aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ناٹک

MORE BYمشتاق احمد یوسفی

     

    بے در و دیوار ناٹک گھر بنایا چاہیے
    صحیح نام اور پتہ بتانےسے ہم قاصر ہیں، اس لیے کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ سردست اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ اس تھیٹر کو اداکاروں کی ایک کوآپریٹیو سوسائٹی نقصان باہمی کی بنیاد پر چلا رہی تھی۔ پہلی تاریخ کو بڑی پابندی سے مہینے بھر کا خسارہ تمام ممبران کو بحصہ مساوی بانٹ دیا جاتا تھا۔ صرف ٹکٹ گھر پختہ تھا کہ اس پر کھیل کے بعد اکثر حملے ہوتے رہتے تھے۔ ہال کی دیواریں اور چھت ٹاٹ کی تھیں، جن میں خلاف محاورہ پیوند بھی ٹاٹ ہی کے لگے تھے۔ چھت قمری کیلنڈر کا کام دیتی تھی۔ ٹاٹ کی قناتوں میں بھی جابجا سر کے برابر سوراخ ہوگئے تھے۔ کھیل کے شروع میں ان میں سرگھسا کر باہر والے اندر کا تماشا دیکھتے، آخر میں اندر والے گردن نکال کر باہر کی رونق دیکھ لیتے تھے۔ 

    فرسٹ کلاس کا ٹکٹ پونے نو آنے کا ہوتا تھا۔ اس میں صوفوں کا تکلف تھا، جن کے فولادی اسپرنگ لباس مجاز پھاڑ کر چھ چھ انچ باہر نکل آئے تھے۔ انہیں رانوں کے بیچ میں لے کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ چھ آنے کا تھا۔ اس میں سرکنڈوں اور لوہے کی پتریوں کے مونڈھے، مونچھ کی پیڑھیاں اور چنیوٹی کھٹولیاں پڑی تھیں۔ تیسری درجے میں فرشی نشست کا اہتمام تھا۔ فرشی سے ہماری مراد فرش خاکی ہے۔ اس کلاس میں جو ناظرین باتمکین زیادہ نک چڑھے واقع ہوئے تھے وہ گھر سے انگوچھے کے کونے میں ریزگاری باندھ کر لاتے۔ کسی گانے یا نازو ادا پر طبیعت بہت بے قابو ہوجائے تو نیچے سے نکال کر گوپھن کی طرح گھماتے اور اسٹیج پر داد کے انگوچھے برساتے۔ چند ’’ماہواری ناظرین‘‘ نے کٹے پاؤں کی پیڑھیاں ڈال رکھی تھیں جن پر بیٹھ کر وہ مہینے بھر مزے سے مونگ پھیلیاں اور پیچھے بیٹھنے والوں کی گالیاں کھاتے رہتے تھے۔ 

    رواداری میں ہم یہ بتانا تو بھول ہی گئے کہ پیچھے بیٹھنے والوں کی سہولت کے لیے ہال میں ’’نشستی‘‘ ڈھلان اس طرح پیدا کیا گیا تھا کہ اگلے یعنی اسٹیج سے ملحق حصے میں دوٹھائی فٹ گہری زمین کھود کر ایک اکھاڑا سا بنا دیا گیا تھا۔ اس میں فرسٹ کلاس والے خاک پھانکتے اور سیکنڈ کلاس والے لوٹیں لگاتے تھے۔ اکھاڑے کی دائیں بائیں منڈیر پر چند ’’خلیفے‘‘ پیر لٹکائے بیٹھے رہتے تھے۔ اسے گیلری سمجھ لیجیے۔ آرکسٹرا اور فرسٹ کلاس کے درمیان ہم نے ہمیں ایک پھاؤڑا پڑا دیکھا۔ اور کبھی کبھار یہ بھی دیکھا کہ پیچھے بیٹھنے والے کسی ’’ناظرین باتمکین‘‘ (تماشائی کے لیے ہمیشہ یہی صیغہ جمع استعمال ہوتا تھا۔) کو کسی دوسرے ’’ناظرین‘‘ کی ٹوپی یا کلف دار طرہ نظر آنے لگے تو وہ انٹرول میں خود پھاؤڑے سے ایک دو بالشت اکھاڑا کھود کر سرکش صوفے کو مع سرپر غرور زمین میں دھنسا دیتا تھا۔ اسی آلے کے پاس ایک ادھ کھدی قبر میں منشی ریاضت علی سوختہ سندیلوی کی کھٹیا پڑی رہتی تھی۔ ان کا صرف چہرہ اور مخمل کی چوگوشیہ ٹوپی پھدکتی نظر آتی تھی۔ 

    مصور دردمنشی ریاضت علی سوختہ
    یہ بزرگ جو ستر کے پیٹے میں ہوں گے، اسی کھٹیا پر گاؤ تکیہ لگائے صاحب فراش رہتے تھے۔ ایک پاؤں قبر میں، دوسرا سٹیج پر۔ سپید میدہ رنگ جو جوانی میں ہی نہیں، اب بھی شہابی تھا۔ تیکھے تیکھے نقوش۔ غلافی آنکھیں۔ بے شکن پیشانی۔ انہیں اس بڑھاپے میں بھی وجیہ کہا جا سکتا تھا۔ بَر میں سپید ململ کا چنا ہوا کرتا۔ کرتے پر کشیدے سے کڑھے ہوئے چنبیلی کے سپید پھول۔ پھولوں میں تازہ پان کارنگ بھرا ہوا۔ پھنسا پھنسا چوڑی دار پاجامہ۔ نڈھال نڈھال سے رہتے تھے۔ پاجامے کے علاوہ کسی چیز میں چستی نہیں پائی جاتی تھی۔ (پہننے کے بعد پائنچے کس کے سیتے تھے۔) سرخ ریشمی ازاربند میں ٹرنک کی چابی جھولتی رہتی۔ ازاربند بھی اتنا چھوٹا کہ اکڑوں بیٹھ کر تالا کھولنے سے پہلے خود اسے کھولنا پڑتا تھا۔ گرمیوں میں ہلالی عینک کی چاندی کی کمانیاں جلنے لگتیں تو ان پر سائیکل کا VALVE TUBE چڑھا لیتے تھے۔ تھیٹر کے رسیا تھے۔ 

    چالیس برس پہلے انہوں نے موجودہ ہیروئن کی نانی کوالفریڈ تھیٹر یکل کمپنی کے اسٹیج پر پہلے پہل لکھنؤ میں دیکھا تو اپنی لکڑیوں کی ٹال (جسے وہ ہمیشہ ہیزم سوختنی کہتے تھے۔) کو ٹھکانے لگا کے، ایک مونڈھا منڈپ میں ڈال لیا جو مرور ایام اور اضمحلال قوی سے پِسرتا پِسرتا ریلوے ویٹنگ روم کی چھ فٹ لمبے ہتھے والی کرسی بنا اور اب جھلنگے کا روپ دھار چکا تھا۔ اگر نیچے نقشین مرادآبادی اگالدان نہ رکھا ہوتا تو ان کی کمرفرش (فرش سے یہاں بھی وہی مراد ہے) سے جا لگتی۔ وہ مہ جبیں تو ایک مدت ہوئی اس بزم سے اٹھ گئی، مگر یہ یہیں کے ہو رہے کہ آسودگی کی جان اسی انجمن میں تھی۔ اس بی بی کے لب و رخسار اور آنکھوں کے گلابی ڈوروں کو یاد کرکے تو ہمیشہ آبدیدہ ہو ہی جاتے تھے لیکن آخر آخر میں اتنے رقیق القلب ہوگئے کہ اپنے مہوبے کے گلابی نسوں والے پان کی بھی یاد آجاتی تو گلارندھ جاتا جسے کسی حسب حال شعر سے صاف کرتے۔ 

    تھیٹریکل کمپنی نے انہیں روٹی کپڑے پر اداکاروں کا شین قاف درست کرنےکے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ اس کے علاوہ پہلی تاریخ کو سوڈیڑھ سو روپے ماہوار گھاٹا ان کے نام کھاتے میں درج کرکے بھرپائی کے دستخط کے لیے جاتے تھے۔ یہ منشی دل کے مکالموں میں جہاں تہاں سوزوگداز کے پیوند لگاتے جو بسا اوقات اصل سے بھی بڑے ہوتے تھے۔ مصور درد کہلاتے تھے۔ ہمارے سر میں بھی ان کے مکالموں سے کئی فعہ وہ ہوا جس کے یہ مصور کہلائے جاتے تھے۔ کسی سین میں کوئی بول، بھاؤ یا اپنا ہی کوئی پیوندی فقرہ پسند آجائے تو اچھل پڑتے۔ گویا بجلی کا شاک لگا ہو۔ دو زانو ہوکر انہی اعضا کو زور زور سے پیٹتے۔ کمال فن کے اعتراف میں اپنے دونوں کان پکڑتے اور زبان کو باہر نکال کر مصنوعی دانتوں تلے دبا لیتے۔ گردن دائیں بائیں ہلاکر زبان نکالے نکالے گونگی داد دیتے۔ آخر کے تئیں جب ناظرین کی نگاہیں اسٹیج سے ہٹ کر ان پر مرکوز ہو جاتیں تو کنکری پر ایک روپے کا نوٹ لپیٹ کر اسٹیج پر پھینک دیتے۔ ان کی دیکھا دیکھی تماشائی بھی سونے کے دانت والی ہیروئن پر نوٹوں کی بوچھار کر دیتے۔ ایک دن کسی نے ہمیں بتایا کہ تھیٹر والے انہیں سوا پانچ روپے یومیہ دیتے ہیں جن میں ان کے پھینکے ہوئے پانچ روپے بھی شامل ہوتے ہیں۔ 

    اس تھیٹر میں کوئی کسی کا آقا یا ملازم نہیں تھا۔ سب مل جل کر کام بگاڑتے اور ایک دوسرے کے سردرد اور مسائل میں اضافہ کرتے رہتے تھے۔ مکالمے تو بالعموم منشی دل کے ہوتے تھے، لیکن ناظرین کی اکثریت اور ہال کے ماحول کے پیش نظر ادا کار بھی ان میں فی البدیہہ تضمین اور حک و اضافہ کرتے رہتے تھے۔ مثلاً کسی دن ہال میں پٹھان ناظرین کی اکثریت ہو تو سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح کے منظر میں سرسے کفن باندھ کے گھمسان کا خٹک رقص ہوتا۔ ورنہ ہم جیسوں کو تو کتھک ناچ پر ہی ٹرخادیا جاتا تھا۔ اور اگر کسی دن فرسٹ کلاس میں کوئی بڑا کاٹھیاواڑی سیٹھ نظر آجائے تو ماسٹر غفار یعنی فرہاد، اپنا گنڈاسا یعنی تیشہ، کوہ بے ستوں کے دامن میں پھینک دیتا اور گجراتی مناجات کے ذریعے غیبی طاقتوں سے فوری تعاون اور ہنگامی امداد طلب کرتا۔ 

    سیٹ ڈیزائن
    سیٹ اور پردے بھی سب کی اصلاح و مشورے سے بنائے جاتے تھے۔ چنانچہ سینری کے ہررنگ سے مشورہ ٹپکتا تھا۔ ایک پردے پر گاؤں کا روح پرور منظر کچھ اس طرح دکھایا گیا تھا کہ ایک البیلی مٹیار آرزو اور تہذیب، دونوں سے کمتر لاچا باندھے، سرپہ ایک چمپئی رنگ کا گول مٹکا رکھے، بالکل اسی رنگ اور سائز کے دوکولہے مٹکاتی پنگھٹ جارہی ہے، جہاں حضرت امیر خسرو کے حلیے کے ایک بزرگ بغل میں ننگی تلوار دابے اوک سے پانی پی رہے ہیں۔ سارا ڈول خالی ہوگیا مگر نظریں کہہ رہی ہیں کہ ’’گوری! پردیسی کی پیاس نہیں بجھی۔ اور!‘‘ دور پس منظر میں گاؤں کے جوہڑ میں ایک اسٹیمر کھڑا ہے جس کی چمنی کے دھوئیں سے آسمان پر ’’اللہ‘‘ رقم ہو گیا ہے۔ سامنے گلابی گھاس پر ایک سبز رنگ کی گائے چر رہی ہے۔ 

    کونے میں گملا رکھا ہے جس میں گلاب کے پھول میں چنار کے پتے لگے ہیں۔ دائیں جانب ایک کتا دم سے سوالیہ نشان بنائے کھڑا ہے۔ کھیل کے آخری سین سے پہلے منیجر کمپنی ہذا اسٹیج کے کنارے پر کھڑے ہوکر اعلان کرتا کہ پبلک کے پرزور اصرار پر اور ’’کومپنی کی مشہوری کے لیے‘‘ کل بھی یہی کھیل نئی سین سینری کے ساتھ دکھایا جائے گا۔ سین سینری میں نیاپن اس طرح پیدا کیا جاتا تھا کہ انہی پردوں کی ترتیب الٹ دی جاتی تھی۔ مثلاً اسٹیج پر گھمسان کی لڑائی میں کسی کا دم واپسیں دکھایا جا رہا ہے تو پیچھے پنگھٹ والے پردے پر دو چمپئی مٹکے مٹک رہے ہیں۔ سوالیہ دم پوچھ رہی ہے ’’کون سی چال ہے یہ آگ لگاتے نہ چلو‘‘ ایسے میں آنکھوں کا دم نکلے تو کیوں کر نکلے۔ 

    نکاح روبرو، با ادب، با ملاحظہ
    ہرکھیل میں غزلیں داغ دہلوی اور نعتیں امیر مینائی کی گائی جاتی تھیں۔ غالب، اقبال، حسرت موہانی اور فیض کے وجود کی کمپنی ہذا کو ہنوز اطلاع نہیں ملی تھی۔ داغ کا سکہ گھس ضرور گیا تھا مگر کھوٹا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس صدی کی تیسری دہائی تک تو یہ حال تھا کہ اگر داغ کے کلام کے مجموعوں کی تمام کاپیاں تلف ہوجاتیں تو طوائفیں پوری کلیات املا کروا سکتی تھیں۔ ابھی اس کے عینی شاہد موجود تھے کہ اعلیٰ حضرت نظام دکن کے دربار ِدُربار میں جو تازہ غزل استاد داغ پڑھتے تھے، وہ ایک ہفتے میں سینہ بسینہ یعنی حسینہ بہ حسینہ، رؤسائے دلی و لکھنؤ و رامپور تک پہنچ جاتی تھی۔ (آج کل کی طرح اس زمانے میں ریڈیو اور ٹی وی تو تھے نہیں۔ لہٰذا شعر و شاعری سے بیزار کرانے کا کام صرف قوالوں اور طوائفوں ہی کو انجام دینا پڑتا تھا۔) 

    داغ ہی کے الفاظ میں سارے جہان، یعنی ہندوستان، میں ان کی زبان کی دھوم تھی۔ چنانچہ اس تھیٹر میں اکبر کے دربار میں، فیضی کی موجودگی میں بھی، تان سین داغ ہی کی غزل داغتا تھا۔ قرائن سے تو یہی لگتا تھا کہ اکبر دربار کا ڈھونگ ہی ہمیں یہ غزل سنوانے کے لیے رچاتا تھا۔ کیا شوکت و دبدبہ تھا اس دربار کا! جب طرحدار کنیزوں، چوب بردار جسولنیوں، قلماقنیوں، اردہ بیگنیوں اور راجستانی پاتروں کی دو رویہ قطار سے مغل اعظم کاغذ کا پھول سونگھتے ہوئے نزول اجلال فرماتے تو ایک جاہل نقیب چوب نقرئی ٹھونک ٹھونک کر صدا دیتا، ’’نکاح روبرو! با ادب، با ملاحظہ ہوشیار!‘‘ 

    سارے اسٹیج کی لکڑیاں اور لڑکیاں لرز اٹھتیں۔ خدا جانے اس میں اس کے تلفظ و نیت کا خلل تھا یا ہمارے اپنے حسن سماعت کا دخل۔ نکاح کی شرعی دھمکی کے علاوہ ’’ہوشیار!‘‘ بھی اس گھن گرج سے ادا کرتا جیسے اندھیری راتوں کو چوکیدار لاٹھی بجابجاکر چوروں اور نقب زنوں کو خلق خدا سے ہوشیار خبردار کرتے ہیں۔ اس زمانے میں ہال میں سگرٹ بیڑی پینے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ البتہ اسٹیج کے دائیں چوبی ستون یعنی بلی پر ایک نوٹس آویزاں تھا، ’’شراب پی کر دند مچانا، دنگا کرنا منع ہے۔‘‘ حالات سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ ناظرین نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ بغیر شراب پئے، دنگا فساد کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ 

    مرزا راون کے روپ میں
    سچ تو یہ ہے کہ اسٹیج اور اس کے رموز و لذائذ سے ہماری واقفیت بچپن میں رام لیلا اور بعد میں کالج ڈراما سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اور وہ بھی مرزا عبدالودود بیگ کے طفیل و توسط سے۔ مسلمان لڑکوں کو اس زمانے میں رام لیلا میں کوئی رول دینے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔ ہمیں تو ہنومان جی (بندر سینا کے سردار جنہوں نے لنکا کو آگ لگائی تھی۔) تک کا پارٹ نہ ملا۔ خیر اس کی تو یہ معقول وجہ ہو سکتی تھی کہ ہمارے دم نہیں تھی۔ صورت بھی اس زمانے میں ان سے نہیں ملتی تھی۔ ان دونوں مرزا (عمر ساڑھے بارہ سال) محلے کی سیتا (عمر ۹ سال) پر جی جان سے فریفتہ تھے۔ بارہا اس کا نام کانپ کے نیچے لکھ کر اس کے گھر کے رخ پتنگ اڑائی ہی نہیں بلکہ محلے کے لونڈوں سے کٹوائی اور لٹوائی بھی۔ دسہرے سے چار روز قبل رام چندرجی کے حواریوں نے راون کی ایسی پٹائی کی کہ کوئی ہندو لڑکا راون بننے کے لیے راضی نہ ہوا۔ اس آڑے وقت میں مرزا نے اپنی خدمات یعنی پیٹھ پیش کی۔ 

    کہنے لگے جب تک میرے دَم میں دَم ہے محلے میں رام لیلا ضرور ہوگی۔ ایک بندریا کے روٹھ جانے سے برندابن سونا نہیں ہوجاتا۔ راون کے رول کی واحد دلکشی ان کے لیے یہ تھی کہ اس میں سیتا کو اغوا کرنے کا موقع ملتا تھا۔ مزید برآں، مرزا کے پاس ایک پالتو ہرن بھی تھا جس کی رام لیلامیں ہر سال ضرورت پڑتی تھی۔ مرزا کو راون کا پارٹ ملا تو انہوں نے ہمیں اپنا مہامنتری مقرر کیا کہ ہم اس زمانے میں بھی ان کی اردلی میں تھے۔ (مرزا آج بھی ہمارے بغیر کوئی مشتبہ و پرخطر کام نہیں کرتے۔ کہتے ہیں پل صراط پر بھی تمہارے بغیر قدم نہیں رکھوں گا۔ گمان غالب ہے کہ وہ ہم پر سوار ہوں گے۔) ہمارا کام یہ تھا کہ جب وہ سیتاجی کو لے کر فرار ہوں تو کم از کم دس منٹ تک ہم ان کے عوض رام چندر جی کے عقیدت مندوں سے مار کھاتے رہیں، تاکہ وہ دوسری گلی میں مغویہ سے جی بھر کے باتیں کر سکیں۔ دوسرا کام ہمارے سپرد یہ تھا کہ جب وہ راون کے دس چہروں والے ’’ماسک‘‘اور پٹائی سے پسینے میں شرابور ہو جائیں تو ہم مورچھل سے انہیں ہوا کریں۔ اور ایک بوتل لیمونیڈ سے چھکا کر لنکا ڈھانے کے منصوبے سمجھائیں۔ 

    ونس مور! یہ ہمیں مرزا عبد الودود بیگ ہی نے بتایا کہ اسٹیج کے پہلے پردے کے اوپرجو جھالر ہوتی ہے اس کی اوٹ میں خالی مٹکوں کی ایک قطار تھی جن کے پیندے ناظرین کی طرف اور منھ ایکٹر کی طرف۔ مقصد ان کا ایکٹر کی آواز میں گونج اور گرج پیدا کرنا تھا۔ یہ مائیکروفون کا نعم البدل تھے۔ مرزا ہی سے مروی ہے کہ ان کی موجودگی کا انہیں اس وقت علم ہوا جب ایک گھڑا سہراب کے سر پر عین اس وقت گرا جب وہ ناخلف اپنے باپ رستم سے ہاتھ چلا چلا کر نہایت مقفیٰ و مسجع اردو میں گستاخانہ گفتگو کر رہا تھا۔ پردہ کھینچنے کے فرائص خود منیجر کمپنی ہذا سیاہ ’’بو‘‘ لگائے اپنے دست خاص سے انجام دیتے تھے۔ ونگ میں دوہرے ہو کر اس طرح کھینچتے تھے جیسے گہرے کنویں کے ڈول کو پنہاری۔ پردہ گرانے میں بھی بعض اوقات اتنی دیر لگتی کہ اسٹیج پرپڑی ہوئی فنا پتھلین (لہو رنگ جو چند منٹ میں اڑ جاتا ہے۔) کے خون میں لت پت لاش میں زندگی کے آثار پیدا ہو جاتے۔ 

    شائقین کو موت یا قتل کا کوئی سین بطور خاص پسند آتا اور ’’ونس مور! ونس مور!‘‘ کی صدائیں آتیں تو اسے بار بار دکھایا جاتا۔ مقتول اٹھ اٹھ کر حیدرآبادی انداز سے ہاتھ کا اوک بنائے سب کو آداب و تسلیمات بجا لاتا اور پھر انتقال فرما کے دکھاتا۔ دیکھنے والے بالعموم ٹریجڈی پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ بعض ڈرامے ہی ایسے ہوتے تھے جن میں اصل مجرم یعنی مصنف کے علاوہ سب قتل کردیے جاتے تھے۔ ہر کردار کو چن چن کر کیفر کردار کو پہنچادیا جاتا۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے پردے کے پیچھے سے کوئی صاحب گھڑے میں منہ ڈال کر گونج دار آواز میں لاکھ برا چاہنے والے مدعی کو مطلع کرتے، وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس سے ان کی مراد وہ تھی، جو کچھ اسٹیج پر ہوتا تھا تو اس کی منظوری کا الزام خدا پر رکھنا، منشی ریاضت علی سوختہ سندیلوی کی سریحاً حق تلفی ہوگی۔ 

    ٹریجڈی کو کامیڈی میں بدلنے کا نسخہ
    اس زمانے کے چلن کے مطابق ٹریجڈی کو کامیڈی کا رنگ دینے کی یہ ترکیب نکالی گئی کہ تمت بلاخیر یعنی آخری سین میں عاشق نامراد کی تربت دکھائی جاتی جس پر ایک ہزار کینڈل پادر کا نور برس رہا ہے۔ سوگوار ہیروئن سیاہ برقع اور سیاہ چوڑیاں پہنے، طباق سا منھ کھولے آتی ہے۔ اسٹیج کے عقب میں خالی کنستروں پر کود کود کر بجلی کڑکنے کا صوتی تاثر دیا جاتا ہے۔ ہیروئن ایک ہاتھ میں چھتری اور دوسرے سے غرارے کے پائینچے اٹھائے ہوئے ہے جس سے بھری برسات کے علاوہ بھری بھری پنڈلی کا سماں بھی دکھانا مقصود ہے۔ وہ ’’السلام علیکم یا اہل القبور!‘‘ کہہ کر قبر سےلپٹ جاتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے علاوہ اسٹیج پر بھی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ بجلی پھر کڑکتی ہے اور قبر شق ہو جاتی ہے۔ اس میں سے ہیرو مرحوم و مدفون، علی گڑھ کٹ پاجامہ، ترچھی رامپوری ٹوپی اور عطر سہاگ لگائے، کفن پھاڑ کے برآمد ہوتا ہے۔ 

    ہیروئن قبر چھوڑ کر اہل قبر سے بغل گیر ہوتی ہے اور دونوں قبر پر بیٹھ کر بلمپت میں حمد گاتے اور آفات ارضی و سماجی کو للکارتے ہیں۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ یاپھر فردوس بریں کا منظر ہوتا ہے جہاں مردوں کی سرگرمیاں دکھائی جاتی ہیں۔ مرحومین یعنی شیریں اور فرہاد باغ ارم میں چہلیں کرتے دکھائے جاتے ہیں۔ متوفی بڑھ کر متوفیہ کو آغوش محبت میں کھینچتا ہے تو وہ بامحاورہ اردو میں یہ کہتی ہوئی کہ ’’ہٹو! یہاں بھی کانٹوں میں گھسیٹتے ہو!‘‘ کانٹوں کو گلے سے لگا لیتی ہے۔ ہیرو اس کا جواب عام فہم اور سلیس سسکیوں میں دیتا ہے۔ میت کے پانچ بچے بھی دکھائے جاتے ہیں جن کی عمروں میں صرف ایک ایک مہینے کا فرق ہوگا کہ یہ منشی ریاضت علی سوختہ کی ذہنی کوکھ سے جنمے تھے۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ 

    شاذ و نادر ہی کوئی ایسا ڈرامہ ہوتا تھا جس میں فرض اور محبت کی خونیں ٹکر نہ دکھائی جائے۔ مثلاً منشی ریاضت علی سوختہ سندیلوی نے پانچوں انگلیاں خونِ دل میں ڈبو کر ایک رقت انگیز سین لکھا تھا، جس میں شہزادہ سلیم کو اپنے ہی نام کی شاہی جوتی پہنے اسٹیج پر لمبے لمبے ڈگ مارتا، جذباتی کش مکش میں مبتلا دکھایا جاتا ہے۔ ایک طرف فرض ہے۔ دوسری طرف محبت۔ اور تیسری طرف۔۔۔ جدھر منشی جی کی نظر نہیں گئی۔۔۔ عقل سلیم یعنی COMMONSENSE انار کلی کے گریبان میں منھ ڈالے کھڑی ہے۔ آخر میں تینوں لہولہان ہوجاتے ہیں۔ فتح تینوں میں سے کسی کی نہیں ہوتی۔ فتح ہوتی ہے منشی ریاضت علی سوختہ سندیلوی کے ایک ناموزوں مصرع کی، جس پر کھیل کا خاتمہ ہوتا ہے۔ 

    اسٹیج کے آلات کشاورزی
    فرسٹ کلاس میں بیٹھنے والوں کو گرین روم میں جاکر اداکاروں کو مبارکبادکے علاوہ نقدی دینے پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی۔ گرین روم کی دیواریں چٹائی کی اور ستون بانس کے تھے۔ چھت یاد نہیں کاہے کی تھی۔ غالباً سیمنٹ کی نہیں تھی۔ چق سے ذرا دور، میک اپ کے لیے، ایک کھوکھے پر چیچک زدہ قد آدم آئینہ رکھا تھا۔ اس آئینے میں چہرہ نظر آنا تو بعد کی بات ہے، خود آئینہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ قدآدم ہم نے اس لیے کہہ دیا کہ آدمی کا قد ساڑھے تین فٹ بھی تو ہوسکتا ہے۔ اس کے پہلو میں تخت طاؤس پڑا تھا جو اچھے دنوں میں ڈینٹسٹ کی کرسی رہ چکا تھا۔ اب اس پر نادر شاہ درانی کے دانت تھے۔ چاروں طرف، بقول پروفیسر قاضی عبدالقدوس، ناٹک کے آلاتِ کشاورزی بکھرے پڑے تھے۔ 

    نور جہاں کے دو کبوتر، نظام سقہ کی مشک، مجنوں کا گریبان، لات گھونسے کھانے والے ولن کی پیٹھ کا حفاظتی پیڈ، سائیڈ ہیروئن کی چولی بھرنےکے لیے گودڑ جو غالباً کسی تیلی کے لحاف میں سے نکالا گیا تھا اور جس سے بقول حضرت جوش ملیح آبادی ’’جھل جھل کرتی چست انگیا کی کٹوریوں میں زیر تعمیر تاج محل کی ہمکار‘‘دکھانی مقصود تھی۔ (معاف کیجیے جوش صاحب کے مستورہ بالا استعارے کا سہارا ہم نے محض اس رعایت سے لیا کہ دیکھا جائے تو تاج محل کے گنبد تلے آخر دو مردے ہی تو دفن ہیں۔) سائیکل کے اگلے بریک کے دو شاخہ سے بنایا ہوا اسٹیتھس کوپ جسے کانوں سے لگا کر ڈاکٹر مریضہ کے گودڑ کا معائنہ کرتا تھا۔ قارورے ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹری سے خریدی ہوئی خالی بوتلیں جنہیں رانا سانگا کے ساتھ جنگ کرنے سے پہلے توڑ کر بابر شراب نوشی سے توبہ کرتا تھا۔ باتھ روم فلش کی زنجیر پر سنہری پینٹ کیا ہوا تھا۔ یہ زنجیر عدل تھی جسے کھینچ کر فریادی جہانگیر سے فوری حاجت روائی چاہتے تھے۔ آئینے کے پاس ویمپ کی ربر کی ناک پڑی تھی جسے وہ حرافہ ہر شب کٹواتی تھی۔ اتوار کو دو دفعہ کٹتی تھی، اس لیے کہ میٹنی شو میں بھی اپنی بدذاتی سے باز نہیں آتی تھی۔ 

    چوڑی دار پاجامہ
    کھیلوں میں زنانہ ملبوسات کی تراش خراش تو ظاہر ہے وہی تھی جو اس زمانےمیں الٹرا ماڈرن سمجھی جاتی تھی۔ یعنی وہ جو آج کل ہر گھر میں نانیاں دادیاں پہنتی ہیں۔ لیکن ایک نکتہ آج تک سمجھ میں نہ آیا۔ وہ یہ کہ عورت کو جب پاکباز، پتی ورتا یا باعصمت دکھانا مقصود ہوتا تو اسے چنا ہوا دوپٹہ اور سفید چوڑی دار پاجامہ پہنایا جاتا۔ تاڑنے والے مہین مہین چنٹوں اور پاجامے کی چوڑیوں کی تعداد ہی سے عصمت کی شدت کا اندازہ کر لیتے تھے۔ لیکن جب وہ بدراہ یا مائل بہ بدی ہوتی تو ساری زیب تن کرلیتی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی کوئی گل اندام ساری پہن کر اسٹیج پر نمودار ہوتی، ناظرین کے دل کا کنول کھل جاتا۔ پرامید نظروں سے تھپتھپاتے۔ دیر تک تالیاں بجتیں۔ جن کے منھ میں دانت تھے وہ سیٹیاں بھی بجاتے۔ 

    انتہا یہ کہ انار کلی نے مغل اعظم کے سامنے بھی مرہٹی اسٹائل سے ساری باندھ کر زخمی مورنی کا رقص کیا۔ یہ رقص بے مثال و بے نظیر تھا۔ اس لحاظ سے کہ اول تو مورنی کبھی ناچتی نہیں۔ دوم، اس مورنی کے پیر خوبصورت ہونے کے علاوہ محاورۃ بھاری بھی تھے۔ اور اس صورتِ حال کی مبینہ ذمہ داری شہزادہ سلیم کے بجائے ایک شرارتی چوب دار پر عائد ہوتی تھی۔ رقص کے لباس کے معاملہ میں انارکلی کی چھوٹی بہن ثریا اور بھی اختصار پسند واقع ہوئی تھی۔ سینۂ ہمشیر سے باہر ہے دم ہمشیر کا۔ 

    پردہ اٹھتا ہے
    شوکے اوقات میں تھیٹر یکل کمپنی گھڑی گھنٹے کی غلام نہ تھی۔ ۳ /۲ ہال کے ٹکٹ بک جائیں تو پھر ایک گھنٹہ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ ٹکٹ گھر کی کھڑکی پر ایک چار فٹ لمبی تختی مستقل لگی رہتی تھی، ہاؤس فل نہیں ہے۔ پردہ اٹھنے سے پہلے تین رہکلے داغے جاتے تھے۔ یہ وہی توپیں تھیں جن کے چلتے ہی ایک کھیل میں غنیم کے ہاتھی اس بری طرح بدکے تھے کہ ایک تو اپنی چپل اور بیڑی کا بنڈل بھی چھوڑ گیا۔ پلاسی کی جنگ میں جب یہ بونی توپیں چلتی تھیں تو جتنی دور گولہ جاتا، اس سے دو چار گز آگے اچھل کر یہ خود پہنچ جاتی تھیں۔ جو عیار فرنگی گولے سے بچ نکلتا وہ ان سے ڈھیر ہو جاتا۔ پردہ اٹھتے ہی سب مل کر سلامی گاتے۔ تھیٹر کی دھنوں کے ٹکڑے، کبھی کبھار ریڈیو کی ٹرانسکرپشن سروس سے نشر ہوتے ہیں تو ایک دوسری دنیا میں لے جاتے ہیں۔ کسی کی یاد سے وابستہ خوشبو کا جھونکا، کسی بھولے بسرے نغمے کی گونج ایک پل میں اس ہمزاد کو سامنے لا کر کھڑا کردیتی ہے جسے زندگی کے کسی موڑ پر تنہا چھوڑ کر ہم آگے چلے آئے۔ 

    وکیل صفائی
    ڈھائی تین سال تک تو اتوار بھی بینک میں گزرتا تھا۔ بارے فراغت نصیب ہوئی تو اتوار کی صبح پاک بوہیمین کافی ہاؤس میں مرزا عبد الودود بیگ اور پروفیسر قاضی عبد القدوس سے عالمی مسائل پر مناظرہ کرنے جانے لگے۔ اور سہ پہر کو اس تھیٹر میں گنڈے دار حاضری۔ اتوار کا میٹنی شو پابندی سے دیکھنے والوں کو دو آنے رعایت دی جاتی تھی۔ لیکن ہمیں کبھی اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کا اتفاق نہیں ہوا، اس لیے کہ ہم ہمیشہ طاہر صاحب ایڈووکیٹ کے مہمان ہوتے تھے۔ موصوف کمپنی ہذا کے شب اول سے وکیل صفائی تھے (کمپنی ہذا عدالت، کچہری، میونسپل کارپوریشن اور تھانہ میں ہمیشہ مدعا علیہا اور ملزمہ کی حیثیت ہی سے پیش ہوتی تھی۔) طاہر صاحب کمپنی سے نقد فیس نہیں لیتے تھے۔ احباب کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں گھیر گھار کر لے جاتے جس کا بنیادی مقصد تفریح سے زیادہ کمپنی کو مالی نقصان پہنچانا تھا۔ 

    طلاق اور خلع کے مقدموں کے اسپشلسٹ تھے۔ مشہور تھا کہ ان کی پرچھائیں بھی پڑجائے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ کراچی سٹی کورٹ کو مرکز بنا کر پرکار سے ۲۰میل کا ایک دائرہ کھینچا جائے تو اس میں خلع کی خواہش مند کوئی عورت بچی ہوگی جس نے ان سے رجوع کر کے اپنا گوہر مراد یعنی طلاق حاصل نہ کی ہو۔ ان سے بھی اکثر و بیشتر فیس نقد نہیں لیتے تھے۔ ایک دیہاتی مثل یاد آرہی ہے کہ آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے۔ ننگا کرکے چھوڑتے ہیں۔ طاہر صاحب کی باتوں میں بلا کا لوچ تھا۔ وہ جھوٹ بھی بولتے تو جی چاہتا کہ خدا کرے یوں ہی ہوا ہو۔ ہمارے مخدوم اور قدردان تھے۔ دور کے جلوے کے قائل نہیں تھے۔ دو تین دفعہ ہاتھ پکڑ کر گرین روم میں لے گئے اور اپنی منظورِ نظر سونے کے دانت والی ایکٹرس سے تعارف کرایا۔ میک اپ کے بغیر وہ اور بھی خوب صورت لگ رہی تھی۔ 

    سات آٹھ مہینے بعد طاہر صاحب مسٹر اے۔ ٹی۔ نقوی، کمشنر کراچی، کی جنبش قلم سے علاقہ مجسٹریٹ بن گئے۔ ان کا علاقہ نیپئر روڈ اور جاپانی روڈ (کراچی بازار؟) سے شروع ہو کر غالباً وہیں ختم ہوتا تھا۔ اب کچھ اور ہی طنطنہ تھا۔ گھر پر اہل معاملہ کا ہجوم رہنے لگا۔ داؤں پڑے توبے خرخشہ معاملت بھی کرلیتے۔ دل کا دورہ پڑنے کے بعد شراب اور رشوت میں اعتدال برتنے لگے تھے۔ پرانے دوستوں سےملتے اب بھی تپاک سے تھے مگر، ابتدائے شوق کی لمبی ملاقاتیں گئیں۔ ایک دن سر راہے مڈبھیڑ ہوگئی تو ہم نے شکایت کی، اب آپ مہینوں اپنے نیازمندوں کی خبر نہیں لیتے۔ برا مانے بغیر بولے، اگر کسی سے برسوں ملاقات نہ ہو تو سمجھ لیجیے کراچی ہی میں ہے۔ اور بالکل خیریت سے۔ 

    ہم نے مجرا دیکھا
    ان کے بیٹے کے ختنے ہوئے تو احباب نے فرمائش کی کہ زندہ ناچ دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں۔ تو پھر ہو جائے چھن، چھنن، چھنن! چھن چھنن، چھنن! انہوں نے متعلقہ انسپکٹر پولیس تک فرمائش پہنچا دی۔ اشارے کی دیر تھی۔ اس ظالم نے سارے شہر کی طوائفوں کو بجری ڈھونے کے ٹرکوں میں لاد کر لا حاضر کیا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ غالباً پہلی رات تھی کہ شہر میں کہیں مجرا نہیں ہوا۔ مجرا یہاں بھی نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ناظم آباد کے اس چارسو مربع گز مکان میں طوائفیں ایسی ٹھساٹھس بھری تھیں کہ مجرا تو کجا، طبلہ دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ جو جہاں بیٹھی تھی وہیں نرت مدرا دکھا کے بیٹھ رہی۔ ایک منچلی نے بیٹھے بیٹھے ہی طبلے کی تھاپ اور تتکار کے ساتھ کولہا بھی لگایا۔ مگر اس طرح جیسے دفعتاً آنکھ بدشگونی سے پھڑکنے لگے اور سارا جسم دیکھتا رہ جائے۔ پروفیسر قاضی عبد القدوس نے اپنی پاکٹ ڈائری میں حساب لگا کے ہمارے کان میں مژدہ سنایا کہ فی تماشائی ساڑھے ۱۷ طوائفیں پڑ رہی ہیں۔ اور ڈھیر ساری نائیکائیں روکن میں۔ 

    سونے کے دانت والی لڑکی
    افسوس کہ وہ بساطِ عیش چشم زدن میں الٹ گئی۔ ایک منحوس صبح طاہر صاحب صبح پانچ بجے چل بسے۔ آخر وہ خون کی پھٹکی جو ان کی رگوں میں پانچ سال سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھی، دماغ تک پہنچ گئی اور وہ ہنستے کھیلتے اس گھاٹی سے گزر گئے جس سے ہر ذی روح کو گزرنا ہے۔ زندہ دلوں کی طرح وہ بھرا میلہ چھوڑ کر چل دیے۔ میلہ بچھڑنے کا انتظار نہیں کیا۔ دو مہینے بعد سنا کہ اس سونے کے دانت والی لڑکی نے بھی بندر روڈ کے عقب میں ایک عطائی ڈاکٹر کے مذبح خانے میں اسقاط کے آپریشن کے دوران دم توڑ دیا۔ خون کسی طرح بند نہ ہوا۔ اے۔ بی گروپ کا کمیاب خون سڑک کے اس پار سول اسپتال میں دستیاب تھا مگر اسے وہاں منتقل کرنے کے لیے ’’ڈاکٹر‘‘ کسی طور تیار نہ تھا۔ 

    دیکھتے ہی دیکھتے اس کا جسم زرد اور آنکھیں بے نور ہوتی چلی گئیں۔ کوئی دم کی مہمان تھی کہ منیجر کمپنی ہذا نے صابن لگا کر اس کی انگوٹھی اتاری۔ پھر لونگ اور طاہر صاحب کی دی ہوئی چوڑیاں اتار کر رکھ لیں۔ دانت پر سے سونے کا پتّر اتارنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اس کی پیشانی پر بالوں کے قریب ابھی رات کے میک اپ کے نشان باقی تھے۔ منشی ریاضت علی اور چار پانچ ساتھی راتوں رات اسے میوہ شاہ قبرستان میں طاہر صاحب کی پائینتی گاڑ آئے۔ اس کے جسم نے ہوس کی بہت مار سہی تھی۔ دوزخ میں اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا؟ اور اس کے بعد وہ تھیٹریکل کمپنی بھی بند ہوگئی۔ 

    اس زمانے میں بھی کراچی میں سینما گھروں کی کمی نہ تھی۔ انگریزی فلمیں بکثرت دکھائی جاتی تھیں۔ اور ہندوستانی فلموں پر بھی کوئی قدغن نہ تھا۔ اس کے باوجود کراچی کی اس پہلی اور غالباً آخری تھیٹریکل کمپنی کی بات ہی کچھ اور تھی۔ ہمارا شمار تو خیر طفیلیوں میں تھا، لیکن ہم نے یہاں ایسے ایسے نک چڑھوں کو چاؤ سے آتے دیکھا جو ہالی ووڈ کی اچھی اچھی فلموں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ بات یہ ہے کہ جسے ایک دفعہ اسٹیج کا نشہ ہو جائے، پھر جب تک آنکھوں میں دم ہے اس کا ہڑکا نہیں جاتا۔ جس نے ایک بار گوشت پوست کا روپ بہروپ دیکھ لیا اس کی تسکین پھر کبھی پرچھائیوں سے نہیں ہوگی۔ یہ اسی کا جادو نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک بے سروساماں تھیٹر کا نام برسبیل تذکرہ آیا اور ہم نے بلا قصد و ارادہ دفتر کے دفتر لکھ ڈالے۔ کون جانے اسی بہانے اس کا حق غمگساری و چارہ گری ادا ہو جائے جس نے ایک گمنام، بے نوا کے نہ جانے کتنے اداس لمحوں میں اجالا کیا۔ باہر اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ 

    مسٹر ولیم شیکسپیر مرحوم
    بیس برس ادھر کی بات ہے۔ ایسا ہی ایک اتوار اور ایسا ہی ایک شو تھا۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے ’’منیجر کمپنی ہذا‘‘ نے ناظرین باتمکین کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’اب مسٹر ولیم شیکسپیر مرحوم کا ڈرامہ رومیو جولیٹ بمعہ چار کتھک رقص پیش کیا جائے گا۔ مسٹر ولیم شیکسپیر مرحوم انگریزی ڈرامہ کے آغا حشر کاشمیری مرحوم ہیں۔ (ہمیں تو آج تک ان دونوں میں مرحوم ہونے کے علاوہ کوئی اور بات مشترک نظر نہ آئی۔) مصور درد منشی ریاضت علی سوختہ سندیلوی نے مسٹر ولیم شیکسپیر مرحوم کے ڈائلاگ میں سے بیس مخرب اخلاق فقرے نکال کر مسدس حالی مرحوم کے پچیس اخلاقی شعر ڈال دیے ہیں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔‘‘ 

    دوسرا ناٹک
    نگاہیں پردہ اٹھنے کی منتظر تھیں کہ اتنے میں مسٹر اینڈرسن کا ڈرائیور غفار ہمارا کھوج نکال کر ڈھونڈتا ڈھانڈتا یہاں پہنچ گیا۔ یہ نوکر اپنے مالک ہی کے منھ نہیں، اس کی بوتل کے منہ بھی لگا ہوا تھا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (کہ خود عالم بے بدل و با عمل اور پیر طریقت تھے) نے ایک جگہ بڑے پتے کی بات نقل کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک ظریف کا قول ہے کہ مولویوں اور کسبیوں کے ملازم کاہل ہوتے ہیں۔ کیونکہ جہاں ان کے منھ سے کچھ نکلا، بہت سے حاضر باش کام کرنے کو دوڑ پڑتے ہیں۔ اس لیے ان کے ملازم بے کار، احدی ہو جاتے ہیں۔ آقاؤں کے اس زمرے میں ہم یوروپینوں کا بھی اضافہ کرسکتے ہیں۔ وہ اپنا کام آپ کرنے کے عادی ہوتے ہیں، اس لیے ان کے نوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے زبان چلاتے رہتے ہیں۔ 

    یہ ڈرائیور بھی بگڑ چکا تھا۔ رات کو چوری کی شراب کے نشے میں دھت نہ ہو تو بینک کی کار چوری چھپے پرائیوٹ ٹیکسی کے طور پر چلاتا تھا۔ رات گئے شہر سے غیر ملکی ملاحوں اور ٹورسٹوں کو ملیر کے ایک پرائیویٹ قحبہ خانے میں لے جاتا جہاں صرف پونڈ اور ڈالر میں محنتانہ وصول کیا جاتا تھا۔ غفار منہ مانگا کرایہ اور جانبین سے دلالی کا کمیشن وصول کرتا۔ ایک رات ملیر سے واپسی میں ایک یونانی ملاح پر مجرمانہ دست درازی کی کوشش میں ناک تڑوا بیٹھا اور کار چھوڑ کر ایسا بھاگا کہ پھر نہ لوٹا۔ صبح گیارہ بجے ڈرگ روڈ تھانے نے ہمیں فون پر مطلع کیا کہ کار مشتبہ حالت میں کھڑی ہے۔ نیز کچے میں اس کی چال سے معلوم ہوتا ہے کہ واردات سے قبل مال مسروقہ نے پٹرول کے بجائے وہسکی پی رکھی تھی۔ اسے لے جائیں۔ آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ 

    غفار جودھپور کا رہنے والا تھا۔ اس کے تلفظ اور مارواڑی لہجے کی نقل بہت دشوار ہے۔ ہر لفظ کے آگے پیچھے دو چشمی ھ لگا کر بولیں تو شاید لہجے میں دھڑدھڑاہٹ اور ھمھمہ پیدا ہو جو راجستھانی بولی کا ٹھاٹھ اور سنگھار ہے۔ چھوٹتے ہی کہنے لگا، ’’آپ کو تماش بینی کی پڑی ہے۔ ادھر بڑا صاحب منھ ھندیرے سے ھدھم مچا رھا ھے۔ دارو کا ادھا چڑھا گیا ھے۔ آپ کو تو وہ مرڈر کیس اچھی طریوں یاد ہوگا۔ اس کے یار مسٹر جیمسن کا ننگی حالیت میں قتل۔ جب نمچھئے لونڈے نے شراب کے گلاس میں تیزاب بھر کے اس کی آنکھوں پہ پھینکا۔ پھر جھٹ ڈبل روٹی کاٹنے کی چھری سے ذبح کردیا۔ وہ دن ھے اور آج کا دن۔ بڑا صاحب بوتل سے منھ لگا کے پیتا ھے۔ لطیفی صاحب (ایک بڑے افسر جن سے مسٹر اینڈرسن کی ذرا نہیں بنتی تھی) سے آئینے میں کھڑا توتکار کر رہا ہے۔ بلکہ انگریزی میں فادر مدر کر رہا ھے۔ 

    بڑے بڑوں کی شان میں یکے بعد دیگرے، دیگرے بعد یکے، غستاخی ہو رہی ھے۔ گیارہ بجے اس نے لطیفی صاحب کی کنپٹی پہ کس کے ایسا گھونسا مارا کہ آئینہ کرچی کرچی ہو گیا۔ ساری مغروریت خاک میں مل گئی۔ گھونسا بھی خونم خون ہوگیا۔ ابھی ابھی ڈاکٹر بٹر فیلڈ کو بلا کر پٹی کروائی ھے۔ یقین نہ آئے تو جا کے چشم دید دیکھ لینا۔ آپ کو سلام بولتا ھے۔ آرڈر ھے کہ آپ جس حالیت میں بھی ہوں، گاڑی میں ڈال کے بنفشہ نفیس حاضر کروں۔ قصہ کھوتاھ، آپ کی انتظاری میں چشم بھراہ ھے۔ اپن کو تو لگتا ھے آج کچھ دھرم بھرم ہونے والا ھے۔ سویرے سے مالجادی بائیں آنکھ پھڑکے جارہی ھے۔‘‘ 

    ’’کیا لطیفی صاحب کو بھی بلایا ہے؟‘‘ 

    ’’نہیں۔‘‘ 

    بہت آگ چلموں کی سلگانے والے
    لطیفی صاحب کے حلقہ معتوبین میں ہم نہایت ممتاز مقام رکھتے تھے۔ دومہینے پہلے وہ ہمارے رزق کا دروازہ بند کرنے کی دھمکی دے چکے تھے اور ہم بھی اتنے عاجز آچکے تھے کہ صبح کا سلام تک بند کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی اور چیز بند کرنا ہمارے اختیار میں تھا بھی نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہم دم دبائے رہتے تھے، لیکن اب اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ اس پر کسی کو کھڑا ہونے دیں۔ انہوں نے اپنے گرد منتخب روزگار نااہل جمع کر لیے تھے جو دوسروں کے لیے بھی وہ پسند نہ کرتے تھے جو اپنے لیے ناپسند کرتے تھے۔ یعنی کام۔ ان کا واحد مشغلہ لطیفی صاحب کی ہر ادا او رہر لطیفے پرلوٹ پوٹ ہونا تھا۔ اور ہم بڑے لوگوں کی ہاں میں ہاں ملانے سے اس لیے بھی احتراز کرتے ہیں کہ اگر ہم کسی کی رائے سے اتفاق کریں تو لوگ اسے احمق سمجھنے لگتے ہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد یہ نہیں کہتے کہ اکبر ان پڑھ، جاہل یا کاہل تھا۔ فرماتے ہیں، ’’علوم نے اس کی آنکھوں پر عینک نہ لگائی تھی اور فنون نے دماغ پر دستکاری خرچ نہ کی تھی۔‘‘ گویا سارا قصور اور تمام تر کوتاہی علوم و فنون ہی کی ٹھیری جو سراسر حرام خوری اور کاہلی پر اتر آئے تھے۔ لیکن دربار لطیفی کے تو نورتن بھی اپنے بادشاہ پر پڑے تھے۔ یعنی عینک وغیرہ کے تکلفات سے بے نیاز۔ 

    وہ بغیر عینک کے کہاں سے کہاں پہنچ چکے تھے اور ہم؟ ہم، بقول مرزا، معاشرے کی وہ پسلی ہیں جس میں کہنیاں مار مار کے آگے بڑھنے والے آگے بڑھتے ہیں۔ اب جو ٹھنڈے دل سے محاسبہ کرتے ہیں تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ہماری خواری میں ان کی خصومت سے زیادہ ہماری اپنی ناسمجھی اور ناتجربہ کاری کو دخل تھا۔ ہم جوان تھے۔ بر خود غلط تھے۔ (بر خود غلط تو آج بھی ہیں، مگر پہلی خرابی دور ہو چکی ہے۔) ان کی مسٹر اینڈرسن سے ٹھنی ہوئی تھی اور ہمیں اس کا قرب خاص حاصل تھا۔ مطلب یہ کہ ہم جنرل منیجر کے اتنے قریب ہوگئے تھے کہ اس کے غیظ و غضب کی ابتدا ہم ہی سے ہوتی تھی۔ پشتو کہاوت کے بمصداق سانڈوں کی لڑائی میں مینڈک کچلے جاتے ہیں۔ سو ہمارا بھی قیمہ ہوگیا مگر ٹرانا نہ گیا۔ دیکھا جائے تو لطیفی صاحب کو ہم سے کیا عداوت یا رقابت ہو سکتی تھی۔ ان کا ایک ادنی سا افسرانہ مطالبہ تھا جسے ہماری انا سمجھ نہ پائی، مجھ کو بھی پوجتے رہو تو کیا گناہ ہو۔ لطیفی صاحب کی عمر ہم سے ۱۲ سال، سوجھ بوجھ ۲۴ سال اور تنخواہ ۱۶۰۰ روپے زیادہ تھی۔ لہٰذا اسے صحیح معنوں میں تصادم نہیں کہا جا سکتا۔ ہم خود ریل کی پٹری پر انجن کو چیلنج کرنے کے لیے سینہ تان کر لیٹے تھے۔ 

    تڑپے ہے مرغا قبلہ نما آشیانے میں
    اونٹ کی کمر جس روایتی تنکے سے ٹوٹی وہ ان کی کرسچین سکریٹری مس راٹھور تھی جس کے ناوک نے زمانے میں صید نہ چھوڑا تھا۔ ان کے مزاج ہی میں نہیں، کام میں بھی دخیل تھی۔ پہلے غرہ ہی غرہ تھا، اب غرانا بھی شروع کردیا۔ ہم سے بھی غرفش کرنے لگی۔ اور بقول پروفیسر قاضی عبد القدوس یہ نوبت آگئی کہ, تڑپے ہے مرغا قبلہ نما آشیانے میں۔ (پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم۔ اے، سودا کے مصرع ’’تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں‘‘ کو اسی طرح پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ مطلب یہ بتاتے ہیں کہ ذبح ہوتے وقت مرغا اپنا منھ قبلہ کی طرف کر کے تڑپ رہا ہے۔) 

    ہماری جگہ کوئی اور ہوتا تو اسے بھی شیشے میں اتار لیتا یا کم از کم خود اترجاتا کہ یو ں بھی عورت کی ایڑی ہٹاؤ تو اس کے نیچے سے کسی نہ کسی کی ناک ضرور نکلے گی۔ مگر اس کو کیا کریں کہ طبیعت ہی غصیلی اور زود رنج پائی ہے۔ التفاتِ دل دوستاں نہ رہے، یا کاروبارِ دنیا ہماری عین مرضی کے مطابق نہ چلے تو بلبلا اٹھتے ہیں۔ جہانگیر کے عہد میں ہوتے تو ہم چوبیس گھنٹے زنجیر عدل ہی سے لٹکے رہتے۔ اس بچارے کا سونا لیٹنا حرام ہو جاتا۔ مصیبت یہ تھی کہ ہم سدا سے زبان کے پھوہڑ ٹھہرے اور وہ چغل خور نکلی۔ مولانا احسن مارہروی فرماتے ہیں، 

    ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں
    وہ ایک قطرۂ خوں جو رگِ گلو میں ہے

    ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ یہ فسادی قطرۂ خوں ہماری زبان میں ہے جس پر ہمیں اتنا ہی قابو ہے جتنا عشاق کو اپنے دل پر ہوا کرتا ہے۔ 

    یار لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ یہ اسٹینو گرافر دن بھر سامنے بیٹھی اپنے باس کو فرمائشیں ڈکٹیٹ کرواتی رہتی ہے۔ ہم نے جب دیکھا سوئٹر بنتے یا موٹی اسامیوں پر مسکراتے ہی دیکھا۔ مرد کی ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست۔ یہاں اگر مرگ کی بجائے مرد پڑھا جائے تو مصرع اس عورت پر بھی چسپاں ہوتا تھا۔ ویسے لطیفی صاحب کا سارا کام زبانی اور بیشتر حکم احکام ٹیلیفون پر صادر ہوتے تھے۔ لکھنے لکھانے کو تکلف بے جا جانتے تھے حالانکہ بنئے کا مانا ہوا اصول ہے کہ پہلے لکھ، پیچھے دے، بھول پڑے کاغذ سے لے۔ مس راٹھور کا لقب نہ جانے کیوں اور کب سے ’’مس رنتمبھور‘‘ چلا آتا تھا۔ بڑے بڑے افسروں کے ساتھ نتھی رہ چکی تھی۔ وجہ تسمیہ ہمیں معلوم نہیں۔ 

    البتہ قلعۂ رنتمبھور کے بارے میں اتنا یاد پڑتا ہے کہ اس پر ہر بادشاہِ وقت نے لشکر کشی کی۔ کسی نے منجنیق سے سر کیا۔ کوئی اسپِ تازی کو ایڑ لگا کے خندق پھلانگ گیا۔ کوئی سنگلاخ فصیل ڈھاتے ڈھاتے خود ڈھے گیا۔ کسی نے شب خون مارا۔ اور کوئی دن دہاڑے فولادی میخوں کی انی کو بلونت ہاتھیوں کے کے مستک سے موڑتا توڑتا، صدر دروازے کو ریلتا دھکیلتا، پھریرا اڑاتا ہوا قلعہ میں داخل ہوگیا۔ ہم نے تو بس ان معدودے چند بادشاہوں کے نام رٹ لیے تھے جنہوں نے اس قلعہ پر دھاوا نہیں بولا ورنہ امتحان میں ہربادشاہ کا نام اور اس کے بعد ڈیڑھ دو صفحوں میں رنتمبھور کی رٹی رٹائی لفظی تصویر کھینچ کر لکھ دیتے کہ مذکورہ بالا نے مندرجہ ذیل پر یورش کی۔ 

    ڈیوڑھا آدمی؛ لطیفی صاحب نہایت ملنسار، زمانہ شناس، خوش خلق اور خوش تدبیر تھے۔ ان کی اہلیت ان کے حوصلوں کے ساتھ قدم ملاکر نہیں چل سکتی تھی۔ سیدھی سڑک سے انہیں سخت الجھن ہوتی تھی۔ ہمہ وقت ’’شارٹ کٹ‘‘ کی تلاش میں رہتے، خواہ وہ کتنا ہی اوبڑ کھابڑ کیوں نہ ہو۔ اس کی تلاش میں اکثر دگنا وقت لگ جاتا۔ گرمیوں میں بھی واسکٹ پہنتے، اس لیے کہ اس کی جیبوں میں انگوٹھے ڈالے بغیر بات نہیں کر سکتے تھے۔ دشمنوں نے اڑارکھی تھی کہ چوری چھپے پانچ بسیں چلاتے ہیں جن کی آمدنی کو ہر مہینے گیارہویں کی نیاز دلوا کر پاک کرلیتے ہیں۔ آخر جنت کا بھی تو کوئی شارٹ کٹ ہوگا۔ نگاہِ بدبیں نے کہاں کہاں ان کا تعاقب نہ کیا۔ 

    اتوار کو دیکھا کہ اینگلو انڈین بھبوکا چھوکریوں کو کار میں بھرکے نہلانے دھلانے سینڈزپٹ لے جا رہے ہیں۔ ابھی کار کی سیٹیں ٹھیک سے ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی ہوں گی کہ دیکھا اسی کار میں اٹاٹٹ مولوی ٹھونسے شبیہ پڑھوانے گھر لے جا رہے ہیں۔ اور ڈکی میں اتنے ہی عدد مرغیاں بھری ہوئی ہیں۔ سنیچر کی رات کو وہ ’’لاگورمے‘‘ میں اس طرح ڈانس کرتے دیکھے گئے کہ دور سے تو یہی لگتا تھا کہ ابھی تو پنجے لڑا رہے ہیں۔ دم کے دم میں گتھ مریں گے۔ اور اہل درد نے انہیں پاک پتن شریف میں روضہ کی جالی پکڑے اشکبار بھی دیکھا۔ خود ہم نے انہیں ۱۹۵۲ میں جھگیوں میں سات روپے سیر کے بمبئی کے الفانسو آم تقسیم کرتے دیکھا۔ کہتے تھے روٹی تو روکھی سوکھی سب کو مل جاتی ہے۔ قلمی آم غریبوں کو برسوں نصیب نہیں ہوتے۔ 

    بقرعید پر پندرہ بیس بکرے ذبح کرتے تھے تاکہ گورنمنٹ کے بڑے افسروں کو سالم رانیں بھیج سکیں۔ چھوٹے بڑے، ہر بزنس مین سے ان کی یاد اللہ تھی۔ سب سے جھک کر ملتے، پورے سے بھی زیادہ سود وصول کرتے اور تاکید و تقاضے میں بھی شہد (پروفیسر قاضی عبد القدوس کہتے ہیں کہ تحریر میں بھی سود کھانے سے لذت پیدا ہوتی ہے۔ مثال میں ہمیں پیش کر دیتے ہیں۔) گھول دیتے۔ اپنا کام نکالنے کا ہنر جانتے تھے۔ زمین میں ذرا سا سوراخ کرنا ہو تو پوری طاقت سےکدال چلانی پڑتی ہے۔ لیکن خاک بسر بیج، کومل اکھوے اور نرم و نازک پنیری کس دھیرج سے اسی زمین کو ایک ادا سے رضامند کرکے نکل آتے ہیں۔ 

    لطیفی صاحب کو کامیاب ہونے میں دیر نہیں لگی، اس لیے کہ دنیا جس زاویہ سے کج ہے اسی زاویہ تک انہوں نے اپنی رفتار و گفتار و کردار میں کجی پیدا کرلی تھی۔ فرماتے کہ ’’بزنس میں صرف گھاٹا حرام ہے۔ باقی سب چلتا ہے۔ ہر پکڑ، ہر داؤں۔ ارے بابا! یہ تو ایک کھیل ہے۔ ناٹک۔ ہر آدمی سوانگ بھر کے اپنا اپنا ڈائلاگ بولتا ہے۔ کھیل ختم، ڈائلاگ خلاص۔ جھوٹ سچ کا سوال کہاں۔ کٹھ پتلیوں کے لیے کیا پاپ، کیا پن۔‘‘ پیسہ کیسے جڑتا ہے۔ روپیہ اپنے آپ کو کس طرح ضرب دیتا ہے۔ زر خدا نہ سہی، لیکن کتنا ’’غالب و کار آفرین، کار کشاو کارساز‘‘ ہے۔ پیسے سے کیا کیا خریدا جا سکتا ہے۔ ناخن زر سے کیسی کیسی گرہیں کھل جاتی ہیں۔ لکشمی کس کس چیز کی بھینٹ مانگتی ہے۔۔۔ آدمی یہ بیوہار اور بیوپار بہت قریب سے ساری عمر دیکھتا رہے اور آزردہ و دل گرفتہ نہ ہو تو بڑے حوصلے یا پھر اتنی ہی بے حسی کی بات ہے۔ 

    دو ہی راستے ہیں۔ یا تو آدمی کھرا کھوٹا پرکھنےکی کسوٹی نزدیک ترین گٹر میں پھینک کر نچنت ہوجائے یا پھر سارے سنسار سے ناتا توڑ کر اپنی ذات کی گپھا میں اپنا نروان آپ ڈھونڈے۔ یونانی دیو مالا کی دیونی میڈو سا گارگن نے زمین کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد نور سے بنے ہوئے دیوتاؤں کو زیر اور خوار و زبوں کرنا تھا۔ کوئی آدم زاد اسے قتل نہیں کرسکتا تھا، اس لیے کہ جیسے ہی اس کے چہرے پر نظر پڑتی، آدمی پتھر کا ہو جاتا تھا۔ آخرکار، پرسی یس نامی ایک جوان شہ زور نے یہ ترکیب نکالی کہ اپنی جلا کی ہوئی ڈھال میں اس کا عکس دیکھ کر تلوار کے ایک ہی وار سے سرتن سے جدا کردیا۔ تو صاحبو! یہ دنیائے دنی اس وقت تک دلوں کو پتھر میں تبدیل کرتی رہتی ہے جب تک انسان کسی آدرش یا عقیدے کی سپر میں عکس دیکھ کر اس کی شہ رگ نہ کاٹ دے۔ اور ایک بار پھر اس خرابے کو انسانوں کے رہنے کے لائق بنادے۔ 

    نذرِ ارسطو
    لطیفی صاحب ہی کا قول ہے کہ زندگی کے ہر درد کا مداوا، تمام مصائب کا حل کسی نہ کسی انسان کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے کہ در حقیقت انسان ہی مسبب المصائب ہے۔ اور وہی مشکل کشا۔ لہٰذا اسی کا دامن تھامو۔ اسی سے مدد چاہو۔ پھر بیڑاپار ہے۔ ان کی اپنی نیا نہ صرف منجدھار پار کر چکی تھی بلکہ ریگستانی ساحل کے میلوں اندر گھس گئی تھی۔ اتوار کی صبح کو دلی کی نہاری پر بیس پچیس مسبب المصائب مدعو ہوتے۔ قوالی اور کاک ٹیل کے دلدادہ تھے۔ اکثر فرماتے کہ ’’آدمی کی یہی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ان تقریبوں میں دونوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ (جو واں نہ کھنچ سکے وہ یہاں آکے دم ہوئے۔) کامیاب بینکر بننے کے لیے پچہتر فی صد یاری، پچاس فی صد عیاری اور پچیس فی صد نہاری درکار ہے۔‘‘ 

    عرض کیا، ’’جناب! یہ تو ڈیڑھ سوفی صد ہوگیا۔‘‘ بولے، ’’اور کیا! یہ پروفیشن تو ڈیوڑھا آدمی مانگتا ہے۔ آدھے پونے آدمی سے کام نہیں چلنے کا۔ یونیورسٹی کی پروفیسری تھوڑا ہی ہے کہ زندگی پر کتابیں پڑھ پڑھ کے ایک کتاب اور لکھ ماری۔ اجی کہیں گئو سے گئو بھی گیا بھن ہوئی ہے؟ انٹلکچوئل لوگ اسپیڈو میٹر دیکھنا جانتے ہیں، اسٹیرنگ وہیل نہیں سنبھال سکتے۔ قسم خدا کی! اگر ارسطو آج قبر سے اٹھ کر آجائے اور اس مارکٹ میں کپاس کی ایک گانٹھ بھی دوپیسے منافع پر بیچ لے تو میں اپنی بھنویں منڈوا دوں۔‘‘ (مونچھیں پہلے ہی کسی ایسی ہی شرط پر نذر ارسطو کر چکے تھے۔ سرپر بھی شرط لگانے کے لیے کچھ نہیں رہا تھا۔) 

    جملۂ تیموریہ
    ماتحتوں کو اس پیشہ کی نجابت، نفاست اور نجاست سے متعلق نصیحتیں کرتے رہتے۔ گاہے ماہے مہربان ہوتے تو چاند ماری کے لیے ہمیں بھی منتخب فرماتے۔ ان کے ڈیوڑھا آدمی ہونے میں کسے کلام ہو سکتا تھا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں لنچ پر سالم مرغی کھا کر اپنی سکریٹری کے سامنے انگلش گریمر پر دست درازی کرتے دیکھا ہے۔ ہم نے آج تک اتنے فراٹے، زور اور اعتماد سے کسی انگریز کو بھی غلط انگریزی بولتے نہیں دیکھا۔ صحیح املا و تلفظ کو اپنے مرتبہ افسری سے پست جانتے تھے۔ ان کا ہر جملہ، جملۂ تیموریہ ہوتا تھا۔۔۔ یعنی لنگڑا اور حملہ آور۔ ان کی دیکھا دیکھی ماتحتوں نے بھی اپنی انگریزی میں شرعی عیب پیدا کرلیے۔ 

    سندھی میں بڑے مزے کی کہاوت ہے کہ کبھی ایک ٹانگ والوں کے دیس میں جاؤ تو اپنی ایک ٹانگ کندھے پر رکھ لو۔ ہم نے توبہ نظر احتیاط اپنی انگریزی کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دی۔ بلکہ اعضائے رئیسہ بھی کاٹ کر پھینک دیے۔ کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔ اس اپاہج پن سے آگے چل کر ہمیں بے شمار فائدے ہوئے جن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ خود آپ نے دیکھا ہوگا کہ خاندانی فقیر اور دور اندیش بھکاری اپنے بچوں کے ہاتھ پاؤں عالم شیر خوارگی میں ہی توڑ دیتے ہیں تاکہ بڑے ہوکر بچوں کو روٹی کمانے میں آسانی رہے اور ماں باپ کے محتاج نہ رہیں۔ طعن و تشنیع سے ہماری کافی اصلاح ہوئی۔ کتابی باتوں سے احتراز کرنا سیکھ لیا۔ ان جیسے کامیاب لوگوں کی مصاحبت و مجالست کا یہ اثر ہوا کہ ہم نے کتابیں پڑھنے سے توبہ کی اور کتاب لکھنے کا تہیہ کر لیا۔ بچپن کے کھلونے ٹوٹتے ٹوٹتے ہی ٹوٹتے ہیں۔ ڈلن تھامس نے غلط نہیں کہا تھا کہ میں نے جو گیند باغیچے میں کھیلتے ہوئے اچھالی تھی وہ ابھی تک زمین پر واپس نہیں آئی۔ 

    لطیفی صاحب کا چال چلن نارمل تھا۔ یعنی ویسا ہی جیسا کہ ہمارے ہاں نارمل آدمی کا آسانی سے کامیابی اور دولت حاصل ہونے کے بعد ہو جاتا ہے۔ ازدواجی زندگی کو عمر قید سزا سمجھتے تھے، یعنی محبت بامشقت۔ مشہور امریکی سفیر اور ماہر اقتصادیات پروفیسر گالبریتھ اپنی چٹخارے دار کتاب ’’سفیر کی ڈائری‘‘ میں یورپ میں تعینات ایک رنگین مزاج امریکی سفیر کبیر کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ موصوف ہرمسئلہ، ہرمشکل کا سامنا بند ذہن اور کھلے ازاربند سے کرتے تھے۔ لطیفی صاحب بینکنگ کے پیچیدہ ہی نہیں، غیر پیچیدہ مسائل بھی اسی طریقے سے حل کرنے لگے تھے۔ انہیں ایک دفعہ اچانک رخصت پر کلکتہ جانا پڑا اور ہم ان کے قائم مقام مقرر ہوئے تو حسینوں کے فون اور خود حسین متواتر پندرہ دن تک آتے رہے۔ ڈان کہوٹے کے رازداں خدمت گار کی طرح ہم بھی عصمت دہندگان کی فہرست بڑی محنت سے مرتب کرتے رہے۔ گھڑی تو وقت کا حساب رکھتی ہے۔ وقت سے لطف نہیں اٹھاتی۔ سولہویں دن وہ خود آگئے اور ہماری قائم مقامی ختم ہوئی۔ حیف درچشم زدن صحبت بدآخرشد۔ 

    فرد جرم
    اتنا طویل تعارف اس لیے اور ناگزیر ہوگیا کہ جب ہم مسٹر اینڈرسن کے حضور لرزاں و ترساں پیش ہوئے تو دیکھا کہ نشہ کو غصہ نے سہ آتشہ کردیا ہے اور وہ لطیفی صاحب کو ناقابل اشاعت گالیاں دے رہا ہے۔ عجیب عجیب بہتان لگا رہا ہے۔ کہنے لگا کہ میں نے جو رسی دراز کی تھی، وہ اس کے لیے پھانسی کا پھندا بن گئی۔ وہ کمیشن کھاتا ہے۔ بسیں چلاتا ہے۔ بینک کے ذریعہ درآمد کیا ہوا سوا روپے گز کا جاپانی لٹھا بالا بالا اپنے ’’بینامی‘‘ پارٹنر کو ۵ آنے گز میں بیچ دیا۔ بینک کے فرنیچر سے میک نیل روڈ پر اپنی گرل فرینڈ کا پلش فلیٹ فرنش کرایا ہے۔ بے شمار قرضے بلا اجازت و ضمانت دیے جن کے سود کے حساب سےتم رات کے بارہ بجے تک مغزمارتے رہتے ہو۔ اور تو اور مسٹر۔۔۔ وزیر حکومت پاکستان کے نام ایک لاکھ روپے کا قرض دکھا کر ایک نئی کمپنی کے شیئرز خریدے جن پر ڈیڑھ لاکھ کا منافع ہوا۔ 

    انکوائری ہوئی تو وزیر نے صاف انکار کر دیا کہ فارموں پر سرے سے میرے دستخط ہیں ہی نہیں! یہی نہیں، لطیفی ایک کاک ٹیل پارٹی میں بلیک ٹائی کے بجائے لاؤنج سوٹ پہن کر گیا اور بینک کی بھد اڑوائی۔ ایک سنگین الزام ان پر مسٹر اینڈرسن نے یہ بھی لگایا کہ انہوں نے ہیڈ آفس سے اجازت لیے بغیر اپنی سکریٹری کے سینڈل کی اونچی ایڑی دو دو انچ کم کرادی تھی۔ فرد جرم سنانے کے بعد مسٹر اینڈرسن نے مطلع کیا کہ کل شام بورڈ آف ڈائرکٹرز نے مسٹر لطیفی کو برخاست کردیا۔ یہ تلوار تو اس کی گردن پر ایک نہ ایک دن گرنی تھی۔ قتل میں عجلت کی فضیلت پر اس نے اپنے ’’فیورٹ کریکٹر‘‘ میکبتھ کا قول دہرایا (اسکول کے اسٹیج پر میکبتھ کے رول میں وہ خود کو کئی مرتبہ کامیابی کے ساتھ قتل کروا چکا تھا)، 

    “If it were done when ‘tis done, then t’were well if it were done quickly…”

    پھر ہدایت کی کہ اسی وقت میری کار میں بینک جاکر اس کی تجوری، الماریاں اور میز کی درازیں۔۔۔ اور جو کچھ تمہیں اس کا نظر آئے۔۔۔ سیل کردو۔ اس کے حمایتوں کے منہ بھی۔ چٹ پر اپنے دستخط کر کے چپکا دینا اور صبح ٹھیک نو بجے اس سے کیش کا چارج لے لینا۔ وہ باسٹرڈ مجھ سے چارج لینے کے ’’ڈے ڈریمز‘‘دیکھا کرتا تھا۔ ہاہاہا! روپیہ اور عورت کبھی میری کمزوری نہیں رہی۔ اور ہاں! نوٹ گننےکے لیے لعاب دہن کے بجائے کسی دوسرے سیال پر اکتفا کرنا۔ تم اتنے پریشان کیوں نظر آ رہے ہو؟ ترقی مبارک! تم سے زیادہ اس عہدے کا اہل میرے پاکستانی ماتحتوں میں اور کوئی نہیں۔ مجھے تم سے بڑی امیدیں ہیں۔ گڈ لک! اور ہاں! صبح اس کی کار بھی اپنی تحویل میں لے لینا۔ جی تو بہت چاہتا ہے کہ تمہیں شیورلٹ کار لے دوں۔ لیکن بڑی کار میں تو تم اور بھی منے سے لگوگے۔ 

    نظام سقہ
    ہم رات کے دس بجے تک ہر الماری، کیبنٹ، دراز اور تجوری پر اپنی دستخطی سلپ بجبجاتے گوند سے چسپاں کرتے رہے۔ ازروئے احتیاط ان کے تھرماس پر بھی مہر لگا دی۔ صبح لطیفی صاحب نے ہمیں اپنی کرسی کے کنارے پر نروس بیٹھے دیکھا تو اسے ہماری طبعی شوخی اور دفتری گستاخی پر محمول کیا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے ان کی برخاستگی کا پروانہ پیش کیا۔ بھونچکے رہ گئے۔ انہیں اپنی برخاستگی سے زیادہ ہماری ترقی کا صدمہ تھا۔ اور جھوٹ کیوں بولیں، ہماری مسرت کی بھی ترتیب بالکل یہی تھی۔ جس ڈائرکٹر نے سنیچر کی شام کو ان کی برطرفی کی قرار داد بورڈ سے بعجلت منظور کروائی تھی، اس نے اتوار کی صبح کو ان کے ساتھ دلی کی نہاری کھائی اور دن بھر ڈکاریں لے لے کر رمی کھیلی۔ ’’ہنٹ۔‘‘ تک نہ دیا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ لطیفی صاحب نے جھونجھل میں چابیاں اس سیاہ میز پر، جو کل تک ان کی اور آج ہماری تھی، اتنے زور سے پھینک کر ماریں کہ میز پر لگے ہوئے دبیز شیشے میں ایک سورج سابن گیا جس کی کرنیں دور دور تک پھیل گئیں۔ پہلے اس شیشے میں ہمیں اپنی ایک ہی تصویر نظر آرہی تھی۔ ٹوٹا تو ایک ایک کرچی میں اسی کا جلوہ تھا۔ میں ہی آیا نظر، جدھر دیکھا۔ وہ بغیر کچھ کہے سنے چل دیے۔ 

    دن بھر ہم اپنے نئے فرائض نہایت جوش و تندہی سے انجام دیتے رہے۔ رات کو ٹھاٹ سے لطیفی صاحب کی کار میں گھر گئے اور اپنے کوارٹر کی دہلیز پر اس وقت تک قدم نہیں رکھا جب تک باوردی شوفر نے اترکر دروازہ نہ کھولا۔ بچوں نے لالٹین کی روشنی میں ہماری کار اور ترقی کا ہر زاویہ سے معائنہ کیا۔ انہیں ڈرائیور کی ٹوپی بہت پسند آئی۔ بیگم نے مڈگارڈر کو تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ ہلکا سبز رنگ مجھے شادی سے پہلے بھی پسند تھا۔ ماں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے پوچھا، بیٹا! تم نے آج بھی روٹی کھائی یا نہیں؟ 

    دوسرے دن یوم آزادی کی تعطیل تھی۔ ہم نے سب احباب اور اپنے تمام بہی خواہوں کو دلی کی نہاری کھلائی اور ’’آنکھ کا نشہ‘‘کھیل دکھایا۔ ۱۵ اگست کو دفتر پہنچے تو ایک کرسی پر ایک ڈائرکٹر کے منھ چڑھے افسر نور علی نجم الدین کھانڈ والا کو بیٹھے دیکھا۔ ہماری ہر الماری، کیبنٹ، دراز اور تجوری پر ان کی دستخطی سلپ چسپاں تھی۔ حد یہ کہ ناک میں ڈالنے کے ’’ڈراپس‘‘ کی شیشی جو ہم میز پر بھول گئے تھے، اس پر بھی لال چپڑی کی مہر لگی ہوئی تھی۔ ہم انہیں اپنے تخت ہمایونی پر متمکن دیکھ کر بھونچکے رہ گئے۔ انہوں نے اپنی تقرری اور ہمارے تبادلہ کا پروانہ دکھایا۔ مسٹر اینڈرسن سے پرسوں سہ پہر کو ایک گھنٹے تک ہماری گفتگو ہوئی تھی۔ ’’ہنٹ‘‘ تک نہ دیا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہم نے چابیاں اس سیاہ میز کے سورج پر، جو پرسوں تک ہماری اور آج ان کی تھی، پھینک کر ماریں اور بغیر کچھ کہے سنے چل دیے۔ 

    ہم آکر اپنی پرانی میز پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد مسٹر اینڈرسن خود ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے، ’’تمہارے بغیر جنرل منیجر کا آفس سونا سونا لگتا ہے۔ ویلکم بیک ہوم! تم سے زیادہ اس عہدے کا اہل میرے پاکستانی ماتحتوں میں کوئی نہیں۔ مجھے تم سے بڑی امیدیں ہیں۔ میری ڈریسنگ ٹیبل میں نیا آئینہ لگوا دو۔ بدذات بلی نے توڑ دیا ہے۔ بیچوں بیچ سورج سابن گیا ہے۔ ایک زخمی ہاتھ کے بجائے سوزخمی ہاتھ نظر آتے ہیں۔‘‘ 

    رات گئے، حسب معمول بس کے ڈنڈے میں بانہیں حمائل کیے، گھر آئے۔ بیگم نے پوچھا کار کہاں گئی؟ بچوں نے پوچھا کیا ڈرائیور بھی چھین لیا؟ ماں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے پوچھا، بیٹا! تم نے آج بھی روٹی کھائی یا نہیں؟ نظام سقہ کو اس کی مشک واپس مل گئی۔ 

    (پردہ گرتا ہے)

     

                                                                    

    مأخذ:

    زرگزشت (Pg. 240)

    • مصنف: مشتاق احمد یوسفی
      • ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے