Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

موصوف

MORE BYمشتاق احمد یوسفی

     

    شیشے کی آنکھ
    وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی زندگی میں ہی قصہ کہانی بن جاتے ہیں۔ انواع و اقسام کی خوبیاں اور خرابیاں اس سے منسوب تھیں۔ کوئی کہتا ہم نے مسٹر اینڈرسن کو کبھی مسکراتے نہیں دیکھا۔ منہ لال، ہونٹ کنجوس کے بٹوے کی مانند ہمیشہ بند۔ پر دل کا برا نہیں۔ بلغمی مزاج کا انگریز ہے۔ محض اپنا گلا صاف رکھنے کی خاطر چیختا رہتا ہے۔ منظور اس سے قطع محبت نہیں اسے۔ دوسرا کہتا چوبیس گھنٹے نشے میں چور رہتا ہے۔ آنکھ کھلتے ہی پینا شروع کر دیتا ہے۔ صبح ڈرائیور اور جمعدار اجمل خاں سہارا دے کر کار سے اتارتے ہیں۔ کار میں بھی ایک اسٹیپنی بوتل ساتھ رکھتا ہے۔ ہاتھوں میں رعشہ ہے۔ شام کو بیرا اپنے ہاتھ سے پلاتا ہے۔ رات کو بستر پر فیڈنگ باٹل سے پیتے پیتے سو جاتا ہے۔ 

    تیسرا کہتا کہ ایک آنکھ شیشے کی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کی یادگار۔ لیکن خان سیف الملوک خاں تو ہمارے سر عزیز کی قسم کھا کر کہتے تھے کہ دونوں شیشے کی ہیں۔ بس انگریز کا اقبال ہے! نصیر فاروقی سے روایت ہے کہ ایک آنکھ نیلی اور دوسری سبز تھی۔ ماں آئرش اور باپ اسکاٹ تھا۔ لیکن یہ وہ بھی نہیں بتا سکتے تھے کہ کون سی آنکھ مادری ہے اور کون سی پدری۔ چہرے کی طرف نگاہ بھر کے دیکھنے کی یہاں کس میں تاب تھی۔ لکشمن بھی تو سیتا کو چہرے سے نہیں پہچان پائے تھے۔ اس لیے کہ ان کی نگاہِ با ادب کبھی پیروں سے اوپر نہیں اٹھی تھی۔ 

    وہ بلا کا مغلوب الغضب، سخت گیر، بدزبان اور بدلحاظ مشہور تھا۔ سنا ہے سود خور کی آنکھ میں مروت نہیں ہوتی۔ طوطا چشم ہم اس لیے نہیں کہیں گے کہ طوطا چشم سے طوطا چشم طوطا کم از کم اپنی مادہ کا چہرہ تو پہچان لیتا ہے۔ لیکن بینکر، خواہ کہیں کا ہو، اس کی آنکھ چہرے نہیں، صرف نوٹ پر چھپی ہوئی شبیہ کو پہچانتی ہے۔ مارک ٹوین نے ایک شقی القلب بینکر کا خاکہ اڑایا ہے، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ ایک آنکھ شیشہ کی ہے۔ لیکن یہ کبھی تحقیق نہ ہو سکا کہ دائیں یا بائیں۔ کسی نے مارک ٹوین سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ دائیں۔ پوچھا، یہ کیسے؟ بولا دائیں آنکھ یقیناً شیشے کی ہے اس لیے کہ اس میں مروت کی جھلک نظر آتی ہے۔ 

    ہماری انمول گھڑی
    ۳ یا ۴ جنوری ۱۹۵۰ کا ذکر ہے۔ ہم نے بینک میں قدم رکھا تو دبیز گرم تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھے جس کا ذکر پہلے باب میں آچکا ہے۔ واسکٹ کی جیب میں ایک نہایت قیمتی سونے کی گھڑی تھی جو ہماری پرسنلٹی کے پسماندہ حصوں سے جو سوٹ سے باہر نکلے رہ گئے تھے قطعی لگا نہیں کھاتی تھی۔ یہ نواب سر ابراہیم علی خاں، والی ریاست ٹونک، نے ۱۹۲۸ء میں ابا جان کو بخشی تھی اور انہوں نے ہمیں بی۔ اے میں یونیورسٹی میں اول آنے پر تحفۃً دی تھی۔ سونے کی زنجیر اتنی لمبی تھی کہ ابتدائے ملازمت میں ہم اس کی کڑیوں پر بینک کا حساب اس طرح کرتے تھے جیسے چینی اپنے COUNTING BEADS پر۔ بٹن دباتے ہی یہ دھیمی دھیمی بجنے لگتی اور لے کے ساتھ گھنٹے بجانے کے بعد تحت اللفظ میں کوارٹر (پندرہ منٹ) بھی بتاتی۔ 

    صبح آنکھ کھولے بغیر وقت معلوم کرنے میں بڑی آسانی رہتی تھی۔ ایک روز ہم دن کے بارہ بجے اسے کان سے لگائے وقت کی مدھر تان سن رہے تھے کہ موصوف آ نکلے۔ کہنے لگے، دفتری اوقات میں یہ بیل گاڑی کا مترنم پہیہ کان میں گھسیڑنے کی کوشش کیوں کر رہے ہو؟ اس محاکاتی تنبیہ کے بعد ہم ترنم سے وقت سننے کے بجائے دیکھنے لگے۔ اور موسیقی سے خواہ وہ ٹائم پیس یا فائر بریگیڈ کے الارم ہی کی کیوں نہ ہو، اجتناب کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ خود کو دفتری ماحول کا اس حد تک خوگر کر لیا کہ جب تک آکسیجن میں فائلوں کی بوشامل نہ ہو، سانس لینے میں دشواری محسوس ہونے لگی۔ 

    اس سوٹ اور گھڑی کا ذکر قدرے تفصیل سے یوں بھی کرنا پڑ رہا ہے کہ سونے کے بٹن بیچ کر مکان کی پگڑی دینے کے بعد ’’یہی کچھ ہے ’قاری‘ متاع فقیر۔‘‘ اتنا ضرور ہے کہ فقیر اور سادھو سنیاسی کوٹ پتلون کی کھکھیڑ میں نہیں پڑتے۔ اختصار سے کام لیتے ہیں۔ بعضے بعضے تو اپنا منہ داڑھی سے چھپا کر تن پر فقط بھبوت مل لیتے ہیں۔ اپریل کا مہینہ آیا تو واسکٹ اتر گئی۔ مئی میں چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہنے لگا تو کوٹ بھی تہ کرکے رکھ دیا۔ جون تک پتلون میں رفو ہی نہیں، اندر ملیشیا کا استر بھی لگ چکا تھا۔ قمیصوں کے کالر کے چگی داڑھی نکل آئی جس کی روز حجامت کرنی پڑتی تھی۔ جوتوں سے ہویدا تھا کہ چشم بددور، ہمارا انگوٹھا بیل کی کھال سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ یہاں ہم اپنے افلاس و انکسار کی شیخیاں مار کر اپنی ناشگفتہ بہ حالت کی داد نہیں چاہتے۔ بس گزارش احوال واقعی منظور ہے، ورنہ بقول حالی، 

    مصیبت کا اک اک سے احوال کہنا
    مصیبت سے یہ ہے مصیبت زیادہ

    وہ اِک مرد مسلماں تھا
    ۲۶ جون ۱۹۵۰ کو روزے کی حالت میں ابا جان پر ٹنڈو آدم میں اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ بے ہوش ہوگئے۔ کسی عطائی نے نہ جانے کیا سمجھ کر کونین کا انجکشن لگا دیا اور وہ آن کی آن میں سارے بکھیڑوں، بندھنوں سے آزاد ہوگئے۔ جے پور ریاست کے ’’مقامی‘‘ مسلمانوں میں وہ پہلے گریجویٹ تھے۔ جے پور میونسپلٹی کے چیئرمین، اسٹیٹ مسلم لیگ اور دیگر مسلم تعلیمی اور ثقافتی اداروں کے صدر اور اسمبلی کی حزب اختلاف کے لیڈر رہ چکے تھے۔ اسمبلی ہی میں سقوطِ حیدرآباد پر پاکستان کی حمایت میں تقریر کرنے پر انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ سادہ دل، بے ریا، پابند شرع، فقیر منش اور زبان کے کھرے تھے۔ دل کی بات زبان پر لانے میں انہیں ذرا بھی نہیں سوچنا پڑتا تھا۔ 

    موروثی جائیداد سے وہ اپنے چھوٹے بھائی کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے۔ راجستھان میں مسلمانوں کے دیرینہ و بے لوث خدمت گزار اور تحریک پاکستان کے سپاہی کی حیثیت سے سبھی انہیں جانتے پہچانتے تھے۔ انتقال کے بعد کسی اللہ کے بندے نے ان کی میت ٹرک میں رکھ کر حیدرآباد پہنچا دی۔ غریب شہر کی لاش تین چار گھنٹے تک سڑک کے کنارے جون کی لو میں اس انتظار میں بے گور و کفن پڑی رہی کہ اگر کوئی وارث ہے تو آئے اور مٹی کے اس ڈھیر کو پہچان کر لے جائے۔ ان کے خدا نے ان کی بے کسی کی شرم رکھ لی۔ 

    دوسرے دن غروب آفتاب سے ذرا دیر پہلے سیدھے حیدرآباد کے پھلیلی قبرستان پہنچے تو کافی انتظار کے بعد قبر آدھی بند کی جا چکی تھی۔ ان کا چہرہ پرسکون تھا۔ زردی نے ماتھے پر سجدے کے نشان کو زیادہ واضح کردیا تھا۔ ایک جھلک دیکھی۔ پھر اس کے بعد کچھ نظرنہ آیا۔ انتقال کے کچھ دن پہلے وہ چند گھنٹوں کے لیے کراچی آئے تو ٹاٹ کے ایک تیلے میں اپنا کھانا ساتھ لائے تھے کہ تنک حوصلہ بیٹے نے جو رزق تلاش کیا اس میں سود کی آمیزش تھی۔ زندگی میں جس نے ان کی کوئی خدمت نہ کی، اسے انہوں نے کندھا دینے کی سعادت سے سے بھی محروم رکھا۔ قبر پر نہ گلابوں کی چادر نہ چنبیلی کا ڈھیر۔ نہ گھر پر آہ و بکار کا شور۔ وہ تھے تو گھر اتنا بے سر و سامان نظر نہیں آتا تھا۔ ماں نے سرپہ ہاتھ رکھا اور کلائی کو میلی چادر سے چھپا لیا۔ 

    اب اپنے خاندان، بے روزگار بھائی اور اس کے بیوی بچے، بہن اور اس کے کنبے، اور ان کے گرد گھومنے والے طفیلی سیارے۔۔۔ ان سب کی خورد و نوش کا انتظام، بلکہ کہنا تو یہ چاہیے کہ فاقہ کروانے کی اخلاقی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی تھی۔ ایک دن یونہی خیال آیا تو مشقی سوال کے طور پر ہم نے اپنی تنخواہ کو کنبے کے لواحقین اور لواحقین کے متوسلین پر تقسیم کیا تو مقسوم ۲۳ روپے پونے چار آنے نکلا۔ کسی طرح یقین نہ آیا کہ ایک آدمی ۲۳ روپے میں بسر اوقات کر سکتا ہے۔ حساب میں یقیناً کوئی غلطی ہوگی۔ گھڑی کی زنجیر کے کمپیوٹر پر چیک کر کے دیکھا تو وہی جواب آیا۔ زندگی ہندسوں سے کہیں زیادہ لچک دار نکلی۔ انسان بڑا سخت جان ہے۔ ان اوصاف حمیدہ اور خصائل ستودہ کی زیادہ تشریح و تشہیر یہاں اس لیے بھی غیر ضروری ہے کہ سارا اردو لٹریچر۔۔۔ ازدلی دکنی تا ایں دم۔۔۔ قناعت اور مفلسی کے فائدوں اور فضیلتوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہمیں محمد جان چپراسی کی قسمت پر بڑا رشک آتا تھا۔ اس کی تنخواہ ستر روپے تھی اور چھڑا دم۔ 

    ان کی گھڑی کو بخار چڑھا
    نوابی گھڑی اب واسکٹ کی جیب سے نکل کر پتلون کی جیب اور طلائی زنجیر بیگم کے گلے میں پہنچ چکی تھی۔ ایک دن ہم موصوف کے سامنے پیش ہوئے تو استفسار فرمایا، 

    “What’s this big abscess on your thigh?”

    اس دن سے ہر شخص ہمارے اس ابھار کو وقت بتانے والا پھوڑا کہنے لگا۔ 

    اخروٹ توڑنے کا، اخروٹ ہی کی لکڑی کا بنا ہوا، خوبصورت زنبور آپ نے دیکھا ہوگا۔ موصوف کے پاس شخصیت توڑنے کا ایسا ہی کوئی آلہ تھا۔ ہمارا چھلکا کبھی کا تڑخ چکا تھا۔ گری البتہ محفوظ تھی۔ روٹی بہر طور کما کھانے کا بکھیڑا نہ ہوتا تو مچھندر خود کو اس وقت بتانے والے پھوڑے سمیت کبھی کا دریا برد کر چکا ہوتا۔ واقعہ سخت تھا پر اہل و عیال کی جان بھی عزیز تھی، وہ جاں پہ بنی ہے کہ جئے بن نہ رہا جائے۔ گھر میں کوئی اور گھڑی بھی نہ تھی۔ اور گھڑی بغیر ہم ایک منٹ بھی نہیں رہ سکتے۔ گھڑی کا سب سے بڑا فائدہ یہ دیکھا کہ ہرمنٹ یہ معلوم ہوتا رہتا ہے کہ ہم کتنے لیٹ ہو چکے ہیں۔ ایک دن حیدری صاحب کو ہم پر ترس آگیا اور انہوں نے ازخود پیش کش کی کہ وقت نما پھوڑے کا میری رسٹ واچ سے تبادلہ کرلو۔ میں اسے اپنے مالک مکان راجہ صبح صادق کو دے آؤں گا۔ اسے ANTIQUES جمع کرنے کا بڑا خبط ہے۔ چار مہینے سے مکان کا کرایہ چڑھا ہوا ہے۔ روز اپنے پٹھان چوکیدار کو بھیج دیتا ہے۔ بچارا شریف آدمی ہے۔ منھ سے کچھ نہیں کہتا۔ علی الصبح گھر کے سامنے پانچ دس منٹ ڈنڈا بجا کر چلا جاتا ہے۔ 

    ہم بھی دبدھا میں پڑگئے۔ حیدری صاحب نے یہ گھڑی مبلغ ۶۰ روپے میں ایک پائلٹ کے ذریعہ عدن سے منگائی تھی جسے اس زمانے میں اسمگلروں کا باغ عدن کہا جاتا تھا۔ ایسی گھڑی اب خلا نوردوں کے پاس ہو تو ہو، اس زمانے میں زمین پر چلنے والے کے پاس ہم نے نہیں دیکھی۔ تاریخ، دن، مہینہ، سنہ، چاند کی منزلیں، ہائی اور لوٹائیڈ (جوار بھاٹے) کا حال، سمت، سیکنڈ اور گرینچ مین ٹائم بتاتی تھی۔ ڈائل کو پٹ کرکے کلائی پر الٹی باندھ لیں تو جسم کا، ورنہ چت حالت میں کمرے کا درجہ حرارت، اور اللہ جانے کیا کیا افشا کر دیتی تھی۔ ڈائل پر متفرق معلومات کا وہ طومار تھا کہ اگر محض وقت ہی معلوم کرنا ہو تو دومنٹ لگ جاتے تھے۔ چند دن تو یہ اپنے اور ادو وظائف کی پابند رہی، پھر اپنی اوقات یعنی سراسر حرام خوری پر اترآئی۔ 

    حیدری صاحب گھڑی کے بہت پابند تھے۔ جیسے ہی ان کی گھڑی صبح کے پانچ بجاتی، ان کا ایک پیر بینک کے اندر اور دوسرا باہر ہوتا۔ اس وقت لندن کی گھڑیاں بھی پانچ ہی بجارہی ہوتی تھیں۔ پاکستانی گھڑیاں پانچ گھنٹے تیز چلتی تھیں۔ وقت پر دفتر آنے کی بدعت کے وہ کبھی مرتکب نہ ہوئے۔ اپنی گوناگوں خدمات کا معاوضہ وہ ایک روپیہ یومیہ کے حساب سے دھروا لیتی تھی۔ وہ اس صورت میں کہ پانچ چھ مہینے تک حیدری صاحب اوسطاً تیس روپے ماہوار اس کی مرمت پر خرچ کرکے ہمارے مقروض ہوتے چلے گئے۔ تبادلے کی پیش کش اسی زمانے کی بات ہے۔ یہ آلہ واٹر پروف بھی تھا۔ اپنی سیلز مین شپ سے ہمیں اکثر للچاتے کہ آپ پانچ سوفٹ گہرے پانی میں ڈوب جائیں، تب بھی یہ گھڑی ایک ہفتے تک بند نہیں ہوگی۔ اگر آپ قطب شمالی میں سکونت اختیار کرلیں تو مقناطیسی اثرات سے مفلوج نہیں ہوگی۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ واقعی سوفی صد واٹر پروف ہے، حیدری صاحب بینک پہنچتے ہی اسے پانی کے گلاس میں ڈبو دیتے اور شام کو گھر جاتے وقت نکال کر کلائی پر باندھ لیتے تھے۔ دن بھر ہر آئے گئے کو گلاس اٹھا اٹھا کر غرقاب گھڑی کی کارکردگی دکھاتے۔ 

    شکی مزاج والوں کو گھڑی کان سے لگا کر سنواتے کہ چلتی بھی ہے۔ گلاس ہلاتے تو جوار بھاٹے اور چڑھتے چاند کا حال بھی بتا دیتی۔ ایک مہینے کی غرقابی کے بعد یہ گھڑی وقت کے سوا ہر چیز ٹھیک بتانے لگی۔ ہر چیز سے ہماری مراد تاریخ، دن اور سنہ ہیں۔ جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ حیدری صاحب صبح دفتر پہنچتے ہی گھڑی کو کیلنڈر سے ملا لیا کرتے تھے۔ جن دنوں ہماری گھڑی واسکٹ سے پھسل کر پتلون کی جیب میں پہنچی، قریب قریب اسی زمانے میں یہ گھڑی گلاس سے نکل کر قمیص کی جیب کی زینت بنی۔ درجات بلند ہوتے ہوتے یہ آرائشی مقام حاصل کرچکی تھی۔ کسی بہتر ملازمت کے انٹرویو کے لیے جانا ہو، یا اسٹیٹ بینک کے ناخداؤں سے مچیٹا ہو تو کلائی پر اس کا امام ضامن باندھ کر نکلتے۔ کف کی اوٹ سے صرف اسٹریپ نظر آتا تھا۔ ڈائل کا رخ اپنی ہتھیلی کی طرف رکھتے۔ واپس آتے تو گھڑی کو ۱۰۵ ڈگری بخار چڑھا ہوتا تھا۔ 

    عالی جاہ نے رپٹ لکھوائی
    افسوس کہ ان گھڑیوں کا تبادلہ قدرت کو منظور نہ تھا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ سنیچر کی رات کو گھر کے خورد و کلاں، حسب مراتب، صحن، برآمدے اور سڑک کے کنارے سو رہے تھے۔ چور نہ جانے کب اور کیسے آئے اور جو کچھ اثاثہ ہاتھ لگا، اٹھاکر لے گئے۔ ’’جوکچھ‘‘ سے ہماری مراد مذکور الصدر گھڑی اور پتلون ہے جسے پہن کر ہم نے سیکنڈ شو دیکھا تھا اور پھر اپنے کمرے میں، نیند سے بے حال، خود کو اس میں سے نکال کر جہاں کی تہاں پڑی رہنے دی۔ خیریت گزری کہ گھر والوں کے کپڑے لتے چوری نہیں ہوئے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ سب انہوں نے پہن رکھے تھے۔ مرزا عبد الودود بیگ نے بہت منع کیا کہ ’’غیر رقمی چوری کی رپٹ تھانے میں نہ لکھواؤ۔ شرفا کے لیے یہ بڑی بے عزتی کی بات ہے کہ گھر میں چور آئیں اور چرانے کے لیے کوئی رقم ہی نہ نکلے۔‘‘ بہرکیف، ہم تھانے میں رپٹ لکھوانے پہنچ گئے۔ 

    ایس۔ ایچ۔ او نے گھڑی کی قیمت پوچھی۔ ہم نے محتاط اندازے کے مطابق پانچ ہزار بتائی۔ چونک کر پوچھا، عالی جاہ کوارٹر کا کرایہ کیا دیتے ہیں؟ عرض کیا ۳۵ روپے۔ ہمارا جواب سن کر وہ ایک معنی خیز ’’ہوں! عالی جاہ!‘‘ کر کے رہ گئے۔ ہم نے دیکھا کہ یہاں ہر شخص ایک دوسرے کو عالی جاہ پکارتا ہے۔ چنانچہ ایک صاحب جنھیں عالی جاہ کہہ کر مخاطب کیا جا رہا تھا، حوالات میں ہتھکڑی پہنے چٹائی پر مرغا بنے جوتوں سے اپنی تواضع و تفتیش کروا رہے تھے۔ 

    ’’اور کیا چوری گیا، عالی جاہ؟‘‘ 

    ’’کچھ نہیں۔‘‘ 

    پتلون کا ذکر ہم نے F.I.R (ابتدائی رپورٹ) میں قصداً نہیں کیا تھا کہ کل کلاں کو مالِ مسروقہ چور کے قبضے سے برآمد ہو جائے تو بھری عدالت میں پیشی پر ہماری پتلون کی نمائش لگائی جائے گی اور اسے EXHIBIT NO.1 کے جھنڈے پر چڑھا کر ہم سے جرح کی جائے گی کہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہو کہ تم واقعی اسے سترپوشی کے لیے استعمال کرتے تھے۔ 

    ’’تو گویا دو چور صرف ایک گھڑی چرانے آئے تھے؟‘‘ تھانیدار صاحب اپنے ڈنڈے سے کھیلتے ہوئے بولے۔ 

    ’’ایسا ہی لگتا ہے۔‘‘ 

    ’’انہیں یہ کیسے علم ہوا کہ عالی جاہ کے پاس یہ انمول گھڑی ہے؟‘‘ 

    ’’خدا بہتر جانتا ہے۔‘‘ 

    ’’چوری کے کوئی عینی گواہ ہیں؟‘‘ 

    ’’وہ تو خود چور ہی ہوسکتے ہیں۔‘‘ 

    ’’اچھا تو آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ دو چور تھے؟‘‘ 

    ’’چارپاؤں کے نشان تھے۔‘‘ 

    ’’تو گویا چارپاؤں کا مطلب دو آدمی ہوتے ہیں؟ گھڑی کہاں رکھی تھی؟‘‘ 

    ’’ہماری پتلون میں۔‘‘ 

    ’’پتلون کہاں ہے، عالی جاہ؟‘‘ انہوں نے ہمارے پاجامے کو، جس میں جمعہ کی نماز کے گھٹنے بنے ہوئے تھے، گھورتے ہوئے پوچھا۔ 

    ’’چور لے گئے۔‘‘ 

    ’’ابھی تو آپ نے کہا تھا کہ کوئی اور چیز چوری نہیں ہوئی۔ اب تفتیش کے دوران آپ اقبال کر رہے ہیں کہ پتلون بھی چوری گئی۔ یہ تو صاف سرقہ بالجبر دفعہ ۳۹۰ کا کیس ہوا۔ تو گویا واردات کے وقت آپ نے پتلون مسروقہ پہن رکھی تھی؟‘‘ 

    ’’نہیں۔‘‘ 

    ’’آپ نے اس سرقہ کو کیوں چھپایا؟‘‘ 

    ’’کوئی خاص وجہ نہیں۔‘‘ 

    ’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اعانت مجرمانہ ہے۔ قابل دست اندازئی پولیس جرم کو چھپانا بھی جرم ہے۔ آپ پر زیر دفعہ ۱۰۹ تعزیرات پاکستان فوجداری مقدمہ چل سکتا ہے۔ مجسٹریٹ اگر ACQUITTING NATURE کا ہوا تو چھ مہینے کی بامشقت ہوگی۔ منشی جی! ذرا ادھر آئیے۔‘‘ 

    ’’حاضر ہوا، عالی جاہ!‘‘ منشی جی نے تمباکو کے پان کی پہلی پیک پچ سے حوالات کے جنگلے میں تھوکتے ہوئے کہا۔ 

    ’’اچھا! گھڑی کی رسید لائے ہیں، عالی جاہ؟‘‘ 

    ’’میں رپٹ لکھوانے آیا ہوں۔‘‘ ہم نے جھنجھلا کر کہا۔ 

    ’’آپ کو معلوم ہے آپ اس وقت کس کے بالمواجہ ہیں؟ آپ نے جب یہ گھڑی مبلغ پانچ ہزار میں خرید فرمائی تو اس کی رسید تولی ہوگی۔ وہ کہاں ہے؟‘‘ 

    ’’رسید تو نہیں ہے۔‘‘ 

    ’’ہوں! منشی جی! یہ تو پھڈا ہی گویا کچھ اور ہے! جلدی آئیے۔‘‘ 

    ’’حواضر ہوا عوالی واہ!‘‘ منشی جی آسمان کی طرف منھ کر کے بلبلائے۔ دیر تک پان کی پیک سے گرگل گرگل کرتے رہے۔ 

    ۲۱ پتیں
    ہم نے وہیں سے فون پر دہائی دے کر ایک دوست سے، جو سپرڈنٹ پولیس تھے، سفارش کروائی، تب کہیں ہم پر تفتیش کا باب بند ہوا اور گھر جانے کی اجازت ملی۔ ڈھائی گھنٹے تاخیر سے بینک پہنچے۔ کچھ دیر بعد اینڈرسن ادھر سے گزرا تو ہمیں اچکن پاجامے میں ملبوس دیکھ کر کہنے لگا ’’بالکل ’جپسی‘ لگتے ہو۔ گھڑی کی ’اسٹوریج‘ کے لیے تو تمہیں ایک نہ ایک دن کنگرو کی سی تھیلی آگے لٹکانی پڑے گی۔‘‘ 

    ایسے فقرے وہ اکثر چست کرتا رہتا تھا۔ خدا جانے ہمیں جلانے کو انجان بن رہا تھا یا سچ مچ ناواقف حال۔ ایک دن سوکھا سا منھ بناکر پوچھنے لگا کہ مجھے ادھر رہتے بستے تیس پینتیس برس ہوگئے۔ پر یہ آج تک سمجھ میں نہ آیا کہ تمہارے ہاں ملازمت کی درخواستوں پر ایک ہی ریفرنس نمبر کیوں دیا جاتا ہے۔ سوال ہماری سمجھ میں نہ آیا تو دوتازہ درخواستیں ہمارے آگے بڑھا دیں جن کی پیشانی پر ۷۸۶ لکھا ہوا تھا۔ 

    ایسے شگفتہ لمحے کم ہی آتے تھے، کیوں کہ وہ دائمی طیش میں رہتا تھا۔ اس کا غصہ بالکل خالص ہوتا تھا یعنی بلا وجہ۔ فون پر بولتا تو تار جل اٹھتے۔ ہرلفظ کی تیوری پر بل، ہر فقرے کی آستین چڑھی ہوئی۔ غبن اگر ڈھاکہ میں ہوا ہے تو ڈانٹ کراچی کے کیشیر پر پڑ رہی ہے۔ چائے کے کپ میں کسی مکھی نے خود کشی کر لی تو انسپکٹر آف برانچز سے بازپرس۔ غرض کہ، بقول مرزا، ہر شخص کی بے عزتی خراب (بے عزتی خراب کرنا، مرزا عبد الودود بیگ کے متروکہ وطن چاکسو (خورد) میں بے عزت کرنے یا عزت خراب کرنے کی بجائے بے عزتی خراب کرنا بولا جاتا ہے جو ہمیں کہیں زیادہ پرمعنی و مذلت معلوم ہوتا ہے۔) کرتا تھا۔ لوگ رجز پڑھتے ہوئے جاتے اور ہجو کہتے لوٹتے۔ بشیر احمد تو اس کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے لبریم کی ایک گولی کھا لیتے تھے۔ کہتے تھے کہ لمحہ توہین و تذلیل سے پانچ منٹ پہلے ایک گولی کھا لی جائے تو پھر طبیعت پر ڈانٹ پھٹکار کا ذرا اثر نہیں ہوتا۔ ذرا دیر بعد کمرے سے بے آبرو ہو کر نکلتے تو دو اور کھاتے۔ 

    ملازمت پیشہ آدمی اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ غریب جہاں بھی ہو، یہی درگت بنتی ہے۔ پنجابی میں ایک مثل ہے کہ کاشت کار کی ۲۱ ’’پتیں‘‘ (عزتیں) ہوتی ہیں۔ ایک آدھ چپراسی کی نذر۔ دوتین اہلمد، سرشتہ دار کی بھینٹ۔ کچھ گرد اور قانون گوکے سرصدقے۔ اور وہ جو الگ باندھ کے رکھی ہیں وہ پٹواری پہ نچھاور۔ کاشتکار پھر بھی دو چار بچا کے ہی لے جاتا ہے۔ سفید کالر والے ملازموں کا حشر کچھ مختلف نہیں ہوتا۔ 

    اس کے باوصف وہ سب کے لیے ایک FATHER FIGURE کی حیثیت رکھتا تھا۔ اپنے قدوقامت سے بڑا لگتا تھا۔ اور اس کی باتیں بھی۔ خشونت و سرزنش میں ایک ادائے دلنوازی و دلداری ضرور تھی۔ آم اگر پہلے ترش نہ ہو تو پھر کبھی میٹھا نہیں ہوسکتا۔ سرداری و سرخیلی کی ایک شان رکھتا تھا۔ آرے کے دندانے کھٹل کرنے والی سخت اور خوبصورت گرہیں ساگوان کے گٹھیلے اور برف و باراں چشیدہ ہونے کی غماز تھیں۔ فہمائش کے کچھ دیر بعد معتوب کو دوبارہ کسی بہانے سے بلاتا اور بلاوجہ نرمی و شفقت سے پیش آتا۔ یہ دلاسا غالباً اس لیے کہ آئندہ ڈانٹ کے لیے اس کی طبیعت میں تازہ سہار پیدا ہو۔ کشتگانِ تیغ زبان پھر جگر لخت لخت کو جمع کرتے۔ نوک مژگاں سے رزق کا ایک ایک ریزہ چنتے۔ پھر جی چھوٹ جاتا۔ آس ٹوٹ ٹوٹ جاتی۔ اور پھر کسی کا حرف تسلی گرتوں کو تھام لیتا۔ یہی ازلی چکر چلتا رہتا، 

    چمکارے، چمکار کے مارے
    مارے، مار کے پھر چمکارے

    جن ملزموں کو سزائے موت سنا دی جاتی ہے، جیل والے ان کی بڑی دیکھ ریکھ کرتے ہیں کہ کہیں زہر نہ کھا لیں۔ بلیڈ سے شہ رگ نہ کاٹ لیں۔ دیوار سے سرنہ پھوڑ لیں۔ نیکر سے پھانسی کا پھندا نہ بنا لیں۔ چھینک بھی آجائے تو ترنت ڈاکٹر بلوایا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ ان کی جان کی پوری پوری حفاظت کی جاتی ہے تاکہ پھانسی دی جا سکے۔ 

    ہمارا کچا چٹھا
    ڈسپلن کا خود بھی لحاظ رکھتا تھا۔ ٹھیک پونے نو بجے دفتر آتا۔ دنیا جانتی تھی کہ ALCOHOLIC (شراب نوشی کی عادت جب مرض کی صورت اختیار کر لے۔ دائم الخمر) ہے۔ لیکن دفتر میں شراب نہیں پیتا تھا۔ گھر سے پی کر آتا تھا۔ عام طور سے دھاری دار ٹائی لگاتا تھا۔ لیکن کسی سینئر افسر یا منیجر کو ڈانٹنا ہو تو لنچ کے بعد سیاہ بولگا کر آتا۔ بعض افسر ایسی ہی سادہ لیکن پروقار تقریب میں ’’ڈسمس‘‘ بھی ہو چکے تھے۔ گوشمالی کے بعد یہ ضرور کہتا کہ میں نے تمہاری نااہلی کا ’’سیاہ اندراج‘‘ اس خفیہ ڈائری میں کر لیا ہے۔ اس ڈائری کی گہرے عنابی رنگ کی جلد، بقول اس کے، اصلی پگ اسکن (سور کے چمڑے) کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’یہ خونخوار سور میں نے اپنے نیزے سے اسکاٹ لینڈ کی ترائی میں مارا تھا۔ بڑا ہی سور تھا۔ ہاں! پاکستانی سور میں چربی کم، مگر سورپن زیادہ ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم یوروپین بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔‘‘ 

    جن جن کے کرتوت اس ڈائری میں محفوظ کیے جا چکے تھے، ان کی دلی خواہش تھی کہ اپنی عاداتِ قبیحہ اور افعال شنیعہ کی روداد اپنی آنکھوں سے دیکھیں، لیکن سور کی جلد کے کون ہاتھ لگائے۔ چپراسی بھی میز صاف کرتے وقت جھاڑن تک اس پلید شے کے نہیں لگنے دیتا تھا۔ مرزا عبد الودود بیگ فرماتے تھے کہ سود، شراب، اپنے افسروں کی تاریخ پیدائش، اور جوئے کی ہار جیت کا حساب رکھنے کے لیے سور کے چمڑے کی ڈائری سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ 

    ایک سہانی سلونی صبح کا ذکر ہے۔ ہم کاؤنٹر پر چیک وصول کرکے اس کے بدلے ’’ٹوکن‘‘ دینے کا کام سیکھ رہے تھے کہ ایک مقامی ہوٹل میں رقص کرنے والی آسٹرین کیبرے ڈانسر نے ایک کروڑپتی صنعت کار کا ’’بیئرر‘‘ چیک بھنانے کو دیا۔ اس زمانے میں خواتین بینکوں میں خال خال ہی نظر آتی تھیں۔ بقول پروفیسر قاضی عبد القدوس، عورتوں کا قحط الرجال تھا۔ مطلب یہ کہ کہیں کوئی عورت کار چلاتی یا سگرٹ پیتی نظر آ جائے تو لوگ یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے جیسے دمدار ستارہ نکل آیا ہو، جس کا منہ ان کی طرف ہو اور دم شوہر کی طرف۔ چیک کے جملہ اندراجات کی جانچ پڑتال کے علاوہ ہمارے سپرد یہ کام بھی تھا کہ چیک پر کیے ہوئے دستخطوں کا موازنہ نمونہ کے دستخطوں سے کرکے تصدیق کریں کہ جعلی نہیں ہیں۔ 

    ہم یہ دہرے تہرے فرائض کس طرح انجام دے رہے تھے، اس کا اندازہ تو قارئین کو آگے چل کر خود ہو جائے گا۔ یہاں صرف اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ موصوف حسب عادت دبے پاؤں آئے اور ہمارے پیچھے کھڑے ہو کر نہ جانے کتنی دیر تک ہمارے عالم محویت کا نظارہ کرتے رہے۔ ان کی عادت تھی کہ ہر کبھی ’’سرپرائز چیکنگ‘‘ کو آ نکلتے۔ کئی دفعہ چپ چاپ آکر ہمیں بھی دیکھ چکے تھے۔ ہر دفعہ ناقابل اعتراض حالت میں پایا۔ اس دفعہ وہ ’’آہم‘‘کہہ کے کھنکارے۔ ہم نے جھٹ چیک کو گھورنا شروع کردیا۔ فرمایا، اس چیک کی ادائی سےجانبر ہونے کے بعد جنرل منیجر سے ملو۔ موصوف ایسے موقعوں پر اپنی جانب صیغہ غائب میں اشارہ فرماتے تھے۔ 

    ہم عرق خجالت میں غرق پیش ہوئے تو بکمال شفقت فرمایا، تم دوسرے قسم کے فگر پر نظر سے ٹک مارک لگا رہے تھے! ہم ایسے بن گئے گویا، ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں۔ لہٰذا وضاحت فرمائی کہ تم چیک کے دستخط اس کے چہرے سے COMPARE کر (ملا) رہے تھے! بعدہٗ نصیحت و تنبیہ۔ نصیحت یہ کہ ینگ مین! ایسی عورتوں کے چہرے جعلی ہوتے ہیں۔ یعنی، ہیں خواتین کچھ نظر آتی ہیں کچھ۔ ایسے چیک کو تو ترنگل (ترنگل، پنجابی۔ گھاس اٹھانے اور اتھل پتھل کرنے کا پنجے کی شکل کا آلہ۔) سے چھونا بھی خالی از خطر نہیں۔ تنبیہ یہ کہ میں اس مل کے اسٹاک کی ابھی چیکنگ کر وا رہا ہوں۔ نیز اس غیر پیشہ ورانہ لغزش کی رپورٹ اس ڈائری میں قلم بند کر رہا ہوں۔ 

    ہمارے پاؤں تلے سے سارا کیریر نکل گیا۔ شبانہ روز کی محنت پر پانی کیا چیز ہے، پورا بحیرۂ عرب پھرتا نظر آیا۔ تین چار دن بعد کرید سی ہوئی کہ لاکھ سزاوارِ نکوہش سہی، آخر دیکھنا تو چاہیے ڈائری میں لکھا کیا ہے۔ چنانچہ سنیچر کی رات کو ۱۱ بجے کا عمل ہوگا۔ ہم اس کے کمرے میں پچھلے دروازے سے داخل ہوئے اور کانپتے ہوئے ہاتھ پر رومال لپیٹ کر حرام جانور کے چمڑے کی جلد والی ڈائری کھولی۔ ایک ورق۔ دوسرا ورق۔ تیسرا ورق۔ ساری ڈائری کھنگال ڈالی۔ ہر ورق خالی۔ ہر صفحہ سادہ! بجز پہلے صفحے کے جس پر اس کا اپنا نام اور اس کے نیچے چھ سال پہلے کی تاریخ لکھی تھی! 

    ہماری تنخواہ سے ملکی معیشت کی تباہی
    ہنی مون کا وہ سنہری دھند جب آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ انگوٹھا چوس کر بھی زندہ رہ سکتا ہے، کبھی کا چھٹ چکا تھا۔ بیگم نے ہمیں ایک دن یہ اطلاع دی کہ ہماری تنخواہ ۱۳ تاریخ تک کے لیے بالکل کافی ہوتی ہے تو ہمیں پوپ گریگری پر بڑا غصہ آیا جس نے عیسوی کیلنڈر کی ترتیب و اصلاح کرتے وقت یہ تباہ کن فیصلہ کیا تھا کہ کوئی مہینہ ۲۸ دن سے کم کا نہ ہوگا۔ ظالم کو اصلاح ہی کرنی تھی تو ٹھیک سے کرتا۔ خیر، گرم گرم گرہستی چوٹ تھی۔ ہم نے دوسرے ہی دن اینڈرسن کی اسٹینو گرافر کو ایک درخواست ڈکٹیٹ کروائی جس میں احتجاج کیا کہ جس تنخواہ کا بینک کے چیئرمین مسٹر ایم۔ اے۔ اصفہانی نے وعدہ کر کے ہم سے سول سروس سے استعفیٰ دلوایا تھا، اس کے نصف پر ہمیں ٹرخادیا گیا۔ لہٰذا چارسو روپے کا فوری اضافہ کیا جائے اور بقایا جات ادا کیے جائیں۔ 

    اس لُتری نے غالباً اس کی پیشگی اطلاع اسے دے دی۔ جبھی تو درخواست ٹائپ ہونے سے پہلے ہی اس نے ہمیں طلب کرلیا۔ کہنے لگا بینک کا حال تو اورینٹ ایئرویز سے بھی بدتر ہے۔ شیئر کی قیمت کا کریش ہو چکا ہے۔ خسارہ ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک فراڈ بھی ہوگیا ہے۔ بینک فراڈ در اصل اعداد و شمار کی شاعری ہے۔ صبح کیش پوزیشن دیکھ کر گلے میں پھندا سا پڑ جاتا ہے۔ میں خود آج کل ضرورت مند صنعت کاروں اور تاجروں کو اوور ڈرافٹ کے بجائے قیمتی مشورے دے رہا ہوں۔ بینک موجودہ اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میں تمہاری تنخواہ کی طرف سے بہت فکر مند رہتا ہوں۔ مگر تم عیال دار آدمی ہو۔ گھٹاتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ 

    تنخواہ میں مزید تخفیف کی بشارت کے علاوہ اس نے معاشیات پر لمبا سا لیکچر بھی دیا جس کے دوران رف پیڈ پر ڈائگرام بنا کر ہمیں ذہن نشین کرایا کہ اگر قومی پیداوار میں اضافہ ہو اور تنخواہیں اور اجرتیں بڑھتی ہی چلی جائیں تو ملک کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ انگلینڈ اسی طرح برباد ہو رہا ہے۔ ہم اس کے کمرے سے نکلے تو ہر چند ہماری تنخواہ وہی تھی جو کمرے میں داخل ہونے سے پیشتر تھی، لیکن اس خیال ہی سے ایک عجیب طرح کی سرخوشی اور طمانیت محسوس ہوئی کہ ہماری ترقی سے ساری معیشت تباہ ہوسکتی ہے۔ 

    ٹونی صاحب
    طنطنے اور دبدبے کا کیا ٹھکانا۔ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ ایک دن ہم ضرب کرنے کی مشین کو الٹا چلا کر تقسیم کرنے کی اجتہادی کوشش کر رہے تھے کہ چپراسی دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا ٹونی صاحب آیا ہے۔ دودھ کے لیے چار آنے چاہئیں۔ ہم نے یہ سمجھ کر کہ شاید ملاقاتیوں کے لیے چائے کا دودھ ختم ہوگیا ہے، فوراً چونی نکال کر اسے دے دی۔ کچھ دیر بعد وہ ٹونی صاحب کو ہم سے متعارف کرانے لایا۔ نکلتا ہوا قد، شربتی آنکھیں، چوڑی چھاتی، کمر چیتے جیسی، نیم والب، اجلے سپید دانت، کھلتا ہوا چمپئی رنگ۔ اور اسی رنگ کی دم۔ یہ اینڈرسن کا کتا تھا جو اس وقت RABIES (پاگل پن) کے ششماہی ٹیکے کے لیے رچمنڈ کرا فورڈ اسپتال لے جایا جارہا تھا۔ سب اس سے بڑے ادب و تکریم سے پیش آتے۔ اس کے سامنے کوئی اینڈرسن کی غیبت نہیں کرتا تھا۔ کوئی اسے کتا نہیں کہتا تھا۔ سب ٹونی صاحب پکارتے تھے، سوائے یعسوب الحسن غوری کے، جو اسے ٹونی میاں کہتے تھے۔ 

    جب بھی یہ بینک آتا تو ہرشخص جتا جتا کر اس طرح نازبرداری کرتا جیسے باس کے بچے کو چومتے چاٹتے ہیں۔ کوئی سر پر ہاتھ پھیرتا۔ کوئی تعریفوں کے پل باندھتا۔ کوئی دم اور سر کے قلابے ملاتا۔ اور کوئی اپنے ٹفن کیریر میں سے کلیجی نکال کے کاغذ پہ رکھ دیتا۔ سیلونیز چیف اکاؤنٹنٹ مسٹر گنسالوز نے ایک دفعہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنی کتیا شیبا کو اس نجیب الطرفین کتے کے حبالہ آوارگی میں لانا چاہتے ہیں۔ سپردم بتومادہ خویش را۔ اور یعسوب الحسن غوری تو بڑے احترام اور دلجمعی سے اپنا ہاتھ اس سے چٹواتے اور شام تک چٹی ہوئی ہتھیلی کو سینت سینت کر رکھتے اور ہر ایک کو اس طرح اترا اترا کر دکھاتے جیسے قلو پطرہ نے اپنا چوما ہوا ہاتھ دکھایا تھا، 

    “… and here
    My bluest veins to kiss، a hand that kings.
     Have lipp’d, and trembled kissing.”

    ملاعبد الصمد اور مس مارجری بالڈ
    اس کے لکھے ہوئے نوٹ اور خطوط پڑھنے کا اتفاق ہوا تو پہلے حیرت، پھر بڑی فرحت محسوس ہوئی کہ انگریز بھی غلط انگریزی لکھ سکتا ہے۔ ہماری انگریزی تو، بقول اس کے، گریمر کی گٹھیا میں مبتلا تھی اور دفتری دھوپ میں ابھی اس کے جوڑ بند نہیں کھلے تھے، لیکن اس کے اپنے جملے بہت گنجلگ اور غیر مربوط ہوتے تھے۔ بعض الفاظ، بلکہ فقرے کے فقرے، اپنے مفہوم سے روٹھے رہتے تھے۔ ایک دن شامت جو آئی تو ہم نے اس کے ایک ڈرافٹ میں نیسفیلڈ گرامر کی رو سے کسی معمولی سے سقم کی ڈرتے ڈرتے نشاندہی کی۔ جھنجھلا کر عینک اتار دی اور اس کی ٹانگوں کی آلتی پالتی مارتے ہوئے بولا، ’’کیا نیسفیلڈ کوئی اینگلو اینڈین اسکول ماسٹر تھا؟ سولاہیٹ اور سفید پتلون؟ رائس اینڈکری کھانے والا؟ افسوس تم نے کسی اہل زبان سے انگریزی نہیں پڑھی۔‘‘ عرض کیا، ’’۱۹۴۲۔۴۳ میں ہم نے ایک انگریز عورت سے انگریزی پڑھی تھی۔‘‘ فرمایا، ’’Aha! Just as I though! جبھی تو مردانہ انگریزی کے تیور نہیں پہچانتے۔ چندے میری صحبت میں رہے تو چھاتی پر گھنگھریالے بال نکل آئیں گے۔ مگر وہ تھی کون؟‘‘ 

    ’’مس مارجری بالڈ‘‘ ہم نے گردن اکڑا کر کہا۔ اس زمانے میں مس مارجری بالڈ پر ہم اس طرح فخر کرتے تھے جیسے مرزا غالب اپنے ایرانی استاد ملا عبد الصمد پر، جس کے بارے میں جدید تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا۔ غالب کا استاد اس کے اپنے ذہن کا زائیدہ تھا۔ دیکھا جائے تو اس سے بہتر استاد ہو بھی نہیں سکتا۔ 

    عجب اتفاق ہے کہ ہم دونوں بے استادوں (یعنی غالب اور راقم آثم) کو زبان استاد آگرے ہی میں نصیب ہوئے۔ ملا عبد الصمد کو پاکر غالب لکھتے ہیں ’’بارے مراد بر آئی۔ اور اکابر پارس میں سے ایک بزرگ وارد ہوا اور فقیر کے مکان پر دو برس رہا۔‘‘ افسوس کہ یہ فقیر پر تقصیر اپنی فرنگی نژاد استانی کو دو گھڑی بھی اپنے مکان میں رکھنے سے قاصر تھا اس لیے کہ فقیر خود سینٹ جانس کالج کی ہیلی بری اقامت گاہ کے تنگ و تاریک حجرہ ۴۲ میں معتکف تھا جس کی واحد کھڑکی چمڑا کمانے کی ’’ٹینری‘‘ کی جانب کھلتی یعنی ہمیشہ بند رہتی تھی اور مہمان کے لیے دروازہ اندر کی جانب صرف اس صورت میں کھلتا تھا کہ دروازے سے لگی ہوئی چارپائی کو پہلے پیٹھ پر اٹھا کر کھڑا کیا جائے۔ پھر واپس بچھانے کے بعد اسی کے نیچے سے گھٹنیوں نکل کر مہمان سے بغل گیر ہوں اور اسی پر بٹھادیں۔ مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی (اللہ انہیں اپنی رحمتوں سے نوازے) جن کی کتابوں سے ہم نے اردو زبان اور قناعت سیکھی، ایسی خام خیالی کے بارے میں مثال دے کر فرماگئے ہیں، 

    کیا کیا خیال باندھے ناداں نے اپنے دل میں
    پر اونٹ کی سمائی کب ہو چوہے کے بل میں

    لیکن خود مولوی صاحب قبلہ نے غالباً ضرورتِ شعری کے تحت، خلافِ وضع ِشُتری، چوہا باندھا ہے۔ ورنہ اونٹنی یا کم از کم چوہیا ہونی چاہیے تھی۔ 

    عینک ماتھے پر چڑھاتے ہوئے بولا، ’’تم نے عورت سے انگریزی کیوں پڑھی؟ کیا مرد دستیاب نہ تھا؟‘‘ 

    ’’وہ سیر کے لیے ہندوستان آئی تھی۔ اثنائے سیر میں دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی۔‘‘ 

    ’’بہت قابل تھی؟‘‘ 

    ’’وہ بالوں میں سرخ ربن باندھتی تھی اور۔۔۔‘‘ 

    ’’میں کھوپڑی کے باہر کا حال نہیں پوچھ رہا۔‘‘ 

    ’’کیمبرج میں پڑھا چکی تھی۔ شیلی پر اتھارٹی۔ وقت گزاری کے لیے سینٹ جانس کالج آگرہ میں ’پوئٹری‘ کی کلاس لینے لگی۔‘‘ 

    ’’ہاہاہا! مرد کا عورت سے شاعری پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی عورت، مرد سے دودھ پلانا سیکھے۔ خوبصورت عورت سے بینکر صرف ایک ہی ڈھنگ کی بات سیکھ سکتا ہے۔ ’نہ‘ کہنےکا سلیقہ۔ بہرحال، Give the devil his due. تم میرے پہلے انڈین، آئی ایم سوری، پاکستانی ماتحت ہو جو سیمی کولن (;) استعمال کرنے کا جگرا رکھتا ہے۔ مگر ایک بات دھیان میں رہے۔ شیکسپیر نامی ایک شخص بھی مجھ سے بہتر انگریزی لکھتا ہے۔ لیکن میں اسے بینک کی خط و کتابت میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘ 

    انگریزوں میں بھی دہلوی اور لکھنوی ہوتے ہیں
    وہ اس وقت بہت اچھے موڈ میں تھا۔ ورنہ عام طور سے بحث تو بڑی بات ہے، خوشامد تک کا موقع نہیں دیتا تھا۔ ہم نے یہ موقع غنیمت جانا اور روغن قاز کی پہلی بوند ٹپکائی، ’’یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اب میں ایک انگریز سے بینکنگ سیکھ رہا ہوں۔‘‘ انگریز کا نام زبان پر آتے ہی بارود خانے میں آگ لگ گئی۔ 

    ’’آآآ! (کسی بات کی زور شور سے تردید کرنی ہوتی تو انگشت شہادت اٹھا کر مد لگاتا چلا جاتا تھا۔) مجھے یہ تو معلوم ہے کہ اسکینڈل، اسٹاف کی غذائے روحانی ہے، لیکن میری ولدیت کے بارے میں یہ گمراہ کن اطلاع کس کتیا کے بچے نے دی؟ میں انگلش نہیں، اسکاٹ ہوں۔ اسکاٹ۔‘‘ انگریزوں کے لیے اس کے دل میں نفرت اور حقارت تھی جو صدیوں پرانی تھی۔ اس فہمائش کے دوسرے دن ہمارا ایک واجبی سا ڈرافٹ دیکھ کر غالباً اشک شوئی کی خاطر کہنے لگا، تم انگریزی خاصی لکھ لیتے ہو۔ اگر شگفتگی سے پرہیز کرو تو کہیں بہتر لکھ سکتے ہو۔ ہم نے جوابی تعریف کی کہ جناب بھی بہت عمدہ انگلش۔۔۔ لفظ انگلش ہمارے منہ سے ابھی ۳ /۱ ہی باہر نکلا تھا کہ کل کی برہمی یاد آ گئی۔ ازسرنو احتیاط سے جملہ گھڑا کہ جناب بھی بہت عمدہ اسکاچ لکھتے ہیں۔ 

    بارود خانہ پھر آگ پکڑ گیا۔ کہنے لگا، ’’آآآ! یہ اطلاع تمہیں کس باسٹرڈ انگریز نے دی۔ میں اسکاچ لکھتا نہیں۔ اسکاچ پیتا ہوں۔ دھڑلے سے لیکن انگلینڈ والوں کی طرح مجھے عورت کی پیاس نہیں لگتی۔ اور ہاں! رابرٹ برنس (اسکاٹ لینڈ کا ایک قدیم شاعر) سے بڑا شاعر انگلینڈ میں پیدا ہوا، نہ ہوگا۔ میں اسکاٹ لینڈ میں پھانسی پانے کو انگلینڈ میں طبعی موت مرنے پر ہزار بار ترجیح دوں گا۔ 

    اسکاچ پر یاد آیا کہ وہ کبھی گلاس میں برف نہیں ڈالتا تھا۔ کہتا تھا برف جگہ بہت گھیرتی ہے۔ اس کے بیرے بندو خاں سے روایت ہے کہ ’’میں نے صاحب کو کبھی نخالص پانی پیتے نہیں دیکھا۔ بولتا ہے لوکل پانی میں ڈسنٹری کے کیڑے ہوتے ہیں۔‘‘ انہیں وہسکی سے مار کے ان کی یخنی پیتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے بندو خاں سے پوچھا، صاحب کو کبھی پانی کی پیاس لگتی ہے؟ بولا، کیوں نہیں لگتی؟ کیا وہ انسان نہیں ہے؟ جب شراب کی طلب ہوتی ہے تو گلاس میں پہلے دو پیگ وہسکی انڈیلتا ہے، پھر پانی ڈالتا ہے۔ لیکن جب پانی کی پیاس لگتی ہے تو گلاس میں پہلے پانی انڈیلتا ہے، پھر دو پیگ وہسکی۔ 

    وہ ایک تحفہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
    کرسمس بڑے اہتمام سے مناتا تھا۔ بندوخاں کا بیان تھا کہ صاحب جولائی کی پہلی تاریخ سے وہسکی میں پانی ڈالنا بند کر دیتا ہے۔ کہتا ہے اب کرسمس آ رہا ہے۔ دسمبر کی ۱۹یا ۲۰ تاریخ سے دفتر آنا اور کھانا بند کر دیتا اور ۵، ۶ جنوری تک فلیٹ میں مدہوش پڑا رہتا۔ اس کے بعد کلینک میں بے ہوش۔ زیارت کنندگان وہاں بھی نذر نذرانے لے کر پہنچ جاتے تھے۔ کرسمس کے دن قمر کورٹ (جس میں اس کا فلیٹ تھا) کے پھاٹک پر ڈالیوں سے لدے ہوئے افسروں اور قرض داروں کا کیولگ جاتا۔ وہی پیندے کے بیچ میں کوہان والی ٹوکری (تاکہ تھوڑے سے پھل بھی زائد از گنجائش معلوم ہوں)۔ رنگین کاغذوں اور پنی کی کترنوں میں لپٹے ہوئے پانچ چھ قسم کے پھل اور ان کے نیچے حلال کی کمائی کے کشید کی ہوئی حرام شے کی بوتل۔ جس کا جتنا بڑا قرضہ ہوتا اتنا ہی بڑا وہسکی کا کریٹ۔ پتھر پوجے ہر (ہر، ہندی، خدا) ملے تو میں پوجوں پہاڑ۔ ایک سے زیادہ کریٹ کا مطلب ہوتا کہ رقم کب کی ڈوب چکی۔ اب اتنی ہی اور درکار ہے۔ ایک کرسمس پر ہماری بھی رگ اطاعت پھڑکی اور ہم ’’میری کرسمس‘‘ کہنے اس کے فلیٹ پہنچے۔ شاہ مراد کرتھیا تھیا نچن لگی شرماون کیا۔ 

    قمر ہاؤس کے کمپاؤنڈ میں بندو خاں بیرا چارپائی ڈالے پڑا تھا۔ ادوان پر پھلوں کا ایک ٹوکرا رکھا تھا اور پائے سے ایک دکھیاری سی ٹرکی بندھی ہوئی تھی۔ ہم نے اپنا نام اور غائت ملاقات بتائی تو کہنے لگا، ڈالی کہاں ہے؟ ہم نے کہا، ہم تو محض ملنے آئے ہیں۔ فرمایا، تو ایسے بولو کہ کرسمس پہ عید ملنے آئے ہو! وہ تو ایک ہفتے سے بستر پہ لمبا لیٹا ہے۔ سر میں سخت سر درد ہے۔ (گویا سرمیں درد گردہ بھی ہو سکتا ہے۔) چاء دانی سرہانے پڑی ہے۔ اور اس کی بھبکتی ٹی کوزی سر پہ اوڑھے، آنکھوں پہ انگیا  1پہنے پڑا ہے۔ تہوار کے دن صبح سے اپنے دادا کو یاد کر کر کے بھوں بھوں روئے چلا جا ریا ہے۔ یہ لو، اپنا نام لونڈے کی سلیٹ پہ لکھ جاؤ۔ اسی پہ دس روپے نقد رکھ دو۔ ڈالی اور بوتل اپن کا ذمہ۔ 

    ہمارے شکوک رفع کرنے یا ممکن ہے ’یرکانے‘2 کی غرض سے وہ ہمیں ایک کمرے میں لے گیا جہاں تیس چالیس ڈالیاں تلے اوپر، اور ڈیڑھ دوسو بوتلیں اپنی گردنوں میں وزٹنگ کارڈ لٹکائے پڑی تھیں۔ کہنےلگا، ان میں سے جون سی پسند ہو، بتادو۔ صاحب کو ہوش آتے ہی تمہارے نام سے پریزنٹ کردوں گا۔ چالیس روپے کا کام دس روپلی میں بن جائے گا۔ 

    ہم واپس آنے لگے تو بولا، چلو تین روپے میں سودا ختم کرو۔ تم بھی کیا یاد کروگے۔ منہ اندھیرے ایک کلرک بابو رنچھوڑ لائن سے پیر پیدل آیا تھا۔ دکھیا کی چار سال سے ترقی رکی ہوئی ہے۔ تین جوان پچھتی بیٹیاں چھاتی پہ بیٹھی ہیں۔ لطیفی کا سالا ان سے مسخری کرتا تھا۔ اس نے منع کیا۔ اس پہ لطیفی قصائی نے اس کی نرائن گنج بدلی کرا دی ہے۔ یہیں ادوان پہ بیٹھا سسکیوں سے رو رہا تھا۔ یہ ٹرکی دے گیا ہے۔ اب مری کہ اب چلی۔ میں اس کی ٹانگ میں تمہارے نام کی پرچی باندھ کر ’’ہیپی کرسمس!‘‘ کردوں گا۔ ہم نے کہا، ’’میاں! اس غریب کی سفارش کردو۔ بیٹیوں کی عزت آبرو کا سوال ہے۔‘‘ بولا، ’’اصل سوال تو جورو کے بھائی کا ہے۔ لونڈا ہی تو ہے۔ وہ جو پرانی کہاوت ہے نا کہ جس گھر میں بیری اور جوان بیٹی ہو، اس میں پتھر آویں ہی آویں۔ پر اب تو قربِ قیامت کا زمانہ آن لگا ہے۔ پتھر سے پہلے خود لونڈے گھس آویں ہیں!‘‘ 

    ہم نے تحفے تحائف کی ’’کرسمس کلیرنس سیل‘‘ کا ذکر خان سیف الملوک خاں سے کیا تو انہوں نے ہماری لاعلمی پر غم و غصہ کا اظہار کیا۔ کہنے لگے کہ تحفے طوائف دینے کا دستور تو بگڑے ہوئے رئیسوں کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ وہ کون سا نواب تھا جس نے اپنے بیٹے کو سولہویں سالگرہ پر تحفے میں لونڈی دی تھی؟ اور یہ تو بینک کے منیجر سے لے کر مہتر تک سب کو معلوم تھا کہ تحفے کیسے ٹھکانے لگائے جاتے ہیں۔ اینڈرسن کو اس کا ہوش کہاں کہ کون کیا دے گیا۔ ہر سال کرسمس پر ڈیڑھ دو سو بوتلیں آ جاتی ہیں۔ ان کو یہ بیرا تین برابر کی ڈھیریوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک تہائی بازار میں اونے پونے بیچ آتا ہے۔ دوسری ڈھیری خود پی جاتا ہے۔ بقیہ۳ /۱ کا یہ کرتا ہے کہ جب اینڈرسن بازار سے وہسکی منگواتا ہے تو اسی اسٹاک میں سے قیمتاً سپلائی کرتا رہتا ہے۔ 

    بندو خاں کی زبانی
    بندو خاں نے ہی ایک دن بتایا کہ موصوف پہلے تو صرف شب کو اپنا گنجینۂ گوہر کھولا کرتے تھے، لیکن اب صبح دم ہی دروازہ خاور کھول کے بیٹھ جاتے ہیں۔ کہنے لگا کہ اب تو بوتل سے منہ لگا کے نخالص پیتا ہے۔ نہ سوڈے کا ٹنٹانہ گجک کا بکھیڑا۔ پر کتنا ہی نشے میں کیوں نہ ہو، کسی کی تنخواہ نہیں بڑھاتا۔ صفائی بڑے صاحب کا جزو ایمان ہے۔ ہماری تمہاری طرح ہر جگہ بلغم تھوکتا نہیں پھرتا۔ کھانسی آتی ہے تو رومال میں تھوک کر جیب میں رکھ لیتا ہے۔ پہلے تو دن میں دو دفعہ باتھ لیتا تھا۔ لیکن ایک شام نہاتے نہاتے ٹب میں سوگیا۔ اپن تو انگریز کی پرائیوٹ لائف میں دخل نہیں دیتے۔ صبح آنکھ کھلی تو مجھے آرڈر دیا کہ ہمارا ڈنر لگانا مانگٹا۔ اب ڈاکٹر بٹر فیلڈ نے بھرے ٹب میں سونے کی ممانعت کردی ہے۔ پٹرے پر کھڑے ہوکر ہماری تمہاری طرح غسل کرتا ہے۔ میں نے تام چینی کا مگ لاکر دے دیا ہے۔ اسی میں بیئر پیتا ہے۔ میں تو اب اسی میں انڈا ابال کے اسی کےآب جوش سے شیو کرواتا ہوں۔ اسی میں بیڈ ٹی پیوے ہے۔ اسی سے نہاوے ہے۔ جیسی روح ویسا غسل میت۔ اپن تو انگریز کی پرائیویٹ لائف میں دخل نہیں دیتے۔ 

    پھر کتے کے سرپہ ہاتھ رکھ کے حلفیہ بیان کیا، ٹونی کی قسم! بڑاصاحب نشے میں اتا دھت ہو رہا ہے کہ اس ٹیم تو مرغی اور مور میں بھی فرق نہیں کر سکنے کا۔ البتہ خود حرامی مور ہی دم اٹھا کے ناچنا شروع کردے تو یہ اس کا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ اتی پینے لگا ہے کہ کھانے کو حرام سمجھے ہے۔ کلفٹن کے سارے مچھروں نے دور دور سے مہاجرت کر کے صاب کی مچھردانی میں پیر الہی بخش کالونی بنا لی ہے۔ کس واسطے کہ وِن کو بھی شرابی خون کی لت پڑ گئی ہے۔ بعضے سیکتڑ، نئے نئے خون پینے والے مچھر تو کاٹتے ہی بے سدھ ہو کے وہیں پٹ سے گر پڑیں ہیں۔ سویرے گل مسیح مہتر جھاڑو سے سمیٹ کر گٹر میں پھینک دیوے ہے۔ شرابیوں کا یہی روز حشر ہووے ہے۔ بڑا صاب اور ٹونی ایک ہی کمبل تلے رین بسیرا کریں ہیں۔ 

    کیا بتاؤں، بڑا ہی محبتی کتا ہے۔ رات بھر صاحب کے گلے میں ٹانگ ڈال کے سووے ہے۔ پر اب وہ حرامی پلا بھی دارو پینے لگ گیا ہے! ہم نے پوچھا، تم نے اپنی آنکھ سے ٹونی کو شراب پیتے دیکھا؟ بولا، نہیں۔ مسلمانوں کی طرح چھپ کے پیوے ہے! ذرا زیادہ چڑھ جائے تو دو ٹانگوں پہ کھڑا ہو کے صاحب لوگوں کی طرح ناچنے لگے ہے۔ کبھی کبھی مست ہوکے کلفٹن کی طرف نکل پڑے ہے۔ وہاں ایک اونٹنی سے فرینڈلی ہوجاوے ہے۔ ہم نے پوچھا، تمہیں کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ کتا اس وقت پئے ہوئے ہے۔ بولا میں اسے روز شام کو دوسری کوٹھیوں کے سامنے ٹائلٹ کرانے لے جاتا ہوں۔ ادھر کے کتے اِدھر استنجے کو آویں ہیں۔ جس دن ٹونی پئے ہوئے ہو تو حضرت پیر گلمبر شاہ کی درگاہ کی طرف ہرگز نہیں جاتا۔ چاہے کاٹ ڈالو۔ 

    اکلوتے بیٹے کا استقبال
    ہمیں اپنے دن مقررہ بارہ برس سے پہلے ہی پھرتے نظر آئے۔ دوسال گزرے ہوں گے کہ ہم اس کے مقرب خاص سمجھے جانے لگے، جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم وہ معزز موم کے پتلے تھے جسے آتش دان کے سامنے قریب ترین کرسی پر جگہ دی گئی تھی۔ حاکم کے قرب و کربِ حضوری میں مبتلا تھے۔ لیکن جن دیواروں سے ہمارا سر ٹکرایا وہ موم کی بنی ہوئی نہ تھیں۔ ہم اس کے مصاحب، مشیر اور مطعونِ اعلیٰ کی حیثیت سے اپنی خواری اور حاسدوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کر رہے تھے، لیکن اس کے عادات و اطوار سے پوری طرح واقف نہ ہوئے تھے۔ چار بجا چاہتے تھے۔ وہ گیارہ بجے کا نکلا اب دفتر لوٹا تھا۔ ہم کسی کام سے اندر گئے تو دیکھا کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ ناک رواں تر۔ نچلا ہونٹ لٹکا ہوا۔ آواز اور ہاتھ میں رعشہ۔ کہنے لگا، معاف کرنا، میں ذرا جذباتی ہو رہا ہوں۔ میرا اکلوتا بیٹا دس سال بعد آج رات B.O.A.C. سے ہانگ کانگ سے آ رہا ہے۔ بہیترا منع کیا ہوائی جہاز سے نہ آؤ۔ مگر آج کل کے سر پھرے نوجوان کسی کی سنتے ہیں؟ 

    ہم نے باہر آکر ڈھنڈورا پیٹ دیا۔ بینک کے جتنے بڑے افسر تھے، اور وہ بھی جنہیں بڑے ہونے سے روک رکھا تھا، سب نے ایئرپورٹ جانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ جہاز رات کے ڈھائی بجے آرہا تھا۔ لوگ گوٹے اور پھولوں کے ہاروں سے لدے پھندے۔۔۔ کوئی ٹیکسی میں، کوئی کسی کے ساتھ لد کر، او رکوئی مانگے تانگے کی کار میں۔۔۔ بارہ بجے ہی ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ ہمارے پاس نہ ٹیکسی کا کرایہ تھا، نہ کسی اللہ کے بندے نے ہمیں لفٹ دینا گوارا کیا۔ لہٰذا گھر پر ہی پڑے سناتے رہے۔ 

    صبح دفتر پہنچے۔ سب غائب۔ نو بج کر دس منٹ پر رجسٹر میں سب کی غیرحاضری لگا کر غیرحاضرین کی طویل فہرست ہم نے حسب معمول اینڈرسن کے پاس بھیج دی اور اس نے اسی وقت اس ریمارک کے ساتھ لوٹا دی کہ اتنے منظم طریقے سے غیر حاضر ہونے پر ان سب سے تحریری جواب طلب کیا جائے۔ ساڑھے دس بجے یہ حضرات دفتر پہنچے۔ جسے دیکھو بپھرا ہوا۔ غیظ میں آنکھیں لہو کے جام۔ جہاز ڈھائی بجے رات کے بجائے صبح نو بجے پہنچا۔ ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ کراچی اترنے والے مسافروں میں کوئی ایسا نہ نکلا جو خود کو اینڈرسن کا بیٹا تسلیم کرنے پر آمادہ ہو۔ ایک ایک سے پوچھ دیکھا۔ ایک سرپھرے سے تو استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ یعسوب الحسن غوری کی مار کٹائی ہوتے ہوتے رہ گئی، 

    ’’آپ کا کیا نام ہے؟‘‘ یعسوب الحسن غوری نے اس کی آستین پکڑ کر پوچھا۔ 

    ’’ہنری ہالنگ ورتھ۔‘‘ 

    ’’کیا مسٹر اینڈرسن آپ کے والد ہیں؟‘‘ 

    سب نے ہمیں نرغے میں لے لیا۔ کسی نے ناشتہ نہیں کیا تھا۔ گال بھی سینڈ پیپر ہو رہے تھے۔ ایئرپورٹ سے سیدھے بینک آکر نہار منھ ہم پر غصے ہونے لگے۔ کوئی ٹیکسی کا کرایہ مانگنے لگا اور کوئی رات بھر کی جگار کا تاوان۔ یعسوب الحسن غوری نے تو قیمت بتا کے گلابوں کا ہار ہمارے گلے میں ڈال دیا حالانکہ ہمیں موتیا پسند ہے۔ یورش نے شدت اختیار کی تو ہم اینڈرسن کے پاس گئے اور جی کڑا کر کے پوچھا، 

    ’’سر! رات آپ کے صاحب زادے تشریف نہیں لائے۔‘‘ 

    ’’کس کے صاحب زادے؟‘‘ اس نے کان پر ہاتھ کا کپ بناکر سوال سمجھنے کی کوشش کی۔ 

    ’’آپ کے۔ جو ہانگ کانگ سے B.O.A.C. سے آنے والے تھے۔‘‘ 

    ’’آآآ! کیا تم پئے ہوئے ہو؟ میں آج پہلی مرتبہ یہ خوش خبری سن رہا ہوں کہ میرا کوئی بیٹا بھی ہے! تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ And Hongkong of all the places! یہ بھی نہ سوچا کہ جو ہوائی جہاز سے سفر کرے وہ کم از کم میرا نطفہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ 

    بات کہاں سے یہاں تک آپہنچی تو ہم نے بھی ہوائی جہاز کی مذمت اور ریل کے سفر کی تعریف کی، جو کچھ ایسی غلط بھی نہ تھی، اس لیے کہ گاڑھا گاڑھا دھواں اور چنگاریاں چھوڑتے ہوئے انجنوں کی سریلی سیٹی میں ہنوز بچپن کی یادوں کی مٹھاس گھلی ہوئی ہے۔ ابھی نکٹے ڈیزل انجنوں کے گلے نہیں بیٹھے تھے۔ اس روز ہم پر منکشف ہوا کہ ’الکحالک‘ کی اپنی ایک الگ MAKE-BELIEVE (خیالی) دنیا ہوتی ہے۔ بعضوں کی قسمت میں وہاں بھی رونا دھونا لکھا ہے۔ 

    فری میسنری کی ایک جھلک
    وہ پہنچا ہوا فری میسن تھا اور اسکا ٹش لاج اور گرینڈ لاج کے اعلیٰ ترین عہدوں پر مثلاً ڈسٹرکٹ گرینڈ ماسٹر پر فائز رہ چکا تھا۔ ایک دن بلا کر کہنے لگا، ’’کل اتوار ہے۔ بینک ہاؤس آکر ذرا ’لاج‘ کے اکاؤنٹ چیک کر لو۔ ایک غبن ہو گیا ہے۔ حیدری پھر رخصت پر ہے۔ اس سے بھی نمٹ لوں گا۔ ورنہ تمہیں زحمت نہ دیتا۔‘‘ کیسی زحمت۔ کہاں کی زحمت۔ یہاں تو خود ایک مدت سے یہ جاننے کے آرزومند تھے کہ جادوگھر میں آخر فری میسن کرتے کیا ہیں۔ طرح طرح کی باتیں ان کے بارے میں مشہور تھیں۔ مثلاً یہی کہ کام جائز نہ ہو تب بھی ایک دوسرے کی اخلاقی مدد کرتے ہیں۔ مسٹر بہرام جی نے جو خود بڑے پائے کے فری میسن تھے، ہمیں یہاں تک لالچ دیا کہ لندن میں ہمارا اپنا اسپتال ہے جہاں فری میسنوں کے پتے اور گردے مفت نکالے جاتے ہیں۔ ربڑ کے مصنوعی ہاتھ جتنے چاہو مفت لگوا لو۔ 

    یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ فری میسن سے مصافحہ کریں تو کسی مخصوص انگلی کے کوہان (KNUCKLE) کو انگوٹھے سے اس طرح دباتے ہیں کہ مصافحہ کنندہ کو فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ اپنی ہی برادری کا آدمی ہے۔ ایک صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جس رات ’’ماسٹر‘‘ کی تیسری ڈگری دی جاتی ہے تو سب فری میسن برادران قمیصیں اتارے ہیکل سلیمانی کے سامنے ہرن کی کھال باندھ کر ایک سفید چادر کے گرد ناچتے ہیں جس پر ایک انسانی کھوپڑی اور اس پر ایک موم بتی رکھی ہوتی ہے۔ پتلون کا صرف ایک پائنچہ ہوتا ہے، دوسرا جڑ سے غائب۔ لاج کے دروازے پر ایک گارڈ یہی حلیہ بنائے ننگی تلوار کھینچے پہرہ دیتا ہے۔ حالانکہ ایسے شمشیر برہنہ حلیے کے بعد ننگی تلوار کا کلف بالکل غیرضروری ہو جاتا ہے۔ 

    کوئی فری میسن مر جائے تو، بقول مرزا، ’’مردے کی مشہوری کے لیے‘‘ تعزیتی جلسہ ہوتا ہے جس میں ایک مصنوعی تابوت بنا کر لاج میں رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر برادری کا سرپنچ جملہ برادران کے نام پکارتا ہے اور وہ باری باری ’’حاضر، برادر مکرم! حاضر برادر معظم!‘‘ کہتے ہیں۔ مرحوم کا نام تین دفعہ پکارنےکے باوجود کوئی جواب نہیں آتا تو ہِز وَرشپ فل ماسٹر میت کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ ’’برادرعزیز! معلوم ہوتا ہے تم وفات پا گئے۔‘‘ اب اگر کوئی شکی مزاج آدمی میت کی نبض دیکھے تو پھر بھی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اپنے وہم کا علاج کر رہا ہے، لیکن مصنوعی میت سے سوال جواب تو منکر نکیر بھی نہیں کرتے۔ پھر پسماندگان ایک دوسرے کو دلاسا دیتے ہیں۔ کسی نے یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی شخص فری میسنری کی رسوم و عوائد کا بھید کھول دے تو اس کی زبان گدی سے کھینچ کر چیل کوؤں کو کھلا دی جاتی ہے۔ یہ بات بھی سمجھ میں نہ آئی۔ اس لیے کہ اگر راز کی پوری پوری حفاظت کرنی منظور ہے تو افشا کرنے سے پہلے سب کی زبان کاٹ دینی چاہیے نہ کہ بعد میں۔ 

    اب ہر امیدوار کرم، فری میسنوں سے ربط ضبط بڑھانے کی تگڑم لڑانے لگا۔ جسے دیکھو مصافحہ کے وقت بڑے آدمیوں کا ہاتھ اس طرح دبا رہاہے جیسے اردو فلموں میں ہیرو، ہیروئن کا دباتا ہے۔ جب سے یہ سنا کہ ایک فری میسن دوسرے فری میسن کو کبھی ڈسمس نہیں کرتا، یہ کیفیت ہو گئی کہ جو فی الحال بے ایمان نہ تھے وہ بھی بر بنائے دور اندیشی فری میسن بننے کی ترکیبیں سوچنے لگے۔ ادھر داخلہ محدود و مشروط۔ ایک بدنام کیشئیر البتہ ہرن کی کھال سے ستر اور کیش کی کمی کی پردہ پوشی کر چکا تھا۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہی ریت چلی آئی ہے کہ جو مشرب حاکم کا، سو اپنا۔ بلکہ بعضوں نے تو جوش عقیدت میں مشروب تک اپنا لیا۔ 

    تزک جہانگیری میں آیا ہے کہ اجمیر شریف میں غسل صحت کے بعد جہانگیر نے از راہِ عقیدت اپنے کانوں میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کے نام پر موتیوں کے حلقے ڈال لیے۔ یہ دیکھ کر تمام اراکین سلطنت، اعیان دربار اور نمک خوارانِ قدیم نے اپنے کان چھدوا لیے۔ (واضح رہے، کان چھدوا لیے، غسل پھر بھی نہیں کیا۔ ورنہ جہانگیر اس باب میں یوں خاموشی اختیار نہ کرتا۔) اسی طرح ایک دفعہ کا ذکر ہے، اکبر پاک پتن شریف کے نواح میں شکار کھیل رہا تھا کہ یکایک ایک درخت کے نیچے اس پر جذبے کا عالم طاری ہوا۔ شکار سےتائب ہوا اور اسی درخت کے نیچے، دربارِ اکبری کے الفاظ میں، بادشاہ نے، ’’وہیں بیٹھ کر سر کے بال منڈوائے اور جو مصاحب بہت مقرب تھے، خوشامد کے استرے سے خود بخود منڈ گئے۔‘‘ 

    کوئل نے ہاف بائلڈ انڈا دیا
    فری میسن لاج کے اکاؤنٹ کے سلسلہ میں تین چار دفعہ اس کے فلیٹ جانا پڑا تو اس کی شخصیت کے وہ پہلو سامنے آئے جن سے صرف گھر کے ملازم، جانی دشمن اور بیوی واقف ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک اتوار کو بندو خاں نے بتایا کہ کل ساری رات قدِآدم آئینے کے سامنے کھڑا اپنے جانی دشمن مسٹر لطیفی کو گالیاں دیتا رہا۔ ڈانٹتے ڈانٹتے آواز بیٹھ گئی تو آئینے پر مس ریمزڈن3 کی لپ اسٹک سے مسٹر لطیفی کی تصویر بنائی۔ پھر گاف کے ڈنڈے اور گیند سے اس پر چاند ماری کرنے لگا۔ کھڑکی دروازوں کے سارے شیشے اور کراکری ٹوٹ گئی۔ سفید بلی کے سر پر بھی ڈنڈے سے ہٹ لگائی۔ پھر گیند ہاتھ میں لے کر اسے (گیند کو) ڈانٹنے لگا کہ حرامجادی اب میاؤں میاؤں بھی کرنے لگی۔ ٹونی یہ توڑ پھوڑ دیکھ کر بھونکے چلا جا رہا تھا۔ آخر کو ایک ہٹ ایسی لگائی کہ گیند سیدھی حلق کے ’ہول‘ میں گھس گئی۔ گیند کے سوا کوئی چیز سالم نہیں بچی۔ 

    صبح چار بجے مسٹر لطیفی کو روشن دان سے باہر پھینک کر ڈسمس کیا، تب کہیں چین سے سویا۔ ہم نے پوچھا بندوخاں! تم تو انگریزی نہیں جانتے۔ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اس نے مسٹر لطیفی کو ڈسمس کر دیا۔ کہنے لگا صبح چار بجے گھنٹی بجاکر اس نے مجھے سرونٹ کواٹر سے بلایا۔ میں جانگیہ پہنے سو رہا تھا۔ بھاگم بھاگ اس کا پرانا ڈریسنگ گاؤن پہن کر آیا تو اسے صرف کالی بو پہنے، ٹوٹے آئینے کے سامنے کھڑا دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہوگیا۔ بولا، بندوخاں! ذراچیک کرو۔ ککو کلاک میں سے یہ کوئل بار بار کیوں نکل پڑ رہی ہے۔ کیا ہاف بائلڈ انڈا دینا مانگٹی ہے؟ اچھا! اب تم ہم کو یہ بینک کی چابیاں دے کر ایک دم چارج ہینڈ اوور کرو۔ میں نے چابیاں اٹھا کر پکڑا دیں تو جانتے ہو کیا کہنے لگا؟ بولا، ’’مسٹر لطیفی! یو آر فائرڈ!‘‘ 

    ہم نے پوچھا، تمہیں فائرڈ کا مطلب بھی معلوم ہے؟ بولا، بابو جی! ہم نے کبھی کسی چپٹر قناتئے کالے صاحب کی غلامی نہیں کی۔ ساری عمر انگریزوں کی چاکری کی ہے۔ درجنوں سونے کے تمغے ملے۔ میں نے ان سب کو کلابتوں میں پرو کے ان کا ہار مس فرنینڈز کی ہیپی برتھ ڈے پر پریزنٹ کردیا۔ پونہ میں ایک انگریز کرنل کی گورنس تھی۔ ایک سے ایک رس بھری ہوا کرے تھی ان دنوں۔ آج کل کی چھوکریاں تو ان کے سامنے چسے ہوئے آم لگیں ہیں۔ ہم نے آج تلک مالک کی گالی کا جواب اور سودے کا حساب نہیں دیا۔ پر ہم ایک دم وفادار، نمک حلال آدمی ہے۔ ہماری آنکھ میں لحاظ ہے۔ بندہ کبھی چور اچکوں کی طرح استعفی دے کر خود نہیں بھاگا۔ ہمیشہ عزت کے ساتھ فائر ہوا۔ 

    ہم نے پوچھا، ’’پھر پانچ سال سے یہاں بے عزتی کی روٹی کیوں کھا رہے ہو؟‘‘ 

    ’’پونے پانچ سال سے کہو۔‘‘ 

    ’’مگر آخر کیوں؟‘‘ 

    ’’بابو جی! مالک تو درجنوں کے حساب سے ٹانگ کے نیچے سے نکال دیے۔ پر ایسا جنٹلمین آدمی نہیں دیکھا۔ جو دل میں وہی زبان پر۔ سڑی سڑی گالی دیتا ہے پر دل میں کھوٹ کپٹ نہیں رکھتا۔ پیسہ ایک نہیں بچاتا۔ کبھی کسی میم سے بات نہیں کرتا۔ سبزی کے ہاتھ نہیں لگاتا۔ ہفتے میں ایک روز عبادت۔ حساب اور کسرت کبھی نہیں کرتا۔ خدئی قسم! ساری حرکتیں مسلمانوں کی سی ہیں۔‘‘ 

    ’’پھرمسلمان کیوں نہیں ہو جاتا؟‘‘ 

    ’’میں تو جانوں نائی کے استرے سے ڈرے ہے۔‘‘ 

    ایڈوائزر کے فرائض
    ایک دن صبح نو بجے ہی طلب کرلیا۔ فرمایا، ’’تمہاری عینک کا نمبر صحیح ہے؟‘‘ ہم نے اثبات میں اوپر نیچے سر ہلایا۔ استفسار فرمایا، ’’کیا میں ہاتھی سے کوئی مشابہت رکھتا ہوں؟ BE FRANK‘‘ ہم نہ صرف نفی میں دیر تک دائیں بائیں سر جھلایا کیے بلکہ ’’بی فرینک!‘‘ کے اتباع و تعمیل میں مزید زور پیدا کرنے کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کی ناک تو بلکہ کچھ زیادہ ہی چھوٹی ہے۔ ارے صاحب وہ تو بگڑ گیا۔ گویا شیمپین کی بوتل کا کاگ اڑنا تھا کہ منہ سے جھاگ ہی جھاگ نکلنے لگے، ’’LOOK HERE میں اپنی ناک کے بارے میں اپنے ماتحتوں کے سرٹیفکیٹ کا محتاج نہیں۔‘‘ 

    ہم گردن جھکائے چپ چاپ باہر آگئے۔ اسے ہماری دل شکنی کا احساس ہوا ہوگا۔ جبھی تو دس منٹ بعد پھر بلایا اور خلاف معمول سامنے بٹھا کر اپنے مخصوص انداز میں اپنے بے بس ماتحت کو منانے کی کوشش کی، ’’سنو! بینک آف انگلینڈ کا گورنر، لارڈ نارمن، چوبیس سال تک سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ نخوت، خودسری اور خودرائی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ کاروباری لین دین کے فیصلے بھی الہامی انداز میں کرنے کا عادی تھا۔ بے سوچے سمجھے۔ ۱۹۳۵ کے لگ بھگ جب اس نے ماہر اقتصادیات پروفیسر کلے کو ایڈوائزر مقرر کیا تو ساتھ ہی ہدایت کی، تمہارا کام ہرگز یہ بتانا نہیں کہ مجھے کیا فیصلہ کرنا چاہیے۔ تمہارا کام تو مجھے یہ بتاتا ہے کہ میں نے فلاں فیصلہ کیوں کیا۔‘‘ 

    اس نے دس منٹ پہلے لوٹی ہوئی ’’پت‘‘ لوٹا دی۔ اور ہمیں زیر لب مسکراتے دیکھ کر کہنے لگا، ’’میں تمہیں کسی طرف سے ہاتھی لگتا ہوں؟ دیکھو اس ہفتہ وار چیتھڑے میں لطیفی نے میرے خلاف کیسا گندہ آرٹیکل چھپوایا ہے۔ لکھا ہے کہ میں روز ایک بوتل زرمبادلہ پی جاتا ہوں۔ سرخی جمائی ہے کہ میں بینک میں سفید ہاتھیوں کا سرغنہ ہوں! میں سفید بے شک ہوں، مگر قدرت نے مجھے سونڈ نہیں بخشی کہ اس میں لپیٹ کر لطیفی کو زمین پر پٹخنیاں دوں۔ ’گنگا دین‘ میں رڈ یارڈ کپلنگ نے کیا کہا تھا؟ 

    ‘An for all ‘is dirty ‘ide
    ‘E was white, clear white, inside.

    دوتین اشتہار دے دوں تو سفید ہاتھی کالا ہو جائے گا، اور اس میں یہ بھی بہتان لگایا ہے کہ میری تنخواہ ۲۷۰۰ ہے۔ تمہیں خود معلوم ہے کہ میری تنخواہ ۲۶۰۰ ہے۔‘‘ 

    ہم ہاں میں ہاں ملاکے چلنے لگے تو خوش دلی سے پوچھا، ’’اور ہاں! اپنی ناک کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ 

    ’’سر! سندھی میں ایک کہاوت ہے کہ بھینس کو اپنی کالک نظر نہیں آتی۔‘‘ 

    وہ عام انگریزوں کی طرح نہیں تھا، جو انصاف، برٹش آرمی اور M.C.C کی فتح پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک ہفتے کے باسی لندن کے اخبارات میں پاکستان کی خبریں پڑھتے ہیں اور رات کو بی بی سی سے کل کے موسم کی پیش گوئی اور بگ بین کی لوری سن کر سو جاتے ہیں۔ ویک اینڈ پر ہماری طرح فقط ہاکس بے کی سنہری ریت اور سمندری غسل پر قناعت نہیں کرتے، 

    تو برائے وصل کردن آمدی
    نے برائے غسل کردن آمدی

    عام انگریز اتوار کو صبح دس بجے تک بستر پر اینڈتے رہتے ہیں۔ پھر نیکر پہن کر بیئر پیتے ہیں۔ جو ذرا کاہل ہیں وہ بیئر پی کر نیکر پہنتے ہیں۔ اس کے بعد ڈیڑھ دو گھنٹے دھوپ میں گھاس کے اس بالشت بھر قطعہ میں انگلیوں سے کنگھی کرتے رہتے ہیں جسے وہ اپنا گارڈن کہتے ہیں۔ اینڈرسن واحد انگریز، معاف کیجیے اسکاٹس مین تھا جو اتوار کی صبح نہ ہاکس بے جاتا، نہ دس بجے تک بستر پر پڑا اینڈتا رہتا، نہ نیکر پہنتا، نہ دھوپ میں بیٹھ کر گھاس کو گھورتا۔ بس بیئر پیتا تھا۔ 

    سر کا خطاب
    پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ وقتاً فوقتاً تاکید کرنے لگا کہ اخبار غور سے پڑھا کرو۔ ’’ون فائن مارننگ تم ملکہ کی برتھ ڈے آنرزلسٹ میں اپنے جنرل منیجر کا نام دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماؤگے۔ ابھی تو تم مجھے صرف ’’سر!‘‘ پر ٹرخا دیتے ہو۔ چند روز بعد سر ولیم کہنا پڑے گا۔ سر ولیم! سر ولیم! کہتے ہوئے تم کتنے سویٹ لگوگے۔ اس دفعہ تمہارے باس کو نائٹ کا خطاب مل رہا ہے۔‘‘ اسی ہفتے جب اس نے یہ مژدہ تیسری دفعہ سنایا تو ہم نے پیشگی مبارک باد دی جس کا اس نے صمیم قلب سے شکریہ ادا کیا اور ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ وعدہ بھی کیا کہ جولائی میں لندن کا پھیرا ہوا تو ہر میجسٹی سے سفارش کروں گا کہ تمہیں بھی کوئی چھوٹا موٹا خطاب دے دیں۔ آخر تم کب تک مسٹر پر گزارہ کروگے۔ 

    دوتین مہینے بعد خطابات کی فہرست اخبار میں چھپی تو سب نے اول تا آخر اور پھر نیچے سے اوپر تک کھنگال ڈالی۔ اسم گرامی کہیں نظر نہ آیا۔ یہی نہیں، اس سال کسی ایسے شخص کو خطاب ہی نہ ملا جس کا نام ڈبلو یا اے سے شروع ہوتا ہو! شام کو اس نے کسی کام سے بلایا تو ہماری پھوہڑ کمان سے تیر نکل گیا، ’’لگتا ہے ڈان کی فہرست میں آپ کا نام سہواً رہ گیا۔‘‘ عینک کو ناک کی پھننگ پر رکھ کر فرمایا، ’’ایک ہفتے پہلے برطانیہ کے ہائی کمشنر نے میری رضامندی چاہی تھی، لیکن میں نے سر کا خطاب لینے سے صاف انکار کردیا۔ آآآ! میں نہیں چاہتا کہ وہ کتیا (اپنی نصف بہتر کی طرف اشارہ) لیڈی اینڈرسن کہلائے۔ لیڈی اینڈرسن؟ مائی فٹ! جب تک میں زندہ ہوں اسے یہ عزت نصیب نہیں ہوسکتی۔ 

    ایسی دو تین فہرستوں کا دیدہ ریزی سے مطالعہ کرنےکے بعد کھلا کہ سر کا خطاب بھی اس کی ایک دل پسند فینٹسی (FANTASY) ہے۔ کبھی کبھی اس پر ڈکنس کے پک وک پیپرز کے ہیرو کا گمان ہوتا۔ ہمیشہ ناکام و نامراد، پر سدا پرامید اور پیار کے قابل۔ آرزو کے اس چمن میں خزاں کا گزر کہاں، اس لیے کہ اس کی آبیاری تو وہسکی سے ہوتی تھی۔ بر اعظم ایشیا میں غالباً وہ واحد انگریز تھا جسے ۳۵ سال بینکنگ کے پیشے سے وابستہ رہنے کے باوجود کوئی خطاب نہ ملا۔ ورنہ پانچ چھ سال لال مرچ کھانے کے بعد تو ہر انگریز کو کوئی نہ کوئی خطاب ضرور مل جاتا تھا۔ خواہ اس کے کارہائے نمایاں اس سے آگے نہ بڑھے ہوں کہ پچھلے سیزن میں اس نے سب سے زیادہ مرغابیاں ماریں، یا کم سے کم ضربوں میں زیادہ سے زیادہ سوراخوں میں گیند کو داخل کرکے ڈسٹرکٹ گاف ٹورنامنٹ جیتا جس کا غلغلہ وہائٹ ہال تک پہنچا۔ 

    چھوٹی ناک اور طلاق
    ایک ضروری کام کے سلسلے میں ہم نیشنل بینک آف انڈیا کے منیجر مسٹر میکائی سے ملنے گئے تو باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ کرکٹ پر میرے پاس مختلف زبانوں میں ۴۵۰۰ کتابیں ہیں اور اس موضوع پر میرے ذاتی کتب خانے کا دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔ ستائیس سال میں دس بارہ تبادلے مختلف ملکوں میں ہو چکے ہیں۔ کتب خانہ بدوش پھرتا ہوں۔ کرکٹ آج تک نہیں کھیلی۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ جس کھیل سے ہمیں ہمیشہ چڑ رہی اس پر اس اللہ کے بندے نے اتنی بہت سی کتابیں اور ایسی ایسی جناتی زبانوں میں جنہیں وہ خود بھی کبھی نہ پڑھ سکے گا، نہ جانے کتنے جتن سے ہمیں جلانے کے لیے جمع کی ہیں۔ ذرا چل کر گنج ہائے فرومایہ کو دیکھنا تو چاہیے۔ ہم نے اشتیاق ظاہر کیا تو کہنے لگا اتوار کی صبح گھر آجاؤ۔ مگر یاد رہے، کتاب خوبصورت بیوی کی طرح ہوتی ہے۔ دور سے کھڑے کھڑے دیکھ کر داد دینے کے لیے۔ بغل میں دبا کر لے جانے کے لیے نہیں۔ 

    مسٹر میکائی کو کچھ دن پہلے C.B.E کا خطاب ملا تھا۔ ہم نے مبارک باد دی اور ساتھ ہی اینڈرسن کے خطاب قبول نہ کرنے کا تذکرہ کیا تو اس نے زوردار قہقہہ لگایا۔ کہنے لگا، اینڈرسن نے عرصہ دراز تک چارٹرڈبینک میں ملازمت کی۔ سوئز کے اس پار اس سے زیادہ قابل اور الکحالک بینکر ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔ لیکن چارٹرڈ بینک ان دونوں صفات کو ایک ہی ذات میں مجتمع دیکھنے کی تاب نہ لاسکا۔ ایک پارٹی میں اپنے باس کی نئی نویلی دلہن کی گود میں، لغزیدہ لغزیدہ قدموں سے جاکر بیٹھ گیا اور اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک کہ جائے واردات پر ہی ڈسمس نہ کردیا گیا۔ اینڈرسن ایسا ویسا ’امیچور‘ شرابی نہیں۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں۔ 

    مسٹر میکائی نے یہ بھی بتایا کہ برما میں لڑائی کے دوران اپنی بیوی کو رنگون میں سوتا چھوڑ کر، میدان جنگ سے میرے ساتھ دوش بدوش کلکتے بھاگا تھا۔ اب اس خاتون نے گلاسگو میں طلاق کا مقدمہ دائر کردیا ہے جس میں تنسیخ نکاح کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ اب میرا اور اس کا نباہ نہیں ہو سکتا۔ سوتے میں نکاح شکن خراٹے لے کر میرے ذاتی خوابوں میں غلط SOUND EFFECTS (صوتی اثرات) دیتا ہے۔ عادتیں بھی گندی ہیں۔ مثلاً بیس برس سے ٹوتھ برش چھوا تک نہیں۔ چھوٹی سی ناک کو انگلی سے کریدتا رہتا ہے۔ مزید بر آں کثرت مے نوشی کے سبب مدعاعلیہ وظیفہ زوجیت کی بجاآوری سےعرصہ دس سال سے معذور، نیز مفرور ہے۔ 

    مسٹر میکائی بڑے حاضر جواب، بذلہ سنج انسان تھے۔ تقریبوں میں بڑی چاہت سے بلائے جاتے تھے۔ ہزاروں لطیفے یاد تھے۔ خود ہی کھلے تو کھلتے چلے گئے۔ فرمایا کہ ہنی مون کے دوران ہی طلاق پر گفت و شنید شروع ہو گئی تھی۔ بیس سال سے نکاح اور طلاق کی سرحدوں پر جنس بندی لائن کی خلاف ورزیاں کرتا رہا ہے۔ اپنے جواب دعویٰ میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مدعا علیہ بسلسلہ روزگار کراچی میں سکونت پذیر ہے۔ وظیفہ زوجیت کی ادائیگی میں دو عظیم بر اعظم حائل ہیں جن کے وجود کا علم غالباً ملکہ معظمہ کی فاضل عدالت کو بھی ہوگا۔ 

    ہے خبر گرم ان کے جانے کی
    شاعر نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ’وقت میں بات یہی ہے کہ گزر جاتا ہے۔‘ سو اچھا برا ہمارا بھی گزر گیا۔ ’’میں اگلے ہفتے وطن جا رہا ہوں۔‘‘ اینڈرسن نے ایک دن دیوار کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے ہم سے کہا۔ ’’ایک دن اس دیوار پر میری تصویر، KNIGHT کے لباس میں، آویزاں ہوگی۔ اس وقت میں زمین میں چھ فٹ نیچے سو رہا ہوں گا۔ اب مٹی مٹی میں ملا چاہتی ہے۔ افسوس کہ میرے قرب کے باعث تمہارا کیریر بھی تباہ ہوگا۔ میں تمہارے لیے کچھ نہ کرسکا۔ مگر میری اچھائیوں کو ہی یاد رکھنا۔‘‘ اس نے اپنا سرجھکا لیا۔ وہ رو رہا تھا۔ وہ نشے میں تھا۔ 

    تین چار مہینے سے بینک میں افواہیں گشت کر رہی تھیں کہ اب کا گیا وہ واپس نہیں آئے گا۔ عافیت اندیشوں نے اس کے جانشین کو ابھی سے ’بڑا صاب‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ پنجابی مثل کے مصداق دریا ہنوز کوسوں دور تھا لیکن یار لوگوں نے ابھی سے شلواریں کاندھے پر ڈال لی تھیں۔ لوگ آدھ آدھ گھنٹے اس انتظار میں کھڑے رہتے کہ وہ ادھر سے گزریں تو کورنش بجا لائیں۔ 

    یوں وہ گزرے نظر چرائے ہوئے
    ہم لئے رہ گئے سلام اپنا

    بڑے بڑے آدم خور افسر اُن کے سامنے گھگھیانے لگے۔ جنگل میں شیر بن گئے تھے خوف سے ہرن۔ جمعہ کو سب ایک ہی مسجد میں ایک دوسرے کے شر سے محفوظ رہنے کی دعائیں مانگنے لگے۔ ادھر خود اینڈرسن چند روز سے اور بھی چڑچڑا ہو گیا تھا۔ ڈرائیور اگر بائیں طرف کا دروازہ کھولتا تو دائیں طرف سے اترتا اور دایاں کھولتا تو بائیں سے کود پڑتا۔ لوگوں نے ہم سے ملنا جلنا ترک کردیا۔ ہماری بربادیوں کے مشورے آسمانوں کے علاوہ دفتر میں بھی ہو رہے تھے جو کہیں زیادہ خطرناک صورت حال تھی۔ عام طور پر یہ خیال تھاکہ اس کے جہاز کے عدن پار کرنے سے پہلے ہمارا بیڑا غرق ہو جائے گا۔ اس زمانے میں ہمیں اور زیادہ لگن اور تندہی سے کام کرتے دیکھ کر مرزا بولے کہ صاحب! برستے مینہ میں سفیدی کرنے سے فائدہ؟ 

    اینڈرسن نے خود ذکر چھیڑا تو ہم نے آواز میں ایک جہان کی رقت بھر کے کہا، ’’جانے سے پہلے ہمیں اپنی نشانی ایک سرٹیفکیٹ دیتے جائیے۔‘‘ ہر طرف آپا دھاپی، نفسی نفسی کا عالم تھا۔ اس کے چپراسی نےاس کی جیب سے سو روپے کا نوٹ بطور نشانی نکال لیا تھا۔ ہمارا یہ کہنا تھا کہ اس کی بھوؤں کے درمیان شکن پڑگئی جو اس کی غماز تھی کہ آبگینے کو ٹھیس ہی نہیں لگی، اس میں V کی شکل کا بال بھی پڑ گیا۔ یک بارگی اس کے تیور بدل گئے۔ شیکسپیئر کے رچرڈ سوم کا فقرہ دہراتے ہوئے کہنے لگا، ‘Authority leaves a dying king! 

    سرٹیفیکٹ چاہیے؟ آآآ! تمہارا کام برا نہیں۔ میرے خانساماں کے پاس سو ڈیڑھ سو سرٹیفیکٹ ہیں۔ دو مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے اپنا کھانا کتے کو کھلا دیا۔ دونوں کتے مر گئے۔ میں نے تمہارے بارے میں مکمل رپورٹ اس ڈائری میں لکھ چھوڑی ہے۔ آخری دن نقل کر کے میرے دستخط کروا لینا۔ کل میں تمہیں ایک الوداعی تحفہ دوں گا۔ ایک انتہائی کارآمد کتاب۔ اگر میری طرح تم نے اسے سمجھ کے پڑھ لیا تو میری ہی طرح ایک دن جنرل منیجر ہو جاؤگے۔ یہ میرا بڑا عزیز سرمایہ ہے۔‘‘ 

    دوسرے دن حسب وعدہ اس نے یہ کلید کامیابی ہماری نذر کردی۔ یہ ایک مجلد کتاب تھی جس میں بینکنگ کے حالیہ مسائل پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا تھا۔ حالیہ سے ہماری مراد ۱۸۹۸ء کے مسائل ہیں جب یہ کتاب شائع ہوئی تھی۔ کاغذ و طباعت سے اندازہ ہوا کہ انگریز کسی زمانے میں بھی ہم سے پیچھے نہیں رہے۔ ان میں بھی منشی نول کشور ہوا کرتے تھے۔ اس کی ورق گردانی کے بعد ہم بھی قائل ہوگئے کہ اسے پڑھ کر ہرشخص جنرل منیجر بن سکتا ہے، بشرطیکہ وہ ۱۸۹۸ء میں پیدا ہوا ہو۔ 

    روانگی سے ایک دن قبل افسروں نے شیزان میں اسے الوداعی پارٹی دی۔ دس پونڈ کا ایک سہ منزلہ کیک بطور خاص بنوایا گیا جس کی سفید آئسنگ پر تولہ تولہ بھر کے تین گلابی آنسو لرزاں تھے اور ان کے نیچے چاکلیٹ سے لکھا تھا، FAREWELL, SIR! 

    سپاس نامہ یعسوب الحسن غوری نے ان سپاس ناموں کی مدد سے ڈرافٹ کیا تھا جو پچھلے تیس برسوں میں ایک اسٹول سے دوسرے اسٹول پر تبادلے کے موقع پر چپراسیوں نے ان کی خدمت میں پیش کیے تھے۔ سپاس نامے میں یہ احتیاط برتی گئی تھی کہ اپنی طرف سے کوئی جملہ نہ گڑھنا پڑے، مبادا انگلش گریمر کو چوٹ چپیٹ آ جائے۔ ہرحال کا اظہار کسی ریڈی میڈ محاورے کے ذریعہ ہو۔ (حالانکہ بقول پروفیسر قاضی عبد القدوس، محاورے تو زبان کے بڑھے ہوئے ناخن ہوتے ہیں۔) وہ اپنی عینک بھول آئے تھے۔ اور انہیں مستقبل اور بھی تاریک نظر آرہا تھا۔ لہٰذا سپاس نامہ بڑی دقت اور رقت کے ساتھ پڑھا۔ گلے میں پھندا پڑ پڑ گیا جسے بعد میں کیک کے تینوں اشکِ خونیں کھا کر صاف کیا۔ با محاورہ اردو کے انگریزی (لفظی) ترجموں کا مضحکہ اڑاتے تو آپ نے بہتوں کو دیکھا ہوگا۔ ہم اس بامحاورہ انگریزی کا لفظی ترجمہ من و عن پیش کرتے ہیں، 

    سپاس نامہ

    جناب عالی!
    ہمارے لیے یہ انتہائی مسرت و ملال کا سنگم ہے کہ آپ تشریف لے جا رہے ہیں۔ آپ نے ہمیشہ انتظامی گتھیوں کے سینگ پکڑ کے ان کا مقابلہ کیا ہے۔ آپ نے یہ رخصت اپنی پیشانی کے پسینے سے کمائی ہے۔ آپ اپنی موم بتی دونوں طرف سے جلاتے رہے ہیں۔ یہ اس نومولود بینک کے دانت نکلنے کا زمانہ تھا۔ مگر آپ نے کمال چابکدستی سے بینک کی کشتی کو ایک طرف چٹان اور دوسری طرف بھنور سے بچا کر خشک ساحل پر لا کھڑا کیا۔ یہی نہیں، آپ نے مخالف بینکوں کے بادبانوں کی ساری ہوا نکال دی۔ اس ادارے کی ترقی کے لیے آپ نے کوئی پتھر اتھل پتھل کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ آپ اپنی پتوار پر سر ٹکا کر نہیں سوئے۔ بینک کا پرچم لہراتے ہوئے آپ نے کبھی اپنے پیروں کے نیچے کائی نہیں جمنے دی۔ 

    ہم تمام عملے کی جانب سے حضور والا کو یقین دلاتے ہیں کہ آپ کے بغیر یہ بینک چلانا ایسا ہی ہوگا جیسے ہملٹ کا ڈرامہ پرنس آف ڈنمارک کے بغیر کھیلنا۔ ہمیں اس عارضی جدائی کا بڑا صدمہ ہے۔ ہم آپ کی خدمت میں گوٹے کے ہار اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ (ہار پہنایا جاتا ہے۔ تالیاں بجتی ہیں۔) ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مگرمچھ کے آنسو نہیں ہیں۔ 

    آپ نے اس شیرخوار ادارے کی خاطر اپنی کمزور صحت مکمل طور پر تباہ کرلی ہے، جس کی بحالی کے لیے ہم اور ہمارے معصوم اطفال چوبیس گھنٹے دعا کرتے رہیں گے۔ دنیا دیکھے گی کہ وقت کے ریگزار میں ہمارا ہر قدم آپ ہی کے نقش قدم پر پڑتا چلا جائے گا۔ ہم اپنا باقی ماندہ کیریر آپ کی دانائی سے حاملہ نصیحت کی روشنی میں گزاریں گے کہ ’فرض فرض ہے۔ اور ایمانداری بہترین پالیسی ہے۔‘ 4  

    ہمیں شیکسپیئر کا تو کوئی حسب حال شعر یاد نہیں، لیکن ورناکیولر کے سب سے بڑے شاعر غالب نے اپنے بادشاہ کو دعا دی تھی کہ خدا تمہیں ایک ہزار سال سلامت رکھے اور ہر سال پچاس ہزار دن کا ہو۔ جناب والا! ہماری دلی دعا ہے کہ آپ اتنے عرصے سلامت رہنے کے علاوہ اس بینک کے جنرل منیجر بھی رہیں۔ (حاضرین کورس میں آمین! ثم آمین! کہتے ہیں۔) 

    ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سپاس نامے کو کس طرح ختم کریں۔ ہم شرمندہ ہیں کہ مختصر نوٹس کے سبب ہم اسے چھپوا کر سنہری فریم میں پیش نہ کر سکے۔ ممکن ہے اس میں آپ کو املا کی ضرورت سے زیادہ غلطیاں بھی نظر آئیں۔ مسز ڈی۔ کو نا ٹائپسٹ ڈیڑھ مہینے سے میٹرنٹی لیو پر ہے۔ مگر غلطی کرنا انسان کا کام ہے، معاف کرنا فرشتوں کا۔ 

    ہم ہیں جناب کے انتہائی تابعدار اور غمزدہ
    خادم

    جن کے دونوں سرے بوجہ مہنگائی بمشکل مل پاتے ہیں۔ 

    اس کے بشرے سے ہویدا تھا کہ سپاس نامہ سن کر چکرا گیا ہے۔ اپنی اس کیفیت کو غالباً اس نے وہسکی کی زیادتی پر محمول کیا۔ جبھی تو اکاؤنٹنٹ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر خود کو کھڑا کیا۔ جوابی تقریر میں ’’شکریہ!‘‘ کے ایک لفظ کے بعد ہی برس پڑا۔ کہنے لگا، میں نے آپ کی ٹریننگ پر بڑا مغز مارا ہے۔ اپنے علم کا آخری قطرہ تک آپ کے دماغوں میں پمپ کر دیا۔ میری سمجھ میں یہ بات بالکل نہ آئی کہ اس کے باوجود آپ نے ایک کیلنڈر سال میں پچاس ہزار دن کی سفارش کیسے کر دی، جب کہ برطانیہ میں ۵ روزہ ہفتہ کا مطالبہ شدت پکڑتا جا رہا ہے۔ آپ نے تو یہ سوچا ہوتا کہ اگر سال کے دن بڑھا دیے گئے تو سالانہ سود میں کمی کے باعث ایک ہی ہفتے میں سارے بینکوں میں تالے پڑجائیں گے۔ 

    کیا برا تھا رو لینا ایسے مسکرانے سے
    ہم سے رخصتی مصافحہ کرتے وقت کہنے لگا، ’’اپنی صحت کا خیال رکھنا۔ اور اخبار ذرا توجہ سے پڑھتے رہنا۔ ون فائن مارننگ، برتھ ڈے آنرزلسٹ میں اپنے باس کا نام دیکھ کر تم اپنے کو کتنا خوش نصیب سمجھو گے۔ KNIGHT کے چغے میں فوٹو کھنچوا کر تمہیں سیکنڈ کلاس ایئرمیل سے بھیجوں گا۔ ۱۰x۱۲ سائز کا سنہری فریم خرید کر رکھ لو۔ تمہارے اور حیدری کے علاوہ کسی اور کو تو کرسمس کارڈ بھی نہیں بھیجوں گا۔‘‘ وہ زیر لب مسکرا رہا تھا۔ ہم نے بھی مسکرانے کی کوشش کی۔ شام کا جھٹ پٹا سا ہو چلا تھا۔ وہ دھوپ کی عینک لگا کر سب سے ہاتھ ملانے لگا۔ اس شرابی کی پیار بھری پھبتیاں، کام نکالنے والی گھڑکیاں اور جھوٹی خفگیاں آنکھوں میں پھر گئیں۔ یادوں کا گنبد بے در گونج رہا تھا۔ 

    ان کے غصے میں ہے دلسوزی ملامت میں ہے پیار
    مہربانی کرتے ہیں نامہربانوں کی طرح

    اور وہ شوخیاں اور گستاخیاں بھی یاد آتی چلی گئیں جو ہم اس رندِ بلانوش کی شان میں کرتے اور معاف ہوتے رہے۔ اگر عینک کو کان پر ٹکانے کا کھٹراگ نہ ہوتا تو ۱۰x۱۲ فوٹو کے بدلے میں اور کچھ نہیں تو شہرہ آفاق مصور واں گف کی طرح استرے سے اپنا ایک کان ہی کاٹ کر بطور نشانی پیرمغاں کو پیش کردیتے جس کا حرفِ شرابی دل پر کیا کیا خرابی لایا تھا۔

     

    --------

    1۔ BLINKERS مراد ہیں۔ یہ جڑواں ٹکلیاں سوتے وقت روشنی سے بچنے کے لیے آنکھوں پر باندھ لیتے ہیں۔                                                                

    2۔ یرکانا، پنجابی۔ رعب داب ڈال کے دبانا اور کام نکلوانا۔                                                                              

    3۔ مس ریمزڈن، تعارف کے لیے آخری باب ’’موصوفہ‘‘ ملاحظہ ہو۔

    4۔ Honesty is the best policy! جو قوم (انگریز) ایمانداری کو اصولاً نہیں، بلکہ بطور پالیسی اختیار کرے، وہ ایمانداری سے کیا کچھ توقعات رکھتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔


    مأخذ:

    زرگزشت (Pg. 267)

    • مصنف: مشتاق احمد یوسفی
      • ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے