Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

موصوفہ

MORE BYمشتاق احمد یوسفی

     

    پٹری چمک رہی تھی، گاڑی گزر چکی تھی
    ٹھیک سے یاد نہیں اسے پہلے پہل کب دیکھا اور وہ اس وقت کیا پہنے ہوئے تھی، کیسی لگ رہی تھی۔ وہ ان عورتوں میں سے تھی جن سے مل کر اپنے مرد ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ مطلب یہ کہ وہ عورت نہیں ہوتیں۔ اسے بینک میں دیکھ کر ہمیں تعجب ضرور ہوا تھا، اس لیے کہ اینڈرسن بینک میں لڑکیوں کو ٹاپئسٹ اور اسٹینوگرافر کے علاوہ کسی اور جگہ ملازم رکھنے کے سخت خلاف تھا۔ کہتا تھا برصغیر میں کوئی لڑکی آفس میں ٹک نہیں سکتی۔ لڑکی اگر نیک ہے تو خوف زدہ ہوکر بھاگ جاتی ہے۔ نیک نہیں ہے تو کوئی بھگالے جاتا ہے۔ کچھ بھڑکتی ہیں، کچھ بھٹکتی ہیں۔ 

    نہ حسین نہ کم رو۔ مُسن نہ جوان۔ سنہری بالوں کی ایک لٹ نقرئی ہو چلی تھی، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ خود ’’بلیچ‘‘ کرتی ہے۔ صورت شکل سے اینگلو انڈین نہیں، انگریز ہی لگتی تھی۔ زردی مائل دانت۔ کرنجی آنکھیں، ٹھینگا دکھاتی ہوئی مخصوص برٹش ناک۔ کسا بندھا پنڈا۔ ابھی باقی تھی کچھ کچھ دھوپ دیوار گلستاں پر۔ دھوپ ہی نہیں، دیوار پر ان کمندوں کے چغل خور نشان بھی باقی تھے جو کبھی پھینکی گئی تھیں۔ کم آمیز، کم گو، بھرے بھرے بازو، بھاری آواز، اس سے بھاری تیڑ* (*تیڑ، پنجابی۔ کمر سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ۔ اور مرادف، اگر کوئی ہے، تو میرے علم میں نہیں۔) جملہ حقوق ہنوز غیرمحفوظ۔ ایک راوئی کج مج بیان نے بتایا کہ کسی زمانے میں یوروپین مڈوائف بھی رہ چکی ہے۔ جبھی تو یہ حال تھا کہ کوئی داخل دفتر پوری پاٹھی فائل طلب کریں تو نہ جانے کہاں سے کوئی ستوانسی فائل کھینچ کر لے آتی تھی۔ 

    پانچ چھ مہینے بعد جب اینڈرسن نے اس سے ہمارا باضابطہ تعارف و مصافحہ کروایا تو وہ ڈری ڈری، سہمی سہمی نظر آئی۔ اس کی انگلیاں موٹی اور ہاتھ کھردار تھا۔ کہنے لگا، ’’بینک بہت خوش قسمت ہے کہ اس خاتون کا نام اس کے نام سے وابستہ ہوگیا۔ ۱۹۲۰ء میں اس کے والد کراچی کے راجہ تھے۔ کلکٹر رہے۔‘‘ اول تو ہم سنہ ء مذکور تک اس دنیائے گرد و باد میں وارد نہیں ہوئے تھے۔ پھر یہ کہ ابھی تو ہم کراچی کے جغرافیہ سے ہی اچھی طرح نمٹ نہیں پاے تھے کہ اس کی تاریخ میں غوطے لگا کر ایسے درشہوار نکالتے۔ وثوق سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ راجہ داہر کے بعد کوئی اینگلو انڈین راجہ بھی گزرا ہے جس کی وجہ شہرت اس خاتون کا باپ ہونا تھی۔ اس زمانے میں بھی نومبر دسمبر میں مرغابیاں اور انگریز بینکر پاکستان میں اترنے شروع ہوتے تھے۔ اینڈرسن ان پر رعب ڈالنے کی غرض سے مس ریمزڈن کا تعارف اسی طرح کراتا تھا۔ گفتگو میں جب تک راجہ نواب، ناچ گرلز، حرم، ڈاک بنگلہ، بنگال ٹائیگر، چھوٹا حاضری، سپیرے، بخششیں اور رائس اینڈ کری کا ذکر نہ آئے انگریز کو یقین نہیں آتا تھا کہ وہ کالوں کے دیس میں ہے۔ 

    ہمارا دورِ اتالیقی
    تعارف کے بعد حکم ہوا کہ مس ریمزڈن کو ’’فارورڈ فارن ایکسچینج‘‘* (* زرمبادلہ کے وعدے کے سودے اور لین دین۔ یہ کام سب سے پیچیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ مارے ڈر کے اسے کوئی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔) کا کام سکھاؤ۔ یہ سنتے ہی ہمارے اوسان خطا ہوگئے جو ذرادیر میں اس للچاوے سے بحال ہوئے کہ پڑھانے اور اپنے کو استاد کہلوانے یں جو سو بوتلوں کا نشہ ہے وہ بادشاہی میں ہو تو ہو، ورنہ دنیا کا ہر مزا اس کے سامنے ہیچ ہے۔ اسی لیے تو شاہجہاں نے اپنے ایام اسیری میں صرف ایک خواہش کی تھی کہ قلعہ آگرہ میں مجھے بچوں کو پڑھانے کی اجازت دے دی جائے۔ اورنگ زیب نے اس سلطنت در سلطنت کی درخواست کو بوجوہ رد کر دیا۔ لیکن درس و تدریس کے سلسلے میں یہاں دو مشکلات درپیش تھیں، جن پر قابو پانا تقریباً ناممکن تھا۔ اول تو وہ حد درجہ غبی ٹھیری۔ ’’فارن ایکسچینج‘‘ کا انتہائی پیچیدہ کام قطعی نہیں سمجھ سکتی تھی۔ دوم، ہم خود یہ کام قطعی نہیں سمجھ پائے تھے۔ 

    علم سیکھنے کی سب سے آسان ترکیب یہ ہے کہ آدمی پڑھانا شروع کر دے۔ ہم نے بھی یہی کیا۔ اس مخلوط تعلیمی تجربے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ نیک بخت تو ساڑھے چار بجے پرس ہلاتی چلی جاتی، ادھر بینک کے اکاؤنٹ رات کے بارہ ایک بجے تک بیلنس نہ ہو پاتے۔ ہماری مشترکہ غلطیوں سے سب ہی ڈپارٹمنٹ متاثر و مفلوج و مشتعل ہو جاتے۔ اتنا ضرور ہے کہ ہماری غلطیوں میں ایک انفرادیت، استادی کی ایک شان پائی جاتی تھی۔ مطلب یہ کہ وہ زیادہ دیر اور مشکل سے پکڑ میں آتی تھیں۔ صبح ہماری آنکھیں اور دوسروں کے منھ سوجے ہوئے ہوتے۔ کسی بھی ڈپارٹمنٹ کے حساب میں کوئی ایسا گھپلا ہو جائے جو رات کے نو بجے تک کسی کی گرفت میں نہ آسکے تو دَوِش ڈالنے کے بعد غلطی ہائے مضامین کو، مع ملزمان، عالم حسین صاحب کے ’’سیشن سپرد‘‘ کر دیا جاتا۔ غلطی کہیں بھی سرزد ہوئی ہو، ہمیں ضرور شامل تفتیش کیا جاتا تھا۔ 

    عالم صاحب کی ساری زندگی اور تمام سرمایہ علم غلطیاں پکڑنے اور اینڈے بینڈے اکاؤنٹ کی چول بٹھانے کے لیے وقف علی الاغلاط تھا۔ اور وہ اس کے اس حد تک خوگر ہو چکے تھے کہ کبھی کسی صحیح اکاؤنٹ سے پالا پڑ جائے تو چکرا جاتے۔ شام تک تقریباً ٹھالی بیٹھے رہتے، اس لیے کہ اس سے پہلے انفرادی اور اجتماعی غلطیوں کے گھوڑے بحرِ ظلمات میں دوڑنے شروع نہیں ہوتے تھے۔ حساب جتنا گنجلک اور گندہ ہو، اتنا ہی ان کی طبیعت میں انشراح اور بالیدگی پیدا ہوتی۔ تا دیر تبسم فرماتے۔ دونوں آنکھیں بند کر لیتے اور ایک ہی دم لگا کے سالم سگرٹ کو آدھا، اور آدھے کو راکھ کردیتے۔ پھر غلطیوں کے نشے سے سرشار ہو کر جھوم جھوم جاتے۔ 

    مجموعۂ اغلاط ہے دنیا مرے آگے
    جب تک وہ غلطی پکڑتے، سارا عملہ ملزم کو پکڑے بیٹھا رہتا۔ البتہ ہم خود کو روزانہ سات بجے ہی گرفتاری کے لیے رضاکارانہ طور پر پیش کردیتے تھے۔ کبھی کبھی غلطی بڑی جلدی ہاتھ آ جاتی اور ہمیں رات کے گیارہ بجے ہی رہائی مل جاتی۔ دوسرے دن سہ پہر تک لوگ ہماری پچھلی خطاؤں کو معاف کر کے ندامت کے نئے مواقع فراہم کرتے، 

    کرتے رہے خطائیں ندامت کے بعد ہم
    ہوتی رہی ہمیشہ ندامت خطا کے بعد

    ہماری خوش نصیبی ہے کہ یہ خطا شناس رفیق دیرینہ آج بھی ہمارے ہم پیشہ و ہم مشروب و ہمزاد* ہیں۔ اور ان کے برتے پر ہم آج بھی جمع تفریق کی غلطیوں سے پریشان یا پشیماں نہیں ہوتے۔ ان کادم ہمارے لیے غنیمت بلکہ مال غنیمت ہے۔ بابر بہ عیش کوش کہ عالم حسین دوبارہ نیست۔ (*یہ سطور ۱۹۷۲میں لکھی گئی تھیں۔ ہمیں اپنی ہی نظر لگ گئی۔ تیئس سالہ رشتہ وفا یکم جنوری ۱۹۷۴ء کو ہمارے تبادلے کے بعد ٹوٹ گیا۔ اب وہ اور کہیں، ہم اور کہیں۔ دعا ہے کہ وہ جہاں بھی رہیں، خدا ہمیں بھی خوش رکھے اور ہمیں ہمارے ہی شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔) 

    لوگ ہمیں سخت محنت اور زیادہ کام سے باز رکھنےکی کوشش کرنے لگے، اس لیےکہ ہم جتنا زیادہ کام کرتے، غلطیوں کے تناسب و تعداد میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ کئی بدخواہوں نے اینڈرسن سے شکایت بھی کہ رشد و ہدایت کا جو باب ہم نے کھول رکھا ہے، اس کی وجہ سے ان کی راتیں کالی ہو رہی ہیں۔ اپنے بچوں کی پیاری پیاری صورتوں کو ترس گئے ہیں۔ لیکن اس نے نہ صرف یہ کہ ان چغل خوروں کی بات کا نوٹس نہیں لیا، بلکہ ہماری یہ بھی ڈھارس بندھائی کہ جب دفتر میں سب کے سب، کسی آدمی کی غیبت کرنے لگیں تو سمجھ لو کہ وہ بہت اچھا جا رہا ہے۔ اس نے ہمارے طرز تدریس پر مکمل اعتماد اور مسرت کا اظہار کیا، جس کے بعد ہم اور زیادہ تندہی اور جانفشانی سے غلطیاں کرنے لگے، ایک سودخور ادارہ تو چیز ہی کیا ہے، جہاندار شاہ نے تو ایک مرتبہ دریائے جمنا میں آدمیوں سے بھری ہوئی کشتی محض اس لیے ڈبوا دی تھی کہ اس کی منظورِ نظر لال کنور نے کبھی آدمیوں کو ڈوبتے نہیں دیکھا تھا۔ 

    مس ریمزڈن پر دل کا غیرمہلک دورہ پڑا
    تین چار ہفتے تک تلمذ و تعزیر کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ایک دن اینڈرسن نے ہمیں بلا کر پوچھا کہ تمہیں ’فارن ایکسچینج‘ کا کام کس نے سکھایا۔ ہم نے ذہن پر بہتیرا زور دیا۔ کوئی نام یاد نہ آیا۔ اور آتا بھی کیسے۔ اس زمانے میں ٹریننگ کا کوئی تصور سرے سے تھا ہی نہیں۔ بینکر بھی شاعروں کی طرح تلامیذ الرحمن ہوا کرتے تھے۔ جیسا کہ پہلے عرض کر چکے ہیں، ہم بینکنگ ’ڈائرکٹ میتھڈ‘ سے سیکھ اور سکھا رہے تھے جس کا پہلا اور آخری سبق یہ تھا کہ تیرنا سکھانے کے لیے چھوٹتے ہی بیچ بھنور میں دھکا دے دیا جائے۔ اب یہ اور بات ہے کہ بقول استاد ذوق، شیر سیدھا تیرتا ہے وقت رفتن آب میں۔ 

    اس نے اپنا سوال پھر دہرایا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کس کو فرضی استاد بنائیں۔ ’فارن ایکسچینج‘ تو بینکوں میں آج کل بھی سفلی علم کے ذیل میں آتا ہے۔ آں را کہ خبر شد، خبرش باز نیامد۔ یہ علم ہم تک پاؤں پاؤں چل کر نہیں آیا تھا، بلکہ ایک اور تشبیہ کی اجازت ہو تو اتنا عرض کریں گے کہ ہم نے محض زورازوری سے اسے کٹی ہوئی پتنگ کی طرح لوٹا تھا۔ معاً خیال آیا کہ خود کو بے استادا کہنا کہیں نمک حرامی نہ سمجھی جائے۔ چنانچہ ہم نے ہچکچاتے ہوئے کہا کہ آپ ہی سے سیکھا ہے۔ جھنجھلاتے ہوئے فرمایا، ’’سچ بولنے میں تمہیں اتنا تامل کیوں ہے؟‘‘ 

    وہ ہمارا جھوٹ کانٹے ڈور اور بنسی سمیت نگل گیا۔ ہمارا عرق انفعال ابھی پوری طرح خشک نہیں ہوا تھا کہ اس نے قدرے ترش روئی سے پوچھا، ’’اچھا! اب یہ بتاؤ کہ جب تم نے فارن ایکسچینج کی ٹریننگ مجھ سے لی تو تمہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا؟‘‘ 

    ’’نہیں تو۔‘‘ 

    ’’تمہاری اطلاع کے لیے مس ریمزڈن کو ہوگیا ہے! اب اسے ہلکے کام اور ہلکی غذا کی ضرورت ہے۔‘‘ 

    ہم کمرے سے نکلے تو دیکھا کہ باہر ریمزڈن، ہلکے لباس میں، کھڑی ٹھٹھے لگا رہی ہے۔ کہنے لگی آج تمہاری صورت کیوں اتری اتری ہے؟ ہم نے کہا، ، شاگرد کے ہارٹ اٹیک کی وجہ سے۔ پر یہ تشخیص نہیں ہوا دل پر حملہ کس نےکیا۔ کہنے لگی، بندی اس کارِ خر (DONKEY WORK) میں تمہارا ہاتھ نہیں بٹا سکتی۔ تمہیں کو مبارک! پھر اپنے اوپر بناوٹی متانت طاری کرلی۔ اور سگرٹ کے دھوئیں سے ہوا میں چھلے بنانے لگی۔ ایک آوارہ چھلا ہماری بائیں آنکھ میں آکر فٹ ہوگیا۔ اس سے پہلے ہم نے اسے سگرٹ پیتے نہیں دیکھا تھا۔ 

    ٹام بوائے کی پونی ٹیل
    (پونی ٹیل، خچر کی دم۔ ڈارون اور اس کا نظریۂ ارتقا کچھ ہی کہتا رہے، مرزا عبد الودود بیگ فرماتے ہیں، ’’خچر کی دم مکھی اڑانے کے لیے، کتے کی دم اعلان وفاداری، بلی کی دم انکشاف جنس اور اونٹ کی دم شترپوشی کے لیے بنائی گئی ہے۔ انسان کی دم اس لیے جھڑ گئی کہ اسے رکھنے کے لیے پتلون میں کوئی جگہ نہیں۔ نیز، ڈرل، پریڈ وغیرہ میں پچھلی صف والوں کو بڑی تکلیف ہوتی۔‘‘ )

    سب حیران کہ یہ دم بھر میں کیا ماجرا ہوگیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا، بلکہ راتوں رات اس میں منگل بھی ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس جان حیا کی کایا پلٹ گئی۔ سج گرم، نگہ گرم، ہنسی گرم، ادا گرم۔ انگلیوں کو تو ’’ڈائٹنگ‘‘ نہ کرو اسکی، لیکن ناخن اتنے بڑھا لیے کہ اب منہ نوچنےکے علاوہ ہاتھ کا کوئی اور کام نہیں کرسکتی تھی۔ دیسی چھینٹ کی ڈولتی جھولتی فراک کے بجائے پیرس سے منگایا ہوا اسکرٹ پہننے لگی۔ اڑی مٹی بھنووں کی جگہ کھنچی ہوئی کمانیں۔ آنکھوں پر سبز مسکارے کا لیپ، ایک دفعہ لطیفہ سناتے ہوئے آنکھ بھی ماری جو لوح دل پر ایسی نقش ہوئی کہ ایک ہفتے تک مسکارا چھٹائے نہ چھٹا۔ چاندی کی لٹ پر سونے کا ملمع پھر گیا۔ لڑکوں کے سے کٹے ہوئے پٹوں کی جگہ ایک سنہری جھاڑو سی لٹکنے لگی جسے اس زمانے میں ’’پونی ٹیل‘‘ کہنے تھے۔ 

    کہاں تو یہ حال تھا کہ کبھی کبھار بالوں میں فریر گارڈن سے چرایا ہوا پھول لگا کر آ جاتی، یا اب یہ نقشہ کہ پورا گملا اٹھائے پھرتی تھی۔ ہار سنگھار، پیار دلار کے دن لوٹ آئے تھے۔ پہلے ہمہ وقت یوں نظریں جھکائے رہتی کہ ہمیں شبہ ہونے لگا تھا کہ کہیں آنکھوں میں نقص تو نہیں۔ لیکن اب گالو ں پر سرخی لگائے بغیر ’’بلش‘‘ نہیں کر سکتی تھی۔ ایک لٹکا آگیا تھا۔ اٹھلا اٹھلا کر بات کرتی تو لائف بوائے صابن کے بھبکے کے بجائے چاؤ بھرے بدن سے آنچیں سی نکلتیں۔ اب اس میں سے عورت کی لپٹ آتی تھی۔ بدرنگ مردانہ پمپ شوز اپنی مہترانی کو بخش دیے اور ایک بالشت اونچی ایڑی کے جوتے سے فرش پر ٹائپ کرتی پھرتی۔ چھوٹے چھوٹے، ترچھے ترچھے قدموں سے WIGGLE کر کے کمر اور اس کے معلقات کو دائیں بائیں جھولا جھلاتی۔ دوسرے مرحلے میں کولہے SEE-SAW کی مانند اس طرح اوپر نیچے ہوتے کہ آنکھیں باؤلی ہو جاتیں۔ ڈھلمل خطوط اب کھینچ کے تلوار بن گئے۔ 

    ایک قدم چلتی تو سینہ دو قدم آگے آگے چلتا۔ کوسوں بڑھے ہوئے ہیں پیادے سوار سے۔ اینڈرسن بالعموم کان پر ہاتھ کا کپ بنا کر بات سنتا تھا۔ لیکن اب موصوفہ کے ہونٹ اس کے کان سے لگے رہتے تھے۔ گراں گوشم بنہ رخ بررخم۔ بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں پکھراج کی انگوٹھی لشکارا مارنے لگی۔ کچھ کہو، کچھ پوچھو تو پہلے صرف ہوں ہاں کر دیتی تھی۔ اب انگ انگ بولتا تھا۔ اور کام؟ اتنے ناز سے غلط ’’ٹوٹل‘‘ (جمع) کرتی تھی کہ ہم تو صحیح ٹوٹل بھی اس طرح نہ کر سکتے تھے۔ پھر مصنوعی پلکیں پٹ پٹاکر اپنی غلطیوں پر کھلکھلاتی۔ اپنے مرحوم باپ کو اس نے انسپکٹر کسٹم سے پروموٹ کر کے جائنٹ سکریٹری بنا دیا۔ 

    گھوڑا چیف جسٹس بنا دیا گیا
    جدھر دیکھو اسی کے چرچے۔ طرح طرح کی باتیں اڑی ہوئی تھیں۔ عالم عالم عشق و جنوں ہے، دنیا دنیا تہمت ہے۔ کسی دانائے راز نے کیا خوب مگھم بات کہی ہے کہ ’’دو تہمتیں ایسی ہیں جو کسی پر بھی لگا دو تو لوگ فوراً یقین کرلیں گے۔ ان میں سے دوسری یہ ہے کہ وہ پینے لگ گیا ہے۔‘‘ اینڈرسن پر پہلی بھی لگ گئی اور اب وہ مسٹر ریمزڈن کہلایا جانے لگا۔ خود مس ریمزڈن اب بینک میں L.L کہلاتی تھی جو LADY LOVE کا پیار بھرا مخفف تھا۔ بڑے بڑے افسر اس کے آگے پیچھے پھرتے اور اکثر و بیشتر ’’سر‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ کچی نوکری والوں کا بے تحاشا جی چاہتا کہ بینک میں کہیں کیچڑ میسر آجائے تو سر والٹر رالے کی طرح اپنا کوٹ اتار کر بچھادیں اور وہ ملکہ الزبتھ کی طرح اس پر سے بے نیازانہ گزر جائے۔ 

    سالانہ ترقیوں کے دن آئے تو اہل غرض اسے زنجیر عدل کی طرح کھینچنے لگے۔ اور یہ کون سی اچنبھے کی بات تھی۔ تذکروں میں آیا ہے کہ روم کے شہنشاہ کلیگولا نے تو اپنے گھوڑے کو کونسل (قاضی القضاۃ، چیف جسٹس) کے عہدے پر فائز کر دیا تھا۔ مانا کہ گھوڑا انسانوں کی طرح انصاف نہیں کرسکتا۔ لیکن گھوڑا انسانوں کی طرح ناانصافی کرنے کی بے پناہ صلاحیتیں بھی تو نہیں رکھتا۔ کرسمس آیا تو ایل ایل کے ہاں ڈالیوں کے ڈھیر کے ڈھیر لگ گئے۔ گھر پھلوں کے آڑھتی کا گودام معلوم ہونے لگا۔ یعسوب الحسن غوری تو عید الفطر کی نماز کے بعد سیدھے گورا قبرستان گئے اور اس کے والد کی قبر پر پھولوں کی چادر بھی چڑھا آئے۔ فوٹو گرافر کو ساتھ لے گئے۔ چہرہ بھی رویا رویا سالگ رہا تھا۔ اسی طرح نذر محمد قصور گئے تو اس کے لیے وہاں کی ساری سوغاتیں۔۔۔ میتھی، حضرت بلھے شاہ کا کلام اور پراندے (چٹیلے) لے آئے۔ (اتفاق سے ان دنوں ملکہ ترنم نور جہاں اپنے وطن قصور میں نہیں تھیں۔) 

    گندھے ہوئے سروں والے پراندوں کو ایل ایل نے اینڈرسن کے شب خوابی کے پاجاموں میں ازاربند کے بجائے ڈالا۔ اسے یہ خود کار ازاربند بے حد پسند آئے کہ یہ نیفے میں پنسل یا ٹوتھ برش کی مدد کے بغیر ڈالے جا سکتے تھے۔ دن پر دن گزرتے گئے۔ ایک روز چپراسی نے اطلاع دی کہ آج صبح دونوں نہ صرف ایک ہی کار میں بینک آئے ہیں بلکہ جوانی قسم! ایک ہی دروازے سے اترے ہیں! حق نواز چیمہ، اکاؤنٹنٹ نے اپنی آنکھوں سے ایل ایل کے بالوں میں اینڈرسن کی ’’ڈینڈرف‘‘ دیکھی! تین چار دن بعد وہی چپراسی خبر لایا کہ میں کل اتوار کو صبح ڈاک دینے اینڈرسن کے گھر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایل ایل سر سے تولیہ باندھے بال سکھا رہی ہے۔ کہتے کی زبان نہیں پکڑ سکتے (جبھی تو خود اسے پکڑ لیتے ہیں۔) کہنے والے کہتے تھے کہ سنیچر کو کنواں خود چل کر آتا ہے اور اپنے آپ کو پیاسے پر انڈیل دیتا ہے۔ 

    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
    کوئی منحوس ہفتہ ایسا گزرا ہوگا جب اینڈرسن نے یہ اعلان نہ کیا ہو کہ رشوت اور عورت کبھی اس کی کمزوری نہیں رہی۔ اور یہ ادعائے بے گناہی حرف بحرف صحیح تھا، اس لیے کہ مے نوشی نے کبھی اسے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ دیگر خبائث پر قرار واقعی توجہ دے سکے۔ کسی طرح یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا کہ عورت۔۔۔ اور یہ عورت۔۔۔ اس کی کمزوری ہو سکتی ہے۔ عقاب اور چیل کے گھونسلے میں بسیرا کرے! لیکن یہ حقیقت ہے کہ قدرت نے بعض عقابوں کی آنکھیں اتنی بڑی بنا دی ہیں کہ دماغ کے لیے جگہ ہی نہیں بچی۔ مزاح نگار جارج میکش (جو خود ہنگرین ہے) کا قول ہے کہ براعظم یورپ کی تمام اقوام کی ’’سیکس لائف‘‘ ہوتی ہے، مگر انگریز کے ہاں اس کی جگہ گرم پانی کی بوتل۔ 

    میلکم مگرج، سابق ایڈیٹر پنچ، نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ’’سیکس‘‘ ہم انگریزوں کے سر میں ہوتا ہے، جو اس شے کے رکھنے کے لیے نہایت نامناسب جگہ ہے۔ اس کے برعکس، مرد ذات کے بارے میں قبرصی کہاوت ہے کہ جب تک لومڑ کے منھ میں ایک بھی دانت ہے، وہ پارسا نہیں رہ سکتا۔ لیکن آخر افواہوں اور عینی شہادتوں کی آندھی کے سامنے ہم اپنے حسن ظن کے چراغ کو کہاں تک کف اقوال پر لیے پھرتے۔ یوں بھی آدمی کسی چٹ پٹے اسکینڈل کی تفتیش یا تردید کرنے بیٹھ جائے تو لوگ اسی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ چڑھتی ندی میں بہاؤ کے خلاف کون تیر سکتا ہے۔ 

    ایک دفعہ آدمی کا بھرم اٹھ جائے تو پھر بیروں کی پوٹ عین چوراہے پر بکھر جاتی ہے۔ اور وہ چپکا کھڑا انہیں لٹتے، مٹی میں رلتے دیکھتا کا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اس بچارے کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ ایک داستان کاست رنگاتا نا بانا بنتا۔ دوسرا اس پر زردوزی کام کے بیل بوٹے بناتا۔ تیسرا کلی پھندنے ٹانکتا۔ پھر سب مل کر غیبت بافی کی شاہکار جھول اس پر ڈال دیتے۔ ہاں! اتنا تو ہم نے بھی دیکھا کہ اب اس کے کالر میں سرخ کارنیشن لگا ہوتا تھا۔ پہلے ہم اس کی ناک سے مقیاس الشراب کا کام لیتے تھے، یعنی اسے دیکھ کر معلوم کر لیتے تھے کہ کتنی ڈگری نشہ چڑھا ہے۔ لیکن اب ایل ایل اس کی ناک پر پاؤڈر لگا کر بینک ساتھ لاتی تھی۔ اگست تک روز وہی ایک سیاہ رنگ کا سوٹ پہن کر آتا تھا۔ لیکن اب برٹش ٹیلرنگ کمپنی سے ایل ایل کے پسندیدہ ’’گرے‘‘ رنگ کے تین قیمتی سوٹ ایک ہی تھان کے کپڑے میں سےسلوا لیے تھے۔ انہیں کو روز بدل بدل کر پہنتا۔ 

    ایک دن اس کا کنوارا چپراسی اپنے بیٹے کی قسم کھا کے کہنے لگا، ’’میں نے اپنی چشم دید آنکھوں سے ایل ایل کو اپنے جوڑے کے پھول سے صاب کا کان گدگداتے دیکھا ہے۔ صاحب بھی ایک دن بلاٹنگ پیپر سے اس کے آنسو پونچھتا پڑا تھا۔ ٹیلی فون ریسیور سے دن بھر لپ اسٹک کے بھپارے آتے ہیں۔ تم کو یقین نئیں آنے سکنا تو بقلم خود اس کے ہونٹ سونگھ کر تپاس تسلی کر لو۔ کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے۔ پرسوں میں صاحب کے بنگلے گیا تو یہ چھمیا اسپتال کی پٹی کے کپڑے سے بنی ہوئی پوشاک پہنے بیٹھی تھی۔ مجھے تو اس کی ہریانی دیکھ کے بڑی حریانی* ہوئی۔‘‘ (*عریانی دیکھ کے بڑی حیرانی ہوئی۔) ہمارے شکاری دوست خان سیف الملوک خاں تو یہاں تک کہتے تھے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے ایل ایل کی بانہوں پر اس کے پگ مارک دیکھے ہیں۔ 

    وہ خود سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ! عشق جب آداب خود آگاہی سکھاتا ہے تو دیوانے بھی ہوشیار ہو جاتے ہیں۔ پہلے تو یہ حال تھا کہ اس کی پتلون کے بٹن آدھے کھلے، آدھے بند ہوتے تھے۔ البتہ قمیص کا یہ نقشہ نہ تھا۔ اس کے سب بٹن کھلے ہوتے تھے۔ بقول چپراسی کے، ہر ایک کی بے پردگی کرتا تھا۔ لیکن اب سب بٹن متعلقہ کا جوں سے رجوع کرنے لگے۔ وہ اپنی عمر سے کم معلوم ہونے لگا۔ ہمارا مطلب ہے ۶۳ برس کا تھا، مگر ۶۲ کا دکھلائی دینے لگا۔ گنجے سر پر بڑی دیدہ ریزی سےفرضی مانگ نکالتا۔ دوبال دائیں طرف، ایک بائیں طرف۔ عباد الرحمن قالب بیان کرتے تھے کہ انہوں نے اسے ایک حکیم کے اشتہار کو للچائی ہوئی نظروں سے پڑھتے ہوئے پکڑا تھا۔ چڑچڑانا بھی چھوڑ دیا۔ بلکہ کافی خوش مزاج ہوگیا۔ تذلیل و تحقیر کی جگہ تضحیک و تمسخر نے لے لی۔ یعنی آآآ کی جگہ ہآہآہآ! 

    ایک دن موج میں آئے تو ہم سے فرمایا، ’’اسکاٹ لینڈ والوں کے خلاف تمہیں جتنے بھی لطیفے یاد ہیں، آج ہی مجھے اوور ٹائم بٹھا کر سنا دو۔ مجھے یہ روز روز کی ہی ہی ہا ہا اچھی نہیں لگتی۔‘‘ چائے میں مکھی گر پڑے تو چہار حرفی اینگلو سیکسن گالی کے بجائے اردو مرادفات پر تکیہ کرتا جو اس نے اپنے بیرے بندو خاں سے سیکھے تھے۔ صبح ڈاک، تار یا ٹیلیفون پر کوئی بری خبر ملے تو فوراً دفتر چھوڑ کر چلا جاتا۔ چپراسی اور سکریٹری کو کہہ جاتا کہ ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مجھے پھر صلاح مشورے کے لیے بلایا ہے۔ گورنر عبد القادر بہت پریشان ہیں۔‘‘ جب گورنر عبد القادر پر روزانہ صبح ساڑھے گیارہ بجے پریشانی کا دورہ پڑنے لگا تو ہمیں ان کی طرف سے بڑی تشویش ہوئی۔ ڈرائیور سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ اینڈرسن کا اسٹیٹ بینک در اصل پیلس ہوٹل کی بار میں واقع ہوا ہے۔ موصوف دفتر بے معنی کو غرق مے ناب اولیٰ کر کے گھر پہنچتے اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر گورنر سے خطاب فرماتے جو عتاب سے خالی نہ ہوتا۔ وہیں خطاب و عتاب فرماتے فرماتے سو جاتے۔ مکالمہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔ دوسرے دن آتے تو ہمیں سارا ڈائلاگ من و عن سناتے اور ایک ایک فقرے پر اپنی حق گوئی اور معاملہ فہمی کی داد پاتے۔ وہ ’’الکاحلزم‘‘ اور ہم ضبط و خواری کی آخری حد پر لڑکھڑا رہے تھے۔ 

    ۴۰۴ تریا چلتر
    ایل ایل اب بالکل بدل چکی تھی۔ کچھ اور ہی چہک مہک، چٹک مٹک تھی۔ دوتین مہینے بعد سگرٹ پینی بھی چھوڑدی۔ وہسکی پینے لگی۔ بات کرتے کرتے ایک دم پرس میں سے آئینہ اور لپ اسٹک نکال کر گلاب کی پنکھڑیوں کے رنگ ورقبہ میں ترمیم و اضافہ کرتی۔ ایک دن ہمارے کسی شوخ فقرے سے مخطوظ ہوئی تو از راہِ تلطف ہمارے گال پر اسی سے ’’ریڈکراس‘‘ بنا دیا، جیسا ایمبولینس پر بنا ہوتا ہے۔ ہم نے پوچھا، ’’بی بی! یہ کیا؟‘‘ اپنے سینے پر ہاتھ سے صلیب بناتی ہوئی بولی، ’’رومن کیتھولک عقیدہ ہے کہ اس سے آدمی ہر بلا سے محفوظ رہتا ہے۔‘‘ ہم اسے رومال سے رگڑ کر مٹانے والے ہی تھے کہ خیال آیا اگر بیگم نے رومال پر دستاویزی ثبوت دیکھ لیا تو اپنے دل میں کیا کہیں گی۔ (زبان سے جو کچھ کہیں گی، اس کا تو ہمیں بخوبی اندازہ تھا۔) ازدواجی اعتماد میں یہ لمبی دراڑ پڑ جائے گی جسے بالعموم صرف قیمتی تحفوں سے بھرا جا سکتا ہے۔ اور یہاں چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟ 

    مفلسی سب بہار کھوتی ہے
    مرد کا اعتبار کھوتی ہے

    ابھی ہم اس نشان (+) کو کسی محفوظ طریقے سے مٹانے کی ترکیبیں سوچ رہے تھے کہ اینڈرسن ہماری کیبن میں آ دھمکا۔ کہنے لگا، عجیب بینک ہے! ہتھیلی پر حساب* کرتے کرتے اب گال پر جمع و تفریق ہونے لگی۔ (*ہتھیلی پر حساب، اس تلمیح کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر۔) 

    اپنی تازہ اداؤں کو آزمانے کے لیے گاہے ماہے ہمیں بھی تجرباتی خرگوش بنا لیتی۔ نزاکت اب اس پر ختم تھی۔ ایک دن دیکھا کہ انگلی پر پٹی باندھے چلی آرہی ہیں۔ پوچھا، بی بی! یہ کیا طوطا پالا ہے؟ معلوم ہوا سو روپے کے نئے نوٹ کی دھار سے انگلی کٹ کر پک گئی ہے۔ ہم نے کہا، انگلیوں کی تاریخ میں یہ پہلا رومینٹک چرکا ہے۔ اس پر عزیز اللہ خاں* (جو الہ آباد یونیورسٹی سے تازہ تازہ انگریزی میں ایم۔ اے کر کے بینک میں ملازم ہوئے تھے) نے اصلاح فرمائی، ’’پہلا نہیں، دوسرا کہیے۔ رومنٹک شاعر روزیٹی کی انگلی میں بھی تو گلاب کا کانٹا چبھ گیا تھا جس سے اسے زہر چڑھ گیا اور اسی میں چل بسا۔ وصیت کے مطابق اس کی نظموں کا واحد مسودہ اسی کے ساتھ قبر میں دفن کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد لوگوں نے واویلا کیا تو قبر کو کھول کر اسے نکالا گیا۔‘‘ (*سنکی آدمی تھے۔ انگلش لٹریچر کے حوالے اور تلمیحات کے بغیر کوئی بات نہیں کر سکتے تھے۔ دو تین مہینے کراچی کے ادبی حلقوں کے ہفتہ وار بحث مباحثوں میں شرکت کے بعد رائفل کلب کے ممبر بن گئے۔ دو ڈھائی سال تک برانچوں کے پرانے اندراجات کا کھوج لگاتے لگاتے، بینک سے ایک رات عالم جنون میں ایسے نکلے کہ آج تک مفقود الخبر ہیں۔) 

    ’’کسے؟‘‘ مسٹر کینٹین والا نے پوچھا۔ 

    ’’تمہارے سر کو! اور کسے؟‘‘ مجذوب عزیز اللہ خاں نے جواب دیا۔ 

    اب اس پر نظروں کے ساتھ ساتھ انگلیاں بھی اٹھنے لگیں۔ بریدہ تنے سے کونپیں پھوٹیں۔ اپنی آنکھوں سے اماوس کی رات کو دھنک نکلتی ہوئی دیکھی۔ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک ایسے شخص کو جس نے تمام عمر صرف اورصرف مے و مینا سے عشق کیا، ایک معمولی سی عورت راہِ نشاط اور صراط غیرمستقیم سے یوں بھٹکا دے گی۔ ہندو شاستروں نے عورت کے ۴۰۴ چلتر بتائے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ شاستر اس زمانے میں لکھے گئے تھے جب انسان کو ہزار کی گنتی نہیں آتی تھی۔ 

    نشۂ مے پہ جوانی کا گماں ہو جیسے
    پر صاحبو! حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے۔ وہ کافر تھا، گنہ گار نہیں! یہ تصدیق ہو چکی تھی کہ اس کی بیوی طلاق لے کر اسی کے ایک سابق اسسٹنٹ سے شادی کر چکی ہے۔ ایل ایل بھی کسی کی پابند نہ تھی۔ اب ٹھاٹ سے اینڈرسن کے ساتھ رہنے اور اسی کے ساتھ کار میں آنے جانے لگی۔ مسٹر ڈبلو۔ جی۔ ایم اینڈرسن اس کے پہلو میں سکڑتے سکڑتے پیار میں ’’اینڈی‘‘ ہو گئے۔ ڈرائیور سے مروی تھا کہ بڑے صاحب نے ایل ایل کو منگنی کی انگوٹھی پہنا دی ہے جس میں شترمرغ کے انڈے کے برابر ہیرا جڑا ہے۔ اس خبر پر جمعدار اجمل خاں نے صرف اس بنا پر یقین نہیں کیا کہ ’’مرغے اگر شتر کے برابر ہو جائیں، تب بھی انڈا نہیں دے سکتے۔ اور وہ بھی بڈھے مرغے جو کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے۔‘‘ 

    مرزا نے سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے فتویٰ دے دیا کہ بت عفت مآب اب خفت مآب ہو چکا ہے۔ ہم نے کہا، یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ ۶۳ سال کے الکحالک سے زیادہ بے ضرر اور کون ہو سکتا ہے؟ فرمایا ’’۶۴ سالہ الکحالک!‘‘ پروفیسر قاضی عبد القدوس ایم۔ اے (گولڈ میڈلسٹ) نے ’’موازنۂ شبلی و اینڈی‘‘ کرتے ہوئے فرمایا ’’شبلی نے یہ شعر نوجوانی میں نہیں عالم ضعیفی میں کہا تھا، 

    من فدائے بت شوخے کہ بہنگام وصال
    بمن آموخت، خود آئینِ ہم آغوشی را

    سلیس اردو میں یہی منٹو کی پرچۂ ترکیب استعمال ساتھ لانے والی کھیلی کھائی عورت ہے، جس کے سبب وہ بچارا فوجداری عدالت میں کھنچا کھنچا پھرا۔ بہر کیف، بینک میں ابھی کچھ ایسے نیک طنیت و خوش گمان لوگ باقی تھے جن کا خیال تھا کہ دونوں بھائی بہن کی طرح رہتے ہیں۔ عزیز اللہ خاں مجذوب کی بہتان طرازی میں بھی انگریزی ادب کی گاڑھی گاڑھی چاشنی ہوتی تھی۔ فرمایا کہ سب بکواس ہے۔ در اصل دونوں ٹرسٹرم اور اسولٹ کی طرح سوتے ہیں۔ پوچھا، حضرت! سونے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ فرمایا، کم از کم آپ کو تو معلوم ہونا چاہیے۔ ٹرسٹرم، بادشاہ آرتھر کا ایک جانباز ’’نائٹ‘‘ تھا جو ایک شادی شدہ حسینہ لیڈی اسولٹ کی پاک محبت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ 

    ہر چند کہ دونوں ایک ہی بستر* پر سوتے تھے، لیکن ٹرسٹرم درمیان میں اپنی ننگی تلوار رکھ لیتا تھا۔ (مرتے دم تک اس کے جذبہ عشق کے داڑھی مونچھ نہیں نکلی۔) پروفیسر قاضی عبد القدوس نے اس میں یہ ترمیم فرمائی کہ اینڈرسن درمیان میں اپنی رفیقہ حیات یعنی دختر رز کو سلاتا ہے۔ کہنے والے یہاں تک کہتے تھے کہ اس نے مس ریمزڈن کو بھی شراب کی لت لگا دی ہے۔ شیشہ کو پری میں اتار دیتا ہے۔ (*اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور جاہلیت میں انگلستان میں پلنگوں کی کتنی کمی تھی۔ جب کہ اپنے ہاں یعنی مغلوں کے حرم میں ہر لونڈی کا علیحدہ پلنگ ہوتا تھا۔ لونڈی تو لونڈی، خواجہ سرا تک پلنگ پر بلاشرکت غیرے سوتے تھے۔) 

    نادرشاہ کے سر پہ تخت طاؤس
    راتیں ہی نہیں، بھری دوپہریاں بھی گردن مینا میں ہاتھ ڈال کر سوتے گزرنے لگیں۔ تین چاردفعہ کلینک میں داخلے کے باوجود اس کا الکحالزم بدستور اپنی جگہ تھا۔ جب اس کا دورہ پڑتا تو تین تین ہفتے دفتر سے غیر حاضر رہتا۔ ایل ایل بے چاری نے گرتے کو بہتیرا تھاما، لیکن خالی بوری اور شرابی کو کون کھڑا رکھ سکتا ہے؟ بینک کا حال بد سے بدتر ہوتا چلا گیا۔ چند دور اندیشوں نے درانتی چھوڑ کر کھرپا سنبھال لیا۔ پہلے اوپر اوپر سے کاٹتے تھے، اب جڑ سے اکھاڑنے لگے۔ عزیز اللہ خاں نے بہ نظر احتیاط اپنا سیونک بینک اکاؤنٹ جس میں مبلغ تیرہ روپے تھے، دوسرے بینک میں منتقل کر دیا۔ اینڈرسن کے دوسرے تین سالہ معاہدے کی میعاد عرصہ ہوا ختم ہو چکی تھی اور یہ سننے میں آرہا تھا کہ اب وہ واپس نہیں آئے گا۔ جانا ٹھہر گیا تھا، صبح گیا یا شام گیا۔ اس کی مے نوشی اپنے عروج یعنی نقطہ استفراغ تک پہنچ چکی تھی۔ اب اس کے بعد ایک سیلاب بلا آنے والا تھا جو خس و خاشاک کو یعنی ہمیں بہا لے جائے گا۔ بینک کا دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ ہوا چاہتا تھا۔ 

    آئے کچھ ابر، کچھ بہار آئے
    اس کے بعد آئے انقلاب آئے

    یہ بھی خبر گرم تھی کہ اب کی دفعہ وہ اپنا پراویڈنٹ فنڈ اور اسے خردبرد کرنے کے لیے ایل ایل کو ساتھ لے جائے گا۔ ایل ایل کو اس کے پراویڈنٹ فنڈ سے پیار ہوگیا تھا۔ وہ بچارا تو صرف دسراتھ چاہتا تھا۔ بقول مؤرخ بینک، خان سیف الملوک خاں، نادر شاہ تخت طاؤس پر بیٹھنے کا خواہش مند نہ تھا۔ بس اپنے ہمراہ اسباب میں باندھ کر لے جانا چاہتا تھا۔ 

    اب اس سے ملاقاتیں کم ہوتی چلی گئیں اور اپنا حصہ دور کا جلوہ رہ گیا۔ لیکن جب بھی ملتی بڑی اچھی طرح ملتی۔ جن لڑکوں کو پتنگ اڑانی نہیں آتی وہ پتنگ باز کی مانجھے کی چرخی تھام کے کھڑے ہو جاتے ہیں اور پتنگ کو ڈور پیتے، زوروں کے پیچ لڑتے دیکھتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار پتنگ اڑانے والا انہیں بھی چند لمحوں کے لیے ڈور تھامنے کا موقع دیتا ہے تاکہ وہ اکتا کر پتنگ لوٹنے نہ بھاگ جائیں۔ پیچ لڑانے یا پتنگ کو غوطہ دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لڑکا پتنگ کی ڈور سنبھالتا ہے تو اسے تناتی ہوئی ڈور کا گھسا، مانجھے کا کٹاؤ، ہوا کا زور، کھینچ کا شراٹا، انگلی کی جنبش سے پتنگ کی ٹھمکیاں، اور کبھی بند ہوا میں ڈور کا پیٹا چھوڑنے کے بعد کالجلجا جھول۔۔۔ سبھی کچھ اپنی پور پر محسوس ہوتا ہے۔ بعض جگہ پتنگ بازوں کی اصطلاح میں اسے تان چکھنا کہتے ہیں۔ تو صاحب! کبھی باد بہاری ہماری طرف چلنے لگتی تو سواری ادھر بھی آجاتی اور ’’بابا لوگ‘‘ کو تان چکھا جاتی۔ 

    گلستاں نہیں پنکھڑی ہی سہی
    ہمیشہ نہیں، دو گھڑی ہی سہی

    ایک دن ہم نے پوچھ ہی لیا، کیا یہ صحیح ہے کہ تم بھی اینڈرسن کے ساتھ BALLATER (اس کا آبائی گاؤں)کے دو سو سال پرانے پل کا معائنہ کرنے جا رہی ہو؟ ستر غمزے کے بعد بولی، کیا یہ صحیح ہے کہ اینڈی بلیٹر جا رہا ہے؟ ہم نے کہا خیال برا نہیں۔ پونی ٹیل پر ہاتھ پھیرتے ہوئی بولی، اگر گئی، تو تمہیں اپنی ایک لٹ بطور نشانی دے جاؤں گی۔ پوچھا، اگر ہم آڑے وقت اس کا ایک بال جلائیں تو کیا اینڈی جن نمودار ہو جائے گا؟ بولی جن کے بلانے کے لیے تو تمہیں الہ دین کا چراغ رگڑنا چاہیے۔ عرض کیا، آپ نے تو چراغ کے بجائے خود الہ دین کو رگڑ دیا۔ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولی، شش! اچھے بچے پکی پکی باتیں نہیں کرتے۔ 

    دو ہفتے بعد وہ تنک مزاج نادرشاہ جس نے ہاتھی پر بیٹھنے سے محض اس لیے انکار کردیا تھا کہ اس کے لگام نہیں ہوتی، تخت طاؤس کو اپنے سر پر رکھ کر سوئز پار لے گیا۔ اور پھر نہیں لوٹا۔ 

                                                    

    مأخذ:

    زرگزشت (Pg. 304)

    • مصنف: مشتاق احمد یوسفی
      • ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے