اپنا فرض اولین تصور نہیں کرتے؟‘‘ 

    مزدور، ’’قسم لے لو جو ایک لفظ بھی سمجھ میں آیا ہو۔ ابھی وہ دبلے پتلے سے آدمی بھی ایسی ہی باتیں کر رہے تھے!‘‘ 

    ادیب، ’’مثلاً تم یہ نہیں سوچتے کہ آخر امیر، امیر کیوں ہیں؟ اور غریب، غریب کیوں ہیں، سارے امیر غریب کیوں نہیں بن جاتے؟ اور غریب امیر کیوں نہیں ہوجاتے؟ تا کہ جو غریب غربت میں غریبی کے متعلق غریبانہ۔۔۔!‘‘ 

    اناؤنسر، ’’آوارہ گرد صاحب! افسوس ہے کہ ہم آپ کو ٹوک رہے ہیں۔ بھلا آپ غریبی کی گردان کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ 

    ادیب، ’’افوہ! معاف کیجیے! ہاں بھئی مزدور تم امیر آدمیوں سے دل میں دشمنی ضرور رکھتے ہوگے!‘‘ 

    مزدور، ’’نہیں! دل میں کبھی کسی سے دشمنی نہیں رکھنی چاہیے۔ دل صاف ہو تو اچھا ہے۔۔۔ اور پھر سارے انسان برابر ہیں!‘‘ 

    ادیب، ’’تم عجیب و غریب مزدور ہو۔ نہ تم سماج کے خلاف ہو، نہ سرمایہ داری کو برا کہتے ہو۔ امیروں سے بھی نفرت نہیں کرتے۔ تعجب ہے! اب کیا خاک پوچھوں تم سے؟‘‘ 

    اناؤنسر، اچھا آوارہ گرد صاحب! آپ کا انٹرویو ختم ہوا۔ اب پنڈت چڑی لڑاوا صاحب آ رہے ہیں۔ آخر میں مزدور چند الفاظ میں اپنی درد بھری داستان سنائے گا۔ سامعین! ہم ایک مرتبہ پھر یاد دہانی کے طور پر عرض کرتے ہیں کہ اگر کمزور دل خواتین یا بچے ریڈیو سن رہے ہیں تو انہیں براہِ کرم دوسرے کمرے میں بھیج دیا جائے۔ مزدور کی کہانی اس کی اپنی زبانی اتنی غم ناک ہوگی کہ پنڈت صاحب نے ابھی سے رونا شروع کردیا ہے۔ آجائیے پنڈت صاحب! روئیے مت! آپ کی صحت پر برا اثر پڑے گا۔۔۔ اور بھئی مزدور یہ تم چلغوزے وغیرہ بعد میں چبا لینا، عجب بے صبرے آدمی ہو تم بھی۔ پنڈت جی تمہاری حالت پر رو رہے ہیں اور تم ہو کہ منہ چلا رہے ہو۔۔۔ تو سامعین سنیے!‘‘ 

    پنڈت جی، (گرجتی ہوئی آواز میں رک رک کر۔۔۔) ’’اے ہندوستانی قومیت کے پرستار۔۔۔ ہم تجھے سلام کرتے ہیں!‘‘ 

    مزدور، ’’وعلیکم السلام!‘‘ 

    اناؤنسر، ’’ہشت!‘‘ 

    پنڈت جی، ’’ہاں! اے ہندوستانی قومیت کے پرستار، ہم تجھے سلام کرتے ہیں۔۔۔ اے ہندوستانی تہذیب کے علمبردار!‘‘ 

    مزدور، ’’میں نمبردارنہیں ہوں۔ میں تو۔۔۔!‘‘ 

    پنڈت جی، ’’مت ٹوک مجھے۔ یہ لفظ نمبردار نہیں تھا بلکہ علمبردار تھا۔ آہ! تمہارے بھولے پن نے میرے دل پر رقت طاری کر دی۔ میرے قلب میں انتشار پیدا کردیا۔ تمہارے دل میں ایک انقلاب کی خواہش کروٹیں نہیں لیتی کیا؟ کبھی تمہارے سینے میں گدگدیاں نہیں اٹھتیں۔۔۔ نہیں اٹھتیں کیا؟‘‘ 

    مزدور، ’’جناب سینے میں نہیں گدگدیاں تو پیٹ میں ہوا کرتی ہیں!‘‘ 

    پنڈت جی، ’’اف ان گدگدیوں کا ذکر کون مسخرہ کر رہا ہے؟ میں دل کی گدگدیوں کا ذکر کر رہا ہوں۔ وارداتِ قلب کا ذکر ہو رہا ہے۔ میرے بھولے بھالے کامریڈ تم ضرور انقلاب چاہتے ہوگے۔ ہم خود انقلاب چاہتے تھے، چاہتے رہے ہیں۔۔۔ چاہتے ہیں، چاہیں گے اور چاہتے رہا کریں گے۔ اور اس انقلاب میں ہم تمہیں لڑائیں گے۔۔۔ آہ! مزدور لڑیں گے۔ دل سہم جائیں گے۔ اناؤنسر صاحب ذرا ایک گلاس پانی منگا دیجیے۔۔۔ ہاں انقلاب چاہتے ہونا۔ سچ سچ بتاؤ۔‘‘ 

    مزدور، ’’نہیں جناب میں بے قصور ہوں، بالکل بے گناہ ہوں۔ میں نے کبھی ایسی خطرناک باتیں نہیں سوچیں۔ مجھے معاف کردیجیے!‘‘ 

    پنڈت جی، ’’پھر وہی بھولپن دکھا رہے ہو میرے جگری دوست۔ میں تمہارے راز سے واقف ہوں۔ سمجھ لو کہ

    سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے 
    دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے 

    مزدور، (گھبرا کر) ’’صاحب آپ میری تلاشی لے لیجیے۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا!‘‘ 

    پنڈت جی، ’’مجھے ہنسنے کی اجازت دو۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ ہی ہی ہی۔۔۔ ہوہو ہو۔۔۔ کامریڈ۔۔۔ کس قدر سادہ لوح ہو تم۔۔۔ اور جب وہ انقلاب آجائے گا تو پھر ہماری مشکلات حل ہوجائیں گی۔ موجودہ کساد بازاری دفع ہوجائے گی۔ مسرت و شادمانی کی لہر ملک کے گوشے گوشے میں دوڑ جائے گی۔ یا تو سب باشندے غریب ہی ہوں گے یا سب کے سب امیر ہوں گے اور یا یہاں باشندے ہوں گے ہی نہیں!‘‘ 

    اناؤنسر، ’’یہ لیجیے پانی کا گلاس۔ پنڈت جی گستاخی معاف، یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ 

    پنڈت جی، ’’اوہ۔۔۔! وہ شعر سنے ہیں آپ نے؟

    اکثر بہک جاتا ہوں میں
    منہ آئی بک جاتا ہوں میں

    ایسا شرابی ہوگیا
    عقل وخرد کو کھوگیا

    مجھ کو زمانے سے غرض
    پینے پلانے سے غرض

    آہ۔۔۔! یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟‘‘

    اناؤنسر، ’’اُف! پنڈت جی خدا کے لیے بے ہوش مت ہوئیے!‘‘ 

    پنڈت جی، ’’آئے ہائے! اناؤنسر صاحب رہا نہیں جاتا۔ کیا کروں؟‘‘ 

    اناؤنسر، ’’صبر سے کام لیجیے۔ خدا کے لیے پنڈت جی!‘‘ 

    (دھڑام سے کوئی گرتا ہے )

    اناؤنسر، ’’سنا آپ نے؟ پنڈت چڑی لڑاوا صاحب کیا تو ابھی ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اور کیا بے ہوش ہوگئے ہیں۔۔۔ زندگی کا کیا اعتبار ہے۔ ہمیں ایک شعر یاد آیا ہے، لیکن غالباً یہ شعر سنانے کا موقع نہیں، اس لیے رہنے دیتے ہیں۔ ابھی ایک ڈاکٹر بلایا ہے۔ خاطر جمع رکھیے، پنڈت جی کو ایسے دورے اکثر پڑا کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہو ملک کے صدمے سہہ سہہ کر دل بالکل چھوٹا سا رہ گیا ہے۔ بعض اوقات تو ہمیں شبہہ ہوتا ہے کہ پنڈت جی کا دل سوچ بچار میں گھس گھس کر غائب ہوچکا ہے۔۔۔ لو بھئی مزدور، تم اپنی تقریر شروع کردو۔۔۔ ادھر آؤ۔۔۔ اس طرف۔۔۔ ہاں ہاں۔۔۔ شرماؤ نہیں۔۔۔ اپنی زندگی کی ناکامیوں پر روشنی ڈالو۔۔۔!‘‘ 

    مزدور، ’’جناب! میں ایک تندرست آدمی ہوں۔ صبح کو ورزش کرتا ہوں اور شام کو بھی۔ اور اچھی خاصی غذا کھاتا ہوں پھر جی بھر کر سوتا ہوں۔ اکھاڑے میں بھی جاتا ہوں اور اچھے اچھے پٹھوں کو پچھاڑ لیتا ہوں۔ پانچ چھ گھنٹے مزدوری کرتا ہوں۔ دن بھر کے لیے کافی مل جاتا ہے، بلکہ کچھ بچ ہی جاتا ہے۔ یہ عجیب سے لوگ مجھے بلا کر یہاں لے آئے ہیں اور عجیب عجیب باتیں پوچھ رہے ہیں۔ میں ناشکرا نہیں، نہ میں کسی امیرکی پروا کرتا ہوں نہ نمبردار کی۔ نہ میں کسی کو برا بھلا کہتا ہوں۔ میر ی صحت ایسی ہے کہ جتنے آدمی یہاں بیٹھے ہیں ان سب کو گرا سکتا ہوں۔ مجھے بولنے دیجیے۔ یہ دیکھیے ان لوگوں نے دھینگا مشتی شروع کر دی ہے۔ ارے۔ ذرا۔۔۔!‘‘ 

    اناؤنسر، ’’اف سامعین! ہمیں معاف فرمائیے۔ ہم نادم ہیں۔ اس مزدور نے تو سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ پروگرام بالکل خراب ہو گیا۔ حضرت نقشین مرادآبادی نے سوال کام کے نہیں کیے۔ آوارہ گرد صاحب چڑ گئے، پنڈت جی بے ہوش ہوگئے اور یہ مزدور کشتی لڑنے کو تیار ہے۔ ہم شرمندہ ہیں۔۔۔ اچھا۔۔۔ اب ہم قبل از وقت یہ فیچر ختم کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اس کی تلافی عنقریب کر دی جائے گی جب ہم بقیہ مشورے پیش کریں گے۔ ان کے عنوانات ملاحظہ ہوں، 

    ایک قدرتی نظارہ

    پنگھٹ

    ایک اوپریشن

    ایک خفیہ جلسہ

    اور ایک آدھ صحیح قسم کا انٹرویو بھی کرادیں گے۔ اچھا آداب عرض!‘‘ 

                                                                                      

    مأخذ:

    شگوفے (Pg. 132)

    • مصنف: شفیق الرحمان
      • ناشر: کتاب والا، دہلی
      • سن اشاعت: 1994

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے