Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ملا دو پلازہ

محمد یونس بٹ

ملا دو پلازہ

محمد یونس بٹ

MORE BYمحمد یونس بٹ

    جس مولوی کا پیٹ بڑا نہ ہو، اس کے مولوی ہونے پر شک ہونے لگتا ہے کہ لوگ تو مولوی کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں، مگر مولوی اپنے پیٹ کے پیچھے پڑھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن دیکھنے میں مولوی لگتے ہیں، یعنی پیدل بندہ ان کی شلوار میں نالا نہیں ڈال سکتا۔ یہ سپر ہیوی ویٹ مولانا سیاست میں لائیٹ ویٹ مولانا ثابت ہوئے۔ ان کی پالیسیاں اتنی دھندلی ہوتی ہیں کہ پارٹی ورکروں کو بھی کی نظر عینک لگا کے دیکھنا پڑتی ہے۔ ان کی پارٹی ایسی ہے کہ جس پارٹی کے ساتھ ہو، اسے بھی پتہ نہیں ہوتا کہ بلکہ خود مولانا کو اخبار کے دفتر فون کر کے پوچھنا پڑتا ہے کہ آج ہم کس کے ساتھ ہیں؟

    وہ جمعہ کے روز جمعیت العلمائے اسلام کے گھر اس وقت پیدا ہوئے جب گھر والے جمعہ کی نماز پڑھنے گئے تھے۔ وہ جب پیدا ہوئے تب بھی مولانا تھے۔ عین جوانی میں بوڑھے ہوئے اور 26 سال کی عمر میں 62 سالہ ناظم اعلیٰ بنے۔ مولانا مفتی محمود نے آدھی عمر اللہ سے ’’فضل‘‘ مانگا اور باقی آدھی عمر اس کی صحت دیکھ کر کہا، ’’میرے گھر اللہ کا بڑا ’فضل‘ ہے۔‘‘ مفتی صاحب کے انتقال کے بعد جمعیت علمائے اسلام کا انتقال مولانا فضل الرحمن کے نام ہو گیا۔ پارٹی ورکروں نے انہیں یوں مانا جیسے مفتی صاحب کا فتویٰ مان رہے ہوں۔ مولانا سیاست میں بڑے باپ کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ اور ابھی تک ان کی یہی حیثیت ہے۔ وہ اس سے کم عمر کے بیٹے ہیں جس عمر کے وہ نظر آتے ہیں اور اس سے زیادہ عمر کے ہیں جس عمر کے اپنے بیانوں سے لگتے ہیں۔ وہ جمعیت کے امیر اور سیاست کے غریب ہیں۔ سیاست میں کسی سے اتنی دشمنی نہیں رکھتے کہ اس سے دوستی نہ ہوسکے اور کسی سے اتنی دوستی نہیں رکھتے کہ اس سے دشمنی ہو سکے۔

    کوئی بات خلاف مرضی ہو تو ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ حالانکہ پٹھان ہیں اور پٹھانوں کی مرضی کے خلاف بات کی جائے تو چہرہ ضرور سرخ ہوتا ہے، مگر بات کرنے والے کا۔ دوستوں کا پتہ نہیں، البتہ ان کا لباس چند ہی دنوں میں تنگ آ جاتا ہے۔ شلوار قمیص تو ایک طرف، انہیں تو دھوتی کرتا تنگ ہو جاتا ہے۔ ان کا عرض بڑا طول ہے۔ ہمیشہ سفید لباس پہنتے ہیں۔ ’’ف‘‘ کہتا ہے یہ کون سی بڑی بات ہے۔ میں بھی جب لباس پہنتا ہوں تو وہ سفید ہی ہوتا ہے۔ ایک رومال کاندھے پر اور ایک سر پر باندھتے ہیں۔ تبدیلی چاہیں تو سر کے رومال کو کاندھے پر رکھ لیتے ہیں اور کاندھے والا سرپر باندھ لیتے ہیں۔ کسی عورت کو ننگے سر دیکھنا تو دور کی بات ہے آج تک کسی عورت نے انہیں ننگے سر نہیں دیکھا۔

    سنا ہے مولانا فٹ بال نہیں کھیل سکتے کہ جہاں فٹ بال رکھ کر ہٹ لگا سکیں وہاں فٹ بال ہو تو نظر نہیں آتا اور جہاں سے فٹ بال نظرآتا ہے وہاں سے وہ ہٹ نہیں لگا سکتے۔ ہری پور جیل میں ان کا ساٹھ پاؤنڈ وزن کم ہوا تو انہوں نے خدا کا لاکھ شکر ادا کیا۔ میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے انہوں نے اس پر خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ میں جیل جاتے وقت ساٹھ پاؤنڈ کا نہیں تھا۔ ورنہ جیل سے باہر کیا نکلتا؟ اگرچہ منہ سے نکلی بات اور پیٹی سے نکلا پیٹ واپس نہیں آتا، پھر بھی وہ جیل جا رہے ہوں تو سمجھتے ہیں سلمنگ سنٹر جارہا ہوں۔ کہتے ہیں پیاز کھانے سے بھی دوست اور وزن کم کیاجاسکتا ہے۔ پہلے ایک نشست میں کئی بیٹھکیں لگاتے، اب ایک بیٹھک کئی نشستوں میں لگاتے ہیں۔ پسندیدہ کھانا ثرید ہے کہ یہ وہ کھانا ہے جسے کھانے والا مولوی ہو تو کھانا نہیں بچتا اور اگر مولوی نہ ہو تو کھانے والا نہیں بچتا۔ مولانا جو کھاتے ہیں وہ سب کے سامنے ہوتا ہے۔ بلکہ وہ تو جو کھا چکے ہوتے ہیں، وہ بھی سب کے سامنے ہوتا ہے۔

    کہتے ہیں چائے سے انکار کفر ہے۔ اس لیے چائے کی دعوت قبول کر رہے ہوں تو لگتا ہے اسلام قبول کر رہے ہیں۔ مہمان نواز ہیں۔ جو چند گھڑیوں کے لیے ان کا مہمان ہو، اسے یوں دیکھتے ہیں جیسے وہ چند گھڑیوں کا مہمان ہو۔ کسی مہمان کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔ ایک بار مولانا درخواستی انہیں ملنے آئے تو ان کے پاس انہیں دینے کو کچھ نہ تھا۔ سو آدھی جمعیت علمائے اسلام دے دی۔ البتہ محترمہ بے نظیر بھٹو ان کے گھر آئیں تو محترمہ کو وہ تحفہ دیا جو محترمہ نے آج تک سنبھال کے رکھا ہے۔ انہوں نے محترمہ کو دوپٹہ دیا تھا۔ مولانا کو میٹھے میں میٹھا رنگ پسند ہے۔

    صوبہ سرحد کا مزاج ایسا ہے کہ وہاں بندہ اپنے کمرے سے بیوی کے کمرے میں جائے تو بھی بندوق لے کر جاتا ہے۔ مگر مولانا مسلح محافظوں کی بجائے مصلیٰ محافظوں کے ساتھ پھرتے ہیں۔ وہ کلاشنکوف سے زیادہ کیمرے سے ڈرتے ہیں۔ جیل میں پڑھنے لکھنے کا کام کرتے ہیں۔ اس لیے جیل یوں جاتے ہیں جیسے لائبریری جا رہے ہوں۔ فرماتے ہیں مجھے زندگی میں پھل، پھول، رنگ اور خوشبو ایسی چیزوں پر غور کرنے کا وقت نہیں ملا۔ انہوں نے جس گھر میں آنکھ کھولی، وہ مذہب اور سیاست کی یونیورسٹی تھا۔ والد محترم مفتی محمود صاحب نے اپنی زندگی میں انہیں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے منع کیا، جس سے اندازہ لگائیں کہ وہ کتنے دور اندیش تھے۔ کہتے ہیں دیکھنے میں وہ مفتی محمود سے جتنی مماثلت رکھتے ہیں اتنی مماثلت اپنے آپ سے نہیں رکھتے۔ انہوں نے جمعیت علمائے اسلام اور گاڑی چلانا خود ہی سیکھا۔ صلاحیتیں اور انداز سیاست ایسا ہے کہ انہوں نے بقول مارشل لاء حکومت کو اس بات کی جرأت ہی نہ ہوسکی کہ مجھے وزارت کی پیشکش کرتی۔ ممکن ہے مارشل لاء والے ڈرکے پیشکش نہ کرتے ہوں کہ کہیں یہ قبول ہی نہ کرلیں۔

    ادب سے اتنا لگاؤ ہے کہ ’’نظم‘‘ کا پوچھو تو کہیں گے آج کل میں چلارہا ہوں۔ اس قدر، رحم دل ہیں کہ جب کار چلانے لگیں تو ساتھ بیٹھنے والے سے پوچھ لیتے ہیں کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے تو نہیں۔ من کی بات سب کو بتا دیتے ہیں۔ بات من سے کم کی ہو، تب بھی سب کو بتا دیتے ہیں۔ ان کی ہلکی پھلکی باتوں میں بھی بڑا وزن ہوتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کو ہر بات بتا کر چلتے ہیں۔ وہ تو لطیفہ سنانے سے پہلے بتا دیتے ہیں کہ یہ لطیفہ ہے تاکہ سننے والوں کو پتہ ہو۔ زیادہ بولتے ہیں نہ کم۔ اتنا دیکھتے نہیں جتنا دکھتے ہیں۔ بات سنجیدہ کرتے ہیں مگر مزاحیہ انداز میں۔ جب کہ سیاست دانوں کا انداز سنجیدہ ہوتا ہے بات مزاحیہ۔ وہ عورت کو آدھا سمجھتے ہیں۔ اس لیے اپنی گھریلو زندگی میں اسے پورا کیا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ آپ نے دوسری شادی کرنے کے لیے کیا کیا؟ تو یہی کہیں گے، اس کے لیے پہلی شادی کی۔

    رمضان واحد مہینہ ہے جس میں وہ گھر پر رہتے ہیں۔ اس لیے گھر میں ان کے قیام کو تیسرا دن ہو جائے تو گھر والے سحری کا انتظام کرنے لگتے ہیں۔ وہ سیاست میں کئی آدمیوں پر بھاری ہوں نہ ہوں وہ کئی آدمیوں سے بھاری ضروری ہیں۔ انہیں کرسی کا لالچ نہیں کیونکہ ان کے ہاں سب کچھ فرشی نشستوں پر ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے والد کے کام کو ترقی دی۔ وہ ایک پارٹی چھوڑ کر گئے تھے، انہوں نے اسے ترقی دے کر دو بنائیں۔ وہ دنیا سے زیادہ دین کا علم رکھتے ہیں۔ ان کی سیاست بھی ایسی ہے کہ اس کا اجر اگلی دنیا میں ہی ملے تو ملے۔ وہ بنیادی طور پر ایک مدرس ہیں اور جمعیت علمائے اسلام کو یو ں چلا رہے ہیں جیسے مدرسہ چلا رہے ہوں۔ سیاست میں ان کو وہی مقام حاصل ہے جو فلموں میں مسرت شاہین کو۔ مذہب کے یہ ملا دو پیازہ سیاست کے ملا دو پلازہ ہیں۔

    مأخذ:

    مزاح بخیر (Pg. 69)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے