Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نتیجہ غالب شناسی کا

یوسف ناظم

نتیجہ غالب شناسی کا

یوسف ناظم

MORE BYیوسف ناظم

    مرزا غالب جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی دانشمند اور دور اندیش آدمی تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب ان کے وطن میں ان کا کلام سخن فہموں کے ہاتھوں سے نکل کر ہم جیسے طرف داروں کے ہاتھ پڑجائے گا اس لیے انہوں نے باکمال ہوشیاری یہ مشورہ دیا تھا کہ بھائیو! میرا فارسی کلام پڑھو اور اردو کلام سے احتراز کرو کیونکہ اس میں میرا رنگ ہے نہیں۔ لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ یہ مشورہ انہوں نے بزبان فارسی دیا اور یہ شعر ان کے اردو دیوان میں شامل نہیں کیا جاسکا۔ ادب بھی شطرنج کا کھیل ہے اور کون سی چال الٹی پڑے گی یہ بعد میں معلوم ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غالب قیدِ حیات سے تو چھوٹے لیکن بندِ غم سے نہیں چھوٹ سکے۔ یہ بندِ غم ان کے شارحین اور ناقدین کی دین ہے۔ عطائے تو، لقائے تو اسے ہی کہتے ہیں۔

    ہمارے ہاں غالب شناسی کا رواج کوئی 50 سال پہلے شروع ہوا ہوگا۔ شروع شروع میں یہ بڑا مشکل کام تھا اور صرف پڑھے لکھے لوگ غالب کی طرف متوجہ ہوا کرتے تھے۔ جسے بھی اپنی عمر کے بیشتر حصے کی تباہی اوراپنی صحت کی بربادی مقصود ہوتی وہ غالب کے کلام کی شرح لکھنے کا کام اپنے ذمے لیتا۔ رفتہ رفتہ یہ فن فیشن بن گیا اور پھراس فن نے مرض کی صورت اختیار کر لی۔ غالب صدی میں تو ہرشخص غالب کے اشعار گنگنانے لگا۔ بے روزگارنوجوان اپنی ملازمت کی درخواستوں میں یہ لکھنے لگے کہ وہ کبڈی اور کیرم کے علاوہ غالب بھی جانتے ہیں۔ معزز لوگوں نے محفلوں میں اعلان کرنا شروع کیا کہ ان کی ہابی غالب ہیں اورایک اونچے درجے کے کلب کی صدارت کے امید وار کے حق میں یہ کہہ کرووٹ حاصل کیے گئے کہ موصوف گولف اورغالب دونوں کے ماہر ہیں۔ کہا جاتا ہے ایک زمانے میں ایسا کڑا وقت فرانس پر بھی آیا تھا جب ہر شخص کو پکا سوکی (اصلی یا جعلی) پینٹنگ اپنے دیوان خانے میں لٹکانی پڑی تھی اورآرٹ کی دلدادہ خواتین میں سے چند نے اپنے شوہروں سے صرف اس لیے طلاق حاصل کر لی تھی کہ ان کے شوہر پکا سو کے فن پربحث نہیں کرسکتے تھے۔ (حالانکہ یہ بحث صرف دو منٹ کی ہوتی تھی)

    غنیمت ہے کہ ہمارے ہاں غالب نے لوگوں کی ازدواجی زندگی میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا۔ وہ صرف مردانےمیں رہے۔ ممکن ہےکہ اس کی یہ وجہ بھی رہی ہو کہ ہمارے ہاں خواتین کا ذوق ابھی اتنا بگڑا نہیں ہے کہ وہ غالب پر بات چیت کر کے زیور، لباس اورغیرحاضرخواتین کےعیوب جیسےاہم مسائل کو نظرانداز کردیں۔

    ذوق کے لفظ پر یاد آیا کہ ذوق بھی غالب ہی کے عہد میں شاعری کرتے تھے اور دربار شاہی سے خِلعت کے علاوہ انھیں ہاتھی بھی انعام میں ملا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہاتھی ہی سب سے زیادہ معزز سواری تھی۔ اس میں شک نہیں کہ نادر شاہ جب ہندوستان آئے تو انھیں یہ سواری پسند نہیں آئی لیکن نادر شاہ بذات خود عامیانہ ذوق کے آدمی تھے ان میں بلند خیالی کا فقدان تھا اس لیے ہرمعاملے میں اورخاص طور پرہاتھی جیسی معتبر اور منفرد شخصیت کے بارے میں ان کی رائے قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔ شاعری کا صحیح زمانہ واقعی وہی زمانہ تھا۔ ایک قصیدہ کہو ہاتھی لے لو، ایک غزل کہو دو چار گھوڑے لکھوالو۔ کیا زمانہ تھا۔ شعر کہنے پر گاؤں ملا کرتے تھے آج شعر کہو تو لوگ گاؤں سے باہر کردیتے ہیں۔

    غالب بہت مقبول شاعر ہیں اوران کے کتنے ہی مصرعے لوگوں کو ازبر ہیں۔ بہتوں کو تو پورے پورے شعر بھی یاد ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ دوسرے مصرعے کو پہلے مصرعے سے پہلے پڑھتے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی قباحت نہیں ہےکیونکہ شاعری کوئی کرکٹ کا کھیل نہیں ہے کہ دوسری اننگ پہلی اننگ کے بعد ہی کھیلی جائے۔ یوں بھی غالب مصرعوں میں زیادہ پسند کیے جانے کے لائق شاعر ہیں۔ انہوں نے دس بیس مصرعے تو اس غضب کے کہے ہیں کہ ہرضرورت کو پوراکرتے ہیں اوراگر وہ صرف مصرعے ہی کہتے، تب بھی اتنے ہی بڑے شاعر ہوتے جتنے کہ وہ مکمل شعر کہنے کی وجہ سے ہیں۔ ان کی شاعری کا یہ پہلو غالب صدی کے دوران ہم سب کے سامنے آیا۔ جشنِ غالب کے سلسلے میں جتنے بھی جلسے ہوئے ان سب جلسوں کے اناؤنسر غالب کے مصرعوں سے پوری طرح لیس تھے جو بھی جلسہ یا مشاعرہ ہوا اس مصرعے سے شروع ہوا،

    ہوئی تاخیر تو کچھ باعث ِتاخیر بھی تھا

    صدر جلسہ کے تعارف کے سلسلے میں کہا گیا،

    وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

    پتا نہیں اس مصرعے سے اناؤنسر صاحب کی کیا مراد تھی۔ ممکن ہے وہ صدر ِجلسہ کو خدا کی قدرت کا نمونہ کہنا چاہ رہے ہوں۔ مہمان خصوصی کی تعریف کے پل کے لیے اس مصرعے کو سنگ بنیاد قراردیا گیا،

    کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

    ان جلسوں میں مہمان خصوصی کا انتخاب عموماً طبقۂ اناث ہی سے کیا جاتا تھا اورغالب کے کئی مصرعے ان پر صرف کیے جاتے تھے۔

    غالب صدی کی وجہ سے کچھ دلدوز واقعات بھی ہوئے۔ کچھ لوگ غالب کی محبت میں اتنے آگے نکل گئے کہ واپس آنے کا راستہ بھول گئے۔ ایک صاحب نے انہی دنوں اپنا سر نیم غالبی مقرر کر لیا اور وہ مرزا احمد اللہ بیگ غالبی کہلانے لگے۔ (کچھ لوگ تو انھیں غالباً بھی کہتے تھے) اس سال انہوں نے باضابطہ حلف اٹھایا تھا کہ وہ کوئی کام غالب کے دیوان سے مدد لیے بغیر نہیں کریں گے۔ اتفاق سے اسی سال ان کے ہاں ایک فرزند کی ولادت عمل میں آئی۔ دوستوں نے گھرآکرمبارکباد دی تو انہوں نے مبارکباد کے جواب میں ارشاد فرمایا،

    مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جاکا

    دوستوں میں سے کسی نے پوچھا مرزاصاحب، اس مصرعے کا یہاں کیا موقع تھا۔ بولے میں سب جانتا ہوں،

    ہتھکنڈے ہیں چرخ ِنیلی فام کے

    مرزا صاحب پیشے سے ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹری ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی لیکن غالب کا کچھ ایسا جنون ان پرسوارہواکہ پھریہ کہیں کے نہیں رہے، ایک معزز گھرانے کی خاتون ان سے فون پر اپنے مرض کی کیفیت بیان کر رہی تھیں۔ مریضہ نے جب ان سے کہا کہ مرزا صاحب میری کمر میں بھی درد ہوتا ہے تو مرزا صاحب نے فون پر ہی جھوم کر کہا ہاں ہاں یقیناً ہوتا ہوگا،

    کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں

    ایک اور مریضہ کے ساتھ بھی تقریباً ایسا ہی واقعہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے مطب میں مریضہ کا معائنہ فرما رہے تھے اورساتھ ہی ساتھ زیرِ لب گنگنا رہے تھے،

    تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

    اس دن نہ صرف اس مریضہ کا نقشِ قدم ان کے سر پر پڑا بلکہ ان دونوں خواتین کے شوہروں نے انھیں عدالت میں بھی گھسیٹ لیا اور بجائے اس کے کہ مرزا صاحب راہ ِراست پر قدم رنجہ فرمانے کی کوشش کرتے، فخریہ فرماتے رہے ان مقدموں سے کیا ہوتا ہے،

    رنگ کھلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے

    ان پرغالبی رنگ چڑھتا ہی گیا اورایک میٹرنٹی ہوم کے سنگ ِبنیاد رکھنے کے لئے جب شہرکی خاتون ِاول نے اپنے حنا آلودہ ہاتھوں سے مخصوص پتھرکوچھوا تومرزا صاحب نے بآوازبلند اپنے محبوب شاعر کا مصرعہ پڑھ دیا،

    خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھرنہیں ہوں میں

    اسی وقت ان کا نام درج رجسٹر کر لیا گیا اوراس کے بعد کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ عشق کے بعد ہی ان کے دماغ میں خلل آگیا۔

    غالب شناسی کےایسے مہلک حادثے اور بھی ہوئے ہیں لیکن غالب کے نام کا فیض بھی جاری ہے اور کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ کاش غالب آج ہمارے درمیان موجود ہوتے۔ ہم انھیں بڑے اہتمام سے کسی کل ہند مشاعرے میں بلواتے اورانھیں کےمعیار کے کسی اچھے اناؤنسر کا انتخاب کرتے۔ مشاعرے کے ڈائس پرانھیں کسی ڈائمنڈ جوبلی کرنے والی فلم کی ہیروئن کے بالکل متصل نہ سہی، اس کے قرب وجوار میں جگہ دیتے۔ کسی ہیرو سے ان کی گل پوشی کرواتے اور تھوڑا بہت ان کا کلام بھی سنتے۔ غالب یقیناً خوش ہوتے اورانھیں یہ شکایت نہ ہوتی کہ شاعری میں عزت نہیں ہوا کرتی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے