aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مونچھیں

MORE BYآوارہ حیدرآبادی

    میں اب تک اس غلط فہمی میں تھا کہ مونچھیں جو آج لگ بھگ تین بیسی ساٹھ برس سے دَم کے ساتھ چلی آرہی ہیں، میری اپنی جائداد ہیں اور نائی کو چھوڑ کر، جسے صرف اتنی چھوٹ ملی ہے کہ ہر دوسرے تیسرے، وہ بھی اپنی رائے سے نہیں، میری مرضی کے مطابق ان کی نوک پلک ٹھیک کردے، اور کسی کو ان کی کتر بیونت، کاٹ جھانٹ میں دخل دینے، مین میکھ نکالنے کا حق نہیں۔ اِن کا اَن داتا ہوں تو میں، پالن ہار ہوں تو میں، اور میرے اس پیدائشی حق میں کوئی ساجھی نہیں، یہ میری اور صرف میری ہیں۔

    چنانچہ میں اِن مونچھوں کی شکست و ریخت میں اپنی من مانی کرتا رہا، اور کسی بڑے سے بڑے افلاطون خاں کو کبھی ان کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اب ایک خدائی فوجدار، دخل در معقولات، مان نہ مان، میں تیرا مہان قسم کا گروہ نکلا ہے جو اور تو اور ان مونچھوں پر بھی اپنا عملہ دخلہ جتاتا ہے۔

    جب سے میں برت رہا ہوں، ان مونچھوں پر کئی دَور بنتے ہیں۔ برس پندرہ یا کہ سول کا سن، جو اوپر کے ہونٹ پر ریشمی رواں چمکا، اور مسیں بھیگیں، تب شُبھ گھڑی نیک ساعت دیکھ کر کنبے برادری کی بیویوں کو بلاوا دیا گیا۔ سورج ڈھلنے سے پہلے کورے کونڈوں میں گرم گرم جلیبیاں بھر کے چوکیوں پر جمایا گیا۔ مہمانوں میں سب سے بڑی بوڑھی سہاگن نانی دادی نے نیاز دے کے پہلی جلیبی کھائی پھر باقی بیویاں جُٹ پڑیں اور دم کے دم میں کونڈے صاف کرکے مبارک سلامت کہتی رخصت ہوگئیں۔

    اس رسم نے گویا اعلان کردیا کہ صاحبزادے نامِ خدا جوان ہوگئے۔

    چڑھتا خون، مونچھوں کی فصل دن دونی، رات چوگنی بڑھنے لگی، اور میں سوچتا رہا کہ انہیں کس سانچے میں ڈھالوں، اور چہرے کا کنیڈا دیکھتے ہوئے کس فیشن کی پالوں۔ پڑوں میں ڈولی کا اڈّا تھا۔ مونچھوں کے فرق سے اپنی اور ایک کمہار کے چہرے کی کاٹ ملتی جلتی پائی۔ دس پندرہ دن کی لگاتار اینٹھن میں اپنی مونچھوں کا روپ بھی وہی بن گیا، مری اور لِلَتوار کمہار کی مونچھیں جڑوا بہنیں دکھائی دینے لگیں۔ وہی کڑوے تیل سے چکنائے، چمکیلے بال، وہی نوکیں چھلّے دار۔

    کچھ دن بعد ایکا ایکی ان سے جی بھر گیا۔ جانتے ہیں آپ کیا کیا میں نے؟ ان چھلّوں کو ریورس گیئر میں ڈال دیا۔ انگلیوں کے پورے سُن پڑگئے۔ تب کہیں ان چھلّوں کے بل نکلے۔ نئے نمونے کی تلاش میں تھا جو اپنے ایک اسکول ماسٹر کی مونچھیں پسند آئیں۔ ماسٹر صاحب پڑھاتے کم تھے، کاسمیٹک کی پُٹ دی ہوئی چُہیا کی دم مونچھوں کا رعب زیادہ جماتےتھے۔ یہ وضع نبھ نہ سکی۔ کاسمیٹک کی بو سے بار بار چھینکوں کی باڑھ چلنے لگی، اور زکام نے ناک میں دم کردیا۔ ناچار انہیں سلام کرنا پڑا۔ اب جو فیشن میں نے بدلا اس سے مونچھوں کی شکل مڈل بریکٹ جیسی بنتی تھی۔ اس کے لیے دونوں نوکیں اکھاڑ کر کلوں سے چپکانا، اوپر سے پٹّی باندھنا پڑی۔ یہ تو کسی نے جانا نہیں کہ پٹی تلے کیا بھید ہے۔ ہونٹ پر بل توڑ نکلا سمجھ کر کسی نے پلٹس باندھنے کی صلاح دی تو کسی نے آپریشن کرانے کی۔ پٹی بندھی رہی۔ کھلی تو نئے ٹھپّے کی مونچھیں تیار تھیں۔ نہایت شاندار، بڑے رعب داب کی، قصیر ولیم کی مونچھوں سے ٹکر لینے والی۔

    ارے صاحب ایک قانونئے دوست سے ملاقات ہونے پر یہ خطرناک نکتہ کھلا کہ کھڑی نوکوں کی یہ اَنی دار مونچھیں، انسانی کمزوری کے کسی نازک لمحے میں ضرر شدید کا سبب اور جرم قابل دست اندازی پولیس بن سکتی تھیں، اور میں بیٹھے بٹھائے تعزیرات کی دفعہ فلاں کی رو سے، پہلے حوالات، پھر ترقی پاکے جیل خانے بھیجا جاسکتا تھا۔

    سوچا۔ بات لگتی ہوئی تھی۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، ایک دم استرا پھروا دیا۔ یہ عمل مدّتوں جاری رہا۔ شامت جو آئے دفعتاً من میں اچنگ اٹھی کہ مونچھیں پھر سے پالی جائیں۔ اس فیصلے کااعلان کرنا کیا تھا، بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنا تھا۔ نہیں نہیں کرکے دس بارہ شہری چمٹ ہی تو گئے۔ سب نے ایک آواز ہوکر کہا ’’بسنت کی کچھ خبر ہے جناب کو؟ آپ اب اپنے بس میں نہیں پرائے بس میں ہیں۔ جگ بھاتا پہننا تو پڑتا ہی ہے۔ اب من بھاتا کھانے پر بھی ہم پنچوں کی مہر ہوگی۔ تب ہی نوالہ توڑنا ہوگا۔‘‘ ان میں سےایک نے فرمایا ’’بارہ برس سے منڈنے والی مونچھیں اب ٹائم بار ہوچکیں۔ آپ نے رکھ لیں تو ہم پنچوں کی آنکھ میں پھانس کی طرح کھٹکیں گی۔ اور بھی سنیے آپ نے مونچھیں پال لیں تو بہتر جگہ اپنا حلیہ بدلوانا پڑے گا۔ پھر محلے بھر کے کتے آپ کو اجنبی جان کر بھونکیں گے۔ پچاس جگہ بیان حلفی دیناہوگا کہ آپ وہی ہیں کوئی محتاط لوگ آپ پر جاسوس ہونے کاشبہ کریں گے۔‘‘ اس پر سب نے مل کر ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اور نہ سہی مجھ میں ایک بڑی کمزوری ہے، وہ یہ کہ میں امن پسند شہری ہوں۔ ان پنچوں کی دھونس میں آگیا، مگر رہ رہ کے سوچتا ہوں کہ آخر یہ مونچھیں ہیں کس کی، میری یا ان پنچوں کی؟

    آنے کو تو پنچوں کی دھونس میں آگیا، مگر اپنی بے بسی پر اندر ہی اندر کھولتا رہا۔ سوچا تھانےمیں رپٹ کردوں، اور مونچھوں میں خواہ مخواہ درمعقولات کے ارتکاب یا اور کسی دفعہ کے تحت نتھی کراکے ان پنچوں کی ٹنڈیاں کسوا دوں۔ کچہریوں کےکیڑے ایک منشی جی سے مشورہ کیا جنہوں نے حق المحنت کے پیشگی دو چہرے شاہی ہتیاکے بتایا کہ ’’مداخلت بے جا کا معاملہ ہوتا تو آپ کا کیس سو بسوے ہرا تھامگر دخل در معقولات کے بارے میں قانون ساکت ہے۔ آپ پنچوں کا بال بیکا نہ کرسکیں گے۔‘‘ پھر بڑی اپنایت سے شہری تعلقات کارشتہ جتاکر فرمایا ’’اس مشورہ کی فیس نہ لوں گا، آپ ہمارے صاحب سے مل لیں۔ وہ مخالف کو زچ کردینے کے بادشاہ ہیں، ایسے ایسے قانونی گراور نایاب چٹکلے انہیں ازبر ہیں کہ ایک نہ ایک داؤں پہ رکھ کرکے حریف کو یوں چاروں شانے چت کردیں گے کہ پریوی کونسل تک آپ کابول بالا رہے گا اور آپ خم ٹھونک کے اپنی من مانی مونچھیں پالنے میں آزاد ہوں گے۔‘‘

    منشی جی کی بات کچھ جنچی نہیں۔ ’’صاحب‘‘ کے چنگل میں پھنس کر جیب ہلکی ہونے کامزید خطرہ تھا۔

    انتقام کی آگ بھڑکتی رہی اور میں مونچھوں کے غم میں جھلستا رہا۔ جویندہ یا بندہ۔ اب کے ایک بڑے مقدمہ باز، بلکہ یوں کہیے کہ مقدمہ ساز سے اپنا دکھڑا رونے کا موقع ملا۔ ساری داستان گہری آنکھوں سے سن کر بے ساختہ فرمایا ’’پنچوں کے فیصلے پر خاموش بیٹھنے میں تمادی عارض ہونے کا اندیشہ ہے۔ فوراً احتجاج کیجیے۔‘‘ احتجاج اگرچہ خاصا بھاری بھرکم لفظ ہے مگر ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں۔ اسے برتنے اور عمل میں لانے کی حد تک بالکل کورا ہوں۔ وضاحت چاہی، طریقہ پوچھا۔ کہنے لگے ’’اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے، رفعِ حاجت کے لیے ہُگڑ مچانے کو احتجاج کہتے ہیں۔ دو گرہ کالے کپڑےکی دھجی بازو پر باندھیے اور گلی گلی، کوچے کوچے ’’مونچھیں زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے پھریے۔ اپنا مہرہ دوزورا کرنا ہو تو دوچار رپئے کا منھ نہ کیجیے۔ آس پاس کے دس بارہ مادر پدر آزاد لونڈوں کو چکھی دے کے اپنا ہم نوابنائیے اور سمجھ لیجیے کہ بازی جیت لی۔‘‘

    تجویز بہ ظاہر سولہ آنے کارگر تھی مگر امن عامہ میں خلل ڈالنے، یا دماغی توازن کھوبیٹھنے کی پاداش میں اپنی پیدائشی آزادی سے ہاتھ دھونے کی ہمت نہ ہوئی۔ آدمی تھے قیافہ شناس۔ تیور دیکھ کے تاڑ گئے کہ یہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ بولے، ’’اچھا احتجاج کی کڑیاں آپ نہیں جھیل سکتے، جانے دیجیے۔ دوسرا سستا نہایت مجرب نسخہ بتاتا ہوں۔ بھوک ہڑتال۔ سورج نکلنے سے پہلے ڈٹ کر ناشتہ کرنا اور پنچوں کی چوپال کے سامنے چوراہے پر آلتی پالتی مار کے چُپ چاپ بیٹھ جانا۔ دن چڑھتے چڑھتے شہر میں بات پھیل جائے گی۔ اپنے پرائے ہمدردی کرنے لگیں گے۔ فاقہ شکنی کےلیے پنچوں پر دباؤ پڑے گا اور شام ہوتے ہوتے آپ پھر سے مونچھے پالنے کاپروانہ لے کر ہار پھول سےلدے ہوئے گھر آجائیں گے۔‘‘

    میں نے کہا ’’یہ بھی تو سن لیجیے کہ میں بھوک کا کچا ہوں، دوپہر تک بیٹھک نہ سنبھال سکوں گا۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ کھانا دیر سے ملنے پر بچوں کی کہن سال مال کے لیے طلاق ہونٹوں تک آکے لوٹی ہے۔‘‘ اپنے مشورہ کی یوں توہین ہوتے دیکھ کے جھلّا گئے اور بولے، ’’یہ نہیں، وہ نہیں! تو مونچھیں جائیں جہنم میں، تمہیں اتنا کچ پیندیا جانتا تو اپنا اشرفی تولے کاوقت کبھی ضائع نہ کرتا۔‘‘

    الغرض دن سرکتے گئے اور گتھی نہ سلجھی۔ اب طرفہ ماجرا سنئے۔ ایک دن جیسے القاہوا، دیوانِ حافظ نکالا اور دل میں کہاکہ ان رحمۃ اللہ علیہ سے بھی مشورہ کر دیکھوں۔ شاید کہ ہمیں بیضہ برآرد پرو بال۔ بڑے خشوع خضوع سےفاتحے کا ہفت خواں سر کیا اور شاخِ نبات کے ہزاروں واسطے دے کر فال طلب کی۔ دل دھڑک رہا تھا۔ ہاتھ میں لرزش تھی، جو دیوان کھلا، اور صفحے کی پہلی ہی سطر میں ع مرَدے از غیب بروں آید و کارے بکند کی خوشخبری دیتا ہوا یہ مصرع نکلا۔

    اس ’’مَردے از غیب‘‘ کے انتظار نےدماغ میں قیامت کی ہل چل ڈال دی،یعنی ع جو کوئی بولا، صدا کانوں میں آئی آپ کی۔ کسی نےدروازہ کھٹکھٹایا ’’وہ آیا‘‘ کہہ کے لپکا۔ ڈاکیہ تھا۔ بیرنگ خط لایا تھا۔ لاحول ولاقوۃ۔ پھر زنجیر کھڑکی۔ اس بار حلال خور تھا۔ دوپہر کی روٹی لینے آیا تھا۔ اسی طرح کئی بارمَردے از غیب کے سلسلے میں گھن چکر بنا رہا، قریب تھا کہ صبر کاپیالہ چھلک جائے۔ اور حافظ جی کادیوان دریا بُرد کردوں جودروازے پر کسی نے دستک دی۔ منہ سے کچھ اَول فول نکلنے کو تھاجو سنائی دیا ’’دُہائی میاں کی‘‘ باہر آیا، میرا شکمی کاشتکار کریمو کبڑیا تھا۔ ’’کیا ہے کریم بخش‘‘، ’’دہائی ہے میاں کی، بیگھابھر گوبھی کی پَودلگائی تھی، گاؤں کا مکھیا لٹھ باندھے کنویں پہ بیٹھا ہے، پانی روک رکھا ہے، پودمرجھا کے زمین ناپنے لگی ہے، چل کے پانی دلوائیے۔‘‘

    مکھیا شورہ پشت تھا، فوجداری کی نوبت آتی تو اپنا دامن بھی الجھنے کا ڈر تھا۔ جانا پڑا۔ قضیہ رفع دفع ہوا تو اور کئی کام نکل آئے، اور حافظ جی کا ’’مَروے از غیب‘‘ ذہن سےاتر گیا۔

    شہر میں کہاں تو مونچھوں کو ترس گیا تھایا اب گاؤں کی فضا میں ادھر کریمو کبڑیے کا کھیت شاداب ہوا، ادھر میری مونچھیں چمکیں۔ پانی کو دیکھ کر جیسے مرگی کا دورہ پڑتا ہے، ویسے ہی پنچوں کو نہ دیکھ کر مجھے بھی نئے سرے سے مونچھیں پالنے کی ہوک اٹھی، اور اس بار نئے ماڈل کی سوجھی یعنی نتھنوں کےعین نیچے، اوپر کے ہونٹ کے بیچوں بیچ اتھلا سا جوگڑھا ہوتا ہے اسے چھوڑ کرنائی سےادھر ادھر دو قط لگوادیے۔ نہ پوچھئے اس دن کی بے پایاں مسرت جب آئینے میں ہونٹ کا گڑھابالوں سے بھرپور پایا۔ گھر آیا۔ رات تھی، اطمینان کی نیند سویا۔ سویرے منھ ہاتھ دھو کے بنا سنورا اور بازار سے گزرتے ہوئے یہ مژدہ سُنا کہ پرانے پنچوں کی ٹولی ٹوٹ گئی اور دو ایک سے بھینٹ ہونے پر جھینپتے جھینپتے کتراکے نکل گئے۔

    ایک گلی میں کئی لونڈے گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے۔ ایک نے ہاتھ روک کے غور سے مجھے دیکھا اور پکار کے اپنی ساتھی سے کہا، ’’ابے چھدّا، دیکھ مونچھ منڈے آگئے۔‘‘ چھدّا بولا ’’اندھا ہے بے، تونے کیا دیکھا۔ ان کی مونچھ نے بچہ دیا ہے۔‘‘ اس پر سب نے قہقہہ لگایا اور میں یہ کہتا ہوا بڑھ گیا کہ ’’منہ پھٹ لونڈے ہیں، پنچ تو نہیں۔‘‘

    اب ایک سوال جواب طلب ہے کہ ’’کارے بکند‘‘ کریمو کَبڑیا تھا یا گوبھی کے روپ میں ’’مَردے ازغیب‘‘ نے جنم لیا تھا؟

    مأخذ:

    (Pg. 21)

      • ناشر: پبلیکیشنز ڈویژن، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے