Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میری جو شامت آئی، میں نے سکینڈ ہینڈ موٹر خریدی

بھارت چند کھنہ

میری جو شامت آئی، میں نے سکینڈ ہینڈ موٹر خریدی

بھارت چند کھنہ

MORE BYبھارت چند کھنہ

    ایک زمانہ تھا کہ میں ایک معزز انسان سمجھا جاتا تھا۔ نوکری اچھی، گھر اچھا، کپڑے بھی بیوی کی رفوگری کے کمال کی وجہ سے اچھے، دودھ میں اپنے سامنے نچڑوا کر لیتا تھا یعنی انسان کے ہاتھ سے بنا ہوا دودھ نہیں پیتا تھا باقی رہی شکل و صورت تو یہ اچھی نہ سہی مگر کچھ ایسی بری بھی نہ تھی۔ اس لئے دوست احباب اکثر اصرار کرتے کہ میں ایک موٹر خرید لوں۔

    میں شروع ہی سے پرانی موٹر خریدنے کے خلاف تھا اور نئی موٹر خریدنا، ان کی قلت اور گرانی اور ان کی فروخت پر نگرانی کے باعث عنقا کو ہاتھ لانے کے مترا دف تھا۔ اس لئے میں بسں پر ہی سواری کرتاتھا لیکن بس کے سفر کے متعلق یہ ایک حقیقت ہے کہ نئی بسوں کا اضافہ آبادی کی فراوانی کے لئے بس نہیں اور بس پکڑ لینا عام انسان کے بس کا روگ نہیں۔ میری اپنی حالت یہ تھی کہ سال کے چار مہینے بس کے اڈوں پر بارش میں بھیگتا، پانچ ماہ تپتے سورج کی گرمی کھاتا اور باقی دوتین مہینے بارش اور گرمی کے اثر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج میں نکل جاتے۔ اس پر بچوں کی خواہش، دوستوں کا اصرار اور بیوی کی تکرار! میں نے اپنے بہتر ارادوں کے خلاف پرانی موٹر خرید نے کا فیصلہ کرلیا۔

    فیصلہ کرنے کی دیر تھی کہ ایجنٹوں نے آن گھیرا۔ ان میں سے ایک صاحب جان پہچان کے تھے، ایک پرانی موٹر لے آئے اور لگے اس کی خوبیاں بیان کرنے۔ اس کی چال، اس کی ڈھال، اس کے حال میں ہی اوورہال کئے جانے کا حال۔ اس کے پرانے مالکوں کا بااحتیاط استعمال، اس کے کم پٹرول کھانے کا کمال، اس کی مشین کی صفات بے مثال۔ غرض کہ صاحب! ان موٹروں کے بے پناہ دلال نے بچھائے کچھ ایسے جال کہ موٹر خرید نے کے لئے ہوگیا میں بے حال!

    یہ 1937 کی وولزلی تھی۔ عمر بیس سال، بھاری بھرکم۔ چولیں ڈھیلی، جسم زمانے کے نشیب وفراز سے مڑا تڑا۔ رنگت ایسی کہ اس پر اگر ئیکاگماں اور ملا گیری کا شک ہوتا تھا۔ اسے دیکھ میں نے منھ موڑ لیا۔ ماتھے پر بل ڈالے اور بڑ ے زور سے نفی میں سرہلا یا مگر اس دلال کی دلیلوں کے سامنے میری دال نہ گلی اور ایک نہ چلی۔ غرض پچھلے دس سال کی بچت قیمتاً ادا کی۔ گاڑی گھر آگئی۔ بیوی ایسی خوش ہوئیں جیسے گھر میں بہو آئی ہو۔ بچے تو خوشی سے ناچنے لگے۔ دوسرے دن چھٹی تھی۔ میں نے سوچا چلو پٹرول ڈالوالیں تاکہ اگلے دن دفترجاتے وقت کوئی دقت پیش نہ آئے۔ سوئچ کنجی گھماکر سیلف اسٹارٹر پر پیر دبایا، گھر گھر کی آواز بلند ہوئی۔ انجن میں ایک دومرتبہ جان بھی پیدا ہوئی مگر کسی ذبح کئے ہوئے مرغ کی پھڑپھڑاہٹ کی طرح اور پھر موت کی خاموشی! کچھ دیر بعد پھر سیلف استعمال کیا مگر اس کی جان مردہ میں زندگی کا وجود باقی نہ رہا تھا۔

    آخر نوکروں اور گھر کے سب چھوٹے بڑوں نے اس کو دھکیلا اور بڑی مشکل سے 37 کی وولزتی ہچکولے کھاتی ہوئی انجن کے زور سے چلنے لگی۔ میں نے کسی ایسے پا ئلٹ کے انداز میں جو راکٹ میں بیٹھ کر چاند کی طرف پرواز کر رہا ہو، ہاتھ ہلائے اور اس کو تیز تیز چلاتا ہوا اس خوف سے کہ کہیں رک نہ جائے، پٹرول پمپ تک لے گیا، جہاں بصورت مجبوری انجن بند کرنا پڑا۔ پٹرول ڈلوانے کے بعد انجن چالو کرنے میں پھر وہی دقت پیش آئی۔ یعنی اس کے انجن نے ایک دوہچکیاں لیں اور اس کے بعد سکوت کا مل! میں نے گاڑی کا بونٹ اٹھایا، پٹرول کاربویٹر میں نہ صرف آ رہا تھا، بلکہ بالکل اسی طرح ٹپک رہاتھا جس طرح میری جسم سے پسینہ، میں نے تاروں کو ادھر ادھر ہلایا۔

    میں نے بعض حضرات کو موٹر دھکیلنے پر آمادہ کیا۔ کچھ دیر تک دھکیلنے کے باوجود بھی جب انجن چالو نہیں ہوا تو کچھ راہگیرتو اپنے راستہ پر چلے گئے، بعض نے مشورہ دیا کہ گاڑی کو کسی کارخانے میں لے جانا مناسب ہوگا۔ میں نے دو تین مزدور اجرت پر اکٹھے کئے۔ آخر ایک فرلانگ تک تین مزدوروں کی طاقت سے چلنے کے بعد گاڑی انجن کے زور سے چلنے کے قابل ہوئی۔ دوگھنٹہ کی پریشانی کے بعد جب میں گھر پہنچا تو میرے ساتھ بیوی نے کچھ ویسا ہی سلوک کیا جیسا کہ بادشاہ محمد تغلق نے ان جیوٹوں کے ساتھ کیا تھا جو چین فتح کئے بغیر بڑی جوانمردی سے جان بچا کر واپس آگئے تھے۔ فرمانے لگیں کہ موٹر آتے ہی گویا میرے پر لگ گئے تھے اور پھر جب میرے کپڑوں پر ان کی نظر پڑی تو وہ اور بھی چراغ پا ہوئیں کہ موٹر خریدنے کا یہ مطلب ہر گز نہ تھا کہ میں لوگوں سے ہاتھ پائی کرنے لگوں۔ جب بیوی دم لینے کے لئے ذرا رکیں تو میں نے اپنی مصیبت کا حال سنایا جس کو سن کر انہوں نے فرمایا کہ ’’ابھی آپ کو گاڑی چلانا نہیں آتا۔‘‘

    میں نے کہا کہ بیوی یہ موٹر یقیناً مجھ کو چلانا نہیں آتا کیونکہ اس کو چلانے کے لئے انسان کی نہیں بلکہ جادو گر کی ضرورت تھی۔ خیر میں نے نہاد ھو کر کپڑے بدلے اور اپنے کرم فرما ایجنٹ کے پاس پہنچا۔ ان کا ایک چھوٹا موٹا موٹروں کا کارخانہ بھی تھا۔ جب ان کو حال اپنی حالت زار کا سنایا تو کہنے لگے کہ صبح کے وقت انجن ٹھنڈا ہو جاتا ہے اس لئے جلد ی چالو نہیں ہوا ہوگا۔ جب میں نے آنکھوں میں آنسو بھر کر پوچھا کہ کیا ہر صبح اس کو چالو کرنے کے لئے چار مزدوردرکار ہوں گے، تو کہنے لگے، ہرگز نہیں، جب آپ اس گاڑی کے کل پُرزوں سے واقف ہوجائیں گے تو پھر یہ دشواری پیش نہیں آئے گی اور اگر کوئی چھوٹی موٹی مرمت کی ضرورت ہوئی تو میرا کارخانہ حاضر ہے۔

    ان کے دوشاگرد میرے ساتھ آئے، مشین کو دیکھا بھالا، پلگز صاف کئے، کاربوریٹر صاف کیا، ان کا اندازہ تھا کہ انجن کا کمپریشن کمزور ہے۔ بیڑی اترگئی ہے اور انجن پر زنگ چڑھ گیا ہے۔ نیز تاروں کا پورا سسٹم بوسیدہ ہے اور جب میں نے جل بھن کر پوچھا کہ اس کی کوئی چیز مضبوط بھی ہے تو وہ ہنسنے لگے کہ 1937 کے ماڈل میں بیس برس بعد کون سی چیز مضبوط ہوسکتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس گاڑی کو چلانے والے انسان کا دل اور قوی دونوں مضبوط ہونے چاہیں وجیب بھاری اور یہ کہ اگر اس گاڑی کی ساری مشین اور اس کی ساری باڈی بالکلیہ بدل دئے جائیں تو یہ اچھی طرح چلنے کے لائق ہوسکتی تھی۔ بہرحال انہوں نے کسی طرح انجن چالو کیا اور مجھے یقین دلاکر کہ کل صبح گاڑی اسٹارٹ ہوجائےگی، رخصت ہوئے۔

    میں دوسرے دن صبح پانچ بجے اٹھا۔ جاکر گاڑی پر نظرڈالی تو پچھلا ٹائیر میری ہمت کی طرح بالکل فلیٹ تھا۔ پڑوس کے ڈرائیور کی مدد سے کسی طرح سات بجے تک پنکچر درست کرایا۔ پھر ضروریات سے فارغ ہو کر آٹھ بجے تک دفتر جانے کے لئے تیار ہوگیا تاکہ معہ گاڑی دس بجے تک دفتر پہنچ سکوں۔ اس دن گاڑی چل پڑی اور میں صبح سوا آٹھ بجے ہی دفتر پہنچ گیا۔ جہاں ابھی جھاوڑ دینے والے بھی نہیں آئے تھے، اس لئے ایک گھنٹہ موٹر میں گذرا۔ واپسی کا سفر بھی بغیر کسی ہنگامہ کے طے ہوا۔ البتہ ہارن بجنا بند ہوگیا اور بریک کا استعمال گاڑی کو بری طرح ایک رخ پر کھینچنے لگا تھا۔

    تین دن تک مسلسل گاڑی نے تنگ نہیں کیا، مگر چوتھے دن جب میں دفتر جارہاتھا تو لوگوں نے راستہ میں ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا اور بتایا کہ سامنے کے پہیے سے شرار ے نکل رہے تھے۔ میں اتر کر دیکھا تو سامنے کا سیدھے ہاتھ کا پہیہ آگ کی طرح گرم تھا۔ پندرہ منٹ انتظار کیا اور اس کے بعد جب گاڑی چلانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ انجن بالکل ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ اب تک حسب معمول تماشائی موٹر کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ میں نے حسب معمول ان سے موٹر دھکیلنے کی درخواست کی۔ چھ آدمیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر گاڑی ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ ان میں ایک صاحب میکانک قسم کے انسان تھے کہنے لگے اس کو چلانے کے لئے تو ایٹم کی توانا ئی درکار ہے۔ کیونکہ اس کے بریک جیم ہوچکے تھے۔

    اس وقت تک ساڑھے دس بج چکے تھے اور میں گاڑی کو وہیں چھوڑکر کسی طرح اپنی پرانی سواری یعنی بس پکڑ کر دفتر پہنچا۔ وہاں سے اپنے کار خانہ والے دوست کو سندیسہ بھیجا۔ دفتر سے چھوٹ کر گاڑی کا حشر معلوم کرنے ان کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ بریک جل کر کوئلہ ہوگئے تھے۔ ہارن اس لئے نہیں بج رہاتھا کہ بجلی کے تاروں میں شارٹ سرکٹ تھا اور بیٹری بالکل ناکارہ ہوچکی تھی۔ چنانچہ ایک ہفتہ تک گاڑی کارخانہ میں رہی اور پھر ساڑھے تین سو روپے کے بل کے ساتھ واپس آئی۔ کچھ دن خیریت سے گذرے مگر اس کے بعد یکایک اس کے پنکھے کا کمر بند ٹوٹ گیا۔ ڈائنا فرام بیکار ہوگیا، پلگ میں تیل آجانے کی وجہ سے اپنی خوبیاں بھول گئے، اور گاڑی پھر کارخانہ پہنچ گئی۔ وہی میرے دوست کا کارخانہ جنہوں نے یہ نہ چلنے والی نادرشئے گاڑی کے نام سے میرے ہاتھ بیچ دی تھی۔

    اس گاڑی کے متعلق میں اتنا عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس میں لوہا زیادہ اور پرزے کم تھے۔ جب یہ بفرض محال کبھی چل پڑتی تو اس کے پہیے لڑکھڑا تے۔ بمپر کھڑکھڑاتے، مڈگارڈ پھڑپھڑاتے اور انجن اس طرح کڑکڑاتا تھا جیسے مشین گن چل رہی ہو۔ ہارن تو اس کا بہرحال بجتا ہی نہ تھا اور نہ ہی اس کی چنداں ضرورت بھی تھی۔ کیونکہ ایک دفعہ چالو ہوجانے کے بعد یہ ممکن نہیں تھا کہ آج کل کے نہایت بے حس اور عین سڑک کے بیچ میں کھڑے رہ کر کسی سنیما کا اشتہار دیکھنے والے راہرو بھی جو موٹر کے لئے راستہ دینے میں توہین سمجھتے ہیں، اس کی آواز سے چونک کر ایک طرف نہ ہوجائیں۔ میں نے تو بعض مرتبہ اس کی بجلی کی کڑک سی آواز سن کر گود کے بچوں کو مائوں کی چھاتیوں سے چمٹے ہوئے دیکھا تھا۔

    میری اپنی حالت یہ تھی کہ باوجود گاڑی ہونے کے مہینے میں تین ہفتے بس پر ہی دفتر جاتا تھا اور ایک ہفتہ موٹر میں۔ موٹر کی سواری میں زیادہ راستہ اس کو دھکیل کر طے کرنا پڑتا تھا۔ اس لئے صحت گاڑی کی مشین کی طرح ہمیشہ بگڑی رہتی تھی۔ کپڑے ہمیشہ غلیظ رہتے، اس موٹر کی وجہ سے میری سالانہ رپورٹ میں دیر سے آنے کا عادی، کاہل، صحت اچھی نہیں، غلاظت پسند، ناقابل بھروسہ، اس لئے ترقی کے ناقابل درج ہوگیا تھا۔ یاردوستوں سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا تھا اور وہ اس لئے کہ اگر وہ مجھے دن کے کھانے پر بلاتے تو میں بمشکل چائے کے وقت پہنچتا اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ معلوم ہوتا جیسے کسی پہلوان سے تکرار کرکے مار کھاکر آرہا ہوں اور اگر چائے کی دعوت ہوتی تو رات کے وقت دروازہ کھٹکھٹاتا۔ رات کی دعوت قبول کرنے کی میں نے اس وقت سے جرأت نہیں کی تھی، جب سے ایک مرتبہ بیوی بچوں کو دوسرے شو سنیما لے جاکر رات کے تین بجے ٹیکسی میں گھر لوٹ سکا تھا اور وہ بھی بارش سے اس قدر بھیگنے کے بعد کہ نمونیا ہو کر مرتے مرتے بچا تھا۔ میری زندگی کا یہ سب سے خراب اور منحوس زمانہ تھا۔

    پرانی موٹروں کا ایجنٹ اور کارخانہ کا مالک یہ ڈھانچہ میرے پلے باندھ کر میری تنخواہ میں برابر کا حصہ دار بن گیا تھا۔ میری مالی، جسمانی اور دماغی حالت ابتر ہوگئی تھی۔ دوسال تک میں نے اس عجوبہ کو درست کرانے کی پوری کوششیں کی، مگر بے سود۔ مہینے میں ایک آدھ ہفتہ کے لئے اگر یہ بفرض محال کارخانہ سے گھر آبھی جاتی تو ایسی حالت میں کہ یا تو میں اس کے نیچے لیٹا اس کے ڈھیلے پرزوں کو کسنے کی لاحاصل کوشش میں اپنے پپوٹے زخمی کرتے ہوئے نظر آتایا اس کو دھکیلتے ہوئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے اور پسینہ بہاتے دیکھائی دیتا۔

    سوال پھر ’’کچھ اور رقم‘‘ صرف کرنے کا تھا اور چونکہ اس موٹر سے بحیثیت مالک کے دوسال تک رشتہ برقرار رکھتے ہوئے مالی اعتبار سے میں کسی مصرف کا نہ رہ گیا تھا اور اس کے علاوہ میں یہ نہیں چاہتا تھا کسی اور سادہ لوح انسان کو دھوکہ دے کر یہ مصیبت کی پٹاری اس کے گلے کا ہار بنادی جائے۔ اس لئے میں نے یہ ڈھانچہ اپنے دوست کو تحفہ دے کر کسی طرح اپنی جان چھڑائی۔ آج کل گوموٹر سواری کے لئے نہیں ہے یا یوں کہئے کہ موٹر مجھ پر سوار نہیں ہے، اس لئے زندگی مقابلتاً اب اتنی دشوار نہیں ہے اور وہ اس طرح کہ دووقت کھانا تو میسر آجاتا ہے۔

    مأخذ:

    تیر نیم کش (Pg. 44)

    • مصنف: بھارت چند کھنہ
      • ناشر: زندہ دلان حیدرآباد
      • سن اشاعت: 1972

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے